صفحات

Friday, June 14, 2013

::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (2) ::::: """صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """

::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ  (2) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
بِسم اللَّہ ،و السلام علی من اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
سب سے پہلے اِس مضمون کے سابقہ ، یعنی پہلے حصے کے آغاز میں کی گئی ایک گذارش دہراتا ہوں کہ یہ مضمون کچھ طویل ہو گا ،  اوراِن شاء اللہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول یعنی قبول شدہ  علمی قوانین و قواعد کے مطابق ہو گا ، اور بحث برائے بحث کے انداز میں نہیں بلکہ اِسلامی علوم کے مطابق مقبول قوانین و قواعد کے مطابق تحقیق کے انداز میں ہو گا ،
 لہذا  عین ممکن ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھنے سے درست طور پر سمجھا نہ جا سکے ، لہذا جس قاری کو ذہنی تھکاوٹ یا بیزاری محسوس ہو وہ اِس مضمون کو رک رک کر پڑہے ،
 تحمل اور تدبر کے اس کا مطالعہ فرمایے ، اور اِسلامی علوم کے وہ قواعد اور قوانین جو ہمیشہ سے پوری اُمت کے اِماموں کےہاں معروف اور مقبول ہیں اس پر اسے پرکھیے ، کہ یہ میری یا کسی شخص کی ذاتی سوچوں اور بے پر اُڑتے ہوئے پراگندہ خیالات پر مبنی نہیں ہو گا ، باذن اللہ ، جس قاری کے دِل یا دِماغ میں کسی معتبر قاعدے اور قانون کے مطابق کوئی اعتراض ، اشکال یا سوال ہو ،تو وہ ضرور سامنے لائے  ، لیکن ایک اچھے مسلمان والے اِخلاق و کلام کے مطابق ، اگر کوئی مسلمان نہیں تو بھی ایک اچھے اخلاق والے انسان کے مطابق کسی کے بھی اعتراض ، اشکال یا سوال  کو خوش آمدید کہتا ہوں ، بدتمیزی اور بدتہذیبی اور بازاری انداز کلام میں کسی کی بات کا کوئی جواب نہیں دوں گا ، اِن شاء اللہ العزیز القدیر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ، اِس مضمون کے سابقہ یعنی پہلے  حصے میں خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ میں سے ایک حکم ، یعنی کتوں کو قتل کرنے کے حکم کے خلاف مچائے گئے شور شرابے کا جائزہ صحیح سُنّت مبارکہ کی روشنی میں لیا گیا تھا، اور الحمد للہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ حکم تین مراحل میں سے گذر کر حتمی صورت میں قرار دِیا گیا ، اور اُس حتمی صُورت کو صحیح سُنّت شریفہ کے دلائل کے مطابق پیش کر دِیا گیا تھا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سابقہ حصے میں کہا تھا کہ :::
"""اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اُس آیت شریفہ کا اور اس کی تفسیر کا مطالعہ کریں گے جِس آیت مبارکہ  کو اعتراض کرنے والے نے اپنی غلط سوچوں کی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے ۔  اور پھر اس کے بعد اُس کے مضمون میں ذِکر کی گئی دیگر احادیث شریفہ میں بیان کردہ مسائل اور موضوعات کا ۔"""۔
لیکن ، اس اِرادے میں تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہوئے ، میں پہلے ان احادیث شریفہ کا مطالعہ پیش کروں گا  جنہیں اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں اپنی سوچوں کا تختہ مشق بنایا ہے ، اور پھر ان کے بعد ان شاء اللہ اُن آیات کریمہ کا مطالعہ کریں گے جنہیں اُس شخص نے اپنے افکار کی درستگی کی دللیل بنانے کی کوشش میں ان کے اپنے مقام سے ہٹانے کی کوشش  کی ہے ، جسے دوسرے الفاظ میں معنوی تحریف کہتے ہیں، اِن شاء اللہ ا گلے حصوں میں یہ سب کچھ  آپ صاحبان کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیاجائے گا ۔
:::::حدیث شریف میں"""گِرگِٹ """کو نہیں بلکہ """چھپکلی """کو قتل کرنے کا حُکم ہے:::::
کتوں کو قتل کیے جانے کے حکم کی تفصیل ، اور اس مسئلے میں آنے والے آخری اور حتمی حکم کے مطالعے کے بعد ، اب اِن شاء اللہ ، ہم اعتراض کرنے والے کی طرف سے لگائی گئی دوسری حدیث شریف کا مطالعہ کرتے ہیں ،
یہ حدیث شریف بھی اُس نے عربی متن کے بغیر کسی ترجمے میں سے دیکھ کر لگا دی ہے ، اور حوالہ بھی غلط دِیا ہے ، اللہ ہی جانے حوالے کی غلطی اُس کی اپنی بد دیانتی پر مبنی ہے ، یا اُس کی جہالت پر ، یا جس ترجمےکو پڑھ کر اُس نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا مذاق اُڑانے کی بد تمیزی کی ہے اُس ترجمے کی غلطی ہے ، بہر حال جو کچھ بھی رہا ہو، حتمی بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے نے بالکل غلط بیانی کا مظاہرہ کیا ہے ، جو کسی بھی طور قران کریم میں دی گئی تعلیمات کے موافق نہیں ، پس ،الحمد للہ کہ جس نے اِس اعتراض کرنے والے کی اپنی ہی حرکتوں میں ایک دفعہ پھر یہ دِکھا دِیا کہ اللہ کا یہ بندہ اللہ کی عملی بندگی سے کس قدر دُور ہے ،
قارئین کرام ، آیے اِس دوسری حدیث شریف کا مطالعہ کرتے ہیں ، جسے اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون کے دوسرے صفحے میں دوسری حدیث شریف کے طور پر نقل کیا ہے ، اور یوں لکھا ہے کہ :::
"""ام شریک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گرگٹ کو مارنے کا حکم دِیا۔اس لیے کہ یہ پھونکوں  سے اس آگ کو بڑھاتا تھا جس میں ابراہیمؑ کو پھیکا گیا ۔ (بخاری شریف۔جلد دوم۔کتاب بدا الخلق۔حدیث نمبر534)"""
محترم قارئین ،اب اصل حدیث شریف کا مطالعہ فرمایے اور  اس اعتراض کرنے والے کی جہالت یا دھوکہ دہی اور بد دیانتی کا اندازہ لگاتے چلیے ، میں اس حدیث شریف کو صحیح البخاری میں سے اس کی مکمل سند کے ساتھ یہاں نقل کر رہا ہوں ، پہلے عربی اور پھر اس کا ترجمہ ،
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى أَوِ ابْنُ سَلاَمٍ عَنْهُ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ - رضى الله عنها أَنَّ (((رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ ، كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ )))
ہمیں بتایا عبید اللہ بن موسیٰ نے، یا ابن سلام نے ان کے ذریعے سے بتایا، انہیں خبر کی ابن جریج نے ، عبدلاحمید بن جبیر کے ذریعے ، انہوں نے سعید بن المسیب کے ذریعے ، انہوں نے ام شریک  رضی اللہ عنہا کےذریعےکہ((((( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دِیا ، اور فرمایا ، چھپکلی ابراہیم علیہ السلام پر پھونکیں مارتی تھی))))) صحیح البخاری /حدیث/3359کتاب الانبیاء/باب 8،
مختصر طور  یہ حدیث شریف اس صحیح بخاری میں کتاب بدء الخلق  ، باب15، میں بھی مروی ہے ، اور اس ایک حدیث کے علاوہ ام شریک رضی اللہ عنہا سے کوئی اور حدیث مُبارک صحیح بخاری شریف میں نہیں ہے۔
:::::سب تو پہلے تو آپ صاحبان یہ دیکھیے کہ حدیث شریف میں کسی """ گرگٹ """ کا ذِکر نہیں ، بلکہ """چھپکلی """کو مارنے کا حکم فرمایا گیا ہے ، جسے انگریزی میں """Salamanders """  کہا جاتا ہے ، اور عربی میں""" سام  أبرص """ بھی کہا جاتا ہے ، جو  انگلش میں """Gecko """کہلاتی ہے ، اوراس اعتراض کرنے والے نے اپنے مضمون میں چھپکلی بی کے وکالت کرنے کی بجائے میاں گرگٹ کی وکالت میں اپنا وقت ضائع کر ڈالا،
::::: دوسرا یہ کہ یہ حدیث شریف """ کتاب بد ء الخلق """ میں نہیں بلکہ""" کتاب الانبیاء""" میں ہے ، اور """ کتاب بد ء الخلق """کی آخری حدیث سے آٹھ ابواب اور 34احادیث کی دُوری پر ہے ، """ کتاب بد ء الخلق """ میں ام شریک رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث مختصر طور پر مروی ہے جس میں صِرف""" چھپکلی """ کو قتل کرنے کا حکم بیان ہوا ہے ، اس کا سبب نہیں ، 
اعتراض کرنے والے کی علمیت اور ذہنی ابتری کا اندازہ کرنے کے لیے حوالہ کی اتنی بڑی غلطی ہی کافی ہے ، اور اِن شاء اللہ ، ابھی اور بھی بہت کچھ سامنے آئے گا ،
اعتراض کرنے والے نے اپنی عقل کو دانائی کل جانتے ہوئے صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کیا، کیونکہ ان کی عقل میں یہ حدیث نہیں آ پاتی لہذا """ یہ کیسے ممکن ہے ؟ """ کی خود ساختہ کسوٹی کی بنا پر صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کر ڈالا ، لیکن اللہ جلّ و علا نے اُس شخص کو ایسا لا چار کیا کہ اپنی بات کو سچ دکھانے کے لیے اُسی صحیح بخاری کی ایک روایت کا سہارا لینے پر مجبور کیا ، لہذا اعتراض کرنے والا لکھتا ہے """بخاری کی ہی ایک اور روایت آپ کے سامنے رکھتاہوں جو ابو ہریرہ ؓ ہی سے  منسوب ہے ۔ کہتے ہیں کہ:
" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک چیونٹی نے کسی نبی (عزیز یا موسیٰ )کو کاٹا تو انہوں نے حکم دِیا کر چیونٹیوں کا سارا جتھہ ہی نذرِ آتس کروا دیا۔ اس پر اللہ نے وحی بھیجی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا ، لیکن تم نے  اتنی مخلوق زندہ جلا ڈالی جو اللہ کی تسبیح کیا کرتی تھی ۔
(بخاری شریف۔جلد دوم۔کتاب الجہاد و السیر۔باب196)
قارئین کرام ! اب وہ گرگٹ والی روایت سامنے رکھیں اور ٹھنڈے دِل سے سوچیں کہ اس بخاری میں  اندرونی تضادات ہیں ۔ایک طرف رسول ﷺکی جانب یہ حدیث منسوب کی گئی ہے کہ کسی نبی نے ایک چیونٹی کے کاٹنے پر جب انکا تمام جتھہ جلوا دیا تو اللہ نے اسی وقت تنبیہہ فرمائی کہ تم نے ایک چیونٹی کے"جرم" پہ سب چیونٹیوں کو کس بات کی سزا دی ؟
اور دوسری ہی جانب معاذ اللہ  رسول اللہ ﷺ کی زبانی یہ حکم صادر ہوتا دکھایا جا رہا ہے کہ ابراہیمؑ پہ آگ بھڑکانے والے گرگٹ کے جرم کی پاداش میں گرگٹوں کی ایک پوری نسل ختم کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟ ذرا سوچیے!"""،
محترم قارئین ، منقولہ بالا اقتباس میں سرخ کیے گئے الفاظ پر خصوصی توجہ رکھیے گا ، سب سے پہلے تو اعتراض کرنے والے کی ایک اور جہالت، یا ، بدحواسی ، یا بددیانتی دیکھیے کہ لکھتا ہے """ جو ابو ہریرہ ؓ ہی سے  منسوب ہے """ ، جبکہ اس نے جو چار عدد احادیث شریفہ اپنے گمراہ افکار کا تختہء مشق بنانے کے لیے نقل کی ہیں اُن میں سے کوئی بھی حدیث شریف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت نہیں ہے تو پھر چہ معنی دارد!!!
 اعتراض کرنے والے نے جس حدیث شریف کو اپنی خود ساختہ کسوٹی """یہ کیسے ممکن ہے ؟""" کی ، اور اپنے اعتراض کی ، اور اپنی جہالت زدہ سمجھ یا حدیث دشمنی کی بناپر،صحیح بخاری میں تضاد ہونے کی دلیل بنانے کے لیے اسی صحیح بخاری میں سے جو چیونٹیوں کو مارنے والی حدیث شریف نقل کی ہے ، یہ حدیث شریف صحیح البخاری کی اسی کتاب """بدء الخلق""" میں بھی ہے جس میں سے اعتراض کرنے والے نے دوسری احادیث شریفہ نقل کی ہیں ، لیکن قربان جایے اللہ کی حِکمت پر ، کہ اللہ نے اس شخص جو وہ حدیث شریف نقل کرنے پر مجبور کر دِیا جو اس شخص کے خِلاف حجت ہے ،
جی ہاں ، اس حدیث شریف میں اللہ کے طرف سے اپنے کسی نبی کو سرزنش کرنے کا سبب یہ بتایا گیا کہ انہوں نے ایک ایسی مخلوق ، جو کہ اللہ کی تسبیح کرنے والی تھی ، اُس مخلوق کے ایک فرد کی طرف سے تکلیف ملنے پر اس مخلوق کے اس پورے گروہ کو ختم کر دیا جس گروہ کا وہ فرد تھا ،
جبکہ چھپکلی کو مارنے کا سبب اس کا ایسا جرم بیان فرمایا گیا جو اللہ کے ہاں ناقابل معافی رہا ، اور اللہ نے اپہنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے اس مجرم کی ساری ہی جنس کو سزا دیے رکھنے کا حکم کروایا دِیا ، اور ہمیں یہ خبر بھی دی گئی کہ چھپکلی ان جانوروں میں سے ہے جو اللہ کی تابع فرمانی کرنے والے نہیں بلکہ فاسق جانور ہیں،
تو کہاں سے ہوا تضاد !!!؟؟؟
ایک طرف اللہ کی تسبیح کرنے والی مخلوق کا ذکر ہے ، اور دوسری طرف اللہ کی نافرمانی کرنے والی فاسق مخلوق کا ،،،
اور بلا شک و شبہ اللہ کی تسبیح کرنے والی عباد گذار مخلوق اور فاسق مخلوق اللہ کے ہاں ایک جیسی نہیں ہیں ، اور  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنی مخلوق پر حاکم ہے ، کوئی اُس کے حکموں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ، وہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ جس طرح چاہے  اورجس کے لیے جو چاہے حکم  فرماتا ہے ، اور اس کے علاوہ کسی کا حکم اور فیصلہ حتمی نہیں ، اور بلا شک وہی سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ،
اور اپنے احکام کی خبر اپنے بندوں تک اپنے رسولوں کے ذریعے پہنچا چکا  ہے ،اور مکمل طور پر پہنچا چکا ہے کہ لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی بہانہ نہیں رہا ،
اور اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے شرعی امور سے متعلق جو کچھ  ادا ہوا ، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہی ہوا  ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں کو ماننا اِیمان کی لازمی شرط قرار دِیا ہے ، پس جو کوئی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فیصلوں کو نہیں مانتا وہ اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں نہیں  ہے ،
::::: مذکورہ بالا عبارات کے  قران کریم  میں سے دلائل:::::
اور بلا شک و شبہ اللہ کی تسبیح کرنے والی عباد گذار مخلوق اور فاسق مخلوق اللہ کے ہاں ایک جیسی نہیں ہیں ، (((((أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ ::: تو کیا جو اِیمان والا ہے ، وہ فاسق کی طرح ہے ؟ (ہر گز نہیں) ایک جیسے نہیں  ہیں)))))سُورت  السجدہ (32)/آیت18،
اگر اعتراض کرنے والا ، یا اس کے ہم خیالوں میں سے کوئی یہ سوچے کہ یہ آیت صِرف انسانوں کے لیے تو اسے چاہیے کہ اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق کو دیکھ لے ، اور اعتراض کرنے والا شخص اپنی اس بات کو بھی یاد کر لے کہ"""یہ آیت مبارکہ میں جو وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي یعنی ‘‘نفس‘‘ کا ذکر ہے۔۔ اس میں آپ نے جانور نکال کر صرف انسان کیسے ٹھونس دیے؟؟؟ کیا جانور نفس یعنی جان نہیں ہوتی؟؟؟ کیسے ثابت کرسکتے ہو کہ لا تقتلوا النفس التی کے حکم میں انسان ہی شامل ہیں ، جانور نہیں۔۔ """ پس جس قاعدے قانون کے مطابق وہ (((((وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ))))) میں مذکور نفس کو نفسء انسانی ، اور نفسء حیوانی کے لیے برابر سمجھتا ہے اسی قاعدے قانون کے مطابق (((((أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ))))) میں ایمان والے اور فاسق انسان اور حیوان دونوں ہی داخل ہیں ،
اور  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنی مخلوق پر حاکم ہے ، کوئی اُس کے حکموں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ، وہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ جس طرح چاہے  اورجس کے لیے جو چاہے حکم  فرماتا ہے ، اور اس کے علاوہ کسی کا حکم اور فیصلہ حتمی نہیں ، اور بلا شک وہی سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ،
(((((وَاللَّهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ:::اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے اور کوئی اُس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے)))))سُورت الرعد(13)/آیت41،
(((((إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ:::یقیناً اللہ جو چاہتا ہے وہ فیصلہ فرماتا ہے)))))سُورت المائدہ(5)/پہلی آیت،
(((((إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ:::اور اللہ ہی فیصلہ کرتا ہے اور کوئی اُس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے ، اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے)))))سُورت الرعد(13)/آیت41،
اور اپنے احکام کی خبر اپنے بندوں تک اپنے رسولوں کے ذریعے پہنچا چکا  ہے ،اور مکمل طور پر پہنچا چکا ہے کہ لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی بہانہ نہیں رہا ،
(((((رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا::: (ہم نے  بھیجے )خوش خبریاں سنانے والے اور خوف زدہ کرنے والے رسول ،تاکہ ان رسولوں کے( آنے اور تبلیغ کر دینے کے )بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی حجت نہ رہے، اور اللہ بہت زبردست ، حِکمت والا ہے)))))سُورت النِساء(4)/آیت165،
اور اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے شرعی امور سے متعلق جو کچھ  ادا ہوا ، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہی ہوا  ہے ،
(((((وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى O إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى O عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى:::(ہم نے  بھیجے ) اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اپنی خواہش کے مطابق بات نہیں فرماتے O اُن کی بات تو صِرف اُن کی طرف کی گئی وحی ہےOجو وحی انہیں بہت زیادہ قوت والے (فرشتے جبریل)نے سکھائی)))))سُورت النجم (53)/آیات3،4،5،
 اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں کو ماننا اِیمان کی لازمی شرط قرار دِیا ہے ، پس جو کوئی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فیصلوں کو نہیں مانتا وہ اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں نہیں  ہے ،
(((((فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤمِنونَ حَتَّیٰ یحَکِّموکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَھم ثمَّ لَا یَجِدونَ فِی اَنفسِھِم حَرَجاً مَمَّا قَضَیتَ وَ یسَلِّموا تَسلِیماً:::اور آپ کے  رب کی قسم ، یہ لوگ ہر گِز اُس وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اِختلافات میں  آپ کو حاکم نہ بنائیں اور پھر  آپ کے فرمائے ہوئے فیصلےاور حکم  کے بارے میں اپنے اندر کوئی پریشانی محسوس نہ کریں اور خود کو مکمل طور پر (آپ کے فیصلوں کے ) سُپرد کرنہ  دیں)))))سُورت النِساء(4)/آیت65،
[[[ اس موضوع کی کچھ تفصیل  ۔http://bit.ly/14UEiyS۔ پر پڑھنا مت بھولیے گا ]]]
اب کسی کی گمراہ عقل"""یہ کیسے ممکن ہے ؟"""  کی کسوٹی پر عمل پیرا رہے تو یہ اس کی عقل میں  فتور کی نشانی ہے ، نہ کہ معاذ اللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اس کے انبیاء علہیم السلام میں سے کسی کو دی گئی کسی خبر یا کسی حکم کےغلط ہونے کی ،
اپنی ذاتی عقل کو قران کریم اور سنت شریفہ کو سمجھنے اور قبول یا رد کرنے کا معیار بنا کر قران کریم کی آیات مبارکہ کی تاویلات کرنے والے ، اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کو رد کرنے والے ، اور ان کی سوچ و فِکر سے متاثر ہونے والوں کو یہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے کہ اُن کی عقلیں اللہ اور اس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ اور افعال شریفہ کی پرکھ نہیں ہیں ،
گو کہ اعتراض کرنے والے کی طرف سے نقل کی گئی دوسری حدیث کا مسئلہ یہاں تک کی بات چیت میں بھی بالکل واضح ہو جاتا ہے ، لیکن پھر بھی مزید تسلی کے لیے ، اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا ، اور اب ایک دفعہ پھر دہراتا ہوں کہ """ قاعدے قانون اور اصول کی بات ہے کہ جب کسی ایک مسئلے کو سمجھا جانا ہو تو اُس کے بارے میں صِرف کسی ایک ہی جگہ میں مذکورہ کسی ایک روایت  یا چند ایک روایات کو دیکھ کر اُس پر حکم صادر کر دینا سوائے جہالت اور گمراہی کے کچھ اور نہیں ہوتا ، جیسا کہ اعتراض کرنے والے کی کاروائی ہے  """
اِن شاء اللہ  ہم اس قاعدے اور قانون کے مطابق """ چھپکلی """ کو قتل کیے جانے کے حکم والی احادیث شریفہ کا کچھ اور جگہوں سے بھی مطالعہ کرتے ہیں ،
::::::چھپکلی کو قتل کیے جانے کے حکم کا بیان، صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کی روشنی میں  :::::::
 ::::::: (1) :::::::  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہُ کے صاحبزادے عامر رحمہُ اللہ ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ(((((أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا:::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے چھپکلیوں کو قتل کرنے کا حکم دِیا اور چھپکلی کو فاسق قرار  دِیا))))) صحیح مُسلم/حدیث /5981کتاب السلام/باب 38، سنن ابو داؤد /حدیث/5264 کتاب الادب /باب176 فِى قَتْلِ الأَوْزَاغِ ،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::::::: (2) :::::::  اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا (((((الْوَزَغُ الْفُوَيْسِقُ:::چھپکلی فاسق ہے)))))سنن النسائی /حدیث2899 /کتاب الحج/باب 85میں بھی ہے ، اور امام الالبانی رحمہُ نے صحیح قرار دِیا ہے ۔
::::::: (3) :::::::  سائبہ رحمہا اللہ ، جو کہ الفاکہ بن المغیرہ رحمہُ اللہ  کی باندی تھیں ، کا کہنا ہے کہ وہ ایک دفعہ اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا وأرضاھا کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے امی جان عائشہ کےگھر میں ایک(نیزہ یا) برچھی رکھی ہوئی دیکھی، تو سائبہ نے عرض کی """ اے اِیمان والوں کی امی جان ، اس کے ساتھ آپ کیا کرتی ہیں ؟ """،
تو امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے فرمایا """ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو قتل کرتے ہیں """(اور مزید فرمایا )،
(((((فَإِنَّ نَبِىَّ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَخْبَرَنَا أَنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُلْقِىَ فِى النَّارِ لَمْ تَكُنْ فِى الأَرْضِ دَابَّةٌ إِلاَّ أَطْفَأَتِ النَّارَ غَيْرَ الْوَزَغِ فَإِنَّهَا كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بِقَتْلِهِ :::کیونکہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں خبر فرمائی کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو (جائے وقوع کے قریب )زمین میں پر چلنے والا (رینگنے والا)کوئی ایسا جانور نہ تھا جس نے آگ بھجائی (کی کوشش)نہ (کی)ہو ، سوائے چھپکلی کے، یہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ (کو تیز کرنے کے لیے) پھونکتی رہی، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم فرمایا)))))سنن ابن ماجہ ۔حدیث/3353کتاب الصید/باب12، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
یہ حدیث شریف کچھ اور الفاظ کےاضافے کے ساتھ سنن النسائی /کتاب الحج/باب 85میں بھی ہے ، اور امام الالبانی رحمہُ نے صحیح قرار دِیا ہے ، ان شاء اللہ اِس کا مکمل ذِکر، اعتراض کرنے والے کی نقل کی ہوئی تیسری حدیث شریف کے مطالعے میں کروں گا، 
::::::: (4) ::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ    کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَنْ قَتَلَ وَزَغًا فِى أَوَّلِ ضَرْبَةٍ كُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَفِى الثَّانِيَةِ دُونَ ذَلِكَ وَفِى الثَّالِثَةِ دُونَ ذَلِكَ :::جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں قتل کیا اُس کے لیے سو نیکیاں لکھی دی جاتی ہیں ، اور دوسری ضرب میں قتل کرنے سے اُس سے کم ، اور تیسری ضرب میں قتل کرنے پر اُس سے بھی کم )))))صحیح مُسلم /حدیث/5984کتاب السلام/باب 38،
:::::: مذکورہ بالا ، صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ میں مذکور خبروں اور احکام کا خلاصہ :::::::
:::::ابھی تک کے مطالعے سے یہ سامنے آیا کہ تین مختلف صحابہ ، اُم شریک ، سعد بن ابی وقاص ، اور اِیمان والوں کی امی جان عائشہ  رضی اللہ عنہم  اجمعین نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے""" چھپکلیوں """ کو قتل کرنے کا حکم دِیا ،اور، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا اس حکم مبارک پر عمل پیرا رہتی تھیں ، 
::::: دو صحابہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ ، اور اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا  نے یہ خبر دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے "چھپکلی "کو "فاسق" قرار دِیا ،  اور اسے قتل کرنے کا حکم دِیا ،
::::: ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ ُ  نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے چھپکلی کو پہلے ہی وار میں قتل کرنے کے بدلے میں سو نیکیاں ملنے کی خوشخبری سنائی ،
[[[[[ اعتراض کرنے والے کے کتوں کو قتل کرنے کے حکم پر اعتراض کے جواب میں ، میں نے لکھا تھا  کہ :::
""""" اعتراض کرنے والے سے گذارش ہے کہ اپنی لکھی ہوئی بات""" کیونکہ ایک روایت آپ کی یہ بھی کہتی ہے کہ ان جانوروں کو پہلی ضرب سے مارنے کا ثواب دوسری ضرب سے مارنے سے زیادہ ہے۔۔"""،  کا کوئی ثبوت سامنے لائے ، اِن شاء اللہ اُس کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے گی ،"""""۔
پہلی دفعہ میرا یہ پیغام 7 فروری2013 کی رات  میں  نشر  کیا  گیا ،
 جس کے دو دِن بعد ، بتاریخ 9فروری 2013 کی دوپہر  میں اعتراض کرنے والے نام نہاد قرانی قوت صاحب کی طرف سے بہانہ کیا گیا کہ ان سے فائل ڈاون لوڈ نہیں ہو پا رہی ،
 لہذا نئی جگہ پر فائل چڑھا کر میں نے، اُسی دِن کی شام کی ابتداء میں اس نئی جگہ کا ربط بھی  مہیا کر دِیا ،
اور اب یہ تحریر لکھتے وقت  تقریبا ً 6 دن گذر چکے ہیں ، اور اس شخص کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ،اور اِن شاء اللہ اسلامی علوم کے مطابق کوئی جواب آنے والا بھی نہیں ، 
آپ صاحبان دیکھ لیجیے کہ، میری طرف سے مذکورہ بالا  احادیث شریفہ میں سے  چوتھے نمبر پر مذکورہ حدیث شریف وہ حدیث شریف  ہے جس میں ایک جانور """ چھپکلی """ کو پہلے وار میں قتل کرنے کا ثواب دوسرے وار میں قتل کرنے سے زیادہ بیان فرمایا گیا ہے ،
اور اعتراض کرنے والے نے  اس حدیث شریف کے بارے میں بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  اسے اُن سب جانوروں کے بارے میں بتایا جن کے قتل کے حکم  والی احادیث مبارکہ پر اس نے اعتراض کیے ، جبکہ اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں ان جانوروں  میں سے  کہیں کسی کا کوئی ذِکر نہیں ،
لہذا  ،،،،، میرا سوال اب بھی باقی ہے ]]]]] 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمد للہ ، یہاں تک اعتراض کرنے والے کی طرف نقل کردہ پہلی اور چوتھی ، اور پھر دوسری حدیث شریف پر کیے گئے اعتراضات کی ٹارگٹ کِلنگ مکمل ہوئی ، اس کے بعد اِن شاء اللہ ہم اس کی نقل کردہ  تیسری حدیث شریف  ، اور اس میں دے گئے حکم کا  مطالعہ کریں گے ، اور اس پر کیے گئے اعتراض کی ٹارگٹ کِلنگ ،باذن اللہ ۔
 و السلام علی من اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :


No comments:

Post a Comment