صفحات

Thursday, March 30, 2017

::::::: کافروں سے مُشابہت کِس طرح پہچانی اور جانی جاتی ہے :::::::

:::::::  کافروں سے مُشابہت کِس طرح پہچانی اور جانی جاتی ہے  :::::::
بِسْمِ اللَّهِ و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
مُشابہت کا لُغوی مفہوم ہے ، کِسی کے قول ، فعل، انداز ، لباس ، معاشرت   غرضیکہ کِسی بھی معاملے میں اُس کی نقالی کرنا ، اُس کے جیسا دِکھائی دینے کی کوشش کرنا ،
اور اِس کا اصطلاحی مفہوم ہے ، جان بوجھ کر ، اپنے عام معمولات میں قصداً  تبدیلی کرتے ہوئے کِسی کی کِسی بھی انداز میں نقالی کرنا ،
یہ بات تقریباً ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہمیں ہمارے اللہ عزّ و جلّ نے ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  کافروں کی مُشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ،
بہت سے دیگر معاملات کی طرح اِس معاملے میں بھی ہم اپنے درمیان افراط و تفریط والے رویے پاتے ہیں ، کہیں تو کوئی کِسی بھی معاملے ، کِسی بھی کام کو کافروں کی مُشابہت قرار دیتا ہے ، جبکہ یُونہی ہر وہ کام ، یا معاملہ جو کافروں میں موجود نظر آئے ، اُس کی مُشابہت کو کافروں سے مُشابہت نہیں کہاجا سکتا ،  
اور کہیں کوئی واقعتا کافروں کی مُشابہت والے معاملات کو بھی مُشابہت سے خارج قرار دیتا ہے، 
لہذا ، کِسی کام کو کافروں کے ہاں ہوتے دیکھ کر  اُس کام کو مسلمانوں کے لیے کافروں کی مُشابہت قرار دینا دُرست نہیں، ہر ایک کام  کی اصل کو جانچا جانا ضروری ہے ،   کِسی بھی مسئلے کو اچھے اور دُرست  طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس سے متعلق تمام تر نصوص، سلف  اور أئمہ و عُلماء کی تشریحات کا مطالعہ کیا جائے ، لیکن ،،،،،،،،،،،،،، قدر اللہ ماشاء و فعل،
افسوس اِس کِھنچ تان کا نہیں ہوتا ، بلکہ اِس بات کا ہوتا ہے کہ دونوں  ہی رویوں والے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ کفار سے مُشابہت کی پہچان کا کوئی قاعدہ قانون بھی ہے یا بس جو کچھ کافروں کے ہاں نظر آیا ، اگر کِسی مُسلمان کے ہاں بھی ویسا ہوا تو ہو گئی کافروں سے مُشابہت  ؟؟؟
عُلماء کرام نے  کافروں سے مُشابہت کے بارے میں جو باتیں قوانین کے طور پر ذِکر کی ہیں ، اگر اُنہیں ایک جملے میں جمع کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ (((أن يفعلَ المُسلم  فعلًا بتکلفٍ و عمداً ، لا يَفعَلهُ  الكفار اِلاّ لِکُفرِھِم ، ولا یَکونُ بِمُقتضىٰ الإنسانية، ولا يَكونُ التَّشبَهَ بِالكُفار إلاّ بِفعلٍ ما أختصوا بهِ مِن دِينهم أو عاداتهم:::  کافروں سے مُشابہت یہ ہے کہ کوئی مسلمان  اپنے اِرادے  ، کوشش کر کے ، کوئی ایسا کام کرے جو کافر  اپنے کفر کی وجہ سے  کرتے ہوں ،  پس کافروں سے مُشابہت صِرف اُسی کام میں ہوتی ہے جو کام اُن کے دِین اور اُن کی( کفریہ )عادات کی وجہ سے ہو    )))
پس واضح ہوا کہ ،   ہر  وہ  بات ، کام ، معاملہ ، حلیہ ، عاد ت، انداز ،  جو کافروں کے ہاں  اُن کے کِسی عقیدے  کی بِناء پر مروج ہوا ہو، اُس کی  مُشابہت اختیار کرنا حرام ہے ،   اور جو  کام محض انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنایا گیا ہو ، وہی کام مسلمانوں کے معاشرے میں بھی  کیا جانے لگے تو وہ  کافروں کی مُشابہت نہیں ، مثلاً ،
سفر کی تکمیل کے لیے کوئی سواری اِستعمال کرنا، حیوانی سواریوں کی بجائے مشینی سواریاں اِستعمال کرنا کافروں کی طرف سے ہی آیا ، لیکن اُس میں کافروں کی کوئی مُشابہت نہیں ،
اور مختلف قسم کی مشینری  اور  ڈیوائسز  وغیرہ سب ہی کافروں کی ایجاد و اختراع ہیں ، اُن کی طرف سے ہی آئی ہیں ، اُن چیزوں کو اِستعمال کرنا کافروں کی مُشابہت نہیں ،  اُن چیزوں کو  حلال یا حرام کاموں کے لیے اِستعمال کرنا الگ مسئلہ ہے ، 
کھانے پینے کے مختلف انواع و اشکال کے برتن ، مثلاً چھری ،کانٹا، پلیٹ ، کِسی کافر قوم کے ہاں مروج مخصوص شکل کا کوئی برتن ، جو محض اُس قوم کے معاشرے میں افتاد طبع  کی وجہ سے ایک مخصوص شکل میں  رائج ہو گیا ، ایسے کِسی برتن کو اِستعمال کرنا کافروں سے مُشابہت نہیں ،
ایک ہی شخص کا دو یا تین  الفاظ پر مشتمل  نام رکھا جانا  ، محض ایک معاشرتی عادت ہے ، جیسا کہ ہندوستا ن میں ہندؤ رکھتے تھے ، اور رکھتے ہیں ، ایسے نام اختیار کرنے میں اُن کا کوئی دینی عقیدہ کارفرما نہیں ، اور نہ اِس عادت کے بارے میں  کوئی ایسی خبر ملتی ہے جِس کی وجہ سے اِس عادت کو کِسی طرح اُن کے دِین سے متعلق سمجھا جائے ، ہندوستانی معاشرے میں رہنے والے ، اور اُس معاشرے میں مُسلمان ہونے والے بھی اُسی طرح نام  رکھتے چلے آ رہے ہیں ، اِسے کافروں کی مُشابہت نہیں کہا جا سکتا ،
اِسی طرح کا معا ملہ  ہے شادی کے بعد بیوی کے نام کے ساتھ خاوند کا ،یا اُس کے خاندان کا نام لگا دِیے جانے کا ، کچھ کافر معاشروں کی عادت تھی اور  ہے ، جِس میں کِسی  دِینی عقیدے کا عمل دخل نہیں ،  جی معاشرتی خیالات کا کچھ ذِکر ملتاہے  کہ  ایسا اِس  لیے کیا جاتا ہے  کہ عورت شادی کے بعد اپنے شوہر کی ملکیت  ہو جاتی ہے ، لہذا اُس کے باپ کی بجائے اُس کے شوہر کانام لگا دیا جاتا ہے،
اور یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ شادی کے بعد عورت دُوسرے خاندان  کا فرد بن جاتی ہے لہذا اُس کے باپ کا نام ، باپ کے خاندان کا لاحقہ وغیرہ ہٹا کر شوہر کا نام ، یا شوہر کے  خاندان کا نام اُس کے نام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے،
اِس کے عِلاوہ  بھی  کچھ فسلفے ملتےہیں ، جن  میں کہیں بھی کِسی دینی عقیدے کا ذِکر نہیں ملتا،  بلکہ حسب ، نسب اور خاندان کی تبدیلی ہی اِس کا سبب ثابت ہوتی ہے،
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام کی یہ  تبدیلی، جو عورت کے حسب ، نسب اور خاندان میں تبدیلی کا ،مظہر ہوتی ہے ، سب ہی کافر معاشروں میں ضروری نہیں سمجھی جاتی ، کئی کافر  معاشروں میں یہ  عورت کے اختیار پر چھوڑ  دِیا جاتا ہے ،
لہذا اِس  کام کو ہم کافروں کی مُشابہت میں شمار نہیں کر سکتے ،  لیکن یہ کام یقینا حرام ہے ، یعنی اپنا حسب و نسب تبدیل کرنا ، اِس کی تفصیل اِن شاء اللہ الگ موضوع کے طو رپر پیش کی جائے گی،
اب  آتے ہیں ، لباس کی طرف ، تن ڈھانپنا ، جسم کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھنا، اِنسان کی ضرورت ہے ،
ہر معاشرے میں وہاں کے افراد نے اپنے لیے مختلف لباس اختیار کیے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ شکلیں تبدیل کرتے ہیں ، اور اُن میں سے کچھ لباس ایسے ہوتے ہیں ، جو  کسی قوم کے لیے مخصوص ہو کر رہ جاتے ہیں ، اُن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، مثلاً ، مشترکہ ہندوستانی معاشرے میں ، عورتیں ساڑھی پہنا کرتی تھیں، اور اب بھی پہنتی ہیں ، مسلمان بھی اور کافر بھی ، اب اگر کوئی ساڑھی  پہننے کو، یا مغربی عورتوں کے لباس میں سے چوغے نما لباس (میکسی وغیرہ ) پہننے کو  علی الاطلاق کافروں کی مُشابہت قرار دے تو اُس کی بات مانے جانے کے قابل نہیں ، سوائے اُس انداز میں ساڑھی ، یا ، چوغہ  پہننے کے جو انداز کافر عورتوں کا مخصوص مذہبی انداز ہے ،
اِسی طرح کا معاملہ  مَردوں کا دھوتی، یا تہہ بند پہننے کا ہے ، پنڈتوں کی مخصوص انداز میں پہنی جانے والی دھوتی یا تہہ بند تو کافروں کی مُشابہت میں آئے گی ، ہر ایک دھوتی یا تہہ بند نہیں ،
اِسی طرح  مَردوں کے سر ڈھانپنے کا معاملہ ہے ، جِس کے لیے مختلف معاشروں میں  چادر ، رومال ، ٹوپی اور  پگڑی وغیرہ اِستعمال ہوتی ہیں  ،
مُسلمان بھی اِستعمال کرتے ہیں ، اورکافر بھی ، تو پھر کِس رومال ، ٹوپی یا پگڑی کو کافروں کی مُشابہت سمجھا جائے گا اور کس کو نہیں ،
صاف ، سیدھا اور واضح سا جواب ہے کہ ، یہودیوں کی ٹوپیوں کے ایک دو مخصوص انداز ہیں ، وہ اُنہی کی ہیں ، اگر کوئی مُسلمان پہنے  گا تو اُس کے پہننا کافروں سے مُشابہت  ہو گی ،
 ہندؤں اور سکھوں کے مخصوص انداز میں پہنی یا باندھی جانے والی پگڑی  کوئی مُسلمان پہنے گا تو اُس کا پہننا کافروں سے مُشابہت قرار پائے گی ،
اور اِس قِسم کی بہت سے مثالیں ذِکر کی  جاسکتی ہیں ،اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ بات کو سمجھنے کے لیے اتنی ہی کافی رہیں گی،
  یاد رہے کہ لباس کے بارے میں  ، میری بات صِرف کافروں کی مُشابہت کے مسئلے کے مُطابق ہے ، اِسلامی لباس کی دیگر شرائط کے مُطابق نہیں ، اُن کا مسئلہ اپنی جگہ ہے ،  اور کِسی لباس یا عادت کا بذاتہ حرام ہونا الگ مسئلہ ہے ، اور صِرف کافروں کے ہاں مروج ہونا، یا کافروں کی طرف سے آنا کچھ اور ، یعنی ایسے کام ، یا چیزیں جِن کے حرام ہونے  کی خبر ، یا ، جن کی نسبت  کافروں سے  اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بتائی گئی ہو ، اُنہیں اپنانا ، اُنہیں  اِستعمال  کرنا تو حرام ہی رہے گا ، خواہ ساری دُنیا کے مُسلمان اُنہیں اِستعمال کرنے لگیں،
تو حاصل کلام یہ ہوا ، کہ ، کِسی کام ، کِسی قول ، کِسی معاملے ، کِسی معاشرتی  عادت ، کِسی کپڑے، کِسی لباس  ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینےکے کِسی انداز ، کِسی چیز کے کِسی اِستعمال وغیرہ میں   کافروں سے مُشابہت صِرف اُسی وقت سمجھی جا سکتی ہے جب  یہ بات یقینی ہو جائے کہ وہ کام ، وہ قول ، وہ معاملہ ، وہ عادت ، وہ کپڑا، وہ لِباس ، اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے  کا وہ اندا ز، وہ چیز، اور اُس کا وہی اِستعمال کافروں کے ہاں کِسی انسانی ضرورت کے تحت نہیں پایا جاتا  تھا ، یا، پا یا جاتا ہے ،  بلکہ اُن کی کِسی کفریہ ، کِسی شرکیہ عقیدے ، کی وجہ سے پایا جاتا  تھا ، یا ، پایا جاتا ہے،
مثال کے طور پر ، جیسا کہ ،موجودہ نیک ٹائی ، جِس کی ابتداء کفریہ عقیدے کی وجہ سے ہوئی، اِسلام اور مُسلمانوں سے دُشمنی کے اظہار کے طو ر پر ہوئی ،    لہذا اِس پہننا ، باندھنا کافروں کی مُشابہت ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہمارے سب کلمہ گو بھائی بہنوں کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے،
والسلام علیکم،طلب گارء دُعا ء آپ کا بھائی ، عادلِ سہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 26/07/1436ہجری، بمُطابق،15/05/2015عیسوئی ۔
تاریخ  نظر ثانی : 09/06/1438ہجری، بمُطابق،08/03/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر موجود ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, March 11, 2017

::::::: معروف شرعی عُذر اور أسباب کے بغیر نماز جمع کرنے کا مسئلہ :::::::


::::::: معروف  شرعی عُذر  اور أسباب کے بغیر نماز جمع کرنے کا مسئلہ  :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جِس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جِس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
دو نمازوں کو جمع کر کے ادا کرنے کے  لیے ، فقہاء کرام کے مختلف اقوال و فرامین کے حاصل  کے طور پر  ہمیں  درج ذیل معروف شرعی عُذر ، اسباب ملتے ہیں :::
::: (1) ::: سفر،
::: (2) :::  خوف ، ( کِسی جنگ، لڑائی وغیرہ کی وجہ سے، یا  کِسی بھی اور وجہ سے اپنے جان مال عِزت  پر حملہ ہونے یا اُن میں نقصان ہونے کا خوف )،
::: (3) :::  بارش،
::: (4) :::  مرض، بیماری، (1***
دُودھ پلانے والی عورت ، استحاضہ والی عورت2***،  ایسا شخص جو کِسی جِسمانی عُذر کی وجہ سے  ہر  نماز کے وقت کا اندازہ نہ کر سکتا ہو، اور نہ ہی نماز کا وقت جاننے کا کوئی اور ذریعہ رکھتا ہو، بلا اِرادہ  پیشاب وغیرہ خارج ہونے والا، اِن سب کو مریضوں میں ہی شُمار کیا گیا ہے ،
اِن شاء اللہ ، ہم یہاں ، اِس مسئلے کو جانیں  اور سمجھیں گے کہ ، کیا اِن چار اسباب کے عِلاوہ بھی نمازوں کو جمع کیا جا سکتاہے ، یا نہیں ؟
تو اِس کا جواب ہے کہ """جی ، کیا جا سکتا ہے کیونکہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  سفر کے بغیر اور کِسی خوف یا بارش وغیرہ کے عُذر کے بغیر بھی مدینہ المنورہ میں رہتے ہوئے  ہی نمازوں کو جمع فرمایا ہے، اور کِسی طور ایسا کرنے سے ممانعت والا کوئی اِرشاد  نہیں فرمایا ، پس اِس عمل کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے خاص کہنا جانا  دُرُست نہیں ، بالخصوص جب راوی حدیث عبداللہ ابن عباس جیسے فقیہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے خود اِس پر عمل فرمایا ، اور صرف عمل ہی نہیں ، بلکہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ نے ز ُبانی بھی یہی سمجھایا کہ یہ آسانی، یہ سہولت، یہ رُخصت ساری ہی اُمت کے لیے ہے"""،
اِس  مذکورہ بالا ، جواب ، اور بیان کی دلیل درج ذیل حدیث شریف ہے ، جِس کی دو روایات ذِکر کر رہا ہوں  :::
::::: (1) :::::عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ﴿صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ فِى غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ۔
 قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ فَسَأَلْتُ سَعِيدًا لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ كَمَا سَأَلْتَنِى فَقَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ۔
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ(المنورہ)میں(ہی)کِسی خوف اور سفر کے بغیر ہی ظہر اور عصر کو جمع کر کے پڑھا،
ابو زُبیر کا کہنا ہے کہ ،میں نے سعید سے پوچھا کہ ، ایسا کیوں کیا؟ ، تو سعید نے کہا ، میں نے بھی ابن عباس سے اِسی طرح (یہی )پوچھا تھا، جِس طرح تُم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو ابن عباس نے کہا تھا کہ """(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایسا اِس لیے کیا)تا کہ اُن (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کی اُمت میں سے کِسی پر کوئی مُشقت نہ رہے"""صحیح مُسلم/حدیث3/166کتاب صلاۃ المُسافرین/باب6جَوَازِ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى الحَضرِ،
::::: (2) ::::: ایک اور روایت کے اِلفاظ درج ذیل ہیں ﴿جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِى غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ مَطَرٍ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ(المنورہ)میں(ہی)کِسی خوف اور بارش کے بغیر ہی ظہر اور عصر، اور مغرب اور عِشاء کو جمع فرمایا صحیح مُسلم/حدیث/1667کتاب صلاۃ المُسافرین/باب6جَوَازِ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى الحَضرِ،
اِ س مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ بھی بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ نماز جمع کرنے کا معاملہ صِرف سفر ، یا کِسی عام معروف  عُذرجیسا کہ کوئی خوف ، یا،  سفر ، یا ، بارش، یا، بیماری وغیرہ  تک ہی  محدود نہیں ہے ، بلکہ کِسی بھی سبب سے اگر ظہر عصر مغرب اور عِشاء میں سے کِسی نماز کو اُس  کے مقررہ وقت میں مُناسب طور پر ادا کرنے میں کوئی مُشقت کوئی سختی درپیش  ہوتی ہو تو دو نمازوں کو کِسی ایک نماز کے وقت میں جمع (حقیقی)کیا جا سکتا ہے،
اور اِس کی حِکمت یہ بیان کی گئی کہ نمازی پر،نماز ادا کرسکنے کے بارے میں  کوئی حرج (مُشقت، سختی) نہ رہے،  اور وہ آسانی سے اپنی نماز ادا کر سکے،
اور اگر اُس نے نماز قضاء ہونے  جانے  کے اندیشے سے ایک نماز کو دُوسرے کے ساتھ جمع کر لیا تو ، اُس کی دونوں ہی نمازیں اپنے وقت میں ادا کی گئی نمازوں کی طرح ہی ہوں گی،
اگر ایسا  نہ ہوتا تو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہر گز ایسا نہ کرتے، اور نہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جیسے مفسر القران اور فقیہ صحابی اِس پر عمل پیرا رہتے،
حسب معمول ، فقہاء کرام نے اِس مسئلے کو بھی بہت اچھی طرح سے ہر پہلو سے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کافی مختلف آراء کا اظہار فرمایا  ہے، جن سب میں سے ، سب سے زیادہ بہتر یہ بات ہی  ہے کہ"""عام معروف اسباب اور اعذار کے عِلاوہ ،  جمع کی جا سکنے والی کِسی نماز کے قضاء ہو جانے کے اندیشے کی وجہ سے اُسے جمع کی جا سکنے والی کِسی دُوسری   نماز کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے،
لیکن ، ایسا اُس وقت کیا جائے جب جمع کرنے والا  اپنی استطاعت کے مدنظر اِس بات کو زیادہ یقینی دیکھ رہا ہو کہ اُس کی دونوں میں سے کوئی ایک ، یا دونوں ہی نمازیں قضاء ہونے کا امکان  ہے،
اور ،  یہ کہ اس طرح جمع کو اپنی سستی ، کاہلی  کے سبب نہ اپنایا جائے، اور ، نہ ہی اِسے عادت بنا لیا جائے، جیسا کہ  کوئی اپنے روزمرہ کے معمولات کا بہانہ کر کے روزانہ ہی ، یا اکثر ہی نمازیں جمع کرنے لگے، جب کہ اُن معمولات میں سے وہ نماز کو اُس کے وقت میں ادا کرنے کا وقت نکال سکتا ہو، خواہ تھوڑی سی مشقت ہی کے ساتھ """،
یہ مذکورہ بالا قول  سب اقوال میں سے بہتر اِس لیے کہ اِس میں اعتدال ہے،
ایک تو اِس میں ، لوگوں کی اُس غلط فہمی کا ازالہ بھی ہے جو اُنہیں  اِس حدیث شریف اور  اللہ عزّ و جلّ کے اِس  فرمان مُبارک کے بارے میں ہوتی ہے اور حدیث کو قران کے خِلاف سمجھنے لگتے ہیں،
اللہ  تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿  إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا::: بے شک نماز اِیمان والوں پر مقررہ اوقات کے ساتھ فرض کی گئی ہےسُورت  النساء (4) /آیت 103،
کِسی نماز کو اُس کی ادائیگی کے لیے مقررہ اوقات کے علاوہ کِسی دُوسری نماز کے ساتھ جمع کرنا، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس حکم پر عمل کرنے میں ایک سہولت، ایک رُخصت ہے، جو اللہ عزّ و جلّ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے عمل کے ذریعے عطاء فرمائی ،
اور دُوسرا یہ کہ،   اِسے ، دِین آسان ہونے ، اور دِین میں  آسانی مہیا کرنے کے عمومی قاعدے  کی موافقت  بھی  ملتی ہے،
اور تیسرا یہ کہ ،  عام عروف اسباب کے علاوہ بھی نماز جمع کرنے کی اجازت دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت سے حرج رفع کرنے کا جو اِرادہ فرمایا  اُس کی تکمیل ہوتی ہے ۔
امید ہے یہ معلومات ، اِس مسئلے کو سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی ، کہ عام معروف اسباب اور اعذار کے عِلاوہ بھی نماز جمع کیا جانا جائز ہے، لیکن کچھ شروط کے ساتھ ، جن کا ذِکر ابھی کیا گیا،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1***فقہاء کرام کے اختلاف کے ساتھ، حنفی اور شافعی مذاھب  بیماری کو نماز جمع کرنے کا عُذر نہیں مانتے، حنبلی مذھب میں اسے عُذر مانا جاتا ہے، اور مالکی مذھب میں  اس صُورت میں مانا جاتا ہے کہ اگر مریض کو یہ ڈر ہو کہ اگلی نماز کا وقت بے ہوشی یا  تکلیف کی شدت میں  نکل جائے گا تو وہ جمع کر سکتا ہے،
فقہا کرام کے یہ مذکورہ بالا اقوال ، اور اِس طرح کے اور اقوال سب ہی اُن کے اجتہادات ہیں ، جن میں اکثر کی کوئی منصوص دلیل نہیں،
اللہ عزّ و جلّ کا فرمان ہے  (((((یُریدُ  اللَّہُ  بِکُم  الیُسرَ  وَ  لا  یُریدُ  بِکُم  العُسر:::اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے نرمی چاہتا ہے اور تم لوگوں کے  لیے سختی نہیں چاہتا))))) سُورت البقرہ(2)/آیت 185 ، 
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے (((((الدینُ  یُسرٌ:::دِین آسانی ہے)))))صحیح الجامع الصغیر /حدیث 3420 ،
لہذا ،  اپنے رب سُبحانہ ُ و تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عطاء فرمودہ  اِس مذکورہ بالا عمومی قانون کی روشنی یہ مانتے ہیں کہ بیماری بھی نماز جمع کرنے کے مقبول اسباب میں سے ہے،
اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ اور حدیث مُبارک ، اور اِس مفہوم کی دیگر نصوص کو کچھ لوگ اپنی غلط کاریوں اور گمراہیوں کی تائید میں اِستعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ، جو کہ بذات خود ایک غلطی ہے، اِس کی کچھ وضاحت "عمرہ اور حج رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  طریقے  پر " میں موجود ہے، وللہ الحمد،
اور یہ کتاب اِس  ربط پر میسر ہے :  http://bit.ly/1WUZj8L   
2***استحاضہ والی عورت کا معاملہ کِسی دوسرے مریض کے جیسا نہیں ہے، اُسے عمومی طور پر مریضوں کے ز ُمرے میں شُمار کر کے نماز جمع کرنے کی اجازت پانے والوں میں شُمار کرنا دُرُست نہیں ، کیونکہ استحاضہ والی عورت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بڑی وضاحت سے یہ سمجھایا ہے ، ملاحظہ فرمایے :::
حَمنۃ بنت  جحش رضی اللہ عنہا ، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں اپنے حیض کی شدت  اور استحاضہ کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  استحاضہ کے ایام کے بارے میں اِرشاد فرمایا  (((وَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِى الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِى الْعَصْرَ فَتَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَتُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ:::  اور اگر تُم ایسا کر سکو کہ ظہر  میں دیر کرو،  اور عصر  میں جلدی کرو کہ(عصر کا وقت داخل ہوتے ہی )  غُسل کرو، اورظہر اور عصر دونوں نمازوں کو جمع کر لو،اور (پھر اِسی طرح) مغرب میں دیر کرو، اور عِشاء میں جلدی کرو کہ  (عِشاء کا وقت داخل ہوتے ہی ) غُسل کرو، اور دونوں نمازوں کو جمع کر لو  ))) سُنن ابو داؤد/حدیث /287کتاب  الطہارۃ    /باب 111مَنْ قَالَ إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ تَدَعُ الصَّلاَةَ، سُنن ابو داؤد/حدیث /128کتاب  الطہارۃ    /باب مَا جَاءَ فِى الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ، إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے دونوں روایات کو"حَسن" قرار دِیا ہے،
اِس حدیث شریف سے پتہ چلا کہ استحاضہ والی عورت کو نمازیں جمع کرنے کی الگ سے اجازت دی گئی ، عمومی مریض کے ز ُمرے میں اُسے شامل کرنے کی ضرورت ہی نہیں،
جی بلکہ ، اِس حدیث کو  کِسی بھی مریض کے لیے نمازیں جمع کرنے کی دلیل سمجھا جا سکتا ہے،
یہاں ایک بات کی وضاحت کرتے ہوئے ، اِس موضوع کو ختم کرتا ہوں ، اِن شاء اللہ،
اِس مذکورہ بالا حدیث میں استحاضہ والی عورت کو نماز پڑھنے کے لیے ، ہر نماز سے پہلے  غُسل  کرنے کا کہا گیا ہے، لیکن یہ فرمان وجوب کے لیے نہیں ، بلکہ افضلیت کے لیے کہ ، کیونکہ ،
فاطمہ بنت ابی حُبیش رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((اجْتَنِبِى الصَّلاَةَ أَيَّامَ مَحِيضِكِ ثُمَّ اغْتَسِلِى وَتَوَضَّئِى لِكُلِّ صَلاَةٍ::: اپنے حیض کے دِنوں میں نماز سے دُور رہو، پھر (طہارت دیکھنے پر) غُسل کرو، اور ہر نماز کے لیے وضوء کرو  ))) سُنن ابن ماجہ/حدیث /667کتاب  الطہارۃ  و سُننھا   /باب 115 مَا جَاءَ فِى الْمُسْتَحَاضَةِ إِذَا كَانَتْ قَدْ عَرَفَتْ أَقْرَاءَهَا،
ایک اضافی فائدے کے طور پر استحاضہ کی حالت میں نماز کے لیے طہارت کے طریقے  کے بارے میں تفصیل بھی ذِکر ہوگئی، و للہ الحمد والمِنۃ ۔
و السلام علیکم، طلب گارء دُعاء ،آپ کا  بھائی ،  عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 12/11/1437 ہجری ، بمطابق ، 15/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔