بسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ
الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ
نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا
وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن
یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا
شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ،
بے شک خالص تعریف
اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور
اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی
سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر
سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں
گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ
اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے
بندے اور اُس کے رسول ہیں :::
خِلاف اور اِختلاف معروف الفاظ ہیں ، اور غالباً اِن کے مفاہیم بھی معروف ہیں ،
لغوی طور پر اِختلاف کا اصل مادہ """ خَلَفَ """ ہے ، اس کو لغت میں یوں بیان کیا جاتا ہے :::
خَلَفَ ، یَخلِفُ ، خِلاف ٌ ، مُخالف ٌ ، اور ،
باب """
اِفتَعلَ "" سے ، اَختَلفَ ، یَختلفُ ، اِختلافٌ ، مُختَلِفٌ ، ہے،
مفہوم کے اعتبار سے دونوں ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں
کہ""" الخِلاف
ھو ضِدُ الإِتفاق و ھو أن یذھبَ أحدُھُما اِلیٰ ما یُخلافُ الآخر::: خِلاف
، اتفاق کی ضد ہے اور وہ یہ ہے کہ دو(اشخاص ،یا جاندار اور ذی عقل چیزوں )میں سے
ایک اُس طرف جائے جو دُوسرے کے خلاف ہو """،
پس خِلاف اور اِختلاف کے لغوی معنی و مفہوم طور پر
کوئی اِختلاف نہیں اور اِسی طرح اصطلاحی استعمال میں بھی کوئی خِلاف نہیں ،،،،،اِس
کے ہم معنی الفاظ میں"""
فَرقٌ ، اور ، اِفتراقٌ """، """ نَزعٌ ، اور ، اِنتَزاعٌ""" ہیں ،
اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ کے کلام پاک میں اِن تینوں
کے مذکورہ بالا مفاہیم کے مطابق اِستعمال کی مثالیں میسر ہیں جو اِس بات کی تائید
ہیں کہ اصطلاحی طور پر بھی اِن کے مفاہیم میں کوئی فرق نہیں ،
اور اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ میں یہ بھی بہت واضح ہے کہ اِختلاف ، تفرقہ ، تنازع
، اللہ کو ناپسندہیں اور اللہ کی ناراضگی کے اَسباب میں سے ہیں ، اور دُنیا اور
آخرت کی ذلت اور عذاب کے اَسباب میں سے ہیں ،مثلا ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً
فَبَعَثَ اللّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ
الكِتَابَ بِالحَقِّ لِيَحكُمَ بَينَ النَّاسِ فِيمَا اختَلَفُوا فِيهِ وَمَا
اختَلَفَ فِيهِ إِلاَّ الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعدِ مَا جَاءتهُمُ البَيِّنَاتُ
بَغياً بَينَهُم فَهَدَى اللّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اختَلَفُوا فِيهِ مِنَ
الحَقِّ بِإِذنِهِ وَاللّهُ يَهدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّستَقِيمٍ :::پہلے سب ہی لوگ ایک اُمت
تھےتو اللہ نے نبی بھیجے ، خوشخبریاں دینے والے اور ڈرانے والے اور اُن کے ساتھ
کتاب نازل فرمائی ، حق کے ساتھ ،تا کہ وہ نبی اُس کے بارے میں(اس کتاب کے ذریعے )
فیصلے کریں جِس میں لوگوں کا اختلاف ہے ، اور(جو کچھ، کتاب اور احکام)اُنہیں دیا
گیا اُس میں انہوں نےاُس وقت اِختلاف کیا جب کہ اُن کے پاس واضح روشن دلائل آ چکے تھے،
اُنہوں نے(یہ اِختلاف )آپس میں بغاوت کرتے ہوئے کیا، تو اللہ نے اِیمان لانے والوں
کو اپنی اِجازت سے حق میں سے اُس کے بارے میں ہدایت فرمائی جس میں لوگوں نے اِختلاف
کیا ، اور اللہ جسے چاہے اِستقامت والے راستے کی ہدایت دیتا ہے﴾سورت البقرہ (2)/آیت 213 ،
اللہ پاک کے اس مذکورہ بالا فرمان میں
""" اِختلاف """ کی مذمت بہت واضح ہے ، یہ صرف ایک
موقع نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کی مذمت اور بھی کئی دفعہ فرمائی ، مثلاً:::
﴿وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعدِ مَا جَاءهُمُ العِلمُ بَغياً
بَينَهُم وَلَولَا كَلِمَةٌ سَبَقَت مِن رَّبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى
لَّقُضِيَ بَينَهُم وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الكِتَابَ مِن بَعدِهِم لَفِي
شَكٍّ مِّنهُ مُرِيبٍ ::: اور وہ
(سابقہ اُمتیں )اُن کے پاس عِلم آنے کے بعد ہی ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے
فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور اگر اللہ کی طرف سے ایک (حساب ، اور جزا و سزا کے لیے
)مقررہ وقت کی بات نہ ہوچکی ہوتی تو فیصلہ ہو جاتا ، اور بے شک جنہیں اِن (اختلاف
کرنے فرقوں میں بٹ جانے والوں) کے بعد کتاب کی وراثت ملی وہ بھی اُس کے بارے میں
شک کا شکار ہیں﴾سورت الشُوریٰ (42)/آیت 14،
اِس آیت شریفہ کی ایک تفسیر یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ آیت مبارکہ میں""" لَفِي شَكٍّ مِّنهُ مُرِيبٍ""""میں مذکور """ مِّنهُ """ میں سے """ ہُ""" سے مُراد رسول
اللہ مُحمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)
ہیں ،
بہر حال اِس سے مُراد وہ کتاب لی جائے جو سابقہ
لوگوں، سابقہ اُمتوں کو دی گئی اور جِس کا
ذِکر کیا گیا ،
یا خلیل
اللہ ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارکہ لی جائے ، بہر
صورت اِختلاف کا ذِکر ایک مذموم ، نا
پسندیدہ ، اور برے عمل کے طور پر ہی ہوا ہے ،
اس نا پسندیدہ کام کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے
لیےجائز نہ رکھتے ہوئے حُکم فرمایا﴿وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا::: اور
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور الگ الگ مت ہو﴾سورت آل عمران(3)/ آیت103،
اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِس مذموم عمل یعنی اِختلاف اور گرو ہ بندی کی
بہت وضاحت کے ساتھ مذمت فرماتے ہوئے ، اُس سے منع فرماتے ہوئے اور اُس کا خوفناک
نتیجہ بتاتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿وَلاَ تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواوَاختَلَفُوا مِن بَعدِ
مَا جَاءهُمُ البَيِّنَاتُ وَأُولَـئِكَ لَهُم عَذَابٌ عَظِيمٌ:: اورتُم لوگ اُنکی طرح مت ہو جانا
جنہوں نے اُنکے پاس روشن نشانیاں آ جانےکے بعد(بھی)گروہ گروہ ہو گئے اور اِختلاف
کیا اور وہی ہیں جِن کے لیے بڑا عذاب ہے﴾سورت آل عمران(3)/آیت105،
اللہ جلّ و عُلا نے ہمیں مزید یہ بھی بتایا کہ اختلاف اور گروہ بندی کا عذاب صرف آخرت میں ہی نہ ہو گا بلکہ دُنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب ہو گا ، پس فرمایا﴿وَأَطِيعُوا اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذهَبَ رِيحُكُم وَاصبِرُوا إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ::: اور اللہ کی تابع فرمانی کرو اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کی تابع فرمانی کرو اور تنازع مت کرو ورنہ تُم لوگ ناکام ہو جاؤ گے اور تُم لوگوں کی ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے﴾سورت الأنفال(8)/ آیت46،
اللہ جلّ و عُلا نے ہمیں مزید یہ بھی بتایا کہ اختلاف اور گروہ بندی کا عذاب صرف آخرت میں ہی نہ ہو گا بلکہ دُنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب ہو گا ، پس فرمایا﴿وَأَطِيعُوا اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذهَبَ رِيحُكُم وَاصبِرُوا إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ::: اور اللہ کی تابع فرمانی کرو اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کی تابع فرمانی کرو اور تنازع مت کرو ورنہ تُم لوگ ناکام ہو جاؤ گے اور تُم لوگوں کی ہوا اُکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے﴾سورت الأنفال(8)/ آیت46،
اِختلاف ، تنازع اور گروہ بندی کے منفی نتائج کے
باوجود کئی اور ایسے ہی منفی نتائج والوں کاموں کی طرح اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے
اپنی مکمل بے عیب حکمت سے مقرر فرمایا کہ سابقہ اُمتوں کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ
مذموم عمل پایا جائے گا ، اور اِس کی خبر بھی فرمائی ﴿ وَلَو شَاء رَبُّكَ لَجَعَلَ
النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلاَ يَزَالُونَ مُختَلِفِينَ o إِلاَّ
مَن رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذَلِكَ خَلَقَهُم وَ تَمَّت كَلِمَةُ رَبِّكَ لأَملأنَّ
جَهَنَّمَ مِنَ الجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجمَعِينَ::: اور اگر
آپ کا رب چاہتا تو سارے ہی لوگوں کو ایک ہی اُمت بنا دیتا (لیکن اُس نے ایسا نہیں
کیا ) اور وہ ابھی تک مُختلف ہیں o سوائے اُن کے جِس پر آپ کے رب نے
رحمت کی (اور اختلاف سے محفوظ رکھا )اور اللہ نے لوگوں کو اسی لیے ہی بنایا اور
اللہ آپ کے رب کا فرمان پورا ہو(کر رہے )گا(کہ)میں ضرور جہنم کو انسانوں اور
جِنّات سے بھروں گا﴾سورت هود/آیات
118 ، 119،
یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مُسلمانوں
میں اِختلاف ختم ہو جائے ، یہ رہے گاخواہ بہت ہی معمولی رہے ، چھوٹے چھوٹے معاملات
میں رہے ، پس یہ ختم نہ ہوسکنے والی چیز ہے ،
لیکن یہ ضرور کیا جا سکتا ہے اور ایسا
کرنے کے لیے کچھ زیادہ محنت بھی درکار نہیں کہ اِختلاف کی صورت میں اپنے مُسلمان
بھائی بہنوں کے حقوق اور اَحترام کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ کی جائے اور نہ اپنے
دِل میں اُن کے لیے کوئی بُغض رکھا جائے ،
یہاں تک کہ کسی کے بارے میں بالکل
واضح طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ معاذ اللہ وہ حق جانتے ہوئے بھی باطل پر عمل
پیرا ہے ، تو ایسے شخص کے لیے دِل میں کوئی اَحترام نہیں رہتا ،
ایسا قطعاً نا مُمکن نہیں کہ ہم اپنے
اختلاف کی بنا پر وجود میں آنے والی تفریق کو صرف اُس موضوع ، اُس بات ، اُس کام
کے اندر تک محدود رکھیں جس میں وہ ہوا ہے ، اور اُس اِختلاف کے بارے میں بات چیت
کریں ، ایک دوسرے کے دلائل سنیں ، مانیں یا رَد کریں یہ ایک الگ معاملہ ہے ، لیکن دونوں میں سے کسی بھی صُورت میں ، یعنی ماننے
یا رَد کرنے میں سے کسی بھی صُورت میں ایک دوسرے سے اِسلامی بھائی چارہ قائم رکھیں
،
بھائیو، بہنو، خوب اچھی طرح سے سمجھ
لیجیے ، اور اُس سے کہیں زیادہ اچھی طرح سے یاد رکھ لیجیے کہ ،بے شک ہم سب کے لیے
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی ذات مُبارک ہر کام میں ہر لحاظ سے بہترین نمونہ ہے ،اور معاملہ صرف نمونہ
ہونے کا ہی نہیں بلکہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِتباع فرض ہے اور اُن صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عطاء کردہ ہدایت اور ترغیب پر عمل کرنے سے بڑھ کر دُرستگی
اور خیر والا کام اور کوئی نہیں ،
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد
فرمایا﴿خَيرُ الناس قَرنِي ثُمَّ الَّذِينَ
يَلُونَهُم ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُم::: سب سے زیادہ خیر والے لوگ
میرے زمانے کے ہیں پھر جو اُن کے بعد ہیں ، پھر جو اُن کے بعد ہیں﴾صحیح البُخاری /حدیث 3451 /کتاب فضائل الصحابہ /باب اول ، صحیح مُسلم/حدیث 2533/کتاب فضائل الصحابہ /باب 25،
آیے دیکھتے ہیں کہ تمام تر لوگوں میں
سے زیادہ خیر والے لوگ جو اُن سب سے زیادہ خیر والے تین زمانوں میں تھے ، اُن لوگوں کا ایک دووسرے
سے اِختلاف ہونے کی صورت میں کیا رویہ رہتا تھا ،
ہمارے دوسرے بلا فصل خلیفہ أٔمیر المؤمنین عُمر
الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ ، اور
ابن مُسعود رضی اللہ عنہ ُ ، کےبارےمیں معروف ہے کہ وہ تقریباً ایک سو مسائل میں
ایک دوسرے کے خِلاف تھے ، یعنی ان میں تنازع تھا ،
لیکن اس کے
باوجود ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ ، أٔمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ کی یاد میں
رو پڑتے اور اُن کےبارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ"""إِنَّ عُمَرَ رضي اللَّهُ عنهُ كان لِلإِسلامِ حِصنًا و حصيناً يَدخُلُونَ
في الإِسلامِ وَلا يَخرُجُونَ فلما أُصِيبَ عُمَرُ انثَلَمَ الحِصنُ:::عُمر رضی اللہ عنہ ُ اِسلام کے لیے ایک قلعہ تھے کہ لوگ
اِسلام میں داخل ہوتے تھے جس میں لوگ داخل ہو کر نکلتے نہ تھے جب عُمر (رضی اللہ
عنہ ُ)فوت ہو گئے تو اُس قلعہ میں دڑار پڑ گئی """،
اور ہمارے یہ دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ ، اپنے سے
بہت چھوٹے عُمر اور رتبے والے صحابی عبداللہ
ابن مُسعود رضی اللہ عنہ ُ کو دوسرے شہروں میں دِینی معاملات کے لیے اُستاد بنا کر
بھیجا کرتے تھے ، اور اُن کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ""""" کنیفٌ
ملیءٌ عِلماً::: (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ) عِلم (یعنی قران و حدیث کے عِلم ) سے
بھرا ہوا برتن ہیں""""""(کنیف
، مترادف وِعاءٌ ہے ، اور وِعاءٌ کسی بھی ایسی چیز کو کہتے ہی جو کسی دوسری چیز
کو اپنے اندر چھپا سکے)،
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور زید بن ثابت رضی
اللہ عنہ ُ میں بھی اِسی طرح دادا کی
وراثت سے متعلق کئی مسائل میں اِختلاف تھا ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے
تھے کہ"""
کیا زید اللہ کا خوف نہیں کرتے
کہ پوتے کو دادا کا وارث بتاتے ہیں اور دادا کو پوتے کا نہیں""" ،
لیکن یہ اِختلاف
بھی صرف مسائل کی حد تک ہی تھا اوروہ دونوں ہی ایک دوسرےکااِحترام اِس طرح کیا کرتے تھے کہ( ایک دفعہ)زید
بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ سوار ہونے لگے تو ،ابن عباس رضی اللہ عنہما زید رضی اللہ
عنہ ُ کی سواری کی رکاب تھام لی تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """اے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اِس کی رکاب چھوڑ دیجیے""" ،تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا """ ہمیں اِسی
طرح اپنے عُلماء کی عِزت کرنا سکھایا گیا ہے""" ،
اور جب زید رضی اللہ عنہ ُ فوت ہوئے تو ابن عباس
رضی اللہ عنہما نے فرمایا """ اس طرح عِلم
ختم ہوتا ہے ، آج بہت زیادہ عِلم چلا گیا""""،
یونس الصدفی رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ"""میں نے (اِمام)شافعی (رحمہُ
اللہ )سے بڑھ کر عقل مند کوئی نہیں دیکھا ، ایک دِن میں نے اُن کے ساتھ کسی مسئلہ
پر مناظرہ کیا اور ہم الگ الگ ہو گئے ، اُسکے بعد جب شافعی (رحمہُ اللہ )مجھے ملے
تو اُنہوں نے میرا ہاتھ تھام کر کہا"""
عیسیٰ کے باپ کیا یہ اچھا نہیں کہ ہم بھائی بھائی رہیں خواہ کسی
مسئلہ میں ہمارا اتفاق نہ ہی ہو"""،
اِمام الشافعی رحمۃُ اللہ علیہ کا ابو عیسیٰ الصدفی رحمہ ُ اللہ سےپوچھا
ہوا یہ سوال ہم سب کو ایک دوسرے سے پوچھنا چاہیے ،
اور پھر ایک دوسرے کے حقوق
جانتےاورسمجھتےہوئےاوراُنہیں اَدا کرتے ہوئے ، اپنے اِختلاف کو اپنے اِخلاق کاقاتل
بننے سے روکنا چاہیے ،
اور شرعی طور پر اِتمامء حُجت ہونے سے پہلے کسی بھی کلمہ گو مُسلمان کے اِیمان پر بہتان لگانے
سے ، اُس پر کافر ، مُشرک اور بدعتی وغیرہ
ہونے کے فتوے صادر کرنے سے بالکل دُور ہی دُور رہنا چاہیے ،
اور نہ ہی کسی بھی اِختلاف کی بِناء پر
کسی کلمہ گو مُسلمان کی جان ، مال اور عِزت کو حلال سمجھ کر اُس پر حملہ آور ہونا چاہیے
،
اور نہ ہی دِینی ، دُنیاوی اور اُخروی
لحاظ سے کسی بھی معاملے میں اُس کی کوئی بھی حق تلفی کرنی چاہیے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ہمت، یہ
جُرأت ، یہ قوت عطاء فرمائے کہ ہم اپنے مابین اِختلافات کو بد اخلاقی اور اِسلامی بھائی چارے
کا قاتل نہ بننے دیں ، کہ یہ قاتل ایسا ہے جو ہمیں تو کوئی فائدہ نہیں دیتا لیکن ،
اللہ کے دِین ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور اُن کی لائی
ہوئی شریعت ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کے ہر دُشمن کو خوب
فائدہ دیتا ہے ،
محترم ، کلمہ بھائیو، بہنو، اِختلافی
مسائل اور معاملات کو اِسلامی بھائی چارے کےحقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے سُلجھانے کی
کوشش کیا کیجیے ، نہ کہ بد اِخلاقی کر کے
مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنا کیجیے ،
یاد رکھیے ، اور بہت اچھی طرح سے یاد
رکھیے کہ چھوٹی چھوٹی دڑاڑیں بھرنا بہت
آسان ہوتا ہے لیکن جب اُنہیں بھرنے کی بجائے کِھینچا جانے لگے تو وہ بڑی بڑی
خلیجیں بن جاتی ہیں ، جنہیں پاٹنا(بھرنا) تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ،
اور ہم مسلمانوں پر ٹوٹنے والی بڑی بڑی مصیبتوں
میں سے ایک مُصیبت بداِخلاقی،ذاتی پسند نا پسند ، شخصیت پرستی، مذھب ، مسلک اور
جماعت بندی پر مبنی اِختلاف بھی ہے جو
مسلمانوں کے درمیان ایسی ہی خلیجیں پیدا کرتا چلا آرہا ہے ،
اور افسوس صد افسوس کہ اِن خلیجوں کو
پاٹنے والا کوئی شاذ و نادر ہی دِکھتا ہے ، مگر انہیں چوڑا اور گہرا کرنے میں
تقریباً ہماری اُمت کا ہر فرد ہی مشغول و ملوث دِکھائی دیتا ہے ،
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ
رَاجِعُونَ ، إِلیہِ أشتَکِی و ھُوالمُستَعان،
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے ، و السلام
علیکم۔طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
=======================================
مصادر و مراجع :::کتاب اللہ ، صحیح البخاری ، صحیح مُسلم ، المعجم الکبیر للاِمام سلیمان الطبرانی ، مُصنف عبدالرازاق ، الطبقات الکُبریٰ للاِمام محمدابن سعد ، تذکرۃ الحُفاظ، اور ، سیر أعلام النُبلاء للاِمام محمد الذھبی ، صفۃ الصفوۃ للاِمام عبدالرحمٰن ، المعرفۃ و التاریخ للاِمام ابو یوسف یعقوب الفسوی۔
مصادر و مراجع :::کتاب اللہ ، صحیح البخاری ، صحیح مُسلم ، المعجم الکبیر للاِمام سلیمان الطبرانی ، مُصنف عبدالرازاق ، الطبقات الکُبریٰ للاِمام محمدابن سعد ، تذکرۃ الحُفاظ، اور ، سیر أعلام النُبلاء للاِمام محمد الذھبی ، صفۃ الصفوۃ للاِمام عبدالرحمٰن ، المعرفۃ و التاریخ للاِمام ابو یوسف یعقوب الفسوی۔
تاریخ کتابت :23/Shaban(08)/1430ہجری ، بمطابق15/08/2009 عسیوئی ،
تاریخ نظر ثانی 27/Muhram(01)/1435
ہجری ، 01/12/2013بمطابق عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا
سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment