صفحات

Tuesday, July 26, 2016

::::::: مدینہ منورہ میں قحط اور روضہء رسول میں کھڑکی(روشندان وغیرہ) کھولے جانے کا قصہ :::::::



::::::: مدینہ منورہ میں قحط اور روضہء رسول میں کھڑکی(روشندان وغیرہ) کھولے جانے کا قصہ :::::::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سَلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عَدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
ہم مُسلمان اچھے اِنسانی اِخلاق سے خالی دامن تو ہوئے جا رہے ہیں، لیکن اُس سے زیادہ تیزی سے اپنے دِین کی تعلیمات اور احکام سے بھی غافل ہوتے جا رہے ہیں،
جن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بات کو دُوسروں تک پہنچانے سے پہلے اُس بات کی سچائی کی جانچ کرنا چاہیے، دُنیاوی معاملات میں لوگ ایسا کرتے ہیں تو دُنیا کا کچھ مال کمانے کے لیے، لیکن، دِین سے متعلق کوئی خبر کسی جانچ اور تصدیق کے بغیر دُوسروں میں کیوں پھیلائی جاتی ہیں؟
دِین کی آڑ میں دُنیا کمانے کے لیے، یا،
اپنے اختیار کردہ عقائد کو ہی سچ دِکھانے کے لیے، یا،
مُسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے،
یا، یا، یا، ایسے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں ،
گھبرایے نہیں، مجھے آپ صاحبان سے اِن سوالات کے جوابات درکار نہیں، بلکہ ، یہ سوالات صِرف آپ کی سوچ وفِکر کی توجہ کے لیے ہیں ،
میں تو اِس وقت   ایک ایسی حرکت کے بارے میں کچھ معلومات مہیا کرنا چاہتا ہوں جس کا ذِکر ابھی کیا ہے، اور وہ ہے ، دِین کے نام پر، دِین کی آڑ میں غیر تصدیق شدہ باتوں کو نشر کرنا،
دیٹس ایپ، اور برقی ڈاک کے ذریعے  طرح طرح کی  غلط باتیں اور واقعات دِینی تعلیمات کے طور پر نشر کیے جاتے ہیں، اُن میں سے ہی ایک واقعہ درج ذیل ہے :::
"""بخاری شریف میں حدیث ہے کہ مدینہ شریف میں بارش نہیں برس رہی تھی قحط سالی پڑ چکی تھی،
لوگ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اماں جان کوئی ایسا وظیفہ کوئی ایسا امر بتائیں کہ قحط سالی ختم ہو جائے اور ابر رحمت برسنے لگے.
تو ام المومنین رضی اللہ عنها نے فرمایا کہ روضئہ رسول کی چھت پہ جو روشندان یعنی کھڑکی رکھی گئی ہے اسے کھول دو.
جب روضئہ رسول کا اور آسمان کا سامنا ہوا تو خوب بارش برسنے لگی یہاں تک کہ لوگ دوبارہ ام المومنین کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور بارش روکنے کے وظائف و تدابیر دریافت کرنے لگے.
تو اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها نے فرمایا کہ روضئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کھڑکی دوبارہ بند کر دو.
چنانچہ کھڑکی بند کرتے ہی بارش تھم گئی"""،
بہت افسوس کی بات ہے کہ جس کسی نے بھی یہ ایک جھوٹا واقعہ بنایا ہے، اُس نے سب سے پہلے تو اپنی سچائی دِکھانے کے لیے صحیح بخاری کا نام لکھ دِیا ، جب کہ اِس قِسم کا کوئی واقعہ صحیح بخاری میں تو کیا ، عام طور پر معروف چھ صحیح کتابوں میں سے بھی کسی میں نہیں ہے ،
اس واقعے میں بہت سے ایسی باتیں ہیں جو روایت حدیث کی  تحقیق کے بغیر ہی اِس واقعے کے غلط ہونے کی دلیل بنتی ہیں ، اُن کے بارے میں اِن شاء اللہ بعد میں کچھ گذارشات پیش کرتا ہوں،
پہلے  اُس روایت کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں ،
یہ روایت سُنن الدرامی میں ہے ، اور اِس کا متن اور سند درج ذیل ہے :::
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِىُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ : أَوْسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً ، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ : انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ. قَالَ : فَفَعَلُوا فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ
ہمیں  ابو نعمان نے بتایا، اُسے سعید بن زید نے بتایا، اُسے عَمرو بن مالک  النُکری نے  بتایا، کہ ابو الجوزاء اَوس بن عبداللہ کہا، مدینہ والوں کوشدید قحط میں ڈالا گیا، تو وہ اپنی پریشانی بیان کرنے کے لیے(اُم المؤمنین )عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا)کے پاس گئے ، تو، (اُم المؤمنین )عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا) نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر (والے حجرے )کی طرف دیکھو، اور اُس میں سے آسمان کی طرف تھوڑی جگہ کھول دو ، یہاں تک آسمان اور قبر کے درمیان کوئی چھت نہ رہے،
اوس بن عبداللہ نے کہا، لوگوں نے ایسا ہی کیا، تو ہم پر بارش کی گئی یہاں تک کہ خشک ہو چکی بُوٹیاں سبز ہو گئیں، اور اُونٹ موٹے ہو گئے، یہاں تک اُن پر چربی کی کثرت سے اُن کے زیریں حصے خوب موٹے ہو گئے، اور اُس سال کو پھیلنے پھولنے کا سال کہا گیا۔ سُنن الدارمی /حدیث/93کتاب المقدمہ/باب15مَا أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ -صلى الله عليه وسلم- بَعْدَ مَوْتِهِ،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا  """اِس روایت کی سند ضعیف ہے، اِس میں تین نقص ہیں، اس کے ذریعے کوئی حجت قائم نہیں ہوتی (یعنی یہ روایت ناقابل یقین اور ناقابل عمل ہے)"""،
 اور پھر بڑی وضاحت سے اُن تین نقائص کا ذِکر کیا ہے ،
اور پھر اُس کے بعد، اِسی روایت کے بارے میں  شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کے کچھ فرمودات ذِکر کیے ہیں ، جو اِس روایت میں موجود غلط بیانیوں میں کئی کا  بیان لیے ہوئے ہیں،
طوالت سے بچنے کے لیے میں وہ سب کچھ یہاں نہیں لکھ رہا،
جو بھائی بہن ، عربی پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں وہ درج ذیل حوالہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں، """التوسل ، أنواعہُ و احکامہُ /صفحہ140،الطبعۃ الخامسۃ 1406ہجری۔ المکتب الاسلامی، بیروت،لبنان، """(طبعات کے فرق کی وجہ سے صفحے کا نمبر مختلف ہو سکتا ہے)
مضمون کے آخر میں مذکورہ بالا حوالہ کا عربی متن شامل کر دیا گیا ہے، جن کی رسائی کتاب تک نہ ہو سکے وہ یہیں اِس مضمون کے آخر میں مطالعہ کر سکتے ہیں ،
اب ، اِن شاء اللہ ، میں  اِس واقعہ میں موجود چند بالکل صاف سجھائی دینے والی کچھ غلط بیانیوں کا ذِکر کرتے ہوئے اپنی یہ بات ختم کرتا ہوں ،
:::::: پہلی غلط بیانی ::::::: قحط سالی سے بچنے اور بارش حاصل کرنے کے معروف سُنّت طریقے کے علاوہ وظیفوں کی تلاش :::::::
اُم المؤمنین  عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کی موجودگی کے دَور میں ، جب کہ مدینہ المنورہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی کثرت تھی، اُس دَور میں وہاں آباد مُسلمانوں میں یہ بات بالکل معروف تھی کہ بارش کے لیے نمازء استسقاءپڑھی جاتی ہے، کوئی وظیفے یا چلے نہیں ہوتے،
اور یہ نماز پڑھنے کے لیے امیر المؤمنین سے کہا جاتا تھا،
پس یہ کوئی ایسا غیر معروف مسئلہ نہ تھا کہ جس کے بارے میں پوچھنے کے لیے دیگر سب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو چھوڑ کر مدینے کے لوگ اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے پاس جاتے،
یہ بات بھی ہمارے لیے جانی پہچانی ہے کہ کسی کام کی تکمیل کے لیےیا کسی مُشکل سےنجات کے لیے، وظیفے اِسلامی تعلیمات میں سے نہیں ہیں،لہذا ایسے وظیفوں کا نہ تو کوئی وجود سُنّت شریفہ میں ملتا ہے ، اور اِسی لیے ایسے کوئی وظیفے یا چلّہ کشیاں  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے معاشرے میں بھی دکھائی نہیں دیتیں ،
خیال رہے کہ کسی خاص کام کے لیے  اگر کچھ مخصوص الفاظ میں کوئی دُعاء کرنا سِکھایا گیا ہے تو وہ صِرف دُعاء ہے ، اور یہ جو وظیفوں ، چلّہ کشیوں اور أذکار کے نام پر کیا اور کروایا جاتا ہے وہ دُعا ء کرنے کی تعلیمات اور آداب سے بہت دُور کی کاروائیاں ہوتی ہیں،
غالباً اِس قصے کو اِس انداز میں لکھ کر نشر کرنے میں وظیفوں کو رائج کرنے والوں میں سے کسی کا عمل دخل ہے، کیونکہ جو واقعہ روایت ہوا ہے ، اُس میں کہیں بھی کسی قِسم کے وظیفے ، چلّے یا اذکار وغیرہ کے بارے میں پوچھنے کا کوئی اِشارہ بھی نہیں،
لوگوں کا اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کے پاس جا کر قحط سالی کا حال بیان کرنا اِس لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں کہ اُس دَور میں پائے جانے والے لوگ ایسے نہ تھے کہ اُن پر آن پڑنے والی ایسی قدرتی آفات سے نجات پانے کے لیے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بجائے اللہ کی مخلوق کی طرف رجوع کرتے ،
:::::::دُوسری غلط  بیانی ::::::: حُجرہ مُبارک  کوموجودہ زمانے کے کمرے کے مُطابق سمجھانے کی کوشش ::::::
 عائشہ رضی اللہ عنھا کا حجرہ ، جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر تھی ، اُس وقت کچھ کھلے اور کچھ بند حصے پر مشتمل ایک کمرے کی صُورت میں تھا، جس میں سے قبر مُبارک تک سُورج کی روشنی بھی آتی تھی ، یعنی قبر مُبارک ، اور آسمان کے درمیان کوئی روکاٹ ، کوئی آڑ نہ تھی ، تو ایسے میں اُس کی چھت میں براہ راست ایک ایسی کھلی جگہ بنانے کا کہنا کہ جو قبر مبارک اور آسمان  کے درمیان کسی  آڑ کو باقی نہ رہنے دے ، ایسے مشورے کی گنجائش ہی کہاں ہے؟؟؟
:::::: تیسری غلط بیانی :::::: حُجرہ مُبارک کی چھت میں روشن دان ::::::
اُس وقت ، اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے  حجرہ مُبارک کی چھت میں کہیں کوئی روشن دان ، یا کھڑکی  نہیں تھی،  جسے کھولنے ، اور پھر بند کرنے کا مشورہ دیا جا تا ،
:::::: چوتھی غلط بیانی :::::: اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر ایک الزام  ::::::
 قبر مُبارک اور آسمان کے درمیان کی چھت میں ایسی کھلی جگہ بنانے جس کی وجہ سے قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کوئی آڑ نہ ہو ، کا مطلب یہ ہوا کہ جب بارش ہو گی تو براہ راست قبر مبارک پر بھی پڑے گی،  حاشاء للہ،کہ ، امی جان  عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا کوئی کام کرنے کو کہا ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر مُبارک پر کسی قِسم کے نقصان کا سبب ہو سکتا ہو،
::::::: پانچویں  غلط بیانی ::::::: بلا ثبوت قحط سالی ، اور اُس کے بعد سبز حالی ::::::
مدینہ منورہ کی تاریخ میں کہیں ایسا کوئی قحط نہیں ملتا  کہ جس سے نجات پانے کے لیے نمازء استسقاء پڑھنے کے علاوہ کچھ اور کیا گیا ہو، اور پھر کسی قحط کے بعد ایسی کسی سبز حالی کی بھی کوئی خبر نہیں ملتی کہ جس میں جڑی بُوٹیاں تو ہری ہو ئیں سو سوئیں، اُونٹ بھی اتنے موٹے ہو گئے کہ چربی کی کثرت کی وجہ سے اُن کے زیریں حصے پھٹنے کے قریب ہو گئے،  اگر ایسا  عجیب واقعہ ہوا ہوتا ، اور اس طرح کثرت سے ہوا ہوتا تو یقیناً ہمیں تاریخ میں اس کے کئی جگہ ذِکر ملتا، لیکن ایسا نہیں ہے۔
اِن سب معلومات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ  اور اِس کو بنیاد بنا کر لکھا اور پھیلایا گیا وہ پیغام جسے آغاز میں نقل کیا گیا ہے ، سب غلط بیانی پر مشتمل ہے ، سچا نہیں ہے،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطاء فرمائے کہ ہم  اپنی محبت ، اور عقیدت کو اُس کے ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہ کر اِستعمال کر سکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::: إمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہُ اللہ، اور شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کا کلام :::::

أثر فتح الكوى فوق قبر الرسول صلى الله عليه وسلم إلى السماء:

روى الدارمي في "سننه" "1/43": حدثنا أبو النعمان ثنا سعيد ابن زيد ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال: قحَط أهل المدينة قحطاً شديداً، فشكوا إلى عائشة، فقالت: انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف، قال: ففعلوا، فمطرنا مطراً حتى نبت العشب، وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق.
قلت: وهذا سند ضعيف لا تقوم به حجة لأمور ثلاثة:
أولها: أن سعيد بن زيد وهو أخو حماد بن زيد فيه ضعف. قال فيه الحافظ في "التقريب": صدوق له أوهام. وقال الذهبي في "الميزان":
قال يحيى بن سعيد: ضعيف، وقال السعدي: ليس بحجة، يضعفون حديثه، وقال النسائي وغيره: ليس بالقوي، وقال أحمد: ليس به بأس، كان يحيى بن سعيد لا يستمرئه.
وثانيهما: أنه موقوف على عائشة وليس بمرفوع إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ولو صح لم تكن فيه حجة، لأنه يحتمل أن يكون من قبيل الآراء الاجتهادية لبعض الصحابة، مما يخطئون فيه ويصيبون، ولسنا ملزمين بالعمل بها.
 وثالثها: أن أبا النعمان هذا هو محمد بن الفضل، يعرف بعارم، وهو وإن كان ثقة فقد اختلط في آخر عمره. وقد أورده الحافظ برهان الدين الحلبي حيث أورده في "المختلطين" من كتابه "المقدمة" وقال "ص391":
"والحكم فيهم أنه يقبل حديث من أخذ عنهم قبل الاختلاط ولا يقبل حديث من أخذ عنه قبل الاختلاط أو بعده".
قلت: وهذا الأثر لا يدرى هل سمعه الدارمي منه قبل الاختلاط أو بعده، فهو إذن غير مقبول، فلا يحتج به (وتغافل عن هذه العلة الشيخ الغماري في "المصباح - 43" كما تغافل من لم يوفق للإصابة ليوهموا الناس صحة هذا الأثر)،
 وقد قال شيخ الإسلام ابن تيمية في"الرد على البكري ص 68-74": "وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده، ومما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة، بل كان باقياً كما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، بعضه مسقوف وبعضه مكشوف، وكانت الشمس تنزل فيه، كما ثبت في "الصحيحين" عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفيء بعد، ولم تزل الحجرة النبوية كذلك في مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم.. ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد، ثم إنه يُبنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جدار عال، وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف. وأما وجود الكوة في حياة عائشة فكذب بين لو صح ذلك لكان حجة ودليلاً على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق ولا يتوسلون في دعائهم بميت، ولا يسألون الله به، وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه، ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه، فأين هذا من هذا، والمخلوق إنما ينفع المخلوق بدعائه أو بعمله، فإن الله تعالى يحب أن نتوسل اليه بالإيمان والعمل والصلاة والسلام على نبيه صلى الله عليه وسلم ومحبته وطاعته وموالاته، فهذه هي الأمور التي يحب الله أن نتوسل بها إليه، وإن أريد أن نتوسل إليه بما تُحَبُ ذاته، وإن لم يكن هناك ما يحب الله أن نتوسل به من الإيمان والعمل الصالح، فهذا باطل عقلاً وشرعاً، أما عقلاً فلأنه ليس في كون الشخص المعين محبوباً له ما يوجب كون حاجتي تقضى بالتوسل بذاته إذا لم يكن مني ولا منه سبب تقضى به حاجتي، فإن كان منه دعاء لي أو كان مني إيمان به وطاعة له فلا ريب أن هذه وسيلة، وأما نفس ذاته المحبوبة فأي وسيلة لي منها إذا لم يحصل لي السبب الذي أمرت به فيها.
وأما الشرع فيقال: العبادات كلها مبناها على الاتباع لا على الابتداع، فليس لأحد أن يشرع من الدين ما لم يأذن به الله، فليس لأحد أن يصلي إلى قبره ويقول هو أحق بالصلاة إليه من الكعبة، وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم في الصحيح أنه قال: "لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها" مع أن طائفة من غلاة العباد يصلون إلى قبور شيوخهم، بل يستدبرون القبلة، ويصلون إلى قبر الشيخ ويقولون: هذه قبلة الخاصة، والكعبة قبلة العامة! وطائفة أخرى يرون الصلاة عند قبور شيوخهم،
أفضل من الصلاة في المساجد حتى المسجد الحرام[ و المسجد النبوي ]و[المسجد]الأقصى. وكثير من الناس يرى أن الدعاء عند قبور الأنبياء والصالحين أفضل منه في المساجد، وهذا كله مما قد علم جميع أهل العلم بديانة الإسلام أنه مناف لشريعة الإسلام. ومن لم يعتصم في هذا الباب وغيره بالكتاب والسنة فقد ضَل وأضل، ووقع في مهواة من التلف. فعلى العبد أن يسلم للشريعة المحمدية الكاملة البيضاء الواضحة، ويسلم أنها جاءت بتحصيل المصالح وتكميلها، وتعطيل المفاسد وتقليلها، وإذا رأى من العبادات والتقشفات وغيرها التي يظنها حسنة ونافعة ما ليس بمشروع علم أن ضررها راجح على نفعها، ومفسدتها راجحة على مصلحتها، إذ الشارع الحكيم لا يهمل المصالح. ثم قال:
"والدعاء من أجل العبادات، فينبغي للإنسان أن يلزم الأدعية المشروعة فإنها معصومة كما يتحرى في سائر عبادته الصور المشروعة، فإن هذا هو الصراط المستقيم. والله تعالى يوفقنا وسائر إخواننا المؤمنين".
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 comment:

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہے ۔ جزاک اللہ خیرا بہت اعلیٰ تحقیق

    ReplyDelete