صفحات

Tuesday, February 27, 2018

::: دِینی مُعاملات کی خود ساختہ تعبیریں اور باطل تاویلیں :::

::: دِینی مُعاملات کی خود ساختہ تعبیریں اور باطل تاویلیں   :::
بِسمِ اللَّہِ الرّحمٰنِ الرَّحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلاَ هَادِىَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ،
کِسی بھائی نے ایک ویڈیو کلپ میں کہی گئی باتوں کے بارے میں وضاحت طلب فرمائی ،  یہ کلپ غالباً کِسی مووی (فلم ) کا تھا ،  جِس میں  کِسی ادکار کو ایک مولوی  کے روپ میں عدالت کٹہرے میں کھڑا کر کے ، کہلوانے والوں نے  اُس کے  منہ ُ سے اپنی مرضی کے مُطابق  ، قران کریم کے مفاہیم ، اور اِسلامی احکام  وتعلیمات کی مختلف تشریحات کہلوائی ہیں ، 
اِس میں  جو کچھ کہا گیا ہے اُس کا مقصد بڑا صاف ہے ، اور وہ یہ کہ ،  اللہ تعالیٰ کے دِین کے احکامات کی خود ساختہ تعبیریں ، شرح اور تفسیر   پیش کر کے ، دِین کے اُن معاملات کے اُن حقیقی احکام سے دُور کیا جائے ، جو احکام اللہ عزّ و جلّ نے خُود اپنے کلام پاک قران کریم میں نازل فرمائے ، یا ، اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ادا کروائے ، یا ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے عمل شریف کے طور پر ظاہر فرمائے ، تا کہ ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اُمتی ، اپنے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ ، اور اپنے  خلیل  محمد رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے احکامات ، اور تعلیمات کو اللہ کے مطلوب ، اور اُس کے رضا کے حصول کے مُطابق سمجھیں اور اُسی کے مُطابق عمل کریں ،
میں یہاں اُن ہی مُعاملات کا ذِکر کروں گا ، جن کا ذِکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی مخالف باتوں پر مبنی اِس  منفی ، تخریبی  اور غیر اِسلامی سوچ پیدا کرنے والے ویڈیو کلپ میں کیا گیا ہے ،
ہر ایک بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ یہ جانیے کہ وہ بات کِس کی ہے ؟؟؟
اور بات کہنے والے کا کیا مُقام ہے ؟؟؟
جِس معاملے یا مسئلے کے بارے میں وہ بات کر  رہا ہے ، اُس کے بارے میں  بات کرنے والا کا عِلم کتنا ہے ؟؟؟
اور جو بات وہ کر رہا ہے اُس بات کو جانچنے پرکھنے کی کِسوٹیاں کیا ہیں ؟؟؟
اور جس کی بات یا  جس کے معاملے کے  بارے میں وہ شخص بات کر رہا ہے  وہ کون ہے ؟؟؟
جی ، تو اِس ویڈیو کلپ میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دِین کے بارے میں ہیں ،دِین سے وابستہ مُعاملات کے بارے میں ہیں ، اور اللہ کے دِین کو ، دِین کے معاملات کو کِسی کی  بھی سوچ ، رائے، فلسفے یا منطق وغیرہ کے مُطابق  سمجھا جانا سوائے گمراہی اور کچھ نہیں ،
یاد رکھیے ، اور خوُب اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ اللہ عزّ و جلّ کی باتوں کو ، اللہ سُبحانہ  ُ و تعالیٰ کے دِین کو ، دِین کے معاملات کو ،  صِرف اور صِر ف اللہ تعالیٰ کی  ہی باتوں سے ، اور اُسی کی طرف سے مُقرر کردہ مصادر کے ذریعے اُن باتوں کو  سمجھا جانا ہی حق ہے  اُس کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے وہ فقط گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ،
اور یہ بھی کہ ، مُسلمان کی زندگی کا کوئی بھی معاملہ  اللہ کے دِین سے خارج نہیں ہوتا ،  مُعاشرتی ہو، مالی ہو،  خاندانی ہو، یا ذاتی ہو،
لہذا ، ہر ایک مُسلمان کو یہ بات اپنے دِل و دِماغ پر نقش کر لینی چاہیے کہ ،اُسے اُس کے اکیلے خالق و مالک  اللہ عزّ و جل نے   اُس کی زندگی کا کوئی بھی کام اُس کے خالق و مالک  کے احکامات سے خارج  ہو کر کرنے کی اجازت نہیں  دِی ،
اور ہر ایک معاملے میں اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دِیا ہے ،
یہاں سے آگے کی بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے درج ذیل مضمون کا مطالعہ کرتے آیے ، اِن شاء اللہ خیر اور  آسانی کا سبب ہو گا ::: ہر کام میں اِسلام کیوں ؟ ::: یہ مضمون مذکورہ  ربط پر میسر ہے : http://bit.ly/29vV1Vo
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آتے ہیں ویڈیو کلپ میں کی گئی باتوں کی طرف ،
اِس ویڈیو کلپ میں ، داڑھی ، اور لِباس   کے معاملات کو کچھ اِس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ گویا یہ معاملات دِین میں سے نہیں ہیں ، اِس لیے جِس کو جو مرضی پہنے ، اور داڑھی مونڈھتا رہے تو کوئی حرج نہیں ،
پہلے  تو لِباس کے بارے میں جان لیجیے کہ ، یہ  کوئی ایسا معاشرتی معاملہ میں نہیں جِسے کِسی بھی طرح سے مکمل کرنے کی اجازت ہو ، جی ہاں ،   کِسی بھی مُسلمان  کو اپنے لیے کوئی بھی لِباس اختیار کرنے کی کھلی چُھوٹ نہیں ہے ، بلکہ درج ذیل شرائط  ہیں، اگر کوئی   مُسلمان اِن شرائط کو پورے بغیر کوئی لِباس اِستعمال کرتا ہے تو وہ گناہ کا مُرتکب ہوتا ہے:::
::: ( 1 ) :::  لِباس ایسا باریک   یا شفاف کپڑے کا نہ ہو جِس میں سے جِسم نظر آئے،
::: ( 2 ) :::لِباس ایسا چُست نہ ہو ، اور نہ ہی ایسے انداز میں ہو ، جِس میں سے پہننے والے کی جسامت معلوم ہوتی ہو ،  جیسا کہ پتلون ، تنگ قمیض اور پاجامہ وغیرہ ،
::: ( 3 ) :::  لِباس کافروں کی مُشابہت والا نہ ہو ،
::: ( 4 ) :::لِباس شہرت والا نہ ہو ، یعنی ایسا لِباس نہ ہو جو معاشرے میں غیر معروف ہو، اور لوگ اُس کی طرف متوجہ ہوتے رہیں،
::: ( 5 ) :::  مَردوں کا لِباس عورتوں کے لِباس سے مُشابہت نہ کرتا ہو ، اور عورتوں کا لِباس مَردوں کے لِباس سے مُشابہت نہ کرتا ہو ،
::: ( 6 ) :::   مَردوں کا لِباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو، اور عورتوں کا لِباس ٹخنوں سے اونچا نہ ہو،
یہ  سب  مذکورہ  بالا شرائط ، اور پابندیاں کِسی کی ذاتی سوچ و فلسفے کا شاخسانہ نہیں ہیں ، بلکہ  سب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ میں سے احکام موجود ہیں ، مضمون کو مختصر رکھنے کے لیے اُن کا ذِکر نہیں کیا جا رہا،  
 یاد رکھیے ، جس  اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت نازل فرمائی ، اور اُس شریعت میں احکام نازل فرمائے ، وہ اللہ تعالٰی اپنی تمام تر مخلوق سے زیادہ اور یقینی طور پر جانتا ہے کہ اُس کے بندے دُنیا کے کون کون سے خطے میں رہیں گے ، کوئی سوئٹزر لینڈ کی برفوں میں رہتا ہو ، یا عرب کے صحراؤں میں ،  اُسے لِباس اختیار کرنے کے لیے اِن شرائط کو پورا کرنا ہی ہے ،
دُنیا کے کِسی بھی علاقے کے موسمی حالات  اِن شرائط کو پورے کرنے میں مانع نہیں ہیں ، جو کوئی موسمی حالات کا دھوکہ دے کر کوئی سا بھی لِباس اِستعمال  کرنے کی بات کرتا ہے ، وہ گویا معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ کی شریعت کے احکام کو ناقص قرار دیتا ہے اور اپنی عقل کو مکمل ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس کے بعد آتے ہیں ، داڑھی کے مسئلے کی طرف تو ، داڑھی رکھنا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حکم ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حکم فرض ہوتا ہے ، کِسی کے کِسی  فسلفے کی بنا پر  حکم ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی فرضیت  ختم نہیں ہو سکتی،
اور نہ داڑھی رکھنے کے لیے کوئی خاص مرحلہ مقرر کیا گیا ہے کہ جب تک وہ مرحلہ تہہ نہیں ہوتا داڑھی نہیں رکھنی چاہیے ،
اِس ویڈیو کلپ میں ایک فلسفہ بِگھارتے ہوئے داڑھی  رکھنے کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی انتہاء کہا گیا ، یعنی ، داڑھی اُس وقت رکھی جائے جب کوئی یہ یقین پا لے کہ وہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی انتہاء پر پہنچ گیا ہے ،
(کلپ میں محبت نہیں عِشق کہا گیا ہے ، میں نے محبت لکھا ہے کیونکہ عشق کی نسبت اللہ جلّ جلالہُ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کرنا قطعا نا مُناسب ہے )
کوئی اِن لوگوں  کو بتائے کہ محبت کا آغاز ہی محبوب کی اِتباع اور پیروی سے ہوتا ہے ،  اِظہارءِ محبت کے لیے ہی محبوب  کی نقالی کی جاتی ہے ، کہ ہر دیکھنے والا جان لے کہ میرا محبوب کون ہے ،
لہذا جب کوئی  محبت رسول ، کا دعوی یا خام خیالی  رکھتے ہوئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام پر اپنی مرضی سے عمل کرتا ہو  تو یقینی بات ہے کہ وہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی انتہاء تو کیا ابتداء تک بھی نہ پہنچا ہوتا  ،  
کوئی اِن لوگوں سے پوچھے کہ ، اپنی خود خیالی والی   انتہاء تک پہنچنے سے پہلے اگر تمہاری زندگی اپنی انتہاء تک  جا پہنچی تو پھر تمہاری انتہاء کیا ہو گی ؟؟؟
اللہ تعالٰی اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم  کی تابع داری کرنے والوں کا مُقام اللہ عزّ و جلّ  کی جنّت ، یا نافرمانوں کا مُقام ، جہنم ؟؟؟ 
اور ، اگر کوئی شخص  داڑھی رکھے ہوئے ہے ، یا نماز پڑھتا ہے ، اور حج بھی کر چکا ہے ، اور دیگر دینی فرائض پورے کرنے کے ساتھ ساتھ  کوئی  گناہ بھی کرتا ہے تو  وہ گناہ کرنے کی وجہ سے داڑھی رکھنے کے حکم سے، یا کِسی بھی اور حکم پر عمل کرنے سے  رُوگردانی نہیں کی جا سکتی ،
اُس کلپ میں داڑھی  لگا کر شاید عالم دِین کا بہروپ بھرنے والے بہروپیے نے داڑھی سے متنفر کرنے کے لیے ابو جہل کی داڑھی کا ذِکر بھی کیا ہے ،
اس کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ،  جی ہاں داڑھی تو ابو جہل کی بھی تھی ، لیکن اُس نے وہ داڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع داری میں نہیں  رکھی تھی ، جیسا کہ آج بھی بہت سے کافر داڑھیاں رکھتے ہیں ، پس اُن کا داڑھی رکھنا اور کِسی مُسلمان کا داڑھی رکھنا دونوں بالکل الگ معاملات ہیں ، اِنہیں ایک ہی جیسا   دِکھانے سمجھانے کی کوشش ،  گمراہی پھیلانے کی سوچی سمجھی  کوشش ہے ،
ہماری ترتیب بالکل سیدھی ہے ، باطن کی تبدیلی کا اثر خود بخود ظاہر  ہوتا ہے ، اور اگر کوئی منافق ہے اور اپنا ظاھر تبدیل کرتا ہے تو اُس کی وجہ سے باقی لوگوں کو ظاھر کی تبدیلی سے روکا جانا ایک اور شیطانی چال ہے ،
کہا گیا کہ "اِسلام یا میوزک ، اِسلام یا پتلون  ، میں سے یا نکال دو"، یعنی، اِسلام میوزک بنا لو، اور اِسلام پتلون بنا لو،  إِنّا لِلّہِ و إِنَّا إِلیہِ راجِعُون ،
  شدید دُکھ ہے کہ ہماری صفوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کے دِین اِسلام کو وہی کچھ کہتے ہیں جو کچھ اِس اِسلام میں ناجائز ہے ، اور ہم  مُسلمان اپنے ہی دِین کے بارے میں اپنی  کم علمی کی وجہ  اُن کی باتوں سے متاثر ہو  کر خوشی خوشی  اپنے لیے دُنیا اور آخرت کی ذِلت اور تباہی اختیار    کر لیتے ہیں ،
اُس  فلمی منظر میں یہ سوالات بھی داغے گئے کہ اِسلام کی خدمت کِس نے کی ؟؟؟ اور اِسلام کے لیے اللہ نے کِس سے کام لیا؟؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ، اِس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے ، لیکن ہمیں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اگر   دِین اِسلام کے احکامات پر عمل نہ کرنے والے کِسی شخص سے اِسلام کے حق میں کوئی کام ہو جائے تو وہ اللہ کی حکمت ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے خبر اداکروائی ہے کہ (((إِنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ :::  یقیناً  جنّت میں مُسلمان کے عِلاوہ اور کوئی داخل نہ ہوگا، اور یقیناً اللہ اِس دِین کو فاجر شخص کے ذریعے بھی تقویت دِلواتا ہے))) صحیح بخاری /حدیث /3062 کتاب الجِہاد و السیر /باب182 إنَّ الله يؤيد الدين بالرجل الفاجر ، صحیح مُسلم /حدیث /319 کتاب الاِیمان /باب49،
تو یہ اللہ کی حکمت ہے کہ وہ کِس سے اپنے دِین کا کوئی کام لیتا ہے ،
لہذا  ہمارے لیے اِس کی کوئی گنجائش نہیں کہ  کِسی فاسق و فاجر شخص کے  ذریعے اِسلام کا کوئی کام ہوجانے کی وجہ سے ہم اُس کے غیر اِسلامی  کاموں کو  جائز  سمجھیں سراہیں یا اپنائیں،  اور نہ ہی ایسے  کِسی شخص کے ذریعے دِین کا کوئی کام ہوجانا اُس کے خِلاف دِین کاموں سے بخشش کا سبب سمجھا جا سکتا ہے ، فیصلے والے دِن اللہ جِس کا جو فیصلہ چاہے  گا فرمائے گا ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اُس کا دِین اُسی طرح سمجھنے ، ماننے ، اپنانے کی جرأت عطاء فرمائے جِس طرح اُس نے وہ دِین اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا ،  اور اُسی طرح اُس  پر عمل کی ہمت دے جِس طرح اُسے مطلوب ہے ، اور ہر شر   کو پہچاننے ، اُس سے بچنے ، اور بچانے کی طاقت عطاء فرمائے۔ والسلام علیکم۔
طلبگار ء دُعاء ، آپ کا بھائی ،  عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 17/04/1438 ہجری ، بمطابق ، 15/02/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Sunday, February 25, 2018

::: اِنسانیت اللہ تعالیٰ کے اِن احکام پر عمل کی شدید مُحتاج ہے :::

::::::: اِنسانیت اللہ  تعالیٰ کے اِن احکام پر عمل کی شدید مُحتاج ہے :::::::
بِسّم اللَّہِ و الحَمدُ  لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ، ولا رسولَ ، ولا مَعصوم۔
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں، کوئی رسول نہیں ، کوئی معصوم نہیں۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا::: اے اِیمان لے آنے والو، اِنصاف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے  رہنے والے بنو ، (اور)اللہ کی خاطر (سچی)گواہی دینے والے بنو ، خواہ وہ گواہی تُمہاری اپنی جانوں کے خِلاف ہو ، یا( تُمہارے )ماں باپ کے خِلاف ہو ، یا (تُمہارے ) قریبی لوگوں(رشتہ داروں، دوستوں )کے خِلاف ہو،(دو فریقین میں سے)اگر کوئی مالدار ہے یا کوئی غریب ہے تو  (تُم لوگوں کو اُن کی خیر خواہی میں سچی گواہی دینے سے رُکنا نہیں ، یاد رکھو کہ بلا شک )اللہ اُن کا زیادہ خیر خواہ ہے ، لہذا تُم لوگ  دِل کی خواہشات کے پیچھے چل کر اِنصاف اور سچائی کی روش نہ چھوڑنا ،اور اگر تُم لوگوں نے گول مول بات کی یا سچ کہنے سے بچنے کی کوشش کی تو(یاد رکھو کہ) تم لوگ جو کچھ بھی   کرتے ہویقیناً اللہ اُس کی خبر رکھتا  ہے سُورت النساء(4)/آیت 135،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ::: اے اِیمان لے آنے والو، مضبوطی کے ساتھ  اللہ کی خاطر  کھڑے رہنے والے بنو ، (اور)اِنصاف کے ساتھ (سچی)گواہی دینے والے بنو، اور کِسی قوم کی دشمنی تُم لوگوں کو اِس راہ پر نہ لے چلے کہ تُم لوگ اِنصاف نہ کرو ، (بلکہ ہمیشہ ) اِنصاف کرو ، ایسا کرنا ہی تقویٰ (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کی کوشش ) کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچتے  رہو ، بے شک جو بھی  کچھ تُم لوگ کرتے ہوئے اللہ اُس کی خبر رکھتا ہے سُورت المائدہ(5)/آیت 8،
قارئین کرام ، غور کیجیے کہ یہ دونوں فرامین عام انداز میں نہیں فرمائے گئے ، بلکہ ساری مخلوق کے اکیلے ، لاشریک خالق و مالک نے اپنی تمام تر مخلوق میں سے خصوصی طور پر اِیمان والوں کوپُکار کر ،  اُنہیں مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ فرماتے ہوئے فرمائے ہیں ،
جب ہم اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ  کی عطاء کردہ توفیق کے ذریعے ، اپنے آپ کو اپنی عقل کی گمراہیوں ، اپنے نفس کی دسیسہ کاریوں ، اپنے دِل کی خوش فہمیوں ، اپنے دِماغ کی تخلیاتی پروازوں ، کتاب و سُنّت کی مُخالفت پر مبنی سوچوں کو ، اور دیگر ایسی تمام خرافات کو جو اللہ جلّ جلالہُ کے مقرر کردہ منہج سے بھٹکانے والی ہیں ، اِن سب ہی  گمراہ کرنے والے اسباب سے خود کو  دور  رکھتےہوئے  اللہ جلّ و عزّ کے اِن دو مذکورہ بالا فرامین مُبارکہ میں تدبر کرتے ہیں ، اور اللہ پاک  اور اُس کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  کے مُقررکردہ منھج کے مُطابق تدبر کرتے ہیں ، ،، تو ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اُس کے اِیمان والے بندوں کو اِس طرح نِداء دینے  میں درج ذیل حِکمتیں سمجھ میں آتی ہیں  :::
::::::: ایک یہ حِکمت سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ اُس کے اِیمان والے بندے اُس کی نِداء کی طرف یُوں متوجہ ہو جائیں کہ اُن کے دِل و دِماغ ، جسم و رُوح ، ظاہر و باطن سب ہی یکسوئی کے ساتھ گویا کہ کان بن جائیں اور  ان فرامین کو فوراً کِسی ہیچ پیچ کے بغیر قُبول کر لیں ،
::::::: اور یہ حِکمت بھی سمجھ آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اپنی اس نِداء کو ، اِس پُکار کو  گویا کہ ایک کسوٹی بھی بنایا کہ جو کوئی درحقیقت اِیمان والا نہ ہو گا ، یا کمزور اِیمان والا ہوگا ، اللہ کی اِس پُکار پر اُس کا عمل اُس کا بھید کھول دے گا ،
::::::: اور یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے اِن فرامین مُبارکہ میں اپنے اِیمان والے بندوں کو پُکارتے ہوئے﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ::: اے اِیمان لے آنے والوفرماتے ہوئے ، اپنے اِرشادات کا آغاز فرمایا اور اِن کے بعد  دو حکم فرمائے ﴿ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ ::: اے اِیمان لے آنے والو، اِنصاف کے لیے ڈٹ کر کھڑے  رہنے والے بنو ، (اور)اللہ کی خاطر (سچی)گواہی دینے والے بنو
﴿ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ::: اے اِیمان لے آنے والو، مضبوطی کے ساتھ  اللہ کی خاطر  کھڑے رہنے والے بنو ، (اور)اِنصاف کے ساتھ (سچی)گواہی دینے والے بنو
::::::: (1) صرف اللہ کی رضا کے لیے ،  اِنصاف کرنا اور اِنصاف کرنے میں مددگار رہنا ، اور ،
::::::: (2) سچی گواہی دینا ،
::::::: اور اِن دونوں احکامات پر مضبوطی کے ساتھ ، کِسی ظاہری اور باطنی کمزوری کے بغیر ، کِسی لگاؤ ، قُرب ، اور رشتہ داری کی پرواہ کیے بغیر عمل کرنے اور کرتے رہنے کا حکم صادر فرمایا ،
::::::: اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُس کی ناراضگی اور عذاب کا حق دار ہو جانے کی خبر بھی سنائی ، اور آخر میں اِس حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ ہمارا کوئی ظاہری یا باطنی ، قلبی یا بدنی عمل اُس کے علم سے خارج نہیں رہتا ، لہذا ہم کوئی بہانے بازی کر کے اپنی بدعملی کا عُذر نہیں بنا سکیں گے،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے اِن دو فرامین مُبارکہ  میں ہمیں بین الاقوامی ، بین الانسانی مُعاشرے کو اِنتہائی مثبت طور پر  تعمیر کرنے اور اِس مُعاشرے کو  مُستقل طور پر بہترین انداز میں برقرار رکھنے کی تعلیم  بھی عطاء فرمائی ہے  ، جو کہ مُعاشرے کے افراد کے درمیان  صِرف اور صِرف حق اور سچ کی بِناء پر ایک دُوسرے کے لیے ہمدردی اور ایک دُوسرے کے حقوق کی حِفاظت کی تعلیم عطاء فرمائی ہے ،
:::::::  جِس کے یقینی نتیجے کے طور پر اِن تعلیمات پر عمل کرنے والے مُعاشرے میں حقیقی طور پر عِزت والے اور محبوب لوگ ہوتے ہیں ، جیسا کہ اوائل اِسلام کے مُسلمان تھے ،
افسوس کہ اب مُسلمانوں کی نِسبت کفار میں یہ صِفات زیادہ نظر آتی ہیں ، اور اِن صِفات کے حامل لوگ اپنی اپنی مُقامی مُعاشرتی زندگی میں با عِزت اور محبوب ہوتے ہیں،  اور مُسلمان کا اب حق گوئی سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا ہے پس وہ اپنے مُقامی مُعاشرے میں بھی اور بین الاقوامی مُعاشرے میں بھی ناقابل اعتماد اور بے عِزت اور مکروہ شخصیت سمجھا جا رہا ہے ،  ولا حول و لا قوۃ الا باللَّہ ، وھوالمُستعان و اِلیہِ أشتکی ،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ ، اِن دو احکامات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اِیمان والے بندوں کو ، اُس کی ایک صِفت """ اِنصاف """ کو اُسی طرح نافذکرنے اور کیے ہی رکھنے کا حکم دِیا ہے کہ  جِس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کِسی کے کِسی رُتبے ، کِسی کمی ، کِسی بڑائی ، کِسی قرب ، کِسی دُوری کی تمیز کے بغیر اِنصاف کرتا ہے ،
لہذا  ہر مُسلمان کے لیے یہ فرض کیا گیا کہ وہ کِسی رشتہ داری ، کِسی دوستی ، کِسی جماعتی تعلق داری  ، کِسی مسلکی مذھبی تعلق داری ، کِسی قُرب کی وجہ سے ، یا کِسی لا تعلقی ، کِسی دُشمنی ، کِسی غیر جماعتی تعلق ، کِسی کی غُربت یا کِسی کی امیری ، کِسی کی طاقت وری  یا کِسی کی کمزوری  ، یا کِسی دُوسرے مذھب و مسلک کی بنا پر کِسی کے ساتھ نا انصافی نہ کرے ، کِسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دے ، یا سچی گواہی دینے سے رُک نہ جائے  ،
حتیٰ کہ اگر وہ یہ خیال رکھتا ہو کہ اُس کے گواہی نہ دینے سے ، یا گواہی بدل دینے سے کِسی غریب کا ، یا کِسی اپنے کا بھلا ہو سکتا ہے تو بھی اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ حق کے ساتھ اِنصاف کرنے اور حق کے ساتھ سچی اور مکمل بات کرنے اور گواہی دینے کا حُکم دیا گیا ہے ،  
پس کِسی مُسلمان کے لیے یہ جائز نہیں رکھا گیا کہ وہ کِسی کی بھی حق تلفی کرے ، بلکہ ہر ایک اِنسان کے ساتھ اِنصاف والے معاملات کیے جانے کا  حکم دیا گیا ہے ،
یہاں ہمیں یہ بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اِنصاف کرنے میں اپنی ذات کو بھی ایک فریق کی طرح ہی سمجھا جانا چاہیے ، اور اگر اللہ کی شریعت کے مُطابق ہم حق پر ہیں تو ہمیں اپنے حق برداری کے لیے کِسی کمزوری کا مُظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ، جی ہاں ، اگر ہم اپنے کِسی مُسلمان بھائی کے ساتھ عفو و درگذر والا معاملہ کرتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دیں تو وہ زیادہ بہتری والا معاملہ ہے ،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ ، اِن دو احکامات میں اِیمان والوں کے لیے  اُن کے اندر مضبوطی کے ساتھ وہ صِفات برقرار رکھنے کی تربیت بھی ہے کہ جِن  صِفات کی مُوجودگی  اللہ تبارک و تعالیٰ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اِیمان والوں کی صِفات میں ہونا لازمی ہے کہ جِس اِیمان والے میں یہ صِفات نہ ہوں گی وہ خِلافت ءِاِلہی کے حق داروں میں سے نہیں ہو سکتا ،  بلکہ عین ممکن ہے کہ اِیمان والا ہونے کے باوجود ،  اپنے اِرادے کے بغیر زمین میں فساد پھیلانے والوں میں سے ہو جائے،
مُسلمانوں میں اِن دو صِفات کا فقدان بھی اُن أہم اسباب میں ایک سبب ہے جِس کی بِناء پر اِیمان والوں کے علاوہ  دُوسروں( جو کہ کافر ، مُشرک یا مُنافق ہوتے ہیں)کو خِلافت اللہ فی الارض کا مُستحق سمجھا جانے لگا ، یا کِسی کو دُنیاوی قوت اور دُنیا کے وسائل پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے خلیفۃ اللہ سمجھنے کی فاش غلطی  کا اِظہار ہونے لگا ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مُبارکہ اور اللہ کے رسول کریم  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات ( جو کہ اللہ کی طرف سے ہی ہیں ) کے خِلاف ہے ،
اللہ ہی ہم سب کو ، ہر ایک کلمہ گو ، ہر ایک انسان کو ہر شر سے محفوظ رکھنے پر قادر ہے ،
اب اگر مُسلمان پھر سے  اپنے رب کے اِن احکامات پر عمل درآمد شروع کر دیں ، تو اِنسانیت  کے اُسی امتیاز اور عُروج تک پہنچ سکتے ہیں جِس تک اُمت کے پہلے لوگ پہنچے تھے ، اِسلام اُسی طرح پھر سے پنپ سکتا ہے اور دُکھتی ، سِسکتی اِنسانیت ایک دفعہ پھر بے درد  اور پُر سُکون ہو سکتی ہے ، پس جان لیجیے، مان لیجیے کہ  مُسلمان خصوصی طور پر اور ساری ہی  اِنسانیت عمومی طور پر اللہ کے اِن احکام پر عمل کی شدید ترین حاجت میں ہیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃ  ُ اللہ و برکاتہ ُ،
 طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 13/11/1437ہجری، بمُطابق، 16/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔