صفحات

Monday, April 6, 2015

:::::: وہ ہم میں سے نہیں :::::::

فہرست مضامین
                                     
:::مقدمہ ::: 3
پہلا  کام 1   ::::مُسلمانوں پر ہتھیار اُٹھانا ::::: 7
دُوسرا کام 2   :::::مُسلمانوں کے ساتھ دھوکہ بازی کرنا ::::: 7

تیسرا کام 3 :::: (غم و غصے کی حالت میں) اپنے گال پیٹنا،گریبان پھاڑنا،اور زمانہ جاھلیت والی باتیں کرنا ، یا اُن باتوں کے جیسی باتیں::::: 9
چوتھا کام 4   :::: قُرآن کریم کو بہترین اور دُرُست انداز و آواز میں نہ پڑھنا ::::: 10

پانچواں کام 5 :::کِسی خادم کو اُسکے مالک کے،اور کسی بیوی کو اُسکے خاوند کے لیے بگاڑنا(اُن کےخِلاف کرنا)::: 22
چَھٹا کام 6   :::: اللہ تبارک وتعالیٰ کے عِلاوہ کِسی اور کی قَسم اُٹھانا، قَسم کھانا ::::: 23
ساتواں کام 7   ::::: کِسی کی کوئی چیز بغیر حق کے لینا ، چھیننا، ::::: 32
::::: نوحہ کرنے اور کروانے والوں(مذکر و مؤنث) کا انجام ::::: 36

آٹھواں کام 8 :::::سانپوں کواِس ڈر سے قتل نہ کرنا کہ وہ انتقام لیں گے ، یا  انتقام لیتے ہیں::::: 39
::::: کِس قِسم کے سانپوں کو مارنے کی ممانعت ہے ::::: 41
::::: کن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی ::::: 45
::::: کِن سانپوں کو تنبیہ کی جائے گی ::::: 52
نواں کام 9   :::::::تِیر اندازی سیکھنے کے بعد اُسے ترک کردینا، بُھلا دینا ::::: 55
دسواں کام 10   ::::اپنی چیزکےعِلاوہ کِسی اور(کی)چیزکےبارےمیں اپنا ہونے کا دعویٰ کرنا:::: 59
گیارواں کام ، بارہواں کام،اور تیرہواں کام 11،12،13 t   60
::::: چھوٹوں پر رحم نہ کرنا، بڑوں کی عِزت نہ کرنا ، عُلماء کی عِزت نہ کرنا ::::: 60
چودہواں کام 14   ::::: مونچھیں چھوٹی نہ کرنا ::::: 61
پندرہواں کام 15   ::::: غیر مُسلموں کی مُشابہت  اختیارکرنا، نقالی کرنا ::::: 65
سولہواں کام 16   :: شگون لینا (فال نکالنا ، زائچہ بازی اور اِس طرح کے دُوسرے کام):: 69
سترہواں اور اٹھارہواں  کام 17،18   
:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت سے مُنہ پھیرنا ، اور رہبانیت اختیار کرنا ::: 73
٭1٭  :::خشیت اور تقویٰ کا فرق ::: 80
اُنیسواں  کام  19   
:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت کے خِلاف بنے ہوئے دینی  اور دُنیاوی حکمرانوں، راہنماؤں ، وغیرہ کی ہاں میں ہاں ملانا ::: 81
بیسواں  کام  20   
:::مُسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنا ، تفرقہ بازی، جماعت سازی ، حِزب بندی وغیرہ کرنا::: 83
:::::: کون سی جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم دِیا گیا ہے ؟ :::::: 85
اکیسواں  کام  21    90
:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کی دلیل کے بغیر کوئی عقیدہ رکھنا ::: 90
:::::: سب سے پہلی مخلوق :::::: 91
:::::: خلق ، اور جعل ، تخلیق کرنا ، اور بنانا ، کا فرق :::::: 92
بائیسواں  کام  22   :::ناانصافی  ،اور بے رحمی کرنا ::: 93
تئیسواں کام  23   :::مخالف جِنس کی مُشابہت اختیار کرنا، نقالی کرنا ::: 95
الأحادیث الضعیفہ أو الموضوعۃ ::: کمزور ، ناقابل حُجت ، خود ساختہ جھوٹی روایات  96
:::ماں اور اولاد کے درمیان جُدائی ڈالنے والے کا انجام ::: 100
::::: ریشم اور دیباج پہننے اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے کا حُکم ::::: 101
:::::عقیدے سے متعلق ایک  مسئلہ::::: 104
::::: ریشم و دِیباج اور سونا پہننے ، اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے متعلق فقہی مسائل ::::: 104
:::اِسلامی لباس کی پابندیاں یا شرائط::: 105
:::مُلحق رقم (1) ::: اے سچے مولانا ::: 113

:::مقدمہ :::

الحمدُ للّہ وحدہٗ و الصّلاۃُو السّلامُ عَلیٰ مَن لا نبی بعدہٗ
تمام ترخالص تعریف اللہ کےلیےہےاوراللہ کی برکتیں اورسلامتی ہواُس پرجِس کے بعدکوئی اورنبی نہیں،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
ہمارےماحول اورمعاشرےمیں،ہماری عادات میں،بہت سےأقوال وأفعال،یعنی کام اور باتیں ایسےشامل کیےجاچکےہیں جِن کوعام طورپرکوئی أہمیت نہیں دِی جاتی لیکن وہ بہت بڑے جُرم ہیں،اور اُن جرائم کی سزا ہمارے محبوب، اللہ کی طرف سے وحی نازل ہونے پر فیصلے صادر فرمانے والے،خاتم المعصومین، اِمام الأنبیاء و المُرسلین،خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ مقرر فرمائی کہ وہ کام کرنے والے کو اپنی مِلت سے خارج قرار دے دِیا،
جِس کانتیجہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قیامت کے دِن اُس شخص کا حشر اِیمان والوں میں نہیں ہو گا،اور نہ ہی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت پائے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے مجرموں میں شامل ہونے سے محفوظ رکھے ، آیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے جرائم ہیں جِن کی سزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ طے فرمائی کہ اُن کو کرنے والے ﴿ہم میں سے نہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان﴿فَلیسَ مِنّا::: پس وہ ہم میں سے نہیںکی شرح اورتفسیر میں اُمت کے آئمہ رحمہم اللہ اجمعین نے دو باتیں لکھی ہیں:::
::::: ( 1 ) ::::: إِمام أبی الحسن الحنفی،السندی نےسُنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھا """""﴿فَلیسَ مِنّا::: پس وہ ہم میں سےنہیںکاظاہری معنی ٰتویہ ہی ہےکہ"مُسلمانوں میں سےخارج ہونا"،لیکن اِس کامعنی  ٰیہ بھی ہوسکتاہےاوریہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری سُنّت کی پیروی کرنے والوں میں سےنہیں"""""۔
::::: ( 2 ) ::::: إِمام ابن حَجرالعسقلانی رحمہُ اللہ تعالیٰ،نے فتح الباری شرح صحیح البُخاری/کتاب الفتن/باب7،میں ذِکر کی گئی پہلی اور دوسری حدیث شریف جو کہ ہماری اِس کتاب کی پہلی حدیث ہے،کی شرح میں لکھا:::
"""""﴿فَلیسَ مِنّا::: پس وہ ہم میں سےنہیںکامطلب ہے،کہ وہ ہمارےطریقے پرنہیں،یایہ کہ وہ ہمارے طریقے کی أتباع کرنے والوں میں سے نہیں،کیونکہ مُسلمان کا دوسرے مُسلمان پر حق تو یہ ہے کہ وہ اُس کی مدد کرنے کے لیے،اورکافر یا باغی سے لڑائی کرنے کے لیے ہتیھار اُٹھائےنہ کہ اپنے نیک مُسلمان بھائی سےلڑنےیااُسےقتل کرنے کے لیے اُس پر ہتھیار تان کر اُسے ڈرائے،جیسا کہ دُوسری حدیث میں ہے﴿مَن غَشّنَا فَلّیسَ مِنَّا وَ لَیسَ مِنَّا مَن ضَربَ الخُدُودَ ، أو شَقَ الجُیُوبَ:::جِس نے ہمیں دھوکہ دِیا تو وہ ہم میں سے نہیں اور جِس نے(غم و غصے کی حالت میں اپنے)گال پیٹے،یاگریبان پھاڑا
(اِس مفہوم کی حدیث ہماری اِس کتاب کی دوسری حدیث ہوگی إِن شاء اللہ تعالیٰ)تو یہ(دُوسری)حدیث مُبارک یہ وضاحت کرتی ہےکہ جو کوئی اِس حدیث شریف میں مذکور کاموں کو حلال سمجھے گا(یعنی ہر وہ کام جِس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ کام کرنے والا ہم میں سے نہیں وہ کام حرام ہے اور جو کوئی اُس کام کو حلال سمجھے گا)اُن کاموں کو کرنا دُرُست سمجھے گا،اور وہ کام ، یا اُن کاموں میں سے کوئی کام کرے گا(یا کروائے گا، اور اگر نہ بھی کرے لیکن انہیں حلال سمجھتا ہو)تو وہ اُمتء محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ و السلام سے خارج ہو گا،
اُس کام کو کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اُس حرام کام کو حلال سمجھنے کی وجہ سے خارج ہو گا،
(یعنی اگر وہ اُس کام کو حلال یا حرام کی تمیز رکھے بغیر صِرف معاشرتی رسم وغیرہ کے طور پر کرے گا تو اُمید کی جا سکتی ہے کہ اُس پر گرفت نہ ہو،اور عین مُمکن ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ہوجائے)،
اور سلف رحمہم اللہ کی أکثریت اِس بات کو أولیت دیتی ہےکہ"""اِس خبر(یعنی کہفَلیسَ مِنّا::: پس وہ ہم میں سے نہیں)کے اِلفاظ کی کوئی تأویل نہیں کی جانی چاہیے اور اُس کو اُسی مفہوم میں سمجھنا چاہیے جو اِس میں بیان فرمائے گئےاِلفاظ میں ظاہر ہوتا ہے،تا کہ اِس میں جو سختی ہے وہ برقرار رہے (اور پڑھنے،سننے والوں کو یہ احساس رہے کہ یہ کام کرنے کی سزا کوئی معمولی سزا نہیں)"""،
سُفیان بن عُیینہ(رحمہُ اللہ تعالیٰ)ہر اُس شخص کی بات کو رَد کیا کرتے تھے جو(پس وہ ہم میں سے نہیں)کی تأویل کرتے ہوئے یہ کہتا تھا کہ اِس کا معنی  ٰیہ ہے کہ،وہ ہمارے راستے پر چلنے والا نہیں ہے،اور اِس کی تأویل کرنے سے باز رہنے کو أولیت دیا کرتے تھے،
اور(یہ بھی سمجھ لیجیے کہ)اِس حدیث شریف میں جو وعید ہے وہ بغاوت اور ظلم کرنے والےمُسلمانوں پر ہتھیار اُٹھانے والوں کے لیے نہیں ہے،اور نہ ہی کِسی ظالم کے ظُلم سے بچاؤ کرتے ہوئے اُس سے لڑائی کرنے والےکے لیے ہے"""""۔
تو یہ بات واضح ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان شریف کو اِس کے ظاہری معنی  ٰاورمفہوم کے مُطابق ہی سمجھا جائے،نہ کہ کوئی تأویل کر کے إِس کا کوئی اور معنی  ٰ یا مفہوم بنایا جائے گا،
لہذا اِس وعید کا مطلب یہ ہی نکلتا ہے کہ ہر وہ کام حرام ہے  جِس کے کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اِرشاد فرمایا کہ﴿فَلیسَ مِنّا::: پس وہ ہم میں سے نہیںیا یہ اِرشاد فرمایا کہ ﴿فَلیسَ مِنّی::: پس وہ مُجھ میں سے نہیں،
اور اُس کام کی برائی ،گناہ اور حرام ہونے کو جاننے کے بعد بھی اُس کام کو کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی ملت سے خارج قرار دِیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم آخرت میں اُس سے بری الذمہ ہیں،
لہذاقیامت کے دِن اُس کا حشر اِیمان والوں میں نہیں ہو گا ، اور نہ ہی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت پائے گا ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر کلمہ پڑھنے والے مُسلمان کو وہ صحیح دِین سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے جو دِین اُس نے اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا تھا،اور اُسی پر ہمارے خاتمے فرمائے اور اُسی پر ہمارا حشر فرمائے،اور اُس چیز سے محفوظ رکھے جو نہ تو اللہ کی طرف سے ہے،نہ اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ہی اللہ کے چُنیدہ، إِیمان اور تقویٰ سے لبریز دِلوں اور کِردار والے صحابہ رضی اللہ عنہم و أضاھم اجمعین کی طرف سے ہے، بلکہ اُن لوگوں کی طرف سے ہے جنہیں وہ مقام دے دیا گیا ہے جِس کے وہ حق دار نہیں ہیں ، و اللَّہ المُستعان و عَلِیہِ التکلان۔
 والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
طلبگارء دُعا ء ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :25/04/1427ہجری،بمُطابق23/05/2006عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب و سنت ڈاٹ کام پر مکمل کتاب کے مطالعے اور برقی نسخے کے حصول کے لیے درج ذیل ربط کی زیارت فرمایے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment