صفحات

Thursday, September 1, 2016

::::::: وہ صِفات جو اپنے عمل کے سبب حاصل جا سکتی ہیں :::::::



:::::::      وہ صِفات جو اپنے عمل کے سبب حاصل کی   جا سکتی  ہیں     :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
کسی اِنسان میں بہت سے صِفات ہوتی ہیں ، اچھی ہوں یا بری، اُن میں سے اکثر تو ایسی ہوتی ہیں جو اُسے، اُس کے اپنے کسی عمل کے بغیر ہی  اللہ کی طرف سے دی گئی ہوتی ہیں ، اور کچھ ایسی ہوتی ہیں  جو اُسے اُس کے کسی یا کچھ اعمال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ عطاء فرماتا ہے ،
لیکن عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صِفات یا خصوصیات خود سے، یعنی اپنے کسی عمل کے سبب، کسی عمل کے نتیجے میں حاصل نہیں کی جا سکتیں،
لیکن ایسا سمجھنا دُرُست نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں ایسی چند صِفات کی خبر عطاء فرمائی ہے جنہیں مُسلمان  اپنی کسی عمل کے نتیجے میں حاصل کر سکتا ہے ، اِن شاء اللہ ،
ایک دفعہ ، اللہ کے محبوب ترین بندوں ، اللہ کی حقیقی اور سچے اولیاء میں سے ایک ، اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عظیم القدر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک، ابو سعید  الخُدری  اور اُن کے اھل خانہ پر  فاقے کا عَالَم تھا، گھر والوں نے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کچھ کھانا طلب کرنے کے لیے کہا، تو ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،[1] اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کچھ اور انصاری  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے خطاب فرما رہے تھے ، جِس میں ابو سعید رضی اللہ عنہ ُ نے یہ سُنا کہ ﴿ إِنَّہُ مَن یَستَعِفَّ یُعِفَّہُ اللَّہ وَمَن یَتَصَبَّر یُصَبِّرہُ اللَّہ ُ وَمَن یَستَغنِ یُغنِہِ اللَّہ وَلَن تُعطَوا عَطَاء ً خَیرًا وَأَوسَعَ مِن الصَّبرِ ::: بے شک جو عِفت طلب کرتا ہے اللہ اُسے عِفت عطاء فرماتا ہے ، اور جو صبر کرتا ہے اللہ اُسے صبر دیتا ہے اور جو غِنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنی کر دیتا ہے ، اور تُم لوگوں کو صبر سے بڑھ کر خیر اور وسعت والی کوئی اور چیز ہر گز عطاء نہیں کی گئی[2]،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ خبر بھی عطاء فرمائی کہ (((إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَ الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، وَمَنْ يَتَحَرَّ الْخَيْرَ يُعْطَهُ، وَمَنْ يَتَوَقَّ الشَّرَّ يُوقَهُ ::: یقیناً عِلم حاصل کرنے  کی کوشش سے ہی ملتا ہے، اور حِلم اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش سے ہی  آتا ہے اور کو کوئی خیر پانے کی کوشش کرتا ہے اُسی کو خیرعطاء کی جاتی ہے، اور جو کوئی شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اُسی کو شر سے بچایا جاتا ہے))) سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث رقم 342،
رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن دو  مذکورہ بالا فرامیں شریفہ  کی روشنی میں ہمیں پتہ چلا کہ اگر کوئی اِنسان کوشش کرے ، تو اللہ کی مشیئت سے وہ اپنے اندر  درج ذیل صِفات حاصل کر سکتا ہے:
::: (1) ::: عِفت ::: عِفت کا مرکزی مفہوم ہے اپنی عِزت کو محفوظ رکھنے کے لیے ، اپنی کسی ضرورت کی تکمیل کے لیے کسی سے کوئی سوال نہ کرنا، کچھ نہ مانگنا،  اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ اختیار کرنا جو کسی طور بے عِزتی کا سبب ہو،
اِس حدیث شریف میں ، اِس کے سیاق و سباق کے مُطابق   بھی یہی مفہوم ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے کسی سے سوال نہیں کرتا ، عِفت اختیار کرتا ہے تو اللہ اُسے عِفت  عطاء فرماتا ہے،
::: (2) ::: صبر :::
صبر کی لغوی تعریف ہے کہ"""کسی خوشی ،  مُصیبت ، غم ،غُصے اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھنا """، اور ، صبر کا شرعی مفہوم ہے """کسی خوشی ، مُصیبت ، غم غُصے اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو  قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہنا """،
اور خود پر قابو پانے کے کسی اِنسان کو خود ہی کوشش کرنا پڑتی ہے ،پس صبر بھی ایک ایسی صِفت ہے جو کوشش کر کے حاصل کی جا سکتی ہے ، جی ہاں ، یہ اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو کسی خوشی ، مُصیبت ، غم غُصے اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود پر قابو رکھنے کی کوشش کی زیادہ یا بہت زیادہ قوت عطاء فرمادے ،  
صبر کے بارے میں مزید أہم معلومات ایک مضمون میں کافی عرصہ پہلے شائع کیا جا چکا ہے ، وہ مضمون درج ذیل ربط پر میسر ہے :
::: :::صبر:::انتہائی میٹھے اور لذیذ پھلوں والا کڑوا کام:::
::: (3) ::: غِناء :::غِناء  کا مفہوم ہے """بے نیازی"""، یعنی کسی چیز سے بے نیاز ہوجانا، بلکہ بسا اوقات یہ بھی کہ کسی چیز کی ضرورت ہونے کے باوجودخود کو اُس کا محتاج نہ بننے دینا ،
اور یہ بھی ایک صِفت ہے جو اِنسان اپنے نفس پر جِہاد کر کے خود میں مہیا کر سکتا ہے ، بِاذن اللہ ،
::: (4) ::: عِلم ::: عِلم بھی ایک ایسی چیز ہے ، ایک ایسی  صِفت ہے جو حاصل کرنے کی کوشش کے بغیر نہیں ملتی ، جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، وحی سوائے نبیوں اور رسولوں کے کسی کو نہیں ہوتی تھی ،  جو یہ کہا یا مانا جائے کہ فلاں کو فُلا ں عِلم بغیر کسی کوشش کے بغیر ہی مل گیا ہے ،
عام طور پر یہ بات معروف ہے کہ نبی وہ ہے جس پر اللہ کی طرف سے وحی ہو، لیکن اُسے اُس وحی کی تبلیغ کا حُکم نہ ہو ،
لیکن یہ بات درست نہیں ، اِس کی مختصر شرح بعنوان """نبی اور رسول میں فرق""" الگ سے پیش کی جا چکی ہے ،
چلتے چلتے یہ کہتا چلوں کہ یہ جو صوفیا ء حضرات نے """عِلم الوھبی """اور"""علم اللدنی""" وغیر ہ کی جو کہانیاں بنا رکھی ہیں ، وہ دُرُست نہیں ہیں ،
یہ بات تو وہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ اِن کے یہ """عِلم الوھبی """اور"""علم اللدنی"""بھی تقوے اور نیک اعمال کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے دیے جاتے ہیں ،
اور یہی بات اُن کے دیگر فلسفے کو خود ہی رد کر دیتی ہے کیونکہ جب یہ """عِلم الوھبی """اور"""علم اللدنی"""بھی کسی ظاہری یا باطنی عمل کے نتیجے میں ہی ملنا ہیں تو پھر یہ """عِلم الوھبی """اور"""علم اللدنی""" نہ تو نہ ہوئے ، بلکہ """علم کسبی ، یعنی اپنے کسی عمل کے ذریعے حاصل کردہ""" ہوئے ،
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کسی اِیمان والے کو اللہ کی طرف سے کسی یا کچھ معاملات کو حق طور پر ، اور باریکی سے سمجھنے اور جانچنے کی صلاحیت عطاء ہو ، تو اُسے """کرامت ، یعنی ، بزرگی ، عِزت """ کہا جاتا ہے ، نہ کہ کوئی"""عِلم الوھبی """اور"""علم اللدنی"""وغیرہ ۔
::: (5) ::: حِلم :::  حِلم  بڑی ہی عظیم صِفت ہے ، وہ صِفت جِس کا حامل شخص بہت دُرُست اور گہری سمجھ رکھتا ہے، اُس کا دِل و دِماغ اُس کے اختیار میں رہتا ہے ،  غُصے ، غم اور پریشانی وغیرہ کے موقع پر آپے سے باہر نہیں ہوتا، دُشمنوں یا برا چاہنے اور برا کرنے والوں کے ہر وار کو بڑی ہی قوت سے برداشت کرتا ہے، اور ایسا جواب دیتاہے جو اُس کے لیے کسی بھی طور کسی نقصان کا سبب نہ ہو ،
اور یہ بھی ایک صِفت ہے جو کوئی اِنسان اپنے نفس پر مجاھدہ کر کے اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے ، اور اپنے اندر مہیا رکھ سکتا ہے، اِن شاء اللہ ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہمت عطاء فرمائے کہ ہم یہ اچھی صِفات اپنے آپ میں لا سکنے اور اُنہیں خود میں موجود رکھنے کے لیے اپنے نفوس پر جِہاد کر سکیں، اور اللہ ہمیں یہ صِفات عطاء فرمادے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
تاریخ کتابت : 15/02/1437ہجری،بمُطابق،28/11/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]  مُسند احمد /حدیث /11746 مُسند ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 470،
[2]  صحیح البُخاری حدیث 6105/ کتاب الرقاق / باب 20، صحیح مُسلم /حدیث1053/ کتاب الزکاۃ / باب  42،

No comments:

Post a Comment