٦ ٦ ٦قران و سُنّت کے
سایے میں ٥ ٥ ٥
:::::: عورتوں سے عمومی
سلوک کا طریقہ ::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيم ِ مِنَ
الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
اللہ
تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ
وَاحِدَةٍ ،،،،،::: اے لوگو اپنے رب(کی
ناراضگی اور عذاب )سے بچو(وہ رب)جس نے تُم سب لوگوں کو ایک(ہی)جان سے تخلیق فرمایاہے ،،،،،﴾ سورت
النساء / پہلی آیت،
انسانوں کی نسل بڑھنے کی ابتداء اُن کے اکیلے لا شریک خالق و مالک نے ایک
ہی جان سے کی ہے ، اس لیے عربی میں کہا جاتا ہے کہ """النِساء شقائق الرجال :::عورتیں
مردوں سے نکالی گئی ہیں """،
یعنی
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے اپنی بے عیب قدرت و حِکمت سے عورت کو مَرد میں سے
بنایا،
ابھی
ابھی ذِکر کی گئی آیت مبارکہ کے اگلے حصے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد
فرمایا کہ﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:::اوراسی (جان) میں
سے اس کے جوڑے(کی عورت)کو بنایا ﴾،
اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
ز ُبان مبارک سے خبر فرمائی﴿اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ ،
وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِى الضِّلَعِ أَعْلاَهُ ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ
كَسَرْتَهُ ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ ، فَاسْتَوْصُوا
بِالنِّسَاءِ:::تُم لوگ ایک دوسرے
کو عورتوں کے ساتھ احسان والے رویے کی
نصیحت کیا کرو ، کیونکہ عورت کو (مرد
کی)پسلی(کی ہڈی)میں سے بنایا گیا ہے اور پسلی میں سب سے اوپر والی(ہڈی)سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے ، لہذا اگر تُم اسے سیدھا کرنے
کی کوشش کرو گے تو تُم اسے توڑ دو گے، اور اگر تُم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی
رہے گی ، لہذا تُم لوگ ایک دوسرے کو عورتوں کے ساتھ احسان والے رویے کی نصیحت کیا
کرو﴾صحیح
البخاری /کتاب الأنبیاء/باب2، صحیح مُسلم /کتاب الرضاع
/باب18،
عورت
کو گو کہ مرد میں سے بنایا گیا اور دونوں کے بلکہ ساری ہی مخلوق کے اکیلے لا شریک
خالق و مالک نے اپنی اس مخلوق "عورت"کی طبیعت اور فطرت میں بہت کچھ ایسا
رکھا جو مَردوں سے مختلف ہے مگر عورتوں کے بالکل دُرسُت اور مناسب ہے، لیکن شرعی
طور پر اجر و ثواب ، سزا و عذاب میں دونوں ایک ہی جیسے ہیں ، جو جیسا اور جتنا عمل کرے گا اس کے مطابق نتیجہ حاصل کرے گا ،اس
میں عورت اور مَرد کے رتبے کا کوئی فرق نہیں (اس
موضوع پر ایک مضموبعنوان """ عورتوں کے لیے جنّت میں کیا ہو گا ؟
""" پہلے نشر کیا جا چکا ہے، اور اس کے نشر ہونے کے بعد قارئین
بھائیوں اور بہنوں سے کافی اچھی گفتگو بھی ہو چکی ہے )،
معاشرتی زندگی کے بارے میں اب یہاں صرف یاد دھانی اور ایک فائدہ مند
معلومات کے طور پر علامہ ابن عُثیمین رحمہ ُ اللہ کا یہ قول ذکر کرتا ہوں کہ """عورتوں
اور مَردوں کی برابری والی بات کوئی مشکل سے سمجھ آنے والی نہیں، (بس اس کی وضاحت
کی جانی چاہیے کہ )حق بات یہ ہے کہ (معاشرتی زندگی میں)مردوں اور عورتوں کی برابری
نا ممکن ہے ، جو لوگ اس برابری کا مطالبہ
کرتے ہیں وہ عقل اور حقیقت اور فطرت کے خلاف مطالبہ کرتے ہیں"""،
(اس موضوع کو""" قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ،
قوانین)""" کے ایک درس میں کافی تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے ،
وللہ الحمد )
شرعی
احکام میں بھی دونوں کا معاملہ ایک ہی جیسا ہے سوائے ایسے چند احکامات کے جو اپنی اپنی جگہ پر دونوں یعنی مَردوں اور عورتوں
کے لیے الگ ہیں،
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کی وحی کے مطابق اُس
کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن فرامین کی روشنی میں یہ ثابت شدہ
حقیقت ہے کہ اللہ نے حوا علہیہا السلام کو
آدم علیہ السلام کی پسلی میں سےتخلیق
فرمایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بڑی وضاحت سے یہ سمجھایا کہ
پسلی کی ہڈی ٹیڑھی ہونے کے باوجود لچک دار ہوتی ہے ، لہذا تم لوگ اس ہڈی کو سختی
سے سیدھا کرنے کی کوشش مت کرنا ورنہ یہ ہڈی ٹوٹ جائے گی ، بلکہ احسان والے رویے سے
اس کا ٹیڑھا پن دُور کرنے کی کوشش کرنا ، تا کہ اللہ نے تم لوگوں کا جو جوڑا بنایا
ہے اس کی ازدواجی اور معاشرتی زندگی سکون سے بسر ہو ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دِیا ہوا یہ سبق ہر اُس شخص اور اُس سوچ کے بطلان کا بہترین
ثبوت ہے جو لوگ اِسلام کو عورت کے لیے ظالم اور متشدد قرار دیتے ہیں ،
اور اللہ
تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان مبارک میں کہ
﴿وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:::اوراسی (جان)میں
سے اس کے جوڑے(کی عورت)کو بنایا ﴾ یہ بالکل واضح ہے کہ عورت کو
مرد میں سے بنایا گیا ہے ، اور یہ اس امر کی طرف اشارہ کناں ہے کہ عورت کی زندگی
کا محور مرد ہے ، فطری طور پر عورت کی سوچ و فکر مستقل طور پر مرد سے متعلق رہتی
ہے جب کہ مردکا معاملہ الگ ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر عورت کے لیے فکر مند نہیں
ہوتا بلکہ اسے اور بھی بہت سے غم ہوتے ہیں ،
ٹھہریے
، رُکیے ، غصہ مت کیجیے ، توجہ فرمایے ، میری اس بات یہ نہ سمجھا جائے کہ عورتیں بس
مَردوں کی ہی فِکر میں رہتی ہیں ، بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کی ہر
سوچ و فِکر کا مدار ان کی تکمیل کا ذریعہ کوئی نہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے ،اگر انسانی
تاریخ یا کسی معاشرے میں کہیں کوئی گنی چنی عورتیں ایسی ملتی ہوں جو اپنی ضروریات کو پوراکرنے ، اور اپنے
افکار کو عملی جامہ پہنانے میں کسی مرد کی ضرورت مند نہ رہی ہوں تو اُن چند مثالوں
کی وجہ سے ہم معاذ اللہ ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کو غلط نہیں کہیں
گے ، اور نہ ہی ایسی کسی سوچ و فِکر کی تائید کریں گے جو اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کے بنائے ہوئے نظام
کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش ہوں ،
جی ،
تو ، میں یہ کہہ رہا تھا کہ عمومی طور پر عورتوں
کی ہر سوچ و فِکر کا مدار ان کی تکمیل کا ذریعہ کوئی نہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے ،
جبکہ
مَردوں کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ، اللہ کی عطاء کردہ قوت و قدرت سے وہ نہ صِرف
اپنی بلکہ اپنی زندگی میں پائی جانی والی عورتوں کی سوچوں اور فِکروں کی تکمیل کا
ذریعہ ہوتے ہیں ، اور یہ بات عورتوں کی فطرت کے عین مطابق ہے ، کہ وہ ایک مضبوط
سہارے کی ضرورت مند ہوتی ہیں ، ایسا سہارا جو ان کا نگہباں ہو ، ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہو اور انہیں درست
راہ پر رکھنے والا ہو،بیٹی سے لے کر ماں تک ، دادی اور نانی ماں ہونے تک ، اپنی
زندگی کے ہر مرحلے میں ، زندگی کے آخری لمحے
تک عورت کسی نہ کسی مَرد کے سہارے کی ضرورت مند ہوتی ، محبت ، عِزت اورتکریم ،
والے مضبوط سہارے کی ،
بس ہمیں اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے
کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی اس ہدایت پر عمل پیرا
رہنا چاہیے اور حتیٰ الامکان یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ہم پسلی کی ہڈی کو سختی سے سیدھا کرنے کا عمل نہ
کریں ،
کیونکہ یہ خلاف فطرت ہو گا اور اس کا
نتیجہ ایک مسلم گھرانے کی تباہی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے بتایا ہے کہ ﴿إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ
مِنْ ضِلَعٍ لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَرِيقَةٍ فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا
اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ وَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا
وَكَسْرُهَا طَلاَقُهَا:::بے شک عورت کو پسلی(کی ہڈی )میں سے تخلیق کیا گیا ہے وہ تمہارے
لیے کبھی بھی ایک طریقے پر قائم نہیں رہ سکتی ، لہذا اگر تُم اس سے (ازدواجی اورمعاشرت طور پر )فائدہ اٹھا سکتے ہو تو اسی ٹیڑھے پن کے ساتھ فائدہ اٹھاؤ اور اگر تُم اسے
سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے ﴾ صحیح مُسلم /کتاب الرضاع /باب18،
لہذا
اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لیے، اپنے مسلم معاشرے کو زیادہ سے زیادہ
صاف ستھرا اور مضبوط رکھنے کے لیے اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھیے اور اگر اس زندگی
میں آپ کی شریک حیات کی طرف سے ، اور معاشرتی زندگی میں کسی اور عورت کی طرف سے
کوئی ناروا ، تکلیف دہ یا نقصان والا عمل ہوتا ہے تو جہاں تک ممکن ہو اُس عمل کو اور وہ عمل کرنے والی کو نرمی ،
احسان اور حِکمت سے درست کرنے کی کوشش کیجیے ، تا کہ ہڈی ٹوٹنے نہ پائے ، اور اگر
معاملات ایسے ہو جائیں جن میں سختی کی اجازت ہے تو سختی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
واللہ أعلم ، والسلام علیکم۔(تاریخ تجدید19/10/2013)
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا
سکتا ہے :
No comments:
Post a Comment