صفحات

Sunday, October 9, 2016

::::: بُغض اور حَسد سے دِلوں کو بچایے :::::


۹۹۹بُغض اور حَسد سے  دِلوں  کو بچایے  ۹۹۹
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ  نَحمَدُہٗ  وَ  نَستَعِینُہٗ  وَ  نَستَغفِرُہٗ  وَ   نَعَوُذُ  بَاللَّہِ  مِن  شُرُورِ  انفُسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ اعمَالِنَا، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ  فَلا مُضِلَّ  لَہ ُ وَ  مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ ، وَ اشھَدُ  ان لا  إِلٰہ َ  إِلَّا  اللَّہ ُ وَحدَہُ  لا   شَرِیکَ  لَہ ُ ، وَ  اشھَد ُ  انَّ  مُحمَداً  عَبد ُہٗ  وَ  رَسُولُہٗ  ::: بے  شک  خالص  تعریف  اللہ کے لیے   ہے  ،  ہم  اُس  کی  ہی  تعریف کرتے ہیں  اور  اُس سے  ہی  مدد  طلب کرتے  ہیں  اور  اُس سے  ہی  مغفرت طلب کرتے  ہیں  اور  اللہ  کی  پناہ  طلب کرتے  ہیں  اپنی  جانوں کی  بُرائی  سے  اور  اپنے  برے کاموں  سے  ،  جِسے  اللہ  ہدایت  دیتا  ہے  اُسے  کوئی  گمراہ  نہیں کر  سکتا  ،  اور  جِسے  اللہ  گُمراہ  کرتا  ہے  اُسے کوئی  ہدایت  دینے  والا  نہیں  ،  اور  میں گواہی  دیتا  ہوں  کہ  بے  شک  اللہ  کے  عِلاوہ  کوئی  سچا  معبود  نہیں  اور  وہ  اکیلا  ہے  اُس  کا  کوئی  شریک  نہیں  ،  اور  میں  گواہی  دیتا  ہوں  کہ  بے  شک  محمد  اللہ کے  بندے اور اللہ کے رسول ہیں، 
اِیمان والے کے لیے سب سے زیادہ پر سُکون یہ ہے کہ وہ اپنے دِل کو حَسد کی جلن سے، وسوسوں، غموں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے ، اگر کوئی نعمت ملے تو اُس میں اپنے دُوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی شامل کرنے کا حوصلہ رکھے ، اور خود پر  اللہ کی نعمتوں کا احساس رکھے ، اللہ کے سامنے اپنے فقر کا احساس رکھے ، اور اگر مخلوق میں سے کِسی کو کِسی مُشکل میں دیکھے تو اُس کا درد محسوس کرے اور اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اُسے اُس مُشکل سے بچا رکھا ہے اور مُشکل زدہ کے لیے اللہ سے اُمید کرے کہ وہ اُس کی مُشکل بھی دُور فرمائے ،
لیکن ایسا کرنا کچھ آسان نہیں ، پر مُشکل ہونے کے باوجود ایک سچے اِیمان والا اِن سب کاموں کی کوشش کرتا ہی رہتا ہے ، اپنے دِل کو تمام بُری صِفات سے بچانے کی تگ و دو میں رہتا ہے ، اپنے رب کی عطاء پر راضی رہتا ہے پس اپنی زندگی پر راضی رہتا ہے ، اپنے دِل و نفس میں سُکون پاتا ہے کہ وہاں بُغض اور حَسد کی جان لیوا اور دُنیا اور آخرت تباہ کرنے والی بیماری نہیں ہوتی ، چونکہ بُغض ، حَسد دُوسروں کو مُشکلوں اور تکلیفوں میں دیکھ کر خوش ہونے والے دِل میں سے اِیمان جلد ہی رُخصت ہو جاتا ہے جس طرح کسی سوراخ زدہ برتن میں سے سائل بہہ جاتا ہے ،
  پس سچے  اِیمان والا  کا اِیمان نہ صرف محفوظ رہتا ہے بلکہ اُس میں مضبوطی بھی ہوتی رہتی ہے ،  اور یہ خصوصیت اِیمان والوں میں ہی ملتی ہے کہ وہ عمومی طور پر ساری مخلوق کے لیے اور  خصوصی طور پر اپنے اِیمان والے بھائی بہنوں کے لیے  ہمدردی کا نہ صِرف احساس رکھتے ہیں بلکہ اِس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں ،
 اِس کے برعکس جب کسی کے دِل و جاں میں نفرت ، بُغض ، حَسد ،شخصیت پرستی ،  جماعت بندی ، مَسلک پروری وغیرہ کے کانٹے اگتے ہیں تو وہاں سے اِیمان کے پھول رُخصت ہوجاتے ہیں ، اِیمان والوں میں ایسے کانٹوں کی کوئی گنجائش نہیں سوائے اِس کے کہ اُن کی نفرتیں صِرف اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت میں ہوتی ہیں ، وہ صِرف ایسے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جن پر اتمام حجت ہو چکا ہو اور وہ اپنے کفر و عناد اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی سے باز نہ آتے ہوں اور اللہ کی مخلوق کے لیے فتنہ و فساد کا مُستقل سبب بنتے ہوں،
یاد رکھیے یہ عین ممکن ہے کہ شیطان اور اُس کے پیروکار کسی عقلمند مُسلمان کو غیر اللہ کا پجاری بنانے میں ناکام رہیں لیکن یہ اُن کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ اُس مُسلمان کو دُوسرے مُسلمانوں اور ِانسانوں سے ، کسی جائز سبب کے بغیر نفرت کرنے والا بنا دیں ،
جی ہاں ، اِس کی خبر ہمیں صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دی ہے﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَھُم  :::شیطان اِس بات سے مایوس ہو چُکا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اُس کی عبادت کریں گے لیکن اُن کے درمیان فتنہ و فساد(پھیلانے)اور جنگ وجدال (کروانے )سے(مایوس ) نہیں صحیح مُسلم/حدیث/کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار /باب 17،
 لہذا ہمیں اِس بات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ ہم مُسلمانوں کے درمیان جماعتوں ، مسلکوں  ،اپنی اختیار کردہ دِینی یا  دُنیاوی شخصیات ، جغرافیائی حدود،خاندانوں وغیرہ کی وجہ سے کوئی  بُغض و حَسد نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ سب کو ایک دُوسرے کی خیر کا متمنی ہونا چاہیے ، ایک دُوسرے میں پائی جانی والی خیر کا متمنی ہونا چاہیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مبارک ہے  ﴿لاَ حَسد إِلاَّ فِى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِى الْحَقِّ ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهْوَ يَقْضِى بِهَا وَيُعَلِّمُهَا:::دو چیزوں کے عِلاوہ کسی چیز کے بارے میں حَسد کرنا جائز نہیں (1) کسی شخص کو اللہ نے دولت دی ہواور وہ اُس حق کی بلندی کے لیےپوری طرح سے خرچ کرتا ہو، اور (2)وہ شخص جسے اللہ نے حِکمت عطاء کی ہو اور وہ اس کے ذریعے فیصلے کرتا ہو اُس کی تعلیم دیتا ہوصحیح البخاری/کتاب الزکاۃ   /باب5، صحیح مُسلم/کتاب صلاۃ المسافرین/باب47،
عُلماء کرام کی تشریح کے مُطابق اِس حدیث شریف میں “““حَسد”””سے مُراد “““تمنا کرنا ”””ہے کہ اُن اشخاص کو اللہ تبارک و تعالیٰ  نے جو خیر دی ہے وہ خیر ہمیں بھی عطاء ہو ،
عام طور پر  “““حَسد””” سے جو کیفیت مُراد لی جاتی ہے وہ تو اِسلام میں حرام ہے ، شدید مذموم اور نا پسندیدہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے حاسدوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے  دُعاء کرنے کا حُکم دیا ہے اور اُس کی تعلیم دیتے ہوئے اپنی کتاب میں سُورت الفلق نازل فرمائی  ہے،
 “““حَسد””” ایک ایسی چنگاری ہے جو دِلوں میں سلگتی ہے اور جِس کے دِل میں سلگتی ہے اُسے دُوسروں کو نقصان اور تکلیف پہنچانے والا بنا دیتی ہے ، اور وہ شخص کسی دُوسرے سے پہلے خود اپنے آپ کے لیے تکلیفوں اورمصیبتوں کا سبب بن جاتا ہے ،کہ اُسے ہر وقت دُوسروں کو ملنے والی نعمتوں کے ختم ہوجانے کی خواہش رہتی ہے اور اپنی اِس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر کام کر گذرنے والا بن جاتا ہے اور سارے معاشرے کے لیے ایک ناسُور کی صُورت میں رہتا ہے ، دُوسروں کے پاس پائی جانی والی نعمتوں کو ختم کرنے کے لیے وہ سب سے پہلے جو ہتھکنڈے اِستعمال کرتا ہے اُن میں دُوسروں پر جھوٹے اِلزام لگانا اور غیبت و چغلی کرنا ہوتا ہے اور یہ سب ہی کام سراسر حرام اور کبیرہ گناہ ہیں ،
غور کیجیے کہ ان کبیرہ گناہوں کا شکار ہونے کا سب سے بڑا اور عمومی سبب  دِلوں میں  نا جائز “““ بُغض و حَسد””” ہوتا ہے،  
اِس کے عِلاوہ ، کِسی کو عطاء ہونے والی کِسی نعمت، کِسی خیر، پر “““ حَسد””” کرنا ، اللہ عزّ و جلّ کے فیصلے پر راضی نہ ہونا ہوتا ہے،  جو کُفر میں شامل ہوتا ہے، اور معاذ اللہ بسا اوقات اِس کی شدت اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مُسلمان  کوئی ایسا قول یا فعل ادا کر دیتا ہے جو اُسے دائرہ اِسلام سے خارج کرنے کا سبب ہو تا ہے ،
پس ہمیں ایک اچھا عملی مُسلمان بننے کے لیے ، اپنی ، اپنی ارد گِرد والوں کی دُنیاوی اور اُخروی خیر کے لیے ، اور سارے ہی اِنسانی معاشرے کے أمن و إِطمینان کے لیے اپنے دِلوں کو اِن گندی گناہ آلود صِفات سے بچائے رکھنا چاہیے۔
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ، ہمیں ، ہمارے لیے ، اور دُوسروں کے لیے کیے ہوئے فیصلوں پر راضی ہونے کی ہمت عطاء فرمائے،  جو عطاء فرماتا ہے اُس پر اُس  کا شکر ادا کرنے والا بنائے، جو عطاء نہیں فرماتا اُس پر بھی اُس کا شکر ادا کرنے والا بنائے کہ اُس چیز کے عطاء نہ کیے جانے میں ہی ہمارے لیے  خیر ہوتی ہے، اگر ہم یہ حقیقت سمجھ لیں تو اِن شاء اللہ ہمارے دِل “““ بُغض و حَسد”””  سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ والسلام علیکم۔ 
تاریخ کتابت : 25/09/1432ہجری ، بمُطابق، 25/08/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 07/01/1438ہجری، بمُطابق، 08/10/2016عیسوئی۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment