:::::::
لمبی اور پُر سُکون زندگی کا ایک حقیقی سبب
::::::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ
عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ
إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ،
اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن
کے ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ
کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ
کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ
کی بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی
ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے
اپنی ساری ہی مخلوق کے خاتمے کی معیاد مقرر فرما رکھی ہے ، اور جو کوئی بھی
اُس مقرر کردہ معیاد تک پہنچتا ہے اُس ختم ہونا ہی ہوتا ہے ،
لیکن اللہ جلّ جلالہ ُ نے
کسی کی معیاد کم ہونے کے بھی کچھ اسباب رکھے ہوتے ہیں ، اور کسی کی
معیاد زیادہ ہونے کے بھی ،
جِن میں سے کچھ سب ہی انسانوں کے لیے مشترک دِکھائی دیتے
ہیں اور کچھ مُسلمانوں کے لیے خاص ،
کہا جاتاہے کہ مُسلمانوں میں جن لوگوں کے سینے (دِل )اورباطن ( دِماغ و رُوح)
حسد و کینہ پروری سے ، اور جن کی تنہائیاں بھی گناہوں سے ، اور جن کے باطن بھی شر ّ سے پاک ہوں
، وہ لوگ عموما ً لمبی اور پرُ سکون زندگی
پانے والے دِکھائی دیتے ہیں ،
یہ وہ لوگ ہوتے
ہیں جو دِن بھر دوسروں کو ملنے والی نعمتوں اور راحتوں کو دیکھتے ہیں ، لیکن اِن
کے دِل و دِماغ میں کہیں کسی کے لیے کوئی حسد یا نفرت نہیں ہوتی ، اور رات کو اپنے
رب کا شکر ادا کرتے ہوئے صاف ستھرے دِل ، دِماغ لیے ہوئے انتہائی پُر سکون نیند
سوتے ہیں ،
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے پیٹ خالی ہوتے ہیں ، لیکن
اپنے اِرد گِرد بھرے پیٹوں والوں کو دیکھ کر بھی وہ اپنے اللہ کے فیصلوں پر راضی
رہتے ہیں ، اُن کے پیٹ تو بھوک سے بلبلاتے ہیں ، لیکن دِل ، دِماغ اور رُوحیں اللہ
کی نافرمانی اور نا شکری کی طرف مائل بھی نہیں ہوتے ،
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے
خون سے بننے والا پسینہ بہاتے ہیں اور پھر بھی اُن کی جائز ضروریات اور ذمہ
دارایاں تک بھی پوری نہیں ہوپاتِیں ، اور وہ اپنے اِر د گِرد ایسے لوگوں کا پجوم
پاتے ہیں جو کچھ خاص مشقت کیے بغیر حلال و حرام کی تمیز رکھے بغیر اتنا مال کماتے
ہیں کہ جس کا شاید اُن کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا، لیکن ، پھر اِن اِیمان والے ،
محنت کش غریبوں کے باطن اپنے اللہ کی عطاء ، حِکمت اور مشئیت پر راضی ہوتے ہیں ،
سچے اِیمان کے پھلوں
میں سے ایک پھل اپنے مُسلمان ، کلمہ گو بھائیوں بہنوں کے لیے دِل میں محبت و
احترام ہوتا ہے ، کیا ہمار رب نے اِیمان والوں کی نشانیوں میں یہ نہیں بتایا کہ
(((((وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن
بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ
سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ
آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ::: اے ہمارے رب ہماری بخشش فرما ، اور ہمارے اُن
بھائیوں کی بھی جو اِیمان لانے میں ہم سے
آگے رہے ، اور ہمارے دِلوں میں
اِیمان لانےو الوں کے لیے کوئی حسدو نفرت نہ ہونے دے ، اے ہمارے رب تُو
یقیناً بہت ہی زیادہ شفقت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے )))))) سورة الحشر(59)/ آيت 10 .
اِیمان والا کبھی حسد نہیں کرتا ، کیونکہ حسد ایک ایسی
قلبی اور روحانی بیماری ہے ، جو اِیمان کی
کمزوری کی حالت میں حملہ آور ہوتی ہے اور جِس قدر اِیمان کمزور اور کم ہوتا ہے
اُسی قدریہ بیماری طاقتور اور زیادہ ہوتی ہے ،
اور ایک وقت آتا ہے جب یہ بیماری قلب و رُوح سے نکل کر
نفسیات اور جِسم کو بھی مریض کر دیتی ہے ،
اور پھر حاسد ایک ایسا مریض بن کر رہ جاتا ہے کہ جِس ہر کسی بیماری کا کوئی مادی عِلاج اثر نہیں
کرتا ، اور اُس کی بیماریوں میں روز بروز اضافہ اورشدت ہوتی ہے ، جو اُس کی زندگی
کے مختصر ہونے کے اسباب میں سے ہو جاتی ہے ،
اِیمان والا اِس لیے بھی اپنے مسلمان کلمہ گو بھائیوں ،
بہنوں سے حسد ، کینہ اور نفرت نہیں کرتا
کہ اُس کا اِیمان اُسے اپنے مسلمان بھائیوں ، بہنوں کے لیے خیر و عافیت کا متمنی
رکھنے کا سبب ہوتا ہے ، لہذا وہ اپنے رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی طرف سے لوگوں
میں اور خاص طور پر مسلمانوں میں رزق کی تقسیم پر معترض نہیں ہوتا ،
اور اپنے رب کے اِ س فرمان پر راضی رہتا ہے کہ (((((إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ
يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا:::یقیناً آپ کا رب جِس کے چاہتا ہے رزق وسیع
فرماتا ہے اور (جِس کے لیے چاہتا ہے )تنگ فرماتا ہے ، اور یقیناً وہ اپنے بندوں کی
بہت زیادہ خبر رکھتا ہے اور (انہیں اور اُن کے ظاہر و باطن کو خُوب اچھی طرح سے
باریک بینی سے)دیکھتا ہے)))))سُورت الاِسراء(بنی إِسرائیل 17)/آیت 30،
یاد
رکھیے کہ خود کو یا کسی کو
ملنے والے رزق پر حسد کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیئت اور تقسیمءِ رزق پر
اعتراض ہوتا ہے ، جیسا کہ جناب جعفر (صادق رحمہُ اللہ) بن محمد بن علی زین
العابدین بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما ،کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے
فرمایا""" ومَن لم يرض بَما قَسمَ الله عزَّ و جلَّ لَهُ
اتَّهمَ اللهُ تعالى في قضائِهِ ::: جو ُا س پر راضی نہیں ہوتا جو کچھ اللہ نے اُس کی
قِسمت میں کیا ہے تو وہ اللہ کے فیصلے پر تہمت لگانے والا ہوتا ہے"""،
صفۃ الصفوۃ /
(إِمام ابن الجوزی رحمہ ُاللہ )جلد /صفحہ 170، ، الطبعۃ
الثانیۃ ، دار المعرفۃ ، بیروت،
پس اِیمان والا نہ تو اپنے کسی مُسلمان بھائی یا بہن پر
کوئی مصیبت پڑنے سے خوش ہوتا ہے ، اور نہ ہی اُن میں سے کسی پر کوئی آفت آنے سے ،
بلکہ کسی مُسلمان کو کسی تکلیف میں دیکھ
کر اُس کا دِل دُکھتا ہے ، اور اُس بھائی یا بہن کا درد اُسےاپنے اندر محسوس ہوتا
ہے (((((مَثَلُ
الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ
الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ
بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى:::اِیمان
والوں کی آپس میں محبت اور رحم اور نرم دِلی کی مثال ایک جِسمء واحد کی طرح ہوتی
ہے کہ اگر اُس میں سے کوئی ایک حصہ کسی تکلیف میں ہو تو سارا ہی جِس اُس ایک حصے
کے لیے بے خوابی اوربُخار کی کیفیت میں
مبتلا ہو جاتا ہے)))))صحیح مُسلم /حدیث /6751کتاب البِر و الصلۃ والادب/باب17،
[[[ اِس حدیث شریف میں میڈیکل سائنس کی ایک بڑی حقیقت بھی
بیان ہوئی ہے، اِس وقت میں اُس کی تفصیل
میں نہیں جانا چاہتا ، صِرف اِشارۃً ذِکر کیا ہے ، یہ سمجھانے کے لیے کہ صحیح ثابت
شدہ احادیث شریفہ اللہ کی طرف سے وحی ہیں ، نہ کہ گمراہ لوگوں کی سوچ کے مطابق خوامخواہ
کی روایات ]]]
اِیمان والا اپنے مُسلمان بھائیوں بہنوں کو ، یا اُ ن میں
کسی کو گمراہی میں دیکھتا ہے تو اُن کی
گمراہی پر اُس کا دِل تڑپتا ہے، اور وہ
اُن کا واجب ادلاء احترام برقرار رکھتے ہوئے انہیں راہ راست کی دعوت دیتا ہے ، اُن
پر کفر و ضلالت کے فتوے نہیں لگاتا ، حتیٰ
کہ اگر اُس پر کسی کی ڈھٹائی، ضد اور تعصب واضح ہو جائے تو بھی وہ اپنے طور کسی
مسلمان کو شیطان کے حوالے کرنے کا سبب نہیں بنتا ، کہ وہ اُسے مزید گمراہ کرے ،
اور نہ ہی اِس بات کا موقع مہیا کرتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان عدوات اور بغض پیدا
ہو ، یا بڑھے ، اِیمان والے کو اپنے رب جلّ و عُلا کا یہ فرمان یاد رہتا ہے کہ
(((((إِنَّمَا يُرِيدُ
الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ ::: بلکہ یقیناً شیطان تو یہ ہی چاہتا ہے کہ تُم
(اِیمان والے)لوگوں کے درمیان دُشمنی اور کینہ
پڑ جائے )))))سُورت المائدہ(5)/آیت 91،
پس اِیمان والا ،
سچے اِیمان والا ، اپنے دِل میں کسی مُسلمان کے لیے کوئی حسد ، بغض ، کینہ ، نفرت
اور اِسی قِسم کا کوئی دوسرا جذبہ نہیں رکھتا ، وقتی طور پر ، یا شیطان یا نفس کے
کسی وسوسے کی وجہ سے ایسا کوئی خیال آئے بھی تو فوراً اُس سے چھٹکارا پانے کی کوشش
کرتا ہے ، اور اللہ کی عطاء کردہ توفیق کےذریعے
چُھٹکارا پا بھی لیتا ہے ،
اور جِس کا دِل و دِماغ ، ظاہر و باطن اپنے رب کی عطاء ،
تقسیمءِ رزق، اور مشیئت پر راضی رہتا ہو، اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں کے لیے حسد ،
بغض ، کینہ اور نفرت وغیرہ سے صاف رہتا ہو ، اللہ کی طرف سے یہ اُس کے لیے لمبی
اور پُر سکون دُنیاوی زندگی اور باعزت اُخروی زندگی کے اسباب میں سے ہو جاتا ہے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی دُنیاوی اور اُخروی
زندگی پانے والوں میں سے ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ،
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اِیمان والا کسی کافر کو
ملنے والے رزق پر بھی حسد کا شِکار نہیں ہوتا ، اور نہ ہی اُس کی وجہ سے اُس سے
کسی قِسم کی دُشمنی یا بغض رکھتا ہے ،لیکن اُس کے کفر کی وجہ سے اُس کی طرف کسی
بھی قِسم کا قلبی یا میلان بھی نہیں رکھتا ، اور اس کے ساتھ ساتھ ایک انسان ہونے
کی حیثیت سے اللہ نے اُس کافر کے جو حقوق مقرر کیے ہیں انہیں ادا بھی کرتا ہے ،
اِیمان والا کسی بھی کافر سے بغض اور دُشمنی صِرف اُس کے
کفر کے وجہ سے رکھتا ہے ، کہ اُس کا کُفر اللہ کی دُشمنی ہے اور اللہ کا دُشمن کسی
اِیمان والے کا محبوب ، یا پسندیدہ نہیں ہو سکتا ، اور جس کسی کو کوئی کافر پسند
ہوتا ہو ، وہ یہ جان رکھے کہ اُس کا اِیمان مکمل نہیں (((((مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ
وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ::: جِس نے اللہ کے لیے محبت کی ، اور اللہ کے
لیے دُشمنی کی ، اور اللہ کے لیے ہی (اپنے مال ومتاع میں سے ) کچھ دِیا ، اور اللہ
کے لیے ہی کچھ دینے سے باز رہا تو یقیناً اُس نے اپنا اِیمان مکمل کر لیا )))))سُنن ابو داؤد /حدیث /4683کتاب السُنّۃ/باب16، إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
اور وہ کافر جن کی
قولی ، فعلی ، اشاراتی یا کسی بھی قِسم کی کاروائی سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہ اللہ جلّ و عُلا اور اُس کے خلیل محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے خلاف
کام کرنے والوں میں سے ہے ، فقط کفریہ عقائد کا حامل ہی نہیں بلکہ اُن عقائد کے
مطابق اللہ ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ کے دِین ، اور
اُس دِین کے ماننے والوں کے خِلاف کام کرنے، کروانے والوں میں سے ہے تو کوئی بھی
سچے اِیمان والے ایسے کسی بھی کافر کے
لیے اپنے دِل میں کوئی محبت ، کوئی لگاؤ ، کوئی میلان نہیں پاتا ، جیسا کہ صحابہ
رضی اللہ عنہم کی شان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((((لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا
آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ
كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ
جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ
هُمُ الْمُفْلِحُونَ ::: (اے
محمد)آپ اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھنے والوں میں ایسے لوگ نہیں پائیں
گے جو اُن سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور
اُس کے رسول سے دُشمنی رکھتے ہیں ، خواہ وہ (دُشمنی رکھنے والے ) اُن ( اِیمان
والوں) کے باپ دادا ہوں ، یا اُن کے بیٹے (اولاد) ہوں ، یا اُن کے بھائی ہوں ، یا
اُن کے خاندان والے ہوں ، یہ ہی (وہ سچے اِیمان والے)ہیں جِن کے دِلوں میں اللہ نے
اِیمان لکھ دِیا ہے ، اور اپنے پاس سے اپنی رُوھ کے ذریعے اُن کو تقویت دی ہے ،
اور اُنہیں اللہ اُن باغات میں داخل فرمائے گا جِن باغات کے نیچے سے نہریں بہتی
ہیں ، یہ (سچے پکے اِیمان والے ) اُن باغات میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اِن سے
راضی ہو چکا ہے اور یہ اللہ سے راضی ہو چکے ہیں ، یہ ہی ہیں اللہ کی جماعت ، یاد
رکھو کہ اللہ کہ یقیناً اللہ کی جماعت ہی
(دِین ، دُنیا اور آخرت کی حقیقی)کامیابی
حاصل کرتی ہے ))))) سُورت المجادلۃ(22)/آیت 58،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ، ہمارے سب مسلمان بھائیوں ،
بہنوں کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر چل کر ایسا اِیمان پانے والوں
میں سے بنا دے اور ہم پر بھی راضی ہو جائے اور ہمیں اُس پر ، اُس کے ہر فیصلے پر
راضی رہنے والوں میں سے ، حسد ، تعصب ،
ناجائز حقد وعناد سے محفوظ رہنے والوں میں سے بنا دے ۔
والسلام علیکم، طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 16/01/1435ہجری ، 20/11/2013 عیسوئی ۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment