صفحات

Tuesday, April 29, 2014

::::::: معاف کر دینا ، جِسم و جاں ، اور دُنیا و آخرت کی خیر ہے ::::::::

::::::: معاف کر دینا ، جِسم و جاں ، اور دُنیا و آخرت کی خیر ہے ::::::::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
یہ حقیقت اب تقریباً ہر اُس شخص پر واضح ہو چکی ہے جو جدید علمی معلومات سے کچھ شغف رکھتا ہے کہ ہمارے دین اِسلام میں اللہ کی طرف سے اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دیے گئے احکام اور سکھائے گئے آداب، سب ہی، اِنسانوں کے لیے دنیاوی اور اُخروی  خیر اور فوائد کا سبب ہیں ،
اِن احکام اور آداب میں سے ایک حکم، ایک ادب عفو و درگذر کرنا ، یعنی معاف کر دینا بھی ہے،
شاید ہی کسی مُسلمان کو یہ پتہ نہ ہو کہ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے ،اِسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بارے میں عفو کرنے کی خوش خبریاں دی ہیں ، اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو عفو و درگذر والا معاملہ اختیار کرنے کا حکم دِیا ہے ،
 اور شاید ہی کسی مُسلمان کو یہ خبر نہ ہو کہ ہر وہ کام جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے پسند کیا ، اور جو اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کر کے دِکھایا اور اپنی اُمت کو سِکھایا اُس میں یقیناً دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر ہے ، کیونکہ اللہ جلّ و عُلا خیر کے علاوہ کسی اور چیز ، کسی اور کام کو پسند نہیں فرماتا ، اور نہ ہی اُس نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف میں کوئی ایسا قول یا فعل رکھا جس میں خیر نہ ہو ،
آیے دیکھتے ہیں کہ معاف کر دینے کی صُورت میں ہمیں آخرت کے فوائد سے پہلے اللہ عزّ و جلّ  دُنیا میں کیا فائدے عطا فرماتا ہے ،
کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ غصہ کرتے ہیں ، کسی سے کسی بھی وجہ سے کوئی انتقام لینا چاہتے ہیں ، تو آپ کے جسم میں کیا کچھ ہو رہا ہوتا ہے ؟ اور جب آپ کسی کو اُس کی غلطی یا آپ کے ساتھ زیادتی یا ظلم کرنے کی صُورت میں معاف کر دیتے ہیں تو آپ کے جسم میں کیا ہوتا ہے؟
جب آپ غصہ کرتے ہیں تو آپ کے جسم کے مدافعتی نظام (Self Immune System)کے کئی حصے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، خون کا دباؤ (Blood Pressure)بڑھ جاتا ہے ، دِل اور دِماغ اور اُن کی اندرونی اور قریبی شریانوں میں دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے ، اور جیسے جیسے  بدلے لینے ، انتقام لینے کی سوچ اُبھرتی ہے، ویسے ویسے جِسم کے اندرونی اور بیرونی أعضاء پر مختلف قِسم کے دباؤ بڑھتے جاتے ہیں ، جس کا کچھ مظاہرہ ، آنکھوں کی سرخی ، آواز کا اونچا ہو جاتا ، سانس کی تیزی اور بے ترتیبی ، ہاتھوں ، بازوؤں اور گردن کے پٹھوں کے اکڑنے وغیرہ کی صُورت میں دیکھا جاتا ہے ،
ایسا سب کچھ ہونے کا پہلا سبب جسم کے مدافعتی نظام کا کمزور پڑنا ہوتا ہے ،  یہ بات ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی چیز کا مدافعتی نظام کمزور ہو تو اُس چیز پر کچھ بھی حاوی ہو سکتا ہے ، اور وہ چیز کسی بھی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ،
اور اگر کمزور مدافعتی نظام والے جسم پر حملہ کرنے والا اُس کا اپنا ہی دِماغ ہو تو پھر باہر سے کسی دُشمن یا قاتل کی ضرورت نہیں رہتی،
موجودہ اِنسانی معاشرے میں  بہت سی ایسی بیماریاں معروف ہیں اور کثرت سے پائی جاتی ہیں ، جن پر اِنسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجودکچھ اختیار نہیں رکھتا ، نہ ہی اُن کا کوئی دُرُست یقینی سبب بتا پاتا ہے ، ایسی تمام بیماریوں کوعلم طب اور اُس سے متعلقہ علوم  کے عُلماء ، جسم کے اپنے ہی مدافعتی نظام کا حملہ قرار دیتے ہیں ، اور ذاتی مدافعتی نطام کی پیداوار بیماری (Self Immune Disease)قرار دیتے ہیں ،
غصہ ایسی بیماریوں کے پیدا ہونے اور اُن کے برقرار رہنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے ، اور اِنسانی معاشرے میں ظاہر ہونے والے برائیوں اور جرائم کے بنیادی ترین اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ،
ہمارے اِس مضمون کا موضوع غصہ نہیں ، لہذا ہم اُس پر غصہ کیے بغیر ، اور اُس سے درگذر کرتے ہوئے ، اُسے معاف کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں،
اپنے غصے کے اپنے ہی جسم و جان پر ہونے والے نتائج کی کچھ خبر حاصل کرنے کے بعد آیے اب دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی کو اُس کی غلطی یا اُس کی طرف سے ہونے والے ظلم یا زیادتی پر معاف کرتے ہیں ، اُس سے عفو و درگذر والا معاملہ کرتے ہیں تو ہمارے جسم و جاں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟
بہت سیدھی اور صاف سمجھ میں آنا والا معاملہ ہے ، جو کہ طبی سائنس کی تائید بھی رکھتا ہے کہ  معاف کرنے کا عمل اِنسان کو غصے اور انتقام کی سوچ و فِکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تقریبا ً تمام تر منفی اثرات سے بچانے کا سبب ہوتا ہے ، کیونکہ عفو و درگذر ، یعنی معاف کرنے کا عمل  اُن منفی اثرات کے ظاہر ہونے اور نافذ ہونے کا وقت ہی نہیں آنے دیتا ،
جی ہاں ، کسی سبب سے غصہ آجانا ایک فطری سا عمل ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص خود کو ایسا بنا لے کہ اُسے کسی بات پر غصہ ہی نہ آئے ، لیکن ایسا ضرور ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے کہ کوئی شخص اللہ کی مشئیت سے ، خود کو ایسا بنا لے کہ اُس کا غصہ اُس کی عقل کو نہ کھا سکے اور نہ اُس کا حاکم بن سکے ، ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کو معاف کر سکنے کے عظیم اور دِینی ، دُنیاوی اور اُخروی طور پر کامیابی اور خیر پانے  والے عمل کا مکمل کر پاتے ہیں ،
معاف کردینے کے دُنیاوی فوائد حاصل کرنے کے مواقع تو مسلمان اور کافر سب کے لیے ایک ہی جیسے ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ جِسے جو چاہے عطاء فرما دے ،
لیکن آخرت کے فوائد جو کہ صِرف اِیمان والوں کے لیے ہیں اب ہم اِن شاء اللہ اُن فوائدکے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں ،
اپنی بات کےآغاز میں ، میں نے کہا تھا کہ """ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہ معاف کر دینا اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے ،اِسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بارے میں عفو کرنے کی خوش خبریاں دی ہیں ، اور اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو عفو و درگذر والا معاملہ اختیار کرنے کا حکم دِیا ہے""" ،
اب ہم اِن شاء اللہ ،  اِس کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں ،
::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اعلان ہے ﴿ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا:::بے شک اللہ معاف کرنے والا، بخشش کرنے والا ہےسُورت النِساء(4)/آیت43،
::::::: امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ """ اگر میں لیلۃ القدر پاؤں تو کیا دُعاء کروں  ؟ """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ تَقُولِينَ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى ::: کہو، اے اللہ تُو معاف کرنے والا(درگذر کرنےو الا) ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے ، لہذا مجھے معاف فرما سُنن ابن ماجہ /حدیث /3982کتاب الدُعاء/باب5، سُنن الترمذی/حدیث /3855کتاب الدَعوات/باب89، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،  
::::::: اللہ جلّ و عُلا نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ :::اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگذر فرماتا ہے (گناہ معاف فرماتا ہے)اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو سب جانتا ہےسُورت الشُوریٰ (42)/آیت25،
::::::: اور اِرشاد فرمایا ﴿وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ:::اور جو کچھ مُصیبت تُم لوگوں پر آتی ہے تو وہ تُمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے ، اور اللہ( تو) بہت سے معاملات میں معاف( ہی)  کر دیتا ہے سُورت الشُوریٰ (42)/آیت30،
::::::: اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو، اُن کے ساتھ وعدہ خلافی کرنے والے کافروں کے بارے میں  حکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ :::پس آپ اُن درگذر فرمایے اور انہیں معاف کرتے رہا کیجیے ، یقیناً اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےسُورت المائدہ(5)/آیت13،
::::::: اور اِیمان والوں کو عفو و درگذر کرنے ، معاف کر دینے کا حکم فرماتے ہوئے اور اُس کا انجام سمجھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ::: اور اُنہیں چاہیے کہ وہ درگذر کیا کریں ، اور معاف کر دِیا کریں، کیا تُم لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تُم لوگوں کی بخشش  کر دے ، اور اللہ بخشش کرنے والا ، رحم کرنے والا سُورت نُور(24)/آیت22،
ذرا غور فرمایے کہ اِ س مذکورہ بالا آیت شریفہ میں معاف کر دینے کا کس قدر عظیم انجام بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کو معاف کرنے والوں کی بخشش فرما دے گا ،  اور ہم میں سے کون ایسا ہے جِس کے اعمال نامے میں گناہ نہیں ، پس خوب یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہمیں اپنے گناہ معاف کروانے کے لیے، اللہ کی رضا کے لیے  دوسروں کو معاف کرنے کا سنہری موقع کبھی ضائع نہیں کرنا چاہیے ،  
::::::: دوسروں کو معاف کر دینے کی  نیکی کا یہ مذکورہ بالا آیت شریفہ میں مذکور أجر تو ہوا آخرت میں ، اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اس نیکی کا أجر آخرت کے ساتھ ساتھ  دُنیا میں بھی  مل سکتا ہے ، اور کس طرح مل سکتا ہے ﴿ وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ::: اور بُرائی کا بدلہ تو اُسی طرح کی بُرائی ہی ہے ، لیکن جو معاف کر دے ، اور اصلاح کرے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہوا ، بے شک اللہ ظُلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا سُورت الشُوریٰ (42)/آیت40،
اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ کے مطابق یہ سمجھ آتا ہے کہ معاف کر دینے کی صُورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ وہی کچھ معاف کرنے والے کو عطاء فرمائے گا جو کچھ اُس سے کسی ظلم کسی زیادتی کے ذریعے لے لیا گیا ، اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب معاف کرنے کا اجر اللہ نے اپنے ذمے لے لیا تو پھر وہی  جانتا ہے کہ وہ معاف کرنے والے کو اُس پر ہونے والے ظلم یا زیادتی کے عوض میں دُنیا اور آخرت میں  کیا کچھ عطاء فرمائے گا ،  
::::::: کچھ وضاحت :::::::   
آخرت کے فوائد صِرف اور صِرف اُسی صُورت میں مل سکتے ہیں جب یہ کام ، یا کوئی بھی اور نیک کام اللہ کی رضا کی نیت سے کیا جائے، اگر دُنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لیے ، صحت ، خوش نمائی ، یا خوش ادائی وغیرہ کی نیت سے ایسا کوئی کام کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ شاید وہ دُنیاوی فوائد تو عطاء فرما دے گا ، لیکن آخرت میں ایسے کسی کام کا کوئی فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو گا ، کیونکہ وہ ایسا کام ہو گا جو اللہ کی رضا کے لیے کیے جانے کی بجائے کسی اور نیت سے کیا گیا ،
ہر ظلم یا زیادتی معاف کیے جانے کی حقدار نہیں ، اِس معاملے میں ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حقوق، ذاتی اور اجتماعی حقوق،  اور مسلمان اور کافر کے حقوق کا فرق سمجھ کر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔ 
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو  ہمت عطاءفرمائے کہ ہم اللہ کے بندوں کو ، اللہ کی رضا کے لیے معاف کرتے رہا کریں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اِس عمل کو قبول فرما کر ہمیں معاف فرماتا رہے ۔
و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 20/05/1435 ہجری ، بمطابق ، 21/03/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment