صفحات

Saturday, October 12, 2013

: جنّت ماؤں کے قدموں تلے یا تلواروں کے سایے تلے ::: paradise under the feet of mothers or shade of swords

بِسمِ اللَّہ و الصَّلاۃ و السَّلام عَلیَ رَسولِ اللَّہ مُحمدٍ ، و عَلیَ آلہِ وأصحَابہِ و أزواجہِ و ذُریتہِ و مَن تَبِعھُم بِاحسانٍ إِلی یومِ الدِین
::::::: جنّت ماؤں کے قدموں تلے  یا تلواروں کے سایے تلے :::::::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو یہ ہمت دے کہ ہم اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے کچھ منسوب کرنے ، اور منسوب شدہ کسی بات یا کام کو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ماننے سے پہلے،  اُس کے بارے میں کچھ تحقیق کر لیا کریں ، محض کچھ لوگوں کے بارے میں حسن ظن سے مغلوب ہو کر اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب کسی بھی بات کو مان کر اسے نشر کرنے سے بچ سکیں ،
ماں باپ کو،اور خاص طور پر ماں  کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت ہی بلند رتبہ عطاء فرمایا ہے ، اور اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اُس کے حقوق اور عِزت کی أہمیت کے بارے میں خبریں کروائی ہیں ، جو خبریں صحیح ثابت شدہ ہیں ،
افسوس کی بات ہے کہ صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ کی موجودگی میں ہم لوگ ایسی باتوں ، خبروں اور روایات کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں ، انہیں مانتے ہیں ، اُن پر عمل کرتے ہیں اور عمل کروانے کے لیے انہیں نشر کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ، جو باتیں ، خبریں اور روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک کے بارے میں ثابت نہیں ہوتِیں ، اور پھر بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ،
ایسی ہی ایک غیر ثابت شدہ روایت کی بنا پر ہمارے معاشرے میں یہ بات معروف ہے کہ"""جنّت ماں کے قدموں میں ہے"""، اِس بات کی ہمارے پاس کوئی صحیح ثابت شدہ دلیل نہیں ہے ،
جِس روایت کے بنا پر یہ بات مشہور ہوچکی وہ یہ ہے کہ (((((الجنة تحت أقدام الأمهات:::جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے )))،
یہ روایت  غیر ثابت شدہ ہے ، صحیح نہیں ہے ، کچھ اسناد ضعیف یعنی کمزور ، ناقابل حجت ہیں ، اور کچھ اسناد کی وجہ سے تو اس پر خود ساختہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے ،
تفصیلات کے لیے دیکھیے :
(1) مقاصد الحسنۃ/امام عبدالرحمن السخاوی رحمہُ اللہ (تاریخ وفات 902ہجری)/ حدیث رقم 373،
(2)كشف الخفاء ومزيل الالباس عما اشتهر من الاحاديث على ألسنة الناس / إِمام إِسماعیل محمد بن العجلونی رحمہُ اللہ(تاریخ وفات1162ہجری) / حدیث 1078،
(3) سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة/  إِمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہُ اللہ (تاریخ وفات 1420ہجری)/حدیث 593،
بھائیو، بہنو ، جنت کا ماؤں کے قدموں تلے ہونے کی خبر عام نہیں ، اور نہ ہی اس کا وہ مفہوم ہے جو عام طور پر مان لیا گیا ہے ، یہ خبر ایک صحابی جاھمۃ السلمی رضی اللہ عنہ ُ کو دی گئی جن انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جہاد میں شمولیت کی اجازت طلب کی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا ((( کیا تمہاری ماں ہے ؟ ))) ،
جاھمۃ  رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ جی ہاں """ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا::: پس تم اس کے ساتھ رہو ، کیونکہ جنت اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہے ))) سُنن النسائی /حدیث/3117کتاب الجہاد/باب 6، سنن ابن ماجہ /حدیث/2781کتاب الجہاد/باب 12،، درجہ صحت حسن ٌ، صحیح ۔
یہ معاملہ اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے لیے خاص تھا کہ انہیں جہاد میں شامل ہونے کی بجائے اُن کی ماں کی خدمت کا حکم دیا گیا کہ جو کچھ تم جہاد میں شامل ہو کر پانا چاہتے ہو ، یعنی جنت ، تو وہ تمہیں اپنی ماں کی خدمت کے بدلے میں بھی مل سکتا ہے ،
غور فرمایے ، کہ ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو نہیں فرمائی جس کی بوڑھی والدہ زندہ ہوں اور وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ جہاد میں شامل ہونا چاہ رہے ہوں ،
اگر یہ بات عام ہوتی تو ہر وہ صحابی جس کی بوڑھی والدہ زندہ تھیں کبھی جہاد میں شامل نہ ہو پاتا ،
اور اس کے بعد میں اُمت میں اس پر عمل رہتا ، پس یہ معاملہ صِرف اُس ایک صحابی کو جہاد میں شامل ہو کر جنت پانے کی کوشش کی بجائے  اُس کی والدہ کی خدمت  کر کے جنت پانے کی کوشش تک محدود ہے ،
اور اگر اس صحیح حدیث شریف میں دی گئی خبر کو ساری اُمت کے لیے عام سمجھا بھی جائے تو بھی اِس میں سے زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کی خدمت جنّت کے حصول کے ذرائع میں سے ہے ، اور یہ ایسی بات ہے جِس سے کہیں کوئی اختلاف نہیں ،
صحیح حدیث شریف میں تو یہ خبر عطاء فرمائی گئی ہے کہ(((((وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ::: اور جان رکھو کہ جنّت تلواروں کے سایہ تلے ہے )))))صحیح بخاری ، صحیح مسلم ،
یہ حدیث شریف  سناتے ہوئے تو شاید ہی کوئی دکھائی دے ، کیونکہ تلواروں کے سایے تلے جنت پانے کی کوشش کے لیے جو خطرات پیش آتے ہیں، اور ان کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لیے جو حوصلہ چاہیے ، گھر بیٹھے بیٹھے ماؤں کی خدمت کر کے جنت کمانے کے لیے نہ تو وہ خطرات پیش آتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص حوصلے کی ضرورت ہے ،
اور جنّت کمانے کی اس قسم کی کوششوں کا پرچار انتہا پسند، دہشت گرد ، قدامت پرست وغیرہ کہلانے سے بچاؤ کا سبب بھی بن جاتا ہے ، جس کے دنیاوی زندگی میں کافی خوش کن نتائج ملتے ہیں ،  
جی ہاں ، ماں باپ کی خدمت کرنے کے بارے میں قران کریم میں ، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں اور بہت سے احکام اور خبریں ہیں ، کہ جن پر نیک نیتی سے عمل کرنے کی صورت میں جنت کا حصول ممکن نظر آتا ہے ، لیکن جنت کو بعینہ ، اور صرف ، اور خاص طور پر ماؤں کے قدموں کے نیچے ماننے کی کوئی ثابت شدہ دلیل نہیں ہے ، جو روایت سنائی جاتی ہے وہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے منسوب کیا گیا قول ہے ، پس کسی بھی محب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو، اُن صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی ذات شریف سے منسوب  یہ قول اور ایسا کوئی بھی قول اور فعل قبول نہیں کرنا چاہیے جو درست علمی  تحقیق کی کسوٹیوں پرپورا اتر کر منسوب ثابت نہ ہوتا ہو ،
میرے مسلمان بھائیو، بہنو ، یاد رکھیے ، اور خوب اچھی طرح سے سمجھ کر یاد رکھیے کہ ، اِسلام ، اور سُنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے  با ہوش محبت  کی تعلیم اور تربیت دیتے ہیں ، فرازنگی کی ہدایت دیتے ہیں ، جنوں اور دیوانگی والی محبت کو یہاں قبول نہیں کیا جاتا کہ محبوب کے نام پر جو کچھ سنا ، مان لیا اور آگے بھی بڑھا دیا ، اور اس کے نقصانات کی طرف کچھ توجہ نہ کی ،
نہیں نہیں یہ مُحبت نہیں ہے،جمع خرچ ہے ز ُبانی
وہ کیا مُحبت ، جِس میں محبوب کی ہے نا فرمانی
مُحبت و وفاء کو دِی صحابہ نے تب و تابِ جاودانی
اور تُمہاری مُحبت ہے اُن کے عمل سے رُو گردانی
 ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ، والیہ نشتکی ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ، و السلام علیکم۔
طلبگار دُعاء، آپ کا بھائی عادل سہیل ظفر ۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتاہے:

7 comments:

  1. اس مضمون کا لنک فیس بک پر بھی نشر کیا گیا تو ایک بھائی کی طرف سے چند سوالات سامنے آئے ، سب کے فائدے کے لیے ان بھائی سے ہونے والی گتگو کو بھی یہاں نقل کر رہا ہوں ،

    پہلا سوالیہ مراسلہ :::
    السلام و علیکم و رحمۃ اللہ۔
    عادل بھائی، جو روایت سنن نسائی کی آپ نے فراہم کی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی کو جہاد پر جانے سے روکا اور ماں کی خدمت کرنے کو کہا اور فرمایا کہ جنت اسکے دونوں قدموں تلے ہے۔۔۔ کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کر لیا کہ یہ محض اسی صحابی کی ماں کے لیئے ہے؟۔۔۔ مجھے تو اس روایت سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ یہ ماں کی خدمت کی طرف اشارہ ہے اور اسکا مفہوم وہی ہے جس کے بارے میں آپ کا کہنا یہ ہے کہ ایسی روایت ثابت شدہ نہیں۔۔
    میرے نزدیک اس روایت میں ماں کے قدموں تلے جنت کی طرف وہی اشارہ ہے جسے آپ غیر ثابت شدہ کہہ رہے ہیں؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میری طرف سے پہلا جوابی مراسلہ :::
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، محترم بھائی فرخ وحید صاحب ، جزاک اللہ خیرا کہ آپ نے میری گذارشات کو پڑھا ،
    بھائی پہلے بات تو یہ کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ یہ بات اس صحابی جاھمہ رضی اللہ عنہ ُ کی والدہ کے لیے تھی ، دوسری بات یہ کہ اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے اسباب بھی ذکر کیے ہیں ، کہ یہ معاملہ اس صحابی رضی اللہ عنہ کے لیے خاص تھا، میں نے لکھا """ یہ معاملہ اُس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے لیے خاص تھا کہ انہیں جہاد میں شامل ہونے کی بجائے اُن کی ماں کی خدمت کا حکم دیا گیا کہ جو کچھ تم جہاد میں شامل ہو کر پانا چاہتے ہو ، یعنی جنت ، تو وہ تمہیں اپنی ماں کی خدمت کے بدلے میں بھی مل سکتا ہے ،
    غور فرمایے ، کہ ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو نہیں فرمائی جس کی بوڑھی والدہ زندہ ہوں اور وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ جہاد میں شامل ہونا چاہ رہے ہوں ،
    اگر یہ بات عام ہوتی تو ہر وہ صحابی جس کی بوڑھی والدہ زندہ تھیں کبھی جہاد میں شامل نہ ہو پاتا ،
    اور اس کے بعد میں اُمت میں اس پر عمل رہتا ، پس یہ معاملہ صِرف اُس ایک صحابی کو جہاد میں شامل ہو کر جنت پانے کی کوشش کی بجائے اُس کی والدہ کی خدمت کر کے جنت پانے کی کوشش تک محدود ہے ،
    اور اگر اس صحیح حدیث شریف میں دی گئی خبر کو ساری اُمت کے لیے عام سمجھا بھی جائے تو بھی اِس میں سے زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کی خدمت جنّت کے حصول کے ذرائع میں سے ہے ، اور یہ ایسی بات ہے جِس سے کہیں کوئی اختلاف نہیں ، """"
    اور کتاب اللہ اور صحیح سنت شریفہ میں موجود عمومی تعلیمات کے مطابق یہ بھی لکھا ہے """،
    جی ہاں ، ماں باپ کی خدمت کرنے کے بارے میں قران کریم میں ، اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں اور بہت سے احکام اور خبریں ہیں ، کہ جن پر نیک نیتی سے عمل کرنے کی صورت میں جنت کا حصول ممکن نظر آتا ہے ، لیکن جنت کو بعینہ ، اور صرف ، اور خاص طور پر ماؤں کے قدموں کے نیچے ماننے کی کوئی ثابت شدہ دلیل نہیں ہے ، جو روایت سنائی جاتی ہے وہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے منسوب کیا گیا قول ہے ، پس کسی بھی محب رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو، اُن صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی ذات شریف سے منسوب یہ قول اور ایسا کوئی بھی قول اور فعل قبول نہیں کرنا چاہیے جو درست علمی تحقیق کی کسوٹیوں پرپورا اتر کر منسو ب ثابت نہ ہوتا ہو ، """ لہذا میرے بھائی ، کسی معاملے کو منطقی طور پر اخذ کرنا کچھ اور ہوتا ہے ، اور اس معاملے کو ایک یقینی خبر کی صورت میں کسی کے ساتھ مسوب کر دینا کچھ اور، ایسی بہت سی نیکیاں ہیں جنہیں کرنے کی صورت میں جنت ملنے کی نشارت دی گئی ہے ، تو کیا ہم ان نیکیوں ، یا ان نیکیوں کی تکمیل کے اسباب اور ذرائع کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جنت ان کے قدموں تلے یا ان کے اندر یا ان کے پیچھے وغیرہ ہونے کی خبر دی ہے ؟؟؟ یقینا ، آپ کا جواب ہو گا کہ نہیں کہہ سکتے ،،،،، تو یہی معاملہ اس خبر کا بھی ہے کہ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ثابت نہیں ہوتی ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جاری ہے ،،،،،،

    ReplyDelete
  2. دوسرا سوالیہ مراسلہ :::
    عادل بھائی۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان صحابی رض کی والدہ کا ان صحابی کے سوا اور کوئی نہ تھا اور اگر وہ جہاد پر چلے جاتے تو ان کی والدہ مشکلات کا شکار ہو جاتیں۔۔۔ جبکہ ایسے صحابی جن کی والدہ بوڑھی ہوں، مگر گھر پر کوئی اور ان کی خدمت کرنے والا ہو، تو انکو روکا نہیں گیا۔۔۔
    ایک بات میں نہیں سمجھ پا رہا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت کے الفاظ سے متعلق آپ سنن نسائی کی حدیث بھی پیش کر رہے ہیں، ۔۔ مگر ایسی دوسری روایت کے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے، اس حدیث کے مطلب کو بھی محض خدمت میں لے رہے ہیں، مگر صرف اسی صحابی کے لئے؟؟؟
    دوسرا، حدیث کے الفاظ ماں کے دونوں قدموں تلے جنت کی بات کر رہے ہیں۔۔۔ اور ہر سمجھدار انسان بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسکا مطلب ماں کی خدمت ہی ہے اسلئے کہہ سکتے ہیں۔۔۔۔
    اور یہ بھی تو دیکھئے، کہ یہ نہیں کہا گیا کہ تم صرف ماں کی خدمت کرو۔۔۔ عربی زبان میں کیا ایسا صاف صاف کہنا ناممکن تھا؟ نہیں نا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بات بہت واضح ہے ۔۔۔ یہ ماں کی خدمت کے صلے کی طرف اشارہ ہے، مگر صرف اسی صحابی کے لئے نہیں ہے۔۔۔ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں کہ یہ صرف اسی صحابی کے لئے ہے۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میرا جواب اگلے مراسلے میں ،،،،،

    ReplyDelete
  3. میری طرف سے دوسرا جوابی مراسلہ :::
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    فرخ بھائی ، جاھمہ رضی اللہ عنہ کو ان کی والدہ کی خدمت میں وہی اجر ملنے کی خبر دی گئی جس اجر کے لیے وہ جہاد میں جانا چاہ رہے تھے ،
    اگر بغیر کسی تصدیق کے یہ بھی مان لیا جائے کہ اُن کی والدہ کی خدمت کے لیے کوئی اور نہ تھا تو اس کے بارے میں یہ کہہ چکا ہوں کہ""" غور فرمایے ، کہ ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اس صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو نہیں فرمائی جس کی بوڑھی والدہ زندہ ہوں اور وہ صحابی رضی اللہ عنہ ُ جہاد میں شامل ہونا چاہ رہے ہوں ،
    اگر یہ بات عام ہوتی تو ہر وہ صحابی جس کی بوڑھی والدہ زندہ تھیں کبھی جہاد میں شامل نہ ہو پاتا ،
    اور اس کے بعد میں اُمت میں اس پر عمل رہتا ، پس یہ معاملہ صِرف اُس ایک صحابی کو جہاد میں شامل ہو کر جنت پانے کی کوشش کی بجائے اُس کی والدہ کی خدمت کر کے جنت پانے کی کوشش تک محدود ہے """،
    اور اس کے بعد یہ بھی لکھا کہ """ اور اگر اس صحیح حدیث شریف میں دی گئی خبر کو ساری اُمت کے لیے عام سمجھا بھی جائے تو بھی اِس میں سے زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ماں کی خدمت جنّت کے حصول کے ذرائع میں سے ہے ، اور یہ ایسی بات ہے جِس سے کہیں کوئی اختلاف نہیں """،
    میرا خیال کہ اگر آپ ان باتوں میں تھوڑا تحمل کے ساتھ تدبر فرمایے تو اِن شاء اللہ معاملہ سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس کے بعد آپ کے دوسرے اشکال کی طرف ،،،،،
    فرخ بھائی ، میں نے جو حدیث شریف ذِکر کی ہے اُس کے الفاظ میں ایک واحد مؤنث کا ذکر ہے کہ ((((فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا::: پس تم اس کے ساتھ رہو ، کیونکہ جنت اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہے )))،
    اور جس روایت کے غیر ثابت شدہ ہونے کی بات ہو رہی ہے اس میں جمع مؤنث کا ذکر ہے کہ (((الجنة تحت أقدام الأمهات:::جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے )))
    اور ان دونوں روایات کے الفاظ معنی اور مفہوم میں بہت بڑے تبدیلی پیدا کرنے والے ہیں ،
    اسی تبدیلی کی درستی اور نا درستی ، اور غیر ثابت شدہ الفاظ کو اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک سے مسنوب کرنے کی غلطی ، بلکہ گناہ سے بچے رہنے کے لیے یہ معلومات فراہم کی گئی ہیں ،
    اور آپ کے ایک سوال کا جواب بھی اسی میں ہے ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جاھمہ رضی اللہ عنہ ُ کو صرف انہی کی والدہ کے بارے میں یہ ترغیبی خبر دی ،صاف صاف ہی ہے کہ ایک اکیلی مونث کا ذکر کیا گیا کہ ((( جنت اس کے دونوں پیروں کے نیچے ہے ))))، ساری ہی ماؤں کے بارے میں جمع کے صیغے میں خبر نہیں دی ، جس طرح کہ غیر ثابت شدہ روایت کے الفاظ میں ہے ،
    اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر سارے قرائن جن کا میں نے اوپر ذِکر کیا وہ کچھ سمجھنے کی دلیل ہیں جو میں نے پیش کیا ، جو کہ """ الجماعت ، یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت """ کے اقوال و افعال کے مطابق ہیں ،
    فرخ بھائی ، آپ اس نکتے کو سمجھنے کو کوشش فرمایے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات شریف سے کچھ منسوب کرنا ایمان اور کفر کا معاملہ ہے ، جہنم مکیں ہوجانے کا سبب ہے ، کسی اور نص یا نصوص کے منطقی نتائج کو خود ساختہ الفاظ میں لیپٹ کر ، یا بغیر لپیٹے ہی رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ،
    والدین ، اور خاص طور پر ماں کی خدمت کے اجر وثواب کے لیے دیگر بہت سے صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ مسیر ہیں ، آخر ہم انہیں نشر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، ایک غیر ثابت شدہ خبر کو کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے مسنوب کرنے کی مذموم اور خوفناک نتیجے والی کوشش میں رہیں ؟ والسلام علیکم۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  4. علم احادیث اور اس پر بحث علما اور اسلامی اسکالر کے درمیان ہمیشہ سے رہی ہے اور یہ ایک باقاعدہ علم بن چکا ہے، مگر عام عوام کے درمیان یہ بحث لا کر آپ عوام کے دلوں اور زہنوں میں احادیژ کی اہمیت کو کم کرنے ک اباعث بن رہے ہیں، لوگوں کے دولں میں یہ وسوسے پیدا ہو رہے ہیں کے کونسی حڈٰث من گھڑت ہے کون سے کسی خاص بندے کے لیے اور خاص وقت کےلیے تھیی اس لیے عام عوام کے سامنے یہ بحث کرنے کی بجاے تحقیق کے طالبعلموں کے سامنے یہ سوال ضرور اٹحائیں اور بحث بھی کریں

    ReplyDelete
    Replies
    1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
      محترم بھائی / بہن ،
      میں آپ کے اس تبصرہ پر حیران ہوں ، اور حیرانگی کی وجہ دوسرا کمنٹ ہے جو آپ نے میرے دوسرے مضمون پر لکھا ہے ، کیونکہ دونوں تبصروں ایک دوجے سے موافقت نہیں رکھتے ،

      علم حاصل کرو خواہ چين جانا پڑے ايک جھوٹي روايت_earn knowledge even from china_A fabricated hadeeth

      adilsuhail.blogspot.com/2013/10/earn-knowledge-even-from-chinaa.html


      میں آپ نے لکھا کہ :::
      """اسلام و علیکم،
      بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے واقف نہیں اسلیے اسلامی تعیلیمات کے اصؒل ماخزوں
      تک رسائی ہی نہیں انکی، ایسے میں اردو مین ایسے مضامین شایع کرنا ایک خؤشآئیدبات ہے جن کے زریعے اسلامی
      تعیلمات عام عوام تک پہنچ سکیں برایے مہربانی علم حدیث پر آسان مضامین کا سلسلہ جاری رکھٰن """
      اور یہاں کچھ اور ،،،،
      بہرحال میرے محترم ، روایات حدیث میں صحیح اور غلط کی تحقیق علما کرام رحمہم اللہ صدیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور وہ تحقیق صرف طالب علموں کے لیے نہ تھی اور نہ ہے ،
      صدیوں سے جو علماء کرام رحمہم اللہ سنت رسول علی صاحبھا افضل الصلوۃ و التسلیم کی روایات کی تطھیر میں اپنی زندگیاں وقف کرتے چلے آئے ہیں تو وہ لوگوں میں وسوسے پیدا کرنے کے لیے نہیں تھا ،
      بلکہ اس کا مقصد ہمیشہ سے یہ ہی رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مبارک سے منسوب باتوں میں سے غیر ثابت شدہ باتوں کو سارے ہی مسلمان جان پہچان سکیں اور ان کو ماننے اور مزید نشر کرنے سے بچ سکیں ،
      کونسی روایت صحیح حدیث ہے اور کونسی روایت غیر ثابت شدہ بات ، یہ وسوسہ نہیں محترم ،
      بلکہ ایک سوال ہے جو کسی روایت کو بطور حدیث ماننے سے پہلے ہر مسلمان کے دِل و دماغ میں لانا ضروری ہے ، تا کہ وہ علما کرام کی طرف رجوع کرے اور اس میں یہ تڑپ پیدا ہو کہ وہ اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے بارے میں کچھ ماننے یا نہ ماننے سے پہلے اس کی تصدیق حاصل کرے ،
      یہ وسوسہ نہیں ، طلب علم ہے ، اور ان شاء اللہ ، لوگوں کے دلوں میں یہ شعور پیدا کرنے والی ہے کہ ہر روایت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا قول یا فعل ماننا اور بطور حدیث یا سنت اپنانا یا نشر کرنا شدید گناہ ہے ،
      اور امت کی پستی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رینے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔

      Delete
  5. السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ
    ایک درخواست یہ ہے کہ اگر ہوسکے تو جس حدیث کا یہ حصہ آپ نے بیان فرمایا ہے کہ "جنت تلواروں کے سائے تلے ہے"۔ وہ مکمل حدیث بھی بیان فرما دیں کیونکہ اس میں جو واقعہ ہے اس میں بھی ایک بہت بڑا سبق نبی کریم ﷺ نے بتایا ہے کہ "تم دشمن کا سامنا ہونے کی تمنا نہ کیا کرو"۔۔
    جزاک اللہ خیراً و کثیراً

    ReplyDelete
  6. Jazak Allah. Your efforts to create awareness on Islam and Deen among Muslims is commendable.

    ReplyDelete