صفحات

Wednesday, November 12, 2014

::: بین الاقوامی مَساوات(أخوت، بھائی چارہ)، اور ، اِنسانوں کے درمیان فرق کی کسوٹیاں ، مُسلمان اور کافر بھائی نہیں ہیں :::



::::::: قران و سُنّت کے سایے میں :::::::
:::بین الاقوامی مَساوات(أخوت، بھائی چارہ)، اور ، اِنسانوں کے درمیان فرق کی کسوٹیاں ، مُسلمان اور کافر بھائی نہیں ہیں :::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
بین الاقوامی مَساوات ،،،،، بین الاقوامی اخوت یعنی بھائی چارہ،،،،، بین المذاھب بھائی چارہ،،،،، اِنسانی برابری،،،،، اِنسانی محبت ،،،،، محبت کی ز ُبان ،،،،، اتفاق بین المذاھب،،،،، اور اس سے ملتے جلتے کئی نعرے ، عناوین ، اور دعوے ہمارے اِرد گِرد پچھلے کچھ ہی عرصے میں شور و غوغا کی سی کیفیت اختیار کر گئے،
اِن الفاظ کا معاملہ بھی ایسا ہی کہ الفاظ تو اچھے ہیں ، دِل پذیر و دِل نشین ہیں ، جاذبءِ عقل ہیں ، لہذا اکثر اوقات وہ کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آتا ہے جو حقیقت کے خِلاف ہے ، ایک ایسی حقیقت جِسے عموماً آغاز میں ذِکر کردہ جذباتی غبار سے آلودہ الفاظ کے پردے میں بینائی اور بصارت دونوں سے ہی دُور کر دِیا جاتا ہے ،
اور وہ حقیقت یہ کہ""" کسی اِنسان کے جان ،مال اور عِزت کا، دُکھ اور پریشانی کا ، تکلیف اور سختی کا  بحیثیت اِنسان خیال اور احساس رکھنا کچھ اور معاملہ ہے اور کسی غیر مُسلم کو بھائی کہنا کچھ اور معاملہ ہے ، اور بھائی سمجھنا تو بالکل ہی کچھ اور معاملہ ہے"""،
اِس کے بارے میں اِن شاء اللہ بعد میں بات کرتا ہوں ، پہلے آپ کی خدمت میں کچھ سوالات پیش کر رہا ہوں ، اور پھر اِن شاء اللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی کی عطاء کردہ تعلیمات کی روشنی میں اِنسانی مساوات کی حقیت واضح کرنا چاہتا ہوں ،
محترم قارئین ، کیا آپ نے کبھی اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ تدبر فرمایا ہے کہ اِنسانی مساوات اور اخوت  وغیرہ قسم کے اِن الفاظ نعروں اور دعووں کی حقیقت کیا ہے ؟؟؟
کہیں اِن کے ذریعے ہم مُسلمانوں کو اللہ کی راہ سے ہٹایا تو نہیں جا رہا ہے ؟؟؟
حق گوئی سے دُور تو نہیں کیا جا رہا ؟؟؟
گناہ اور برائی پر خاموش رہنا تو نہیں سِکھایا جا رہا ؟؟؟
اپنی اپنی جماعت ، مذھب مسلک پسندیدہ شخصیت کی ترویج کے لیے کسی کی برائی سے صَرف نظر کر کے اُسے برائی میں ہی چھوڑنا تو نہیں سِکھایا جا رہا ؟؟؟
اِصلاح ،کے نام پر فساد کو قبول کرنا تو نہیں سِکھایا جا رہا ؟؟؟
اور ،،،،، اور ،،،،، اور ،،،،، سوالات کا ایک انبار ہے ، لیکن،،،،،،
آیے ہمارے ، اور تمام تر اِنسانوں کے اکیلے لا شریک خالق اور مالک اللہ جلّ جلالہُ کے کلام پاک سے ، اور اُس کی وحی کے مُطابق کلام فرمانے والے اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ سے اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عملی سُنّت مُبارکہ میں سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے ہاں """اِنسانی مَساوات """کیا ہے ؟؟؟
اور کیا """اِنسانی اخوت نامی کوئی معاملہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے یا نہیں؟؟؟
اللہ عز ّ و جلّ   کا فرمان مُبارک ہے ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا:::اے لوگو، اپنے رب (کے غصے اور عذاب )سے بچو ، (وہ رب)جِس نے تُم سب کو ہی ایک جان میں سے تخلیق فرمایا اور اُس میں سے ہی اُس کا جوڑا بنایا ، اور ان دونوں میں سے بہت زیادہ مَرد اور عورت پھیلائے، اور اللہ سے بچو جس کے نام کے ذریعے تم لوگ (ایک دوسرے سے)سوال کرتے(ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرتے) ہو،اور رشتہ داریاں(توڑنے سے بچو)، یقیناً اللہ تُم لوگوں پر نگران ہے سُورت النِساء(4)/پہلی آیت،
اور اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ :::اے لوگوں ، بے شک ہم نے تُم سب کو (ایک )مَرد اور (ایک)عورت میں سے بنایا ، اور تُم لوگوں کو (صِرف اس لیے)قومیں اور قبیلے بنایا تا کہ تُم لوگ(آپس میں) ایک دوسرے کو پہچان سکو، (یا درکھو اِس تقسیم میں کوئی فضیلت نہیں کیونکہ)بے شک تُم لوگوں میں سے سب سے زیادہ تقوے والا ہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا ہے ، بے شک اللہ بہت زیادہ عِلم رکھنے والا ،خبررکھنےوالا ہے سُورت الحُجرات (49)/آیت 13،
اِن مذکورہ بالا دو آیات مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس حقیقت کا اعلان  فرمایا ہے کہ اُس نے سب ہی اِنسانوں کو ایک جان سے بنایا ، یعنی بحیثت مخلوق سب ہی اِنسان ایک جیسے ہیں ، اُن میں کوئی بر تر یا کم تر نہیں ، اور اِنسانوں کے درمیان فضیلت کا معیار صِرف اور صِرف تقویٰ ہے ،  ایک ایسا معیار جس کے مطابق اللہ کے ہاں اِنسانوں کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اُسی کے مطابق اِنسانوں کےدَرمیان درجہ بندی مطلوب ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی سُنّت کے مُطابق ، اپنے اِن فرامین مُبارکہ کی قولی اور عملی تفسیر اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے ذریعے کروائی ، کیونکہ اللہ جل ّ و عَز ّ نے اُنہیں یہ ذمہ داری عطاء فرمائی تھی کہ وہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم لوگوں کے سامنے  اللہ کے کلام پاک کا بیان یعنی وضاحت فرمائیں ، اور بلا شک اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہی اللہ کے فرامین مبارکہ کا بیان فرمایا ، اور مکمل ترین اور بہترین طور پر فرمایا ،
پس اپنے اللہ  کی وحی کے مطابق کلام فرمانے والی  معصوم اور پاکیزہ  ز ُبانِ  سے رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب کے اِن فرامین کے بیان میں لوگوں کے درمیان مثبت اَفکار کے مُطابق تعلقات بنانے اور قائم رکھنے کے لیے بنیادی اور مضبوط قانون مرتب فرمادیا ،کہ  بحیثت مخلوق تمام اِنسان ایک ہی درجہ کے حامل ہیں ، اور بحیثت اِنسان اُن کی تخلیقی  حیثیت  میں  کوئی فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے ،
اِنسانوں کے درمیان رُتبوں اور حیثیت کا فرق صرف اُن کاموں کی بنا پر کیا جانا چاہیے جو کام اُن کے اپنے کیے ہوئے ہوتے ہیں ، اور اُن کاموں کو پرکھنے کے لیےسب سے پہلی کسوٹیاں """اِیمان ، تقویٰ ، اور عمل صالح """ ہیں ، کہ یہ ہی وہ کسوٹیاں ہیں جو کسی شخصیت کے مثبت اور منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرتی ہیں ، اور کسی شخص کے اللہ سے تعلّق اور لا تعلقی کو ظاہر کرتی ہیں ، اور کسی شخص کے اللہ کی مخلوق کے ساتھ تعلقات کی اچھائی اور برائی کو واضح کرتی ہیں ،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَلاَ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِىٍّ عَلَى أَعْجَمِىٍّ وَلاَ لِعَجَمِىٍّ عَلَى عَرَبِىٍّ وَلاَ لأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلاَ أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلاَّ بِالتَّقْوَى أَبَلَّغْتُ؟::: اے لوگوں خبردار رہو کہ بے شک تُم سب کا رب ایک ہے ، اور بے شک تُم سب کا والد ایک ہے ، خبردار رہو کہ کسی عربی کے لیے کسی غیر عربی پر کوئی افضلیت نہیں ، اور نہ ہی کسی غیر عربی کے لیے کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے ، اور نہ ہی کسی سرخ (جلد و چہرے  والے) کے لیے کسی کالے(چہرے و جلد والے) پر کوئی فضیلت ہے ، اور نہ ہی کالے کو سُرخ پر ، سوائے تقویٰ کے ، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ؟ مُسند أحمد /حدیث 24204/، سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث2700،
نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے حج الوادع کے عظیم الشان خطبے میں یہ مذکورہ بالا قانون اعلان فرما کر انسانوں کے درمیان اُن تمام غلط خیالات اور معیارات کو باطل قرار فرما دِیا جن کی بنیاد پر انسانوں نے اپنے درمیان برتر اور کم تر کی تقسیم کر رکھی تھی ، اور ایک دوسرے کی بے عِزتی کے لیے راہیں ہموار کر رکھی تھیں،
نبی اللہ صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ قانون صرف اپنے حج الوداع کے موقع پر ہی نشر نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اِس کی عملی تربیت بھی فرماتے رہے ، جس کی ایک مثال ابو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ کے اِس واقعے میں ملتی ہے جس کی وہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ""" میرے اور کسی شخص کے درمیان کچھ ناراضگی والا معاملہ تھا ، اُس کی ماں غیر عرب تھی ، ایک دفعہ میں نے اسے اس کی ماں کے بارے میں طعنہ دِیا ، اُس شخص نے رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم کو بتایا ، تو انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا  
﴿ أَسَابَبْتَ فُلاَنًا؟::: کیا تُم نے فُلاں کو برا کہا ہے؟
میں نے عرض کیا """ جی ہاں """،
ارشاد فرمایا ﴿ أَفَنِلْتَ مِنْ أُمِّهِ؟:::کیا تُم نے اُس کی ماں کے بارے میں طعنہ دِیا ہے؟
میں نے عرض کیا """ جی ہاں """،
ارشاد فرمایا ﴿ إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ:::تُم ایک ایسے شخص ہو جِس میں (ابھی تک)جاھلیت (باقی)ہے
میں نے عرض کیا """جب میں نے ایسا کہا تھا تو تکبر میرے حال پر غالب تھا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ نَعَمْ ، هُمْ إِخْوَانُكُمْ ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ ، فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ ، وَلاَ يُكَلِّفُهُ مِنَ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ:::جی ہاں (ایسا ہی تھا لیکن یاد رکھو کہ )، وہ لوگ تُم لوگوں کے بھائی ہیں ، اللہ نے اُن لوگوں کو تُم لوگوں کے ہاتھوں کے نیچے(یعنی ملکیت میں) دِیا ہے ،پس جس کے کسی (مسلمان) بھائی کو اللہ نے اُس کے ہاتھ کے نیچے دیا ہو ، تو وہ اپنے اس مُسلمان بھائی کو وہی کچھ کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے، اور وہی کچھ پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے ، اور اس کے ذمے کوئی ایسا کام نہ لگائے جسے کرنے میں اس کے لیے بہت زیادہ مشقت ہو ، اور اگر ایسا کوئی کام اس کے ذمے لگائے تو پھر وہ کام کرنے میں اس کی مدد بھی کرےصحیح البخاری/حدیث 6050/کتاب الادب/باب44،صحیح مُسلم /کتاب الأیمان /باب10،
:::::: ایک خاص نکتہ  ::::::
یہ واقعہ ابوذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُاور اُن کے  ایک غُلام کے درمیان پیش آیا تھا ، ابوذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ کے مقابل کوئی بڑے معاشرتی رتبے والا شخص نہ تھا ، اس کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ابو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ کو ڈانٹا اور غلاموں کے حقوق کے بارے میں  اِنسانی عِزت ،عدل و انصاف ، رحمت اور شفقت پر مبنی ایسے اصول بیان فرمائے جو تمام انسانوں کے بنیادی اور فطری حقوق ، اور ان کی بحیثت انسان عِزت میں مساوات کا عظیم درس ہیں ، بالخصوص غلاموں کے بارے میں ، اور ایسے لوگوں کے گمراہ خیالات کی تردید ہیں جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات سے جاھل ہیں اور اپنی جہالت کی بنا پر ، اور کفار کے غلط اعتراضات کے خوف سے اسلام میں  انسانوں کی غلامی کے جواز کا ہی انکار کر دیتے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
اپنے مضمون کے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، اگر اِنسان، اور بالخصوص مُسلمان  اپنے اکیلے ، لا شریک خالق و مالک ، رب اور سچے حقیقی معبود، اور اُس کی وحی کے مطابق کلام فرمانے والے اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بتائے ہوئے اِس قانون کو سمجھ لیں ، کہ کسی بھی اِنسان کی عزت و حیثیت """ اِیمان ، تقویٰ اور عمل صالح کے مطابق ہے """ اور اِس کے مطابق ایک دوسرے کو پرکھنے لگیں ، تو اِن شاء اللہ ،نہ صِرف اُنہیں بین الاقوامی مَساوات ، بین الاقوامی اخوت یعنی بھائی چارہ، بین المذاھب بھائی چارہ، اِنسانی برابری، اِنسانی محبت ، محبت کی ز ُبان ، کی طرح کے دھوکہ باز الفاظ کی حقیقت کا اندازہ ہو جائے ،
بلکہ اِن شاء اللہ اُن کے درمیان پائے جانے والی  اُن گرم اور سرد نفرتوں ، لڑائیوں  جھگڑوں ، اور جنگوں کا خاتمہ ہو جائے جنہوں نے   ایک آدم اور حواء علیہما السلام کی اولاد کو ، ظلم ،تباہی ،ہلاکت اور خون خرابے کے صحراؤں میں بے راہ کر رکھا ہے ،
روئے زمین پر سوائے اِیمان و کفر کے نزاع کے کوئی اور نزاع نہ رہے ،جِس کا وجود اِنسانوں کی دُنیاوی اور اُخروی خیر کے لیے نا گزیر ہے ، حتیٰ کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت آن پہنچے اور اللہ کی تمام مخلوق اللہ کے سامنے حاضری کے لیے بلا لی جائے ،
اِس موضوع کے اختتام کے طور پر اللہ جلّ جلالہُ کے کچھ اور فرامین شریفہ بھی ذِکر کرتا چلوں جن میں یہ مسئلہ مزید واضح فرمادِیا گیا ہے کہ مُسلمان اور کافر مساوی نہیں ہیں ، ایک جیسے نہیں ہیں ،برابر نہیں ہیں ،
لہذا ،اِنسانی مساوات فقط ایک جیسی مخلوق ہونے کی حد تک ہے،کفراور اِیمان،اِسلام اور بغاوت ، اَطاعت اور جرم کرنے کے مُطابق اِنسان الگ الگ ہیں ، اُن میں کوئی مساوات نہیں ، کوئی بھائی چارہ نہیں ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اِرشادفرمایا ہے کہ ﴿ أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كَانَ فَاسِقاً لا يَسْتَوُونَ::: تو کیا جو اِیمان والا ہے وہ اُس کے جیسا ہے جو فاسق ہے ،(نہیں ہر گز نہیں)یہ لوگ مساوی  نہیں ہیں سُورت السجدۃ(32)/آیت18،
اور اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ لا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّة::: جہنم والے اور جنّت والے ایک دوسرے  کے مساوی نہیں ہیں  سُورت الحشر(59)/آیت20،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ::: کیا (لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ) ہم مُسلمانوں (کے مُقام اور رُتبے)کو مجرموں(یعنی غیر مُسلموں)کے(مُقام اور رُتبے)جیسا کر دیں گے سُورت القلم(68)/آیت35،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ::: کیا (لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ)ہم اِیمان لا کر نیک کام کرنے والوں (کے مُقام اور رُتبے)کو زمین میں فساد کرنے والوں(کافروں اور دیگر فسادیوں)کے(مُقام اور رُتبے) جیساکردیں گے،یا(یہ سمجھتے ہیں کہ)ہم تقویٰ والوں (کے مُقام اور رُتبے)کو بدکاروں کے(مُقام اور رُتبے) جیسا کر دیں گے سُورت ص(38)/آیت28،
اور اِرشاد فرمایا﴿ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ::: کیا گناہ کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اِیمان لا کر نیک کام کرنے والوں کو اُن کے جیسا بنا دیں گے ، کہ اُن (دونوں گروہوں) کا جینا اور مرنا ایک جیسا(مساوی) ہو گا ، یہ(لوگ اپنے ہی طور پر)جو(یہ)فیصلہ کیے بیٹھے ہیں، وہ بہت ہی بُرا فیصلہ ہے سُورت الجاثیہ(45)/آیت21،
اِن کے علاوہ اور بھی کئی آیات مُبارکہ ہیں ، جِن میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دِیا ہے کہ مُسلمان اور کافر مساوی نہیں ہیں ، اُن میں مساوات نہیں ہے ، برابری نہیں ہے ،
پس، بھائی چارے کا تو کوئی جواز ہی نہیں رہتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اِن شاء اللہ ، میں اُس معاملے کی طرف  آتا ہوں جِس کا ذِکر میں نے آغاز میں یہ کہہ کر کیا تھا کہ"""اِن اِلفاظ کامعاملہ بھی ایسا ہی کہ الفاظ تو اچھے ہیں ، دِل پذیر و دِل نشین ہیں ، جاذبءِ عقل ہیں ، لہذا اکثر اوقات وہ کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آتا ہے جو حقیقت کے خِلاف ہے ، ایک ایسی حقیقت جِسے عموماً آغاز میں ذِکر کردہ جذباتی غبار سے آلودہ الفاظ کے پردے میں بینائی اور بصارت دونوں سے ہی دُور کر دِیا جاتا ہے ،
اور وہ حقیقت یہ کہ""" کسی اِنسان کے جان ،مال اور عِزت کا، دُکھ اور پریشانی کا ، تکلیف اور سختی کا  بحیثیت اِنسان خیال اور احساس رکھنا کچھ اور معاملہ ہے اور کسی غیر مُسلم کو بھائی کہنا کچھ اور معاملہ ہے ، اور بھائی سمجھنا تو بالکل ہی کچھ اور معاملہ ہے"""،
جی ہاں ، کسی غیر مُسلم کو ، یعنی کسی کافر کی کسی تکلیف ، پریشانی ، دُکھ کے وقت میں، اُس پر ہونے والے کسی ظلم کے بارے میں اُس کے ساتھ اِظہار ہمدردی کرنا، یا شرعی طور پر جائز طور پر اُس کی مدد کرنا، الگ معاملات ہیں ، اور اِس اظہار ہمدردی میں اُس کو بھائی یا بہن کہنا ، بالکل مختلف معاملہ ہے ،اور معاذ اللہ کسی کافر یعنی کسی غیر مُسلم کوبھائی یا بہن مان ہی لینا تو بہت ہی دُور والا معاملہ ہے ،
قارئین کرام ، ہمارے اور سارے ہی اِنسانوں کے رب اللہ جلّ شانہُ نے کہ جِس نے سب اِنسانوں کو بطور مخلوق ایک جیسا قرار فرمایا ، اُسی رب کریم نے اپنی اِس مخلوق میں بھائی چارے کی حُدود مقرر فرمائی ہیں ، اور صِرف اِیمان والوں کو آپس میں بھائی قرار فرمایا ہے﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ :::بے شک اِیمان والے ہی بھائی بھائی ہیں سُورت الحُجرات(49)/آیت10،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان کا مفہوم یہ ہوا کہ جو لوگ اِیمان والے نہیں ،اِسلام والے نہیں ،وہ  کافر ہیں، غیر مُسلم ہیں، اور وہ اِیمان والوں کے ، اِسلام والوں کے بھائی نہیں ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل واضح ہے کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں ، آیات مشتبہات میں سے نہیں ، کسی باطنی ، یا مجازی معنی ، مفہوم یا تاویل کا حاجت مند نہیں ، پھر بھی اگر کوئی شخص اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان شریف کی غلط ، باطل ، بے ہودہ  تاویلات کر کر کے کافروں کو بھائی کہے ، یا معاذ اللہ مان ہی لے تو اُس کی تاویلات اور ذاتی سوچ و فِکر کی کوئی أہمیت نہیں ، کوئی وقعت نہیں ،
(((اِیمان اور اِسلام کے فرق ، اور کافر اور مُسلمان کے فرق کے بارے میں الحمد للہ الگ مضامین نشر کر چکا ہوں ، تفصیل جاننے کے خواہش مند اُن کا مطالعہ فرمائیں ، بلکہ میرے جو بھائی یا بہن میرے یہ اِلفاظ پڑھ رہے ہیں وہ سب ہی اُن دو مضامین کا بھی مطالعہ فرمائیں ، اِن شاء اللہ بہت سے شکوک و شبہات دُور ہوں گے،
::::::: أِسلام اور اِیمان میں فرق،اور اِحسان کیا ہے؟ :::::::       http://bit.ly/GMRAqc
:::::::  مُسلمان اور کافر کے درمیان فرق :::::::       http://bit.ly/1jUOfID)))
کافروں کو بھائی کہنے والوں کی طرف سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرامین مُبارکہ کی غلط تاویلات کرتے ہوئے اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ،
چلتے چلتے اُن فرامین شریفہ کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ، اور اُن کا دُرُست مفہوم بھی سیکھتے ہیں ،
سُورت الاعراف(7)/آیات65،73اور85میں،
اور سُورت ھود(11)/ آیات50،61اور84میں،
اور سُورت النمل(27)/آیت45میں،
اور سورت الشُعراء(26)/آیات106،124،142اور161میں،
اور سُورت العنکبوت(29)/آیت36میں ، اللہ تعالیٰ نے مختلف نبیوں علیہم السلام کا ذِکر فرمایا کہ اور اُن کو اُن کی قوموں  کا بھائی ذِکر فرمایا ، وہ قوموں اِیمان والی نہ تھیں ، بلکہ اُن انبیاء علیہم السلام کا اِنکار کرنے والی تِھیں ، اُن کو جُھٹلانے والی تِھیں ،
اِن مذکورہ بالا آیات شرہفہ کو اِستعمال کر کے یہ اشکال یا شک پیدا کیا جاتا ہے کہ""" اللہ تعالیٰ نے تو کافروں کو نبیوں کا بھائی کہا ہے ، یا ، نبیوں کو کافروں کا بھائی کہا ہے ، تو پھر ہم اُمتی کیسے کسی کافر کو بھائی نہیں کہہ سکتے ؟ """،
اِس شک کا جواب پیش کرنے سے پہلے میں یہ گذارش کرتا ہوں کہ سابقہ اُمتوں کے معاملات میں سے کوئی معاملہ بھی ہمارے لیے یعنی اُمت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و التسلیم ، کے لیے دلیل نہیں ہے ، سوائے اُن معاملات کو جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت میں جاری رکھا ، اور اپنے آخری رسول اور نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت شریفہ میں جاری رکھا(((اِس موضوع کو بھی الحمد للہ ایک الگ مضمون بعنوان """ سابقہ نازل شُدہ کتابوں ، اور شریعتوں ، اور نبیوں اور اُمتوں کے معاملات کا اِسلامی حُکم """ میں بیان کر چکا ہوں ، تفصیل کے لیے اُس کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا، یہ مضمون کئی اُردُو فورمز میں نشر ہو چکا ہے ، اورمیرے اِس بلاگ پر درج ذیل ربط پر  بھی موجود ہے http://bit.ly/1xvYcyR )))
ابھی جِس شک کا ذِکر کیا گیا ہے ، اُس کے جواب میں گذارش ہے کہ کسی قوم کے فرد کو اُس قوم کا بھائی کہنا ،اور کسی قبیلے کے نسب میں سے ہونے کی وجہ سے اُس قبیلے کا بھائی کہنا عربوں میں مروج تھا اور اب تک ہے ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی عربوں کے اُس معروف جانے پہچانے اسلوب کے مُطابق اِن آیات شریفہ میں انبیاء علیہم السلام کو اُن کی کافر قوموں کا بھائی کہا ہے ، اِس لغوی اسلوب کی ایک اور مثال اللہ جلّ ثناوہُ کا یہ فرمان شریف ہے ﴿كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا:::جب بھی کوئی ایک جماعت(جہنم میں)داخل ہوگی تو اپنی بہن  پر لعنت کرے گیسُورت الاعراف (7)/آیت 38،
یعنی اُن لوگوں پر لعنت کرے گی جو اُسی قوم میں تھے اور اُن کی برائی اور گمراہی کی وجہ سے یہ دُوسری جماعت یا گروہ بھی گمراہ ہوئی اور جہنم میں داخل ہوئی،
پس یہ واضح ہوا کہ اللہ جلّ شانہُ نے جو کچھ انبیاء علیہم السلام کو اُن کی کافر قوموں کا بھائی کہا ہے تو وہ قوم ، قبیلے اور نسب کی نسبت سے کہا ہے،
اِن آیات شریفہ میں سے زیادہ سے زیادہ سے زیادہ اِس بات کا جواز ملتا ہے کہ اگر کِسی مُسلمان کے خاندان ، قبیلے یا قوم کے کچھ افراد کافر ہوں تو وہ اُنہیں ، اور وہ کافر اِس مُسلمان کو قوم ، قبیلے اور خاندان کے نسب کے حوالے سے بھائی کہہ سکتے ہیں ، لیکن اِس بات کا کوئی جواز نہیں کہ ہر ایک کافر کو خوش کرنے کے لیے ، یا اُس کے دُکھ درد میں ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے اُس سے بھائی چارے کا اقرار یا اظہار کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::::: اِس کے علاوہ ایک محترم بھائی کی طرف سے یہ پڑھنے کو ملا کہ"""میں آج دوسرے پارہ میں جان کے بدلے جان والی قرآنی حکم پڑھ رہا تھا تو اس کے آخر میں کہا گیا کہ اگر تم بدلے کے اپنے غصے پر قابو پا لو یہ بدرجہا بہتر ہے کیوں کہ آخر وہ ہیں تو تمہارے بھائی ہی۔
اب اگر یہ مان لیا جائے کہ صرف مسلمان مسلمان بھائی ہیں جس طرح ہمیں بتایا جا رہا ہے تو پھر ہارون بھائی والے ریفرنس میں بھی کوئی تاویل لانی پڑے گی اور جان کے بدلے جان والے حکم کو بھی محض مسلمانوں پر لاگو کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ اس میں بھی دونوں فریقین کو بھائی ہی قرار دیا گیا ہے"""۔
اِس کے جواب میں  سب سے پہلے تو  یہ یاد دہانی ہے کہ ھارون بھائی والا ریفرنس سابقہ شبہہ تھا ، یعنی کچھ انبیاء علیہم السلام کو اُن کی کافر قوموں کا بھائی کہا جانا ، اِس کا جواب ابھی ابھی پیش کر چکا ہوں ، وللہ الحمد،
اِس کے بعد آتے ہیں، مذکورہ بالا شک کی طرف جس کی وجہ"""قِصاص، یعنی جان کے بدلے جان""' والی اُس آیت شریفہ  میں  اپنے بھائیوں کو قصاص معاف کرنے کی ترغیب فرمائی گئی ہے ،
وہ آیت شریفہ درج ذیل ہے:::
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ :::اے اِیمان لانے والو، تُم لوگوں پر قتل کے معاملات میں قصاص فرض کر دِیا گیا ہے ، آزاد اِنسان کے بدلے میں آزاد اِنسان اور غُلام کے بدلے میں غُلام،اور مؤنث (لڑکی ،عورت) کے بدلے میں مؤنث، اور جو کوئی اپنے (کسی مُسلمان)بھائی کو کسی معاملے میں  معاف کر دے ، تو معروف (نیکی)طور پر اُس کی تکمیل کی جائے،اور احسان کے ساتھ اُس ادا کیا جائے،یہ تُم لوگوں کے رب کی طرف سے تُم لوگوں کے لیے رعایت اور رحمت ہے ، لہذا جو کوئی بھی اِس کے بعد حد سے تجاوز کرے گا تو اُس کے لیے دردناک عذاب ہے گی سُورت البقرہ (2)/آیت 178،
اِس آیت شریفہ میں مُسلمان بھائیوں کا ہی ذِکر ہے، اور اُن سے ہی قِصاص لینے میں معاف کرنے کا ذِکر ہے ،
ہم اِس بات کا دعویٰ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اُن فرامین مُبارکہ کی روشنی میں کرتے ہیں جِنہیں میں ذِکر کر چکا ہوں ، جِن فرامین شریفہ میں مُسلمانوں اور کافروں کی مساوات کا اِنکار فرمایا گیا ہے ،
اور جی ہاں ، قِصاص لینے کا قانون مُسلمانوں کے لیے ہی ہے ، اگر کوئی کافر کسی مُسلمان کو قتل کرے، یا اُسے کوئی اور جسمانی نُقصان پہنچائے تو قِصاص کے احکام کے مُطابق اُس کافرسے قِصاص لیا جائے گا،
اور اگر کوئی مُسلمان کسی کافر کو قتل کرے، یا  جسمانی طور پرکوئی اور نُقصان پہنچائے تواُس مُسلمان سے قِصاص نہیں لیا جائے گا ، بلکہ دِیت لے کر اُس کافر کے وارثوں کو یا اُس کافر کو دی جائے گی ،
توجہ فرمایے،اللہ عزّ و جلّ نے فرمایا ہے﴿ وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً:::اور اللہ ہر گِز بھی کافروں کے لیے اِیمان والوں پر کوئی غلبہ نہیں دے گا سُورت النِساء(4)/آیت141،
اِس آیت شریفہ میں ہر قِسم کے غلبے کا ذِکر ہے ، اور دُنیا اور آخرت دونوں مُقامات میں غلبے کا ذِکر ہے ، خیال رہے کہ دُنیاوی معاملات اور دُنیاوی زندگی میں اگر کہیں کافر کسی طور مُسلمانوں پر حاوی نظر آتے ہوں تو وہ درحقیقت غالب نہیں ہوتے ، بلکہ مُسلمانوں کی اپنی ہی بد اعمالیوں کے نتیجے میں اُن پر مسلط کیے گئے ہوتے ہیں،
پس ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کافروں کو یہ غلبہ بھی نہیں دِیا گیا کہ کسی کافر کے بدلے میں مُسلمان سے قِصاص لیا جائے ،
اِس مسئلے کو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے بالکل صاف اور واضح اِلفاظ میں اعلان کروایا ، توجہ اور تدبر کے ساتھ مطالعہ فرمایے :::
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ نے بتایا کہ""" اُن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دیت کے(اور کچھ دیگر) احکام لکھے ہوئے موجود ہیں"""،
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اُن احکام کا ذِکر فرماتے ہوئے یہ حکم بھی ذِکر فرمایا کہ﴿لاَ يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ:::مُسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا """""، صحیح بخاری/حدیث/6915کتاب الدیات/باب31 لاَ يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْكَافِرِ،سُنن ابن ماجہ/کتاب الدیات/باب21 لاَ يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْكَافِرِ کی پہلی حدیث،سُنن الترمذی /کتاب الدیات/باب 16 مَا جَاءَ لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ،
حدیث کی دیگر کتب میں بھی یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ موجود ہے ، أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ کے مذکورہ بالا الفاظ اُن کے مجموعے میں سے اخذ کردہ ہیں ،
::::::: عَمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿لاَ يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ:::مُسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا سُنن الترمذی /کتاب الدیات/باب 17 مَا جَاءَ فِى دِيَةِ الْكُفَّارِ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """حَسنٌ صحیحٌ"""قرار دِیا،
::::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما و أرضاہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لاَ يُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ:::مُسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا سُنن ابن ماجہ/کتاب الدیات/باب21 لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ، کی تیسری حدیث ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """حَسنٌ صحیحٌ"""قرار دِیا،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان شریف ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن فرامین شریفہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ کافر کے قِصاص میں مُسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا ،
لہذا سورت البقرہ کی آیت شریفہ رقم 178،  جسے اوپر ذِکر کیا گیا، اُس میں مذکور قِصاص لینے میں سے اپنے بھائیوں کو معاف کرنے کی جو ترغیب فرمائی گئی ہے ، وہ مُسلمان بھائیوں کے لیے ہے،
اُمید ہے کہ، اِن شاء اللہ ،  یہ معلومات قارئین کرام کے لیے ،بین الاقوامی مَساوات ،،،،، بین الاقوامی اخوت یعنی بھائی چارہ،،،،، بین المذاھب بھائی چارہ،،،،، اِنسانی برابری،،،،، اِنسانی محبت ،،،،، محبت کی ز ُبان ،،،،، اتفاق بین المذاھب،،،،، اور اس سے ملتے جلتے گمراہ کرنے والے الفاظ کی حقیقت سمجھنے میں مدد گار ہوں، اور وہ جان جائیں گے کہ مُسلمان اور کافر بھائی بھائی نہیں ہیں ، اور نہ ہی ہو سکتے ہیں ، اور کسی کافر کو حسب و نسب ، قوم و قبیلے کی نسبت کے حوالے کے عِلاوہ بھائی نہیں کہا جا سکتا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اُن میں  سےبنائے جو اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات پر بلا چُوں و چراں اور اپنی ذاتی عقل ، خود ساختہ فلسفوں ، اور جہالت زدہ افکار کے دھوکوں سے دُور رہ کر عمل کرتے ہیں ۔ والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت :24/01/1434ہجری، بمُطابق08/12/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :19/01/1436ہجری، بمُطابق12/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment