صفحات

Wednesday, July 31, 2013

ماہ شوال اور ہم (۱) رمضان کے فوراً بعد کرنے والا کام ، زکوۃ الفطر(فطرانہ) کی ادائیگی



 
::::: رمضان کے فورا بعد کرنے  والا کام زکوۃ الفِطر :::::

موضوعات
::::: احکام اور مسائل ::::: 2
( 1 ) :::::  زکوۃ الفطر کی حِکمت  ::::: 2
( 2 ) :::::  زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟اور کب فرض ہوتی ہے ؟ اور کب تک أدا کی جانی چاہیئے ؟  ::::: 2
( 3 ) :::::  زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے ؟  ::::: 2
( 4 ) :::::  زکوۃ الفطر أدا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟  ::::: 2
( 5 ) :::::  زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں أدا کی جائے گی ؟ ::::: 3
( 6 ) :::::  زکوۃ الفطر کی مِقدار  ::::: 3
( 7 ) :::::  زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟  ::::: 4
( 8 ) :::::  زکوۃ الفطر کہاں أدا کی جائے گی ؟  ::::: 4

::::: احکام اور مسائل :::::

:::::  ( 1 ) زکوۃ الفطر کی حِکمت  :::::

 عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے روزے داروں کے لیے فضول اور بے ہودہ باتوں کی طہارت کے لیے اور غریبوں کی خوراک کے لیے زکوۃ الفطر فرض کی ، لہذا جِس نے عید کی نماز سے پہلے (فطرانہ )أدا کر دِیا تو وہ (اللہ کی طرف سے )قُبول شدہ زکوۃ الفِطر ہو گی ، اور جِس نے عید کی نماز کے بعد أدا کیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا سُنن ابوداؤد/حدیث1609/کتاب الزکاۃ/باب زکاۃ الفطر ، صحیح ابن ماجہ/حدیث148،

:::::  ( 2 ) زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟اور کب فرض ہوتی ہے ؟ اور کب تک أدا کی جانی چاہیئے ؟  :::::

::::: زکوۃ الفِطرہر مُسلمان پر فرض ہے ، جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر غُلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بڑے اور چھوٹے ، پر کھجوروں کا ایک صاع ، یا جَو (Barley) کا ایک صاع ، زکوۃ الفِطر فرض کی ، اور حُکم فرمایا کہ لوگوں کے نماز عید طرف پہلے یہ زکوۃ أدا جائے صحیح البخاری/کتاب الزکاۃ/باب31 صحیح مسلم/ کتاب الزکاۃ/باب4 ، 5 ،
::::: زکوۃ الفِطر کی أدائیگی کا وقت شوال کی پہلی أذانِ مغرب سے لے کر عید کی نماز تک ہے اور أفضل وقت پہلی شوال میں فجر کے وقت سے عید کی نماز شروع ہونے تک ہے ،عید کی نماز کے بعد زکوۃ الفِطر أدا نہیں ہو گی بلکہ یہ عام صدقات  میں سے ایک صدقہ ہو گا ، جیسا کہ اُوپر نقل کی گئی حدیث میں ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ ُ اللہ علیہ کا ہے """ اگر کوئی کِسی عُذر کی وجہ سے وقت پر أدا نہیں کر سکا تو یہ زکوۃ اُس پر قرض رہے گی ، پہلی ہی فُرصت میں اُسے أدا کرے ، اور اگر کِسی نے زکوۃ الفِطر کی أدائیگی میں بغیر کِسی عُذر کے دیر کی تو وہ أدائیگی کے باوجود دیر کرنے کا گُناہ گار ہو گا """ ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل میں یہ بھی ہے کہ وہ عید کے دِن سے ایک یا دو دِن پہلے بھی زکوہ الفِطر أدا کیا کرتے تھے ۔

:::::  ( 3 ) زکوۃ الفطر کب فرض ہوتی ہے ؟  :::::

:::::فقہا کے مختلف أقوال کے مُطابق زکوۃ رمضان کے آخری اِفطار یعنی شوال پہلی اذانِ مغرب سے فرض ہو جاتی ہے ۔

::::: ( 4 ) زکوۃ الفطر أدا کرنا کِس پر فرض ہوتا ہے ؟  :::::

:::::  زکوۃ الفطرہر اُس آزاد مسلمان پر فرض ہے جِس کے پاس اپنے اور جو کوئی بھی اُسکی کفالت ہے ، اُن کے ایک دِن اور رات کے کھانے سے زائد سامان شخص اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں ، والدین ، بھائی بہنوں ،نوکروں غُلاموں باندیوں میں سے جو بھی اُس کی کفالت میں اور زیر پرورش ہے اور مسلمان ہے ، اُنکی طرف سے بھی أدا کرے گا ، جیسا کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اُس بڑے اور چھوٹے ، غُلام اور آزاد کی طرف سے صدقہ ءِ فِطر أدا کرنے کا حُکم دِیا ہے جو تُم لوگوں کی ذمہ داری میں ہیں سُنن الدارقُطنی/حدیث 200 ،  إرواءُ الغلیل /حدیث 835،

:::::  ( 5 ) زکوۃ الفطر کِن چیزوں کی میں صورت میں أدا کی جائے گی ؟ :::::

::::: أبی سعید الخُد ری رضی اللہ عنہ ُ      کا فرمان ہے ﴿ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں ایک صاع کھانے ، یا ایک صاع کھجور ، یا ایک صاع جَو (Barley)، یا ایک صاع میوے (خُشک أنگور )، یا ایک صاع أقِط (یعنی بالائی نکالے بغیر خُشک دودھ )میں سے صدقہءِ فِطر أدا کیا کرتے تھے صحیح البُخاری/ کتاب الزکاۃ / باب 4 ، صحیح مُسلم/ کتاب الزکاۃ/باب 4،
::::: ایک أہم وضاحت :::::  اُوپر بیان کی گئی حدیث میں جِن پانچ چیزوں کا ذِکر ہے ، اگر وہ چیزیں مُیسر ہوں اور اُن چیزوں کو معمول کے روزمرہ کھانے میں اِستعمال کیا جاتا ہو تو أفضل یہ ہے کہ اِنہی پانچ چیزوں میں سے کِسی ایک کو زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کیا جائے ، اور اگر کوئی مُسلمان ایسی جگہ رہتا ہے جہاں یہ چیزیں پائی نہیں جاتیں یا عام معمول میں کھائی نہیں جاتیں تو وہاں ، عام معمول میں کھائی جانے والی چیزوں میں سے کوئی چیز مقررہ مِقدار میں زکوۃ الفِطرکے طور پر خرچ کی جائے گی ، کیونکہ حدیث میں پہلی چیز جو بیان ہوئی ہے وہ """ الطعام """ یعنی """ کھانا """ ہے لہذا باقی چار چیزیں موقع محل کے مُطابق اختیار کی جا سکتی ہیں،

:::::  ( 6 ) زکوۃ الفطر کی مِقدار  :::::

::::: زکوۃ الفطر کِس پر فرض ہوتی ہے ؟  میں بیان کی گئی حدیث میں ذِکر کئے گئے أشخاص میں سے ہر ایک کی طرف سے ، صرف اُن چیزوں میں سے جو ابھی اُوپر بیان کی گئی ہیں ، ایک صاع جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں رائج تھا ، کے برابر زکوۃ الفِطر أدا کرنی ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں ایک صاع چار مُد کے برابر تھا ، اور ایک مُد عام درمیانہ سائز کے ہاتھوں والے مرد کے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر جانے والی چیز کی مقدار ہوتی ہے ، جو تقریباً أڑھائی یعنی دو اور آدھا کیلو ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک شخص کی طرف سے تقریباً اِس مِقدار میں اُوپر بیان کی گئی تفصیل کے مُطابق کوئی بھی چیز زکوۃ الفِطر کے طور پر دی جا سکتی ہے ۔
:::::::::: یہاں ایک بات بہت غور سے سمجھنے کی ہے ، اور وہ یہ کہ ،
 زکوۃ الفِطر صِرف اور صِرف اُنہی چیزوں کی صورت میں أدا کی جائے گی جِن کاذِکر اُوپر حدیث آیا ہے ، زکوۃ الفِطر کے طور پر اِن چیزوں کے بدلے پیسے دینا جائز نہیں ، جی ہاں ، جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف نام لے کر چیزوں کا ذِکر کیا گیا ہے ، جبکہ اُسوقت بھی اُن چیزوں کی قیمت بطور فِطرانہ أدا کی جاسکتی تھی ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قیمت کا ذِکر نہیں فرمایا ، بلکہ ایسا کرنے کی طرف کوئی اِشارہ تک بھی نہیں فرمایا ، اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ضرور اِس کو بیان فرماتے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے قول و عمل سے بھی ہمیں کہیں یہ نہیں ملتا کہ اُنہوں نے اِن چیزوں کی بجائے اِنکی قیمت بطورِ فِطرانہ نقداً أدا کی ہو ، جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےبعد میں آنے والے ہر کِسی سے بڑھ کر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے أحکام اور سنتوں کو جاننے اور سمجھنے ، اور اُن پر عمل کرنے والے تھے ، لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان اور عمل مُبارک کے خِلاف اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے عمل کے خِلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ، خواہ اُس کو دُرُست بنانے کے لیئے کوئی بھی عقلی یا فلسفیانہ دلیل بنائی جائے وہ کام نا جائز ہی رہے گا ۔

:::::  ( 7 ) زکوۃ الفطر کِن کو دی جائے گی ؟  :::::

:::::  صدقہءِ فِطر صِرف """ مسکینوں """ یعنی ایسے غریبوں کو دِیا جائے گا جو أچھا کھانے کی طاقت نہیں رکھتے ، جیسا کہ عنوان (1)میں ذِکر کی گئی حدیث میں آیا ہے ،
 کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جِن لوگوں کو زکوۃ دی جا سکتی اُنہیں ہی فِطرانہ دیا جائے گا ، جب کہ یہ بات  دُرُست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےفِطرانہ کے لیے """ مساکین """  کا بطورءِ خاص ذِکر فرمایا ہے ۔

:::::  ( 8 ) زکوۃ الفطر کہاں أدا کی جائے گی ؟  :::::

:::::  زکوۃ الفِطر کی أدائیگی کا أصل بُنیادی حُکم یہ ہے کہ ، جِس شخص پر جہاں جِس شہر ، بستی ، وغیرہ میں زکوۃ  فرض ہوئی ، اور وہ وہاں موجود ہے ، تو اُسی جگہ کے غریب مسلمانوں کے یہ زکوۃ دی جائے گی ، زکوۃ کو کِسی دوسری جگہ أدا کرنا ، نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےاور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین میں سے کِسی کے عمل سے ثابت ہے ، جبکہ غریب مُسلمان اُسوقت بھی ہر شہر اور بستی میں موجود تھے ، بلکہ بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے شہروں اور بستیوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ تھی ، لیکن کبھی کِسی نے زکوۃ الفِطر کِسی دوسری جگہ نہیں بھیجی ، یہ کام بھی ایسے کاموں میں سے ہے جو دِین میں شامل کیے جا رہے ہیں ، لہذا اِن سے پرہیز کرنا ہر مُسلمان کے لیے واجب ہے ،
ایسے کاموں کو ہوتے ہوئے دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے اور یہ دُکھ اُس وقت درد محسوس ہونے لگتا ہے جب یہ کام دینی جماعتوں اور دینی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے ، سُبحان اللہ یہ کیسی دینداری ہے جو دین کے مطابق نہیں ؟ کیا صرف اپنی اپنی جماعت ، مذھب ، ٹولے اور فرقے کو مالی امداد مہیا کرنے کے لیے یا اپنی اپنی دعوت کو مال بانٹ کر پھیلانے کے لیے دین کے نام پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے خلاف کام کرنا واقعتاً دین داری ہے یا محض جماعتی، مذھبی ، مسلکی ترویج کی ضد ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کے ظاہر و باطن کی اصلاح فرما دے ،
رہا معاملہ مال و زراعت کی زکوۃ کا ، اور دیگر صدقات کا تو اگر کوئی شخص خود کِسی دوسرے شہر میں ہو اور اپنے شہر میں اپنے گھر والوں یا کِسی کے ذریعے اپنی زکوۃ وہاں یا کِسی بھی اور جگہ أدا کروائے تو یہ معاملہ زکوۃ الفِطر سے مُختلف ہے۔
::: ایک وضاحت :::ایک محترم بھائی نے اِس مضمون کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ سوال کیا کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور وہاں رہنے والے مسلمانوں میں کوئی ایسا غریب مسکین ملنا بہت مشکل ہے بلکہ تقریباً نا ممکن ہے کہ جِس کے پاس عید والے دِن کچھ اچھا کھانے پینے کو نہ ہو  تو کیا ایسی صُورت میں وہ فطرانے کی ادائیگی کسی اور جگہ کروا سکتے ہیں ؟

جواب ::: اگر کسی مُسلمان کو سوال میں بیان کی گئی  صُور ت حال درپیش ہو تو وہ اپنی زکوۃ الفِطر کسی دوسری جگہ ادا کروا سکتا ہے ، لیکن اُسے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ جہاں کہیں بھی وہ ادائیگی کروا ، نقد پیسے کی بجائے کھانے پینے کی اشیاء کی صُورت میں کروائے ، اِن شاء اللہ اِس میں کوئی حرج نہ ہو گا کیونکہ ﴿  لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا:::اللہ کسی جان کو اُس کی طاقت سے زیادہ کا پابند نہیں کرتا سُورت بقرہ (2)/آیت286۔

تاریخ کتابت :20/08/1430 ہجری ، بمطابق ،12/08/2008عیسوئی۔

تاریخ تجدید :24/09/1435ہجری ، بمطابق ، 22/07/2014عیسوئی۔

:::مصادر و مراجع ::: """ تمام المِنّۃ """ ، """ الوجیز فی فِقہِ السُّنَّۃِ و الکتاب العزیز """ ، """ نبذۃ عن زکاۃ الفِطر """۔
.....................................................................
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر سے اتارا جا سکتا ہے ۔

Sunday, July 7, 2013

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (7) ::: شب قدر ، فضیلت اور نشانیاں :::::

::::: ماہِ رمضان اورہم ::: (7) ::: شب قدر ، فضیلت اور نشانیاں :::::
::::: شب قدر جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے :::::
اَعُوذُ باللِّہِ السَّمِیعُ العِلِیمُ مِن الشیطنِ الرَّجِیم و مِن ھمزہِ و نفخہِ و نفثہِ
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم
(((( اِنَّا اََنزَلنَاہُ فِی لَیلَۃِ القَدرِ O وَمَا اََدراَکَ مَا لَیلَۃُ القَدرِ O لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ٍ O تَنَزَّلُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِاِذنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ اََمرٍ O سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطلَعِ الفَجرِ ::: ہم نے قُرآن کو قدر کی رات میں اُتارا O اور تُم نہیں جانتے کہ قدر کی رات کیا ہے O قدر کی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے O اِس رات میں ہر کام کے لیے فرشتے اور رُوح ( جبرئیل علیہ السَّلام ) اپنے رب کے حُکم سے اُترتے ہیں O وہ رات فجر تک سلامتی ہے ))))) سُورت القدر،
***** انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد  فرمایا (((((اَنَّ ھذا الشَّھرَ قَد حَضرَکُم و فِیہِ لَیلَۃٌ خیرٌ مَن اَلفِ شَھرٍ ، مَن حَرمَھَا فَقَد حُرِمَ الخَیرَ کُلَّہُ وَ لَا یُحرَمُ اِلَّا کُلُّ مَحرُومً ::: یہ مہینہ تمہارے پاس آ گیا ہے جِس میں قدر کی رات ہے ، جو کہ ہزار مہینوں سے زیادہ خیر والی ہے ، جو اِس سے محروم رہا وہ یقیناً ہر خیر سے محروم رہا ، اور قدر کی رات سے سوائے بد نصیب کے کوئی اور محروم نہیں ہوتا ))))) سُنن ابن ماجہ / حدیث 1644، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ  نے اِسے صحیح قرار دِیا ،
***** رمضان کی راتوں میں سب سے بہترین اور افضل قدر کی رات ہے ، ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا (((((مَن قَام لَیلۃ القَدر اِیماناً و اِحتساباً غُفِرَ لہُ ما تقدَّم مِن ذنبہِ ::: جِس نے قدر کی رات اِیمان اور نیک نیتی کے ساتھ قیام کیا اُس کے سابقہ گُناہ معاف کر دیے جاتے ہیں)))))صحیح مُسلم/ حدیث 759،صحیح البُخاری / حدیث2009،
 اِمام النووی رحمہُ اللہ  نے صحیح مسلم کی شرح میں اِس حدیث کی تشریح میں لِکھا کہ """ اِیمان کے ساتھ کا معنی ہے کہ قیام کرنے والا اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ اِس قیام کی فضلیت حق ہے اور اِحتساب کا معنیٰ ہے کہ قیام کرنے والا قیام صِرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئیے کرے نہ تو لوگوں کو دِکھانے کےلیے کرے اور نہ ہی کِسی اور مقصد سے """
::::: شبِ قدر کی نشانیاں :::::
***** عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا((((( لَیلَۃُ القدرِ، سمحۃٌ ، طلَقۃٌ ،لاحارۃ ٌ ولا بارِدَۃ ٌ ،تَصبحُ الشَّمسُ صَبِیحَتَھا ضَعیفَۃٌ حَمرا ءَ::: قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے))))) صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ / حدیث5475 ،
***** زر بن حُبیش سے روایت ہے کہ اُنہوں نے اُبي بن کعب رضی اللہ عنہ ُ کو سُنا کہ جب اُنہیں کہا گیا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں """ جو پورا سال قیام کرے گا وہ قدر کی رات پا لے گا ""'،
 تو اُبي بن کعب رضی اللہ عنہُ نے کہا """ اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، بے شک قدر کی رات رمضان میں ہے ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ کون سی رات ہے ؟جِس رات میں قیام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں حُکم دِیا وہ ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی """، صحیح مُسلم /حدیث 762 ،
::::: کون سی رات قدر کی رات ہے ؟ :::::
***** عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا (((((التَمسُوھا فی العِشرِ الاَوخرِ مِن رمضانِ ، لَیلَۃُ القدرِ فی تَاسعۃٍ تبقیٰ ، فی سابعۃٍ تبقیٰ ، فی خامسۃٍ تبقیٰ ::: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے ( یعنی آخری دس دِن اور راتوں میں ) طلب کرو ، شبِ قدر نویں میں باقی رہے گی ، ساتویں میں باقی رہے گی پانچویں میں باقی رہے گی )))))صحیح البُخاری / حدیث 2021/کتاب فضل لیلۃ القدر /باب 3،
***** عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ    کا کہنا ہے کہ""" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتانے کے لیے تشریف لائے ،
 تو مُسلمانوں میں سے دو آدمیوں نے جھگڑا کیا (یعنی شبِ قدر کے معاملے میں جھگڑا کیا )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد  فرمایا (((((خَرجتُ لِاَخبرَکُم بِلیلۃِ القدرِ ، فَتَلاحیٰ فُلانٌ و فُلانٌ فَرُفِعت ، و عسٰی اَن یکوُن خیراً لکُم ، فِالتِمِسُوھا فی التاسعۃِ و السابعۃِ و الخامسِۃِ :::میں اِس لیے باہر آیا تھا کہ تُم لوگوں کو شبِ قدر کے بارے میں بتاؤں لیکن فُلاں اور فُلاں نے جھگڑا کیا تو شبِ قدر کو اُٹھا لیا گیا ، اور اُمید ہے کہ اِس کا اُٹھا لیا جانا تُمہارے لیے خیر ہو گا ،پس تُم شبِ قدر کو نویں ، ساتویں اور پانچویں میں طلب کرو ))))) یعنی آخری عشرے کی اِن راتوں میں شبِ قدر کو تلاش کرو،صحیح البُخاری /حدیث 2023 /کتاب فضل لیلۃ القدر / باب 3 ،
***** ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ   کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد  فرمایا ((((( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سابعۃٍ اَو تاسعۃٍ و عَشرینَ ، اِنَّ الملائکَۃِ تلکِ الیلۃَ فی الاَرضِ اَکثرُ مِن عددِ الحَصی::: شبِ قدر ستائیسویں یا اُنتسویں رات ہے ، بے شک اِس رات میں فرشتے زمین پر کنکریوں سے بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ))))) حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث 5473 ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث 2205،
***** معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہُما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد  فرمایا((((( لَیلَۃُ القدرِ لَیلَۃُ سبعٍ و عَشرینَ ::: شبِ قدر ستائیسویں رات ہے)))))سُنن ابو داؤد / حدیث1383 ، حدیث صحیح ہے، صحیح الجامع الصغیر حدیث 5474،
:::::  اوپر بیان کی گئی احادیث میں ہمیں شبِ قدر کے بارے میں درج ذیل  خبریں ملتی ہیں :::::
*** (1) *** شبِ قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے ۔
*** (2) *** شبِ قدر اُنتسویں ، ستائیسویں ، یا پچیسیوں رات ہے ۔
*** (3) *** شبِ قدر اُنتسویں یا ستائیسویں رات ہے۔
*** (4) *** شبِ قدر ستائیسویں رات ہے ۔
یُوں تو شبِ قدر کے بارے میں بہت سے اقوال  منقول ہیں ، اِمام ابن حجر العسقلانی  رحمہُ اللہ نے فتح الباری میں عُلماء کے چھیالیس46 اقوال نقل کیے ہیں ، لیکن جو بات سب سے زیادہ دُرست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ستائیسویں کی رات ہی شبِ قدر ہے ، کیونکہ اُوپر ذِکر کی گئی احادیث میں سے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی بیان کردہ حدیث میں صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے شبِ قدر کو واضح فرما دِیا ہے اِسکے عِلاوہ مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا جو عمل بیان کیا گیا ہے وہ اِس خیال کو زیادہ یقین اور پُختگی دیتا ہے کہ شبِ قدر ستائیویں کی رات ہے ،
***** ابی ذرٍّ ر ضی ا للہ عنہُ کہتے ہیں """ صُمنا مع رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رمضان، فلم یُقیم بنا شیاَاً مِن الشھر حتی بقی سبعٌ فقام بنا حتی ذھب ثُلث اللیل فلما کانت السادسۃُ لم یُقم بِنا ، فلما کانت الخامسۃُ فقام بِنا حتی ذھب شطرُ الیل ، فقلتُ یا رسول اللَّہ ! لو نفَّلتنا قیامَ ھذہ اللیلۃ ، فقال((((( ان الرَّجل اَذا صلَّی مع الامام حتی یَنصَرِفُ حُسِبَ لہُ قیامُ لیلۃ)))))) فلما کانت الرابعۃُ لم یَقُم ، فلما کانت الثالثۃُ جمع اھلہُ و نسائَہُ و الناسَ فقام بِنا حتی خشینا اَن یفوتنا الفلاح قال:قلتُ : ما الفلاح: قال السَّحُور ،ثُمّ لم یقم بِنا بقیَّۃَ الشھر  """،
""" ہم نے رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ روزے رکھے ، نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سارا مہینہ ہمارے ساتھ کوئی قیام نہیں فرمایا ، جب سات دِن رہ گئے (یعنی تیئسویں رات ہوئی )تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں رات کے تیسرے حصے تک نماز پڑہائی ،
 جب چھ دِن رہ گئے (یعنی چوبیسویں رات ہوئی)تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ،
 جب پانچ دِن رہ گئے (یعنی پچیسویں رات  ہوئی)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں آدھی رات تک نماز پڑہائی ، تو میں نے عرض کیا  """اے اللہ کے رسول آپ اِس رات کا قیام ہمارے لیے پورا کر دیں تو اُنہوں نے اِرشاد  فرمایا (((((اگر کوئی اِمام کے ساتھ ، اِمام کے نماز پڑہنے تک نماز پڑہتا ہے تو اُس کے لیے پوری رات کے قیام کا اجر لِکھا جاتا ہے ))))))،
 پھر جب چار دِن رہ گئے (یعنی چھبیسویں رات ہوئی) تو اُنہوں نے کوئی نماز نہیں پڑہائی ،
 پھر جب تین دِن رہ گئے ( یعنی ستائیسویں رات ہوئی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے خاندان والوں ، اپنی بیگمات اور لوگوں کو اکھٹا کیا اور ہمیں نماز پڑہائی ،
 یہاں تک کہ ہمیں یہ خوف ہونے لگا کہ ہم الفلاح حاصل نہ کر سکیں گے ، (روای کہتے ہیں کہ میں نے ابی ذرٍّ (رضی اللہ عنہ ُ )سے پوچھا : الفلاح کیا ہے تو اُنہوں نے کہا سحری کا کھانا )،اور اِسکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مہینے کے باقی دِن ہمیں رات میں اور کوئی نماز نہیں پڑہائی """"،
اِمام البانی نے """ قیام رمضان / صفحہ 20"""کے حاشیے میں کہا """حدیث صحیح ہے ، سنن لکھنے والوں نے اپنی کتابوں میں روایت کی ہے ، اسکی تخریج ، """ صلاۃ التراویح / صفحہ 15 """، صحیح ابی داؤد /حدیث 1245 ، اور """ الاِروا الغلیل / حدیث 447 ، میں موجود ہے ،
اُوپر بیان کی گئی احادیث سے ہمیں یہ وضاحت حاصل ہوتی ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں کی رات ہے ، اِس رات میں خاص طور پر اور دیگر راتوں میں عام طور پر ہماری عِبادت کیا اور کیسی ہونی چاہیے """ قیام اللیل """ میں صحیح اَحادیث کی روشنی میں اِس بات کو مُختصراً بیان کیا جا چکا ہے و للہ الحمد ،
ا للہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی برکتوں میں سے وافر حصہ عطاء فرمائے ، اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق عبادت کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر خِلافءِ سُنّت کام سے بچائے آمین ،
الحمد للہ""" ماہِ رمضان اورہم ::: (7) ::: شب قدر ، فضیلت اور نشانیاں """ مکمل ہوا ،
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
اِن شاء اللہ اگلا مضمون """ رمضان کے فورا بعد کرنے  والا کام زکوۃ الفِطر کی ادائیگی """ ہو گا ۔ والسلام علیکم۔