صفحات

Friday, May 5, 2017

::::: نماز میں دِل و دِماغ کو حاضر اور قابُو رکھنے کے بہترین طریقے:::::

::::: نماز میں  دِل و دِماغ  کو حاضر اور قابُو رکھنے کے بہترین طریقے:::::

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ     
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
دُنیا کے کاموں کی فِکر مندی اور سوچ ایک ایسی مشکل ہے جِس سے شاید ہی کوئی بچا ہوا ہو ، یہاں تک یہ سوچیں اور فِکریں کسی مسلمان کو اُس کی نماز کے دوران بھی نہیں چھوڑتیں ،
لیکن ، یاد رکھیے کہ نماز کے دوران تو خاص طور پرشیطان اِن سوچوں کو اُبھارتا ہے، اور خوب اُبھارتا ہے تا کہ نمازی کی توجہ اپنی نماز کی طرف نہ رہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((إِذَا نُودِىَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لاَ يَسْمَعَ الأَذَانَ ، فَإِذَا قُضِىَ الأَذَانُ أَقْبَلَ ، فَإِذَا ثُوِّبَ بِهَا أَدْبَرَ فَإِذَا قُضِىَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ يَقُولُ اذْكُرْ كَذَا وَكَذَا مَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ إِنْ يَدْرِى كَمْ صَلَّى ، فَإِذَا لَمْ يَدْرِ أَحَدُكُمْ كَمْ صَلَّى ثَلاَثًا أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهْوَ جَالِسٌ:::جب نماز کے لیے بلایا جاتا ہے (یعنی اذان کہی جاتی ہے)توشیطان آوازیں نکالتا ہوا، اُلٹے پاؤں (دُور) بھاگتا ہے یہاں تک وہ اذان نہ سُن سکے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر دُور چلا جاتا ہے ، اور جب اقامت بھی پوری کر دی جاتی ہے تو واپس آجاتا ہے، اور بندے اور اُس کے نفس کے درمیان ایسی باتیں سوچنے کے وسوسے ڈالتا ہے جو وہ (نماز میں )یاد کرنے والا نہیں ہوتا کہ وہ یاد کرو ، وہ یاد کرو ، یہاں تک وہ بندہ (شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو کر )یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اُس نے کتنی نماز پڑھی ، پس  اگر تُم لوگوں میں سے کوئی یہ نہ یاد رکھ سکے کہ اُس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار رکعت تو  (وہ نمازی اِسی صُورت میں ، یعنی تشھد میں ) بیٹھے ہوئے ہی دو سجدے کرے)))))صحیح البخاری/حدیث /1231 کتاب  السھو /باب 6،
جس پر شیطان کے یہ داؤ چلتے ہیں ، اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک خود کار آلے کی طرح نماز کی حرکات اور اِلفاظ ادا کر کے نمازنمٹاتے ہیں ، بعض لوگوں کا تو یہ حال ہو جاتا ہے کہ اُنہیں اپنی نماز چھوڑنا پڑتی ہے کہ اُنہیں اپنی سوچوں میں گُم ہونے کے وجہ سے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اُنہوں نے کیا پڑھا ، اور کیا کِیا ؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی عِبادت کی صحیح  طور پر تکمیل کے لیےاللہ  تعالیٰ کے لیے خالص نیت ، اور اللہ  پاک کے خوف ، اور اللہ عزّ و جلّ کے ثواب کے حصول کی اُمید ، اور دِل و دِماغ کی حاضری کا ہونا ضروری ہے ،
 اور خاص طور پر نماز کے لیےاِن سب کا ہونا لازمی ہے ، کہ اِن کے بغیر ادا کی گئی نماز کی قُبولیت کا کوئی امکان نہیں ہوتا،اور اگر نماز ہی دُرُست نہ ہو تو نماز کا حساب بھی  دُرُست نہ ہوا، اور اگر نماز کا حساب ہی دُرُست نہ ہوا تو بندے کے سارے ہی کاموں کا حساب بگڑ جائے گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد  فرمایا ((((( أول مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبدُ يوم القِيامةِ الصَّلاة ، فإن صَلُحَت صُلِحَ لَهُ سَائرَ عَملِهِ و إن  فَسَدَت فَسدَ سَائر عَمله :::قیامت والے دِن بندے کا سب سے پہلا حساب نماز کے بارے میں ہو گا ، اگر (حساب میں )وہ دُرُست ہوئی تو  اُس بندے کے سارے کام اُس کے لیے دُرُست کر دیے جائیں گے اور اگر (حساب میں )نماز فاسد ہوئی تو اُس کے سارے عمل فاسد ہوئے )))))الاحادیث الصحیحۃ / حدیث 1358،
لہذا ہمیں اپنے تمام تر اعمال کو فساد سے بچانے کے لیے اپنی نماز کودِل و دِماغ کی  مکمل حاضری کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ، اور اپنے دِل و دِماغ کو سوچوں اور وساوس سے محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کرنا چاہیے ،
اِن شاء اللہ میں یہاں کچھ ایسے طریقے بیان کروں گا جو نماز میں اپنے ذہن کو اِدھر اُدھر کی سوچوں سے آزاد رکھنے میں خوب مدد گار ہوتے ہیں ، باذن اللہ ،
::: ( 1) دُرُست نیت کو دِل و دِماغ میں حاضر کرنا ، اور رکھنا :::
جب آپ نماز کا اِرداہ کریں تو اپنے دِل ودِماغ میں یہ نیت واضح اور مضبوط کیجیے کہ آپ اپنے اللہ کی یہ عِبادت صِرف اور صِرف اُسکی رضا کے حصول کے لیے کر رہے ہیں ، یہ عِبادت  نہ کسی کو دِکھانے کے لیے ہے اور نہ ہی کِسی دُنیاوی فائدے کے لیے ،
 اور اِس نماز کی ادائیگی میں آپ اپنے رب اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ کو ہی خوش رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے اور اُس کے اور آپ کے دُشمن شیطان کے کسی وسوسے کا شکار نہ ہوں گے ،
یہاں یہ بھی یاد رکھیے گا کہ ، نیّت دِل کے اِرادے کو کہا جاتا ہے ، نماز پڑھنے کی ، یا کِسی بھی عمل کی کوئی ز ُبانی نیّت اللہ تعالیٰ ، یا ، اُس کے  خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نہیں سِکھائی گئی ، جیسا کہ عموماً نماز سے پہلے کافی لمبی عبارت نماز کی نیّت کے طور پر سِکھائی جاتی ہے ، اِس کی کوئی دلیل ہمارے دِین  اِسلام میں مُیسر نہیں ، 
:::  ( 2)  اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد رکھنا :::
خیال رکھیے کہ جب آپ اذان سُنتےہوں تو  تو آپ کو یہ یاد رہے کہ یہ اُس جبار و قہار کی  طرف سے آپ کو نماز کی صُورت میں مُلاقات کی دعوت ہے جو ساری ہی کائنات کا واحد اور لا شریک مالک اور خالق ہے ،
جب آپ نماز کی تیاری کرتے ہیں ، وضوء کرتے ہیں تو یہ یاد رکھیے ، خود کو یہ باور کروایے  کہ آپ بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے حاضر ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ،
جب آپ نماز کے لیے مسجد کی طرف چلیں تو اپنے دِل و دِماغ کو یہ یاد کروایے کہ آپ اُس عظیم  ترین ہستی کے سامنےپیش ہونے جارہے ہیں جِس کی قُدرت ہر ایک چیز پر قاہر ہے ،
جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوں تو خود کو سمجھایے کہ آپ عرشءعظیم کے مالک کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں ،
جب آپ تکبیرء تحریمہ کہیں تو یاد کیجیے کہ جِس کے نام کی آپ کی نے تکبیر بُلند کی اور اُس کے ساتھ مُلاقات کا آغاز کیا ہے حقیقتا اُس سے بڑا کوئی بھی اور نہیں ،
جب آپ رکوع و سجود کریں تو یاد رکھیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم اور  محبوب عِبادات ہیں جو بے حد و حساب سالوں سے اَن گنت فرشتے آسمانوں اور زمینوں میں کیے ہی جارہے ہیں ،
جب آپ اپنے جسم کے سب سے زیادہ عِزت والے حصے، اپنی پیشانی  کو  زمین پر لگائیں تو یاد رکھیے کہ اللہ کے سامنے ، اللہ کے لیے کیا گیا یہ سجدہ کس قدر  أہم اور اجمل ہے کہ یہ وہ مُقام ہے جب بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ،
::: ( 3 ) اللہ  تعالیٰ کے ساتھ مُلاقات کا احساس :::
دورانء نماز یہ یاد رکھیے کہ آپ اپنے اللہ  تبارک و تعالیٰ ،احکم الحاکمین یعنی تمام تر حاکموں سے بڑے ، اور اُن سب کے حقیقی حاکم کے ساتھ مُلاقات میں مشغول ہیں ، کوئی عادت پوری نہیں کر رہے ، یا کوئی ورزش نہیں کر رہے ،
::: ( 4) اللہ عزّ و جلّ  کے ساتھ گفتگو کا شعور :::
جب آپ سُورت فاتحہ کی تلاوت کریں تو آپ کے شعور میں یہ جاگزیں ہونا چاہیے کہ یہ نماز اِس طرح  آپ کے اور آپ کے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے درمیان بٹی ہوئی ہے ، کہ آپ اللہ، رب العالمین یعنی تمام تر جہانوں کو پالنے والے کی تعریف کر رہے اور وہ آپ کو جواب دے رہا ہے ، آپ اُس سے کچھ مانگ رہے ہیں اور وہ آپ کو دے رہا ہے ،
::: ( 5) اِس گفتگو میں اِستعمال کردہ اِلفاظ کے معانی کا ادارک :::
آپ کو اپنے دِل و دِماغ میں اپنی نماز کے اولین آغاز ، تکبیرء تحریمہ سے لے کر اختتامی سلام تک اپنی ز ُبان سے ادا کیے جانے والے  ہر ایک لفظ کے معانی اور دُرُست مفہوم کو حاضر رکھنا چاہیے ،
اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کی صفات میں یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ (((((الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ::: وہ جو اپنی نمازوں میں (مؤدب)خوف کی حالت میں رہتے ہیں )))سُورت المؤمنون (23)/آیت 2،
یاد رکھیے کہ دِل و دِماغ کی حاضری اور ساتھ کے بغیر صرف ز ُبان سے ادا کیے جانے والے اِلفاظ کبھی خشوع کا سبب نہیں بن سکتے، لہذا اِس کوشش کرتے رہیے کہ آپ کی ز ُبان ، دِل اور دِماغ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوں ،  اِس کام میں مدد کے لیے آپ اپنی نظروں کو اپنے سجدے کی جگہ پر قائم رکھیے کہ نظروں کا بھٹکنا دِل و دِماغ کے بھٹکنے کا بڑا سبب ہے ۔
:::  (6) آسمان کی طرف نظر نہ اُٹھانا :::
 جِن جِن کاموں سے نماز میں باز رہنے کا حُکم ہے اُن کا عِلم رکھیے اور اُن سے باز رہیے ، کہ وہ کام اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں اور اس ناراضگی کی بنا پر یقیناً آپ کی نماز میں کمی  اور دِل ودِماغ کے غائب ہونے کا سبب ہیں ،
اِن کاموں میں ایک تو دورانء نماز آسمان کی طرف نظر کرنا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سختی سے اِرشاد فرمایا ہے کہ (((ما بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلىٰ السَّمَاءِ ، لَيَنْتَهُنَّ عَن ذَلِك أو لَيَخْطَفَنَّ الله أَبْصَارَهُمْ::: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ(نماز میں ) اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھاتے ہیں ، یا تو وہ لازمی طور پر اِس سے باز آجائیں یا ضرور اور جلدی سے اللہ اُنکی بصارت سلب کردے گا)))سُنن ابن ماجہ/ حدیث1044 / صحیح الترغیب والترھیب،
نماز میں ایسے ہی ممنوع کاموں میں سے درج ذیل بھی ہیں ، اور اِن کا موجود ہونا نماز میں دِل و دِماغ کی حاضری کے غیر موجود ہونے کا سبب ہوتا ہے ،   
:::  ( 7) ۱ِدھر اُدھر متوجہ  نہ ہونا  :::
یہ بھی ممنوع کام ہے، اور ایسے کاموں میں  سے جن کا واقع ہونا نمازی کے ذہنی فرار کی نشاندہی ہوتا ہے ، اور نماز میں خشوع اور خضوع کے خاتمے کے اسباب میں سے ہے، اور اللہ سُبحانہ و تعالیٰ بھی ایسے نمازی کی طرف متوجہ نہیں رہتا جو اللہ کی طرف متوجہ نہ رہے ، لہذا اپنی نماز میں اِدھر اُدھر متوجہ ہونے کی بجائے اپنے سجدے کی جگہ پر نگاہ رکھیے ، اپنے دِل و دماغ کو اپنی قرأ ت میں تدبر کے ساتھ مرتبط رکھیے ، 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ (((((وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّهَ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ :::اور بے شک اللہ نے تم لوگوں کو نماز کا حکم دیا ہے ، لہذا جب تُم لوگ نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر توجہ مت کرو کیونکہ بندے کی نماز کے دوران اللہ اپنا چہرہ مُبارک اپنے بندے کی طرف رکھتا ہے جب تک کہ وہ بندہ کسی اور طرف متوجہ نہیں ہوتا)))))اِلفاظ کے معمولی سے فرق کے ساتھ یہ حدیث شریف بہت سی کتابوں میں مروی ہے ، مذکورہ بالا الفاظ سُنن الترمذی /کتاب الامثال عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم /باب 3، کی روایت کے ہیں ، جسے اِمام الالبانی  رحمہُ اللہ  نے صحیح قرار دیا ہے ،  
::: (8) جماہی کو ظاہر نہ ہونے دینا :::
 نماز میں جماہی آنا بھی شیطان کی طرف سے ہوتا ہے کہ نمازی پر تھکن ، سُستی اور نیند وغیرہ کا احساس طاری کر کے اُسے جلدی جلدی نماز ختم کرنے کی طرف مائل کرتا ہے ، اور یوں اُس کی نماز چند حرکات کی ادائیگی بن کر ختم ہو جاتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ (((((التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ ::: نماز میں جماہی آنا شیطان کی طرف سے ہے، لہذ اگر تُم میں سے کسی کو (دورانء نماز) جماہی آئےتو اپنی طاقت کے مُطابق اُسے دبا لے)))))سُنن الترمذی /حدیث370/ کتاب الصلاۃ /باب 161 ،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ ،
جماہی کو دبانے کے لیے اِنسان کو اپنے حواس مجتمع کرنا ہوں گے اور اِس عمل کے نتیجے میں شیطان کی طرف سے مُسلط کردہ سُستی ، تھکن اور نیند وغیرہ کا احساس رفع ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ  کے سامنے منہ ُ پھاڑنے کی بے ادبی کا نقصان بھی نہ ہوگا ، پس اگر آپ کی نماز میں آپ پر شیطان کا یہ حملہ ہو تو چوکنے ہو کر اپنے منہ ُ کو مضبوطی سے بند رکھتے ہوئے یا اپنے منہ ُ کو ہاتھ سے ڈھانپ کر جماہی کو دبایے اور ظاہر مت ہونے دیجیے ، 
:::  ( 9 ) شک سے بچنا :::
اپنی نماز کے کاموں، مثلا وضوء ہونے یا نہ ہونے ، کسی رُکن کے ادا کرنے یا نہ کرنے وغیرہ  کے بارے میں شک میں مُبتلا مت ہوں ، اگر کِسی کام کے بارے میں کچھ شک محسوس ہو تو شیطان مَردود اور اُس کے وساوس سے اللہ کی پناہ طلب کیجیے اور جِس کام کے بارے میں یقین ہو اُس کے مُطابق اپنی نماز مکمل کیجیے ،
::: (10)درمیانی آواز میں تلاوت اور ذِکر و دُعاء  کرنا :::
دورانء نماز بھی اپنی قرأت ، اذکار اور دُعاء میں اپنی آواز نہ تو اتنی بُلند کیجیے کہ اپنے اور دُوسروں کےلیے پریشانی اور عدم توجہی کا سبب بنے اور نہ ہی اتنی پَست کہ خود کو بھی سُنائی نہ دے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (((((وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا::: اور (اے محمد ) نہ ہی اپنی نماز میں آواز بُلند کیجیے اور نہ ہی پَست کیجیے، بلکہ اِس کے درمیان والی راہ اختیار کیجیے ))))) سُورت الاِسراء (بنی اِسرائیل 17)/آیت 110،
::: (11) نماز کی ہر ایک حرکت مکمل اور بہترین طور پر کرنا :::
نماز کے ہر رُکن کو اُس کا  مکمل حق ادا کرتے ہوئے خوبصُورتی کے ساتھ پورا کیجیے، رکوع اور سجدوں میں کثرت سے تسبیحات کیجیے ،خاص طور پر سجدوں میں اللہ تعالیٰ سے قُبولیت کے یقین کے ساتھ اور دِل جمعی  کے ساتھ اپنی توجہ کو اُس کی طرف مرکوز رکھتے ہوئےدعاؤں کی کثرت کیجیے ،
دُنیاوی اُمور میں سے جو کچھ یاد آئے اُس کی طرف سے توجہ ہٹاکر اللہ  پاک کی طرف متوجہ رہنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیے ، خود کو یقین دلایے کہ یہ وقت اِن کاموں کو یاد کرنے کا نہیں ، جب اِن کی ضرورت ہوگی اللہ تعالیٰ آپ کو یاد کروا دے گا ،
ان شاء اللہ اِن مذکورہ بالا آزمودہ طریقوں کو کو اپنانے سے آپ اپنی نماز میں اپنے دِل و دِماغ کی حاضری قائم رکھ سکتے ہیں ،  اور شیطان کو آپ کی نماز قُبول نہ ہونے والی بنانے کی کوشش میں ناکام کر سکتے ہیں ، اور اپنی نماز کے حساب کو آسان اور فائدہ مند بنانے کی بھرپور کوشش کر سکتے ہیں ، اور آپ کو ایسا کرنا ہی چاہیے  کیونکہ جس کی نماز کا حساب دُرُست نہ ہوگااس کے باقی اعمال کا حساب بھی شدید ہو گا ،،،،،،  تو پھر،،،،،،،، اُن کا کیا ہو گا جو بالکل نماز پڑھتے ہی  نہیں !!! ؟ ۔
اللہ  تعالٰی ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے، اُس کی رضا کے مُطابق اُس کی عِبادات ادا کرنے والوں میں سے بنائے ، اور  قُبول فرمائے ، و السلام علیکم،
طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : ہجری ، بُمطابق ، 22/04/2014عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2 comments:

  1. جزاک اللہ خیرا و کثیرا۔۔۔
    اسکی بہت ضرورت ہے ھم سب کو۔۔۔۔
    اللہ سبحان و تعالٰی ھم سب کو نماز میں آسانیاں عطا فرمائے۔۔ آمین، یا رب العالمین

    ReplyDelete
  2. السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
    اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی آپ کو بھی بہترین اجر عطاء فرمائے محترم بھائی فرپخ وحید صاحب، اور ہماری عبادات ، نیکیاں اور دعائیں قوبل فرمائے۔

    ReplyDelete