صفحات

Sunday, September 1, 2013

:::::: موت کی وجہ سے میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے نامحرم نہیں ہوجاتے :::::::

:::::: موت کی وجہ سے میاں بیوی  ایک دوسرے کے لیے نامحرم نہیں ہوجاتے :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلَی مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلَی مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلَی آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائی آپ نے سوال کیا کہ :
چونکہ یہ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ کسی شخص کی بیوی فوت ہوجائے تو وہ اُس کے لیے نا محرم ہوجاتا ہے ، اور وہ بیوی اُس کے لیے نا محرم ہو جاتی ہے ،
 تو کیا یہ درست ہے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک مرنے پر وہ ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہو جاتے ہیں ؟
:::::: جواب ::::::
کسی عورت کے مرنے پر وہ اپنے زندہ  خاوند کے لیے نا محرم نہیں ہو جاتی ،  یا اُس کا  زندہ خاوند اسکے لیے نا محرم نہیں ہو جاتا ،
اور  اسی طرح کسی مرد کے مرنے پر وہ اپنی زندہ بیوی کے لیے نامحرم نہیں ہو جاتا ،  یا اُس کی زندہ بیوی اُس کے لیے نا محرم نہیں ہو جاتی،   
بھائی ، دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسی باتیں اور ایسے فتوے نشر کرتے ہیں  جن کو کوئی بھی دلیل اللہ کی کتاب کریم  قران مجید ا ور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ  سُنُت شریفہ سے میسر نہیں ہوتی ، بلکہ وہ فتوے اور وہ باتیں یا تو قران و سُنّت  کے خلاف ہوتے ہیں ، یا پھر سرے سے اُن کی کوئی اصلیت ہی نہیں ہوتی ، یعنی صِرف لوگوں کے اپنے تخیلات کی پروازیں ہوتی ہیں کہیں سے بھی  اُڑتی ہیں اور کہیں بھی جا اُترتی ہیں ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ، و الی اللہ نشتکی،
ایسے ہی فتووں میں سے ایک فتویٰ  یہ بھی ہےکہ جب کسی شخص کی بیوی فوت ہو جائے تو وہ شخص اُسکے لیے نا محرم ہو جاتا ہے ،
اور خواتین کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی  کہا جاتا ہے ، اور کہیں کچھ رعایت کر دی جاتی ہے کہ عورت اپنے خاوند کی میت کے پاس بیٹھ سکتی ہے ، یا اُس کا چہرہ دیکھ سکتی ہے وغیرہ وغیرہ ، 
ہمیں اِن مذکورہ بالا فتوؤں اور اِس قِسم کے دیگر فتوؤں یا باتوں کی تائید میں کوئی قرانی آیت نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی صحیح ثابت شدہ حدیث شریف ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کا کوئی متفقہ قول یا فعل ، بلکہ جو کچھ میسر ہوتا ہے وہ اِن فتوؤں  کو غلط ثابت کرتا ہے ، یعنی یہ فتوےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اجماع کے خِلاف ہیں ،
قران کریم میں تو اِس موضوع پر کوئی کلام موجود نہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت کے دیگر بہت سے احکام کی طرح اس مسئلے کو بھی اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے ذریعے ہی بیان کروایا ہے ، پس جب ہم اُس سُنّت مطہرہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اِس مسئلے اور موضوع کے بارے میں درج ذیل احادیث شریفہ ملتی ہیں ،   
::::: ایک دفعہ نبی اللہ  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے، اپنی محبوبہ بیوی اور  اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِرشاد فرمایا (((((مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِى فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ:::اگر تُم مجھ سے پہلے مر گئی تو تمہیں کوئی نُقصان نہ ہو گا (کیونکہ)میں تمہارے  سارےکام خود کروں گا ، پس تمہیں غُسل دوں گا ، اور کفن پہناؤں گا اور تمہاری نماز ء جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا )))))سُنن ابن ماجہ/حدیث 1532/کتاب الجنائز/باب9،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے ، دیکھیے الاِرواء الغلیل/حدیث 700،
::::: اور  اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے (((((لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِى مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَهُ إِلاَّ نِسَاؤُهُ :::اگر میں وہ پہلے جان لیتی جو بعد میں ظاہر ہوا تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن کی بیویوں کے عِلاوہ کوئی اور غُسل نہ دیتا)))))سُنن ابو داؤد/حدیث 3143/کتاب الجنائز/باب32، درجہ صحت "حَسن"
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِن تعلیمات پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا عمل رہا ہے ، جیسا کہ پہلے بلا فصل  خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے اپنی بیوی أسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا کو وصیت کی کہ اُن کے مرنے کے بعد وہ اُنہیں غُسل دیں ، اور أسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے اس وصیت پر عمل فرمایا ،
::::: اور  نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیٹی  فاطمہ رضی اللہ عنھا نے بھی یہ وصیت کی کہ اُن کی میت کو اُن کے خاوند علی رضی اللہ عنہ ُ غُسل دیں ، اور  چوتھے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ نے اس وصیت کو پورا فرمایا ،  اور اپنی بیوی رضی اللہ عنہا و أرضاھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کو غسل دِیا ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے حسن قرار دِیا ، دیکھیے الارواء الغلیل /حدیث 701،
::::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ساری ہی جماعت نے ان سب کاموں کو دیکھا اور قبول کیا کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق تھے،
اور اگر کسی طرح منطق اور فلسفوں کی آندھی چلا کر انہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے انفرادی افعال بھی کہا جائے تو بھی یہ علم الاصول کے مطابق تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا ان کاموں کو قبول کرنا اجماع سُکوتی ہے جو کہ شریعت کے قوانین اخذ کرنے کے مصادر میں سے ایک متفق علیہ مصدر ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم حق کو جاننے ، پہنچاننے ، ماننے اور اسی پر عمل کرنے والوں میں سے ہو رہیں ، اور اُسی حال میں اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہوں،  نہ تو کسی ضد اور تعصب کی بنا پر حق سے صَرف نظر کرنے والوں میں سے بنیں ، اور نہ ہی شرعی طور پر  کسی   نا دُرُست اور غیر مطلوب وحدت اور اتفاق کے فلسفے کا شکار ہو کر حق کی مخالفت پر خاموش رہنے والے گونگے شیطانوں میں سے ہوں۔ والسلام علیکم۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :

No comments:

Post a Comment