::::::: رسُول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہِ وسلم کی سیرت مُبارکہ(مُختصراً) :::::::
::::: (8) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت اور اُن کی تابع فرمانی :::::
بِسْمِ اللَّهِ
الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ
الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما
بَعد :::
::::: ہم نبی صلی اللہ علیہ وعلی وسلم سے مُحبت کیوں کریں
اور ان کی اتباع کیوں کریں؟ :::::
کیا آپ اپنے آپ سے یہ مندرجہ بالاسوال
نہیں پوچھیں گے ؟؟؟
یا آپ اس کا جواب حاصل کرنے کی کوشش نہیں
کریں گے ؟؟؟
یقینا آپ اِس سوال کا جواب جاننا پسند کریں گے
،
لیجیے شیخ الاسلام اِمام ابن تیمیہ رحمۃُ اللہ علیہ سے
اِس کا جواب سُنیے ، کہتے ہیں :::
""" کسی بھی اور چیز سے
زیادہ اور بڑھ کر ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے مُحبت کرنے ، اور اُن
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی اور
شخص سے زیادہ تعظیم کرنے ، کا سبب یہ ہے کہ دُنیا اور آخرت کی سب سے بڑی خیر حاصل کرنے
کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ سلم کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں
ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر إِیمان
لا کر اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِتباع کر کے ہی ہم دُنیا اور آخرت کی
سب سے بڑی خیر حاصل کر سکتے ہیں ،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کااور اللہ کی رحمت
تک پہنچنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں
ہے ،اور یہ اِس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر إِیمان لایا جائے ، اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے ہر
کسی سے بڑھ کر مُحبت کی جائے اور اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اِتباع کی جائے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی وہ ذات ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ
دُنیا اور آخرت کے عذاب سے ہمیں بچائے گا ،
اور وہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی ایک راستہ
ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہمیں دُنیا اور آخرت کی ہر خیر عطا فرمائے گا ،
تو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمتوں میں
سے سب سے زیادہ فائدے والی نعمت إِیمان ہے اور یہ نعمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلہ وسلم کے ذریعے کے علاوہ اور کسی ذریعے سے حاصل ہونے والی نہیں ،کیونکہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالی کِسی کوکفرو شرک
کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں داخل فرماتا ہے ،
اور ایسا ہوجانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلیٰ آلہ وسلم کے علاوہ اور کوئی راستہ ( اللہ کی طرف سے مُقرر) نہیں ہے ،
کسی کے لیے بھی اُس کی ذات یا اُس کے اہل
و عیال (یا) کوئی بھی اُس کو اللہ تعالی کو عذاب سے نہیں بچا سکتا (پس اللہ کے عذاب
سے بچنے اور اللہ کی رحمت حاصل کر کے اُس کی جنّت میں داخل ہو سکنے کا )کوئی ذریعہ
نہیں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ذات ِ مُبارک پر إِیمان لا کر
اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مکمل اتباع کرنے کے """ ( مجموعہ الفتاوٰی)،
اگر کوئی بھی شخص اِس چیز پر غور کرے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی ذاتِ مُبارک کے ذریعے اللہ تعالی نے اُسے کتنا
عظیم اور بڑا فائدہ دیا ہے ، کہ اللہ تعالی نے اُسے کفرو شرک کے اندھیروں سے نکال کر
إِیمان کی روشنی میں داخل فرمایا تو اِس بات پر غور کرنے والا یہ جان لے گا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی وہ اکیلا سبب ہیں جس کی وجہ سے وہ شخص اُن صلی
اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر إِیمان لانے کے بعد اور اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم
کی تابع فرمانی اختیار کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے عیش و آرام میں داخل ہو سکتا ہے،
اور دُنیا اور آخرت کے ہر قسم کے فائدے حاصل کر سکتا ہے،
پس سوائے اللہ عزّ و جلّ کے کِسی بھی اور چیز ، سے
بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے مُحبت کرنا ،
اور، اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم
کی توقیرو تعظیم کرنا ،اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق ہے،
لیکن افسوس کہ آج لوگوں کی اکثریت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے حقوق کو اپنی غفلت اور لا علمی کی وجہ سے جانتی ہی نہیں ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا یہ حق ادا
نہیں کر پاتی ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم پر إِیمان لایا، صحیح مطلوب درجہ تک پہنچا ہوا إِیمان ، وہ اپنے اندر یقیناً رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مُحبت پاتا ہے ،
اب اِن إِیمان لانے والوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں
جن کو اللہ سبحانہُ وتعالیٰ نے یہ مُحبت بہت زیادہ عطاء فرمائی اور کچھ ایسے ہیں جن
کو یہ مُحبت تھوڑی ملی، جیسے کہ ایسے لوگ جن کا زیادہ وقت غفلت میں گزرتا ہے اور وہ
لوگ دُنیا کی مشغولیات اور مُحبتوں اور لالچ میں مشغول رہتے ہیں لیکن جب اِن کے سامنے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا ذِکر کیا جاتا ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو دیکھنے کے شوق میں بہت زیادہ آگے بڑھے ہوئے نظر آتے ہیں اور
ایسے کاموں پر فوراً راضی ہو جاتے ہیں کہ جن کے ذریعے سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلیٰ آلہ وسلم کا قُرب حاصل کر سکیں ،اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دیدار کر
سکےں، لیکن ،یہ اُن کی یہ کیفیت ، یہ شوق ، یہ مُحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت تھوڑے
وقت کے لیے ظاہرہوتی ہے ، وقتی طور پراُن کے اندر یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے اور اُس کے
بعد پھر سے دُنیا کے مال ، بیوی، بچوں ، بہنوں ،بھائیوں ، رشتے داروں ، کاروبار ، تجارت
کے شوق اُن پر حاوی ہو جاتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے ۔ (فتح الباری ، بتصرف)
یا د رکھیے ،
إِیمان کی تکمیل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے قولی اور عملی طور پر مُحبت کرنا ضروری ہے*1*،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ قُل إِن کَانَ آبَاؤُکُم
وَأَبنَآؤُکُم وَإِخوَانُکُم و َأَزوَاجُکُم وَعَشِیرَتُکُم وَأَموَالٌ اقتَرَفتُمُوھَا
وَ تِجَارَۃٌ تَخشَونَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرضَونَہَا أَحَبَّ إِلَیکُم مِّنَ
اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأتِیَ اللّہُ بِأَمرِہِ
وَاللّہُ لاَ یَہدِی القَومَ الفَاسِقِینَ
:::
(اے رسول ) فرما دیجیے ، اگر اپنے باپ دادا
اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور خاندان اور مال جو تُم لوگ جمع کرتے ہو اور تجارت
جِس کے خراب ہونے کا تُمہیں ڈر ہے اور گھر جو تُمہیں پسند ہیں ( اگر یہ سب کچھ ) تُم
لوگوں کو اللہ اور اُسکے رسول اور اللہ کی راہ میں جِہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو
پھر انتظار کرو یہاں تک کہ( دُنیا اور آخرت میں تُماری ذلت و تباہی کے لیے ) اللہ کا
حُکم آ جائے اور (اگر ایسا ہی کرتے رہو گے تو یاد رکھو ) اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں
دیتا﴾سورت التوبہ /آیت 24 ، """
غور فرمایے ،قارئین کرام ، پھر غور فرمایے ،
کہ ،
رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اپنی ہر ایک چیز سے زیادہ مُحبت نہ کرنے والا اللہ
کے ہاں فاسق ہے ، جی ہاں فاسق ہے ،
عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ"""ایک دِن ہم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ تھے اور اُنہوں نے عُمر ابن الخطاب رضی اللہ
عنہ ُ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا ،
تو عُمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """اے اللہ رسول آپ مجھے میری
جان کے عِلاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا
﴿ لا وَالَّذِی نِفسِی بِیدہِ حَتٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیکَ مِن نَفْسِکَ :::نہیں اُسکی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک کہ میں تمہیں
تُماری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ﴾،
تو عُمر رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """جی اچھا تو پھر اب
آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے فرمایا ﴿الْآنَ یا عُمَرُ ::: اب اے عُمر﴾(یعنی اب تُمہارا إِیمان مکمل ہوا اے عُمر) صحیح البُخاری /کتاب
الإِیمان و النذور /باب6،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿لَا یُؤمِنُ أحدُکم حَتٰی
أَکُونَ أَحَبَّ إلیہِ مِن وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِین ::: تُم سے کوئی بھی اُس وقت تک
إِیمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُسے اُس کے بیٹے ، باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں ﴾صحیح البُخاری / کتاب الإِیمان /باب6،
امام الخطابی رحمہ ُ اللہ کہتے ہیں کہ """اِس کا
معنی یہ ہے کہ،،، تم میری مُحبت میں اتنے سچے ہو جاؤکہ اپنے آپ کو میری اطاعت میں فنا
کر دو،اور اپنی خواہشات پر میری خوشی کو ہمیشہ مسلط رکھو ، خواہ تمہیں ایسے کرنے میں
کتنی ہی تکلیف اور پریشانی برداشت کرنا پڑے """،
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إنما مَثَلِی وَمَثَلُ النَّاس کَمَثَلِ رَجُلٍ استَوقَدَ
نَارًا فلما أَضَاء َت ما حَولَہُ جَعَلَ الفَرَاشُ وَھَذِہِ الدَّوَابُّ التی تَقَعُ
فی النَّارِ یَقَعنَ فیہا فَجَعَلَ یَنزِعُہُنَّ وَیَغلِبنَہُ فَیَقتَحِمنَ فیہا فَأَنَا
آخُذُ بِحُجَزِکُم عن النَّارِ وأنتُم تَقحَمُون فِیہا ::: میری اور لوگوں کی مثال ایسے
ہے کہ جیسے ایک شخص نے آگ جلائی اور جب اُس آگ نے اپنے ارد گرد کی چیزوں کو روشن کر
لیا تو پتنگے اور کیڑے جو آگ میں آ گرتے ہیں اُس آگ میں گرنے لگے اور وہ شخص ان کو
آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آتے اور آگ میں جا گرتے ہیں
، تو میں تُم لوگوں کی کمر پکڑ کر تُم لوگوں کو آگ سے بچا رہا ہوں اور تُم لوگ اُس
میں گرنا ہی چاہتے ہو﴾(صحیح البُخاری)
صحیح مُسلم کی روایت کے الفاظ ہیں ﴿ إنَّما مَثَلِی وَمَثَلُ أُمَّتِی ::: میری اور میری اُمت کی مِثال
﴾
سُنا آپ نے ، محترم قارئین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اپنی اُمت
سے جِس میں ہم بھی شامل ہیں کتنی مُحبت فرماتے ہیں کہ ہر اس چیز سے جو ہمیں تکلیف دے
دُور رکھنے کی بھر پور کوشش فرماتے ہوئے ہمیں سب کچھ بتا گئے ، اب آپ ہی بتائیے کیا
جہنم کی آگ سے بڑھ تکلیف دہ چیز کوئی اور ہے ؟؟؟
یہ بھی سُنیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم ہم سے اتنی مُحبت فرماتے تھے کہ ہمیں دیکھنے کی خواہش کا اظہار فرماتے ہوئے
اِرشاد فرمایا﴿وَدِدْتُ انی لَقِیتُ إخوانی﴾
صحابہ رجی اللہ عنہم نے عرض کِیا
::: کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟؟؟
تو فرمایا ﴿ أَنْتُمْ أصحَابی وَلَکِنْ إخوانی الَّذِینَ آمَنُوا بی ولم یَرونی ::: تُم لوگ میرے صحابی ہو اور
میرے بھائی وہ ہیں جو مجھ پر إِیمان لائے اور مجھے دیکھا نہیں﴾ (مُسند أحمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم
نے ہمیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال إِیمان کی روشنی میں داخل کرنے کے لیے، اور
جہنم کے راستے سے اُٹھا کر جنّت کی راہ پر ڈالنے کے لیے کتنی تکلیفیں برداشت کیں،
کیا اب بھی ہم اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
سے سچی عملی مُحبت نہ کریں گے؟؟؟
جبکہ اللہ جلّ ثناوہ ُ اور خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے
ہمیں اِس مُحبت کا حُکم دِیا ہے اور اِس مُحبت میں ہمارا ہی فائدہ ہے ، نہ اُن صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ،
کیونکہ اگر ہم اُن صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم سے مُحبت نہ کریں گے تو یہ ہمارا نقصان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلہ وسلم کی ذاتِ مُبارک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ،
چلیے آج کچھ دیر کے لیے اپنے اندر جھانکتے ہوئے، اپنے
اعمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم سے مُحبت کے دعوے ،اور فی الواقع ہمارے اندر پائی جانے والی مُحبت کو سامنے
رکھتے ہوئے ، سوچتے ہیں ، خود کو ٹٹولتے
ہوئے اپنے آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کتنی
حیاء ہے ؟؟؟
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلہ وسلم سے کتنی مُحبت ہے؟؟؟
ہم قیامت کے دن کس مُنہ سے اُن صلی اللہ
علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کو اُن کے حوض پر ملیں گے؟؟؟
ہمارا ایسا کون سا عمل ہے ، کہ، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی شفاعت
کی اُمید رکھیں ؟؟؟
اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کون سی اطاعت ہم نے ایسی کی ہے یا کون سی
اطاعت ہم ایسی کرتے ہیں جس کو لے کر ہم جنت میں داخل ہوسکیں؟؟؟
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے سامنے
پیش ہوسکیں اور یہ عرض کر سکیں کہ اے اللہ کے رسول ہم آپ کی یہ یہ اطاعت کرتے تھے ؟؟؟
سوچئے اور اپنے اعمال کا اپنے عقائد کا جائزہ لیجیے
اور اپنے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی مُحبت اُس درجے پر پیدا کیجیے
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی اطاعت اس درجے پر اختیار کیجیے جو درجہ مطلوب
ہے ۔
میرا سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم پر قُربان ہو جائے۔
اللَّہُمَ صَلِّ عَلی
مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ عَلی آلِ إبراھِیم وَبَارِک
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*1* (اِس موضوع کی تفصیل """اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی مدد کیجیے"""نامی سلائیڈ شو میں شامل ہے،
جہاں اس کے ساتھ
ساتھ """رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مُحبت ، اِس مُحبت
کے فائدے اور تقاضا """بھی بیان ہوا ہے ،یہ سلائیڈ شو با آواز بھی
تیار کیا گیا تھا اور بغیر آواز کے بھی، و الحمد للَّہِ
الذی تتم بنعمتہ الصالحات ، اور اللہ کا ہی شکر ہے جس کی توفیق سے نیکیاں مکمل ہوتی ہیں
)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
No comments:
Post a Comment