صفحات

Sunday, June 23, 2013

::::::: ماہ شعبان ، شب برأت ،حقیقت، قصے ، کہانیاں اور ہم :::::::




۹۹۹ ماہ شعبان ، شب برأت ،حقیقت ،قصے کہانیاں  اور ہم  ۹۹۹ 

بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین :::شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے اُن سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
ماہِ رواں ماہِ شعبان ہے ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اِس مہینہ کی فضیلت کے بارے میں محدثین نے جو احادیث روایت کی ہیں اُن میں ہمیں ایک فضلیت تو یہ ملتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھے جائیں ، جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ﴿   لَمْ يَكُنِ النَّبِىُّ – صَلَّى اللَّه عَليهِ وسلَّمَ - يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ ، وَكَانَ يَقُولُ ،خُذُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ ، فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا ، وَأَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَى النَّبِىِّ - صَلَّى اللَّه عَليهِ وسلَّمَ - مَا دُووِمَ عَلَيْهِ ، وَإِنْ قَلَّتْ  وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاَةً دَاوَمَ عَلَيْهَا :::نبی صلی اللہ علیہ وسلم کِسی بھی اور مہینے سے زیادہ شعبان میں(نفلی) روزے رکھا کرتے تھے ، اور کہا کرتے تھے اُتنا (نیک)کام کرو جتنے(کو ہمیشہ کرنے)کی طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو (تمہارے کاموں )سے اُس وقت تک نہیں بیزار نہیں ہوتا جب تک تم لوگ بیزار نہ ہو جاؤ(یعنی  تمہارے دِل وہ کام کرنے سے بھر نہ جائیں)،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب وہ نماز تھی جسے ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے ، خواہ وہ تعداد میں  تھوڑی ہی ہو ،اور جو نماز وہ پڑھتے تھے اُس پر ہمیشگی سے قائم رہتے صحیح البخاری /کتاب الصیام /باب 51 صوم شعبان،
اِس ایک عِلاوہ ماہِ شعبان کی دوسری فضیلت بھی ملتی ہے جِس کا ذِکر اِن شاء اللہ ابھی آگے آئے گا ، اِس دوسری حدیث میں شعبان کی درمیانی رات کے بارے میں ایک خبر بیان کی گئی ہے مگراِس میں وہ کُچھ یقیناً نہیں ہے جو لوگوں نے بنا لیا ہے اور جِس پر لوگ عمل کئیے جا رہے ہیں ، بھیڑ چال چونکہ ہماری عادت ہو چکی ، لہذا یہ دیکھنے کی زحمت کیوں کی جائے کہ ریوڑ کہاں جا رہا ہے !!! بس گردن ڈالے چلے جا رہے ہیں کہ جہاں باقی جائیں گے ہم بھی وہیں جا ئیں گئے اور پھر اِس عادت کو پُختہ کرنے میں شیطان کی محنت بھی کافی شامل ہے ، جو ہمیں اِس خوشی فہمی میں رکھتا کہ """اِتنے بڑے بڑے عُلماء بھلاکیسے غلط کہہ سکتے ہیں، اور یہ اِتنے لوگ جو کُچھ کہہ اور کر رہے ہیں یہ سب غلط ہونا تو بہت ہی مُشکل ہے ، وغیرہ وغیرہ """،
اللہ کا ، اللہ کے نبیوں اور رسولوں کا ، اللہ کے دِین کا اور اُس دِن کے سچے پیروکاروں کا ازلی دُشمن ابلیس (شیطان) اِسی طرح کے بے شُمار  وسوسوں کے ذریعے ہمیں حق سے دُور رکھتا ہے ، اور یہ بُھلائے رکھتا ہے کہ"""غلطی سے محفوظ، اور معصُوم  صِرف اور صِرف انبیاء اور رسول علیہم السلام ہوتے تھے، نبیوں اور رسولوں کے عِلاوہ کوئی معصُوم نہ تھا ، نہ ہو سکتا ہے،  اور ہر قِسم کی کمی اور نقص سے پاک صِرف اللہ کی ذات ہے """،
خُوب اچھی طرح سمجھنے کی بات ہے کہ اکثریت کِسی بھی معاملے کی درستگی یا نا درستگی کی پرکھ کی کسوٹی نہیں خاص طور پر دِینی معاملات میں،  وہاں حق صِرف اور صِرف اللہ کی وحی ہے وہ اللہ جلّ ثناوہُ کے کلام پاک  قران کریم میں سے ہو،  یا اللہ تعالیٰ نے  قران کریم کے نصوص شریفہ کے عِلاوہ ، اپنے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی ز ُبان مُبارک پر جاری کروائی ہو ، اللہ سُبحانہ ُ و  تعالیٰ فرماتا ہے ﴿  قُلِ اللّہُ یَہدِی لِلحَقِّ اَفَمَن یَہدِی اِلَی الحَقِّ اَحَقُّ اَن یُتَّبَعَ اَمَّن لاَّ یَہِدِّی اِلاَّ اَن یُہدَی فَمَا لَکُم کَیف َ تَحکُمُونَOوَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُم اِلاَّ ظَنّاً اَِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغنِی مِنَ الْحَقِّ شَیااً اِنَّ اللّہَ عَلَیمٌ بِمَا یَفعَلُون::: (اے رسول  آپ ) فرما دیجیے ،کہ، اللہ ہی حق کی طرف ہدایت دینے والا ہے ، تو  کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت دیتا ہے وہ ہی  اِس بات کا حق دار ہے کہ اُس کی تابع فرمانی کی جائے؟ یا(کیا) وہ جو(اللہ سے )ہدایت پائے بغیر خود کِسی کو ہدایت نہیں دے سکتا؟ تو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ اللہ کی ہدایت کے علاوہ  فلسفوں منطقوں ، عقل بازی، اور رائے وغیرہ کو بنیاد بنا کر )کیسے (عجیب حق سے دُور ، ناحق ) فیصلے کرتے ہو O  اور اُن(اِنسانوں)کی اکثریت ظن(خیالوں،گمانوں)کی پیروی کرتی ہے (جبکہ )بے شک خیالات حق سے غنی نہیں کر سکتے ، جو کچھ یہ کرتے ہیں بے شک اللہ(وہ سب )بہت اچھی طرح جانتا ہے سورت یُونُس(10)/آیت 35، 36
اور فرمایا ﴿اِنَّ اللّہَ لَذُو فَضلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَـکِنَّ اَکثَرَھُم لاَ یَشکُرُون:::بے شک اللہ انسانوں پر مہربانی کرنے والا ہے لیکن اِنسانوں کی اکثریت (اللہ کا )شکر(ادا) نہیں کرتی(یعنی اللہ کی تابع فرمانی کرنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی کرتی ہے ) سورت یُونُس(10)/ آیت 60 ،
پس ، اللہ عزّ و جلّ کے اِس فرمان سے بھی یہ پتہ چلا کہ أکثریت کا کِسی قول و فعل پر عمل پیرا ہونا کِسی بھی مسلمان کے لیے اُس قول یا فعل کو اپنانے کی دلیل نہیں ہوتی ، اکثریت کو درستگی کی دلیل اُس جمہوریت میں مانا جاتا ہے جِس میں کھوپڑیاں گنی جاتی ہیں کھوپڑیوں کے اندر کیا ہے وہ نہیں دیکھا جاتا ،
 آئیے ذرا ماہِ شعبان میں چلی جانے والی بھیڑ چال سے باہر نکل کر تھوڑی دیر کے لیے دیکھیں تو سہی کہ کون کِس کی ہانک پر کہاں چلا ہی جا رہا ہے ؟؟؟
کِسی نے اِن سے کہا ، شعبان کی پندرہویں رات میں حساب کِتاب دیکھے جاتے ہیں ، مُردوں کی رُوحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں ، زندگی اور موت کے فیصلے کیے جاتے ہیں  جِس نے آنے والے سال میں مرنا ہونا ہے اُس کا  پتا زندگی کے درخت سے جھاڑ دِیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور شاید اِسی عقیدے کی بنا پر '''پتا صاف کرنا '''محاورۃً اِستعمال کیا جاتا ہے ، بہر حال ، جِس روایت کو بُنیاد بنا کر یہ قصے گھڑ لیے گئے اور طرح طرح کی عِبادات اور ذِکر اذکار بنا لیے گئے ،
آئیے سُنیے کہ وہ روایت کیا ہے ،
 معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿ یطَّلعُ اللَّہ ُ تبارکَ و تعالیٰ اِلیٰ خلقِہِ لیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ فَیَغفِرُ لِجمیع ِ خلقِہِ ، اِلاَّ لِمُشرِکٍ او مُشاحن:::اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں اپنی مخلوق(کے اعمال )کی خبر لیتا ہے اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت کر دیتا ہے ، سوائے شرک کرنے والے اور بغض و عناد رکھنے والے کے(اِنکی مغفرت نہیں ہوتی)صحیح الجامع الصغیر حدیث1819 ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث1144 ،
اور اِس کی دوسری روایت اِن الفاظ میں ہے ﴿ اِذا کَان لَیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ اَطلَعُ اللَّہ ُ اِلَی خَلقِہِ فَیَغفِرُ لِلمُؤمِنِینَ وَ یَملیَ لِلکَافِرِینَ وَ یَدعُ أَھلِ الحِقدِ بِحِقدِھِم حَتَی یَدعُوہُ ::: جب شعبان کی درمیانی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق (کے اعمال )کی اطلاع لیتا ہے اور اِیمان والوں کی مغفرت کر دیتا ہے اور کافروں کو مزید ڈِھیل دیتا ہے اورآپس میں بغض(غصہ )رکھنا والے (مسلمانوں )کو مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنا غُصہ چھوڑ دیں حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ/ حدیث 771،
اِن دو روایات کو پڑھ کر ہر اچھی عقل والا جان جاتا ہے کہ اِن میں کوئی ایسی خبر نہیں جِس کو بُنیاد بنا کر ہم وہ کُچھ کریں جو کرتے ہیں بات تو تھی بھیڑ چال کی،اِسی چال میں چلتے چلتے ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو کُچھ کو دیئے جلاتے ہوئے پایا اور خود بھی یہ کام شروع کر دیا ، کُچھ نے اِس کو ہندو چال سے مُسلم چال میں ڈھالنے کےلیے شبِ برأت بنا لیا ، کچھ حساب کتاب کی بات بنائی گئی ، کُچھ نماز اور ذِکر اذکار شامل کر لیے گئے ، جب کہ اِن سب چیزوں کے لیے ہمارے پاس اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی طرف سے کوئی ثابت شدہ سچی قابلِ اعتماد خبر نہیں،
مگر کیا کریں ذوق اور عادت میں شامل ہو چکا ہے کہ ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی بات کو ناکافی سمجھا جائے ، اور اُن کی تعلیمات کی  خلاف ورزی کی جائے لیکن جِن کی پیروی کی جاتی ہے اُن کی بات کو ہر صُورت مانا جائے اور اُسے ہی  دُرُست ثابت کرنے کے لیے قران و سُنّت کی کوئی بھی تاویل کی جائے ،
خود کو بدلتے نہیں قُرآں کو بدل دیتے ہیں ::: اُستاد کے نہیں رسول کے فرماں کو بدل دیتے ہیں
سُنّت مُبارکہ  اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کی خِلاف ورزی بھی کی جائے اور اُن کی اِتباع کا دعویٰ اور اُن سے نسبت بھی برقرار رکھی جائے ،کہ خود کو اہل سُنّت و الجماعت بھی کہا جاتا رہے ،
 ہندوؤں کی طرح گھروں کو رُوحوں کے اِستقبال کے لیے دھویا جائے اور چراغاں کے نام پریہودیوں اور مجوسیوں کی طرح آگ سے سجایا جائے ، عیسائیوں کی طرح پٹاخے چلائے یا بجائے جائیں اور آتش بازی کی جائے رات بھر جاگ جاگ کر خود ساختہ عِبادات اور ذکر اذکار کیے جائیں ، پھر بھی ہم دُرُست، ہمارا دعویٰ سچا، ہماری نسبت ٹھیک،،،،، اور جو اِن کاموں سے روکے اور قران اور صحیح ثابت شدہ سُنّت کی دعوت دے وہ گستاخ ، اور فرقہ واریت پھیلانے والا ، سُبحان اللَّہ و اِلیہِ نشتکی ،
آگ کو بلا ضرورت اِستعمال کرنا اور جلائے رکھنا آگ پرست ایرانی مجوسیوں کا باطل مذھب تھا ، کہ وہ ہر وقت گھروں میں آگ جلائے رکھتے تھے اور اپنے خوشی و غم کے اظہار کے لیے خاص طور پر بڑی چھوٹی آگ جلاتے تھے ، یہودی بھی اپنے مذہبی بلاوے کے لیے آگ جلاتے تھے، اِسی لیے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے  صحابہ رضی اللہ عنہم  کے ساتھ نماز کے بلاوے کے بارے میں مشورہ  فرما رہے تھے تو آگ جلانے کی سوچ کو یہودیوں کی عادت ہونے کی وجہ سے ترک فرمایا ،  اور ناقوس[1] استعمال کرنے کی سوچ کو عیسائیوں کی عادت ہونے کی وجہ سے ترک کیا ، تو اُس وقت ہمارے دُوسرے بلا فصل خلیفہ  عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُنے اذان دینے کا مشورہ دِیا اور اُن کے مشورہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُبُول فرما کر بلال رضی اللہ عنہُ کو حُکم دِیا کہ اذان کہیں ، اور اذان کے فقرے دو دو دفعہ کہیں ، اور اقامت کے ایک دفعہ ، صحیح البخاری /کتاب الاذان / پہلے باب کی احادیث ، اور صحیح مسلم / کتاب الصلاۃ / پہلے باب کی پہلی حدیث ،
ہندو بھی اپنی کچھ خاص عبادات میں دئیے اور موم بتیاں وغیرہ جلاتے تھے اور ہیں ،اور مسلمانوں میں کِسی ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے عِلاوہ آگ کا استعمال کبھی مروج نہیں رہا ،لیکن  ہمارے ہاں ہندو زدہ معاشرے میں ،  اِس رات میں عِبادت کے طور پر ثواب و اجر کی نیت سے آگ جلائی جاتی ہے ، اِنّا للِّہِ و اِنّا اِلیہِ راجِعُونَ ۔
::::: شعبان کی فضیلت میں بیان کی جانے والی غیر ثابت احادیث   :::::
:::::(1):::::  جھوٹ کی ایک لمبی کہانی بنا کر حدیث کے طور پر پھیلائی گئی اُسکا آغاز اِسطرح ہے ''' یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مئۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ وساق جزافات کثیرۃ واعطی سبعین الف حوراء لکل حوراء سبعون الف غلام وسبعون الف ولدان ،،،،،، ::: اے علی جس نے شعبان کی درمیانی رات میں سو رکعت نماز ، ہزار دفعہ قل ھو اللہ احد کے ساتھ پڑہی تو وہ اللہ سے جس ضرورت کا بھی سوال کرے گا اللہ وہ دے گا ، اور اللہ بہت سے انعامات دے گا اور ستر ہزار حوریں دی جائیں گی اور ستر ہزار درمیانی عمر کے بچے اور ستر ہزار چھوٹی عمر کے بچے ،،،،،،،،، ''' ،
درجہ ء صحت اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے ''' المنار المنیف فی صحیح و الضعیف ''' میں اِس حدیث کے بارے لکھا """ حیرت ہے کہ کوئی سُنّت کے عِلم کی خوشبو پاتا ہو اور پھر بھی اِس قِسم کی فضول باتوں سے دھوکہ کھائے ، یہ نماز اِسلام میں چار سو سال کے بعد بیت المقدس کے علاقے میں بنائی گئی اور پھر اِسکے بارے میں بہت سی احادیث بنائی گئیں """
 :::::(2):::::  ''' من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثنتی عشرۃ رکعۃ یقرا فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ قل ہو اللہ احد شفع فی عشرۃ من اہل بیتہ قد استوجبوا النار ::: جِس نے شعبان کی درمیانی رات میں بارہ رکعت نماز پڑہی اور ہر رکعت میں تیس دفعہ قل ھو اللہ احد پڑہی تو وہ اپنے گھر والوں میں سے ایسے دس کی شفاعت کر سکے گا جِن پر جہنم میں جانا واجب ہو چکا ہو گا'''،،،
 درجہ ء صحت  سابقہ حوالہ /جلد 1 /صفحہ 98 (ناشر کے فرق سے صفحات کے نمبر مختلف ہو سکتے ہیں)
:::::(3):::::  ''' خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ اول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر ::: پانچ راتیں(ایسی) ہیں جن میں دُعا رد نہیں کی جاتی (قُبُول کی جاتی ہے )رجب کی پہلی رات ، شعبان کی درمیانی رات ،  جمعہ کی رات اور عید ِفطر کی رات '''،،،
درجہ ء صحت  حدیث مَن گِھڑت جھوٹی ہے ، اِس کی سند میں ابو سعید بندار بن عمر بن محمد بن الرویانی نامی راوی ہے جسے محدثین نے جھوٹا اور حدیثیں گَھڑنے  والا قرار دِیا ہے ،
✽✽✽ ایک تنبیہ ::: خیال رہے کہ اسلامی قمری نظام میں رات دِن سے پہلے آتی ہے جبکہ عیسوی نظامِ تاریخ میں دِن رات سے پہلے آتے ہیں ، عیدِ فِطر کی رات وہ رات جو عید کے دِن سے پہلے ہے ، جِسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا ہے اور جو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اور شکر کی ادائیگی کی تیاری کرنے کی بجائے نافرمانی کرتے ہوئے اور مزید نافرمانی کی تیاری کرتے ہوئے گذاری جاتی ہے ، اِص موضوع پر اِنشاء اللہ رمضان کے آخر میں بات ہو گی، اسی طرح جمعہ کی رات وہ رات جو جمعرات کے دِن اور جمعہ کے دِن کے درمیان ہوتی ہے اور اسی طرح ساری راتیں دِنوں سے پہلے شمار کی جاتی ہیں اور اسی لیے ہماری اسلامی قمری تاریخ سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے نہ کہ آدھی رات گذرنے پر✽✽✽
:::::(4):::::  ''' مَن احیا اللیالی الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطرولیلۃ النصف من شعبان ::: جِس نے پانچ راتیں زندہ کِیں (یعنی عِبادت کرتے ہوئے گُزارِیں ) تو اُس کے لیے جنّت واجب ہو گئی ، ترویہ (یعنی آٹھ ذی الحج) کی رات ، اور عرفہ ( نو ذی الحج) کی رات ، اور نحر (قربانی کے دِن یعنی دس ذی الحج ) کی رات ، اور( عیدِ ) فِطر کی رات ، اور شعبان کی درمیانی رات '''،،،
درجہ ء صحت   مَن گَھڑت جھوٹی حدیث ، ضعیف الترغیب والترھیب /کتاب العیدین و الاضحیۃ / پہلے باب کی دوسری حدیث۔
:::::(5):::::  ''' ،،،،،،اِن اللَّہ تعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان اِلی السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب::: اللہ تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتاہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی بخشش کرتا ہے '''،،،
درجہ ء صحت  سنن النسائی / کتاب الصوم / باب 39،میں امام النسائی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا کہ ''' میں نے محمد (یعنی امام البخاری )کو سنا کہ وہ اِس حدیث کو کمزور (نا قابل حُجت ) قرار دیتے تھے'''
:::::(6):::::  اِذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فاِن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس اِلی سماء الدنیا فیقول الا من مستغفر لی فاغفر لہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر ::: جب شعبان کی درمیانی رات ہو تو اُس رات قیام (یعنی نماز پڑھا) کرو ، اور اُس رات کے دِن کو روزہ رکھا کرو کیونکہ اِس رات میں سورج غروب ہوتے ہی(یعنی رات کے آغاز میں ہی)اللہ تعالیٰ دُنیا کے آسمان پر اُتر آتا ہے اور کہتا ہے ، ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اُسکی بخشش کر دوں ، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اُسے رزق دوں ، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اُس عافیت دوں ، ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا ، یہاں تک فجر کا وقت ہو جاتا ہے ''''،،،
درجہ ء صحت حدیث سنن ابن ماجہ میں ہےاور اِسکی سند میں ابن ابی سبرہ نامی راوی کو حدیثیں گھڑنے والا کہا گیا ہے (بحوالہ التقریب التھذیب اور الزوائد للبوصیری)اس حدیث کے بعض حصے دوسری صحیح روایات میں ملتے ہیں لیکن ہمارے اِس موضوع سے متعلق حصہ مَن گَھڑت ہی ہے ،
:::::(7):::::'''' رجب شهر الله، وشعبان شهري، ورمضان شهر أمتي :::  رجب اللہ کا مہینہ ہے ، اور شعبان میرا مہینہ ہے ، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے '''' ،
درجہ ء صحت       یہ روایت بھی ضعیف ، یعنی کمزور ناقابل حجت ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ/حدیث رقم 4400،
:::::(8)::::: ''''  ،،،،،،،،، و شعبان شهري، فمن عظم شعبان؛ فقد عظم أمري، ومن عظم أمري؛ كنت له فرطاً وذخراً يوم القيامة::: ،،،،،،،،، اور شعبان میرا مہینہ ہے ، پس جس کِسی نے شعبان کی تعظیم کی ، اُس نے میرے معاملے کی تعظیم کی ، اور جِس نے میرے معاملے کی تعظیم کی میں قیامت والے دِن اُس کے لیے  جنت کی طرف لے  جانے والا ، اور  مشکل میں کام آنے والا ہوں گا   '''' ،
درجہ ء صحت       امام ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے  اسے " تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب " میں  خود ساختہ جھوٹی روایت قرار دِیا ہے ، اور اِمام البانی رحمہُ اللہ نے "سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث 6188" میں اِس کی مکمل تخریج و تحقیق پیش کی ہے ، جو امام ابن حجر رحمہُ اللہ کی بات کو بالکل درست ثابت کرتی ہے ،
:::::(9)::::: ''''  اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ::: اللہ ہمیں ر جب و شعبان میں برکت دے اور رمضان تک پہنچا دے'''' ،
درجہ ء صحت       منکر ، اِس  روایت  کو محدثین نے "منکر" قرار دِیا ہے ، اِس کی تمام تر اسناد میں  ، زائدہ بن ابی الرقاد نے زیاد النمیری کے ذریعے یہ روایت بیان کی ہے ،
اور زائدہ بن ابی  الرقاد کو امام بخاری او رامام النسائی رحمہما اللہ نے "منکر الحدیث" قرار دِیا ہے ،  یعنی ، ایسا راوی  جو ناقابل یقین اور نا قابل قبول قِسم کی احادیث  روایات کرتا ہو ،
اور جِس سے اِس  زائدہ نے روایت کیا ہے ، یعنی، زیاد النمیری تو اِسے امام ابن معین اور امام ابو داؤد رحمہما اللہ نے ضعیف یعنی کمزور  ناقابل قبول روایات والا  قرار دِیا ہے ، اور امام ابن حبان  رحمہُ اللہ جو کہ راویوں  پر گرفت کرنے میں نرمی کرنے والے معروف ہیں ، اُنہوں نے بھی اِسے "منکر الحدیث" قرار دِیا ہے ، 
:::::(10)::::: ''''  كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصوم ثلاثة أيام من كل شهر فربما أخر ذلك حتى يجتمع عليه صوم السنة فيصوم شعبان::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دِن روزے رکھا کرتے تھے ، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اُن روزوں کے رکھنے میں تاخیر کرتے یہاں تک ایک پورے سال کے روزے جمع ہوجاتے اور پھر انہیں شعبان میں رکھتے '''' ،
درجہ ء صحت       یہ روایت بھی  ضعیف ہے ، یعنی ناقابل حجت، کیونکہ  اِس کی سند میں "ابن ابی لیلی" نامی ضعیف راوی ہے ،
گو کہ شعبان میں اضافی نفلی  روزے رکھنے کی فضیلت صحیح حدیث  میں موجود ہے ، جِس کا ذکر الگ مضمون میں کیا جا چکا ہے ،  لیکن اِس کیفیت کے ساتھ جو کہ اِس مذکورہ بالا روایت میں ہے ، صحیح نہیں ہے ،
شعبان کے مہینے ، اور نِصف  شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں کمزور ، ناقابل حُجت روایات صِرف یہی نہیں ہیں ، میں نے  صِرف اُن روایات کا ذِکر کیا ہے جو عام طور پر گردِش میں رہتی ہیں ،  
::::: محترم قارئین ،،،،،،  اب میں آپ کے سوچنے کے لیے کچھ سوالات پیش کرتا ہوں ، جن کے جوابات کا طلب گار نہیں ہوں ، یہ سوالات صِرف آپ کے لیے ہیں ، جوابات بھی آپ اپنے لیے تلاش کیجیے  کہ آپ کے پاس اِن سوالات  کے کیا جوابات ہیں :::
::::: اِن مندرجہ بالا احادیث اور اِن جیسی کچھ اور کی بنیاد پر یا محض سنی سنائی کہانیوں ، قصوں ، خوابوں اور نام نہاد الہامات اور کشوفات  کی بنیاد پر یہ مذکورہ بالا  اور ان جیسے  جو کام اور عقائد جِن کا قُران اور سُنّت میں کوئی صحیح ثبوت نہیں بنا لیے گئے ، اپنا لیے گئے ، وہ کیا  مغفرت کا سبب ہیں یا عذاب کا ؟؟؟
::::: مضمون کے آغاز میں نقل کی گئی دو صحیح حدیثوں کی روشنی میں سوچیے تو کہ آپ کِن میں سے ہیں ؟؟؟
::::: کیا آپ کِسی سے بُغض و عناد تو نہیں رکھتے ؟؟؟
::::: کیا آپ کِسی مَن گھڑت ، نئی عِبادت کو ادا کر کے یا کوئی بے بُنیاد عقیدہ اپنا کر کِسی بدعت یا شرک کا شکار تو نہیں ہو رہے؟؟؟
اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو ، کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر آغاز میں نقل کی گئی حدیث شریف کے مطابق پندرہ شعبان کی رات میں آپ کے لیے خیر کی کوئی اُمید نہیں اور اگر ایسا نہیں تو اِن شاء اللہ آپ کی مغفرت کر دی جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت:01/08/1421ہجری، بمُطابق،28/10/2000عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :22/07/1436ہجری،بُمطابق،11/05/2015عیسوئی۔


[1]    ناقوس، کِسی جانور کا بڑا سے سینگ جِسے کھو کھلا کر کے اُس میں پھونک مار کر زور دار آواز پیدا کی جاتی ہے یا اُسی قِسم کی کوئی اور چیز خواہ دھات سے بنی ہو یا کِسی اور مواد سے ، ناقوس کہلاتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment