صفحات

Tuesday, May 12, 2015

:::::::راز داری عقل اور عِزت والے مؤمنین کی صفت ہے:::::::

::::::: سُنّت شریفہ کے باغ میں سے :::::::
:::::::راز داری عقل اور  عِزت والے مؤمنین  کی صفت ہے:::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
راز ایک امانت ہوتا ہے ، بغیر کسی مقبول شرعی عُذر کے  اُس کوظاہر کرنا ، اُس کو نشر کرنا جائز نہیں ،
کسی راز کو راز رکھنا ،  دینی اور دُنیاوی دونوں ہی اطراف سے عموماً  کامیابی اور عِزت کا سبب بنتا ہے ، اورفائدہ مند  مقاصد اور اجتماعی  مصلحتوں کے حصول کا سبب بنتا ہے ، باذن اللہ ،
اِس کے برعکس رازداری کو چھوڑنا ، لوگوں کے  رازوں کی کھوج کرنا ، اُنہیں کھولنا ، اُنہیں نشر کرنا ، عموماً ذِلت ، پریشانی اور لوگوں کے درمیان حسد ،  دُشمنی اور عدوات کا سبب بنتا ہے ، باذن اللہ ،
اور اِن سب آخر الذِکر کاموں سے ہمیں اللہ اور اُس کے  رسول کریم  محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، پس یہ سب کام حرام ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے حُکم فرمایا ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ:::اے اِیمان لانے والو ، زیادہ گُمان کرنے سے باز رہا کرو ، کیونکہ کچھ گُمان گناہ (بھی)ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے حال کی جاسوسی مت کیا کرو ، اور نہ ہی (تُم لوگوں میں سے )کوئی کسی(دوسرے) کی غیبت کرے ، کیا تُم میں سے کوئی  یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی (کی لاش )کا گوشت کھائے،اِس کو توتم ناپسند کرتے ہو(لیکن گمان بازی،جاسوسی اورغیبت کرنے کو پسند کرتے ہو،پس ایسے کاموں سے باز رہو)اور  الله(کے غصے اور عذاب) سے بچو ، بے شک الله بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہےسورت الحُجرات(49)/آیت12، 
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حُکم فرمایا ہے ﴿ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوا ، وَلاَ تَجَسَّسُوا ، وَلاَ تَنَاجَشُوا ، وَلاَ تَحَاسَدُوا ، وَلاَ تَبَاغَضُوا ، وَلاَ تَدَابَرُوا ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا::: خبردار گُمان سے باز رہنا کیونکہ گُمان یقیناً سب سے بڑھ کر  جھوٹی  بات ہے ، اور (اس لیے)تُم لوگ(آپس میں ) ایک دوسرے کے(معاملات جاننے کے لیے ان کے ) بارے  میں سُن گُن نہ لیا کرنا ، اور نہ ہی(ایک دوسرے کی )جاسوسی کرنا ، اور نہ ہی(ایک دوسرے کے لیے)تناجش کرنا اور نہ حسد کرنا ، اور نہ ہی(تُم لوگوں کے درمیان ) آپس میں نفرت پیدا کرنے والے کام کرنا ، اور نہ ہی(ایک دو سرے کی ضرورت میں مدد کرنے سے)پیٹھ پھیرنا اور اللہ کے بندے ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہنا صحیح البخاری/ حدیث6066/کتاب الادب/باب58 ، صحیح مُسلم /حدیث6701 /کتاب البر والادب و الصلۃ/ باب9 ،                    
یہ روایت صحیح البخاری میں کئی جگہ منقول ہے ، جس میں """ولا تنافسوا """ کا ذِکر نہیں ،اور/کتاب الادب/باب 58  میں """ ولاتناجشوا """مذکور ہے ، کتاب النکاح /باب 46میں یہ اضافی الفاظ بھی منقول ہیں کہ﴿ولا يخطب الرجل على خطبة أخيه حتى ينكح أو يترك:::اور نہ ہی کوئی(مُسلمان)مرد اپنے(مُسلمان)بھائی کے(شادی کے لیےطے شدہ ) رشتے(یا جہاں رشتے کی بات ہو رہی ہو، وہیں) پر(اپنے یا کسی اور کے) رشتے کی بات کرے ، یہاں تک کہ پہلے والا یا تو نکاح کر لے ، یا رشتہ چھوڑ دے ،
صحیح مُسلم کی روایت میں ایک لفظ کا فرق ہے "تناجشوا" کی بجائے  "تنافسوا"  ذِکر کیا گیا،
:::::فقہ الحدیث  :::::
اِ س حدیث شریف میں منع کیے کاموں میں سے کچھ ایسے بظاہر ایک ہی جیسے لگتے ہیں ، لیکن اِن میں فرق ہے ،
حدیث شریف میں بیان کیے گئے  کاموں کی کیفیت کو سمجھے بغیر اِن سے بچنا کافی مشکل ہے ، لہذا  آگے چلنے سے پہلے ہم اِن کاموں کی کیفیت کے کا تعارف حاصل کرتے ہیں ،
::: ظن ، جسے  اُردُو میں عام طور پر گُمان کہا جاتا ہے ، یہ گُمان اکثر  رائی کے پربت کے مطابق ، کچھ بہت ہی معمولی سے  معلومات کی بنیاد پر ہوتا ہے ، اور اکثر اوقات وہ معلومات بھی غیر یقینی ہوتی ہیں ، اور اُس سے کہیں زیادہ یہ گُمان اِنسان کی اپنی سوچوں اور اُس سے کہیں زیادہ شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے ہوتا ہے ،
اِس حدیث شریف میں ایسے ہی گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات فرمایا گیا ،
::: تَحَسَس ، کسی کے ذاتی پوشیدہ معاملات کی سُن گُن لینا ،جیسا کہ چُھپ کر کچھ دیکھنے یا سُننے کی کوشش کرنا،
::: تَجَسَس، لوگوں کے خفیہ معاملات کی خفیہ طور پر خبر حاصل کرنا ،
تحسس ، اور تجسس میں فرق یہ ہوا کہ تحسس کسی کے ذاتی معاملات کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرنا ہے ،
اور تجسس ، کسی کے خفیہ معاملات کی مکمل با ثبوت ، یا زیادہ سے زیادہ یقینی خبر حاصل کرنا ہے ،
::: تناجش،کسی چیز کی قیمت میں خریدنے کی نیت کے بغیر ، دوسروں کو پھنسانے کے لیے ، یا بازار میں اُس کی قیمت بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ قیمت پیش کرنا ، (بڑھ بڑھ کر بولی لگانا)،
کچھ لوگ یہ ناجائز کام صِرف چیزوں کی قیمت بڑھانے کے لیے ہی نہیں کرتے بلکہ نکاح کے مہر بڑھانے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں ،
::: تباغض، ایک دوسرے کے لیے ، یا لوگوں کے درمیان پیار و محبت کی بجائے ، نفرت اور بغض پھیلانا،
::: تدابر،مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا ، منہ ُ پھیر لینا، پیٹھ دِکھا دینا ،    
صحیح مُسلم والی روایت میں جو لفظ تنافس آیا ہے تو اُس کا مطلب کسی چیز کے حصول کے لیے دُوسروں کے ساتھ اِس طرح مقابلہ بازی کرنا ہے کہ خواہ دُوسروں کو نقصان ہوجائے ، لیکن وہ چیز  اِسی مقابلے کرنے والے کو ملے ،
کسی چیز کے حصول کے لیے اِس طرح کی مقابلہ بازی  مُسلمانوں میں ایک دُوسرے کے خِلاف کرنا گناہ ہے ،  اور غیر مُسلموں کے ساتھ بھی معاملے اور اُن کے حقوق کو مد نظر رکھنا لازم ہے ،
تنافس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کسی چیز کے حصول کے لیے دُوسروں سے بڑھ کر محنت کرنا ،  مقابلہ کرنا ، لیکن اُس میں یہ اِرداہ نہ رکھنا کہ خواہ دُوسروں کو نقصان ہو مگر یہ چیز مجھے ہی ملے ،  
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا احکام شریفہ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ گُمان کی کثرت جھوٹ ہی ہوتی ہے اور پھر  اس جھوٹ  کی خواہش پر عمل پیرا ہو کر طرح طرح کےایسے کام ہوتے ہیں جو دینی ، دُنیاوی اور اُخروی اعتبار سے سوائے پریشانی اور نقصان کے کچھ اور نہیں دیتے ،
آخر میں ہم اپنے اِس درس کے عنوان کی طرف واپس ہوئے کہتے ہیں  کہ بغیر کسی شرعی عُذر ، اور اجتماعی فائدے کی ضرورت کے ، دُوسروں کے احوال کا  تحسس کرنا، اور تجسس کرنا ، یعنی کسی کے چُھپے ہوئے ، باطنی معاملات کی کھوج کرنا ،  جسے ہم جاسوسی کرنا کہتے ہیں ، گناہ ہے ،
اور اِس کے علاوہ بھی صِرف دُنیاوی لحاظ سے بھی شدید نقصانات کا سبب ہے ، لہذا ہر صحیح عقل والا شخص جو اپنے اور دوسروں کے فائدے اور اچھائی کی فِکر رکھنے والا ہوتا ہے اِس برائی سے محفوظ رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور رازداری کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ، کیونکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کسی دوسرے کا رازاِفشاء کرنا خود اپنا راز افشاء کرنے سے کہیں زیادہ برے نتائج کا سبب ہوتا ہے،
پس راز داری کو برقرار رکھنا  عقل و عِزت والوں کی صِفت ہے ، لیکن ایسے راز جن کو راز رکھنے میں مسلمانوں اور انسانوں کے لیے نقصان ہو، اُنہیں افشاء  نہ کرنا  نہ تو عقل مندی ہے، اور نہ ہی اُنہیں فاش نہ کرنے میں عِزت داری باقی رہنے کا امکان رہتا ہے ، بلکہ اکثر اوقات اجتماعی بے عزتی کا سبب بن جاتا ہے،
لہذا مُسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے معاملات کو راز نہ جانے جن کے چھپے رہنے سے مُسلم معاشرے اور انسانی معاشرے کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہوں ، مثلاً اگر کوئی مُسلمان کسی شخص کے بارے میں یہ جانتا ہو کہ وہ شخص چوری چھپے گناہ اور برائی کا سبب اور سامان بنتا ہے اور معاشرے میں ایک برائی کو پھیلا رہا ہے تو اُس شخص کے ایسے کام کو اُس کا ذاتی راز سمجھ کر چھپایا نہیں جانا چاہیے ، بلکہ مناسب طور پر نصیحت کرنے کے بعد بھی اگر وہ شخص گناہ اور برائی کی ترویج سے باز نہ آئے تو متعلقہ ذمہ دار لوگوں کو اُس کے بارے میں بتانا چاہیے ، اور اگر وہ متعلقہ ذمہ دار لوگ بھی اُس برے شخص کو روک نہ پائیں تو عوام الناس میں اُس کی برائی کی خبر کرنی چاہیے تا کہ لوگ اُس کے شر سے محفوظ رہنے کی کوشش کر سکیں ، اور اُس کے شریر ساتھیوں کی پہچان ہو سکے ۔
اور یہ بھی سمجھ لیجیے اور اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ ،  گمان (قیاس آرائیوں،خود خیالیوں ) کے مُطابق عمل کرنے والے  لوگ اللہ کے ہاں فاسق ہوتے ہیں،خواہ بظاہر کلمہ گو مُسلمان ہی ہوں،اور ایسے لوگ ہمیشہ گمراہ رہتے ہیں ،کبھی حق تک نہیں پہنچ پاتے﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ::: اور (حقیقت یہ ہے کہ) اِن میں سے اکثر لوگ محض قیاس و گمان  کے پیچھے چلتے ہیں ،(اور)بےشک حق بات کو سمجھنے  کے لیے قیاس و گمان ذرا بھی کام نہیں دیتے  سُورت یُونس(10)/آیت36،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر قائم رہتے ہوئے زندگی مکمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 26/08/1433ہجری،بمُطابق،16/07/2012،
تاریخ تجدید و تحدیث : 21/07/1436ہجری،بمُطابق،10/05/2015۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کے ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے :




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment