:::::::
اللہ سے مُحبت کرنے ، اور اللہ کی مُحبت حاصل کرنے کے اسباب :::::::
بِسمِ
اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ
لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،
و الَّذی لَیس أصدق مِنہ ُ قِیلا ،
و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و
السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ
و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت
رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ
کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں
، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے
واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول
محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات
نہیں فرماتے تھے ، اور جنہوں نے اپنے رب
کی امانت مکمل طو رپر دی۔
اللہ
سےمُحبت اللہ کی سچی اطاعت کا اصل محرک ہے ، اور اِسی کے ذریعے اللہ کی عِبادت ٹھیک راستے پر
چلائی جا سکتی ہے ، پس جب کہیں یہ مُحبت غائب ہوتی ہے تو عِبادت اپنی دُرُست راہ سے ہٹ جاتی ہے ، کیونکہ
سچی دُرُست اور اِن شاء اللہ مقبول عِبادت
اللہ سےمُحبت اور اللہ کے لیے خشوع اور
خضوع کے کمال پر مبنی ہوتی ہے ، اگر اِن میں سے کوئی بھی صِفت مفقود ہوجائے یا کمزور ہوجائے تو عِبادت مطلوبہ درجے
اور معیار سے اُتر جاتی ہے اور اپنے ھدف سے دُور ہوجاتی ہے ،عِبادت کا مطلوبہ درجہ اورمعیار
اللہ کے ہاں قبولیت ہے اور اُس کا ھدف اللہ کی رضامندی کا حصول ہے ،
پس
اللہ سےمُحبت کے بغیر اللہ کی عِبادت گویا
کہ ایک ایسا جسم ہے جو لا شعوری حرکات کرتا رہتا ہے ، ایسی حرکات جن کا کچھ فائدہ
نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات نقصان ہوتا ہے ،
اس
لیے ہر اِیمان والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اِیمان کی تکمیل کے لیے اور اپنی عِبادات
کا حقیقی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کی خیر اور فلاح حاصل کرنے
کے لیے اپنے دِل و جاں میں اپنے اللہ سےمُحبت جگائے اور بڑھائے رکھے اور اپنے لیے
اللہ سے اللہ کی مُحبت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہے ،
کیونکہ درحقیقت خُوش ہونے اور فخر کرنے والی بات یہ ہے کہ اللہ
ہم سے مُحبت کرے۔
رہا معاملہ
ہماری طرف سے اللہ سے مُحبت کے دعوے یا گمان ہونے کا تو ،،،یاد رکھیے کہ یہ مُحبت محض اپنی خوش خیالیوں یا ز ُبانی
دعوؤں سے ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ اِس کے واقعتا مُوجود ہونے کے ثبوت کے طور پر واضح
نشانیوں اور گواہیوں والے مُستقل اعمال کا ہونا ضروری ہے جن کی مُوجودگی یہ ثابت
کرتی ہو کہ مُحبت کا دعویٰ کرنے والا ز ُبانی جمع خرچ کرنے والوں میں سے نہیں ، بلکہ اُس مُحبت کے
تمام عملی تقاضے کرنے والا ایک سچا مُحب ہے،
::::: اللہ سے مُحبت
کی بنیادی نشانی اور اُس کی مُحبت پانے کا سب سے زیادہ یقینی طریقہ
:::::
اللہ
تعالیٰ سے مُحبت کرنے والوں کی ایک بڑی ہی واضح اور بنیادی نشانی خود اللہ تعالیٰ نے
ہی بتا دی ، بلکہ اِس مُحبت کے ثبوت کے طور پر اِس کا مُوجود ہونا شرط قرار دیا ،اور
اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ ﴿ قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ
فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ
غَفُورٌ رَحِيمٌ ::: (اے رسول)فرمایے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے مُحبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو ،(اِس کے بدلے میں )اللہ
تُم لوگوں سے مُحبت کرے گا اور تُمہارے گناہ معاف کرے گا اور اللہ بخشش کرنے والا
اور رحم کرنے والا ہے﴾سُورت آل عمران(3)/آیت 31،
اس
آیت مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اُس کے(یعنی اللہ تعالیٰ کے )ساتھ
مُحبت کی مُوجودگی کی نشانی بتائی ہے ، بلکہ اُس سے اپنے لیے مُحبت حاصل
کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ،
اور
وہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی ،
پس
یہ بالکل واضح ہو گیا کہ جو کوئی بھی ، خود کو یا کسی اور کو بہت ہی پکا سچا اِیمان
والا اور کچھ کا کچھ سمجھتا ہو لیکن کسی بھی طور، کسی بھی انداز میں، کسی بھی کام میں ، کسی
بھی معاملے میں،محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی حُدود سے باہر رہتاہو اُس کے بارے میں اللہ
سے مُحبت رکھنے والا ہونے کا ، یا اللہ کا
محبوب یا ولی ہونے کا خیال رکھنا دُرُست
نہیں ، نہ تو وہ اللہ سے حقیقی مُحبت کرنے
والا ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی مُحبت
پانے والوں میں سے ہے،
پس ز
ُبانی دعوے کی کوئی حیثیت نہیں ، بلکہ عمل درکار ہے ،اور وہ بھی بالکل اُسی طرح جِس طرح کہ اللہ عزّ و جلّ نے
مقرر فرما دیا ہے ، یعنی اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
مکمل تابع فرمانی ،
اپنے
دِل و جاں میں اللہ تعالیٰ کی مُحبت پیدا
کرنے اور اِسے برقرار رکھنے اور اِس میں مُستقل بڑھاوا دینے کا، اور اپنے لیے اللہ
سُبحانہُ و تعالیٰ کی مُحبت پانے کا سب سے
أہم اور بنیادی ترین طریقہ تو اللہ جلّ و عُلانے ہمیں اِس مذکورہ بالا آیت مُبارکہ
میں بتا دیا ، اِس کے عِلاوہ اِمام ابن قیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے
اِن دنوں صِفات ، یعنی اللہ سے مُحبت اور اللہ کی مُحبت پانے کے درج ذیل دس طریقے
بیان کیے ہیں :::
::::::: (1) :::::: قران پاک کو ٹھیک
سمجھ کے ساتھ پڑھنا ، یعنی اللہ کے فرامین کو اللہ کی مُراد کے مُطابق سمجھا جائے
، اور اِس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کہ قران کریم کو اللہ کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت
شدہ قولی، عملی اور تقریری سُنّت مبارکہ
اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے فہم کے مُطابق سمجھا جائے نہ کہ اپنی عقل ،
فلسفے، منطق، مادی عُلوم،گمان بازیوں، یا لغت کی قلا بازیوں کے مُطابق۔
::::::: (2) :::::: فرائض کی مکمل اور دُرُست
طور پر ادائیگی کے بعد سُنّت مُبارکہ کے عین مُطابق نوافل کے ذریعے اللہ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے
محنت کرتے رہنا ، کیونکہ نوافل اِیمان والے کو مُحب کے درجے سے اونچا کر کے محبوب
کے درجے میں پہنچانے والے اسباب میں سے ایک ہے ۔
::::::: (3) :::::: یاد رکھیے کہ مُحب کو اس کی مُحبت کے مُطابق ہی محبوب کی طرف
سے مُحبت ملے گی، لہذا، دِل و دِماغ کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذِکر کو
ہمیشگی کے ساتھ کرتے رہنا ،ز ُبانی ، قلبی اور جسمانی طور پر اللہ کے ذِکر میں
مشغول رہنا (بھی اللہ تعالیٰ سے مُحبت اور اُس کی مُحبت پانے کے اسباب میں سے ہے)۔
::::::: (4) :::::: جب کسی اِیمان والے پر کسی خواہش کا ، کسی شوق کا
غلبہ ہونے لگے تو اللہ جلّ ثناوہُ کی پسند پر اپنی پسند کو قُربان کرنا،خواہ اِس
کے لیے کتنی ہی مُشقت برداشت کرنا پڑے ۔
::::::: (5) :::::: اللہ کے ناموں اور صِفات
کا دِل کی حاضری کے ساتھ مطالعہ کرنا ،
اور قلبی ، رُوحانی اور ذہنی طور پر اِن ناموں اور صِفات کی معرفت حاصل کرنا اور اِن
کا مُشاھدہ کرتے رہنا، دِل کو اِس معرفت کے
باغ کی بہاروں سے مُعطر رکھنا ، کیونکہ جس نے اللہ کے ناموں اور صِفات کو دُرُست
طور پر جان لیا تو یقیناً ا ِس نے اپنے
دِل و جان میں اللہ کی مُحبت بسا لی ۔
::::::: (6) :::::: اللہ تبارک و تعالیٰ
کی ظاہری اور باطنی نعمتوں اور احسانات
کا قلبی و حسی مُشاھدہ کرتے رہنا اور ان پر اللہ کی شکر گذاری کرتے رہنا ،
کیونکہ ایسا کرنا بھی اللہ کی مُحبت کو جگانے کا مجرب ذریعہ ہے ۔
::::::: (7) :::::: سب سے زیادہ مزے اور فائدے
والا کام یہ ہے کہ اللہ کے حضور اپنے دِل و نفس کو بالکل ہی ، ہر لحاظ سے مکمل طور پر ذلیل کر کے رکھنا ، یہ ایسا کام ہے جس کی کیفیت
اِس کا عامل جان ہی سکتا ہے اِسے اِلفاظ اور عبارات میں تعبیر کرنا تقریباً نا
ممکن ہے۔
::::::: (8) :::::: اللہ کے (آسمانء زمین
پر)نازل ہونے کے وقت میں اُس کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا اور اِس تنہائی میں اللہ
تعالیٰ کے ساتھ مُناجات کرنا ، اللہ
تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرنا ، اور دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ کے لیے ادب لیے
ہوئے اپنے نفس کو اللہ کے سامنے ذلیل کرتے ہوئے اللہ کے دربار میں کھڑے ہونا ، اور
پھر اِس حاضری کو توبہ اور اِستغفار کے ساتھ ختم کرنا ۔
::::::: (9) :::::: (اللہ اور اُس کے
رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم سے )سچی اور خالص مُحبت کرنے والوں کی
مجلس میں رہنا ، اور اُن کی باتوں پھلوں
میں بہترین اور پاکیزہ ترین پھلوں کو چنتے رہنا اور اُس وقت تک اُن کی بات میں
بولنا نہیں جب تک کہ آپ کا بولنا آپ کے لیے
مزید خیر کا اور دُوسروں کے فائدے کا
یقینی سبب نہ ہو ۔
::::::: (10) :::::: ہر ایسے فعل اور عمل
سے دُور رہنا جو بندے کے دِل اور اللہ کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۔
(امام
ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی مدارج السالکین
بین المنازل اِیّاک نعبدُ و اِیّاک نستعین
، سے ماخوذ )
یہ بھی یاد رکھیے کہ یہاں ہم نے دو طرح کی
مُحبت کی بات کی ہے، بندے کی اپنے
اللہ کے لیے مُحبت،جو کہ مُحبت کا پہلا ابتدائی درجہ ہے ، اور اللہ کی اپنے بندے کے لیے مُحبت جو کہ مُحبت
کا اعلیٰ ترین درجہ ہے ،
پس پہلے درجے کی مُحبت کا حصول اعلی درجے کی مُحبت کے حصول کے لیے لازمی ہے ،
اور اُس کا حصول جانفشانی کے ساتھ اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی مکمل اطاعت کے ذریعے ہی ممکن ہے ،
یہ
جومذکورہ بالا اسباب بیان کیے گئے یہ سب اِسی
کے ضمن میں آتے ہیں ، اُن کو اپنے طور پر کچھ اور مفاہیم میں سمجھ کر کچھ اور
اطوار میں اپنا کر اللہ کی مُحبت حاصل ہونے والی
نہیں ، نہ ہی پہلے درجے کی اور نہ ہی اعلیٰ ترین درجے کی ۔
آخر میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ، اگرمیں ، یاآپ ، یا کوئی بھی اور اللہ سے مُحبت کرنے کا دعویٰ یا خیال رکھتا
ہے تو اِس میں خوش ہونے یا فخر کرنے والی
کوئی بات نہیں کیونکہ اصل خوشی اور فخر والی بات یہ کہ اللہ ہم سے مُحبت
کرے۔و السلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 25/05/1433
ہجری ، بمطابق ، 17/04/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید : 21/03/1435
ہجری ، بمطابق ، 23/01/2014عیسوئی۔
درج ذیل ربط پر اِس موضوع سے متعلق کچھ اہم سوال و جواب موجود
ہیں ، اُن کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط
سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment