صفحات

Wednesday, August 7, 2013

how to be thankful to ALLAH_عيد نعمتوں کا شکر اس طرح تو نہیں کیا جاتا 08_08_013

::::: اللہ کی  نعمتوں پر شکر اس طرح  تو نہیں کیا جاتا :::::
بِسمِ اللہ و الصَّلاۃُ و السِّلامُ علیٰ رَسولِ اللہ
عید آتے ہی رمضان میں قید کیے گئے شیطان اور سرکش جِن کھول دیے جاتے ہیں ، اور واقعتا ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ   قید میں رہنے کی کسر نکال رہے ہیں ، کہ ہمیں اپنے ارد گِرد اپنے بھائی بہنیں ایسے بہت سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،  جو نہیں کیے جانے چاہیں،کیونکہ وہ گناہ ہیں ، مثلاً ،
عید ملن پارٹیوں کی صُورت میں یا عید ملنے کے نام پر غیر محرم مردوں اور عورتوں  کی باہمی بے پردگی اور ملاقاتیں  ، اور اب تو ہم اتنے ترقی یافتہ اور وسیع القلب ہو چکے ہیں کہ غیر محرم  مردوں اورعورتوں کے ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کو بھی پسند کرتے ہیں اور اچھا سمجھتے ہیں ،  جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ﴿  لأَن يُطعَنَ في رَأسِ أَحَدِكُم بِمِخيَطٍ من حَدِيدٍ خَيرٌ له من أَن يَمَسَّ امرَأَةً لا تَحِلُّ لَهُ ::: اگر تُم میں سے کسی کا سر لوہے کی  سوئیوں سے  پھاڑ دیا جائے تو یہ اُس کے لیے اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی اسی عورت کو چُھوئے جو  عورت اُس کے لیے حلال نہیں المعجم الکبیر ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث  5045،  
ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو اس بات کو حرام قرار دیتے ہیں کہ غیر محرم مرد اور عورت  ایک دوسرے کو چھوئیں اور ہم  ہیں کہ خواتین سے  مصافحہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں ،اور اس سے بڑی مصیبت یہ کہ ایسا کرنے کو """ اٹیکیٹس  """ اور """  مینرز """ سمجھا جانے لگا ہے ،  یعنی احساس گناہ ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ گناہ کو اچھائی سمجھا جانے لگا ہے ،
نہیں یہ ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا :::ہائے کارواں کے دِل سے احساسءِ زِیاں  جاتا رہا
جس نبی کریم  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہم اُمت ہیں اور جن کی محبت کے دعویٰ دار ہیں وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کسی غیر محرمہ عورت کا ہاتھ تک نہ چھوتے تھے  ، حتٰی کہ عورتوں سے بیعت لیتے وقت بھی نہیں، بلکہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے کہ ﴿ اِنّی لا اُصافح النسا  ء :::میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا سنن ابن ماجہ / حدیث  2874/ کتاب  الجھاد/ باب  43، سنن النسائی /حدیث 4181 /کتاب  البیعۃ/باب 18  ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ / حدیث 529 ،
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دیے ہوئے  یہ """ آسمانی مینرز """ ہمیں پسند نہیں یا ہم اپنے دین اور رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے معاملات سے اس قدر جاھل ہیں کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مخالفت کو اچھا سمجھتے ہیں ،  اور جن گناہ  آلود   عادات کو ہم نے  اپنا لیا ہے ان کو درست اور اچھا ثابت کرنے کی کوشش میں  مزید گناہ کماتے ہیں ،
 اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کے بدلے میں ، اللہ کے عطا کردہ  تہوار کی خوشیاں منانے کے لیے گناہ  آلود کام کرتے ہیں ، سوچیے تو ،،، کیا   اللہ کی نعمتوں پر  اُس  کی شکر گذاری  اسی طرح کی جانی چاہیے   ؟؟؟
عید کے دِن ہماری اکثریت بہت مشقت سے اور بڑی تگ ودو سے  سیر و تفریح ، ناچ گانا ، کھیل و کود میں اپنا وقت اور مال لگاتی ہے ، لیکن ،،، نماز کی ادائیگی !!! جماعت کے ساتھ مسجد میں جا کر پڑھنا تو در کنار اپنی اپنی جگہ پر بھی وقت پر نماز نہیں پڑھی جاتی ، بلکہ بے وقت بھی نہیں پڑھی جاتی ،
سوچیے تو ،،، کیا   اللہ کی نعمتوں پر  اُس  کی شکر گذاری  اسی طرح کی جانی چاہیے   ؟؟؟
ہماری اکثریت عید کے دنوں میں اپنے اِرد گِرد اپنے غریب مسلمان بھائی بہنوں کو نظر انداز کیے ہوتی ہے کہ  اللہ کے عطاء کردہ مال میں سے  ان کی مدد کرنے کی بجائے ، اپنے لیے بالکل غیر ضروری کپڑوں ، کھانے پینے ، سیر و تفریح وغیرہ کے ز ُمرے میں خرچ کرتی ہے  ،
سوچیے تو ،،، کیا   اللہ کی نعمتوں پر  اُس  کی شکر گذاری  اسی طرح کی جانی چاہیے   ؟؟؟
جی نہیں ایسی حرکات اللہ کی نعمتوں کا شکر نہیں ، بلکہ نا شکری ہیں ، اور رمضان میں کی جانے والی چند ٹوٹی پھوٹی نیکیوں کی قبولیت کا نہیں بلکہ غیر مقبول ہونے کا ثبوت ہیں ،  کیونکہ روزہ تو حصول ءِ تقویٰ کا ذریعہ ہے کہ اگر روزہ ٹھیک سے صحیح نیت سے رکھا گیا ہو اور رمضان کا قیام ٹھیک سے صحیح نیت اور کیفیت سے کیا گیا ہو تو اللہ اس کو قبول فرما کر بدلے میں تقویٰ سے آراستہ فرماتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح حج سے واپسی پر اگر حاجی صاحب کے اعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکامات کے مطابق ہوتے ہیں تو یہ اس کے حج کی قبولیت کی نشانی ہے اور اگر  اس کی زندگی میں صرف یہ تبدیلی ہوتی ہے کہ اس کے نام کے ساتھ """ حاجی """ کا اضافہ ہوگیا تو اس کی یہ عبادت قبول نہیں ہوئی ، بالکل اس طرح جس طرح کسی نمازی کی زندگی میں جھوٹ ، دھوکہ بازی ،بے پردگی ، بے حیائی اور دیگر گناہ نظر آتے رہتے ہیں تویہ  اس  بات کی نشانی ہیں کہ اس کی نماز قبول نہیں  ہو رہی کیونکہ ﴿اتلُ مَا أُوحِيَ إِلَيكَ مِنَ الكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنهَى عَنِ الفَحشَاء وَالمُنكَرِ وَلَذِكرُ اللَّهِ أَكبَرُ وَاللَّهُ يَعلَمُ مَا تَصنَعُونَ ::: (اے رسول ) پڑھ دیجیے جو کچھ آپ پر وحی کیا جاتا ہے کتاب میں سے اور نماز قائم کیجیے بے شک نماز بے حیائی  اور برائی سے روکتی ہے  اور ضرور اللہ کا ذکر ہی بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو سورت العنكبوت/ آیت 45 ،
پس ہم سب کو کسی بھی نیکی اور اطاعت کے بعد اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اگر تو ہمیں مزید نیکی اور اطاعت کی توفیق ملی ہے تو امید رکھیے کہ اللہ نے ہماری سابقہ اطاعت اور نیکی کو قبول فرمالیا ہے اور اگر ایک خاص وقت میں  کچھ نیکی  کرنے کے بعد اس وقت کے ختم ہوتے ہی ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی والے کام کرنے لگتے ہیں تو یقین جانیے کہ ہماری نیکی مردُود ہو گئی ، اور اللہ کی طرف سے عطاء کی گئی نعمتوں ، یعنی نیکی کی توفیق ، اور نیکی کر گزرنے کے اسباب  وغیرہ پر اللہ کا شکر ادا نہیں کر رہے بلکہ اللہ کی نا شکری کر رہے ہیں بلکہ اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کا کفر کر رہے ہیں ، کیونکہ کہ شکر صرف زُبان سے ادا کیے گئے الفاظ پر ہی مشتمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ  یہ صرف شکر کا ایک انداز ہے ، حقیقی شکر یہ ہے کہ اللہ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اللہ کی اطاعت میں استعمال کیا جائے ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اپنے ایک نبی  علیہ السلام کو حکماً   اِرشاد فرمایا  ﴿ اعمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكراً وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ::: اے داؤد کی اولاد عمل سے شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں سے شکر ادا کرنے والے کم ہی ہیں سورت سبأ / آیت 13 ،
اللہ کرے کہ ہم اس کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کرتے ہوئے اس کی  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل اطاعت کریں اور اس کے شکر گذار بندوں میں سے ہوں ۔
عید کے دنوں میں اللہ کی شکر گذاری کا ایک طریقہ اللہ کی تکبیر بلند کرتے رہنا ہے ، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے عطاء فرمایا گیا ہے ، لہذا اپنی عیدوں کے دِنوں میں اللہ کے اور ہمارے دشمن ابلیس کی اور اس کے کارندوں کی آوازیں بلند کرنے کی بجائے  اللہ کی تکبیر بلندکرتے رہیے ،
::::: عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر بلند کرنا چاہیئے اور نماز شروع ہونے تک بلند کرتے رہنا چاہیے::::
     ::::::: دلیل :::::: ﴿ کَان صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلمیَخرُجُ یَومُ الفِطرِ فَیُکَبِّرُ حَتَی یَأتِی المُصَّلَی وحَتَی یَقضِی الصَّلاۃَ فَإِذا قَضَی الصَّلاۃَ قَطعَ التَّکبِیر::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم(عید )فِطر کے دِن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک (اسی حالت میں ) مُصلّے پہنچتے اور نماز ادا فرماتے اور اسکے بعد تکبیر روک دیتے السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 171 ۔
اِس تکبیر کے کوئی الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتے ، لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے بارے میں مندرجہ ذیل صحیح روایات ملتی ہیں ، اِن میں سےکِسی پر بھی عمل کِیا جا سکتا ہے ،
::::: (1) :::::  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿   اللہُ أُکبر ، اللہُ أُکبر ، لاإِلَہ إِلَّا اللہ ، و اللہُ أُکبر ، اللّہُ أُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد مُصنف ابن ابی شیبہ /حدیث 5633 / کتاب الصلوات / باب 13۔
::::::: (2) :::::  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿  اللہُ أُکبرُ اللہُ أُکبرُ ، اللہُ أُکبرُ و لِلَّہِ الحَمد،اللہُ أُکبرُ و أجلُّ ، ، اللہُ أُکبرُ عَلَی مَا ھَدَانَا سنن البیھقی/ حدیث 6074 / کتاب صلاۃ العیدین / باب 66۔
::::::: (3)  ::::: سَلمان الفارسی رضی اللہ عنہُ یہ تکبیر بلند کِیا کرتے تھے ﴿   کبِّرُوا اللہَ : اللہُ أُکبر ، اللہ ُأُکبر ، اللہُ  أُکبرُ کَبِیرا سنن البیھقی / حدیث 6076 / کتاب صلاۃ العیدین / باب 66۔
ہر مُسلمان اپنی اپنی الگ تکبیر کہتا رہے گا ، اجتماعی تکبیر ، یعنی آواز سے آواز اور سُر ملا ملا کر تکبیر کہنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا ،
تکبیر بلند کرنے  کا وقت شوال کے آغاز سے یعنی یکم شوال کی مغرب سے لے کر عید کی نماز کے آغاز  تک ہے ، دونوں عیدوں کے  دیگر مسائل پر ایک مضمون پہلے ارسال کیا جا چکا ہے  جس میں بنیادی اہم مسائل کا ذکر ہے ۔
اپنی بات  اللہ پاک کے اس فرمان پر ختم کرتا ہوں ، اسے میں بھی یاد رکھوں اور آپ بھی  یاد  رکھیے  کہ ﴿ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشكُرُ لِنَفسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ::: اور جس نے شکر ادا کیا تو  وہ اس کے اپنے ہی لیے ہے اور جس نے کفر کیا تو بے شک میرا رب بزرگی والا اور  غنی ہے  سورت النمل / آیت 40 ،
پس اللہ کی نعمتوں کو اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں استعمال کرتے ہوئے اللہ کا حقیقی اور مکمل شکر ادا کیجیے ، اور اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کرکے اللہ کی ناشکری مت کیجیے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :


No comments:

Post a Comment