:::::::
اِنسانیت اللہ تعالیٰ کے اِن احکام پر عمل
کی شدید مُحتاج ہے :::::::
بِسّم اللَّہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی
مَن لا نَبی بَعدَہ ُ، ولا رسولَ ، ولا مَعصوم۔
اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف
صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور
سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں، کوئی رسول نہیں ، کوئی معصوم نہیں۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ﴿يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ
عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا
أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ
تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا
تَعْمَلُونَ خَبِيرًا:::
اے اِیمان لے آنے والو، اِنصاف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے والے بنو ، (اور)اللہ کی خاطر (سچی)گواہی
دینے والے بنو ، خواہ وہ گواہی تُمہاری اپنی جانوں کے خِلاف ہو ، یا( تُمہارے )ماں
باپ کے خِلاف ہو ، یا (تُمہارے ) قریبی لوگوں(رشتہ داروں، دوستوں )کے خِلاف ہو،(دو
فریقین میں سے)اگر کوئی مالدار ہے یا کوئی غریب ہے تو (تُم لوگوں کو اُن کی خیر خواہی میں سچی گواہی
دینے سے رُکنا نہیں ، یاد رکھو کہ بلا شک )اللہ اُن کا زیادہ خیر خواہ ہے ، لہذا
تُم لوگ دِل کی خواہشات کے پیچھے چل کر اِنصاف
اور سچائی کی روش نہ چھوڑنا ،اور اگر تُم لوگوں نے گول مول بات کی یا سچ کہنے سے
بچنے کی کوشش کی تو(یاد رکھو کہ) تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہویقیناً
اللہ اُس کی خبر رکھتا ہے ﴾سُورت النساء(4)/آیت 135،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ
لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ::: اے اِیمان لے آنے والو، مضبوطی کے ساتھ اللہ کی خاطر
کھڑے رہنے والے بنو ، (اور)اِنصاف کے ساتھ (سچی)گواہی دینے والے بنو، اور کِسی
قوم کی دشمنی تُم لوگوں کو اِس راہ پر نہ لے چلے کہ تُم لوگ اِنصاف نہ کرو ، (بلکہ
ہمیشہ ) اِنصاف کرو ، ایسا کرنا ہی تقویٰ (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کی
کوشش ) کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچتے رہو ، بے شک جو بھی کچھ تُم لوگ کرتے ہوئے اللہ اُس کی خبر رکھتا ہے
﴾ سُورت المائدہ(5)/آیت 8،
قارئین کرام ، غور کیجیے کہ یہ دونوں فرامین عام انداز میں
نہیں فرمائے گئے ، بلکہ ساری مخلوق کے اکیلے ، لاشریک خالق و مالک نے اپنی تمام تر
مخلوق میں سے خصوصی طور پر اِیمان والوں کوپُکار کر ، اُنہیں مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ فرماتے
ہوئے فرمائے ہیں ،
جب ہم اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق کے ذریعے ، اپنے آپ کو اپنی
عقل کی گمراہیوں ، اپنے نفس کی دسیسہ کاریوں ، اپنے دِل کی خوش فہمیوں ، اپنے
دِماغ کی تخلیاتی پروازوں ، کتاب و سُنّت کی مُخالفت پر مبنی سوچوں کو ، اور دیگر
ایسی تمام خرافات کو جو اللہ جلّ جلالہُ کے مقرر کردہ منہج سے بھٹکانے والی ہیں ،
اِن سب ہی گمراہ کرنے والے اسباب سے خود کو دور رکھتےہوئے
اللہ جلّ و عزّ کے اِن دو مذکورہ بالا فرامین مُبارکہ میں تدبر کرتے ہیں ،
اور اللہ پاک اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مُقررکردہ منھج کے مُطابق تدبر کرتے ہیں ،
،، تو ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اُس کے اِیمان والے بندوں کو اِس طرح
نِداء دینے میں درج ذیل حِکمتیں سمجھ میں
آتی ہیں :::
::::::: ایک یہ حِکمت سمجھ میں آتی ہے کہ
اللہ تبارک و تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ اُس کے اِیمان والے بندے اُس کی نِداء کی
طرف یُوں متوجہ ہو جائیں کہ اُن کے دِل و دِماغ ، جسم و رُوح ، ظاہر و باطن سب ہی
یکسوئی کے ساتھ گویا کہ کان بن جائیں اور ان فرامین کو فوراً کِسی ہیچ پیچ کے بغیر قُبول
کر لیں ،
::::::: اور یہ حِکمت بھی سمجھ آتی ہے
کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس نِداء کو
، اِس پُکار کو گویا کہ ایک کسوٹی بھی
بنایا کہ جو کوئی درحقیقت اِیمان والا نہ ہو گا ، یا کمزور اِیمان والا ہوگا ،
اللہ کی اِس پُکار پر اُس کا عمل اُس کا بھید کھول دے گا ،
::::::: اور یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ اللہ
جلّ جلالہُ نے اپنے اِن فرامین مُبارکہ میں اپنے اِیمان والے بندوں کو پُکارتے
ہوئے﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ::: اے اِیمان لے آنے والو﴾فرماتے ہوئے ، اپنے اِرشادات کا آغاز فرمایا اور اِن کے بعد
دو حکم فرمائے ﴿ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ :::
اے اِیمان لے آنے والو، اِنصاف کے لیے ڈٹ کر کھڑے
رہنے والے بنو ، (اور)اللہ کی خاطر (سچی)گواہی دینے والے بنو ﴾
﴿ كُونُوا قَوَّامِينَ
لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ::: اے اِیمان لے آنے والو، مضبوطی کے ساتھ اللہ کی خاطر کھڑے رہنے والے بنو ، (اور)اِنصاف کے ساتھ (سچی)گواہی
دینے والے بنو﴾
::::::: (1) صرف اللہ کی
رضا کے لیے ، اِنصاف کرنا اور اِنصاف کرنے
میں مددگار رہنا ، اور ،
::::::: (2) سچی گواہی
دینا ،
::::::: اور اِن دونوں احکامات پر
مضبوطی کے ساتھ ، کِسی ظاہری اور باطنی کمزوری کے بغیر ، کِسی لگاؤ ، قُرب ، اور
رشتہ داری کی پرواہ کیے بغیر عمل کرنے اور کرتے رہنے کا حکم صادر فرمایا ،
::::::: اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں
اُس کی ناراضگی اور عذاب کا حق دار ہو جانے کی خبر بھی سنائی ، اور آخر میں اِس
حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ ہمارا کوئی ظاہری یا باطنی ، قلبی یا بدنی
عمل اُس کے علم سے خارج نہیں رہتا ، لہذا ہم کوئی بہانے بازی کر کے اپنی بدعملی کا
عُذر نہیں بنا سکیں گے،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ اللہ
پاک نے اپنے اِن دو فرامین مُبارکہ میں
ہمیں بین الاقوامی ، بین الانسانی مُعاشرے کو اِنتہائی مثبت طور پر تعمیر کرنے اور اِس مُعاشرے کو مُستقل طور پر بہترین انداز میں برقرار رکھنے
کی تعلیم بھی عطاء فرمائی ہے ، جو کہ مُعاشرے کے افراد کے درمیان صِرف اور صِرف حق اور سچ کی بِناء پر ایک دُوسرے
کے لیے ہمدردی اور ایک دُوسرے کے حقوق کی حِفاظت کی تعلیم عطاء فرمائی ہے ،
::::::: جِس کے یقینی نتیجے کے طور پر اِن تعلیمات پر
عمل کرنے والے مُعاشرے میں حقیقی طور پر عِزت والے اور محبوب لوگ ہوتے ہیں ، جیسا
کہ اوائل اِسلام کے مُسلمان تھے ،
افسوس کہ اب مُسلمانوں کی نِسبت کفار میں یہ صِفات زیادہ
نظر آتی ہیں ، اور اِن صِفات کے حامل لوگ اپنی اپنی مُقامی مُعاشرتی زندگی میں با
عِزت اور محبوب ہوتے ہیں، اور مُسلمان کا
اب حق گوئی سے تعلق نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا ہے پس وہ اپنے مُقامی مُعاشرے میں
بھی اور بین الاقوامی مُعاشرے میں بھی ناقابل اعتماد اور بے عِزت اور مکروہ شخصیت
سمجھا جا رہا ہے ، ولا حول و لا
قوۃ الا باللَّہ ، وھوالمُستعان و اِلیہِ أشتکی ،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ ، اِن
دو احکامات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اِیمان والے بندوں کو ، اُس کی ایک
صِفت """ اِنصاف """ کو اُسی طرح نافذکرنے اور کیے
ہی رکھنے کا حکم دِیا ہے کہ جِس طرح اللہ
تبارک و تعالیٰ کِسی کے کِسی رُتبے ، کِسی کمی ، کِسی بڑائی ، کِسی قرب ، کِسی
دُوری کی تمیز کے بغیر اِنصاف کرتا ہے ،
لہذا ہر مُسلمان کے
لیے یہ فرض کیا گیا کہ وہ کِسی رشتہ داری ، کِسی دوستی ، کِسی جماعتی تعلق داری ، کِسی مسلکی مذھبی تعلق داری ، کِسی قُرب کی
وجہ سے ، یا کِسی لا تعلقی ، کِسی دُشمنی ، کِسی غیر جماعتی تعلق ، کِسی کی غُربت
یا کِسی کی امیری ، کِسی کی طاقت وری یا کِسی
کی کمزوری ، یا کِسی دُوسرے مذھب و مسلک
کی بنا پر کِسی کے ساتھ نا انصافی نہ کرے ، کِسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دے ، یا
سچی گواہی دینے سے رُک نہ جائے ،
حتیٰ کہ اگر وہ یہ خیال رکھتا ہو کہ اُس کے گواہی نہ دینے
سے ، یا گواہی بدل دینے سے کِسی غریب کا ، یا کِسی اپنے کا بھلا ہو سکتا ہے تو بھی
اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ، بلکہ حق کے ساتھ اِنصاف کرنے اور حق کے ساتھ سچی
اور مکمل بات کرنے اور گواہی دینے کا حُکم دیا گیا ہے ،
پس کِسی مُسلمان کے لیے یہ جائز نہیں رکھا گیا کہ وہ کِسی کی
بھی حق تلفی کرے ، بلکہ ہر ایک اِنسان کے ساتھ اِنصاف والے معاملات کیے جانے کا حکم دیا گیا ہے ،
یہاں ہمیں یہ بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہیے کہ اِنصاف
کرنے میں اپنی ذات کو بھی ایک فریق کی طرح ہی سمجھا جانا چاہیے ، اور اگر اللہ کی
شریعت کے مُطابق ہم حق پر ہیں تو ہمیں اپنے حق برداری کے لیے کِسی کمزوری کا مُظاہرہ
نہیں کرنا چاہیے ، جی ہاں ، اگر ہم اپنے کِسی مُسلمان بھائی کے ساتھ عفو و درگذر
والا معاملہ کرتے ہوئے اپنا حق چھوڑ دیں تو وہ زیادہ بہتری والا معاملہ ہے ،
::::::: اور یہ سمجھ بھی آتی ہے کہ ، اِن
دو احکامات میں اِیمان والوں کے لیے اُن
کے اندر مضبوطی کے ساتھ وہ صِفات برقرار رکھنے کی تربیت بھی ہے کہ جِن صِفات کی مُوجودگی اللہ تبارک و تعالیٰ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے
اِیمان والوں کی صِفات میں ہونا لازمی ہے کہ جِس اِیمان والے میں یہ صِفات نہ ہوں
گی وہ خِلافت ءِاِلہی کے حق داروں میں سے نہیں ہو سکتا ، بلکہ عین ممکن ہے کہ اِیمان والا ہونے کے
باوجود ، اپنے اِرادے کے بغیر زمین میں
فساد پھیلانے والوں میں سے ہو جائے،
مُسلمانوں میں اِن دو صِفات کا فقدان بھی اُن أہم اسباب
میں ایک سبب ہے جِس کی بِناء پر اِیمان والوں کے علاوہ دُوسروں( جو کہ کافر ، مُشرک یا مُنافق ہوتے
ہیں)کو خِلافت اللہ فی الارض کا مُستحق سمجھا جانے لگا ، یا کِسی کو دُنیاوی قوت
اور دُنیا کے وسائل پر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے خلیفۃ اللہ سمجھنے کی فاش غلطی کا اِظہار ہونے لگا ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے
فرامین مُبارکہ اور اللہ کے رسول کریم
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات ( جو کہ اللہ کی طرف سے ہی
ہیں ) کے خِلاف ہے ،
اللہ ہی ہم سب کو ، ہر ایک کلمہ گو ، ہر ایک انسان کو ہر شر
سے محفوظ رکھنے پر قادر ہے ،
اب اگر مُسلمان پھر سے
اپنے رب کے اِن احکامات پر عمل درآمد شروع کر دیں ، تو اِنسانیت کے اُسی امتیاز اور عُروج تک پہنچ سکتے ہیں جِس
تک اُمت کے پہلے لوگ پہنچے تھے ، اِسلام اُسی طرح پھر سے پنپ سکتا ہے اور دُکھتی ،
سِسکتی اِنسانیت ایک دفعہ پھر بے درد اور
پُر سُکون ہو سکتی ہے ، پس جان لیجیے، مان لیجیے کہ مُسلمان خصوصی طور پر اور ساری ہی اِنسانیت عمومی طور پر اللہ کے اِن احکام پر عمل
کی شدید ترین حاجت میں ہیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃ
ُ اللہ و برکاتہ ُ،
طلب گارء دُعاء ، عادِل
سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 13/11/1437ہجری،
بمُطابق، 16/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment