صفحات

Saturday, October 29, 2016

::::: حِکمت اور رُشد :::::



::::::: حِکمت                  اور               رُشد :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
کچھ دِن پہلے  ایک بہن نے بذریعہ ای میل ایک سوال کیا کہ """ حِکمت اور رُشد  میں کیا فرق ہے ؟ """،
اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے ، میں نے مندرجہ ذیل جواب اِرسال کیا ، اِس جواب کو اِن شاء اللہ سب کے فائدے کے لیے نشر کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِسے میرے لیے اور ہر قاری کے لیے باعثء خیر بنا دے ،
لُغوی طور پر """ الحِکمَۃُ """مادہ  """ حَکَمَ """ سے ہے ،
اور اس کا معنی    ٰ اور مفہوم ہے کہ :::
""" بہترین چیزوں کا بہترین عُلوم کے ذریعے عِلم رکھنا  ، اور  معاملات کو باریک بینی ، دَانائی اور دُرستگی سے سمجھنا """
اِس مذکورہ بالا مفہوم میں خیال رکھنے کی بات  یہ ہے کہ  اِس  لُغوی مفہوم میں حق و باطل  کی تمیز نہیں ہے،  دُرُستگی سے مُراد عمومی طور پر  دُنیاوی  عُلوم اور ا ٔمور کے مُطابق دُرستگی ہے، اِس میں سے  حق و باطل کی تمیز ہم اپنی اِسلامی تعلیمات کے مُطابق کریں گے ، جو بات  اللہ  تبارک و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کِسی بات کے خِلاف ہو گی وہ ہمارے لیے حِکمت والی نہیں ، بلکہ بیوقوفی ، جہالت اور گمراہی والی ہے، اور ناقابل قُبُول ہے خواہ  ساری ہی دُنیا اُسے حِکمت و دَانائی کہتی رہے ،  
دُوسرا لُغوی مفہوم یہ  ہے کہ :::
""" کسی چیز کی صناعت میں بہترین طور پر وہ چیز بنانا """
پہلا لُغوی مفہوم قران پاک میں کافی کثرت سے اِستعمال ہوا ہے ، اور اِن دو مفاہیم  کے علاوہ """ حِکمت """ جن مفاہیم میں قران پاک میں مذکور ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :::
 :::   (1) :::  قران پاک میں ، اور دیگر کُتب الہیہ  میں   نازل کیے گئے احکام اور عقائد اور اُن کی صحیح سمجھ  :::
((((( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ  ::: اے ہمارے رب اِن لوگوں میں (ایسا)رسول بھیج جو اِنہیں تیری آیات تلاوت کر کے سُنائے اور اِنہیں کتاب اور حِکمت سِکھائے اور اُنہیں(کفر و شرک کی غلاظت سے) صاف کرے بے شک تُو زبردست حِکمت والا ہے)))))سُورت البقرة(2)/ آیت 129
((((( كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ::: جیسا کہ ہم نے تُم لوگوں میں (وہ)رسول بھیجا جو تُم لوگوں کو ہماری آیات تلاوت کر کے سُناتا ہے اور تُم لوگوں کو (کُفر و شرک کی غلاظت سے)صاف کرتا ہے اور تُم لوگوں کو کِتاب اور حِکمت سِکھاتا ہے جو کہ تُم لوگ نہ جانتے تھے))))) سُورت البقرة(2)/ آیت 151،
(((((وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ آيَاتِ اللّهِ هُزُواً وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ::: اور اگر تُم لوگ (اپنی) بیویوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت مکمل کر لیں( اور تُم اُنہیں اپنے پاس اپنے نکاح میں رکھنا چاہو)تو اُنہیں اچھے طور پر روک لو، یا (اگر اُنہیں اپنے نکاح میں نہ روکنا چاہو تو )اچھے طور پر جانے دو اور(اپنی )حد سے تجاوز کرتے ہوئے اُن پر ظُلم کرنے کے لیے اپنے پاس مت روکو ، اور جو کوئی بھی ایسا کرے گا تو یقیناً وہ اپنی جان پر ہی ظُلم کرے گا، اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ ، اور تُم لوگوں پر اللہ کی نعمت یاد کرو اور (یاد کرو)جو کچھ اللہ نے تُم لوگوں پر کِتاب میں سے اور حِکمت میں سے نازل فرمایا جِس کے ذریعے اللہ تُم لوگوں کو نصیحت فرماتا ہے ، اور اللہ(کی نافرمانی اور عذاب)سے بچو اور جان رکھو کہ اللہ ہر ایک چیز کا خُوب عِلم رکھتا ہے)))))سُورت البقرة(2) / آیت231 ،
((((( وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ:::اور وہ (عیسیٰ علیہ السلام) اُسے لکھنا پڑھنا اور حِکمت اور تورات اور انجیل سکھائے))))) سُورت آل عمران(3) / آیت 48
((((( وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّآئِفَةٌ مُّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيماً :::اور اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو ایک گروہ یہ سوچ ہی چکا تھا کہ آپ کو گمراہ کرے لیکن ایسا سوچنے والےاپنے آپ کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتے اور نہ ہی آپ کو کسی چیز میں کوئی نُقصان پہنچا سکتے ہیں اور اللہ نے آپ پر کِتاب اور حِکمت نازل فرمائی اور آپ کو وہ کچھ سِکھایا جو کچھ آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت عظیم فضل ہے)))))النساء (4)/ آیت 113،
((((( إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ::: اور جب اللہ نے فرمایا ، اے مریم کے بیٹے عیسیٰ ، تُم اپنے آپ پر ، اور تُماری ماں پر میری نعمتیں یاد کرو، کہ جب  میں نے رُوحُ القُدس (جبریل علیہ السلام ) کے ذریعے تمہاری مدد کی (تو) تم  نے گود میں اور ادھیڑ عُمری میں لوگوں سے باتیں کیں ، اور جب میں نے تمہیں کِتاب اور حِکمت اور تورات اور  انجیل کا عِلم عطاء فرمایا  ))))) سُورت المائدة (5) / آیت 110 ،
کتب ء تفسیر میں  ایک جگہ اِس مذکورہ بالا  آیت 110 کی تفسیر میں """ حِکمت """ سے مُراد ، اوپر بیان کیا گیا دُوسرا مفہوم بھی  لیا گیا ہے ، جو بظاہر سیاق و سباق  کی موافقت نہیں پاتا ، واللہ أعلم ،  
کچھ عُلماء نے ایک جگہ سُورت المائدہ کی آیت 110 کی تفسیر میں """ حِکمت """ سے مراد یہ دُوسرا مفہوم بھی لیا ہے ، اِس آیت کو اِن شاء اللہ ابھی نقل کروں گا ،
 ((((( هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ::: وہ اللہ ہی ہے جِس نے اَن پڑھ لوگوں میں اُن میں سے رسول ارسال فرمایا جو اُن لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سُناتا ہے، اور اُن (کے دِلوں اور اذہان )کی صِفائی کرتا ہے، اور اُنہیں کِتاب اور حِکمت کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ وہ لوگ اِس سے پہلے کُھلی واضح گمراہی میں تھے   ))))) سُورت الجمعة (62)/ آیت 2
:::   (2) :::  نبوت کے مفہوم میں   ، مندرجہ ذیل آیات مبارکہ دیکھیے :::
(((((وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ::: اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دِیا ، اور اللہ نے داؤد کو  بادشاہت اور حِکمت (نبوت) عطاء فرمائی ، اور جِس چیز کا اللہ نے چاہا اُس کا عِلم دِیا ))))) سُورت البقرة (2)/ آیت251 ،
(((((فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكاً عَظِيماً  ::: بے شک ہم نے  آل إِبراہیم کو کِتاب ، اور حِکمت (نبوت) عطاء فرمائِیں  ، اور  ہم نے اُنہیں بہت بڑی  بادشاہت عطاء فرمائی ))))) سُورت النساء(4) / آیت 54،
((((( وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ::: اور ہم نے اُس کی (یعنی داؤد علیہ السلام کی ) بادشاہت کو مضبوط فرمایا، اور اُسے حِکمت (نبوت) عطاء فرمائی ، اور (دُرُست ) فیصلہ کُن بات کرنے کی صلاحیت (بھی)  عطاء فرمائی  ))))) سُورت ص(38) / آیت 20 ،
((((( وَلَمَّا جَاء عِيسَى بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ ::: اور جب عیسی ٰ واضح نشانیاں لے کر آیا ، اور کہا ، میں تم لوگوں کے پاس حِکمت (نبوت) کے ساتھ آیا ہوں ، اور اِس لیے کہ جن معاملات میں تم اختلاف کرتے ہو اُن (میں سے حق )کی وضاحت کر دوں، لہذا تم لوگ اللہ (کے غصے اور عذاب) سے بچو ، اور  میری  اطاعت اختیار کرو))))) سُورت الزخرف(43) / آیت 63
    :: : (3) وہ نفع بخش عِلم جو اپنے تقاضے کے مُطابق عمل تک پہنچانے کا سبب ہو ، مندرجہ ذیل آیت مبارکہ دیکھیے  :::
    ((((( يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ::: اللہ جِسے چاہتا ہے اُسے حِکمت (دانائی اور راست عقل ) عطاء فرماتا ہے، اور جِسے حِکمت عطاء ہو ، تو اُسے بہت ہی زیادہ خیر عطاء ہو گئی ، اور اِن باتوں سے صِرف وہی لوگ نصیحت پاتے ہیں جو (دُرُست  سمجھ اور) عقل والے ہیں ))))) سُورت البقرة  (2) / آیت 269 ،
::: (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ ، مندرجہ ذیل آیات مبارکہ دیکھیے :::
((((( لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ ::: یقیناً اللہ نے اِیمان والوں پر   احسان فرمایا کہ اُن میں  وہ رسول مُقرر فرمایا جو  اُن میں سے ہی ہے، اور  جو اُن لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سُناتا ہے، اور اُن (کے دِلوں اور اذہان )کی صِفائی کرتا ہے، اور اُنہیں کِتاب اور حِکمت کی تعلیم دیتا ہے، جب کہ وہ لوگ اِس سے پہلے کُھلی واضح گمراہی میں تھے  ))))) سُورت آل عمران(3) / آیت 164،
((((( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفاً خَبِيراً ::: اور (اے نبی کی بیویو) تمہارے  گھروں میں جو  اللہ  کی آیات اور حِکمت (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وعلہ آلہ وسلم کی باتیں )سانئی جاتی ہیں اُنہیں یاد رکھو  ))))) سُورت الأحزاب(33)/ آیت 34 ،
 ::: (5) :::  قران پاک کا ایک نام ، مندرجہ ذیل آیت مبارکہ دیکھیے   :::
((((( ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ::: اپنے رب کے راستے کی طرف حِکمت اور اچھی نرم نصیحت  کے ذریعے بلاؤ   اور اُن لوگوں سے بہترین انداز میں  بات چیت(بحث و مباحثہ ) کرو ، بے شک تمہارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت پایا ہوا ہے))))) سُورت النحل(16)/ آیت 125 ،
::: (6)::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اِرسال کردہ وحی مُبارک ، مندرجہ ذیل آیت مُبارکہ دیکھیے  :::
(((((ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّهِ إِلَهاً آخَرَ فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَّدْحُوراً ::: یہ ہے جو کچھ تمہارا رب تماری طرف حِکمت میں سے وحی کرتا ہے ، لہذا تم اللہ کے ساتھ کِسی اور کو معبود مت اپنانا ، ورنہ  تمہیں ملامت زدہ اور  خیر و بھلائی سے محروم کر کے جہنم میں ڈال دِیا جائے گا ))))) سُورت الإسراء ( بنی اِسرائیل ۔17)/ آیت 39 ،
 :::  (7) :::  ایسا کلام  جو بالکل حق  ہو ، جس میں کِسی گمراہی کا شائبہ تک نہ ہو ، مندرجہ ذیل آیت مبارکہ دیکھیے  :::
((((( وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ::: اور یقیناً ہم نے لُقمان کو حِکمت عطاء فرمائی کہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہو، اور جو کوئی (اللہ کا ) شکر ادا کرتا ہے تو اپنی جان کے لیے (فائدہ )کرتا ہے، اور   جو کوئی (اللہ کا) کُفر کرتا ہے تو بے شک اللہ تو(تمام تر مخلوق سے ) بے نیاز ہے اور (کِسی کی تعریف کے بغیر بھی ) تعریف والا ہے ))))) سُورت لُقمان (31) / آیت 12،
اِس کے بعد ہم آپ کے پوچھے ہوئے دوسرے لفظ کی طرف آتے ہیں ،ان شاء اللہ ،  
لُغوی طور پر """ رُشد ، اور ، رَشد اور رَشاد """ ایک ہی معنیٰ اور مفہوم کے حامل ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ :::
""" گمراہی اور غیر واضح اُمور کی صُورت میں دُرُستگی کو پہچان جانا """ 
کوئی اِنسان اِس دُرُستگی تک  خود اپنی کوشش سے پہنچے یا کِسی کی طرف سے دی گئی ہدایات یا اِشاروں کی بِناء پر ، بہر صُورت دُرُستگی کو  پہچان جانا """ رُشد """ کہلاتا ہے ،
اِس کا فاعل """ راشِد ، اور ، رَشِید """ کہلاتا ہے ،
اور جو """ رُشد """ دیتا ہے وہ """ مُرشد """ کہلاتا ہے ،
انہیں معانی میں یہ لُغوی مادہ یعنی """ رَشَدَ """ قران پاک میں اِستعمال ہوا ہے ،
اُمید کرتا ہوں اِن شاء اللہ یہ معلومات آپ کے سوال کا جواب ہو سکیں گی ،
آپکے سوال کے مُطابق میں نے معلومات کو لُغوی معانی اور مفاہیم  اور قران میں مذکور مفاہیم تک محدود رکھا ہے ، اگر آپ کے کہنے کے مُطابق """ اِسلامی مفاہیم """ کو بھی شامل کیا جائے تو اُس میں سب سے پہلے """ فقہی مفاہیم """ کا ذِکر کرنا ہو گا جو کافی طویل ہو گا اور شاید عام قاری کے لیے کافی خشک اور غیر دلچسپ بھی ،پھر  اُس کے بعد اہل تصوف کی اِصطلاحات کے مُطابق ذِکر کیا جا سکتا ہے جس کی غلطی بیان کرنے کے لیے دُرُست عقیدے کا درس بھی ساتھ شامل کرنا ضروری ہو گا ، 
اگر یہ مذکورہ بالا معلومات آپ سے سوال پوچھنے والی بہن کے لیے قابل تشفی نہ ہوں تو پھر اُن سے اُن کے مقصود و مطلوب کی مزید وضاحت کے ساتھ مجھ بتایے گا ،  اپنے دُعاؤں میں اپنے اِس بھائی اور اِس کے اہل خانہ کو بھی یاد رکھا کیجیے ،
و السلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 07/11/1431ہجری، بمُطابق 15/10/2010عیسوئی۔
تاریخ تجدید و تحدیث : 27/01/1438ہجری، بُمطابق ، 28/10/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, October 9, 2016

::::: بُغض اور حَسد سے دِلوں کو بچایے :::::


۹۹۹بُغض اور حَسد سے  دِلوں  کو بچایے  ۹۹۹
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ  نَحمَدُہٗ  وَ  نَستَعِینُہٗ  وَ  نَستَغفِرُہٗ  وَ   نَعَوُذُ  بَاللَّہِ  مِن  شُرُورِ  انفُسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ اعمَالِنَا، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ  فَلا مُضِلَّ  لَہ ُ وَ  مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ ، وَ اشھَدُ  ان لا  إِلٰہ َ  إِلَّا  اللَّہ ُ وَحدَہُ  لا   شَرِیکَ  لَہ ُ ، وَ  اشھَد ُ  انَّ  مُحمَداً  عَبد ُہٗ  وَ  رَسُولُہٗ  ::: بے  شک  خالص  تعریف  اللہ کے لیے   ہے  ،  ہم  اُس  کی  ہی  تعریف کرتے ہیں  اور  اُس سے  ہی  مدد  طلب کرتے  ہیں  اور  اُس سے  ہی  مغفرت طلب کرتے  ہیں  اور  اللہ  کی  پناہ  طلب کرتے  ہیں  اپنی  جانوں کی  بُرائی  سے  اور  اپنے  برے کاموں  سے  ،  جِسے  اللہ  ہدایت  دیتا  ہے  اُسے  کوئی  گمراہ  نہیں کر  سکتا  ،  اور  جِسے  اللہ  گُمراہ  کرتا  ہے  اُسے کوئی  ہدایت  دینے  والا  نہیں  ،  اور  میں گواہی  دیتا  ہوں  کہ  بے  شک  اللہ  کے  عِلاوہ  کوئی  سچا  معبود  نہیں  اور  وہ  اکیلا  ہے  اُس  کا  کوئی  شریک  نہیں  ،  اور  میں  گواہی  دیتا  ہوں  کہ  بے  شک  محمد  اللہ کے  بندے اور اللہ کے رسول ہیں، 
اِیمان والے کے لیے سب سے زیادہ پر سُکون یہ ہے کہ وہ اپنے دِل کو حَسد کی جلن سے، وسوسوں، غموں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے ، اگر کوئی نعمت ملے تو اُس میں اپنے دُوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی شامل کرنے کا حوصلہ رکھے ، اور خود پر  اللہ کی نعمتوں کا احساس رکھے ، اللہ کے سامنے اپنے فقر کا احساس رکھے ، اور اگر مخلوق میں سے کِسی کو کِسی مُشکل میں دیکھے تو اُس کا درد محسوس کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اُسے اُس مُشکل سے بچا رکھا ہے اور مُشکل زدہ کے لیے اللہ سے اُمید کرے کہ وہ اُس کی مُشکل بھی دُور فرمائے ،
لیکن ایسا کرنا کچھ آسان نہیں ، پر مُشکل ہونے کے باوجود ایک سچے اِیمان والا اِن سب کاموں کی کوشش کرتا ہی رہتا ہے ، اپنے دِل کو تمام بُری صِفات سے بچانے کی تگ و دو میں رہتا ہے ، اپنے رب کی عطاء پر راضی رہتا ہے پس اپنی زندگی پر راضی رہتا ہے ، اپنے دِل و نفس میں سُکون پاتا ہے کہ وہاں بُغض اور حَسد کی جان لیوا اور دُنیا اور آخرت تباہ کرنے والی بیماری نہیں ہوتی ، چونکہ بُغض ، حَسد دُوسروں کو مُشکلوں اور تکلیفوں میں دیکھ کر خوش ہونے والے دِل میں سے اِیمان جلد ہی رُخصت ہو جاتا ہے جس طرح کسی سوراخ زدہ برتن میں سے سائل بہہ جاتا ہے ،
  پس سچے  اِیمان والا  کا اِیمان نہ صرف محفوظ رہتا ہے بلکہ اُس میں مضبوطی بھی ہوتی رہتی ہے ،  اور یہ خصوصیت اِیمان والوں میں ہی ملتی ہے کہ وہ عمومی طور پر ساری مخلوق کے لیے اور  خصوصی طور پر اپنے اِیمان والے بھائی بہنوں کے لیے  ہمدردی کا نہ صِرف احساس رکھتے ہیں بلکہ اِس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں ،
 اِس کے برعکس جب کسی کے دِل و جاں میں نفرت ، بُغض ، حَسد ،شخصیت پرستی ،  جماعت بندی ، مَسلک پروری وغیرہ کے کانٹے اگتے ہیں تو وہاں سے اِیمان کے پھول رُخصت ہوجاتے ہیں ، اِیمان والوں میں ایسے کانٹوں کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اِس کے کہ اُن کی نفرتیں صِرف اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت میں ہوتی ہیں ، وہ صِرف ایسے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جن پر اتمام حجت ہو چکا ہو اور وہ اپنے کفر و عناد اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی سے باز نہ آتے ہوں اور اللہ کی مخلوق کے لیے فتنہ و فساد کا مُستقل سبب بنتے ہوں،
یاد رکھیے یہ عین ممکن ہے کہ شیطان اور اُس کے پیروکار کسی عقلمند مُسلمان کو غیر اللہ کا پجاری بنانے میں ناکام رہیں لیکن یہ اُن کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ اُس مُسلمان کو دُوسرے مُسلمانوں اور ِانسانوں سے ، کسی جائز سبب کے بغیر نفرت کرنے والا بنا دیں ،
جی ہاں ، اِس کی خبر ہمیں صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دی ہے﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَھُم  :::شیطان اِس بات سے مایوس ہو چُکا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے درمیان فتنہ و فساد(پھیلانے)اور جنگ وجدال (کروانے )سے(مایوس ) نہیں صحیح مُسلم/حدیث/کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار /باب 17،
 لہذا ہمیں اِس بات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ ہم مُسلمانوں کے درمیان جماعتوں ، مسلکوں  ،اپنی اختیار کردہ دِینی یا  دُنیاوی شخصیات ، جغرافیائی حدود،خاندانوں وغیرہ کی وجہ سے کوئی  بُغض و حَسد نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ سب کو ایک دُوسرے کی خیر کا متمنی ہونا چاہیے ، ایک دُوسرے میں پائی جانی والی خیر کا متمنی ہونا چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مبارک ہے  ﴿لاَ حَسد إِلاَّ فِى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِى الْحَقِّ ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهْوَ يَقْضِى بِهَا وَيُعَلِّمُهَا:::دو چیزوں کے عِلاوہ کسی چیز کے بارے میں حَسد کرنا جائز نہیں (1) کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہواور وہ اُس حق کی بلندی کے لیےپوری طرح سے خرچ کرتا ہو، اور (2)وہ شخص جسے اللہ نے حِکمت عطاء کی ہو اور وہ اس کے ذریعے فیصلے کرتا ہو اُس کی تعلیم دیتا ہوصحیح البخاری/کتاب الزکاۃ   /باب5، صحیح مُسلم/کتاب صلاۃ المسافرین/باب47،
عُلماء کرام کی تشریح کے مُطابق اِس حدیث شریف میں “““حَسد”””سے مُراد “““تمنا کرنا ”””ہے کہ اُن اشخاص کو اللہ تبارک و تعالیٰ  نے جو خیر دی ہے وہ خیر ہمیں بھی عطاء ہو ،
عام طور پر  “““حَسد””” سے جو کیفیت مُراد لی جاتی ہے وہ تو اِسلام میں حرام ہے ، شدید مذموم اور نا پسندیدہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے حاسدوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے  دُعاء کرنے کا حُکم دیا ہے اور اُس کی تعلیم دیتے ہوئے اپنی کتاب میں سُورت الفلق نازل فرمائی  ہے،
 “““حَسد””” ایک ایسی چنگاری ہے جو دِلوں میں سلگتی ہے اور جِس کے دِل میں سلگتی ہے اُسے دُوسروں کو نقصان اور تکلیف پہنچانے والا بنا دیتی ہے ، اور وہ شخص کسی دُوسرے سے پہلے خود اپنے آپ کے لیے تکلیفوں اورمصیبتوں کا سبب بن جاتا ہے ،کہ اُسے ہر وقت دُوسروں کو ملنے والی نعمتوں کے ختم ہوجانے کی خواہش رہتی ہے اور اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر کام کر گذرنے والا بن جاتا ہے اور سارے معاشرے کے لیے ایک ناسُور کی صُورت میں رہتا ہے ، دُوسروں کے پاس پائی جانی والی نعمتوں کو ختم کرنے کے لیے وہ سب سے پہلے جو ہتھکنڈے اِستعمال کرتا ہے اُن میں دُوسروں پر جھوٹے اِلزام لگانا اور غیبت و چغلی کرنا ہوتا ہے اور یہ سب ہی کام سراسر حرام اور کبیرہ گناہ ہیں ،
غور کیجیے کہ ان کبیرہ گناہوں کا شکار ہونے کا سب سے بڑا اور عمومی سبب  دِلوں میں  نا جائز “““ بُغض و حَسد””” ہوتا ہے،  
اِس کے عِلاوہ ، کِسی کو عطاء ہونے والی کِسی نعمت، کِسی خیر، پر “““ حَسد””” کرنا ، اللہ عزّ و جلّ کے فیصلے پر راضی نہ ہونا ہوتا ہے،  جو کُفر میں شامل ہوتا ہے، اور معاذ اللہ بسا اوقات اِس کی شدت اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مُسلمان  کوئی ایسا قول یا فعل ادا کر دیتا ہے جو اُسے دائرہ اِسلام سے خارج کرنے کا سبب ہو تا ہے ،
پس ہمیں ایک اچھا عملی مُسلمان بننے کے لیے ، اپنی ، اپنی ارد گِرد والوں کی دُنیاوی اور اُخروی خیر کے لیے ، اور سارے ہی اِنسانی معاشرے کے أمن و إِطمینان کے لیے اپنے دِلوں کو اِن گندی گناہ آلود صِفات سے بچائے رکھنا چاہیے۔
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ، ہمیں ، ہمارے لیے ، اور دُوسروں کے لیے کیے ہوئے فیصلوں پر راضی ہونے کی ہمت عطاء فرمائے،  جو عطاء فرماتا ہے اُس پر اُس  کا شکر ادا کرنے والا بنائے، جو عطاء نہیں فرماتا اُس پر بھی اُس کا شکر ادا کرنے والا بنائے کہ اُس چیز کے عطاء نہ کیے جانے میں ہی ہمارے لیے  خیر ہوتی ہے، اگر ہم یہ حقیقت سمجھ لیں تو اِن شاء اللہ ہمارے دِل “““ بُغض و حَسد”””  سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ والسلام علیکم۔ 
تاریخ کتابت : 25/09/1432ہجری ، بمُطابق، 25/08/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 07/01/1438ہجری، بمُطابق، 08/10/2016عیسوئی۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔