::: اِستقامت :::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدُہٗ وَ نَستَعِینُہٗ وَ نَستَغفِرُہٗ وَ نَعَوُذُ
بَاللَّہِ مِن شُرُورِ أنفُسِنَا
وَ مَن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہ ُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ ،
وَ أشھَدُ أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ
ُ وَحدَہ ُ لا شَرِیک لَہ ُ ، وَ أشھَدْ أنَّ مُحمَداً عَبدہٗ
وَ رَسُولُہ ُ ۔ أ مَا بَعدُ :::
بے
شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب
کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں
اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے
اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے
کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی
سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ
بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ، اور اِس کے بعد ،
السلام علیکم
ورحمۃ اللہ و برکاتہ،"""
اللہ سُبحانہ ُو
تعالیٰ نے قران الکریم میں """
اِستقامت """ کا بارہا ذِکر فرمایا ہے اور مختلف انداز میں فرمایا ہے ،
:::::
کہیں اِس کو اختیار کرنے والوں کی تعریف فرماتے اور اِس کو اپنانے کا نتیجہ
بتاتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ استَقَامُوا فَلَا
خَوفٌ عَلَیہِم وَلَا ھُم یَحزَنُونَ ::: بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ
ہے اور پھر (اس بات پر ) مظبوطی سے قائم رہے تو ان لوگوں کو (دُنیا میں ) کوئی خوف
نہ ہو گا اور نہ ہی (آخرت میں )اُنہیں کوئی دُکھ ہو گا ﴾ سورت الأحقاف / آیت 13،
::::: اور کہیں اِسے اپنانے
کا حُکم فرمایا ﴿ فَاستَقِم کَمَا أُمِرتَ
وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطغَوا إِنَّہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ:::ااور
(اے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) جِس طرح آپ کو حُکم کیا گیا آپ اُسی طرح اِستقامت اختیار فرمایے اور وہ لوگ بھی
جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کی اور تُم لوگ
نافرمانی مت کرنا بے شک تُم لوگ جو کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ سورت ھُود / آیت 112،
::::: اور صِرف رسول کریم
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہی نہیں ، بلکہ اُن صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم سے پہلے والے انبیاء اور رُسل کو بھی اِس کا حکم فرمایا ﴿ شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ أَنْ
أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا ،،،،،،،،،،،،،، فَلِذَلِكَ
فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ::: آپ کے لیے (اے
محمد ، ہم نے ) وہی دِین مقرر کیا جس کا حکم ہم نے نوح کو دِیا تھا اور ہم نے آپ کی طرف وحی اُسی راستہ کی طرف بلانے والی بھیجی ہے (جِس راستے پر ہم نے نوح کو
بلایا ) اور ہم نے یہی حکم اِبراھیم
اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دِیا تھا کہ اِسی دِین پر قائم رہو اور اِس میں پھوٹ نہ
ڈالنا ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،لہذا ، آپ (بھی
) اِسی دِین کی طرف بلایے، اور( اِسی پر )قائم
رہیے، جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ﴾سُورت الشُوریٰ (42)/آیت13
تا 15 ،
::::: اور کہیں اِس کا دُنیاوی
فائدہ بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ وَأَلَّوِ استَقَامُوا عَلَی الطَّرِیقَۃِ لَأَسقَینَاھُم مَّاء غَدَقاً ::: (اے نبی
آپ فرما دیجیے کہ ) اور اگر یہ لوگ دِین اِسلام پر اِستقامت اختیار کرتے تو ہم انہیں وافر مقدار میں
پانی عطا کرتے ﴾ سورت الجن / آیت 16 ،
::::: اور کہیں اِس ’’’ اِستقامت ‘‘‘ پر قائم رہنے
کی دُعا کرنے کی تعلیم عنایت فرمائی کہ ﴿ اھدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِیم ::: (اے ہمارے اللہ ) ہمیں اِستقامت
والا راستہ عطا فرما ﴾ سورت الفاتحہ / آیت 6 ،
اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی ’’’اِستقامت ‘‘‘ کا حُکم
فرمایا ،
جیسا کہ سفیان بن
عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ ُ ُ نے جب یہ درخواست کی کہ ’’’’ اے رسول اللہ میرے لیے
اِسلام کی کوئی ایسی بات فرما دیجیے جس کے بارے میں آپ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے ‘‘‘،
تو اِرشاد فرمایا ﴿ قُل آمنت ُ باللَّہِ فاستَقِم ::: کہو میں
اللہ پر اِیمان لایا(اور بس) پھر اُس پر مضبوطی
سے جم جاؤ﴾صحیح مُسلم / حدیث 38 / باب 13،
سُبحان اللہ ، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے اِس اِرشاد مُبارک میں اِسلام کے گویا
تمام معاملات کو سمو دیا ہے ، کیونکہ اِسلام
اللہ پر اِیمان اور اِس اِیمان کے مُطابق اللہ کے احکام پر عمل کا مجموعہ ہے ،
اللہ پر اِیمان کے تمام پہلو ﴿ آمنت ُ باللَّہِ ::: میں اللہ
پر اِیمان لایا ﴾ میں ذِکر فرمائے اوراِس اِیمان پر عمل کے تمام پہلو ﴿ فاستَقِم ::: (اور بس) پھر اُس پر مضبوطی
سے جم جاؤ ﴾ میں بیان فرمائے ،
::::::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان
ہے کہ:::
’’’ خَطَّ لنا رسول اللَّہِ
صَلّی اللّہ عَلِیہِ و عَلی آلہِ وسلّم یَومًا خَطًّا ثُمَّ قال ﴿ ھذا سَبِیلُ اللَّہِ ﴾ ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عن یَمِینِہِ وَعَن شِمَالِہِ ثُمَّ قال ﴿ ھَذہِ سُبُلٌ عَلٰی کل سَبِیلٍ مِنہا شَیطَانٌ یَدعُو إلیہ ﴾
ثُمَّ تَلَا ﴿ وأنَّ ھَذا صِراطی مُستقِیماً فاتبعُوہُ ولا تَتبِعُوا السُّبلَ فتَفرَق
َ بِکُم عَن سَبِیلِہ ِ ﴾
::: ترجمہ ::: ایک دن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (زمین پر ) ہمارے لیے ایک لکیر بنائی اور پھر اِرشاد
فرمایا ﴿ یہ اللہ کا راستہ ہے ﴾ پھر اُس لکیر کے
دائیں اور بائیں کئی اور لکیریں بنائیں اور اِرشاد فرمایا ﴿ یہ وہ راستے
ہیں جن میں ہر ایک راستے پر شیطان (کھڑا ہے اور ) اپنی طرف بُلا رہا ہے ﴾ اور پھر
(یہ آیت پاک) تلاوت فرمائی ﴿ اور یہ میرا صاف
اِستقامت والا راستہ ہے لہذا اِس پر ہی چلو اور (اِدہر اُدھر والے) دوسرے راستوں کو
مت اختیار کرو ورنہ شیطان تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے دُور لے جائے گا ﴾ سُنن الدارمی /حدیث202/باب 23 ، اور سُنن
ابن ماجہ /حدیث 11 میں یہ حدیث جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، دونوں
روایات صحیح ہیں،
::: اِستقامت کا مفہوم :::
آگے چلنے سے پہلے
یہ وضاحت ضروری سمجھتاہوں کہ یہاں ہم ’’’ اِستقامت ‘‘‘ کا معنی یا مفہوم لغوی طور پر
نہیں سمجھ رہے بلکہ کتاب اللہ اور سُنت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کے مُطابق ’’’ اِستقامت ‘‘‘ کا مفہوم سمجھ رہے ہیں ، أئمہ کرام رحمہم اللہ نے ’’’ اِستقامت ‘‘‘ کا
مفہوم مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے
، جِن سب کو اگر ایک قول میں تلاش
کیا جائے تو ، اِمام ابو الفرج عبدالرحمن بن رجب رحمہُ اللہ کے
اِس قول میں ملتا ہے کہ :::
""" هي
سلوكُ الصِّراط المستقيم، وهو الدِّينُ القيِّم من غير تعريج عنه يَمنةً ولا
يَسرةً، ويشمل ذلك فعلَ الطَّاعات كلّها، الظاهرة والباطنة، وتركَ المنهيات
كُلِّها كذلك::: اِستقامت کا مفہوم ہے کہ اُس واضح راستے پر ، مضبوطی کے ساتھ
سیدھا سیدھا دائیں بائیں مڑے یا کِسی بھی
طرف مائل ہوئے بغیر چلا جائے اور وہ راستہ (اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
کی طرف سے ) قائم شدہ دِین ہے ، اور اِس دِین میں (اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم کی طرف سے حکم کیے گئے) ہرکام کو ظاہری اور باطنی طور پرکرنا اور اِسی طرح ہر اُس کام سے باز رہنا شامل ہے جس سے منع کیا گیا
"""،
تو ’’’ اِستقامت ‘‘‘ کا مفہوم ہوا ، حسب استطاعت ہر ایک کام اللہ کے
احکام کے مُطابق کرنا ، یا اللہ کے احکام کے مُطابق کِسی کام کو کرنے سے باز رہنا
،
اور یہ کہ ’’’
اِستقامت ‘‘‘ نیتوں ، حالتوں ، باتوں ، کاموں
، سب سے تعلق رکھتی ہے ، اور سب میں مُوجود یا غیر مُوجود ہو سکتی ہے ،
پس ’’’ اِستقامت
‘‘‘ کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ہوتا ہے اور اللہ پاک کے عِلاوہ کے لیے بھی ، لہذا کسی عمل میں ’’’ اِستقامت
‘‘‘ کا مُوجود ہونا خوبی اِس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب
وہ عمل جائز ہو ،
اور اس ’’’ اِستقامت ‘‘‘ کا آخرت
میں فائدہ صِرف اُسی صُورت میں ہو گا جب وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اختیار کی گئی
ہو ، جیسا کہ کسی بھی کام کے ذریعے آخرت کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ کام صِرف اور صِرف اللہ تعالٰی کی خاطر
کیا جائے ، اللہ پاک کی رضا پانے کی نیّت سے کیا جائے ،
پس جس کو اللہ تعالیٰ
نے دُنیا میں صراط ءِ مستقیم یعنی اللہ کے دِین ا ِسلام پر اِستقامت عطاء فرمائی اُس
کو آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اِس اِستقامت والے راستے پر قائم فرمائے گا جو اللہ کی
رضا اور اُس کے ثواب کے ابدی ٹھکانے جنت تک پہنچانے والا ہے ، اور جس قدر مضبوطی سے
کوئی بندہ اِس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کے نازل
کردہ صراط ءِ مُستقیم یعنی دِین اِسلام پر
کاربند رہا ہوگا اُسی قدر اللہ تعالیٰ اُسے آخرت میں جہنم پر نصب کیے ہوئے پُل صراط
پر مضبوط قدم رکھے گا اور جس چال سے دُنیا میں کوئی بندہ اللہ کی نازل کردہ صراطءِ
مُستقیم پر چلا ہو گا اللہ تعالیٰ اُسے پُل صراط پر ویسی ہی چال چلنے کی توفیق دے گا
،
پس ہر شخص یہ دیکھے
کہ وہ دُنیا میں اللہ کی نازل کردہ صراطءِ مُستقیم یعنی اُس کے دِین اِسلام پر کیسی چال چل رہا ہے ، کہاں کہاں ٹھوکریں کھا رہا
ہے ؟؟؟
اور کس کس طرف مائل
ہو رہا ہے ؟؟؟
قران کریم اور صحیح چابت شُدہ سُنّت شریفہ کی صاف ستھری سیدھی راہ کو چھوڑ کر کس کس فلسفے منطق
عقل و شعور کی ٹیڑھ پر گامزن ہے ؟ ؟؟
اللہ
تعالیٰ کے فرامین کو ، اللہ تعالیٰ کے
احکام کو اللہ تعالیٰ ہی مقرر کردہ کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتا ہے ، یا لوگوں کی
آراء کے مُطابق ؟ ؟؟
پس، ہر اُس شخص کو
، جو خود کو مُسلمان اور صاحبء اِیمان سمجھتا ہے ، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی طرح اُس حقیقت کو سمجھ لے کہ اللہ
کی نازل کردہ صراطء مُستقیم ، اللہ کا دِین اِسلام ہے اور وہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ سُنّت مُبارکہ میں محدود ہے ،
اوراِن دونوں مصادر کو حق طور پر
جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ صحابہ رضی اللہ
عنہم اجمعین کی جماعت ہے ، نہ کہ لوگوں کی آراء میں ، اور نہ ہی قصے
کہانیوں میں ، اور نہ ہی خوابوں اور نام نہاد الہامات اور کشوفات میں ،
پس ، جو کوئی اللہ تعالیٰ کی کتاب قران کریم ، اور اللہ کے
رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ سُنّت ، اور صحابہ رضی
اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے فہم کے عِلاوہ کچھ اپنائے ہوئے ہے وہ جہنم کے کانٹوں
میں اٹکا ہوا ہے خواہ یہ سوچے رہے کہ وہ صراط ء مُستقیم پر گامزن ہے لیکن جلد ہی یہ
کانٹے اُسے وہاں کھینچ لے جائیں گے جہاں اُن کی اَساس ہے ، اللہ ہم سب کو ہر بے راہروی
سے محفوظ رکھے ،
::: اِستقامت بُنیادی طور پر کہاں
پائی جاتی ہے ؟ :::
أنس رضی اللہ عنہ
ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ لا یستقیمُ اِیمان ُ عبدٍ حتیٰ
یستقیمُ قَلبُہ ُ ، ولا یستقیمُ قلبُہ ُحتیٰ یستقیمُ لِسانُہ ُ ::: کِسی
کا اِیمان اُس وقت تک دُرُستگی کے ساتھ مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا دِل دُرُستگی
کے ساتھ مضبوط نہ ہو ، اور کِسی کا دِل اُسوقت تک دُرُستگی کے ساتھ مضبوط نہیں ہو سکتا
جب تک اُس کی ز ُبان دُرُستگی کے ساتھ مضبوط نہ ہو ﴾ مُسند أحمد /حدیث13079،
پس رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس مذکورہ بالا فرمان کے مُطابق اِستقامت کی اصل بنیاد دِل میں ہوتی
ہے اور دِل کی اِستقامت کے مُطابق ہی اِنسان
کسی عمل پر مستقیم رہتا ہے ، اِس طرح اِس کے اقوال و اعمال میں پائی جانے والی اِستقامت
اِس کے دل میں پائی جانے والی اِستقامت کا
بہترین آئینہ ہے ، جس کا دِل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی
محبت پر جتنی اِستقامت رکھتا ہو گا اُتنا ہی اُس کا جسم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں مشغول رہے گا اور یہ تابع فرمانی اس کے ظاہری اور باطنی أقوال و أفعال
میں واضح ہو گی ،دِل کی اِستقامت کا حال یوں تو سارے ہی جسم سے ظاہر ہوتا ہے لیکن ز
ُبان اِس میں سب سے زیادہ اہم مُخبر ہے جو دِل کے احوال بتاتی ہے ، اِسی چیز کو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مندرجہ بالا حدیث میں بیان فرمایا،
[[[الحمد للہ ، ز
ُبان کے اِستعمال کے بارے میں ایک مضمون ’’’ بات ہی
تو ہے : ::
http://bit.ly/1dBpp65 ‘‘‘ کافی عرصہ
پہلے نشر کیا جا چکا ہے ]]] ،
جس قدر کسی بندے
کی محبت اِلہی، اللہ کے خوف اور جلالت کی پہرہ
داری میں مستقیم ہو گی اُسی قدر اسکے أقوال و أعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کا مُحتاط ترین طورپر دُرست ترین اندازلیے ہوں
گے ،
پس اُس کا دِل اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلاوہ کسی
اور کی طرف مائل نہ ہو گا ، نہ اُس سے دُعا کرنے کے لیے ، نہ اُس سے نفع و نقصان کی
امیدیں رکھنے کے لیے اور نہ ہی کسی بھی طور
اُس کی عبادت کرنے کے لیے ، نہ ہی اللہ کی مخالفت میں کسی کی اطاعت کرنے کے لیے ، اور
یہ ہی اِیمان کی اِستقامت یعنی صحیح عقیدے کے ساتھ مضبوط طور پر قولا و عملا اِیمان
کو قائم رکھنا ہے ،
ہم میں سے کچھ لوگ
اِستقامت کو سمجھنے کے بارے میں اکثر غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ یوں کہ ظاہری
طور پر تو وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت والا ہر کام
کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اس کے لیے مشکلیں اور مصائب بھی برداشت کرتے ہیں ، لیکن
باطنی اطاعت کی طرف توجہ نہیں کرتے ، یعنی ، نہ حالت دِل کا خیال ہوتا ہے اور نہ ز
ُبان کے استعمال کا ، کہ ان دونوں پر بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی اطاعت کو اُسی طرح نافذ کرے جِس طرح ظاہر پر کیا ، پس ایسی حالت والا ظاہری
طور پر تو اِستقامت والا نظر آئے گا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ،
پس ابھی ذکر کی گئی
احادیث شریفہ ، اور اُن کی اِس شرح کی روشنی
میں اِستقامت کا جو مفہوم سامنے آتا ہے اُس اِستقامت کے حصول کے لیے دِل اور ز ُ بان کی اِصلاح لازم ہے ،
اِس ساری تفصیل کے
بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اِستقامت ایک بہت ہی أہم چیز ہے ، اِس کی أہمیت جاننے
کے بعد اب یہ سمجھتے ہیں، اِن شا ء اللہ کہ اِسلامی شریعت میں اِس اِستقامت کا حکم اور درجہ کیا ہے ؟؟؟
::: اِستقامت کا شرعی
حکم :::
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ
نے اپنے رسول مُحمد صلی اللہ علی آلہ وسلم کو ، اور اُن کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو
اور اُن کے پیروکاورں کو حُکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ فَاستَقِم کَمَا أُمِرتَ
وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطغَوا إِنَّہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ ::: پس (اے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ) آپ اسی طرح اِستقامت اختیار کیجیے جس طرح آپ کو حُکم دِیا گیا اور
جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کی (وہ بھی اُسی طرح اِس حُکم پر عمل کریں ) اور تُم سب
نافرمانی مت کرنا بے شک تُم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ﴾ سورت ھُود / آیت 112 ،
اِمام ابن کثیر رحمہُ
اللہ کا کہنا ہے ’’’ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ( محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) اور
اِیمان والے بندوں کو اِستقامت پر ہمیشگی سے قائم رہنے کا حُکم دے رہا ہے اور ایسا
کرنا (حق کے ) دُشمنوں سے جیتنے میں اور (حق کے ) مُخالفین کی مُخالفت کرنے میں بہت
بڑی مدد ہے ، اور اللہ تعالیٰ طُغیان یعنی بغاوت(نافرمانی) سے منع فرما رہا ہے،اور
اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے سارے ہی کاموں کو خوب جانتا ہے اور
اُس سے بندوں کا کوئی کام چھپتا نہیں ‘‘‘ ،
پس ، پتہ چلا کہ ، اِستقامت اختیار کرنا واجب ہے ،
اور ہر مُسلمان کو اِس کے صحیح معنی اور مفہوم کو سمجھ کر اِسے اپنانے اور اپنائے
رکھنے میں قصداً کوئی کوتاہی نہیں کرنا چاہیے ،
::: اِستقامت کی تکمیل کے ذرائع :::
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ
کے احکام پر اِستقامت رکھنا ایک عظیم نعمت ہے، اللہ کے ہاں بُلند درجہ ہے ، اور دُنیا
اور آخرت کی کامیابی اور سکون کا باعث ہے لہذا اس کو حاصل کرنے اور اس کو اللہ کے
حکم کے مُطابق مکمل کرنے کے لیے بہت سنجیدگی کے ساتھ محنت کی ضرورت ہے ، اللہ سُبحانہ
و تعالیٰ کی عطا ء کردہ توفیق کے بعد اس عظیم
ھدف کی تکمیل میں مندرجہ ذیل کام ان شاء اللہ مددگار ہوتے ہیں :::
::::: (1)
::::: دُعاء ::::: دُعاء ایک وہ چیز
ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ تقدیر بھی تبدیل فرمادیتا ہے ، اور دُعا عبادت بھی ہے اگر
خالصتاً اللہ سے ہو ، اللہ کے لیے ہو تو اللہ کی رضا کا سبب ہے ، اور دُعا اِیمان والوں
کے لیے مشکلوں اور مصائب کے خلاف ایک کامیاب ترین ہتھیار بھی ہے ، اور خاص طور پر اِستقامت
کے لیے دُعا ایسی أہم اور ضروری ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم کی زُبان مُبارک سے ہر مُسلمان پر ہر نماز میں کرنا فرض قرار دیا ،
::::: (2)
::::: شرعی عِلم حاصل کرنا ::::: جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کو حُکم فرمایا﴿ فَأعلَم أنّہُ لا إِلہُ إِلَّا اللَّہُ واستَغفِر لِذَنبِکَ ::: اور
(اے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) جان لیجیے کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی اور
سچا معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب فرمایے﴾ سورت مُحمد / آیت19 ،
اس حُکم میں بہت
وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شرعی علم کے حصول کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی
درست پہچان اور فہم مُمکن نہیں ، اور اس فہم کے بغیر اللہ کی رضا اور مغفرت تک رسائی بھی ممکن نہیں ،
::::: (3)
::::: سُنّت کا پابند رہنا ::::: اس بات میں شک کی گنجائش تک بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ اللہ کے عذاب سے نجات کا سفینہ ہے اور اس کو
استعمال کیے بغیر اللہ کی جنّت تک پہنچنا محال ہے
:::::(4)
::::: اللہ تعالیٰ کے مراقبے کا یقین رکھنا ::::: ہر وقت یہ یقین رکھنا کہ میرا کوئی قول یا
فعل اللہ تعالیٰ کے عِلم سے خارج نہیں ۔
::::: (5):::::
نفسانیت کے خلاف جدوجہد ::::: جس میں اپنے نفس ، خواہشات ، اور شیطان کے خِلاف جدوجہد کرنے
کا یقینی نتائج میں سے اِیمان کی پختگی اور اِستقامت میں اضافہ ہوتا ہے بھی ہے۔
::::: (6)
::::: قران سیکھنا ::::: جس میں کثرت سے قران کی تلاوت کرنا ، اس کو زبانی یاد کرنا ، یا جتنا بھی یاد
کر سکے اس کی کوشش کرتے رہنا ، قران کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ
وسلم کے مطلوب کے مُطابق سمجھنا اور اس پر عمل پیرا رہنا۔
::::: (7)
::::: اللہ تعالیٰ کا ذِکر :::::اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے
سکھائے ہوئے طریقے کے مُطابق اللہ کے ذِکر میں مشغول رہنا ، کہ جس کو کسی سبب سے جہاد
فی سبیل اللہ ، روزہ داری ،قیام اللیل، جیسی نعمتیں میسر نہ ہو پائیں تو وہ کم از کم
صحیح ثابت شُدہ اذکار میں سے صبح و شام کے اذکار اور دیگراذکار کر کے اللہ کے دین پر
مستقیم رہنے میں مدد حاصل کر سکتا ہے ۔
::::: (8)
::::: دِل کو بیماریوں سے بچائے رکھنا ::::: جی ہاں ، بیماری دو قسم کی ہوتی ہے ، جسمانی یا حسّی ، اور معنوی ، تو جس طرح ہم یہ کوشش
کرتے ہیں کہ ہمارے دل کسی جسمانی یا حسّی بیماری کا شکار نہ ہوں اس سے کہیں زیادہ اس
بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دِلوں کو معنوی بیماریوں سے بچائے رکھیں ، کیونکہ یہ معنی
بیماریاں ، حسّی بیماریوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں کہ ان کی تکلیف آخرت کی ابدی زندگی
میں نا معلوم مدت تک برقرار رہنے والی ہے جب کہ حسّی بیماریاں دنیا کی زندگی کے ساتھ
ہی ختم ہونے والی ہیں ،
اِن معنوی بیماریوں
میں چند عام بیماریاں یہ ہیں :::حسد ، ریاء کاری ، چغلی ، غیبت ، منافقت ، شکوک و شبہات
، لالچ ، تکبر ، دُنیا کی محبت ، خوش فہمیاں اور اُمیدیں۔
::::: (9)
::::: اللہ کے خوف میں اور اللہ کی رحمت کی امید میں رہنا ::::: یعنی صحت و امن اور قوت کی حالت میں اللہ
کا خوف رکھنا اور اللہ کی نافرمانی میں ان چیزوں کو خرچ نہ کرنا ، اور بیماری ، کمزوری
اور موت کے وقت اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے مایوسی سے بچنا ۔
:::::(10)
::::: علماء حق کا ساتھ حاصل کرنا ::::: اس کا سب سے بہترین اور مکمل ذریعہ تو ان کی محفلوں میں حاضر
ہو کر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات کا عِلم حاصل کرنا
ہے ، اور آج کے دور میں اس کا متبادل اور بھی بہت سے ذرائع ہیں جن کو استعمال کر کے
اِستقامت کی اِستقامت کا یہ ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
::: (11)
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت مُبارکہ کا مطالعہ کرنا :::
::: (12)
::: صحابہ رضی اللہ عنہ ُم اجمعین ، تابعین اور اُمت کے نیک ،متقی لوگوں کے احوال زندگی
کا مطالعہ کرنا:::
::: (13) ::: صحیح عقیدہ
والے نیک اور متقی لوگوں سے دوستی رکھنے کی کوشش کرنا اور بدعقیدہ اور بدکار لوگوں
کی دوستی سے خود کو بچانا :::
ایسا کرنے کا نتیجہ
اللہ تعالی نے یہ بیان فرمایا کہ ﴿ الأَخِلَّاء یَومَئِذٍ بَعضُہُم
لِبَعضٍ عَدُوٌّ إِلَّا المُتَّقِینَ ::: دوست قیامت والے دِن ایک
دوسرے کے دُشمن بنیں ہوں گے سوائے تقویٰ والوں کے ﴾ سورت الزُخرف / آیت 76 ،
اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس مُعاملے کی آخرت میں خطرناکی کی خبر دیتے ہوئے اِرشاد
فرمایا :::
﴿ الرِجُلُ علیٰ دِین خَلِیلِہِ
فلیَنظُر أحدکم مَن یَخَا لِل ::: اِنسان اپنے دوست کے دِین پر ہوتا ہے لہذا
تُم میں سے ہر ایک یہ دیکھے کہ کس سے دوستی رکھتا ہے ﴾ المُستدرک الحاکم /حدیث 7319/کتاب البر و
الصلۃ ، سُنن ابی داؤد /حدیث 4833 / کتاب الادب /باب 19 حدیث حسن ،
::::: (14) ::::: موت کو یاد
رکھنا ::::: یہ یقین رکھنا کہ
موت سے کوئی فرار نہیں اور یہ مجھے کسی بھی وقت کہیں بھی آن پکڑے گی ، جتنا زیادہ
موت کو یاد رکھا جائے گا اتنا ہی اِستقامت میں مددگار ہو گا کیونکہ ﴿ أکثَرُوا ھَاذَم اللّذّاتِ یعنی المَوت ::: لذتوں (مزوں) کو توڑنے والی
یعنی موت کا ذکر زیادہ سے زیادہ کیا کرو﴾ سنن ابو داؤد ، حدیث 4258 /کتاب الزھد
/ باب 38 ،حدیث صحیح، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 3333 ،
::: اِستقامت پا لینے
کا نتیجہ :::
اِستقامت کی أہمیت
، شرعی حُکم اور حصول میں مدد کے ذرائع کے بعد یہ بھی دیکھتے چلیں کہ اس کو حاصل کر
لینے کا نتیجہ کیا ہوگا ،
میں نے آغاز میں
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ذکر کیا تھا ﴿ إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ استَقَامُوا فَلَا
خَوفٌ عَلَیہِم وَلَا ھُم یَحزَنُونَ ::: بے شک
وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر (اس بات پر ) مظبوطی سے قائم رہے
تو ان لوگوں کو (دُنیا میں ) کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی (آخرت میں )اُنہیں کوئی
دُکھ ہو گا ﴾ سورت الأحقاف / آیت 13،
اِس مذکورہ بالا
وعدے کے علاوہ مزید نعمتوں کے وعدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ استَقَامُوا تَتَنَزَّلُ
عَلَیہِمُ المَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحزَنُوا وَأَبشِرُوا بِالجَنَّۃِ
الَّتِی کُنتُم تُوعَدُونَ O
نَحنُ أَولِیَاؤُکُم فِی
الحَیَاۃِ الدُّنیَا وَفِی الآخِرَۃِ وَلَکُم فِیہَا مَا تَشتَہِی أَنفُسُکُم وَلَکُم
فِیہَا مَا تَدَّعُونَ O نُزُلاً مِّن غَفُورٍ رَّحِیمٍ ::: بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور پھر (اس بات
پر) مضبوطی سے قائم رہے ، اُن پر فرشتے نازل ہوں گے (اور ان سے کہیں گے) تُم لوگ نہ
تو ڈرو اور نہ ہی افسوس زدہ ہواور جس جنّت کا تُم سے وعدہ کیا جاتا تھا اس کو پا جانے
کی خوشخبری سے خوش ہو جاو ٔ O دُنیا اور آخرت
کی زندگی میں ہم تُم لوگوں کے دوست ہیں اور اُس (آخرت کی ) زندگی میں تُم لوگوں کے
لیے وہ سب کچھ ہے جو تم لوگ چاہتے تھے اور وہ سب کچھ ہے جو تُم لوگ (چاہنے کے باوجود
اللہ کی رضا کے لیے ) چھوڑ دیا کرتے تھے
O (اللہ) غفور و رحیم کی طرف سے یہ (تُم لوگوں) اِستقبال ہے﴾ سورت فُصلت/آیات 30،3،32،
اللہ پاک ہم سب کو
، اور ہمارے سب کو اُس کے صراط مُستقیم یعنی
دِین اِسلام پر اِستقامت عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم
ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ ُ ،
طلب گارء دُعاء
، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 07/06/1431ہجری، بمُطابق، 21/05/2010عیسوئی،
تاریخ تجدید و
تحدیث : 18/07/1438ہجری، بمُطابق، 24/07/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر مسیر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment