صفحات

Thursday, August 20, 2015

::::::: نام رکھنے کے آداب :::::::



::::::: نام رکھنے کے آداب  :::::::
بسم اللہ و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ الذی لا ینطق عن الھویٰ ان ھو اِلّا وحیٌ یوحیٰ    ::: شروع اللہ کے نام سے ، اور صلاۃ و سلام اللہ کے رسول محمد پر جو اپنی خواھش کے مُطابق کلام نہیں فرماتے تھے بلکہ اللہ کی وحی کے مُطابق کلام فرماتے تھے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ہمارے ہاں واقع ہونے والے معاشرتی بگاڑ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم عموماً اپنی اولاد کے نام چنتے ہوئے صرف الفاظ کی ظاہری خوبصورتی کی طرف توجہ کرتے ہیں ، یا ماں یا باپ یا نئے بچے بچی کے بھائی بہنوں کے ناموں کے ساتھ قافیہ ملانے کی طرف توجہ کرتے ہیں ، اور اگر کچھ توجہ دین داری کی طرف ہو تو ایسے الفاظ ناموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو ہمیں قران پاک میں ملتے ہوں یا کسی مقدس مقام کا نام ہو ، ،،،،،جیسا کہ حفظہ ، رُحمہ ،  عرفات ، اقصی ٰ ، صفا ، مروہ ،جنّت،کوثروغیرہ ،
نام اختیار کرتے ہوئے ہمیں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے :::
::::::: (1) کسی انسان کا نام اختیار کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس بات کا خیال کرنا ہی چاہیے کہ جو لفظ بطور نام اختیار کیا جا رہا ہے وہ انسان کے لیے نام ہو سکتا ہے کہ نہیں ،
::::::: (2) عِلم الاعداد ، ستاروں سیاروں کے مُقامات  اور چالوں ، زائچہ بازیوں، حروف اور اوقات کی جوڑ بندیوں اور ملاپ  وغیرہ قِسم کے شرکیہ کاموں کی بِنا ء پر کوئی نام اختیار نہ کیا جائے ،
::::::: (3) نام اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو  اِس غلط عقیدے سے بھی آزاد رکھیے کہ کوئی نامی بھاری یا منفی تاثیر والا بھی  ہو سکتا ہے ،
یاد رکھیے اور خوب اچھی طرح سے یاد رکھیے ، کہ کِسی نام کی اپنی کوئی ذاتی تاثیر نہیں ، کوئی بھاری پن یا ہلکا پن نہیں جو نام رکھے جانے والی شخصیت پر واقع ہو،  نہ تو ایسے کِسی معاملے کی کوئی گواہی قران کریم اور صحیح سُنّت شریفہ میں ملتی ہے ، اور نہ ہی واقعاتی طور پر ،
اِس قِسم کے اوہام کا شِکار ہونے سے پہلے یہ ضرور سوچیے کہ ہمارے مُسلم مُعاشرے میں  محمد، احمد، ابو بکر، عمر ، عُثمان ، علی، حسن، حسین ، طلحہ، ز ُبیر ، اوراِن کے عِلاوہ انبیاء و رُسل اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ناموں والے اشخاس با کثرت  موجود ہیں ،
خصوصا ً ہمارے برصغیر کے مُسلم مُعاشرے میں تو محمد ، احمد، علی ، حسن اور حسین میں سے کِسی نام کا جوڑ لگایا جانا ایک معمول کی بات ہے ،
یہ نام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ترین بندوں کے تھے ، اور اُنہی کی نسبت سے یہ نام رکھے جاتے ہیں ، اب اگر اِن ناموں کا کی اپنی کوئی ذاتی ، یقینی اور مستقل تاثیر ہوتی تو اِن ناموں والا کوئی شخص کِسی طور گناہ اور بد اخلاقی والی حرکات  کا مُرتکب نہ ہوتا ، لیکن افسوس کہ اِن ناموں والوں کی ایک بڑی اکثریت طرح طرح کے چھوٹے بڑے  گناہوں اور غیر اخلاقی حرکات کی عادی دِکھائی دیتی ہے ،
پس عملی واقعاتی میدان میں بھی یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ کِسی نام کی اپنی کوئی اچھی یا بری، بھاری یا ہلکی تاثیر نہیں ،
اگر کِسی شخص پر کِسی قِسم کی کوئی مشکل، کوئی بیماری ، کوئی پریشانی وغیرہ  وارد ہوتی ہے ، تو اِس کا سبب اُس کا نام نہیں ،    اللہ کی مشئیت ہوتی ہے ،
اور اُس مشئیت کے واقع ہونے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں ،    
::::::: (4) اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نام کا معنیٰ اور مفہوم اچھا اور خوش کن ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  ایسے نام تبدیل فرما دیتے تھے جن کا معنی اور مفہوم اچھا یا خوش کن نہیں ،
::::::: (5) اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دینی طور پر اس نام کا استعمال درست ہے یا نہیں ، یعنی کہیں ایسا نام ہو جسے رکھنے سے منع کیا گیا ہو ، یا ایسے الفاظ میں نہ ہو جنہیں بطور نام رکھنے سے منع کیا گیا ہو ،
مثلا ایسے نام نہ ہوں جن میں تزکیہءِ نفس یعنی نام والے کی ذات کی بڑائی اور صفائی کا اظہار پایا جاتا ہو ، مثلاً ، مومن ، مسلم ،عظیم ، ایمن، ایمان، پاکیزہ ، اذکیٰ، ذکی ،ذکیہ ،  ازکیٰ ، زکی ، زکیہ، وغیر،کیونکہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی نشانیاں بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((الَّذِينَ يَجتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثمِ وَالفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ المَغفِرَةِ هُوَ أَعلَمُ بِكُم إِذ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرضِ وَإِذ أَنتُم أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُم فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُم هُوَ أَعلَمُ بِمَنِ اتَّقَى ::: وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے دور رہتے ہیں سوائے (کبھی )کسی چھوٹی برائی ( کا شکار ہو جانے)کے (تو ایسی صورت میں ان کے یہ خوشخبری ہے کہ )بے شک آپ کا رب بڑی وسیع بخشش والا ہے اور وہ تُم لوگوں کو جانتا ہے اس وقت سے جب اس نے تُم لوگوں کو زمین سے نکالا اور اسوقت سے (بھی)جب تُم لوگ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں چُھپے تھے لہذا تُم لوگ اپنی جانوں کی صفائی (پاکیزگی،بڑائی  وغیرہ والی باتیں)مت کیا کرو اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ والا ہے))))))سورت النجم / آیت 32 ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اس پر عمل فرمایا ہے ، جیسا کہ محمد بن عَمرو بن عطاء رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام " برّہ "رکھا تو مجھے زینب بنت ابی سَلمیٰ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ (((((رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ نام رکھنے سے منع فرمایا ہے))))) میرا نام بھی " برّہ " رکھا گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( لَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ الله أَعْلَمُ بِأَهْلِ الْبِرِّ مِنْكُمْ :::اپنے طور پر اپنی جانوں کی صفائی(پاکیزگی،بڑائی وغیرہ)کا دعویٰ مت کرو اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے کہ تُم لوگوں میں کون نیکو کار ہے )))))عرض کیا گیا " تو ہم کیا نام رکھیں ؟ "،اِرشاد فرمایا ((((( سَمُّوهَا زَيْنَبَ:::اس لڑکی کا نام زینب رکھو ))))) صحیح مُسلم/حدیث 2142/کتاب الآداب/باب 3 ،
لہذا ایسے نام رکھنا جائز نہیں جن میں کسی کی ذات کی پاکیزگی اور بڑائی وغیرہ ہو ، جیسا کہ محی الدِین، شمس الدِین ، سیف اللہ، حبیب اللہ ، عزیز اللہ، وغیرہ،
::::::: (6)  یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم نام اختیار کرتے ہوئے سب سے پہلے ایسے نام اختیار کریں جن میں اللہ کی بندگی کی نسبت نمایاں ہو ، مثلا عبداللہ ، عبدالرحمان ، عبدالباری ، عبدالکریم ، عبدالرحیم وغیرہ ،،،،،، مؤنث کے نام کے لیے """ عبد یعنی بندہ """ کی جگہ """ أَمۃ یعنی بندی """ استعمال ہو گا ، مثلاً أَمۃُ  اللہ یعنی اللہ کی بندی ، أَمۃُ  الرحمان یعنی اللہ کی بندی وغیرہ ،  
اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کسی کے بھی نام کے ساتھ عبدیت کی نسبت لگا کر نام رکھنا بڑا گناہ ہے ، جیسا کہ لوگ عبدالنبی، عبدالرسول، عبد علی، عبد حیدر،اور اردو میں عبدیت یعنی بندگی اور غلامی کا معنی دینے والا لفظ """غلام"""، یا مونث کے لیے """کنیز""" وغیرہ لگا کر اِسی قسم کے نام رکھنا بھی اِسے ز ُمرے میں آتا ہے ،
اور اِسی قِسم کے ممنوع ناموں میں نور محمد ، نور علی ، نور حسین ، نور فاطمہ ، وغیرہ بھی آتے ہیں ، گویا کہ معاذ اللہ جس کا ایسا نام رکھا جاتا ہے اُسے اُن ہستیوں کا نُور قرار دِیا جا رہا ہے،
اِس موضوع کو"""ناموں کا شِرک""" میں بیان کیا گیا ہے ، وللہ الحمد ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((((( إِنَّ أَحَبَّ أَسمَائِكُم إلى اللَّهِ عبدُ اللَّهِ وَعَبدُ الرحمن ::: بے شک تم لوگوں کے ناموں میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پسند نام عبداللہ اور عبدالرحمان ہیں))))) صحیح مُسلم / حدیث 2132/ کتاب الآداب / باب اول ،
::::::: (7) انبیاء علیھم السلام کے ناموں میں سے نام چنا جائے ، اور سب سے افضل نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر نام رکھنا سب سے افضل ہے ، جیسا کہ اُنہوں نے خود اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((سَمُّوا بِاسْمِى ، وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِى ::: میرے نام پر نام  رکھو، اور میری کُنیت پر کُنیت نہ اپناؤ)))))صحیح بخاری/حدیث/2120کتاب البیوع/باب49، صحیح مُسلم/حدیث/5708کتاب الآداب / باب اول ،
ذرا اِس حدیث شریف پر غور فرمایے اور ہمارے ہاں پائی جانے والی عادات پر بھی کہ ہم لوگ صِرف رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام مُبارک""" مُحمد """کو اختیارکرنا گستاخی سمجھتے ہیں ، اور اُن کے نام کے ساتھ کسی اور نام کو جوڑ کر نام اختیار کرتے ہیں ، اور یہ دونوں ہی کام غلط ہیں ، پہلا کام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کی مخالفت ہے ، اور گویا کہ خود کو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے زیادہ اِیمان اور تقویٰ والا سمجھنا ہے کہ انہوں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر نام رکھنے کا حکم دِیا اور ہم ایسا کرنے کو گستاخی سمجھتے ہیں ،
اور دوسرا کام کسی ایک شخصیت کو ایک سے زیادہ نام دینے کے پہلو سے غلط ہے ،     
::::::: (8) صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کے ناموں میں سے چنا جائے ،کہ وہ انبیاء اور رسولوں علیھم السلام کے بعد اللہ کے محبوب ترین بندے ہیں ،اور اللہ کے حقیقی سچے ولی ہیں،اور ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد بہترین نمونہ ہیں ،
لہذا ہمیں صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کے ناموں کو اپنے معاشرے میں رائج  کرنا چاہیے تا کہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے ان عظیم المرتبہ ، اللہ کے محبوب بندوں، اللہ کے حقیقی سچے ولیوں ، اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سچے عملی محبان کی پہچان رہے ، ،،،،،اور وہ یعنی صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم ہمارے آئیڈیلز ہوں ،
ہمارے دِلوں میں اُن کی طرح اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے مُحبت ہو اور ہمیں اُن کی طرح اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت حاصل کرنے کا شوق ہو ،
[[[الحمد للہ """مثالی شخصیات:::The Ideals """ کے زیر عنوان اب تک چالیس سے زیادہ ایسے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی شخصیات اور عظمت کو مضامین کی نشر کر چکا ہوں ، جنہیں عام طور پر آج ہم مسلمانوں کی اکثریت جانتی ہی نہیں]]]
نام کے معاملے میں منفرد نام اختیار کر کے، معاشرے میں انفرادیت کا شوق پورا کرنے والوں کے لیے بھی اِس باغ نبوت میں بہت ہی خوبصورت خوبصورت سے پھول ہیں ،
صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم کے ناموں کو اختیار کرنے میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اُن ناموں کے معانی کے بارے میں کچھ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اگر وہ نام ، کسی مُسلمان کے لیےمُناسب نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم انہیں یقیناًتبدیل فرما دیتے ،
 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے نام رکھنے کے آداب سیکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ناموں کو تبدیل کر دیتے یا تبدیل کرنے کا حکم دیتے،
نام رکھنے کے بارے میں کئی ضعیف احادیث ایسی ہیں جن پر لوگ عمل کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ اِن کا بیان پھر کِسی وقت کیا  جائے گا ۔ و السلام علیکم۔
طلبگار دُعا آپ کا بھائی ،عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 07/01/1435ہجری،بمُطابق10/11/2013عیسوئی،
تاریخ تجدید : 04/011/1436ہجری،بمُطابق،19/08/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment