صفحات

Saturday, January 6, 2018

::: کیا سفرء معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ؟ :::

::: کیا سفرء معراج میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا  ؟ :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
کیسی دِکھ بھری حیرت والا معاملہ ہے کہ دُنیا  کے معاملات میں  سے کِسی  معاملے کی کوئی خبر ماننے کے لیے ، اور اپنے کِسی پسندیدہ  عام اِنسان کے بارے میں کوئی خبر ماننے کے لیے  تو ہم اُس خبر کے بالوں کی کھال نوچتے ہیں ، لیکن اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں ملنے والی خبروں کو ماننے کے لیے بس اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ وہ خبر  دِین  داری ، یا ، دِینی عُلوم  سے منسوب   کِسی شخص  نے ذِکر کی ہو، کِسی "تفیسر"، کِسی "شرح "، کِسی نام نہاد "اِسلامی " کتاب میں لکھ دی گئی ہو ، تو بس ، مان لیا ،
اِسی لیے تو جِس کا جو جی  چاہتا ہے اِسلام بنا کر نشر کرتا ہے اور اُس کی منتا ہونے لگتی ہے ،
یاد رکھیے ، اور خوب اچھی طرح سے یاد رکھیے ، اللہ عزّ و جل ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کچھ  بھی ایسا منسوب کرنا  جو تصدیق  کی کسوٹیوں پر پورا نہ اترتا ہو، اپنی  بھی آخرت کی تباہی ہے ، اور جِن جن تک وہ بات پہنچانے کے آپ ذمہ دار ہوئے ، اور انہوں نے وہ بات مان لی ، اُن کی گمراہی اور آخرت کی تباہی  میں بھی  آپ کا حصہ ہوا،
 ہمارے درمیان   بہت سی  ایسی باتیں پھیلائی جا چکی ہیں ، اور پھیلائی جا رہی ہیں ،  خاص طور پر برقیاتی ذائع ابلاغ کے ذریعے ، اور  اجتماعی روابط  کے مواقع کے ذریعے ، جو  باتیں اھل سنت والجماعت کے ہاں  پائی جانے والی معروف اور  معتمد کتابوں میں سے نہیں ، بلکہ ایسی باتیں ہیں جِن کی نہ کوئی سند مذکور ہے ، اور نہ ہی اُن باتوں کی کوئی تصدیق کِسی مستند ماخذ سے  میسر ہے ،
اور اکثریت اللہ تعالیٰ  کے دِین کو قصوں اور کہانیوں  میں سے سیکھنے لگی ہے  ،  حیرت ہوتی ہے کہ لوگ  اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ اپنی دُنیا کے معاملات میں یونہی بلا تصدیق  تو کِسی کی بات نہیں مانتے تو پھر اپنے دِین اور آخرت کے معاملات میں ایسا کیوں کرتے ہیں کہ جو کچھ جہاں کہیں سے بھی مل گیا بس مان لیا ؟ ؟؟
ایک دو روز پہلے اِسی قِسم کی باتوں پر مشتمل ایک مضمون مجھے اِرسال کیا ، جِس میں صاحب مضمون نے اللہ عزّ وجلّ اور اُس کے رسول کریم  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب  ڈھیروں ایسی باتیں لکھی رکھ ہیں جِن کی کوئی تائید کوئی تصدیق کِسی سچے ذریعے سے مُیسر نہیں ہو پاتی ،
اُس مضمون میں " مُسلم" کے حوالے سے  یہ  حدیث  لکھی گئی ہے کہ "میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا"،
اگر تو" مُسلم"  سے مراد "صحیح مُسلم "ہے تو ، ایسی کوئی حدیث صحیح مُسلم میں نہیں ہے ،  اور اگر " مُسلم"   سے اُن کی مُراد کچھ اور ہے تو بھی اِس  بات  کی  نِسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک  سے ثابت نہیں ہوتی ،
بلکہ صحیح مُسلم /کتاب الایمان /باب 80 فِى قَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ « نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ ». وَفِى قَوْلِهِ « رَأَيْتُ نُورًا »میں تو یہ حدیث ہے کہ :::
ابو ذر الغِفاری رضی اللہ  عنہ  ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پوچھا کہ """ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ ؟ :::   (وہاں تو) روشنی ہی روشنی  تھی ، میں اُسے  کیا دیکھتا ؟ )))
اور اِسی باب میں ، اِنہی ابو ذر الغِفاری رضی اللہ  عنہ ُ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((رَأَيْتُ نُورًا::: میں نے روشنی دیکھی تھی  )))،
اِسی صحیح مُسلم میں ، اِس مذکورہ بالا باب سے اگلے باب میں ، ابو موسیٰ الاشعری  رضی اللہ عنہ ُ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک حدیث شریف مروی ہے ، جِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  اللہ تعالیٰ کی کچھ صِفات ذِکر فرمائی ہیں اور اُن کے آخر میں فرمایا ہے کہ (((حِجَابُهُ النُّورُ::: اللہ کا پردہ روشنی ہے  )))  ،
پس ، مسئلہ  بہت روشن ہے ، صاف ہے ، واضح ہے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے معراج کے سفر میں اللہ عزّ و جلّ کی ذات پاک کو نہیں دیکھا، بلکہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اُن کے رب اللہ سُبحانہ ُو تعالیٰ کے درمیان روشنی کا  پردہ حائل رہا،
اِن احادیث میں صاف پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ سُبحانہُ و تعالٰی کو نہیں دیکھا ،
اور یہ  بھی توجہ سے پڑھیے :
اُم  المؤمنین  عائشہ  رضی  اللہ  تعالیٰ  عنھا  کا فرمان ہے کہ """  مَن حَدَّثَکَ أنَّ  مُحمَداً  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم   رأی  ربَہُ  فَقَد  کَذَب،  و ھَوُ  یَقُول(((لا تُدرَکہُ  الأبصارُ)))و مَن حَدَّثَکَ  أنَّہُ یَعلَمُ الغَیبَ  فَقَد  کَذَب،  و ھَوُ  یَقُول((( لایَعلَمُ الغَیبَ إِلَّا اللَّہ))) :::  جو  تمہیں  یہ  کہے  کہ  محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم   نے  اپنے  رب  کو  دیکھا  ہے تو  یقینا  اُس (یعنی  یہ  بات  کہنے  والے  )نے  جھوٹ  بولا ، کیونکہ اللہ تو  کہتا ہے کہ ((( اُسے ( یعنی  اللہ  تعالیٰ  کو ) آنکھیں نہیں  دیکھ  سکتیں ))) اور  جو تمہیں  یہ  کہے  کہ  وہ (یعنی  محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )غیب  جانتے ہیں تو  یقینا  اُس (یعنی  یہ  بات  کہنے  والے )نے  جھوٹ  بولا ،  کیونکہ  اللہ  تو  کہتا ہےکہ  ((( سِوائے  اللہ کے غیب  کا  عِلم  کوئی  نہیں    جانتا )))صحیح  البُخاری   /حدیث  7380/کتاب التوحید/باب4،    
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو  معراج کے سفر میں دیکھا تھا ، اور اِس کی دلیل کے طور پر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ  کی  یہ بات ذِکر کرتے ہیں کہ """محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا تھا"""،
اور امام السُنّت احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ""" وہ اِس مسئلے میں  عبداللہ ابن عباس کی بات کو مانتے ہیں """،
 افسوس اِس بات کا ہوتا ہے کہ لوگ جب کِسی مسئلے کے بارے میں بات کرتے ہیں  تو صِرف ایسی باتیں کیوں جمع کرتے ہیں جو اُن کے خیالات کو تقویت دینے والی سجھائی دیتی ہوں ،  اُس مسئلے سے متعلق تمام باتیں اور خبریں کیوں پیش نہیں کرتے ، اور پھر اُن تمام خبروں  میں سے ثابت شُدہ اور غیر ثابت شُدہ کے بارے میں کیوں نہیں بتاتے ، بظاہر تو اِس رویے کی  وجہ صِرف اپنے مسلک اور مذھب کی مددگاری ہے خواہ   اُس کے لیے غیر مصدقہ باتیں ہی کیوں نہ جمع کی جائیں بس اپنا مسلک سچا دِکھانا ہی ہوتا ہے ،
ابھی ابھی میں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ    کے جِس قول کا ذِکر کیا ہے وہ قول مختلف اِلفاظ کے ساتھ مروی ہے ،  اور اُن میں سے صحیح مُسلم کی ایک ایسی روایت بھی ہے جو مسئلے کو بالکل واضح کرنے والی ہے ، ملاحظہ فرمایے :
 اللہ پاک کے فرمان (((مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ   O   وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ::: جو کچھ اُس  دِل نے دیکھا اُس نے اُس کو جُھٹلایا نہیں  O   اور پھر اُس نے اُسے دُوسری دفعہ بھی دیکھا ))) کی تفیسر میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ فرمایا کہ """ رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ::: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) نے اللہ کو دو  مرتبہ  اپنے دِل سے  دیکھا """، صحیح مُسلم /کتاب الایمان /باب 79 مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى) وَهَلْ رَأَى النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- رَبَّهُ لَيْلَةَ الإِسْرَاءِ ،
یہ مذکورہ بالا روایت تو ابی العالیہ رحمہُ اللہ  سے ہے ،
اور اِسی باب میں اِس سے پہلے عطاء رحمہُ اللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اِس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ """ رَآهُ بِقَلْبِهِ:::  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) نے اللہ  تعالیٰ کو  اپنے دِل سے  دیکھا """،
یعنی ، دو تابعین رحمہما اللہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بات سُنی ،
اور یہی بات دُرُست ہے ، کیونکہ یہی بات اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ  کے مُطابق ہے ، جِس کی ایک اور تائید ی تفسیر  اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا  نے بیان کی ہے ، جِسے ابھی ابھی ذِکر کر گذرا ہوں ، اور اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ تفسیر کچھ مختلف الفاظ میں صحیح مُسلم  کے اِسی باب میں بھی مروی ہے ،
چونکہ یہ بات کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب ، اللہ جلّ جلالہُ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دِیکھا ، ہی حق ہے ،   اِسی لیے اِس بات  کے خِلاف کِسی صحابی رضی اللہ عنہ ُ سے بھی کچھ ثابت نہیں ہوتا ،
رہا معاملہ امام احمد رحمہُ اللہ کی اِس بات کا کہ وہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کو مانتے ہیں ، تو اِس کا بھی وہی معنی    ٰ سمجھا جائے گا  جو قران کریم کی آیات شریفہ ، صحیح ثابت شُدہ احادیث شریفہ ،  اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال کے مُطابق ہے کہ """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ذات شریف کو اپنے چہرہ مُبارک پر موجود آنکھوں سے  نہیں دیکھا ، بلکہ اپنے دِل کی آنکھوں سے اُس کا مشاہدہ کیا """،
اب اگر بات کی جائے اُس مشاہدے کی کیفیت کی تو  وہ محض تخمینہ بازی ہو گی، کیونکہ اُس کی کوئی تفصیل ہمیں اللہ پاک یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نہیں بتائی گئی ،
اِن سچی کھری خبروں کے بعد  بھی ، اگر  اللہ کا کوئی  بندہ ، کِسی ضعیف ، کمزور ، ناقابل حجت ، غیر مصدقہ ، اور بلادلیل و سند باتوں کی بِناء پر اپنا عقیدہ اپنائے تو ہم اُس کے لیے دُعاء ہی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے قصے کہانیوں ، حکایات اور خیالات کے بھنور سے نکلنے ، اور  حق سچ قُبول کرنے کی ہمت عطاء فرمائے ،
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
طلب گارء دُعاء ،
عادِل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 28/07/1438 ہجری، بمُطابق، 25/04/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment