صفحات

Saturday, July 18, 2015

::::: بچوں کو مسجد میں لانے ، اور اُنہیں صفوں میں کھڑے کرنے کے مسئلے کا بیان:::::

:::::  بچوں کو مسجد میں لانے ، اور  اُنہیں صفوں میں کھڑے کرنے کے مسئلے کا بیان:::::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہیے ، اور اگر مسجد میں بچے ہوں تو لوگ اُنہیں اُن کی جگہ سے نکال کر پچھلی صفوف میں دھکیل دیتے ہیں ،
جبکہ بچوں کے درمیان تمیز رکھے بغیر یہ  رویہ اختیار کرنا دُرُست نہیں کیونکہ اِس کی کوئی دلیل ہمیں قران کریم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت سے ایسا کرنے کی کوئی دلیل میسر ہے ،
اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ ، بلا تمیز و لحاظ ایسا رویہ اختیار کرنا بچوں کو مسجد اور نماز وغیرہ سے متنفر کرنےکا سبب بھی بنتا ہے ،
جو بچے مسجد میں آ کر بدتمیزی والا رویہ رکھتے ہوں ، کھیل کود کرتے ہوں ، شور شرابہ کرتے ہوں ، بڑوں کی بات نہ مانتے ہوں ، اور دوران نماز صف میں آرام و سکون کے ساتھ کھڑے نہ رہتے ہوں ، تو ایسے بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہیے ، کیونکہ اُن یہ سب حرکات یا اِن میں سے کوئی حرکت دیگر نمازیوں کے لیے پریشانی اور نماز میں خلل کا سبب بنتی ہے ، اور ایسے ہر کام سے منع فرمایا گیا ہے جو دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل کا سبب ہو ، خواہ وہ کام نیک ہی ہو ،ا ور عِبادات میں سے ہی ہو ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿إِنَّ الْمُصَلِّىَ يُنَاجِى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ بِمَا يُنَاجِى رَبَّهُ وَلاَ يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقِرَاءَةِ :::بے شک نمازی(نماز کے ذریعے)اپنے رب عزّ و جلّ سے (سرگوشی والی کیفیت )میں بات کر رہا ہوتا ہے ، لہذا ہر نمازی خیال رکھے کہ وہ اپنے رب سے کیا بات کر رہا ہے ،اور تُم لوگ(قُران کی ) قراءت کرتے ہوئے ایک دوسرے پر آواز اونچی مت کیا کرومُسند أحمد/حدیث5473/مُسند عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہما) میں سے حدیث 932،
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ﴿أَمَا إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِى الصَّلاَةِ فَإِنَّهُ يُنَاجِى رَبَّهُ فَلْيَعْلَمْ أَحَدُكُمْ مَا يُنَاجِى رَبَّهُ وَلاَ يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقِرَاءَةِ فِى الصَّلاَةِ::: بے شک تو جب تُم لوگوں میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ (نماز کے ذریعے)اپنے رب عزّ و جلّ سے (سرگوشی والی کیفیت )میں بات کر رہا ہوتا ہے ، لہذا وہ  خیال رکھے کہ وہ اپنے رب سے کیا بات کر رہا ہے ،اور تُم لوگ نماز پڑھتے ہوئے(قُران کی) قراءت (اور دیگر الفاظ پڑھنے اور کہنے  کے ذریعے) ایک دوسرے پر آواز اونچی مت کیا کرومُسند أحمد/حدیث5473/مُسند عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہما) میں سے حدیث 932،
اور مؤطا مالک میں یہ روایت ہے کہ ﴿ إِنَّ الْمُصَلِّىَ يُنَاجِى رَبَّهُ فَلْيَنْظُرْ بِمَا يُنَاجِيهِ بِهِ وَلاَ يَجْهَرْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ بِالْقُرْآنِ:::بے شک نمازی(نماز کے ذریعے)اپنے رب سے (سرگوشی والی کیفیت )میں بات کر رہا ہوتا ہے ، لہذا ہر نمازی خیال رکھے کہ وہ کیا بات کر رہا ہے ،اور تُم لوگ قُران( کی  قراءت)کرتے ہوئے)ایک دوسرے پر آواز اونچی مت کیا کرومؤطا مالک/حدیث177/کتاب الصلاۃ /باب 6،معجم الاوسط للطبرانی/حدیث/4620باب العین /من اسمہ عبید اللہ میں سے حدیث 19،
حدیث صحیح ہے ، تفصیلی تخریج کے لیے دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث1603،اور، حدیث3160کے ضمن میں ،
قارئین کرام ، دیکھیے کہ قران کریم کی  تلاوت ، جو کہ ایک بڑی نیکی اور أجر و ثواب  والا کام ہے ،وہ کام بھی اگر ایسی کیفیت میں کیا جائے جومسجد میں موجود دُوسرے نمازیوں یا  اللہ کے عبادت میں مشغول دُوسرے لوگوں کے نماز ، اور عبادت میں خلل کا سبب ہو ، ایسی کیفیت میں قران کریم کی تلاوت کرنے سے بھی منع فرما دِیا گیا ہے ،
تو پھر ایسے بچوں کو مسجد میں لانے کی تو کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ  جو بچے مسجد میں شور شرابہ ، کھیل کود، اور دیگر بدتمیزیاں کرتے ہوں ، اور دوران نماز بھی آرام و سکون  سے نہ رہتے ہوں ،
[[[اِن مذکورہ بالا احادیث شریفہ کی روشنی  میں مسجد میں دوُسری ، تیسری جماعتیں کروانے کا سلسلہ بھی نا دُرُست قرار پاتا ہے ،خاص طور پر اگر وہ جماعتیں جھری قراءت والی نمازوں کی ہو ں،اِس مسئلے کی تفصیل ایک الگ مضمون میں بیان کی جا چکی ہے، وللہ الحمد]]]  
اب ہم  یہاں زیر مطالعہ ، اور زیر تفہیم مسئلے کے دُوسرے پہلو کو دیکھتے ہیں ،
یعنی ، ایسے بچوں کو مسجد میں لانے کا حکم  دیکھتے ہیں کہ جو بچے مسجد میں آ کر بدتمیزی نہ کرتے ہوں، کھیل کود ، اور شور شرابہ نہ کرتے ہوں ، اور بڑوں کے ساتھ ادب اور تمیز کے ساتھ بیٹھتے ہوں اور نماز کے دوران آرام اور سُکون کے ساتھ صف میں کھڑے رہتے ہوں، ایسے بچوں کو مسجد میں لانے کی کوئی ممانعت نہیں ،
اور نہ ہی ایسے بچوں کو صفوں میں سے نکالنے اور پچھلی صفوں میں بھیجنے کی کوئی ضرورت ہوتی ہے ، بلکہ ایسے با تمیز اور سمجھ دار بچوں کے ساتھ ایسا کرنا دُرُست نہیں ،
کچھ لوگ بچوں کو  پہلی صف میں سے یا اگلی صفوں میں سے  نکال کر پچھلی صفوں میں  بھیجنے کے عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے درج ذیل فرمان شریف کو دلیل بناتے ہیں :
﴿اسْتَوُوا وَلاَ تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ لِيَلِنِى مِنْكُمْ أُولُو الأَحْلاَمِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ :::ٹھیک سے جم کر کھڑے ہو جاؤ ، اور اختلاف والی کیفیت اختیار نہ کرو(یعنی صف میں آگ پیچھے ہو کر کھڑے مت ہو، اور نہ ہی ایک دوسرے سے دُور ہو کر کھڑے ہو)ورنہ تم لوگوں کے دِلوں میں اختلاف آ جائے گا ، اور تُم لوگوں میں سے بالغ اور عاقل لوگ صف میں میرے  قریب ترین کھڑے ہوں  ، اور پھر جو اُن کے بعد والے ہوں ، اور پھرجو اُن کے بعد والے ہوںصحیح مُسلم/حدیث/1000کتاب الصلاۃ/باب28،
یقیناً اِس حدیث شریف میں یہ حکم دِیا گیا ہے کہ صف سیدہی اور مضبوطی والے انداز میں بنائی جانی چاہیے ، اور یہ کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پیچھے صف میں اُن کے قریب بالغ اور عاقل لوگ کھڑے ہوں ، اور پھر اِسی طرح لوگ ایک دوسزرے سے جڑتے جائیں ، اور یہی حکم ہر نماز میں صف بندی کا ہے ،
اِس میں ایسی کوئی بات نہیں کہ بلاتمیز و بلا لحاظ ہر ایک نابالغ کو صف سے خارج کر دِیا جائے ، کیونکہ دوسری صِفت عاقل ہونے کی بیان کی گئی ہے ، لہذا اگر کوئی نابالغ بچہ ، اتنا عقل مند ہو کہ وہ نماز میں کسی قِسم کی پریشانی کا سبب نہ بنتا ہو تو اُسے صف سے نکالے جانے کا کوئی سبب نہیں رہتا ،
[[[اِس حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی خبر  میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ آج ہمیں ہوتا ہوا نظر آتا ہے کہ نماز کی صف بندی کا کچھ خیال نہیں رکھا جاتا ، اور بلا شک و شبہ ہمارے دِلوں میں اختلافات آ چکے ہیں ، کہ اپنے نمازی بھائی کے ساتھ صف میں کھڑے تو ہوتے ہیں لیکن اُس کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا گوارا نہیں ہوتا ، کھڑے ہونے کے انداز اور نماز ادا کرنے کے انداز دیکھ دیکھ کر ہی ایک دُوسرے کے لیے حقارت اور نفرت محسوس کرنے لگتے ہیں ، کہ یہ تو فُلاں ہے ، اور یہ تو فُلاں ہے ، ولا حول ولا قوۃ اِلا باللہ ]]]
بچوں کو مسجد میں لانے کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان شریف بھی یاد رکھنا چاہیے اور اِس میں تدبر کرنا چاہیے کہ﴿مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِى الْمَضَاجِعِ :::اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں ، اور (اگر )دس سال کے ہونے(پر وہ نماز نہ پڑھیں تو)اُنہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو، اور (دس سال کے ہونے پر)اُن کے بستر الگ کر دو سُنن ابو داؤد/حدیث/495کتاب الصلاۃ/باب26،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا """حَسنٌ صحیح"""، اِس حدیث کی تفصیلی تخریج کے لیے دیکھیے إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ کی """إِرواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل/حدیث247"""،
اِس حدیث شریف میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ساتھ سال تک بچوں تک کو تو مسجدوں میں لانا ہی نہیں چاہیے ، بلکہ اُنہیں گھر میں ہی نماز سِکھائی جانی چاہیے اور نماز کی عملی تربیت دی جانی چاہیے ، سات سال کے ہونے پر اُنہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا جانا چاہیے اور اِس کے بعد ہی اُنہیں مزید عملی تربیت کے لیے مسجدوں میں لے جانا چاہیے اور اُنہیں مسجدوں کا احترام ، اور مسجدوں میں موجود دیگر نمازیوں اور اللہ کے ذِکر میں مشغول لوگوں کے حقوق کے بارے میں سمجھا کر لے جانا چاہیے ،
عمومی طور پر سات کے بچے اتنے عاقل تو ہوتے ہیں کہ ایسی باتیں سمجھ بھی سکیں اور اُن پر عمل بھی کر سکیں ،
لہذا اِس طرح ہم اپنے بچوں کی شخصیات میں نماز ، دِین اور دینی معاملات کے بارے میں کوئی منفی اثر مرتب کیے بغیر ، اور مسجدوں کے احترام کو برقرار رکھتے ہوئے ،ا ورمسجدوں میں موجود دیگر نمازیوں اور اللہ کی عِبادات کرنے والوں کے لیے پریشانی اور عبادات میں خلل پیدا کیے بغیر اپنے بچوں کو مسجدوں میں لے جا سکتے ہیں ،
اوراِن شاء اللہ یہ بچے ایسے نہیں ہوں گے جنہیں صفوں میں سے باہر نکالنے یا پچھلی صفوں میں دھکیلنے کی ضرورت محسوس ہو ،
خیال رہے کہ میری مذکورہ بالا بات کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں سات سال سے کم عمر کے بچوں کو مسجدوں میں نہیں لے جانا چاہیے ، اور نہ ہی یہ کہ ایسا کرنا جائز نہیں ،
بلکہ حدیث شریف کی روشنی میں  یہ بتانا مقصود ہے کہ بچوں  کو مساجد میں لے جانے سے پہلے بنیادی معلومات اور  تربیت مہیا کی جانی چاہیے، جو بچے مسجد میں کیا کرنے اور کیا نہ کرنے کے بارے میں سمجھ چکیں تو اُنہیں مسجد میں لے جانا اُن کی مزید عملی تربیت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتا ہے اِن شاء اللہ ،
اور جو بچے بنیادی معلومات اور تربیت سمجھنے کے قابل نہ ہوں اُنہیں مسجد میں لانا ، شاید کبھی کبھار اُن کے لیے کسی تربیت کا سبب ہو جائے ، لیکن اُس سے کہیں زیادہ اور یقینی طور پر اُن کا مساجد میں آنا ، مساجد کے احترام اور دیگر نمازیوں اور اللہ کی عبادت کرنے والوں کے لیے پریشانی اور عبادات میں خلل کا سبب ضرور بنتا ہے ،
چلتے چلتے ایک اضافی فائدے کے طور پر یہ بھی ذِکر کرتا چلوں کہ کچھ لوگ درج ذیل روایت کو بھی بچوں کو مسجدوں میں لانے سے منع کرنے کی دلیل بناتے ہیں کہ (((جَنِّبُوا مَسَاجِدَكُمْ صِبْيَانَكُمْ،،،،،،،،،،،::: اپنے چھوٹے بچوں کو مسجدوں سے دُور رکھو ))) یہ روایت بہت ہی کمزور ، ناقابل حُجت اور ناقابل اعتماد ہے ، اِس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے  إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کی """الثمر المستطاب فی فقۃ السنۃ و الکتاب/جلد 2میں ، کتاب الصلاۃ کا پہلا باب بعنوان الآداب وهي تشمل الواجبات والمستحبات"""۔
اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ یہ معلومات بچوں کو مساجد میں لانے ، اور مسجد میں آنے والے بچوں کے ساتھ اختیار کیے جانے والے رویے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی ، اگر کسی قاری کے ذہن میں کوئی ایسا سوال یا اشکال ہو جو اِن معلومات کے ذریعے دُور نہ ہو پایا ہو تو مجھے ضرور آگاہ فرمایا جائے ،
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
تاریخ کتابت : 02/10/1436ہجری،بمُطابق،18/07/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment