::::: ہماری شخصیات
پر ہماری کی گئی عِبادات کا اثر کیوں نہیں ہوتا ؟ :::::
بِسمِ اللَّہِ
الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ
وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ، و لا
أصدق مِنہ ُ قِیلا ، و الَّذی أَرسلَ
رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد
اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ
،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت
رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص
تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں
، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے
ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور
سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ،
جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو
رپر دی،
السلام علیکم ورحمۃ
ُ اللہ و برکاتہُ ،
ہماری مقدس شریعت میں کوئی عِبادت ایسی نہیں جس کا کوئی نہ
کوئی اثر عِبادت کرنے والے کی زندگی اور شخصیت پر نہ ہوتا ہو ، جی ہاں ، یہ اثر ہر
عِبادت کے دِین میں درجے کے مُطابق اور عِبادت کیے جانے کے انداز اور جگہ کے مُطابق
مختلف ہوتا ہے ، اور اِسی طرح ہر عِبادت کرنے والے کے اپنے اِیمان اور عقیدے کے مُطابق
اُس پر کسی عِبادت کا اثر ہوتا ہے ، یا بالکل نہیں ہوتا ،
إِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ ، نے اپنے استاد شیخ
الاِسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ """ إذا لَم تَجِد لِلعَمل حَلاوة
في قلبِك واِنشراحًا فاتَّهِمه فإنَّ الرَّب تعالى شكور::: اگر تُم اپنے دِل میں کسی (دِینی)
عمل کی مِٹھاس اور اُس کی وجہ سے وسعت کا احساس نہ پاؤ تو اپنے اُس عمل کو قصور
وار مانو ، کیونکہ اللہ تو شکور ہے """،
اور اِس کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے کہ """ يعني أنه لابُدَّ أن يثيب العامل علىَ عمله في
الدنيا مِن حَلاوة يَجِدها في قلبِه وقوة اِنشراح وقُرَّة عَين فحيث لم يَجِد ذلك
فعمله مَدخول:::
، یعنی ، یہ ضروری ہے کہ (دِینی) عمل کرنے والا دُنیا میں
بھی دِلی مٹھاس، قوت ، وُسعت ، اور اطمینان کی صُورت میں اپنے اُس عمل کا ثواب
پائے ، پس اگر وہ یہ کچھ نہیں پاتا تو اُس کا وہ (دِینی) کام (نیت و کیفیت کے لحاظ
سے )دُرُست نہیں"""، مدارج السالکین /جز/2 فصل قال
صاحب المنازل : المراقبة : دوام ملاحظة المقصود وهي على ثلاث ،
شیخ الاسلام إمام
ابن تیمیہ اور اُن کے شاگرد رشید إِمام ابن القیم الجوزیہ رحمہما اللہ کے یہ اقوال
بالکل حق ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((( ذَاقَ
طَعمَ الإِیمَانِ مَن رَضی بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالإِسلَامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ
رَسُولًا ::: جو اللہ کے رب ہونے ،
اور اِسلام کے دِین ہونے ، اور مُحمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کے رَسول
(اللہ) ہونے پر راضی ہو گیا اُس نے اِیمان کا ذائقہ چکھ لیا ))) صحیح
مُسلم /حدیث34 /کتاب الاِیمان /باب 11 ،
::::::: ہماری زندگیوں پر عِبادات کیسے اثر کریں ؟؟؟ :::::::
عِبادات کے اثر کرنے کے بہت سے اسباب ہیں جِن میں سے کچھ
أہم مندرجہ ذیل ہیں :::
:::(1) ::: قُران
اور صحیح احادیث میں مختلف عِبادات کے فضائل و نتائج کا مطالعہ کرنا ،
:::(2) ::: عِبادات
سے متعلقہ آیات کی تفسیرکا عِلم تفسیرکی معتبر کتابوں میں سے حاصل کرنا ، اور
احادیث کی شرح کا عِلم شرح کی معتبر کتابوں میں سے حاصل کرنا ، اور کسی کے لیے
ایسا ممکن نہ ہو تو صحیح منہج و عقیدہ والے عُلماء سے معلومات حاصل کرنا ،
:::(3) ::: اس بات کا عِلم حاصل کرنا کی
کس عِبادت کی کیا حکمت ہے ، اور اس بات کا احساس حاصل کرنا کہ عِبادات کی اساس
خشوع اور خضوع ہے ، دِل و دماغ اور جسمانی أعضاء کی حاضری ہے ، اور ان کی مشترکہ
حِکمت دِلوں کی صفائی اور اِیمان کی توانائی ہے،اور جب یہ میسر ہو گا تو بندے کا دِل
و روح اُس کے رب کے لیے خشوع و خضوع سے بھرتے جائیں گے ، اللہ کی مُحبت اور تقویٰ
میں اضافہ ہوتا جائے گا، اور بندے اپنی دُنیا اور آخرت کی خوش نصیبی اور کامیابی
حاصل کرنے والوں میں سے ہو جائے گا ،
:::(4) ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم کی ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُنکے منہج پر چلنے والے
عُلماء اور نیک لوگوں کی سیرت میں اُن عِبادات کی ادائیگی کی کیفیات کا مطالعہ
کرنا ، اس کا بہت ہی مُثبت اور عجیب اثر مستقل تجربات سے ثابت ہے ،
::: ::: عِبادات کے اثر پذیر نہ ہونے اور ، اُن کی لذت سے محرومی کے أہم اسباب::: :::
:::(1) ::: کسی بھی عِبادت کی ادائیگی
میں اخلاص یعنی اُسے اللہ کے لیے ادا کرنے کی نیت نہ ہونا یا ساتھ ساتھ کچھ اور
نیت بھی ہونا ،
:::(2) ::: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کی پیروی نہ ہونا ،
اِن دونوں مندرجہ بالا چیزوں کا موجود ہونا کسی بھی عِبادت
کی قبولیت کے لیے شرط ہے ، اور یہ شرط اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مُقرر کی گئی ہے (((
قُل إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثلُکُم یُوحَی إِلَیَّ
أَنَّمَا إِلَہُکُم إِلَہٌ وَاحِدٌ فَمَن کَانَ یَرجُو لِقَاء رَبِّہِ فَلیَعمَل عَمَلاً صَالِحاً وَلَا
یُشرِک بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَداً ::: (اے رسول) آپ فرما دیجیے کہ میں تُم لوگوں کی طرح ایک
اِنسان ہوں (لیکن) میری طرف (اللہ کی طرف سے ) وحی کی جاتی ہے کہ تُم سب کا (حقیقی
اور سچا )معبودصِرف ایک (اللہ ہی ) ہے لہذا جو اپنے رب (اللہ) سے ملنے کا یقین
رکھتا ہے وہ نیک کام کرے اوراپنے رب (اللہ) کی عِبادت میں کسی کو شریک نہ کرے)))
سورت الکہف(18) / آخری آیت،
اور جِس طرح اِن دو چیزوں کی موجودگی کسی بھی عِبادت کی
قبولیت کی شرط ہے اُسی طرح اِن دونوں چیزوں کا عِبادت کرنے والے کی دُنیاوی زندگی
اور اُس کی شخصیت پر أثر پذیر ہونے کا ،
عِبادت کی لذت کے احساس کے حاصل ہونے کے ساتھ بہت گہرا اور مضبوط تعلق ہے ،
اِسی لیے عُلماء حق کا یہ فرمان ہے کہ ’’’ عِبادت کا أثر
اُس کی کثرت میں نہیں بلکہ اُس کی کیفیت میں ہوتا ہے ‘‘‘،
عُلماء کرام کی اِس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ((( الَّذِی
خَلَقَ المَوتَ وَالحَیَاۃَ لِیَبلُوَکُم أَیُّکُم أَحسَنُ عَمَلاً وَ ھُوَ
العَزِیزُ الغَفُورُ :::
(اللہ ) جس نے موت اور زندگی کی تخلیق
فرمائی تا کہ تُم لوگوں کو مُبتلا کرے کہ تُم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے اور
اللہ بہت زبردست اور بخشش کرنے والا ہے ))) سُورت المُلک(67) / آیت 6 ،
غور فرمایے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے اِس مذکورہ بالا فرمان
میں کام کی کیفیت کا ذکر تو فرمایا ہے ، کہ کام بہترین ہونا چاہیے ، لیکن کام کی کثرت کا
نہیں ، یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ’’’ تُم میں سے کون زیادہ عمل کرتا ہے ‘‘‘،
لہذا حق یہی ہے کہ ’’’ نیکی کا
أثر اُس کی کثرت میں نہیں بلکہ اُس کی کیفیت میں ہوتا ہے ‘‘‘،
ابھی ابھی ذِکر کردہ سُورت الکہف کی آخری آیت مُبارکہ پڑھنے
کے بعد کِسی مُسلمان کو اِس بات میں شک
نہیں ہو سکتا کہ اللہ عزّ و جلّ کے ہاں بہترین عمل صِرف وہ ہی ہے
جو اللہ پاک کی رضا کے لیے ہو ، اور نبی
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کے مُطابق ہو ،
اور یہ دونوں چیزیں جتنی زیادہ ہو ہوں گی ، دُنیا اور آخرت
میں عِبادت کا اثر اُتنا ہی زیادہ ہو گا ،
إِمام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے ’’’’’ کاموں کی
ایک دُوسرے پر فضیلت (کسی کام کرنے کے لیے) دِل میں پائے جانے والے اِیمان ، اللہ
کی مُحبت ، تعظیم اور بزرگی کے احساس ، اور صِرف اللہ کی خوشنودی کی نیت کی مُقدار
کے مُطابق ہوتی ہے ، ( اور اگر کِسی کام کے کرنے میں یہ سب کیفیات نہ ہوں یا کچھ
ہوں اور کچھ نہ ہوں ، یا کچھ کم کچھ زیادہ ، رہی ہوں تو ) خواہ دیکھنے میں دونوں
کام (یعنی اُن کیفیات کی موجودگی میں کیے جانے والا ، اور اُن کے بغیر کیے جانے
والا کام) ایک جیسے نظر آتے ہیں ، لیکن اُن کے نتیجے میں جتنا فرق ہوتا ہے اُسے
اللہ ہی جان سکتا ہے (یعنی کِسی اور کی اِستطاعت سے خارج ہے کہ وہ اُس فرق کا
اندازہ بھی کر سکے) ، اور اِسی طرح دو کاموں میں اِتباع (رسول صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم ) کے مُطابق فرق ہوتا ہے ، اور یہ بھی کتنا ہوتا ہے اُس کو صِرف اللہ ہی
جان سکتا ہے ، پس کاموں کی ایک دُوسرے پر فضیلت اِخلاص اور اِتباع (رسول صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم) کے مُطابق ہوتی ہے اور اِس کا فرق جاننا صِرف اللہ کی قُدرت
کا ہی خاصہ ہے ‘‘‘‘‘ ، تہذیب مدارج السالکین ،
:::(3) ::: گناہوں
، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی والے کام
کرنا ، یا ایسے کاموں میں ملوث ہونا ، اللہ تعالیٰ کی
برکتوں ، اور عِبادات ، اور عِبادات کے
اثر اور اُن کی لذت کے غائب ہونے کے بڑے اسباب میں سے ہے ،
:::::
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے ((( وَلَو أَنَّ أَھلَ القُرَی آمَنُوا
وَاتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاء ِ وَالأَرضِ وَلَـکِن
کَذَّبُوا فَأَخَذنَاھُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ::: اور اگر بستیوں والے اِیمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو
یقینا ہم اُن سب پر آسمانوں سے اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن اُنہوں نے
(ہماری باتوں اور احکام کو) جُھٹلایا پس ہم نے اُن کے کاموں کے مُطابق اُن پر گرفت
کر لی))) سورت الأعراف(7) / آیت 96 ،
وھیب (عبدالوھاب ) بن الورد رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا
’’’ کیا گناہ کرنے والا کسی عِبادت کی لذت حاصل کرپاتا ہے ؟ ‘‘‘
تو فرمایا ’’’’’ گناہ کی سوچ کرنے والا بھی نہیں پا سکتا
‘‘‘‘‘،
تو سوچیے ، قارئین
کرام کہ بھلا گناہ کرنے والا کیا اورکیسے پائے گا؟؟؟
اگر صِرف گناہ کرنے کے بارے میں سوچنے کا یہ اثر ہے تو پھر
گناہ کرنے کا اور گناہ پر اصرار کرنے کا کیا اثر ہو گا ؟؟؟
:::::
إمام الشافعی رحمہُ اللہ کا یہ شعر بھی اِس معاملے کو
سمجھنے کے لیے بہت مددگار ہے کہ :::
شكوتُ
إلى وكيع سوء حفظي ... فأرشدني إلى ترك المعاصي
وقال
إعلم بأن العَلمَ نور ... ونور اللَّه لا يُعطى لعاصي
میں نے وکیع سے اپنی یادداشت کی
کمزوری کی شکایت کی ،،،،، تو اُنہوں نے مجھے گناہ ترک کرنے کی ہدایت کی
اور کہا ، جان لو ، کہ عِلم روشنی ہے
،،،،،، اور اللہ کی روشنی کسی گناہ گار کو نہیں دی جاتی ،
::::: اِمام ابن القیم الجوزی رحمہُ اللہ نے فرمایا ہے کہ
"""فرُبّ شخص أطلق بصره فحُرِّم اعتبار بصيرته، أو
لسانه فحَرَمهُ الله صفاء قلبه، أو آثر شبهة في مطعمه فأظلم سره، وحُرِّم قيام
الليل وحلاوة المناجاة::: پس عین ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے نظر کو آزاد کر
دے تو اُس کی بصیرت کا اعتبار ہی ختم کر دِیا جائے ، یا اپنی ز ُبان کو آزاد کر دے
تو اللہ اُس کے لیے اُس کے دِل کی صفائی
منع کر دے ، یا اپنے کھانے میں شبہے والی چیز شامل کر لے اور(اپنے اور اپنے رب
کے درمیان عبادت گذاری اور مناجات کے)کو اندھیر کر بیٹھے ، اور قیام اللیل ، اور
مناجات کی مِٹھاس اُس سے روک دِی جائے """،صید الخاطر /فصل حلاوة الطاعة وشؤم المعصية،
::::: اِمام ابن الجوزی رحمہُ اللہ نے ، یحیی بن معاذ
رحمہُ اللہ کا قول ذِکر کیا کہ """سَقُمَ الجسد
بالأوجاع وسَقُمَ القُلوب بالذنوب فكما لا يَجِد الجسد لَذة الطَّعام عِند سَقُمِه
فكذلك القلب لا يَجِد حَلاوة العِبادة مع الذنوب::: جِسم دردوں کے ذریعے بیمار پڑتا ہے ،
اور دِل گناہوں کے ذریعے بیمار پڑتا ہے ، پس جِس طرح جِسم بیماری کی حالت میں کھانے کی لذت نہیں
پاتا ، اِسی طرح دِل بھی گناہوں کی موجودگی میں عِبادت کی لذت نہیں پاتا """، ذم الھویٰ / الباب السادس
في ذكر ما يصدأ به القلب
:::(4) ::: خشوع و خضوع نہ ہونا ، یعنی اللہ کا ڈر اور اللہ
کے سامنے ذلت و رسوائی کا احساس نہ ہونا ،
اِس مُعاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال ، نماز پڑھنے والے
اور نماز قائم کرنے والے کی ، کہ بظاہر دونوں ایک ہی عِبادت کرتے ہیں ، اور ایک ہی
کیفیت میں کرتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں ، لیکن پہلے والے کی نماز ظاہری حرکات کے
علاوہ کچھ نہیں ہوتی ، اور دُوسرے والے کی دِل و دِماغ کی حاضری اور خشوع و خضوع
کے ساتھ ہوتی ہے ، پس پہلے والے کی نماز اُسکی زندگی اور شخصیت پر کئی اثر نہیں
رکھتی ، سب نمازیں پڑھتا ہے ، اور با جماعت ، پہلی صف میں کھڑا ہو کر پڑھتا ہے ،
لیکن بے حیائی اور بُرائی کرتا ہوا بھی دکھائی دیتا رہتا ہے ،
اور دُوسرے والے کے لیے اللہ کا یہ فرمان پورا ہوتا ہے کہ (((
إِنَّ الصَّلاۃَ تَنھَیٰ عَن الفَحشاءِ و
المُنکر ::: بے شک نمازبے حیائی
اور بُرائی سے منع کرتی ہے ))) سورت العنکبوت(29) / آیت 45،
یہ معاملہ صِرف نماز تک ہی محدود نہیں ، بلکہ ہر ایک عِبادت
کا یہی معاملہ ہے ، حج کو دیکھ لیجیے ، یہ
ایسی عِبادت ہے جو لاکھوں مُسلمانوں ادا
کرتے ہیں ، اور سب ہی مُسلما ن جانتے ہیں کہ اُن میں سے بھاری اکثریت ایسے لوگوں
کی ہوتی ہے جنہیں شاید زندگی میں دوبارہ
یہ عِبادت کرنے کا موقع نہیں ملتا ،
اور مسلمانوں میں کئی ایسے ہیں جو اُس عِبادت کو ادا کیے بغیر ہی
مر جاتے ہیں ،اور کئی ایسے بھی ہیں جو ہر سال یہ عبادت کرتے ہیں ، لیکن اِس کے باوجود اِس نادر عِبادت کو ادا کرنے کےلیے آنے والوں
کی حالت دیکھی جائے تو دِل رونے لگتا ہے ،کہ حج کی ادائیگی سے پہلے وہ کیا تھے ؟
اور حج کے دوران وہ کیا کرتے رہے ؟ اور حج کے بعد وہ کیا کرتے ہیں ؟
تابعین میں سے کچھ
بزرگان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اُنہوں نے اپنے زمانے میں حاجیوں کے
نئے نئے اور عجیب کام دیکھے تو فرمایا ’’’ الرُکب
کثیر و الحاج قَلیل :::( حج پر آنے
والےأونٹ )سواروں کے قافلے تو بہت زیادہ ہیں لیکن حاجی بہت کم ‘‘‘ ،
اِس بات کا عینی مشاہدہ اور ذاتی تجربہ حج کے موقع پر کیا
جا سکتا ہے ، کہ کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حج کر رہے ہوتے ہیں ، اور غلطیوں اور
کوتاہیوں کا ہی نہیں ، گناہوں اور نا فرمانیوں کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں ، اور اُن
میں سے بھی کئی تو جانتے بوجھتے ہوئے ، مذھب و مسلک ، جماعت و گروہ ، اپنے اختیار
کردہ امام، حضرت ، شیخ وغیرہ کے تعصب کی وجہ سے دُرُست کام یا بات کو رَد کرتے
ہیں یہ بھی حج کر رہے ہوتے ہیں ، اور وہ
بھی حج کر رہے ہوتے ہیں جِن کی نیت خالصتا ً اللہ کی رضا کا حصول اور طریقہ
ادائیگی عین سُنّت شریفہ کے مُطابق ہوتا
ہے ، اور وہ خود کو ہر گناہ اور نافرمانی بچانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں ،
پھر جب یہ سب حج
کرنے کے بعد واپس اپنی سابقہ زندگیوں اور معمولات میں پلٹتے ہیں تو پہلی قِسم
والوں میں سے کچھ کے ہاں حج کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ،اور چند کے ہاں ظاہری حلیے
میں داڑھی اور نام میں ’’’حاجی ‘‘‘ کے اضافے کے علاوہ حج کا کوئی اثر نظر نہیں
آتا ، اور چند ہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا ،
اور دُوسری قِسم کے لوگوں میں سب کے دِلوں کی دُنیا ہی بدل جاتی ہے جِس کے تمام تر آثار اُن کی ظاہری
زندگی میں نظر آتے ہیں ، اور یہ ہی اِس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اُنہوں نے یہ
عِبادت خلوص نیت سے کی ، اور اللہ سُبحانہُ و تعالٰی نے اُسے قبول فرمایا ، تو اُس کا اثر اُن کے
زندگیوں میں نظر آیا ، اورمزید اِن شاء اللہ اُن کی آخرت میں نظر آنے والا ہے ،
پس جو کوئی یہ چاہتا ہے کہ اُس کی ادا کردہ عِبادات کا اثر اُس کی زندگی میں نظر آئے تو وہ
اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی عِبادات میں مذکورہ بالا صفات اور کیفیات حاضر کرے
، اور ہر وقت ہر عمل سے پہلے اُن کی موجودگی کی تاکید کرتا رہے ، کہ جہاں اور جب
یہ صِفات اور کیفیات غائب ہوئی، وہیں اور تب ہی عِبادت صِرف عادت یا کچھ بھی اور
بن جاتی ہے ، عِبادت نہیں رہتی،
اللہ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے تمام اعمال
اُس کی رضا کے لیے کریں اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت
مُبارکہ کے عین مُطابق کریں۔
والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،
طلب گارء دُعاء ،
آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 24/05/1430ہجری،
بمُطابق ، 19/05/2009عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment