صفحات

Saturday, September 28, 2013

::::::: حج کے مقاصد میں سے ایک أہم مقصد ::::::: An Important Aim Of Haj

:::::::  قُرآن کے سایہ میں :::::::
::::::: حج کے مقاصد میں سے ایک أہم مقصد :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
(((((وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئاً وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ::: اور جب ہم نے اِبراہیم کے لیے (ہمارے ) گھر(کعبہ کی تعمیر کے لیے) جگہ کی نشاندہی کی اور (آسان کیا اور اسے حُکم دِیا)  کہ میرے ساتھ کسی کو شریک مت بنانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور نماز پڑہنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدے کرنے والوں کے لیے صاف کرو))))) سُورت الحج / آیت 26 ،
حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی علیہ وعلہ آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((بُنِيَ الْإِسْلَامُ على خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إلا الله وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ  ::: اِسلام کو پانچ بنیادوں پر بنایا گیا ہے(1) اس بات کی (قولی اور عملی )گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں  اور(2) نماز قائم کرنا(یعنی وقت اور جماعت کی حفاظت کرتے ہوئے ہوئے پابندی سے نماز پڑہنا اور پڑہوانا)،اور(3) زکوۃ ادا کرنا اور (4)(اللہ کے)گھر کا حج کرنا اور (5)رمضان کے روزے رکھنا)))))صحیح مُسلم /حدیث 16 /کتاب الاِیمان /باب 5 ،
حج بھی ایک ایسی عِبادت ہے جو خالصتاً اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحید پر مبنی ہے ، بندے میں اللہ کی توحید کے قلبی اور عملی حصول کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عِبادت بھی مقرر فرمائی اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زُبان مبارک سے یہ تعلیم دِلوائی کہ اِس عِبادت کا آغاز ہی توحید بھری پکار سے کیا جائے اور اس پکار کو بلند کرتے کرتے اللہ کے گھر پہنچا جائے ، جی ہاں ، وہ پُکار جسے """تلبیہ """کہا جاتا ہے (((((لَبَّيْكَ اللهم لَبَّيْكَ،لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لك لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لك وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لك:::میں  حاضر ہوں اے میرے اللہ حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں  تیرا کوئی شریک نہیں  میں حاضر ہوں ،  بے شک تمام خالص اور سچی تعریف کا مستحق تُو ہی ہے اور تمام نعمتیں تیری (طرف سے ) ہی ہیں ، اور ساری بادشاہی بھی تیری ہی ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں)))))متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /حدیث 1474/کتاب الحج /باب 25،صحیح  مُسلم / حدیث 1184 / کتاب / باب3 ،     
اسی توحید کے لیے طواف کے دو رکعت نفل میں اللہ تعالیٰٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے یہ سکھایا کہ ان دو نوافل میں توحید سے بھرپور دو سورتیں  سورت الاخلاص ((((( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ))))) اور سورت الکافرون (((((قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ))))) پڑہی جائیں ، صحیح مُسلم /کتاب الحج / باب ۱۹ ، سنن النسائی ، سنن ابو داؤد ، سنن ابن ماجہ ،
اسی توحید کے لیے صفا اور مروہ پر چڑھ کر ، قبلہ رُخ ہو کر ( اور اگر رش کی وجہ سے قبلہ رخ نہ ہو سکے تو بھی چکر کی ابتداء کرتے ہوئے ) اللہ کی واحدانیت بیان کرتے ہوئے (((((لَا إِلَهَ إلا اللَّهُ::: اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں))))) کہنے ، اور اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے (((((اللَّہُ اکبرُ::: اللہ ہی سب سے بڑا ہے )))))کہنے کی تعلیم دِلوائی ،  اور یہ کہنے کی تعلیم دلوائی کہ(((((لَا إِلَهَ إلا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ له له الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وهو على كل شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إلا الله وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ثُمَّ::: اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اُسی کی ساری بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے ہے ساری سچی تعریف اور وہ ہی ہر ایک چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے ، اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں وہ اکیلا ہے ، اُس نےاپنا وعدہ پورا فرمایا اور اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کی مدد فرمائی اور تمام کے تمام ( کفار اور مشرکین اور دُشمن)گروہوں کو شکست دِی اکیلے ہی ))))) صحیح مُسلم / حدیث 1218 / کتاب الحج /باب  19 ،
::::::: اسی توحید کے لیے عرفات کے دِن ،  جو کہ حج کا دِن ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( الحَجُ  عَرفۃ ::: حج عرفات ( میں قیام کرنا ) ہے ))))) سنن النسائی /حدیث3016 /کتاب مناسک الحج /باب 203 ، سنن ابن ماجہ / حدیث /کتاب المناسک /باب 57 ،
یہ عرفات کا قیام بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی  توحید سے بھر پور ہے ، جس کی عملی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے عطاء فرمائی  ، اور بہت دیر تک قیام فرما کر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا فرماتے رہے ، سوال کرتے رہے ، طلب کرتے رہے ، اپنی اُمت کو یہ سبق دیا کہ حج اور اس کے تمام مناسک اللہ کی عبادت ہیں جن کے ذریعے اللہ کی توحید  سکھائی گئی ہے ، صرف ایک اکیلے لا شریک اللہ کی عِبادت ، اُسی سے دُعا کرنا جو کہ بذات خود ایک عِبادت ہے ، صرف اُسی سے حاجت روائی اور مشکل کشائی پر اِیمان رکھنا اور صرف اُسی سے طلب کرنا ، اُس کا ذکر صرف اسی طور کرنا جس طرح اُس نے یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتایا ، صرف اُسی کی خاطر اپنی جان ، مال اور وقت صَرف کرنا اور اُس پر صبر کرنا ، یہ سب اعمال جو ایک حاجی حج میں کرتا ہے ، اللہ کی توحید کے عملی اسباق ہیں ، اب اگر کوئی شخص یہ سارے اعمال کر کے بھی غیر اللہ سے ایسی امیدیں رکھتا ہو جو صِرف اللہ سے رکھی جانا اللہ کا حق ہے ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیوں پر عمل پیرا ہو  تو جان لینا چاہیے کہ اُس نے اپنی اس ساری  مالی اور بدنی مشقت سے اللہ کی توحید کو نہیں جانا اس کی یہ ساری مُشقت دُنیاوی فوائد پر مبنی تو ہو سکتی ہے لیکن شاید اُخروی طور پر اُس کے کام آنے والی نہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اُس کی توحید کا قولی اور عملی  مؤمن بنائے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے ۔
 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ طلب گارء دُعاء ،آپ کا بھائی، عادِل سُہیل ظفر ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :

No comments:

Post a Comment