صفحات

Friday, October 18, 2013

جھوٹی روایت، عرب ہونا باعث فخر ، اور اہل جنت کی زبان عربی __ love the arabs, and arabic is the language of heaven, fabricated hadeeth

::::::: جھوٹی روایت، عرب ہونا باعث فخر ، اور اہل جنت کی زبان عربی :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ ،
ہم مسلمانوں میں سے کمزور اِیمان والوں کے  اِیمان کی کمزوری کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس چیز کو اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے جو شرف اور فضیلت عطاء ہوا ، ہم  اُس پر راضی نہیں ہو پاتے ،
لہذا کہیں تو کوئی اپنی گمراہ ، جاھل  عقل، یا اپنے کسی تعصب کی بِناء پر  اُس شرف ، عِزت اور فضیلت کا انکار کرتا ہے ،
اور کہیں کوئی اپنی  کسی ذاتی دلچسپی یا پسند کی بِناء پر کسی چیز یا شخصیت کے لیے اپنے طو ر پر فضیلت گھڑ کر اللہ ، یا اُس کے خلیل رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات سے منسوب کرتا ہے ،
جی ہاں ، ایسی منسوب شدہ باتوں کو بلا تحقیق و تصدیق آگے بڑھانے والے بھی منسوب کرنے والوں کی طرح ہی ہیں ، پس اگر اگر ایسی کوئی خبر صدیوں پہلے بنائی اور نشر کی گئی اور اب تک لوگ اس کی حقیقت جانے بغیر نشر کرتے ہیں تو وہ بھی اُسی کے جیسے ہیں جِس نے پہلے دفعہ جھوٹ نشر کیا ، کیونکہ اُن  پر یہ فرض تھا کہ وہ بات ماننے ، اپنانے اور آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تحقیق اور تصدیق ضرور حاصل کریں ، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جھوٹی بات مان کر ، اپنا کر ، اُسے پھیلا کر جھوٹ بنانے والوں کے کام میں برابر کے شریک ہوئے ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ جی ہم تو علماء کی لکھی ہوئی آگے بڑھاتے ہیں ،  جھوٹ جان پہچان کر تو نہیں بڑھاتے ،
تو ایسے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مبارک یاد کر لینا چاہیے کہ (((((مَنْ يَقُلْ عَلَىَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::جِس نے میرے بارے میں وہ کچھ کہا ، جو میں نے نہیں کہا تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا ))))) صحیح بخاری /حدیث/109کتاب العلم/باب38،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک سے منسوب کیے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ وہ  بھی ہے جِس میں  یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو معاذ اللہ اپنے عرب ہونے پر فخر کرتے ہوئے دکھایا گیا ، اور یہ خبر بنائی گئی کہ """"" اھل جنّت کی ز ُبان عربی ہے """""،
یہ روایت درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے  :::
(((أحبُوا العَرب لِثلاث: لأني عربي، والقرآن عربي، وكلام أهل الجنة عربي ::: عربوں سے تین وجہ سے محبت کرو ، کیونکہ میں عرب ہوں ، اور قران عربی میں ہے ، اور اھل جنّت کی ز ُبان عربی ہے)))،
کسی کتاب میں یہ روایت (((أُحبُ العَرب لِثلاث))) کے الفاظ میں لکھی ملے گی ،
اور دوسری روایت :
(((أنا عربي، والقرآن عربي، ولسان أهل الجنة عربي ::: میں عرب ہوں ، اور قران عربی  ز ُبان میں ہے ، اور اھل جنّت کی ز ُبان عربی ہے)))
پہلی روایت  کی تمام اسناد میں کا سلسلہ دو رایوں پر مشترک ہوتا ہے ،
(1) العلاء بن العلاء بن عمرو الحنفي ، اور
(2) يحيى بن يزيد الأشعري،
اور ان دونوں رایوں کے بارے میں محدثین رحمہم اللہ نے بڑی وضاحت سے اور کافی سخت الفاظ میں ان کے ضعیف اور جھوٹے اور روایتیں  گھڑنے والے ہونے کے فیصلے صادر کیے ہیں ،
اس کے علاوہ بھی اس  روایت کی سند میں کچھ اور نقائص بھی ہیں ، اِس کی تفصیل جاننے کے خواہش مند حضرات ،إِمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ کی """ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ /حدیث رقم 160""" کا مطالعہ فرما سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مذکورہ بالا دوسری روایت کی سند میں """ عبدا لعزیز ابن عمران """ نامی راوی کے بارے میں بھی محدثین کرام رحمہم اللہ نے یہ فیصلے صادر کر رکھے ہیں کہ :::
" منکر الحدیث::: منکر ، رد کیے جانے کی مستحق روایات بیان کرنےو الا"،
"متروک::: ترک کیے جانے کی مستحق روایات بیان کرنےو الا "،
 اور " لا یکتب حدیثہ::: اس کی بیان کردہ روایات لکھی نہیں جائیں "،
پس کسی شک اور شبہے کے بغیر یہ روایت بھی جھوٹی اور خود ساختہ ثابت ہوتی ہے ، اور اس روایت پر أئمہ حدیث رحمہم اللہ نے صدیوں پہلے سے یہ ہی فیصلہ دے رکھا ہے ، اس کی تفصیلی تخریج و تحقیق کے لیے دیکھیے،إِمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ ُ اللہ کی """ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ /حدیث رقم 161"""،
::::: ایک اہم نکتہ :::::  یہ روایات رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان کے خلاف ہیں ، اُ ِن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور فعلی تعلیمات ، ذات مُبارک اور  کردار شریف  کے منافی ہیں ،
اِن جھوٹی من گھڑت خود ساختہ  روایات میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنے عرب ہونے پر فخر کرتے ہوئے ، اور عربوں سے محبت کرنے کے اسباب میں دکھایا گیا ، جبکہ میں اپنے دِل کی اتھاہ گہرائیوں میں پائے جانے والے مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک ہر اُس عیب سے پاک تھی جسے اللہ اور خود اُسی رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عیب بتایا ،
اللہ جلّ  و عُلا نے تو مسلمانوں کے درمیان محبت اور احترام کا ایک معیار مقرر فرماتے  ہوئے اِرشاد فرما دیا کہ (((((إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ::: یقیناً  تُم لوگوں میں سے زیادہ تقوے والا ہی  اللہ کے ہاں زیادہ رتبے والا ہے)))) تو ظاہر ہے کہ سچے اِیمان والا بھی کسی سے محبت، اور کسی کا احترام اُس شخص کے تقویٰ کے مطابق ہی کرے گا ، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بڑھ کر اِیمان والا بھلا کون تھا ؟؟؟
لہذا اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف سے کسی ذات پات ، حسب نسب  اور قبیلے یا ز ُبان کی وجہ سے کسی سے محبت کرنے یا کسی کا احترام کرنے کا عمل یا قول ظاہر ہونا ممکن ہی نہیں ،
انہوں نے تو خود ہمیں یہ سبق دِیا اور ہمیشہ اس پر عمل بھی فرمایا کہ ((((أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِىٍّ عَلَى أَعْجَمِىٍّ وَلاَ لِعَجَمِىٍّ عَلَى عَرَبِىٍّ وَلاَ لأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلاَ أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلاَّ بِالتَّقْوَى::: خبردار (سُن رکھو ، یاد رکھو کہ)عربی کو غیر عربی پر اور نہ ہی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت حاصل ہے ، اور نہ ہی کسی سُرخ رنگت والے کو کالی رنگت والے پر اور نہ ہی کسی کالی رنگت والے کو کسی سُرخ رنگت والے پر ، سوائے(ہر ایک کے ) تقویٰ  کے(مطابق )۔))))مُسند أحمد /حدیث/24204 إِمام الالبانی رحمۃُ اللہ علیہ نے صحیح قرار دِیا ، سلسلة الأحاديث الصحيحة /حدیث2700،
اِس أہم نکتے کا ذِکر  إمام الالبانی رحمہُ اللہ نے بھی فرمایا ہے ، و للہ الحمد ۔
  مستقل یاد دہانی کے طور پر ، بات کا اختتام  اپنے اور آپ سب کے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان مبارک پر کرتا ہوں کہ (((((مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::جس نے مجھ پر جھوٹ بولا (یعنی میرے بارے میں کچھ جھوٹ بولا )تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا )))))متفق علیہ ،صحیح بخاری /حدیث/107کتاب العلم/باب38،صحیح مُسلم/ حدیث4 /  المقدمہ/باب2،
(((((مَنْ يَقُلْ عَلَىَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::جِس نے میرے بارے میں وہ کچھ کہا ، جو میں نے نہیں کہا تو اُس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا )))))صحیح بخاری /حدیث/109کتاب العلم/باب38۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے زندہ رکھے اور اسی حال میں اُس کے سامنے حاضر فرمائے کہ ہم حق والوں میں ہوں اور وہ ہم پر راضی ہو ، والسلام علیکم۔ طلبگارء دُعاء، عادل سہیل ظفر ۔
 اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :::

Thursday, October 17, 2013

عورتوں سے عمومی سلوک کا اسلامی طریقہ__Islamic teaching about how to treat the women

 ٦ ٦ ٦قران و سُنّت کے سایے میں ٥ ٥ ٥
:::::: عورتوں سے عمومی سلوک کا طریقہ  ::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيم  ِ  مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ،،،،،::: اے لوگو اپنے رب(کی ناراضگی اور عذاب )سے بچو(وہ رب)جس نے تُم سب لوگوں کو ایک(ہی)جان سے تخلیق فرمایاہے ،،،،، سورت النساء / پہلی آیت،
انسانوں  کی نسل بڑھنے کی  ابتداء اُن کے اکیلے لا شریک خالق و مالک نے ایک ہی جان سے کی ہے ، اس لیے عربی میں کہا جاتا ہے کہ """النِساء شقائق الرجال :::عورتیں مردوں سے نکالی گئی ہیں """،
یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنی بے عیب قدرت و حِکمت سے عورت کو مَرد میں سے بنایا،
ابھی ابھی ذِکر کی گئی آیت مبارکہ کے اگلے حصے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا کہ﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:::اوراسی (جان) میں سے اس کے جوڑے(کی عورت)کو بنایا ،
 اور  اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک سے خبر فرمائی﴿اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِى الضِّلَعِ أَعْلاَهُ ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ:::تُم لوگ ایک دوسرے کو  عورتوں کے ساتھ احسان والے رویے کی نصیحت کیا کرو ، کیونکہ عورت کو (مرد کی)پسلی(کی ہڈی)میں سے بنایا گیا ہے اور پسلی میں سب سے اوپر والی(ہڈی)سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے ، لہذا اگر تُم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تُم اسے توڑ دو گے، اور اگر تُم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی ، لہذا  تُم لوگ ایک دوسرے کو  عورتوں کے ساتھ احسان والے رویے کی نصیحت کیا کروصحیح البخاری /کتاب الأنبیاء/باب2، صحیح مُسلم /کتاب الرضاع  /باب18،
عورت کو گو کہ مرد میں سے بنایا گیا اور دونوں کے بلکہ ساری ہی مخلوق کے اکیلے لا شریک خالق و مالک نے اپنی اس مخلوق "عورت"کی طبیعت اور فطرت میں بہت کچھ ایسا رکھا جو مَردوں سے مختلف ہے مگر عورتوں کے بالکل دُرسُت اور مناسب ہے، لیکن شرعی طور پر اجر و ثواب ، سزا و عذاب میں دونوں ایک ہی جیسے ہیں  ، جو جیسا اور جتنا  عمل کرے گا اس کے مطابق نتیجہ حاصل کرے گا ،اس میں عورت اور مَرد کے رتبے کا کوئی فرق نہیں (اس موضوع پر ایک مضموبعنوان """ عورتوں کے لیے جنّت میں کیا ہو گا ؟ """ پہلے نشر کیا جا چکا ہے، اور اس کے نشر ہونے کے بعد قارئین بھائیوں اور بہنوں سے کافی اچھی گفتگو بھی ہو چکی ہے )،
  معاشرتی زندگی کے بارے  میں اب یہاں صرف یاد دھانی اور ایک فائدہ مند معلومات کے طور پر علامہ ابن عُثیمین رحمہ ُ اللہ کا یہ قول ذکر کرتا ہوں کہ """عورتوں اور مَردوں کی برابری والی بات کوئی مشکل سے سمجھ آنے والی نہیں، (بس اس کی وضاحت کی جانی چاہیے کہ )حق بات یہ ہے کہ (معاشرتی زندگی میں)مردوں اور عورتوں کی برابری نا ممکن ہے ، جو لوگ اس برابری  کا مطالبہ کرتے ہیں وہ عقل اور حقیقت اور فطرت کے خلاف مطالبہ کرتے ہیں"""،
(اس موضوع کو""" قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)""" کے ایک درس میں کافی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے ، وللہ الحمد )
شرعی احکام میں بھی دونوں کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے سوائے ایسے چند احکامات کے جو  اپنی اپنی جگہ پر دونوں یعنی مَردوں اور عورتوں کے لیے الگ ہیں،  
 اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کی وحی کے مطابق اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن فرامین کی روشنی میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے  کہ اللہ نے حوا علہیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی  میں سےتخلیق فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بڑی وضاحت سے یہ سمجھایا کہ پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہونے کے باوجود لچک دار ہوتی ہے ، لہذا تم لوگ اس ہڈی کو سختی سے سیدھا کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ یہ ہڈی ٹوٹ جائے گی ، بلکہ احسان والے رویے سے اس کا ٹیڑھا پن دُور کرنے کی کوشش کرنا ، تا کہ اللہ نے تم لوگوں کا جو جوڑا بنایا ہے اس کی ازدواجی اور معاشرتی زندگی سکون سے بسر ہو ، 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دِیا ہوا یہ سبق  ہر اُس شخص اور اُس سوچ کے بطلان کا بہترین ثبوت ہے جو لوگ اِسلام کو عورت کے لیے ظالم اور متشدد قرار دیتے ہیں ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان مبارک  میں کہ ﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:::اوراسی (جان)میں سے اس کے جوڑے(کی عورت)کو بنایا یہ بالکل واضح ہے کہ عورت کو مرد میں سے بنایا گیا ہے ، اور یہ اس امر کی طرف اشارہ کناں ہے کہ عورت کی زندگی کا محور مرد ہے ، فطری طور پر عورت کی سوچ و فکر مستقل طور پر مرد سے متعلق رہتی ہے جب کہ مردکا معاملہ الگ ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر عورت کے لیے فکر مند نہیں ہوتا بلکہ اسے اور بھی بہت سے غم ہوتے ہیں ،
ٹھہریے ، رُکیے ، غصہ مت کیجیے ، توجہ فرمایے ،  میری اس بات یہ نہ سمجھا جائے کہ عورتیں بس مَردوں کی ہی فِکر میں رہتی ہیں ، بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی ہر سوچ و فِکر کا مدار ان کی تکمیل کا ذریعہ کوئی نہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے ،اگر انسانی تاریخ یا کسی معاشرے میں کہیں کوئی گنی چنی عورتیں ایسی ملتی  ہوں جو اپنی ضروریات کو پوراکرنے ، اور اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے میں کسی مرد کی ضرورت مند نہ رہی ہوں تو اُن چند مثالوں کی وجہ سے ہم معاذ اللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کو غلط نہیں کہیں گے ، اور نہ ہی ایسی کسی سوچ و فِکر کی تائید کریں گے  جو اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کے بنائے ہوئے نظام کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش ہوں ،
جی ، تو ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ  عمومی طور پر عورتوں کی ہر سوچ و فِکر کا مدار ان کی تکمیل کا ذریعہ کوئی نہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے ،
جبکہ مَردوں کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ، اللہ کی عطاء کردہ قوت و قدرت سے وہ نہ صِرف اپنی بلکہ اپنی زندگی میں پائی جانی والی عورتوں کی سوچوں اور فِکروں کی تکمیل کا ذریعہ ہوتے ہیں ، اور یہ بات عورتوں کی فطرت کے عین مطابق ہے ، کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی ضرورت مند ہوتی ہیں ، ایسا سہارا جو ان کا نگہباں ہو ، ان  کی ضروریات پوری کرنے والا ہو اور انہیں درست راہ پر رکھنے والا ہو،بیٹی سے لے کر ماں تک ، دادی اور نانی ماں ہونے تک ، اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں ، زندگی کے  آخری لمحے تک عورت کسی نہ کسی مَرد کے سہارے کی ضرورت مند ہوتی ، محبت ، عِزت اورتکریم ، والے مضبوط سہارے کی ،
 بس ہمیں اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی اس ہدایت پر عمل پیرا رہنا چاہیے اور حتیٰ الامکان یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ہم  پسلی کی ہڈی کو سختی سے سیدھا کرنے کا عمل نہ کریں ،
 کیونکہ یہ خلاف فطرت ہو گا اور اس کا نتیجہ ایک مسلم گھرانے کی تباہی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے،
 جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتایا ہے کہ ﴿إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَرِيقَةٍ فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ وَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا وَكَسْرُهَا طَلاَقُهَا:::بے شک عورت کو پسلی(کی ہڈی )میں سے تخلیق کیا گیا ہے وہ  تمہارے لیے کبھی بھی ایک طریقے پر قائم نہیں رہ سکتی ، لہذا اگر تُم اس سے (ازدواجی اورمعاشرت طور پر )فائدہ اٹھا سکتے ہو تو اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھاؤ اور اگر تُم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے صحیح مُسلم /کتاب الرضاع  /باب18،
لہذا اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لیے، اپنے مسلم معاشرے کو زیادہ سے زیادہ صاف ستھرا  اور مضبوط رکھنے کے لیے  اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھیے اور اگر اس زندگی میں آپ کی شریک حیات کی طرف سے ، اور معاشرتی زندگی میں کسی اور عورت کی طرف سے کوئی ناروا ، تکلیف دہ یا نقصان والا عمل ہوتا ہے تو جہاں تک ممکن ہو  اُس عمل کو اور وہ عمل کرنے والی کو نرمی ، احسان اور حِکمت سے درست کرنے کی کوشش کیجیے ، تا کہ ہڈی ٹوٹنے نہ پائے ، اور اگر معاملات ایسے ہو جائیں جن میں سختی کی اجازت ہے تو سختی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ واللہ أعلم ، والسلام علیکم۔(تاریخ تجدید19/10/2013)
مضمون کا  برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :