صفحات

Sunday, March 24, 2013

ابو قتادہ حارث بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی طور  خدمت کرنا  ایک بے مثال اعزاز ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیاں اِن اعزازات سے مزین و مرصع ہیں ،
اِن اعزازات میں سے ایک اعزاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شہسواروں میں سے ہونا ہے ،آج ہم  انبیاء اور رُسل علیہم الصلاۃ و السلام کے بعد  کائنات کے اِن معزز ترین مؤمنین میں سے ہی ایک مؤمن کامل اور اللہ کے ایک سچے ولی کے بارےبات کریں گے ، اِن شاء اللہ، اللہ کے ایک ایسے حقیقی اور سچے ولی کے بارے میں بات کریں گے جو انصار رضی اللہ عنہم اجمعین میں کے ایسے  جوانوں میں سے تھے جِن کی بہادری ، بلند ہِمت،نیزہ بازی اور تلوار زنی اپنی مثال آپ تھی ، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے شہسواروں میں سے تھے، اِس ولی اللہ نے داستانء مؤمنین میں ، حبء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں ،اور اللہ کے دِین کی خدمت کی تاریخ میں سنہری اور خوشبودار مثال قائم کی ،  جس نے رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تاریخ میں سنہری ، خوشبودار اور دیدہ زیب صفحات رقم کیے۔
یہ ایسا جوان  تھا جس کے بارے میں رسولوں اور انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے سچے اور افضل  اِنسان ابو بکر الصدیق نےغزوہ حنین کے میدانء جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی موجودگی میں  فرمایا """
أَسَدٍ مِن أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَن اللَّهِ وَرَسُولِهِ ::: اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کی خاطرلڑتا ہے """
اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کی  تصدیق فرمائی ،متفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری /حدیث 2972/ کتاب الجھاد و السیر / ابواب الخُمس / باب 18، صحیح مُسلم /حدیث1751 /کتاب الجھاد و السیر /باب13 ،
اس واقعہ میں ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی آپس میں محبت ، ایک دوسرے کی عِزت اور احترام اور ایک دوسرے کی صِفات اور محنت کے اعتراف کرنے کے بارے میں فراخی دلی کی دلیل  بھی ملتی ہے کہ ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ نے کسی تردد ، کسی تکبر ، اور کسی بخل کے بغیر اپنے آپ سے ہر لحاط سے چھوٹے اور کم درجے والے کی خوبی کا علی الاعلان اعتراف فرمایا ،  
یہ جوان اللہ کا ایسا سچا محب اور ولی تھا ، جِومحبتء رسول  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  میں عقل و خِرد ، دلیری اور جرأٔت مندی کی چوٹیوں پر سرفراز دِکھائی دیتا ہے ،
اِن سب باتوں کی سچائی کے لیے امیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ کے  مذکورہ بالاقول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تصدیق کے علاوہ ، اِس جوان کو  ایک اور  دفعہ  ایک معرکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی مقدس اور پاکیزہ  ز ُبان مبارک سے یہ تمغہ عطاء فرمایا کہ :::
(((((خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أبو قَتَادَةَ ::: آج ہمارے شہسواروں میں سب سے زیادہ بہترین ابو قتادہ ہے))))) صحیح مُسلم /حدیث1807 /کتاب الجھاد و السیر /باب45،
دربارء رسالت میں سے  یہ تمغہء جرأت پانے والے ولی اللہ اور محبء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ابو قتادہ الحارث بن ربعی بن بلامۃ انصاری خزرجی السِلمی تھے، یہ بھی کہا گیا کہ اِن کا نام """ النعمان """ تھا ،
اِن کی کُنیت """ابو قتادہ """ ان کے نام پر پوری طرح سے غالب آ چکی تھی لہذا اِن کا ذِکر جہاں بھی ملے گا ابو قتادہ کے طور پر ہی ملے گا ،
یہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ بیعت رضوان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ،
جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ منورہ میں رونق افروز ہو چکے اور دربارء رسالت جلوہ پذیر ہوچکا تو یہ فُرسانء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اکثروبیشتر جلوہ ء رسالت سے اپنے چمنء اِیمانیات کو مزید پُر بہار  کرتے رہتے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پاکیزہ محفلوں میں حاضر ہو کر اپنے نفس کی پاکیزگی میں اضافہ کرتے رہتے ،فیوض نبوی کی خوشبو دار روشنی سے اپنے قلب و دِماغ  کو روشن اور خوشبو دار کرتے رہتے،
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کو اللہ تعالیٰ نے حافظہ بھی کافی مضبوط عطاء فرمایا تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کو تو بہت اچھی طرح یاد رکھتے تھے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے تقریبا 170 احادیث مبارکہ روایت کی ہیں،
جِہاد کے میدانوں کے بطل (ہیرو)نے ایک دفعہ دیکھا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطاب فرمایا اور سُنا کہ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ (((((أَنَّ الْجِهَادَ في سَبِيلِ اللَّهِ وَالْإِيمَانَ بِاللَّهِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ ::: اللہ کی راہ میں جِہاد کرنا اور اللہ پر اِیمان رکھنا سب ہی کاموں سے برتر و اعلیٰ ہے )))))
 تو ایک شخص نے عرض کی """ يا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ في سَبِيلِ اللَّهِ تُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ ؟:::اے اللہ کے رسول آپ کیا فرماتے ہیں اس  بارے میں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں تو کیااِس طرح میرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ؟ """
 
 
رسول اللہ صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم نے اُسے جواب  اِرشاد فرمایا (((((نَعم إن قُتِلْتَ في سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ:::جی ہاں اگرتُم صبر کرتے ہوئے اور  اجر کا یقین رکھتے ہوئے اور دُشمن  کو پیٹھ دِکھائے بغیر اُس کا سامنا کرتے ہوئےاللہ کی راہ میں قتل کر دیے جاؤ )))))
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سوال کرنے والے سے دریافت  فرمایا (((((كَيْفَ قُلْتَ ::: تُم نے کیا کہا تھا ؟)))))
سائل نے عرض کیا """ أَرَأَيْتَ إن قُتِلْتُ في سَبِيلِ اللَّهِ أَتُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ :::اے اللہ کے رسول آپ کیا فرماتے ہیں اس  بارے میں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاؤں تو کیااِس طرح میرے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ؟ """
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((نعم وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ إلا الدَّيْنَ فإن جِبْرِيلَ عليه السَّلَام قال لي ذَلِك::: جی ہاں اگر تُم صبر کرو اور (اِس ) اجر کا یقین رکھو اور (دُشمن کا)سامنا کیے رہو پیٹھ نہ دکھائی ہو، سوائے قرض کے (یعنی قرض معاف نہ ہوگا)یہ مجھے جبریل نے کہا ہے ))))) صحیح مُسلم/حدیث 1885/کتاب الامارۃ/باب 32،
ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک گویا کہ اپنے دِل پر نقش کر لیا اور ہر میدانء جِہاد میں شوق شہادت لیے اگلی صفوں میں سے دُشمن کے چیتھڑے اُراتے رہے ،
اللہ کے دِین کی سر بلندی کے لیے ہمیشہ اپنا مال اور جان جِہاد کے میدانوں میں پیش رکھا اور کبھی دُشمن کو پیٹھ نہ دِکھائی ،  غزوات ء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میں اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ رہے اور بے مثال خدمات پیش کیں ،
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ  نے اِن غزوات کے علاوہ اور بھی کئی جہادی مہمات میں خوب حصہ لیا ، صِرف جِہادی مہمات میں ہی نہیں بلکہ فدائی مہموں یعنی کمانڈو ایکشن ٹاسکس میں بھی ،
آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حقیقی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے گستاخان ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جہنم واصل کرنے کی فدائی کاروائی کا ایک واقعہ سناتا ہوں ،
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک دُشمن یہودیوں کے ایک بڑے سردار  کعب بن الاشرف کو بنو اوس کے مجاہدین نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ  کے سربراہی میں فدائی کمانڈو ایکشن کر کےجہنم ارسال کیا تو بنی خزرج  کے دِل میں بھی ایسی نیکی کر گذرنے کی خواہش ہوئی ،
اُسی جہنمی کعب بن الاشرف کی طرح ایک اور یہودی سردار ابو رافع سلام بن ابی الحقیق بھی تھا ، جو کعب بن الاشرف کی ہی طرح اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دُشمنی میں بہت متحرک رہتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے بہت اذیت کا سبب تھا ، بنو خزرج کے ایک مجاھد نے اپنے قبیلے کی نمائیندگی  کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس مُوذی دُشمن کو جہنم رسید کر دینے کی اجازت طلب فرمائی ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُنہیں اجازت عطاء فرما دی ،
تو  بنی خزرج کے پانچ  کمانڈومجاھد ، (۱)مسعود رضی اللہ عنہ بن سنان (۲) عبداللہ رضی اللہ عنہ بن انیس(۳) خزاعی رضی اللہ عنہ بن اسوداور (۴) ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ  اور(۵) اِن کے امیر عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عتیک ایک ایکشن ٹیم کی صورت میں نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ یہ مہم سر کرنے کے دوران آپ لوگ کسی بچے یا عورت کو قتل نہیں کریں گے ،
یہ لوگ اپنے رب کی رضا کے لیے ، اپنے رب کے دِین کی سر بلندی کے لیے ، اپنے رب اور رب کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دُشمن ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کے علاقے میں پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق اُس بد بخت کو جہنم کے سفر پر روانہ کر کے کامیاب و کامران لوٹے تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے ان کو خوشخبری عطا فرمائی کہ ((((( أفلحت الوجوہ :::(تمہارے) چہرے کامیاب ہو گئے ))))) تو انہوں نے جواباً عرض کیا """أفلح وجھکَ یا رسولَ اللہ ::: آپ کا چہرہ مبارک کامیاب ہے اے اللہ کے رسول """ اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ ُ کی پنڈلی جو کہ اس مہم میں ٹوٹ گئی تھی اُس پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا تو وہ اللہ کے حکم سے ایسے ہوگئی کہ گویا اُسے کبھی کچھ ہوا نہ تھا ، (البدایۃ و النھایۃ ، طبقات ابن سعد )
غزوہ غابہ ، جسے غزوہ ذی قرد بھی کہا جاتا ہے ، اس غزوہ میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے ایسی بہادری کے مظاہرے فرمائے کہ ایک ایسی نعمت سے مالا مال ہوگئے جس کا کوئی بدل نہیں اور جو دُنیا اور آخرت کی راحتوں اور عِزتوں کی بنیاد ہے ، اور وہ نعمت ہے  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خوشی ،
جی ہاں اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کے ایک سچے ولی ،اپنے اِس صحابی ، اپنے اس حقیقی عملی محب سے اتنے خوش ہوئے کہ ان کے لیے اپنے رب کے دربار میں دُعا فرمائی (((((
 ((((( اَللَّھُمَّ بَارِکْ لَہْ فِی شَعْرِہٖ وَ بَشَرِہٖ ::: اے اللہ  اِس کی جِلد اور بالوں میں (یعنی اِس کے جِسم میں )برکت عطا فرما))))))
مزید یہ ارشاد فرمایا (((((
أَفْلَحَ وَجْھَکَ ::: تُمہارا چہرہ کامیاب ہوا))))))
ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی""" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا چہرہ مُبارک بھی"""
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا (((((
قَتلتَ مسعَدۃ ؟::: تُم نے مسعدہ کو قتل کیا ہے ؟ )))))
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ  نے عرض کی """ جی ہاں """
تو اِرشاد فرمایا ((((( فَمَا ھَذا الذِی بِوَجھِکَ:::یہ تُمہارے چہرے پر کیا ہے ؟)))))
ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی"""
سَھمٌ رُمِیتُ بِہِ یا رسولَ اللہ ::: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیر لگا ہے"""
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((
 فَادنِ ::: میرے قریب آو)))))
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے  اس پر فرحت اور پر سُرور حُکم پر کسی تاخیر کے بغیر عمل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قریب ہوئے ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُس زخم پر اپنا لُعاب مبارک لگایا ، جس سے نہ زخم رہا ، نہ درد اور نہ ہی کوئی نشان ، (المستدرک الحاکم /حدیث6032 /کتاب معرفۃ الصحابہ/باب 184)
ایک دفعہ ماہ شعبان ، سن آٹھ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے شیروں میں سے ایک اِس  شیر  ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کو پندرہ مجاہدین کی ایک جماعت کا امیر بنا کر بنو غطفان  پر یلغار کے لیے روانہ فرمایا ،
تعداد میں کم لیکن اِیمان و عزم اور جُرأت و شجاعت سے لبریز یہ لشکر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی تعمیل میں اپنے جانیں اللہ کی راہ میں لُٹانے نکل پڑا ،
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایات دیں کہ رات میں سفر کریں گے اور دِن کسی جگہ چُھپ کرگذاریں گے ، اسی طرح سفر کرتے کرتے یہ لوگ بنو غطفان کی بڑی آبادی تک جا پہنچے ، تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے ساتھیوں کو اللہ سے تقویٰ کی نصیحت فرمائی اور حکم فرمایا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جایا ، اور دو دو ساتھیوں کی ٹولی بنا کر انہیں سختی سے حکم دِیا کہ سواءے موت کے اور  کسی بھی صورت میں ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھی سے جدا نہ ہو  اور    جب بھی تکبیر کہوں تو تُم لوگ بھی تکبیر کہو اور جب میں حملہ آور  ہوں تو ہی تُم لوگ حملہ آور ہونا ،
اور پھر ابو قتادہ نے تکبیر بلند کی اور اپنے امیر کی اطاعت کرتے ہوئے باقی مجاہدین  نےبھی تکبریں بلند کرتے ہوئے دُشمن پر یلغار کر دی ،
 دُشمن اپنے علاقے میں ، اپنے گھروں میں اپنوں کے درمیان اور اپنوں کے ساتھ ہونے باوجود اللہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور یوم آخرت پر سچا اور مکمل اِیمان رکھنے والے گنتی کے  اِن پندرہ آدمیوں کے سامنے بے بس ہوتے گئے ، اِن پندرہ اولیاء اللہ کے فولادء اِیمانی ، اور حِدتء حُبء اللہ و رسولہُ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسسلم کے سامنے نرم پڑتے پڑتے موم کی طرح پگھل گئے ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے سچے اولیاء ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے عملی مُحبان کو کامیابی و کامرانی اور مالء غنیمت  سے مالا مال فرما کر واپس اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس واپس پہنچایا ،
جب مجاہدین کا یہ قافلہ مدینہ المنورہ پہنچا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں بہت سے مال اور کئی قیدیوں کے عِلاوہ دو سو اونٹ اور ہزار بکریاں بھی مال ءغنیمت پیش کیا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس میں سے خُمس یعنی پانچواں حصہ چھوڑ  کر باقی مال ءغنیمت  مجاھدین میں تقسیم فرما دیا ، اور ہر ایک مجاھد کے حصے میں خوب مال و مویشی آئے ،
اس جِہادی مہم میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کےحصے ایک حُسین و جمیل باندی آئی جسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے حُکم پر اُن کی خدمت میں پیش کر دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے وعدے کے مطابق وہ باندی محمیہ بن جزء رضی اللہ عنہ ُ کو دے دی  (المغازی ، للواقدی)
یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عملی محبت اور اطاعتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہزاروں مثالوں میں سے ایک ہے ، دیکھیے آج ہم سے میں کتنے ایسے ہیں جو محبت ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور اپنے  دعوے کی سچائی کے لیےاتنا بھی نہیں کر تے کہ اپنی نگاہیں ہی غیر محرم سے ہٹائیں رکھیں ، اور ایک یہ مُحبء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھے کہ جِس ہرنی جیسی خوبصورت نوجوان لڑکی کو اپنے لیے پایا ، پسند کر لیا ، اُسے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم پر کسی ادنی ٰ سے تاخیر کے بغیر چھوڑ دیا اور دوسرے کی ملکیت بننے پر راضی رہے کہ یہ اُن کے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم تھا ،
اگر ایسی شخصیات ہماری اور ہماری اولاد کی آئیڈیلز نہ ہوں تو یہ ہماری گمراہی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔
لیجیے ، اللہ کے اِس سچے ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کی محبت ء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت کا ایک اور واقعہ آپ کے اِیمان کی تازگی کے لیے پیش کرتا  ہوں ،
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، یہ وہی سفر ہے جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اللہ تعالیٰ نے غیب کی چار خبریں ادا کروائیں اور کئی معجزات ظاہر کروائے ،
اس سفر  میں رات کے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی سواری پر سوار تھے تو انہیں اونگھ آگئی دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کچھ دُور تھے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اونگھ کی حالت میں دیکھ کر اُن کے قریب تر ہو گئے ، نیند میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک طرف کو جھکے تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے جلدی سے اپنا ہاتھ سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِس طرح  ٹیک دی کہ اُنہیں محسوس تک نہ ہوا اور اُن کی نیند خراب نہ ہوئی ،  کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی سواری پر پھر سے متوازن ہوئے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ وہیں موجود رہے ، ایک دفعہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُونگھ میں ایک طرف کو جُھکے تو پھر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اِسی طرح انہیں اپنے ہاتھ سے ٹیک دی ، ساری رات ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ اِسی طرح اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں کھڑے رہے ، سحر کے قریب تیسری دفعہ ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نیند میں ایک طرف زیادہ جھکے ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اُسی طرح اپنے ہاتھ سے ٹیک دی لیکن اِس دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی آنکھ مبارک کھل گئی ،کسی کو اپنے قریب دیکھا تو اِرشاد فرمایا ((((( مَن ھَذا  ؟::: یہ کون ہے ؟)))))
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کی """ میں ابو قتادہ  ہوں """
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَتَى كان هذا مَسِيرَكَ مِنِّي؟ ::: تُم کب سے میرے لیے ایسے کیے ہوئے  ہو ؟ )))))
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اِرشاد فرمایا (((((حَفِظَكَ الله بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ:::اللہ تمہاری اُسی طرح حفاظت فرمائے جِس طرح تُم نے اُس کے نبی کی حفاطت کی ))))) صحیح مُسلم /حدیث681/ کتاب الصلاۃ و مواضیع المساجد کا آخری باب،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اُن کی محبت کا ایک اور سرٹیفیکیٹ حاصل ہوا  اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک اور محبت بھری دُعا حاصل ہوئی ،  
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ بھی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کے مضبوط حافظ تھے لیکن پھر بھی حدیث بیان کرنے سے گریز فرمایا کرتے تھے ، ایک دفعہ کعب بن مالک رحمہ اللہ نے اُن سے کہا """ کوئی حدیث سنایے """ تو  ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری زبان لڑھک جائے اور کوئی ایسی بات کہہ جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نہ فرمائی ہو ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ (((((إيَّاكُم وَكَثرةَ الحَديث عَني مَن كَذبَ عَليَّ مُتعَمداً فَليَتبَوُأ مَقعَدَهُ مَن النَّارِ:::میرے طرف سے زیادہ احادیث بیان کرنے میں خبردار رہنا  (کیونکہ)جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا)))))المُستدرک الحاکم /حدیث 380،
اور ہم ہیں کہ ہماری اطاعت اور محبت کا ایک انداز  یہ ہو چکا ہے کہ کسی چھان بین کے بغیر جو بات بھی بطور حدیث ملتی ہے ، اُسے حدیث مان لیتے ہیں اور صرف مان ہی نہیں لیتے بلکہ اسے آگے بڑھاتے ہوئے بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے ،
اللہ کے اِس سچے ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس سچے محب ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ نے اپنی ساری ہی زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں بسر کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد اُن کے حکم کے مطابق ہی اُن کے خُلفاء راشدین کی اطاعت کی ،
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ جب اپنی عُمر کے ستر ہویں (70th)سال میں پہنچے تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دعُا  کی برکت سے اُن کے جسم پر کہیں اس عُمر کا کوئی اثر دِکھائی نہ دیتا تھا بلکہ بالکل تر وتازہ اور جوان دکھائی دیتے تھے ، اُن کے لیے اِس سے زیادہ عُمر ہونے کے لیے اللہ کا حُکم نہ تھا پس اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کا یہ سچا ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا سچا عملی محب سن چوّن 54 ہجری میں اپنے اللہ کے حضور حاضری کے لیے روانہ ہوا ، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دائمی رفاقت کے لیے عارضی دُنیا سے رُخصت ہوا ۔رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ ہمت دے کہ ہم اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے محب بنیں اور اللہ ہمیں اُس  کی جنّت میں اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ہونے والوں میں سے کر دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment