::::: ہر ایک عمل میں نیکی
حاصل ہونے کی خُوشخبری :::::
بِسمِ
اللَّہِ الرّحمٰنِ الرَّحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ
وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ
أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ
هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ
لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ::: بے شک
خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب
کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی
جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی
گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا
نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود
نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک
محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
ابو ذر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ أصحابء رسول صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم میں سے کچھ نے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض
کیا"""يا
رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَ أَهلُ الدُّثُورِ بِالأُجُورِ يُصَلُّونَ كما نُصَلِّي
وَيَصُومُونَ كما نَصُومُ وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَموَالِهِم::: اے اللہ کے رسول مال و دولت والے سارا
ثواب لے گئے ، وہ بھی ہماری طرح ہی نماز پڑھتے ہیں ، اور ہماری طرح ہی روزے
رکھتے ہیں ، اور اپنے اضافی مال میں سے صدقہ کرتے ہیں """ ،
تو رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( أَوَ ليس قد جَعَلَ الله لَكُم ما
تَصَّدَّقُونَ إِنَّ بِكُلِّ تَسبِيحَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَكبِيرَةٍ صَدَقَةً
وَكُلِّ تَحمِيدَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَهلِيلَةٍ صَدَقَةً وَأَمرٌ بِالمَعرُوفِ
صَدَقَةٌ ونهى عن مُنكَرٍ صَدَقَةٌ وفي بُضعِ أَحَدِكُم صَدَقَةٌ ::: کیا اللہ نے تُم لوگوں کو وہ کچھ نہیں دِیا جو تُم صدقہ کر
سکو ؟ بے شک ( تُم لوگوں کے لیے) ہر ایک (دفعہ) تسبیح (کرنے یعنی اللہ کی پاکیزگی
بیان کرنے) میں صدقہ ہے ، اور ہر ایک (دفعہ اللہ کی ) تعریف (کرنے) میں صدقہ ہے ، اور
ہر ایک (دفعہ اللہ کی ) توحید الوہیت بیان کرنے ( یعنی لا اِلہَ اِلّا اللہ کہنے )
میں صدقہ ہے ، اور نیکی کا حُکم دینا صدقہ ہے ، اور بُرائی سے روکنا صدقہ ہے ، اور
تُم لوگوں میں سے جب کوئی ہم بستری کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے )))))
صحابہ
رضی اللہ عنہم نے عرض کیا """يا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهوَتَهُ وَيَكُونُ
له فيها أَجرٌ ؟:::
اے اللہ کے رسول ، کیا ہم میں سے کوئی جب اس کی شہوت پوری کرتا ہے تو اُس میں بھی
صدقہ ہے ؟ """
اِرشاد فرمایا ((((( أَرَأَيتُم لو وَضَعَهَا في حَرَامٍ
أَكَانَ عليه فيها وِزرٌ ؟ فَكَذَلِكَ إذا وَضَعَهَا في الحَلَالِ كان له أَجرًا ::: تُم لوگ کیا خیال کرتے ہو ؟ اگر وہ یہی کام حرام میں کرتا
تو کیا اُس پر گناہ نہ ہوتا ؟ لہذا اسی طرح جب وہ یہ کام حلال میں کرے گا تو اسے
ثواب ہو گا ))))) صحیح مُسلم / کتاب الزکاۃ /باب 16 ،
صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ """ ذَهَبَ أَهلُ الدُّثُورِ بِالأُجُورِ :::
مال و دولت والے سارا ثواب لے گئے """ اپنے
بھائیو سے کِسی منفی حسد کی بنا پر نہ تھا اور نہ ہی اُن کی دولت حاصل کرنے کے لیے
تھا ، بلکہ اُن کی سمجھ کے مُطابق اپنے دولت مند بھائیوں کی نسبت اللہ تبارک و
تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کی دولت حاصل کرنے میں اُن بھائیوں سے پیچھے اور کم رہ جانے
کے دُکھ کا اظہار تھا ،
اس بات
میں ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ وہ لوگ جو اصل اصیل عرب تھے اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ تھے ، اپنی اِن خصوصیات کے باوجود بھی کلام اللہ
کو سمجھنے میں اپنی عقلیں نہیں دوڑاتے تھے ، بلکہ اللہ کے کلام کو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تفسیر مُبارک کے مُطابق سمجھتے تھے اور اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کو عملی طور پر کلام اللہ کی تفیسر
مانتے تھے اور اس کے مُطابق اپنی عقلوں کو ڈھالتے تھے ،
لہذا
اپنی اس محرومی کا ایک احساس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علہ آلہ وسلم کے سامنے پیش
کیا ، کہ وہ بھی مالدار لوگوں کی طرح کی بدنی عبادات کرنے کے باوجود ان کے مالی
صدقات کرنے کی بنا پر ان کے جیسے ثواب تک نہیں پہنچ سکتے ،
صحابہ
رضی اللہ عنہم کا یہ دُکھ بھرا شکوہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی اُن خاص رحمتوں اور
بخششوں میں سے چند کی خبر دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت
کے لیے خاص ہیں کہ اُن کے ہر عمل اُس عمل کا اللہ اُن کو ثواب دے گا جو وہ اللہ کی
رضا کے لیے کریں گے ،
اس حدیث
مُبارک میں ہمیں
""" عِبادت """ کی تعریف بھی ملتی ہے ، اس کا ذِکر عقیدے سے متعلقہ سوال و جواب کے
سلسلے """ کیا آپ جانتے
ہیں ؟ """میں کر چکا ہوں ،
صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہ شکوہ کہ """ذَهَبَ أَهلُ الدُّثُورِ بِالأُجُورِ::: مال و دولت والے سارا ثواب لے گئے """، اُس جائز حسد پر مشتمل ہے جسے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرما کر جائز قرار دیا کہ ((((( لَا حَسَدَ إلا في اثنَتَينِ رَجُلٌ آتَاهُ الله مَالًا فَسَلَّطَهُ
على هَلَكَتِهِ في الحَقِّ وَرَجُلٌ آتَاهُ الله حِكمَةً فَهُوَ يَقضِي بها
وَيُعَلِّمُهَا::: دو لوگوں کے
عِلاوہ کِسی اور کے لیے حَسد نہیں کرنا چاہیے ، ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال عطاء
کیا ہو اور وہ اس مال کو حق (کی فتح و نصرت اور خدمت) میں خرچ کرتا رہتا ہے ، اور دُوسرا
وہ شخص جسے اللہ نے حِکمت عطاے کی ہو اور وہ اُس حِکمت کے ذریعے فیصلے کرتا ہو اور
اُس کی تعلیم دیتا ہو ))))) متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری / کتاب الاعتصام بالکتاب و السُنّۃ / باب 13 ، صحیح مُسلم / کتاب صلاۃ المُسافرین و قصرھا / باب47،
صحابہ
رضی اللہ عنہم کے اِس شکوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن کے
دِلوں میں پائے جانی والی خیر کے حصول کی تمنا کو جان کر اُن کے اِس مسئلے کو مکمل حِکمت کے ساتھ حل فرمایا ،
اور """ صدقہ کرنے""" کا وسیع مفہوم اُن کو سمجھایا
، کہ """ صدقہ """ کرنا صرف مال خرچ کرنے تک ، یا
جانور قربان کرنے جیسے معروف کاموں تک ہی محدود نہیں ،
بلکہ خیر والا ہر کام اِس میں شامل ہے ، یہی بات سمجھاتے
ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( ،،،،،إِنَّ
بِكُلِّ تَسبِيحَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَكبِيرَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَحمِيدَةٍ
صَدَقَةً وَكُلِّ تَهلِيلَةٍ صَدَقَةً وَأَمرٌ بِالمَعرُوفِ صَدَقَةٌ ونهى عن
مُنكَرٍ صَدَقَةٌ وفي بُضعِ أَحَدِكُم صَدَقَةٌ :::،،،،، بے شک ( تُم لوگوں کے لیے) ہر ایک (دفعہ) تسبیح
(کرنے یعنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے) میں صدقہ ہے ، اور ہر ایک (دفعہ اللہ کی )
تعریف (کرنے) میں صدقہ ہے ، اور ہر ایک (دفعہ اللہ کی ) توحید الوہیت بیان کرنے (
یعنی لا اِلہَ اِلّا اللہ کہنے ) میں صدقہ ہے ، اور نیکی کا حُکم دینا صدقہ ہے ،
اور بُرائی سے روکنا صدقہ ہے ، اور تُم لوگوں میں سے جب کوئی ہم بستری کرتا ہے تو
وہ بھی صدقہ ہے)))))،
مذکورہ
بالا حدیث شریف میں بیان کردہ سب اقوال،
یعنی اللہ کی تسبیح ، تکبیر ، حمد، تھلیل سب ہی اللہ تعالیٰ کا ذِکر ہیں ، جِن کا اپنا الگ ثواب بھی ہے اور اِضافی طور پر اللہ
تعالی ٰ نے اِن میں اپنے رسول کریم کی ز ُبان
مُبارک سے اِس مذکورہ بالا فرمان میں """ صدقہ کرنا """ بھی قرار دے دیا اور یوں اِن کا ثواب بڑھا دیا ،
اور خود اپنے فرمان میں بھی اپنے ذِکر کو اِسی
مفہوم یعنی صدقہ جاریہ کے مفہوم میں بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((((المَالُ
وَالبَنُونَ زِينَةُ الحَيَوةِ الدُّنيَا وَالبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيرٌ
عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيرٌ أَمَلاً ::: مال اور بیٹے دُنیا کی زندگی کی سجاوٹ ہیں اور باقی رہ جانے والی ( تو ) نیکیاں
( ہی ) ہیں (جو) آپ کے رب کے ہاں خیر والی ہیں اور ثواب والی ہیں اور بہترین اُمید
والی ہیں ))))) سورت الکھف / آیت 46 ،
اس
آیت مُبارکہ کے علاوہ اور بھی کئی آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُس کے ذکر کی
فضیلت بیان فرمائی ہے ، اسی طرح ہماری اس محفل کے آغاز میں بیان کردہ حدیث مُبارک
کے علاوہ اور بھی کئی صحیح احادیث میں اللہ کے ذکر کی بہت سی فضیلتیں بیان ہوئی
ہیں لیکن اُن سب میں سے اللہ کے ذِکر کو صدقہ جاریہ کے جیسا قرار دیا جانا اسی آیت
مُبارکہ میں وارد ہوا ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اپنے
صحابہ رضی اللہ عنہم کے دُکھ کا مداوا فرماتے ہوئے انہیں اپنے اس مذکورہ بالا
فرمان میں بھی اللہ کے ذکر کا صدقہ کے جیسا ہونا بیان فرمایا اور اس مندرجہ ذیل
فرمان میں بھی یہ خوشخبری سنائی کہ :::
((((( ألا أُنَبِّئُكُم بِخَيرِ أَعمَالِكُم وَأَرضَاهَا عِندَ مَلِيكِكُم
وَأَرفَعِهَا في دَرَجَاتِكُم وَخَيرٍ لَكُم من إِعطَاءِ الذَّهَبِ وَالوَرِقِ
وَمِن أَن تَلقَوا عَدُوَّكُم فَتَضرِبُوا أَعنَاقَهُم وَيَضرِبُوا أَعنَاقَكُم ::: کیا میں تُم لوگوں کو تُمہارے ایسے کاموں کے بارے میں نہ
بتاؤں جو سب سے زیادہ خیر والے ہیں ، اور تُمارے عظیم ترین بادشاہ کے ہاں سب سے
زیادہ پسندیدہ ہیں ، اور تُمارے درجات میں سب سے بلند درجے والے ہیں ، اور تُم
لوگوں کے لیے اس سے بھی زیادہ خیر والے ہیں کہ تُمہیں سونا اور چاندی (کے خزانے)
عطاء ہوں ، اور اِس سے بھی زیادہ خیر ولے ہیں کہ تُم لوگ دُشمن سے ٹکراؤ اور وہ
تُم لوگوں کو قتل کریں اور تُم لوگ اُنہیں قتل کرو )))))،
صحابہ
رضی اللہ عنہم نے عرض کیا " و ما ذَاك يا رَسُولَ اللَّهِ ؟ ::: اے اللہ کے رسول وہ کون سے کام ہیں ؟ "،
تو اِرشاد فرمایا (((((ذِكرُ اللَّهِ ::: اللہ کا ذِکر ))))) حدیث
صحیح ہے ، مؤطاء مالک /حدیث493/ کتاب القران/باب7 سنن ابن ماجہ/حدیث 3790/کتاب الادب /باب53 ، سنن الترمذی /حدیث3377 /کتاب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم /باب6 ، مُسند احمد /حدیث27565 ،اور 27679 ،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی حسرت کو خوشی
میں تبدیل فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے کراں رحمت اور عطاء
میں سے ایک پہلو کی خبر اُنہیں یہ بتایا کہ مال نہ ہونا تُمہاری نیکیوں میں کمی
نہیں کر سکتا کیونکہ تُم اللہ کا ذکر کر کر مالی صدقہ کرنے کے جیسا ، بلکہ اُس سے
بھی زیادہ نیکیاں کما سکتے ہو ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ہمیشہ کی طرح اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان مُبارک کو سُن
کر کِسی قِسم کی عقلی قلا بازیاں لگانے کے بجائے اِیمان والوں کی خصوصی صفات """
یؤمنُونَ بالغیب """ کے مِصداق اِس فرمان پر بھی اِیمان لائے اور """
سمعنا و أطاعنا """ کے مصداق اِس پر عمل پیرا بھی رہے ، جیسا کہ امام
زین الدِین ابی الفرج عبدالرحمٰن نے اپنی معروف کتاب """ جامع العلوم و الحِکم میں لکھا :::
"""وعن أبي الدرداء أيضا قال لأن أقول الله أكبر مائة مرة أحب
إلىَّ مِن أن أتصدق بمائة دينار وكذلك قال سلمان الفارسي وغيره من
الصحابة والتابعين إن الذكر أفضل مِن الصَدقة بعدده مِن المال::: ابی الدرداء
رضی اللہ عنہ ُ سے اِسی طرح یہ بھی روایت
ہے کہ انہوں نے کہا ، مجھے ایک سو دینار صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ میں
ایک سو دفعہ اللہ اکبر کہوں ، اور ایسی ہی بات سلمان فارسی رضی اللہ عنہُ اور ان
کے علاوہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے بھی مروی ہے کہ بے شک
ذِکر صدقہ کیے گئے مال کے عدد سے بڑھ کر اُس سے افضل ہے """
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس کے
ساتھ یہ بھی بتایا کہ (((((وَ أَمرٌ
بِالمَعرُوفِ صَدَقَةٌ ونهى عن مُنكَرٍ صَدَقَةٌ وفي بُضعِ أَحَدِكُم صَدَقَةٌ:::اور نیکی کا
حُکم دینا صدقہ ہے ، اور بُرائی سے روکنا صدقہ ہے ، اور تُم لوگوں میں سے جب کوئی
ہم بستری کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے )))))
یعنی
، أمر بالعروف ( نیکیوں کا حُکم کرنا ) اور نہی عن المنکر ( بُرائیوں سے روکنا )
بھی ایک ایسا صدقہ ہے جو کِسی ایک شخص تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے مُعاشرے پر اثر
انداز ہوتا ہے ، کیونکہ کِسی ایک مُسلمان کو یا کافر کو نیکی کا حُکم دینا اور
برائی سے روکنا سارے مُعاشرے کے لیے خیر
کا سبب ہوتا ہے ، اور یہ کام ایسا کام ہے جو اُمت ءِ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی ایک خاص الخاص صِفت اور خیر ہے جو کِسی اور امُت کو میسر نہ ہوئی ، جیسا
کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ((((( كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ
أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْراً لَّهُم
مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ::: سب لوگوں کے لیے پیدا کی گئی سب سے اچھی اُمت تُم لوگ ہو (
اور اس لیے ہو کہ) تُم لوگ نیکی کا حُکم کرتے اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر اِیمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب
بھی ایمان لے آتے تو یہ اُن کے لیے خیر ہوتا اُن اہل کتاب میں سے کچھ اِیمان والے
ہیں(یعنی جو اِیمان لے آئے جیسا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہُ اور ان جیسے اور
لوگ ) اور اُن (باقی اِیمان نہ لانے والے
اہل کتاب )کی اکثریت فاسق ہے ))))) سورت آل عمران /آیت110 ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے
اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ سمجھایا کہ أمر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کرتے رہو یہ ایک مُعاشرتی صدقہ ہے
، جو تمہارے مالدار بھائیوں کے
مالی صدقے کی طرح تُم لوگوں کے لیے ثواب کا سبب ہے ،
أمر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور نہ ہی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کِسی قِسم کی قانون سازی کا ذریعہ قرار دیا اور نہ
ہی کِسی قِسم کی قانون ساز جماعت ، یا کِسی
بھی قِسم کی جماعت سازی یا جماعت بندی کا
، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اور اُن کی عملی تعلیمات کے مُطابق
اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جونفاذ
کیا وہی اُس آیت مُبارکہ کا مفہوم ہے ، نہ کہ کِسی خود ساختہ فلسفے کی بنا پر گھڑا
گیا کوئی مفہموم ،
پس
خوب سمجھ رکھیے کہ أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر مُسلمانوں کے درمیان کِسی قانون ساز ، یا کِسی بھی قِسم کی جماعت سازی
یا جماعت بندی کا جواز نہیں ، بلکہ ایک ایسا صدقہ ہے جو ہر ایک مُسلمان کر سکتا ہے بلکہ ہر ایک مُسلمان پر یہ صدقہ کرنا واجب ہے ، اور یہ ایسا صدقہ ہے
جواُمت ءِ محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کی سلامتی کی ضمانت ہے اور اُس
کی درست راہ کی گواہیوں میں سے ایک ہے ، اور اُس کے مثبت اثرات اور صِرف مُسلمان مُعاشرے
کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے
جانداروں کے لیے حفظ و امان کی ضمانت ہے ،
أمر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صدقات کے ضمن میں شامل فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے شکوے کے جواب میں
مزید ایک اور ایسے کام کو بھی مالی صدقات کے برابر ایک صدقہ قرار دیا جو کِسی بھی اِنسان
کا بالکل ذاتی قِسم کا معاملہ ہے ، پس اِرشاد فرمایا (((((و في بُضعِ أَحَدِكُم
صَدَقَةٌ ::: تُم
لوگوں میں سے جب کوئی ہم بستری کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے )))))
یہ
بات فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ
کی رحمت کی وُسعت کا ایک پہلو بھی ظاہر فرمایا کہ اِس اُمت کے
لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ افراد کی ذاتی جسمانی
ضروریات کی نوعیت کے کاموں میں بھی اللہ
انہیں اجر و ثواب دیتا ہے ،
پس
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےحیرانگی بھرے سوال """ اے اللہ کے رسول ، کیا ہم
میں سے کوئی جب اس کی شہوت پوری کرتا ہے تو اُس میں بھی صدقہ ہے ؟
""" کے جواب میں یہ اِرشاد
فرما کر کہ ((((( أَرَأَيتُم لو وَضَعَهَا في حَرَامٍ
أَكَانَ عليه فيها وِزرٌ ؟ فَكَذَلِكَ إذا وَضَعَهَا في الحَلَالِ كان له أَجرًا ::: تُم لوگ کیا خیال کرتے
ہو ؟ اگر وہ یہی کام حرام میں کرتا تو کیا اُس پر گناہ نہ ہوتا ؟ لہذا اسی طرح جب
وہ یہ کام حلال میں کرے گا تو اسے ثواب ہو گا ))))) صحابہ رضی
اللہ عنہم اجمعین اور اپنی ساری اُمت کو عقیدے اور عبادت کا یہ بنیادی سبق دیا کہ کوئی معروف یعنی نیک کام بھی اسی وقت
باعث ثواب ہو گا جب وہ صِرف اور صِرف اللہ کی رضا کے حصول کی نیت سے حلال ذرائع سے کیا جائے ،
آخر میں دو باتوں کی وضاحت بہت ضروری سمجھتا
ہوں :::
::: (1)
::: ایک تو یہ کہ
اِس حدیث مُبارک میں جن کاموں کوصدقہ کرنے
میں شُمار کیا گیا ہے صرف وہی کام صدقہ کے ضِمن میں نہیں آتے بلکہ دیگر صحیح
احادیث میں کئی اور کاموں کو بھی صدقہ
کرنے میں شُمار کیا گیا ہے ، جیسا کہ اپنے مُسلمان بھائی سے مُسکراہٹ لیے چہرے کے
ساتھ ملنا ، راستے میں سے کوئی تکلیف دہ
چیز ہٹانا ، گونگے بہرے لوگوں کو بات سمجھانا، اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنا ، کِسی
مصیبت زدہ کی مدد کرنا ، وغیرہ ،
::: (2)
::: اور دُوسری
بات یہ کہ اِن کاموں میں اجر و ثواب صِرف اور صِرف اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کِسی
بھی کام اور نیک کام کی طرح یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوں ، اور کِسی بھی کام کے اللہ کے
ہاں قبولیت کے لیے اُس کام میں دو شرائط کا مکمل ہونا ضروری ہے ،
::: (1) ::: کہ وہ کام خالصتاً اللہ کے لیے کیا گیا ہو اور اِس میں کِسی قِسم کے کِسی بھی
اور فائدے کے حصول کی نیت نہ ہو ، اور،
::: (2) ::: وہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ کے عین مُطابق ہو ،
پس
اس طرح ہر وہ کام جسے کرنے والا اللہ کی رضا کی نیت سے اور اللہ اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مُقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے کرے وہ اُس کے لیے ایک
عِبادت ہو گا ، صدقہ ہو گا ، اور اِن شاء اللہ اُس پر اُسے اجر و ثواب ملے گا ،
تو اِس
درس کی حدیث مُبارک میں ہمیں یہ دعوت دی گئی ہے کہ ہم اپنا ہر کام اللہ کے لیے
کریں اور ایسے ہر کام پر اللہ کی طرف سے ثواب ملنے کی اُمید رکھیں ، اللہ تبارک و
تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دِی ہوئی یہ تعلیم اور
تربیت سمجھنے اور اِس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ، و السلام علیکم،
طلب
گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ
کتابت :11/02/1430ہجری
، بمُطابق ، 06/02/2009عیسوئی
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment