صفحات

Saturday, August 6, 2016

::::::: بظاہر مُخالف یا مُتضاد دِکھائی دینے والی احادیث کا مسئلہ اور حل :::::::


::::::: بظاہر  مُخالف  یا مُتضاد  دِکھائی دینے والی احادیث  کا مسئلہ اور حل  :::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَوا ہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
ہماری اُمت پر ٹوٹنے والی مُصیبتوں میں سے ایک مُصیبت یہ بھی ہے کہ جِس شخص کو دِین سے متعلق کسی عِلم کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتیں وہ بھی اُس عِلم کے بارے میں فتوے دینے لگتا ہے، اور محض اپنے سطحی سے مطالعہ، اپنی ذاتی سوچوں، اپنے اختیار کردہ بلا دلیل افکار، فلسفوں، منطقوں اور غلط فہمیوں کی بِناء پر دِین کی بنیادوں پر حملہ آور ہوتا رہتا ہے،
جیسا کہ، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے بارے میں ایسے کئی لوگ جا، بے جا ،ایسے اعتراضات کرتے ہوئے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں، جو اعتراضات اُن لوگوں کی حدیث شریف اور حدیث شریف سے متعلق عُلوم ، بلکہ دِین کے بنیادی عُلوم سے ہی جہالت کا منہ ُ بولتا ثبوت ہوتے ہیں،
اِن میں کچھ لوگ تو اپنی خرافات کو دُرُست دِکھانے اور سُجھانے کے لیے عقل کا ڈھونڈرا  پیٹتے ہیں ،
اور کچھ لوگ اِنسانی فِطرت اور حقوق  کا جھنڈا اُٹھائے آتے ہیں،
اور کچھ لوگ قُران کریم کی آڑ لے کر اُسی کی تعلیم و تربیت کو رد کرتے ہیں ، جِس پر قُران کریم نازل ہوا، اور جسے قُران نازل کرنے والے نے اُسی قران کی تفسیر کرنے کا حق دار و ذمہ دار قرار دِیا،
اِن مختلف پریشان حال اور گمراہ  لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں کچھ عِلمیت والا انداز اپنا کر کچھ احادیث شریفہ کے بارے میں ایک  اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ یہ ایک دُوسرے کے خلاف ہیں ، لہذا یہ قابل قبول نہیں ہیں ،
اُن لوگوں کو ، بظاہرایک دُوسرے کے خِلاف یا متضاد دِکھائی دینے والی احادیث شریفہ کے بارے میں صدیوں سے عُلماء اور أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے بنائے گئے قوانین کا کچھ بھی عِلم نہیں ہوتا،
بے چارے کچھ کتابوں کے  مختلف تراجم پڑھ کر احادیث شریفہ پر اعتراضات کرنے بیٹھ جاتے ہیں ،
اِ ن شاء اللہ میں ، اِس مضمون میں، بظاہر ایک دُوسرے کے خِلاف دکھائی دینے والی  احادیث شریفہ کے درمیان موافقت  مہیا کرنے کے قوانین کے بارے میں معلومات پیش کروں گا ،
اللہ تعالیٰ ، اِسے اُن لوگوں کے طرف سے پھیلائے گئے شکوک و شبہات کے ازالے کا سبب بنا دے ،
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے ، یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ہم صِرف اور صِرف صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کے بارے میں بات کر رہے ہیں ، جو روایات کمزور ہیں ، اور ثابت ہی نہیں ہوتِیں اُن کے بارے میں کوئی اعتراض کرنا تو بالکل ہی عقل و خِرد سے عاری کام ہے ،
 لیکن افسوس یہ اعتراضات کرنے والے لوگ محض اعتراض کرنا ہی چاہتے ہیں ، روایات کی صحت سے اُن کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، بلکہ یہ  لوگ اِس  قابل ہی نہیں ہوتے کہ روایات کی صحت کی جانچ  کر سکیں ،
رہا معاملہ صحیح ثابت شدہ احادیث مُبارکہ کا تو ، اِن میں کہیں کوئی مخالفت نہیں ، اور کوئی تضاد نہیں،
علم """مُصطلح الحدیث""" میں، بظاہر ایک دُوسرے سے تضاد رکھنے والی، یا ، ایک دُوسرے کے خِلاف دِکھائی دینے والی احادیث شریفہ کو سمجھنے اور اُن میں موافقت قائم کرنے کے عِلم کا اصطلاحی نام """مختلف الحدیث""" ہے ،
اور یہ "عُلومُ الحدیث" میں ایک مُستقل شعبہ ، ایک مُستقل عِلم ہے ، لوگوں کی خام خیالیوں کی اِس میں  بھی کہیں کوئی گنجائش نہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی خدمت کرنے والے عُلماء اور أئمہ کرام رحمہم اللہ نے صدیوں سے اِس عِلم میں بہت کام کیا ہے،
بہت سی کتابیں لکھی اور ہم لوگوں کے لیے چھوڑی ہیں کہ ہم اُن کو پڑھ کر اِس عِلم کو ، اِس کے قوانین اور قواعد کو سمجھیں ، اور اپنی جہالت زدہ عقلوں  کی گمراہی سے بچیں،
اِس مضمون میں ، اِن شاء اللہ ، میں اِس عِلم  میں مقرر بنیادی قواعد و قوانین کو مختصر طور پر پیش کر رہا ہوں،
مختصر طور  پر اِس لیےکہ یہ مضمون میں اپنے جیسے عام  لوگوں اور طالب عِلموں  کے لیے لکھ رہا ہوں،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اِسے سب پڑھنے والوں کے لیے ہدایت کا سبب بنا دے ،
:::احادیث شریفہ  میں  بظاہر دکھائی دینے والی مخالفت کو  تین بڑی اقسام میں سمجھا جاتا ہے :::
  کسی دو ، یا کچھ روایات میں بظاہر دِکھائی دینے والے مخالفت تقریباً اِنہی تین میں سے کسی ایک قِسم کے ز ُمرے میں آتی ہے،
::: (1) ::: تعارض القول ُ القولَ::: ایک قولی حدیث کا کسی دُوسری قولی حدیث سے مختلف ہونا:::
مثلاً ، کسی صحیح حدیث شریف میں کوئی کام کرنے سے منع کیا گیا ہو، اور کسی دُوسری صحیح حدیث شریف میں وہی کام کرنے کا کہا گیا ہو کیا ہو،
::: (2) ::: تعارض القولُ الفعلَ ::: ایک قولی حدیث کا کسی دُوسری فعلی حدیث سے مختلف ہونا:::
مثلاً ، کسی صحیح حدیث شریف میں کوئی کام کرنے سے منع کیا گیا ہو، اور کسی دُوسری صحیح حدیث شریف میں وہی کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خود کیا ہو،
::: (3) ::: تعارض الفعلُ الفعلَ ::: ایک فعلی حدیث کا کسی دُوسری فعلی حدیث سے مختلف ہونا:::
مثلاً ، کسی صحیح حدیث شریف میں یہ بیان ہو فلاں کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نہیں کیا، اور کسی دُوسری صحیح حدیث شریف میں یہ بیان ہو کہ وہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کیا تھا ،
::::::: تینوں صُورتوں میں موافقت کے بنیادی اور عام طور پر استعمال کیے جانے والے قوانین  :::::::
پہلی صُورت میں  حل یہ ہوتا ہے کہ """إِذا تعارض القولُ القولَ ، یؤخذ الحاظر و یُترَک المبیح::: اگر ایک قول دُوسرے قول کے مخالف ہو ، تو ممانعت والے قول پر عمل کیا جائےگا اور اجازت والے قول کو چھوڑ دیا جائے گا """،
اسے دُوسرے اِلفاظ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ"""اِذا  تعارض  الحاظرُ  المبیحَ  فلیؤخذ  الحاظر  و  یُترَک  المبیح  ::: اگر   کسی کام سے ممانعت  کا  حُکم  بھی آیا ہو ، اور  اُسی کام کے  جواز والا قول بھی موجود ہو ،تو  ممانعت  والے  حُکم  پر  عمل  کیا  جائے  گا  اور  جواز  والے  کو  ترک  کر  دیا  جائے  گا  """،
اِس قاعدے، اِس قانون کی دلیل درج ذیل ہے :::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے  حُکم   دِیا   ہے   کہ(((((فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَىْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ  ::: پس جب  میں  تُم لوگوں کو کِسی کام کے کرنے سے منع کر دوں تو اُسے کرنے سے باز آ جاؤ ،  اور جب کسی کام کے کرنے کا حکم دوں تو اُس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو))))) یہ الفاظ  صحیح  البخاری  /  حدیث /7288 کتاب الاعتصام بالکتاب/باب2الاقتداء بسُنن رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہیں ، اور ایک دو اِلفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حدیث شریف  صحیح  مسلم  ،سُنن ابن ماجہ، سُنن النسائی، سُنن الترمذی، صحیح ابن حبان، سُنن الدراقُطنی ، اور مُسند احمد میں بھی مروی ہے،
اِس  مذکورہ  بالا حدیث شریف  میں  رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے  ألفاظ  ہمیں  صاف صاف سمجھا  رہے  ہیں کہ  ممانعت  کے  حُکم (نہی)میں  کوئی  أختیار  نہیں  ،  اُس  پر  عمل کرنا  ہی کرنا  ہے  اور  منع  شدہ  کام  سے  باز  آنا  ہی  ہے  اِس  میں  اپنی  أستطاعت  (طاقت  و  قدرت )کے  مُطابق  عمل  کرنے  کی  بھی  گنجائش  نہیں  جیسا کہ  کِسی  کام  کو  کرنے  کے  حُکم  (أمر )پر  عمل  کرنے  میں  اپنی  أستطاعت   کے  مطابق  کرنے  کی  نرمی  دی  گئی  ہے  ، 
اس سے یہ بھی بڑی وضاحت سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ أختلاف  أحادیث  میں  نہیں  بلکہ  اپنے  فہم  میں  ہے  یا  یہ  کہیے  کہ  اپنے  محدود  فہم  میں  ہے  ،  اور  جب  کوئی  أختلاف  نہیں  تو  پھر  ناسخ  اور  منسوخ   کی  طرف  دوڑ  لگانے  کی  قطعا ً  کوئی  ضرورت  نہیں  جیسا  کہ  علم  الاصول  میں  مقرر  ہے، 
مُمانعت  کے  حُکم (نہی)کو  کام  کرنے  کے  حُکم  (أمر )پر  فوقیت  دینا  صحابہ   رضی اللہ عنہم سے  بھی  ثابت ہے ،
  إمام  الطیالسی  اپنی  مُسنَد  میں  روایت کرتے ہیں کہ  """عبداللہ  ابن  عباس  رضی  اللہ  عنھما  سے  کِسی نے  پوچھا  کہ  اگر  کوئی  جمعہ  کو  روزہ  رکھنے  کی منّت  (نذر )مان  لے  تو  اُسکا  کیا  حُکم ہے  ؟  ،
 تو  عبد اللہ  رضی  اللہ  عنہ ُ  نے جواب  دِیا  "ہمیں  منّت  (نذر )پوری کرنے  کا  حُکم  دِیا  گیا  ہے  اور  جمعہ  کا  روزہ  رکھنے  سے  منع  کیا  گیا  ہے 
 ابن  عباس رضی اللہ عنہما  کے  اِس  جواب  سے  صاف  ظاہر  ہے  کہ  وہ  ممانعت   کے  حُکم  (نہی)کو  کام  کرنے  کے  حُکم(أمر )پر  فوقیت  دے  رہے  ہیں کیونکہ  نہی  میں  کوئی  أختیار  نہیں  ۔ 
پس اِس طرح یہ حل واضح ہوا کہ اگر کہیں کسی دو صحیح ثابت شُدہ  قولی احادیث میں ، بظاہر ایک دُوسرے سے کوئی مخالفت یا تضاد دِکھائی یا سُجھائی دے رہا ہو ، تو، ایسی صُورت میں ممانعت والے قول کو اپنایا جائے گا اور کام کرنے ، یا کام کرنے کے جواز  والے قول کو چھوڑ دِیا جائے گا۔
دُوسری صُورت میں  حل یہ ہوتا ہے کہ """ إِذا تعارض القولُ الفَعلَ ، یؤخذ القولُ و یُترَک الفعلُ::: اگر ایک قول کسی فعل کے مخالف ہو ،تو قول پر عمل کیا جائے گا اور فعل کو ترک کیا جائے گا"""،
عُلماء اصول کے ہاں یہ قانون متفقٌ علیہ ہے کہ """ السُّنّة القولية أقوى في الحجةِ والدلالةِ مِن الفعلية، فالقول مقدمٌ على الفعلِ عند التعارض::: قولی سُنّت ، حجت میں فعلی سُنّت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے، لہذا قول اور فعل میں مخالفت دِکھائی دینے کی صُورت میں قول کو فعل  پر فوقیت دی جائے گی"""،
اور ایسا اِس لیے کہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا کوئی بھی قول اُن کی اُمت کے تعلیم اور حکم ہے ، اور اگر  اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا کوئی فعل اُسی قول کے بظاہر مخالف یا متضاد نظر آتا ہو تو بلا شک  وہ عمل اُن کے لیے خاص ہو گا ، اُمت کو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حکم پر عمل کرنا ہو گا، کیونکہ ، یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے،
فرمایا ﴿  وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ أمراً أن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن أمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً ::: اور جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی ایمان والے مرد اور نہ ہی کِسی ایمان والی عورت کے لیے اُن(اللہ اور اسکے رسول  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے فیصلے میں کوئی اختیار باقی رہتا ہے،اور جِس نے اللہ اور اُسکے رسول کی نا فرمانی کی تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں جا پڑاسورت الأحزاب(33)/آیت36،
پس جب اللہ عزّ و جلّ یا ، اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی کام کرنے کا ، یا کسی کام کو نہ کرنے کا حکم ہو گیا تو اُمتی کو اُسی حکم کی تعمیل کرنا ہے،
اگر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس پر عمل نہ فرمایا ہو تو ، یہ ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے،
عُلماء کرام رحمہم اللہ نے اِس موضوع سے متعلق کچھ مثالیں بھی ذِکر کی ہیں ، اپنے اِس مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے میں اُن کو یہاں نقل نہیں کر رہا، تفصیلات کے متمنی متعلقہ کتب کا مطالعہ فرما سکتے ہیں ۔
تیسری صُورت یعنی ، تعارض الفعلُ الفعلَ ::: ایک فعلی حدیث کا کسی دُوسری فعلی حدیث سے مختلف ہونا::: اِس تیسری صُورت کو  جمہور ، اور، متأخر عُلماء کی اکثریت نے محض ایک  فرضی چیز کہا ہے،
اور یہ ہی حقیقت ہے، کیونکہ ،
کسی وقت میں ایک کام کرنے ، اور کسی دُوسرے وقت میں وہی کام نہ کرنے کی خبر ہونے کا مطلب درحقیقت اُن دونوں کا ایک دُوسرے کے خِلاف یا متضاد ہونا نہیں ہوتا، بلکہ،
ایک ہی کام کی دو مختلف حالتو ں کا ذِکر ہوتا ہے،
یا دو مختلف اوقات میں سے کسی ایک وقت میں ایک کام کیے جانے کا ذِکر ہوتا ہے ، اور کِسی دُوسرے وقت میں وہ کام نہ کیے جانے کا ذِکر ہوتا ہے،
جیسا کہ  یوم عاشوراء کا روزہ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد یہ روزہ رکھا، اب اُس سے پہلے روزہ نہ رکھنا ، اور بعد میں روزہ رکھنا ، دو الگ الگ کام ہیں ، لیکن اِن میں کوئی مخالفت نہیں ،
جیسا کہ ، رات کی نفلی نماز دو دو رکعت پڑھنا ، اور چار چار رکعت پڑھنا،
علامہ ابو الحسین البصری المعتزلی رحمہُ اللہ نے اِس موضوع میں بڑی ہی شاندار بات کہی ہے کہ """ اعْلَم أَن الْأَفْعَال المتعارضة يَسْتَحِيل وجودهَا لِأَن التَّعَارُض والتمانع إِنَّمَا يتم مَعَ التَّنَافِي وَالْأَفْعَال إِنَّمَا تتنافى إِذا كَانَت متضادة وَكَانَ محلهَا وَاحِدًا ووقتها وَاحِدًا ويستحيل أَن يُوجد الْفِعْل وضده فِي وَقت وَاحِد فِي مَحل وَاحِد فاذا يَسْتَحِيل وجود أَفعَال متعارضة ::: جان لیجیے کہ ، دو مختلف کاموں کا موجود ہونا نا ممکن ہے، کیونکہ مخالفت اور ایک دُوسرے کے لیے ممانعت والا ہونا، نفی کے وجود کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے، اور (کوئی سے دو )کام صِرف اُسی صُورت میں ایک دُوسرے کے مخالف ہو سکتے ہیں جب وہ ایک دُوسرے کی ضِد ہوں، اور ایک ہی جیسے معاملے سے متعلق ہوں ، اور ایک ہی وقت میں ہوئے ہوں،پس یہ ناممکن ہے کہایک دُوسرے کی ضِد والے دو کام ایک ہی وقت میں ، ایک ہی جگہ میں (ایک ہی معاملے سے متعلق)واقع ہوں، پس ایک دُوسرے کے مخلاف کاموں کا وجد ممکن ہی نہیں""،المعتمد في أصول الفقه/ الْكَلَام فِي الْأَفْعَال ، تالیف:محمد بن علي الطيب أبو الحسين البَصْري المعتزلي (المتوفى: 436ہجری)،
پس جمہور عُلماء کرام کی یہ بات بالکل دُرُست ہے کہ دو افعال (کام)ایک دُوسرے کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے،
اور اگر پھر بھی کسی کی عقل شریف میں کوئی دو کام ایک دُوسرے کے خِلاف ہی سُجھائی دیتے رہیں ، تو پھر اُسے چاہیے کہ وہ  اپنی عقل ، سوچ ، افکار اور فلسفوں کی پیروی کرنے کی بجائے، اُن عُلماء کرام کی طرف رجوع کرے جنہیں اللہ عزّ وجلّ نے قران کریم ،  حدیث شریف ، اور اصول الفقہ،کا وہ عِلم عطاء فرمایا جو اِس شخص کے وہم و گمان میں بھی نہیں،
پس اپنی ہوائے نفس کی اتباع کرنے کی بجائے اُن عُلوم کی اتباع کرے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے دِین کی حفاظت کے لیے اپنے نیک بندوں میں سے عُلماء کرام کو عطاء فرمائے،
اِن مذکورہ بالا تین طریقوں کے عِلاوہ ، عُلماء کرام رحمہم اللہ نے بظاہر مخالف دِکھائی دینے والی صحیح روایات میں سے اُس ظاھری مخالفت کو صاف کرنے کے لیےاور بھی کئی طریقے اور قوانین مقرر  کر رکھے ہیں ، مثلاً :::
::: """ تخصیص  مِن  العام"""، ::: """حمل  المطلق علی المقید"""،
::: """الاستثناء  مِن  الجِنس"""، ::: """الإِستدلال  مِن  المنطوق أو  مِن  المفہوم """،
::: """یا"""الظاھر و المؤول"""، ::: """الاجمال و التبیین"""،
::: """أمر خاص لأحد مِن الصّحابہ رضی اللَّہ عنہم، أو لِأشخاص معینین """،وغیرہ،
اور اِن سب قواعد کے بہت سے ضمنی ابواب ، اور مسائل ہیں ، جِن کا عِلم چند کتابیں پڑھنے والے ، یا اِدھر اُدھر کے فلسفوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کو یقیناً نہی ہوتا ، بلکہ سالوں کے سال حصول عِلم میں جانفشانی کرنے والے  راسخ عُلماء کرام ہی رکھتے ہیں،
جب اِن سب طریقوں پر عمل کرنے کے بعد بھی بظاھر مخالف دِکھائی دینے والی دو روایات میں توفیق نہ ہوسکے تو، پھر  پہلے تو
اور جب اِس طرح سے بھی اُن دو روایات یا نصوص میں اتفاق سمجھ نہ آسکے تو پھر ناسخ اور منسُوخ کی طرف توجہ کی جاتی ہے، جیسا کہ عُلماء کرام  نے کہا کہ """ لا  یُبادَر  إِلیٰ  النَسخِ  إِلَّا  أن  تَعذرَ  الجَمع ::: کِسی  حُکم  کے  منسوخ  ہونے  کی  طرف  اُس  وقت  ہی  توجہ  کی  جائے  گی  جب  دو  مختلف  أحکام  میں  جوڑ  ہونے  کی  کوئی  صُورت  نہ  بنتی  ہو  """،
اور اِس کے لیے بھی لازمی شرط یہ ہے کہ ، دونوں روایات  کی تاریخ کا یقینی عِلم ہو، تو پرانی روایت کو منسوخ اور نئی روایت کو ناسخ قرار دیا جائے گا ،
تاریخ کے عِلم کے عِلاوہ بھی عُلماء کرام نے ناسخ اور منسوخ کا فیصلہ کرنے کے لیے  عُلماء کرام نے تقریباً سات مختلف شرائط، اور سولہ مسائل کا ذِکر کیا ہے،  اور یہ بھی واضح کر رکھا ہے کہ کن معاملات اور مسائل پر ناسخ اور منسوخ وارد ہو سکتا ہے اور کن پر نہیں،
اور اگر روایات کی تاریخ کا عِلم نہیں ہو، تو  پھر  ایسی صُورت میں """الراجح  و  المرجوح """کی طرف توجہ کی جاتی ہے،  جیسا کہ عُلماء کرام نے مقرر   کر رکھا ہے کہ """الجمع مقدَّم على الترجيح::: (دو مخالف دِکھائی دینے والی )نصوص میں جمع کرنا ، (کسی ایک کو دُوسری پر )ترجیح دینے پر مُقدّم ہے"""،لہذا  راجح اور مرجوح  کی طرف اُسی وقت مائل ہوا جائے گا جب اتفاق سمجھنے کے تمام قواعد اِستعمال کرنے کے باوجود  کامیابی نہ ہوئی ہو، ، اور نہ ہی ناسخ اور مسنوخ کی تاریخ کا عِلم ہو،
اور ، یہ بھی کہ، ایسی دو نصوص میں سے راجح اور مرجُوح بھی یُوں ہی کسی کی اپنی ذاتی سوچ و عقل کے مُطابق نہیں اختیار کیا جائے گا ، بلکہ اُس کے لیے بھی جو قواعد مقرر ہیں ، اُن قواعد و ضوابط کے مُطابق ہی یہ کام مکمل کیا جائے گا۔
اُمید ہے کہ ، قارئین کرام ، آپ صاحبان کو یہ معاملہ اچھی طرح سے سمجھ میں آ گیا ہو کہ ، کوئی بھی  دو صحیح ثابت شُدہ قولی  یا فعلی احادیث  شریفہ در حقیقت ایک دُوسرے کے مخالف نہیں ہوتِیں ، اپنی جہالت، کم عِلمی ، یا کسی بھی اور سبب سے گمراہی کے سبب لوگ ایسے سمجھنے لگتے ہیں اور پھر خُود بھی مزید گمراہ ہوتے ہیں ، اور دُوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، اور سب ہی مسلمانوں کو حق پہنچاننے ، جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی ہمت عطاء فرمائے۔ والسلام علیکم۔
طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر۔
::: مصادر و مراجع :::فتح الباری لامام ابن حجر العسقلانی، اِرشاد الفحول الی تحقیق الحق من عِلم الاصول لامام الشوکانی، بحر المحیط لامام الزرکشی، شرح مسلم للامام النووی، فتح الباری لامام ابن رجب ، ناسخ الحدیث و منسوخہُ لامام عمر بن احمد  ابن شاھین البغدادی،دراسات الاصولیۃ فی السُّنۃ النبویۃ ، دکتور محمد  إ،براھیم الحفناوی،
تاریخ کتابت :01/11/1437ہجری، بمُطابق،04/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر حاصل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 comment: