صفحات

Sunday, December 14, 2014

:::::: خالص توحید ، دُنیا اور آخرت میں حقیقی عِزت کا بنیادی ذریعہ ::::::

:::::: خالص توحید ، دُنیا اور آخرت میں حقیقی عِزت کا بنیادی ذریعہ ::::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
مصرکے ایک ادیب،مصطفی المنفلوطی نے کیا ہی اچھی باتیں لکھِیں کہ:::
"""""اِسلام میں توحید کاعقیدہ اِس لیےبھیجا گیا کہ(دُنیا میں بھی)مُسلمانوں کی عِزت میں اضافہ ہو،اور اُنکے دِلوں میں خُودی،عِزت اورحمیت پیدا ہو،(اللہ کے عِلاوہ کِسی کی بھی)بندگی کے طوق سےاُن کی گردنیں آزاد ہو جائیں،پس اُن کے معاشرے میں کوئی کمتر معاشرتی اور معاشی حیثیت والا کِسی برتر حیثیت والے کے سامنے ذلیل نہ ہو،اور نہ ہی کوئی کمزور حیثیت والا کِسی طاقتورسے خوف زدہ ہو، اور نہ ہی کِسی حُکمران کا کِسی محکوم پر کوئی زور چلتا ہو سوائے حق(کی ادائیگی کرنے اورکروانے )اور اِنصاف کرنے کے لیے،
اِسلام کے اِس عقیدہِ توحید کا اثر پہلے زمانوں کے مُسلمانوں میں بڑی اچھی طرح پایا جاتا تھا ،
وہ لوگ عقیدہ توحید پر فخر کرتے تھے اور اُس پر قائم رہنے میں عِزت محسوس کرتے تھے اور اُس کے بارے میں بہت زیادہ غیرت مند تھے لہذا اُس کے ہر مُخالف کو انتہائی شدت سے رد کرتے تھے،ظُلم کرنے والے کے ہاتھ پر مار کر اُسے روکتے تھے،اور اگر حُکمران اپنی حد سے تجاوز کرتا تو اُسے منع کرتے تھے ، اور کہتے"""اپنی حد میں رُکے رہو اور اپنی حیثیت کے بارے میں خوش فہمی کا شِکار مت ہو ، کیونکہ تُم ایک مُخلوق ہو ، خالق کے غُلام بندے ہو ، نہ کہ رب جِس کی عِبادت کی جاتی ہے ، اور یاد رکھو کہ،لا إِلہَ اِلَّا اللَّہ ، یعنی  اللہ کے سِوا کوئی عِبادت کا حق دار نہیں"""،
یہ معاملہ تو اُن مُسلمانوں کا تھا جو توحید کے زمانے میں تھے، آج کے مُسلمانوں کا حال یہ ہے کہ اُن کے عقیدے میں شرک داخل چُکا ہے،جو کبھی کُھل کر ظاہر ہوتا ہے،کبھی کچھ کچھ ظاہر ہوتا اورکبھی اندر ہی اندر چُھپ چُھپ کر کام کرتا ہے،لہذا اُن کی گردنیں(غیر اللہ کے سامنے)جُھک چکی ہیں،پیشانیاں ذلیل ہو چکی ہیں،اُن کی شخصیات رُسوا ہو چُکی ہیں اُنکی قوتِ مدافعت تقریباً ختم ہو چکی ہے،اور وہ صِرف دُنیا کی زندگی میں آرام پانے کے لیے پستی اورذِلت کے ساتھ  زندگیاں گذارنے پر راضی ہو چُکے ہیں، لہذا اُن کے دُشمنوں کو اُن پر غالب ہونے کے راستے مل گئے ہیں،اور وہ دُشمن مُسلمانوں کے اموال،عِزتیں،شخصیات،وطن،گھر،حتیٰ کہ ذاتیات پر بھی غالب ہو گئے ہیں،اورمُسلمان دُنیا اور آخرت میں خَسارے والے ہو کر رہ گئے ہیں،
اللہ کی قَسم،مُسلمان ہر گِز اپنی کھوئی ہوئی عِزت،آزادی،اور دُنیا اور آخرت کی کامیابی اُس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ وہ اُسی عقیدہِ توحید پر واپس نہیں پلٹتے جِس کو وہ کھوچکے ہیں، لیکن جب تک مُسلمان اللہ کے عِلاوہ دوسروں (جیسا کہ نام نہاد ، خود ساختہ اور  لوگوں کی جہالت کے ذریعے بنے اور بنائے ہوئے پِیروں، ولیوں، شہیدوں عالموں، حضرتوں اور اعلی حضرتوں اور مُفتیوں وغیرہ کے سامنے ، اور بد کردار اور بے عمل ،سیاسی ، مذھبی اور معاشرتی راہنماوں ، اور حُکمرانوں وغیرہ )کے سامنے اُس طرح(بندگی اختیار کیے ہوئے) کھڑے ہوں گے جِس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے،اور اِن لوگوں کے بارے میں اِس قِسم کی سوچ رکھیں گے ، اور اِس قِسم کی باتیں کریں گے(جیسا سوچنا ، سمجھنا اور کہنا صِرف اللہ کا حق ہے کہ صِرف اُسی کے بارے میں ایسا سوچنا ، سمجھنا اور کہا جانے چاہیے)کہ"""آپ تو سردار ہیں ، آقا ہیں ، بادشاہ ہیں، بلکہ سید بادشاہ ہیں ،آپ کائنات میں تصرف کر سکتے ہیں،(آپ کی طاقت میں سب کچھ ہے،آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں،آپ رزق بڑھا گھٹا سکتے ہیں،اولاد دے سکتے ہیں،شِفاء دے سکتے ہیں، کسی پر بھی تنگی وارد کر سکتے ہیں ، اور کسی کو بھی سختی اور تنگی سے نجات دِلوا سکتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ، جب تک مُسلمان یہ کچھ کرتے رہیں گے )، اُس وقت تک مُسلمانوں کا اپنی کھوئی ہوئی  عِزت و حشمت کو پا لینا اور سُورج کے مغرب سے طُلُوع ہونے اور دریا کے اپنے منبع میں واپس داخل ہوجانے سے زیادہ مُشکل ہے """""،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اپنی ذات پاک و لا شریک کے بارے میں بہت ہی غیرت مند ہے ، اُسے اِس بات پر بہت ہی غیرت آتی ہے کہ ایسی قوموں کی عِزت کی جائے جِن پر اگر کوئی مُصیبت آن پڑے تو وہ اللہ کے علاوہ دُوسروں کی طرف بھاگتے ہیں ، کوئی کِسی پتھر کو پکارتا ہے ، تو کوئی کِسی قبر پر کھڑے ہو کر اندر دفن کیے جاچکے مُردے کو ، اور کوئی  قبر پر جائے بغیر ہی کہیں سے کِسی مُردے کو مدد کے لیے پکارتا ہے ، تو کوئی  کِسی مُردے، یا غائب زندہ شخص کے نام کی پکاریں لگاتا ہے ، المدد المد یا فُلاں ،المدد المدد یا فُلاں ،
جب کہ، اُس غائب زندہ شخص کے احوال میں یہ صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی کوئی صالحیت عطاء نہیں فرما رکھی جِس کے ذریعے ہو اِس پکارنے والے کی کوئی مدد کر سکے ، اِس کی طلب پوری کر سکے ،
اور کہیں کوئی اللہ کے عِلاوہ کسی اور کے نام کی نِدائیں بلند کرتا ہے ، جیسے نادِ علی وغیرہ ،
تو کہیں کوئی کسی مُردے یا غائب زندہ شخص کے نام کی  تسبیحاں کرتا ہے ،ہندؤں کی نقالی میں  بھجن(جنہیں قوالی کا نام دیا گیا )گاتا ہے ،
پس جِن قوموں کا  یہ حال ہو چکا ہو تو ،دِن بھر میں"""لا إِلہَ إِلّا اللَّہ"""کی لاکھوں تسبیحات کرنا بھی اُن کے لیے دُنیا اور آخرت میں کسی فائدے کا سبب نہیں بن سِکتیں ،  کیونکہ یہ صِرف  ز ُ بانی جمع خرچ ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ ، اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بتائے اور سِکھائے ہوئے عقیدہ توحید کا اِن تسبیحات ، اور ذِکر أذکار میں کچھ حصہ نہیں ہوتا ،
اگر اِن تسبیحات، ذِکر ا ٔذکار وِرد ،أوراد میں صحیح سچی توحید والا  عقیدہ ہو تو پھر عمل بھی اُسی کے مُطابق ہو ،
نہ کہ یہ ہو کہ """لا إِلہَ إِلّا اللَّہ""" کے اعلان کے ساتھ ، """لا إِلہَ إِلّا اللَّہ""" کی تسبیحات کرنے ، ذِکر و أذکار کرنے  کے ساتھ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق، یا اُن میں سے کوئی ایک حق ، اُس کی مخلوق میں سے کسی کو دیے جاتے ہو ں ،
پس جب تک  اللہ جلّ ثناوہُ کا نازل کردہ وہ عقیدہ توحید جو اللہ القوی القدیر نے اپنے آخری رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچایا ،  دِلوں ، دِماغوں ، اورہمارےباطن کے ہر پہلو  میں راسخ نہیں  ہوتا ،اُسوقت تک حقیقی طور پر دُنیا اور آخرت کی کوئی عِزت اور کامیابی مُیسر نہیں ،
دُنیاوی طور پر اگر کوئی سہولت ، آرام یا تحفظ ملتا ہے تو یقین رکھیے کہ وہ آخرت کی تباہی کے ساتھ ملتا ہے ،    
وہ اِس طرح کہ عقیدہِ توحید کے أہم اور بُنیادی نتائج میں سے یہ ہے کہ"""اللہ کی توحید کو ماننے اور اُس پر عمل کرنے والے بندے کی گردن اللہ کے عِلاوہ کِسی کے سامنے جھکنے سے بچ جاتی ہے  اور مخلوق میں سے کِسی کا خوف ، کِسی سے اُمید ، کِسی کی رضا مندی کے لیے کوئی کام کرنا ، وغیرہ ، قِسم کے تمام معاملات سے وہ آزاد ہو جاتا ہے،
صِرف اللہ عزّ و جلّ  کی ہی عِبادت کرتا ہے ،صِرف اپنے اور تمام تر مخلوق کے اکیلے و لا شریک خالق اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ،
اللہ  الغفار الرحمن الرحیم کی بخشش اور رحمت کے ملنے کی اُمید کے ساتھ ہر فائدے اور مشکل کشائی کی اُمید صِرف اور صِرف اللہ سے ہی رکھتا ہے ،
اپنی بدعملی پر نظر  رکھتے ہوئے ، اُس کی وجہ سے ، اللہ کی ناراضگی  کے سبب کِسی بھی نقصان کا خوف بھی صِرف اور صِرف اللہ کی طرف سے رکھتا ہے ،
پس صِرف اور صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرتا ہے ، اور یہ ہی حقیقی عِزت اور سب سے بُلند بُزرگی ہے ، اور صِرف اِسی طرح بندے کی دُنیا اور آخرت میں حقیقی بھلائی اور کامیابی  یقینی ہو سکتی ہے ،
یقین کے ساتھ توحید کا اِقرار کر کے اور پھر اپنے قول و فعل سے اُس کی تصدیق کرنے والوں کے لیے  دُنیا کی عِزت و شان و شوکت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے﴿ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الأَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضَی لَہُم وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِہِم أَمناً یَعبُدُونَنِی لَا یُشرِکُونَ بِی شَیئاً وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ ھُمُ الفَاسِقُونَ::: تُم لوگوں میں سے جو اِیمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن سے اللہ وعدہ کرتا ہے کہ ضرور اُن لوگوں کو زمین کی خِلافت دے گا جِس طرح اُن سے پہلے(اِیمان لانے اور نیک عمل کرنے)والوں کو دِی اور ضرور اُن کے لیے اُن کے اُس دِین کو مضبوط کر دے گا جِسے اُس نے اُن کے لیے پسند کیا ہے ، اور ضرور اُن کے خوف کو امن سے بدل گا (لہذا)وہ صِرف میری ہی عِبادت کریں اور میرے ساتھ کِسی بھی چیز کو شریک نہ کریں ، اور جو اِس(واضح اور عظیم وعدے ) کے بعد بھی اِنکار کرتا ہے(قولاً یا عملاً) تو ایسا کرنے والے یقینا فاسق ہیںسورت النُور(24)/ آیت55،
اور آخرت کے بارے میں اللہ العلیم الخبیر کا فیصلہ ہے کہ﴿وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدخِلُہُم جَنَّاتٍ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً لَّہُم فِیہَا أَزوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَنُدخِلُہُم ظِـلاًّ ظَلِیلا::: اور جو لوگ اِیمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ہم ضرور جلد ہی اُنہیں ایسے باغات میں داخل کریں گے جِن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں ، وہ لوگ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں اُن کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی،اور ہم اُنہیں گہرے(ٹھنڈے)سایوں میں داخل کریں گے سورت النُور(24)/ آیت57،
جب عقیدہِ توحید اپنے صحیح معنی  ٰ اور مفہوم کے ساتھ دِل میں قائم اور شخصیت پر باطنی اور ظاہری طور  پر نافذ ہو جاتا ہے تب ہی اُس کا کوئی فائدہ ہوتا ہے ،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سمجھایا کہ ﴿ أَشہَدُ أَن لَا إِلَہَ إلا اللہ وَأَنِّی رسول اللَّہِ لَا یَلقَی اللَّہَ بِہِمَا عَبدٌ غیر شَاکٍّ فِیہِمَا إلا دخل الجَنَّۃَ ::: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ اِن دونوں (گواہیوں) میں شک کے بغیر اللہ سے مِلا تو وہ ضرور جنّت میں داخل ہو گاصحیح مُسلم/حدیث27/کتاب الاِیمان/باب10 ، پس جو کوئی تو اِن دونوں کلماتِ توحید کے بارے میں کوئی شک رکھے بغیر، مکمل یقین کے ساتھ اِن کے مُطابق زندگی بسر کرے گا اللہ تعالیٰ یقینا اُسے جنّت میں داخل فرمائے گا ،
مزید واضح طور پر اِرشاد فرمایا﴿ مَن مَاتَ لاَ یُشرِکُ بِاللَّہِ  شیئًا دَخَلَ الجَنَّۃَ وَمَن مَاتَ یُشرِکُ بِاللَّہِِ دَخَلَ النَّارَ ::: جو اِس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کِسی بھی چیز کو شریک نہ بناتا تھا تو وہ جنّت میں داخل ہو گا ، اور جو اِس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ(کِسی بھی)چیز کو شریک بناتا تھا جہنم میں داخل ہو گا صحیح مُسلم/حدیث 93/کتاب الاِیمان/باب40،
اگر کوئی لاکھوں دفعہ """ اشھدُ أن لا اِلہ اِلا اللہ و أشھد أن مُحمدا عبدہ و رسولہ """کہتا رہے لیکن اللہ کے ساتھ دوسروں کو حاجت روا ، مشکل کُشا ، داتا ، غوث ، دستگیر ، ہر جگہ حاضر و ناظر ، اللہ کا نُور ، وغیرہ سمجھتا رہے اور اِسی کے مطابق عمل کرتا ہوا مر جائے تو اُسے زُبانی کلمہ توحید ادا کرتے رہنے کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا ، اِسی طرف اِشارہ فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ أَسعَدُ النَّاس بِشَفَاعَتِی یوم القِیَامَۃِ مَن قال لَا إِلَہَ إلا اللَّہَ خَالِصًا من قَلبِہِ أو نَفسِہِ ::: قیامت والے دِن میری شفاعت کا سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والے لوگ وہ ہوں گے جِنہوں نے سچے دِل یا جان سے لا اِلہ اِلا اِللہ کہا ہو گاصحیح البُخاری/حدیث99/ کتاب العِلم/باب33،
اِس مسئلہ کے حق میں قُران و سُنّت میں بہت دلائل ہیں ، کہ خلوص کے ساتھ، قولاً و عملاً اپنائی گئی اللہ کی توحیدِ، ہی دُنیا اور آخرت میں کامیابی اور عِزت اور نفع مندی کا ذریعہ ہے ،
اور جو لوگ توحید کا ز ُبانی یا عملی طور پر اِنکار کرتے ہیں اُن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی کا فیصلہ ہے کہ ﴿ إِنَّہُ مَن یُشرِک بِاللّہِ فَقَد حَرَّمَ اللّہُ عَلَیہِ الجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن أَنصَار::: بے شک جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا یقینا اللہ نے اُس پر جنّت حرام کر دِی ہے اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور (آخرت میں)ظالموں(شرک کرنے والوں)کا کوئی مدد گار نہیں ہوگا نہیںسورت المائدہ(5)/ آیت 72،
اللہ تعالیٰ اپنی توحید کا کلمہ پڑہنے والے ہر ایک کو اُس کلمہ کی مکمل سمجھ عطاء فرمائے اُس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے اور کامل صاحبِ اِیمان بنائے اور تمام نیک عمل قُبُول فرما کر اُن میں سے بنائے جِنہیں دُنیا اور آخرت کی عِزت اور کامیابی دینے کا وعدہ ہے ۔
 والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تاریخ کتابت : 3/11/1428 ہجری ، بمطابق ، 13/11/2007عیسوئی،
تاریخ تجدید : 20/02/1436 ہجری ، بمطابق ، 12/12/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ کے حصول کے لیے درج ذیل ربط پر زیارت فرمایے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment