صفحات

Sunday, October 8, 2017

::: مؤمن بے سکونی ، بد شگونی اور مایوسی کا شکار ہو، ممکن نہیں :::


::: مؤمن  بے سکونی ، بد شگُونی اور مایوسی  کا شِکار ہو،  ممکن نہیں  :::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ  اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی  پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ  ُ   اللہ وبرکاتہُ،
بد شگُونی  صِرف یہ ہی نہیں ہوتی کہ اپنے سامنے سے گذرنے والی کالی بلی سے خوف زدہ ہوکر ، یا کسی گھوڑے گدھے یا کسی اور جانور کی آواز سُن ، یا کِسی مخصوص شخصیت کو دیکھ کر ، کِسی ہاتھ پاؤں میں کھجلی ہونے پر ، آنکھ کے کِسی پپوٹے کے پھڑکنے پر، چھینک آنے وغیرہ  پر ، اپنا کام چھوڑ دِیا جائے ،  اپنے گھر واپس بھاگا جائے،
بلکہ یہ بھی بدشگُونی میں شامل ہے کہ حال اور مُستقبل پر نظر کرتے ہوئے ہر کام اور ہر چیز کی بُرائی اور اُس کے منفی نتائج کو ہی دیکھا جائے اور اُن متوقع نتائج سے خوف زدہ رہا جائے ، اور اُن کے مُطابق اپنی زندگی کے ہر معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی جائے ،
 بد شگُونی کا شِکار پر چیز کا سیاہ پہلو ہی دیکھتے ہیں ، اُنہیں پھول دِکھائی نہیں دیتے ، کانٹے ضرور دِکھائی دیتے ہیں ، کِسی درخت پر اُس کا پھل دِکھائی نہیں دیتا اُس درخت کے تنے کی چھال کی سختی اور کُھردرا پن ضرور دِکھائی دیتا ہے ، اور بارش کے قطرے اللہ کی رحمت کی بجائے آسمان کے آنسو لگتے ہیں ،
بدشگُونی کا شکار ہمیشہ چیں بہ جبیں رہتا ہے ، اِس کا چہرہ اُجڑا ہوا لگتا ہے ، سینہ تنگ رہتا ہےاُس کے پاس اچھائی یا کامیابی کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ، اُسے کبھی کہیں کوئی آسانی یا سہولت محسوس نہیں ہوتی ،
اُسے یہی محسوس ہوتا رہتا ہے کہ رات کبھی ختم نہ ہوگی ، اور اگر کبھی ختم ہو بھی گئی تو سویرا اُس رات سے بھی زیادہ اندھیر ہو گا ، میری غُربت کبھی ختم نہ ہوگی ، میری بھوک ہمیشہ ہی رہے گی ، میرا مرض کبھی جان نہ چھوڑے گا ، ایسا شخص ہر مُصیبت اور پریشانی کے بارے میں یہی سمجھتے رہتا ہے کہ یہ مُجھ پر ٹوٹے گی،
ایسا شخص ایک ہی دِن میں کئی دفعہ مرتا ہے جب کہ وہ زندہ ہوتا ہے ، کئی دفعہ بُھوک کا شکار ہوتا ہے جبکہ اُسکا پیٹ بھرا ہوتا ہے ، کئی دفعہ غُربت کا شکوہ کُناں ہوتا ہے جبکہ وہ تونگر ہوتا ہے ، یہ سب اِس لیے کہ ایسا شخص اُس کے پاس اللہ کی نعمتیں ہوتے ہوئے بھی اُن نعمتوں کی طرف توجہ رکھنے کی بجائے شیطان کی باتوں میں آجاتا ہے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نےبتایاہے کہ ﴿ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ  :::شیطان تُم لوگوں کو غُربت کا ڈراوا دیتا ہے اور برُائی کا حُکم دیتا ہے سُورت البقرۃ  (2)  /آیت267،
پس ایسا شخص اللہ کی وَحی کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ  نے تو بتایا ہے کہ ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ::: اور (اےمحمد)جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تومیں قریب ہوں، جب دُعا کرنے والا مُجھ سے دُعا کرتا ہے تو میں اُس کی دُعا ءقُبول کرتا ہوں، لہذا یہ لوگ بھی میری بات مانیں اور مُجھ پر اِیمان لائیں تا کہ وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں سُورت البقرۃ    (2)   / آیت186 ،
قریب : جو ہر بات سُنتا ہے ،
قریب : جودریاؤں اور سُمندروں میں گم شدہ کی پکار سُنتا ہے ،
قریب : جو صحراؤں اور جنگلوں میں گمراہ کی فریاد سُنتا ہے ،
قریب : جو دیواروں ، دروازوں حتیٰ کہ چٹانوں کے پیچھے بند لوگوں کی سُنتا ہے ،
قریب : جِس کی طرف سے مدد ، نظر پھرنے اور پلک جھپکنے سے پہلے آن پہنچتی ہے ،
قریب : جو خطاء کار کی خطائیں اُس سے زیادہ جانتا ہے اور اُس کی پردہ پوشی کرتا ہے ،
قریب : جو گناہ گار کے گُناہ اُس سے زیادہ جانتا ہے لیکن بخشش فرمانے والا ہے ،
قریب : جِس کے لیے کوئی دُور نہیں ، ہر کِسی کو دیتا ہے ،
قریب : مُصیبت زدہ کو مُصیبت سے نجات دِلاتا ہے ،
قریب : بُھوکے کی بُھوک جانتا ہے اور اُسے خوراک دیتا ہے ،
قریب : پیاسے کی پیاس جانتا ہے اور اُسے مَشروب مہیا کرتا ہے ،
قریب : اُس کی عطاء غیر محدود ہے ،
قریب : ساری ہی کائنات میں اُس کی خیر صُبح و شام ، دِن و رات کِسی کمی و روکاٹ کے بغیر جاری و ساری رہتی ہے،
قریب : جِس کا دروازہ ہر مُخلص کے لیے ہر وقت کھلا ہے،
قریب : جسے غم زدہ پکارتا ہے تو اس کی سُنتا ہے ،
قریب : کہ جِس کی عِبادت کی جائے تو بہترین أجر سے نوازتا ہے ،
قریب : جِس کی نافرمانی کی جائے تو پلٹنے کی مُہلت دیتا ہے اور خُوب مُہلت دیتا ہے ،
قریب : بہت زیادہ بزرگی کے ساتھ عطاء والا ہے ،
قریب : جِس کی برابری والا کوئی  نہیں ، اور جِس کے مُقابل کوئی نہیں ،
قریب : بندے کی شہ رگ سے زیادہ اُس کے قریب،
قریب : ہر ایک جان کے ہر ایک ظاہری اور باطنی عمل پر اُس عامل سے زیادہ بڑا گواہ ،
قریب : ہر گناہ گار اور خطاء کار کی توبہ قُبول کرنے لیے ہمیشہ قریب ،
قریب : ہر دُعا ءکرنے والی کی دُعا ء سُننے اور قُبول کرنے کے لیے قریب ،
قریب : ہر مخلوق کو اُس کا رزق دینے کے لیے ہمیشہ قریب ،
اب ذرا اپنے دِل سے پوچھیے کہ جِس کا رب ایسا ہو، کیااُسے بدشگُونیوں کا شکار ہونا چاہیے ؟؟؟
 کیا اُسے متوقع منفی نتائج سے خوف زدہ رہنا چاہیے ؟؟؟  کیا اُسے مایوس ہونا چاہیے ؟؟؟
مزید غو ر کیجیے کہ ایک سچے اِیمان والے اور نام کے مُسلمان ، پھر مُسلمان اور کافر کے ہاں بد شگُونیوں اور مایوسی کے وجود میں فرق کیوں ہوتا ہے ؟؟؟
سچا اِیمان والا کبھی مایوس نہیں ہوتا ، مُسلمان اکثر مایوس نہیں ہوتا ، لیکن کافر در حقیقت مایوس ہی رہتا ہے ، پریشانیوں ، اندیشوں اور بدشگُونیوں کا شکار رہتا  ہی ہے، مُستقبل میں ممکنہ منفی کاموں کے اُس پر واقع ہوجانے کے خوف کا شکار رہتا ہے ، خواہ بظاہر کتنا ہی مضبوط اور پُر سُکون نظر آتا ہو،
ایسا اِس لیے کہ سچے پکے  اِیمان والا ، اِس حقیقت کو جانتا ہے اور اِس پر ایمان رکھتا ہے کہ اُس کا  لا شریک معبود ایسا ہے جو ہر ایک چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے ، رحم کرنے والا ہے ، بخشش کرنے والا ہے ، دُعا ءکرنے والوں کی دُعاء سُنتا ہے ، دُکھ اور تکلیف سے نجات دِلاتا ہے ، بیماری کو شفاء سے بدل دیتا ہے ، غم کو خوشی سے بدل دیتا ہے ، تنگی کو نرمی سے بدل دیتاہے ، غُربت و افلاس کو مالداری اور تونگری سے بدل دیتا ہے، توبہ قُبول کرتاہے ،دِن میں اپنا ہاتھ مُبارک ، رات میں گناہ کرنے والوں کی توبہ قُبول کرنے کے لیے کُشادہ فرماتا ہے ، اور رات میں اپنا ہاتھ مُبارک دِن میں گناہ کرنے والوں کی توبہ قُبول کرنے کے لیے کُشادہ فرماتا ہے ، کسی کی گم شُدہ چیز ملنے پر  اُس شخص کو  جتنی خوشی ہوتی ہے وہ لا شریک معبود اپنے کسی بندے کے توبہ کرنے پر اُس سے کہیں  زیادہ خوش ہوتا ہے ،
 اپنےبندوں کے لیےکسی ماں سے زیادہ شفیق ہے ، اپنی مخلوق کے لیے خود اُن سے زیادہ نیکی اور نرمی والا ہے ، 
ایسا اِلہَ  ، ایسا معبود جو ایک نیکی کے بدلے میں دس نیکیاں دیتا ہے، اُنہیں سات سو تک بڑھا دیتا ہے اور پھر مزید جتنا چاہے بڑھا دے ،
ایسا بخشش کرنے والالا شریک  معبود جو ایک گناہ پر ایک ہی گناہ کا بدلہ دے گا ،
ایسا اِلہَ جو اپنے بندوں کے گُمان کے مُطابق اُن کے ساتھ مُعاملہ فرماتا ہے ،
ایسا اِلہَ جو لوگوں کے درمیان اوقات اور دِنوں کو پھیرتا ہے ، پس خوف کو امن سے بدل دیتا ہے ، کمزوری کو قوت سے بدل دیتا ہے ، غموں کو خوشیوں سے بدل دیتا ہے ، تنگی کو وسعت سے بدل دیتا ہے ، سختی کو نرمی سے بدل دیتا ہے ،
پس سچے اِیمان والا اپنے اِس لا شریک و بے مثال اِلہَ ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ پر اُس کی تمام صِفات پر اِیمان رکھتا ہے تو کسی بد شگُونی کا شکار نہیں ہوتا ، اور نہ ہی کسی ممکنہ منفی عمل کے تکلیف دہ نتیجے سے خوف زدہ ہوتا ہے ،
وہ گمراہ ہو تو اُسے یقین ہوتا ہے کہ اُس کا رب اُسے راہ دکھائے گا﴿ الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ:::(میرا اِلہَ،اللہ) وہ ہے جس نے میری تخلیق فرمائی پس وہ ہی مجھے ہدایت دینے  والا ہے سُورت الشعراء(26)/آیت78 ،
 اگر وہ بھوکا ہو تو اُسے یقین ہوتا ہے کہ ﴿وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ ::: اور وہ ہی ہے جو مجھے کِھلاتا ہے اور پِلاتا ہے الشعراء(26)/آیت79 ،
اگر وہ بیمار ہو تو اُس کا اِیمان ہوتا ہے کہ﴿ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ::: اور جب میں بیمارپڑتا ہوں تو وہ ہی مجھے شِفاء دیتا ہے سُورت الشعراء(26)/آیت80 ،
اگر وہ کوئی گناہ کر لے ، کوئی جُرم کر لے تو اُسے اپنے اللہ کے اِس وعدے پر یقین ہوتا ہے کہ ﴿  قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ ھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ::: (اے رسول میری طرف سے ) فرمایے ، اے اپنی جانوں پر ظُلم کرنے والے میرے بندو، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو ، بے شک اللہ سارے ہی گناہ معاف فرمانے والا ہے ، بے شک وہ بہت بخشش والا اور رحم کرنے والا ہے سُورت الزُمر(39) /آیت 53،
وہ کتنی بھی تنگی اور سختی کا شکار ہو جائے اُسے اپنے رب کے اِس فرمان پر یقین رہتا ہے کہ ﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا o  إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا:::  پس بے شک سختی کے ساتھ نرمی ہے o بے شک سختی کے ساتھ نرمی ہے سُورت الشرح(94) /آیت 5، 6،
اگر اُس پر کوئی بھی مُصیبت ٹوٹ پڑے ، اُس کا مال جاتا  رہے ، اُس کے اہل و عیال جاتے رہیں ، اُس کی صحت جاتی رہے ، کچھ بھی نقصان ہو وہ کسی بد شگُونی یا مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے رب رحمٰن کی عطا ء کردہ خوش خبری ﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ o أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ::: (اِیمان والے) وہ ہیں جنہیں اگر کوئی مُصیبت آن پڑے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اللہ کی طرف ہی واپس جانے والے ہیں o یہ ہیں وہ لوگ جِن پر اللہ کی برکتیں اور رحمتیں ہوتی ہیں اور یہ ہیں ہدایت پائے ہوئے کے مُطابق اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور اُس کی طرف سے رحمتیں اور اجر ملنے، اور اللہ کے ہاں ہدایت یافتہ لوگوں میں گنے جانے  کے یقین کے ساتھ صبر کرتا ہے ،
اُس کی ہمت کبھی کہیں کچھ کمزور ہوتی ہے تو وہ محض مختصر سے وقت کے لیے ہوتی ہے ، وہ کبھی بدشگُونیوں کا شکار نہیں ہوتا،  اور نہ اُن سے پھوٹنے والی خیالی متوقع پریشانیوں سے خوف زدہ ہوتا ہے، پس  سچے اِیمان والا کبھی مایوسی اور بدشگونی کا شِکار نہیں ہو پاتا ، اور  جو کوئی ہوتا ہے تو اُسے چاہیے کہ اپنے اِیمان کی خبر لے ،
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے سچے پکے  اِیمان والوں میں سے بنا دے،
والسلام علیکم ، طلب گارء دُعاء ، عادِل سہیل ظفر ،
  تاریخ کتابت : 22/11/1437ہجری، بمُطابق، 25/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment