صفحات

Friday, July 14, 2017

:::::: سُنن الفِطرۃ ::: فِطرت کی سُنّتیں ::::::


::::::: سُنن الفِطرۃ ::: فِطرت کی سُنّتیں :::::::
بِسّمِ اللَّہِ و الصَّلاہُ و السَّلامُ علی رسولِ اللِّہ  الذی لم ینطق عن الھویٰ ، اِن ھو إِلّا وحیٌ یوحَی
شروع اللہ کے نام سے  اور (اللہ کی ) رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے رسول پر ، جو اپنی مرضی سے نہیں بولتے تھے بلکہ اُن کی طرف کی گئی وحی کے مُطابق کلام فرماتے تھے ۔
اور اُسی وحی کے مُطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِرشاد  فرمایا﴿خَمْسٌ مِنَ الْفِطرةِ - الْخِتَانُ ، وَالاِسْتِحْدَادُ ، وَنَتْفُ الإِبْطِ ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ ، وَقَصُّ الشَّارِبِ   ::: پانچ کام فِطرت میں سے ہیں (۱)  ختنہ کرنا  ، اور ، (۲) شرم گاہ کے اوپری حصے کے بال اُتارنا ، اور ، (۳) بغلوں کے بال اُکھیڑنا ، اور ، (۴)ناخن کُترنا (کاٹنا ) ، اور ، (۵)مُونچھیں کُترنا  ( کاٹنا ) [1]،
اِن شاء اللہ ، اِس مضمون میں اِختصار کے ساتھ اِس حدیث شریف  کی شرح بیان کی جائے گی ۔
:::::فِطرت کی سُنّت کا کیا معنی   ٰ ہے ؟ :::::
اِمام محمد بن علی الشوکانی رحمہ ُ اللہ نے نیل الأوطار / کتاب الطہارۃ / باب سُنن الفِطرۃ ، میں لکھا """فِطرت کی سُنّت سے مُراد ہے کہ یہ پانچ کام ایسے ہیں جِن کو کرنے والے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اُس فِطرت پر ہے جِس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بنایا ، اور اِسی لیے اللہ نے (اپنے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے ذریعے لوگوں کو)اِن کاموں کے کرنے کی ترغیب دِلائی اور اِن کاموں کو کرنا اُن کےلیے پسند فرمایا،تا کہ وہ مکمل (فِطرتی)صِفات اورصورت والے بنیں"""،
اور مزید لکھا کہ """ (إِمام )البیضاوی(رحمہُ اللہ)نے اِس حدیث میں بیان کیے گئے کاموں کو فِطرت کہنے کی شرح میں کہا،کہ ،  اِن کاموں کو فِطرت کہنے سے مُراد یہ ہے کہ یہ کام کرنا تمام تر نبیوں کی ہمیشہ سے سنّت رہی ہے ، اور اِن کاموں کا کرنا تمام شریعتوں میں مُقرر رہا ہے ، گویا کہ یہ ایسے کام ہیں جو اِنسان کی جبلت (فِطرت ،گُھٹی )میں ہیں"""،
::: (1)  الإِستحداد ،  شرم گاہ کے اوپری حصے  کے  بال اُتارنا :::  الأستحداد کا لفظی معنی  ٰ ہے ، لوہے کی دھاری دار چیز، چُھری، چاقو ، خنجر ،تلوار، اُسترے وغیرہ کی دھار کو تیز کروانا ،
اور اِسی مفہوم میں سے، ایسی کِسی دھار دار چیز کے ذریعے  بال مونڈھنے کے عمل کو""" استحداد""" کا نام دِیا گیا ہے کہ اِس کام کرنے کے لیے ایسی ہی دھار چیز ،  اُسترہ اِستعمال کیا جاتا تھا ،
::: ایک وضاحت :::  میں نے ترجمہ میں""" شرم گاہ کے اوپری حصے کے بال اُتارنا""" اِس لیے لکھا ہے کہ یہ بات بھی دُوسری أحادیث شریفہ  سے معلوم ہوتی ہے کہ جِسم کی کونسی جگہ سے بال مونڈھنے کا حُکم دِیا گیا ہے ،
جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نےاِرشاد فرمایا﴿عَشرٌ مَن الفِطرۃِ ، قَصُّ الشَارِبِ ،و إِعفاءُ اللحِیۃِ ،و السِّواکُ ، و اِستَنشَاق ُ الماءُ ،و قَصُّ الأظَافرِ ، و غَسلُ البَراجِمِ ،و نَتف ُ الإِبطِ ، و حَلق ُ العَانۃِ ،، و اِنتقاصُ الماءِ ::: دس(کام)فِطرت میں سے ہیں (۱)مُونچھیں کُترنا (۲)داڑھی کو (کاٹنے کُترنے سے )معاف رکھنا (۳)مسواک کرنا (۴) ناک صاف کرنے کے لیے ناک میں پانی چڑھا کر اُسے واپس نکالنا(۵)ناخُن کاٹنا (۶) (ہاتھ اور پیر کی) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا (۷)بغلوں کے بال اُکھیڑنا (۸) العانہ (ناف کے نیچے شرم گاہ کے اِرد گرد والے حصے )کے بال مونڈھنا (۹) شرم گاہ کو دھونا  [2]،
و قال زِکریا ، قال مصعب ، نسیتُ العاشرہ الا ان تکون﴿ المضمضۃِ ،
زکریا (حدیث کے ایک راوی) کا کہنا ہے کہ ، مُصعب(ایک دُوسرے راوی) کا کہنا ہے کہ وہ دسویں چیز بھول گئے ہیں لیکن اُمید کرتے ہیں کہ وہ دسویں چیز ﴿خوب اچھی طرح سے کُلی کرنا ہو گی ۔[3] ،
دُوسری روایت عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے فرمایا ﴿مِن الفِطرۃِ حَلق ُ العَانَۃِ ، و تَقلیِمُ الأظفارِ ، و قَصُّ الشَّارِبِ ::: شرم گاہ کے اِرد گِرد سے بال مونڈھنا ، اور ناخُن کاٹنا ، اور مُونچھیں کاٹنا فِطرت میں سے ہیں[4]،
"""إِستحداد """ سے مُراد """ شرم گاہ کے اوپری حصے کے  بال اُتارنا """ کی وضاحت  أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کی ایک اور روایت  میں بھی ہے ، جِس کا ذِکر اِن شاء اللہ ابھی""" ختنہ""" کے عنوان میں  کِیا جائے گا،
یہاں اِس بات کا ذِکر کرنا انتہائی مُناسب لگتا ہے کہ ہمارے ماحول میں عام طور پر بڑے عجیب و غریب فتوے پائے جاتے ہیں ، اور اُن فتووں کی سچائی کے ثبوت پر اُن سے بڑھ کر عجیب و غریب واقعات سُنائے جاتے ہیں ،  اور ایسے فتوؤں میں سے چند اِس موضوع سے متعلق بھی ہیں، جِن کا لُبِ لُباب یہ ہے کہ عورت اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنے کے لیے لوہا اِستعمال نہیں کرے گی اور اگر ایسا کیا تو اُس پر اتنا اتنا گُناہ ہے ،ا ور اُس کی یہ یہ سزا ہے ،
جب کہ اوپر بیان کی گئی حدیث میں صاف طور پرتیز دھار أوزار اِستعمال کرنے کا ذِکر ہے اور عورت اور مرد کے لیے کوئی فرق نہیں،
یوں بھی شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جو یہ نہ سمجھتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اور صحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین اور زمانوں میں ، اور اُن کے بعد بھی صدیوں تک بال صاف کرنے کے لیے آج جیسی چیزیں نہ تِھیں ،
اور خواتین اور مرد سب ہی اپنے بال صاف کرنے کے لیے لوہے کے بنے ہوئے اوزار اِستعمال کرتے تھے ، پلاسٹک بلیڈز یا ریزرز ( پلاسٹک کے چاقو یا اُسترے ) میسر تھے ، اور نہ ہی ہیر ریمونگ کریمز یا لیکوڈز (بال اُتارنے والے معجون یا تیل وغیرہ )، جی ہاں کچھ عجمی معاشروں میں اِس قِسم کےسفوف ( پاوڈرز) کا ذِکر ملتا ہے ، لیکن بلا شک و شبہ اُس کا کوئی رواج عرب معاشرے میں نہ تھا ،  لہذا اِس قِسم کے فتوؤں اور قصے کہانیوں کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ،  
چلتے چلتے یہ حدیث شریف بھی پڑھتے چلیے ، یہ حدیث شریف آپ کو  اِن مذکورہ بالا بے بنیاد خود ساختہ فتووں کی حقیقت  جاننے میں اِن شاء اللہ مدد دے گی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک سفر سے واپسی کے وقت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اِرشاد فرمایا ﴿إِذَا دَخَلْتَ لَيْلاً فَلاَ تَدْخُلْ عَلَى أَهْلِكَ حَتَّى تَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ وَتَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ  :::اگر تم رات کے وقت پہنچو تو اپنے گھر والوں کے پاس (ایک دم ) داخل مت ہو ، یہاں تک کہ جِس عورت کا خاوند غائب تھا وہ اپنے زیر ناف بال مُونڈھ لے ،  اور جس کے سر کے بال  بکھرے ہوں وہ  کنگھی کر لے    [5]،
اِس حدیث شریف سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ عورت اپنے جسم کے بال کاٹنے یا مونڈھنے کے لیے کِسی دھات کا کوئی دھار دار اوزار اِستعمال کر سکتی ہے ، ایسا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ۔
::: (2) ختنہ کروانا ::: یہ کام بھی مردوں اور عورتوں کے لیے مُشترکہ ہے ، گو کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں کاختنہ تقریباً بالکل غیر معروف چیز ہے لیکن عرب معاشرے میں یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے زمانے سے پہلے بھی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِسے فِطرت کی سُنّتوں میں شامل قرار دے کر بر قرار رکھا ، اور آج تک عرب معاشرے میں اِس پر عمل کیا جاتا ہے ، اِس کی تفصیل کا میں یہاں ذِکرنہیں کر رہا ، صِرف ایک حدیث ذِکر کرتا ہوں جو اِس بات کی دلیل ہے کہ بچیوں کا ختنہ کیا جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم   کے زمانے میں معروف تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِسے برقرار رکھا ، لہذا ختنہ کرنے اور کروانے میں بچے یا بچی کی کوئی تخصیص نہیں ، یعنی ،ایسا نہیں ہے کہ ختنہ صِرف لڑکوں کا ہی کیا جا ئے گا ،
 أنس ابن مالک رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا  ﴿   إِذا خَفَضتِ فَأَشِمَّی ، و لا تَنھِکِی ، فَإِنَّہ ُ أسرَی لِلوجہِ و أحظَیٰ لِلزوج ::: جب تُم ختنہ کرو تو جِلد تھوڑی سی چھیل دو بالکل کاٹو نہیں، ایسا کرنا (یعنی چھیلنا ، لڑکی کے ) چہرے کے لیے رونق اور اُسکے خاوند کے لیے لطف کاسبب ہے   [6]،
::: (3) مُونچھیں کاٹنا یا کُترنا ::: بڑی اور لمبی مُونچھیں جِنہیں کافروں اور مُشرکوں کے نقالی کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفوں کا شِکار بن کر ’’’ مردانگی کی عِلامت ‘‘‘ سمجھا جاتا ہے ، فِطرت کی بھی خِلاف ورزی ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے حُکم ﴿ انْهَكُوا الشَّوَارِبَ ، وَأَعْفُوا اللِّحَى:::مُونچھوں کو ہلکا کرو، اور داڑھیوں کو معاف کرو [7] ،     
اور  یہ اِرشاد فرمایا ﴿أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى::: مُونچھوں کو ہلکا کرو اور داڑھیوں کو (مونڈھنے ، کُترنے سے )  معاف رکھو      [8]   ،   ٭٭٭ ،
اِسی طرح مُونچھوں کوبالکل مونڈھ دینا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے اِس حُکم کی ، اور راویِ حدیث صحابی کی سُنّت کی ، اور سُنّتِ فِطرت کی خِلاف ورزی ہے ۔
٭٭٭ اِس حدیث شریف کے راوی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما ہیں اور یہ حدیث مُبارک  صحیح مُسلم /کتاب الطہارۃ /باب 16خِصال الفِطرۃ میں ہے ، اور صحیح البُخاری/ کتاب اللباس/باب63 قُص الشارب ، میں اِمام البُخاری رحمہ ُ اللہ نے تعلیقاً روایت کیا کہ""" ابن عُمراپنی مُونچھیں اتنی ہلکی کرتے تھے کہ نیچے سے جِلد کی سُفیدی دِکھائی دیتی تھی اور مُونچھوں اور داڑھی کے درمیانی حصے سے بھی بال اُتارتے تھے"""،
 اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """سلسلہ الأحادیث الموضوعہ و الضعیفہ، حدیث 4056"""کی تخریج کے آخر میں لکھا """(اِمام)الطحاوی نے (شرح المعانی میں )اِس أثر (یعنی عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے اِس فعل )کو مُختلف سندوں سے روایت کیا ، جِن میں سے کچھ صحیح ہیں"""۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے کِسی حُکم کی سب سے بہترین شرح خُود اُن کے اپنے عمل یا فعل سے ملتی ہے اُس کے بعدصحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل سے اور اُن میں سے  بھی خاص طور پر حدیث روایت کرنے والے صحابی  رضی اللہ عنہ ُ کے قول و فعل سے ، لہذا عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے حُکم کی سب سے بہترین عملی تشریح ہے ،
مُونچھیں کترنے اور کاٹنے کے بارے میں مزید تفصیل الحمد میری کتاب """وہ ہم میں سے نہیں """ میں """چودھواں کام / مُونچھیں چھوٹی نہ کرنا """ کے  زیر عنوان بیان کی گئی ہے ،
اِس کتاب کے آن لائن مطالعہ  اور اِس کا برقی نسخہ نازل کرنے کے لیے درج ذیل ربط کی زیارت فرمایے :
::: (4) بغلوں کے بال اُکھیڑنا :::  اِس مضمون کے پہلے صفحے میں نقل کی گئی پہلی اور دُوسری حدیث میں بغلوں کے بال اُکھیڑنے کا ذِکر ہے ، اِمام النووی رحمہُ اللہ نے پہلی حدیث کی شرح میں لکھا :::
"""بغلوں کے بال اُکھیڑنا گو کہ تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن یہ ہی سُنّت ہے ، اگر کِسی سے برداشت نہ ہو سکے تو وہ اُسترے سے بغلوں کے بال مُونڈھ سکتا ہے یا سفوف اِستعمال کر کے اُنہیں اُتار سکتا ہے """  [9] ،
لہذا اگر کوئی مَرد یا عورت اپنی بغلوں کے بال اکھیڑ کر صاف کرنے کی بجائے کوئی سفوف(پاؤڈر) کوئی مرہم (کریم یا پیسٹ )،  کوئی دھار دار اوزار (اُسترا ، سیفٹی ریزر  وغیرہ )، یا  کوئی خود کار آلہ (الیکٹرک ریزر ، یا شیور وغیرہ ) اِستعمال کرے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ۔
::: (5) ناخُن کاٹنا ::: ناخُن کاٹنے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے فِطرت کی سُنّتوں میں شُمار فرمایا ہے ، اور ناخن کاٹنے کے لیے کِسی خاص اوزار کی کوئی پابندی ذِکر نہیں فرمائی گئی ۔
:::::  اِن کاموں کوزیادہ سے زیادہ کتنی دیر بعد کرلینا چاہیے ؟  :::::
أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے
﴿ وُقِّتَ لَنَا فِى قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمِ الأَظْفَارِ وَنَتْفِ الإِبْطِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ أَنْ لاَ نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً::: ہمارے لیے مُقرر کر دِیا گیا کہ ہم مُونچھیں کُترنے ، اور ناخن کاٹنے  اور بغلوں کے بال اُکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈھنے میں چالیس راتوں سے زیادہ دیر نہ کریں [10]   ،  
اِس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جِن کاموں کو فِطرت کی سُنّتوں میں شُمار فرمایا ہے اُن میں سے یہ پانچ کام ایسے ہیں جِن کو کرنے میں زیادہ سے زیادہ چالیس دِن کی چُھوٹ دِی گئی ہے ، یعنی اِن کاموں کو چالیس دِن سے زیادہ دیر تک نہ کرنا ناجائز ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے ۔
آخر میں قارئین کی توجہ ایک بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی بیان کئی گئی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے جو کام بتائے ہیں اُنہیں""" فِطرت کی سُنّتوں میں سے """ قرار فرمایا ہے ،
جِس کا مطلب ہے کہ صِرف یہ ہی فِطرت کی سُنّتیں نہیں ہیں ، لیکن یہ وہ ہیں جِن کو ہمارے لیے برقرار رکھا گیا ہے ، اور جو کوئی اِن کے عِلاوہ ہیں اُن کا ہمیں بتایا نہیں گیا ، پس کِسی کام کو اپنے طور پر فِطرت کی سُنّت سمجھ لینا اور اُس پر عمل کرنے کی کوئی گُنجائش نہیں ،
اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ کِسی ممنوع کام کو کھینچ تان کر سُنّتِ فِطرت بنا کر وہ کام  کرنے کا جواز بنایا جائے گویا کہ اللہ تعالیٰ  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  سے بڑھ کر عِلم اور دانائی والا ہونے کا عملی دعویٰ کیا جارہا ہے ،
یہ بات کہنے کا سبب کُچھ لوگوں کی ایک فلسفیانہ دلیل ہے جو وہ اپنے چہرے کا حُلیہ بگاڑنے یعنی داڑھی مونڈھنے یا کترنے کے لیے پیش کرتے ہیں ، اور وہ یہ کہ ، اللہ تعالیٰ نے ہر اِنسان کو فِطرت پر بنایا ہے اور پیدائش کے وقت اِنسان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے ، لہذا اِن بالوں کوصاف کرنا عین فِطرتی معاملہ ہے بلکہ فِطرت کی سُنّت پر عمل ہے ،
اِسی قِسم کے گمراہ فلسفے کے شِکار ایک صاحب ایک عالِم کے سامنے اپنے فلسفے کا اِظہار فرما رہے تھے ، عالِم خاموشی سے اُن کی لاف و گزاف سُنتے رہے ، اور وہ صاحب سمجھے کہ اُن کے فلسفے نے عالِم کو خاموش کر دِیا ہے اور وہ جواب دینے کے قابل نہیں ،
تو بڑے فخر اور تکبر کے ساتھ اُس عالِم کو مخاطب کر کے کہا ’’’ جی ، حضرت آپ ہماری اِس فِطری بات کا کوئی جواب  دے سکتے ہیں ؟‘‘‘،
 عالِم صاحب یہ جان چُکے تھے کہ یہ بیوقوف شخص اور اِس کے فلسفے سے مُتاثر دُوسرے اِس جیسے لوگ قُران اور سُنّت کی بات کو عقل اور فلسفے پر پرکھنے والے ہیں ، لہذا پہلے اِنہیں عقل اور فلسفے سے  اُنکے فلسفے کا جادو توڑا جائے اور پھر قُران و سُنّت کا بیان ہو ،
 تو عالِم صاحب نے جواب دِیا  ’’’ میں آپ کی بات سے فی الحال اِتفاق کرتا ہوں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ  کے حُکم سے جب اِنسان کی پیدائش ہوتی ہے تو وہ فِطرت کی حالت پر ہوتا ہے ، قطع نظر اِس کے کہ فِطرت سے کیا مُراد ہے ، آپ کی بات کے مُطابق مان لیتے ہیں کہ چونکہ اُس فِطری حالت میں اِنسان کے چہرے پر داڑھی نہیں ہوتی لہذا داڑھی مونڈھنا فِطری عمل ہے ، اور اب اُس پیدائش کے وقت کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں آپ کے فلسفے زدہ سر پر اتنے جوتے برساؤں کہ آپ کے بال اُسی طرح بہت تھوڑے اور ہلکے ہو جائیں جیسا کہ پیدائش کے وقت تھے ، کیونکہ اگر اُسترے سے مونڈھے جائیں گے تو پھر فِطری حالت میں تو نہیں آ سکیں گے ،  اور صِرف اِس وقت نہیں بلکہ وقتا   ً فوقتا   ًجب بھی آپ کے بال آپ کے فلسفے کی مقرر کردہ فِطری حالت سے خارج ہونے لگیں ،میں آپ کی یہ خدمت کرنے کے لیے  ہمہ وقت تیار ہوں ، 
اور پیدائش کے وقت اِنسان کے دانت بھی نہیں ہوتے ، لہذا آپ کے فلسفے کے پر عمل کرتے ہوئے میں آپ کے دانت توڑنا بھی خوش نصیبی سمجھوں گا ،
اور پیدائش کے وقت اِنسان بات کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا لہذا آپ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ، میں اپنے خرچے پر آپ کے لیے کِسی ایسے جراح طبیب ( سرجن) کا اِنتظام بھی کروا سکتا ہوں جو آپ کی ز ُبان کے وہ پٹھے ( مسلز ) بے حس کر دے جو بات کرنے کے لیے ز ُبان کو حرکت میں لاتے ہیں ، اور پیدائش کے وقت چونکہ اِنسان ،،،،،
 ابھی عالِم صاحب کی بات جاری تھی کہ وہ صاحب چیخ اُٹھے ’’’ بس بس جناب ، میں سمجھ گیا کہ میری سوچ ٹھیک نہیں تھی ، آپ ہمیں تفصیل سے سمجھائیے کہ ہمیں ایک اچھے مُسلمان کی حیثیت سے کیا کرنا چاہیے‘‘‘ ،
عالِم صاحب اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مجلس میں موجود سب صاحبان کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی بلا مشروط اور عقل و فلسفے کی زد میں لائے بغیر اطاعت اور تابع فرمانی کا درس دینے لگے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم حق کو پہچان سکیں اور کِسی شرم ، بُزدِلی ، مجبوری کا شِکار ہوئے بغیر اُس کو مانیں اور اُس پر عمل کریں اور اُس کی دعوت ہر ایک تک پہنچائیں، اور اللہ تعالیٰ ہمارے نیک عملوں کو قُبُول فرمائے اور گناہوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگُزر فرمائے اور ہمارے خاتمے اِیمان پر فرمائے ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃ ُ اللہ و برکاتہ ُ ، طلباگارِ دُعا ، آپ کا بھائی، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت  :::20/07/2007ہجری، بمُطابق ، 06/07/1428عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر موجود ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]   صحیح بخاری /حدیث  /5889کتاب اللباس /باب 63قَصِّ الشَّارِبِ، صحیح مُسلم /حدیث  /620کتاب الطھارۃ    /باب 16 خِصَالِ الْفِطرةِ، اِس کے عِلاوہ یہ حدیث شریف سُنن اربعہ یعنی سُنن الترمذی ، سُنن النسائی ، سُنن ابن ماجہ ، سُنن ابو داؤد ، اور ، صحیح ابن حبان ، مؤطا مالک اور مُسند احمد میں  بھی مروی ہے ۔

[2]         یعنی پانی سے استنجاء کرنا، اورایک دُوسری روایت جو کہ سُنن ابن ماجہ میں ہے ، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح الجامع الصغیر ، حدیث ۴۶۹۵ میں صحیح قرار دِیا ہے کی بُنیاد پر کہا گیا کہ اِس سے مُراد وضوء کے بعد شرم گاہ کو پانی سے دھونا ہے تا کہ پلیدگی کا کوئی وسوسہ نہ رہے۔
[3]        صحیح مُسلم ، حدیث 627 / کتاب الطہارۃ /باب 16خِصال الفِطرۃ ۔
[4]   صحیح البُخاری /حدیث 5790/کتاب اللباس /باب24۔
[5]    صحیح البُخاری /حدیث 5246/کتاب النکاح  /باب121 طَلَبِ الْوَلَدِ ، اِس سے اگلے باب میں بھی یہ حدیث شریف کچھ مختلف الفاظ میں مروی ہے ، اور  صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ   کے آخری باب میں بھی ۔
[6]    سلسلہ الأحادیث الصحیحہ ، حدیث 822 ۔
[7]    صحیح بخاری/حدیث 5893/کتاب اللباس/باب65باب إِعْفَاءِ اللِّحَى ۔
[8]    صحیح مُسلم/حدیث623/کتاب الطہارۃ /باب16 خِصال الفِطرۃ ،
[9]    شرح النووی علیٰ صحیح مُسلم ، کتاب الطہارۃ /باب 16خِصال الفِطرۃ ۔
[10]    صحیح مُسلم/حدیث 622/کتاب الطہارۃ /باب16 خِصال الفِطرۃ ، مُسند أحمد ، سُنن ابن ماجہ ، سُنن الترمذی ، سُنن النسائی ، سُنن أبو داؤد ۔

No comments:

Post a Comment