اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف
صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور
سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
::::::: أِسلام اور اِیمان میں
فرق،اور اِحسان کیا ہے؟ :::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر
الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا فرمانا ہے کہ ایک دِن ہم لوگ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ ایک شخص آیا ، جِس کے
کپڑے بہت ہی زیادہ سُفید تھے اور بال
بہت ہی زیادہ کالے ، اور اُس (کے حلیے اور شخصیت ) پر سفر کے
کوئی آثار دِکھائی نہ دیتے تھے ، اور ہم میں سے کوئی بھی اُسے نہیں جانتا تھا (کہ
وہ کون ہے)،
وہ شخص (انتہائے ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے)رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بہت قریب پہنچ کر(انتہائے ادب کا مظاہرہ
کرتے ہوئے) اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے دوزانو ں ہو کر بیٹھ گیا، اپنے گھٹنے اُن صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے مُبارک گھٹنوں کے ساتھ جوڑ دیے اور اپنے دونوں ہاتھ
اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رانوں مُبارک پر رکھ دیے اور سوال پیش کیا ،
""" يَا مُحَمَّدُ
أَخْبِرْنِى عَنِ الإِسْلاَمِ ؟ ::: اے مُحمد مجھے اِسلام کے بارے میں بتایے؟ """
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
جواباً اِرشاد فرمایا (((((الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ
اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِىَ الزَّكَاةَ
وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ::: اِسلام یہ ہے کہ کہ تُم اِس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے
عِلاو کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے اور یہ کہ مُحمد اللہ کے رسول ہیں ، اور
نماز ادا کرو ، اور زکوۃ ادا کرو ، اور رمضان کے رووزے رکھو، اور اگر (اللہ کے) گھر (کعبہ) تک پہنچنے کی
طاقت رکھتے ہو تو اُس کا حج کرو )))))
اُس شخص نے کہا """ آپ نے سچ فرمایا """،
ہمیں اس بات پر بڑی حیرانگی ہوئی کہ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سوال
کر کے اُن کے دیے ہوئے جواب کی تصدیق بھی کر رہا ہے (گویا کہ وہ جواب جانتا ہے ،
تو پوچھ ہی کیوں رہا ہے )
اور (پھر) اُس شخص نے (دوسرا سوال پیش
کرتے ہوئے )کہا """ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِيمَانِ؟ ::: مجھے اِیمان کے بارے میں بتایے؟ """
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
جواباً اِرشاد فرمایا (((((أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ
وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ::: (اِیمان یہ ہے ) کہ تُم اللہ پر ،
اور(اللہ کے ) فرشتوں پر، اور (اللہ
کی ) کتابوں پر ، اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھو
اور تقدیر کا(اللہ کی طرف سے ) خیر والی اور شر والی ہونے پر اِیمان رکھو)))))،
اُس شخص نے کہا """ آپ نے سچ فرمایا """،
اور (پھر)اُس شخص نے (تیسرا سوال پیش)کیا """ فَأَخْبِرْنِى عَنِ الإِحْسَانِ؟:::مجھے اِیمان کے بارے میں بتایے؟ """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
جواباً اِرشاد فرمایا (((((أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لم تَكُنْ تَرَاهُ فإنه يَرَاكَ ::: احسان یہ ہے کہ تُم اللہ کی اِس طرح عِبادت کرو کہ(گویا) تُم اُسے دیکھ رہے ہو اور اگر (تُم
سے) ایسا نہ ہو(سکے)تو اتنا(ضرور )ہو کہ
وہ تُمہیں دیکھ رہا ہے )))))،
اور (پھر) اُس شخص نے (چوتھا سوال پیش کرتے ہوئے )کہا """ فَأَخْبِرْنِى عَنِ السَّاعَةِ؟ ::: مجھے قیامت کے بارے میں بتایے؟ """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
جواباً اِرشاد فرمایا (((((مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ::: جِس سے قیامت کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے وہ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں
جانتا )))))،
اور (پھر) اُس شخص نے (پانچواں سوال پیش کرتے ہوئے )کہا """ فَأَخْبِرْنِى عَنْ أَمَارَتِهَا؟ ::: مجھے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں بتایے؟ """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
جواباً اِرشاد فرمایا (((((أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى
الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِى الْبُنْيَانِ ::: (قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے) کہ باندی اپنے ہی
مالک کو جنم دے ، اور یہ کہ تُم دیکھو کہ ننگے پیروں والے ، کم لباس والے ، بکریوں
کے تنگ دست چرواہے اُونچی اُونچی عمارتیں بنانے لگیں)))))،
پھر وہ شخص واپس چلا گیا ، توکافی وقت کے
بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے (مجھے مخاطب فرما کر )اِرشاد فرمایا (((((يَا عُمَرُ أَتَدْرِى مَنِ السَّائِلُ ؟ ::: اے عُمر کیا تُم جانتے ہو کہ
سوال کرنے والا کون تھا ؟)))))
میں نے عرض کیا """ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ::: اللہ اور اُس کا رسول ہی سب سے زیادہ
جانتے ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا (((((فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ::: ا یہ تو جبریل
تھے جو تُم لوگوں کو(اس طرح سوال کرنے کی صُورت میں )
تُمہارا دِین سکھانے کے لیے آئے تھے))))) صحیح مُسلم/حدیث 102/ کتاب/باب1،
یہ واقعہ اسی صحیح مُسلم اور صحیح البخاری
میں ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے بھی مروی ہے جِس میں کچھ مختلف الفاظ ہیں ، جو
اِس مذکورہ بالا روایت کے الفاظ کی وضاحت کرنے والے ہیں ، اور اِس کے عِلاوہ ابو
ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کے آخر ی حصے
میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان فرمانے کے ساتھ یہ بھی فرمایا
(((((فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا
فِى خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلاَّ اللَّهُ ::: یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں ،(لیکن قیامت کا وقت) اُن
پانچ میں ہے جن کا عِلم سوائے اللہ کے اور کسی کے پاس نہیں))))) ، اور اس کے بعد یہ آیت مُبارکہ
تلاوت فرمائی (((((إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا
فِى الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ
بِأَىِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ :::بے شک وہ اللہ
ہی ہے جِس کے پاس قیامت(کے قائم ہونے کے وقت) کا عِلم ہے ،
اور وہی بارش نازل کرتا ہے ، اور وہی جانتا ہے کہ بچہ دانی میں کیا ہے ، اور کوئی
جان یہ نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ اُس کی
موقت کونسی جگہ واقع ہو گی ، یقیناً اللہ بہت ہی زیادہ عِلم والا ہے(اور)بہت ہی زیادہ
خبر رکھنے والا ہے
)))))صحیح البُخاری/حدیث4777/کتاب التفیسر/سورت لقمان/باب2، صحیح مُسلم /حدیث 106/ کتاب الاِیمان/باب2،
اللہ کے دو عظیم المرتبہ رسولوں ، جبریل
اور مُحمد علیھما الصلاۃ و السلام کی اس گفتگو میں عقیدے اور اِیمان کے اتنے اسباق ہیں کہ اگر سب ہی کے بارے میں بات
کی جائے تو ایک اچھی خاصی کتاب تیار ہو جائے ،
لیکن اِن شاء اللہ میں اپنی بات ، اپنے اختیار کردہ عنوان کے مطابق
صِرف تین موضوعات تک ہی محدود رکھوں گا ،
:::::: اِسلام کیا ہے ؟
:::::::
اللہ کے کلام پاک میں ہمیں لفظ """ اِسلام """ کے
دو مفاہیم ملتے ہیں ،
::::::: پہلا مفہوم ::::::: یہ کہ """ اِسلام اللہ کا اختیار
کردہ آخری حتمی دِین ہے """
لغت میں """ دِین """کے کئی معانی اور مفاہیم
ملتے ہیں ، لیکن ہم دینی معاملات میں اللہ کے کلام پاک کی موافقت کے بغیر کسی لغوی ، فلسفیانہ ، عقلی ، منطقی ، روایتی
مفہوم کو قبول نہیں کرتے ،
لہذا جن لغوی معانی اور مفاہیم کو
اللہ کے کلام سے موافقت میسر ہوتی ہے ، ہم انہی لغوی معانی اور مفاہیم کے مطابق اللہ کے دِین کے معاملات کو سمجھتے ہیں ، """
دِین """ کو سمجھتے ہیں ،
""" دِین """ یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکام ، اور اللہ کی مُقرر کردہ
حُدود کا مجموعہ ہے ، اِسی
""" دِین """ کو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے """
اِسلام """ نام دِیا ہے ،
جِس کا مفہوم یہ ہے کہ """زندگی کے تمام تر ظاہری و
باطنی معاملات کے لیے احکام ، قوانین اور حُدود کا مجموعہ """ ہے ،
اور یہ """ اِسلام """ ہی اللہ کے ہاں واحد مطلوب و
مقبُول """دِین """ ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :::
(((((إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ
الْإِسْلَامُ ::: یقینا ً اللہ
کے ہاں دِین (تو صِرف) اِسلام ہی ہے )))))سُورت آل
عمران/آیت19،
اللہ کے ہاں مطلوب و مقبُول واحد
"""دِین """ وہ """اِسلام
""" ہے ، جِس کی تکمیل خود اللہ پاک نے فرما دی ، کسی کےخود ساختہ
فلسفے ، عبادتیں ، عقیدے خواہ جِس قدر بھی """اِسلامی
""" شکل و صُورت رکھتے ہوں ، اللہ کی طرف سے تکمیل کر دیے جانے کے
بعد اللہ کے """دِین ، اِسلام """ کا حصہ نہیں بن
سکتے اور نہ ہی اُس سے کوئی مثبت تعلق
والے مانے جا سکتے ہیں ، کیونکہ حقیقی """اِسلام
""" وہی """دِین """ ہے جِس کی
تکمیل اللہ تعالیٰ نے فرما دی ،
(((((الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ
دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ::: آج ہم نے تُم
لوگوں کے لیے تُمہارا دِین مکمل کر دیا ہے اور میں نے تُم لوگوں پر اپنی نعمت تمام
کر دی ہے اور تُم لوگوں کے لیے اِس بات پر راضی ہو گیا ہوں کہ اِسلام تُم لوگوں کا
دِین ہو ))))) سُورت المائدہ/آیت 3،
اور جو کوئی اللہ کی طرف سے مکمل کردہ اِس دِین ، اِسلام کے عِلاوہ کسی اور
چیز کو دِین بنانا چاہے گا ، اُسکا کوئی
عقیدہ ، کوئی عمل
ہر گِز اللہ کے ہاں قُبُول نہیں ہو گا، اور وہ آخرت میں نقصان ہی اُٹھانے
والوں میں ہو گا ،
(((((وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ
يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ:::اور جو کوئی بھی اِسلام کے عِلاوہ کوئی اور
دِین چاہے گا تو اُس سے (کچھ بھی) قُبُول نہیں
کیا جائے گا ، اور وہ شخص آخرت میں نُقصان پانے والوں میں سے ہو گا))))) سُورت آل عمران/آیت85،
تو یہ واضح ہو گیا کہ """اِسلام ""' اللہ تعالیٰ کی
طرف سے مکمل کردہ انسانی زندگی کے ہر ایک شعبے کے
لیے""" اللہ کے احکام ، قوانین ، اور حُدود کا مجموعہ ہے """،
جو کوئی اللہ کی """اللہ کی لا شریک الوہیت ، اور اللہ کے علاوہ ہر کسی
معبود کے باطل ہونے، اور مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ کا آخری رسول
ماننے """ کا اقرار کر کے اللہ کے اِس """ دِین
""" پر عمل پیرا ہوتا ہے """ اُسے
""" مُسلمان """ مانا جاتا ہے ،
اور """ اِسلام """ میں سے
"""احکام و قوانین""" پر مشتمل حصے کو
"""شریعت""" کہا جاتا ہے ۔
::::::: دوسرا مفہوم :::::::
(((((يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ
أَسْلَمُوا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُمْ بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ
أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ::: یہ
لوگ (اے محمد) آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اِنہوں نے اسلام قبول کر لیا اِن سے کہیے
کہ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو،
بلکہ یہ اللہ کا تُم پر احسان ہے کہ اُس نے تُم لوگوں کو اِیمان کی راہ دکھائی ،
اگر تُم لوگ (اپنے اِسلام و اِیمان کے دعوے میں ) سچے ہو)))))سُورت
الحُجرات /آیت ،
اس آیت مبارک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے والوں کی طرف سے
اسلام قبول کرنے پر احسان جتانے کے جواب میں """ تُم لوگوں کا
اِسلام """ کہا ، جب کہ اِسلام تو اللہ کا ہے ، """
تُم لوگوں کا اِسلام """سےمُراد وہی مفہوم ہے جو آغاز میں بیان کردہ
""" حدیثء جبریل """ علیہ السلام میں اللہ کے دو
عظیم المرتبہ رسولوں علیہم السلام کی ز ُبان مبارک سے اللہ نے واضح کروایا کہ کسی
""" مُسلمان """ کی طرف سے اللہ کے احکام ، قوانین
اور حُدود پر عمل کرنے والے کے اعمال کو بھی""" اِسلام
""" کہا جاتا ہے ،
حاصل کلام یہ ہوا کہ """اِسلام
""' ظاہری، اور حِسّی افعال کا
نام ہے ،
یہاں تک قُران کریم اور صحیح حدیث شریف کی روشنی میں """ اِسلام """
کی تعریف بیان کرنے کے بعد ، اب اِن شاء اللہ میں یہ واضح کروں گا کہ ، اِسلام اور
اِیمان دو الگ الگ چیزیں ہیں ،
:::::: اِسلام اور اِیمان
دو الگ الگ چیزیں ہیں:::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں یہ بتایا ہے کہ اِسلام اور
اِیمان دو مختلف چیزیں ہیں ،
(((((قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا
قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ
فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ
شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ :::
دیہاتی کہتے ہیں کہ "ہم
ایمان لائے"(اے مُحمد )اِن سے کہیے ، تُم لوگ اِیمان نہیں لائے ہو ، لہذا تُم
لوگ یہ کہو کہ "ہم تابع فرمان ہوگئے "، اِیمان ابھی تمہارے دِلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ،اگر
تم اللہ اور اس کے رسول کی تابع فرمانی اختیار کر لو تو اللہ تمہارے اعمال کے ثواب
میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے
والا
اور رحیم ہے)))))سُورت الحُجرات/آیت14،
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ سمجھایا کہ اِسلام اور اِیمان دو الگ الگ
چیزیں ہیں ،
""" اِسلام """ کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے ، جِسے
""' اِسلام قبول کرنا
""" کہا جاتا ہے ،
جِس کی پہلی علامت
"""اللہ کی الوہیت کی واحدانیت ، اور اللہ کے علاوہ ہر کسی معبود
کے باطل ہونے، اور مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ کا آخری رسول ماننے
"""کا اقرار ہے ،
اور دیگر عِلامات اللہ کے احکام ، قوانین اور حُدود کے مطابق اعمال میں ظاہر
ہوتی ہیں ،
""" اِیمان """ قلبی اعمال کا نام ہے ، جِس میں سب سے پہلے """اللہ کی الوہیت
کی واحدانیت ، اور اللہ کے علاوہ ہر کسی معبود کے باطل ہونے، اور مُحمد صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ کا آخری رسول ہونے """پر غیر متزلزل
یقین ہے ، اور اِس یقین کے ہر ایک تقاضے کا عِلم رکھنا ہے ،
اور پھر اِسی یقین کے مُطابق """ اِسلام """
پر عمل کرنا ہے ،
""" اِسلام اور اِیمان """کے اس فرق کو اللہ
تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بھی ذِکر فرمایا ، اور اس مذکورہ بالا"""
حدیث ء جبریل """ علیہ
السلام میں بھی اپنے دو عظیم
المرتبہ رسولوں ، جبریل اور مُحمد علیھما الصلاۃ و السلام کے ذریعےاپنے رسول کریم
مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت اور تمام انسانوں کے لیے اس کی مزید وضاحت بھی کروا دی ، جو
روایات کی پرکھ کی شدید ترین کسوٹیوں پر پوری اترتی ہوئی ہم تک پہنچی ،
:::::: اِیمان کیا ہے ؟
:::::::
::: اِیمان کا لغوی مفہوم ::: لفظ
""" اِیمان """ اصل میں """ اَمَنَ
""" سے ما خوذ ہے ، جِس کا مفہوم
""" کسی کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے اُس بات کرنے والے سے اَمن پا
لینا """،
مثلاً کسی ظالم کی بات کی تصدیق کر کے
خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ، اُس کے ظلم سے اَمن پا لینا ، اِسے لغت میں
""" اِیمان """ کہا جاتا ہے ،
اِس لغوی مفہوم کا استعمال بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام پاک قران کریم میں
ملتا ہے ، مثلاً :::
(((((وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ
لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ :::اور
آپ ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے ، خواہ ہم سچ ہی بول رہے ہوں))))) سُورت یُوسف /آیت17،
(((((فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ::: تو لُوط نے اُس(ابراہیم علیہ السلام) کی بات پر یقین کر لیا))))) سُورت العنکبوت/آیت26،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صِفات مبارک میں سے ایک صِفت یہ
بیان فرمائی کہ (((((وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ ::: اور وہ اِیمان والوں کی بات پر یقین کرتے ہیں ))))) سُورت التوبہ /آیت61،
::: اِیمان کا عُرفی مفہوم :::
یعنی وہ مفہوم جو اہل ز ُبان کے ہاں عام معروف تھا ، اور اب بھی ہے ، یہ ہے کہ
""" کسی کی بات کی مکمل غیر متزلزل یقین کے ساتھ تصدیق کرنا اور اُس بات کے مطابق عمل کرنا
"""،
::::: اِیمان کا اِسلامی شرعی مفہوم ::::: شرعی مفہوم عموماً ، عُرفی مفہوم کے مطابق ہوتا ہے، یا کبھی اُس پر مزید اضافہ
کرنے والا بھی ہوتا ہے ، یا کبھی اُس کو اصل لغوی مفہوم کی طرف پلٹا کر اُس کے
مفہوم کو وسیع کرنے والا ،
لفظ """ اِیمان """ کا شرعی مفہوم اُس کے عُرفی مفہوم کے مطابق ہے لیکن اُس عُرفی
مفہوم میں اضافہ کرتے ہوئے اور
اُس میں کرتے ہوئے اُسے اللہ ، اُس کے
نبیوں اوررسولوں ، اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں ، موت کے بعد دوبارہ زندہ
کیے جانے (اور اُس سے متعلق تمام احوال ) پر ، اور تقدیر کا خیر و شروالا ہونے پر غیر متزلزل یقین اور اُس کے عین مطابق عمل کرنا
ہے ، جِس کے نتیجے میں صاحب اِیمان اللہ
کی ناراضگی اور عذاب سے اَمن حاصل کر لیتا ہے ،
پس """ اِیمان """ ایک قلبی عمل ہے ، جِس کا
اظہار اِیمان والے کے اعضاء سے ہوتا ہے ،
اور صاحب ء اِیمان کا ہر ایک عمل اللہ اور
اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور حُدود کا پابند ہو تا ہے ،
اور """ اِسلام """ ایک ظاہری عمل ہے جِس میں قلب کی کیفیت بمطابق عمل ہونا لازم
نہیں ہوتا، جِس کا اندازہ مُسلمان کے
اعمال میں شامل کفریہ ، شرکیہ اور بدعتی کاموں سے ہوتا ہے ، کہ اگر وہ
واقعتاً سچے اِیمان والا ہو ، مؤمن ہو تو
اُس کے اعضاء ایسے کاموں میں مشغول نظر نہ آئیں ،
اللہ تعالیٰ پر اِیمان ایک قلبی عمل ہے کہ انسان کا دِل اس پر مطمئن ہو اور
یقین رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمام تر مخلوق کا اکیلا لا شریک خالق
اور مالک ہے ، پالن ہار ، داتا اور مشکل کشا ہے ، اور اُس کے عِلاوہ کوئی بھی اور
کسی بھی طور ، کسی بھی عِبادت کا مستحق نہیں ، لہذا اُس کے عِلاوہ جِس جِس کی بھی
جِس جِس طرح بھی عِبادت ہوتی رہی ، ہوتی ہے ، یا ہو گی وہ سب باطل معبود تھے ، ہیں
اور ہوں گے ، سچا اور حقیقی معبود صِرف اور صِرف اللہ ہی ہے ،
اس اِیمان کی زبانی گواہی ((((( لَا إلَهَ إلَّا اللهُ ))))) کہنا ہے ، جس کے معنیٰ اور
مفہوم میں وہ سب کچھ آتا ہے جو ابھی بیان
کیا گیا اور مزید بھی ، لہذا جس کی ز ُبان اور دِل کا ساتھ نہ ہوا اُس کا اِیمان
صرف زُبانی گواہی تک ہی رہا ، اور اُس کےا عمال میں کبھی ((((( لَا إلَهَ إلَّا اللهُ )))))کامکمل طور پرنفاذ نہ ہوا ،
پس وہ دِن بھر ((((( لَا إلَهَ إلَّا اللهُ ))))) کی ہزاروں تسبیحات کرتا دِکھائی دے گا لیکن اُس کی زندگی میں((((( لَا إلَهَ إلَّا اللهُ
)))))کا کوئی عمل دخل نہیں
ہوتا ،
اور نہ ہی ان لوگوں کی زندگیوں میں کہیں ((((( محمدٌ رسولُ اللہ ))))) کے موافق کوئی عمل نظر آتا ہے ،
صرف ز ُبانی
دعوے ہوتے ہیں ، عملاً وہ لوگ محمد
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رسالت کے گواہ نہیں ہوتے ، بلکہ انکاری ہوتے ہیں
کہ اُن
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اقوال و افعال کو اپنے فلسفوں اور نام نہاد عقل
مندی کی بھینٹ چڑھاتے نظر آتے ہیں ، ایسے
لوگ """ اسلام قبول کرنےوالے مُسلمان""" ہوتے ہیں ،
""" اِیمان والے مؤمن""" نہیں ،
پھر اِن میں سے کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ز ُبانی گواہی بھی جان بوجھ کر صِرف اپنے آپ کو مُسلمان ظاہر کرنے کے لیے دیتے
ہیں ، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ((((( إِذَا جَآءَكَ
الْمُنَافِقُونَ قَالُواْ نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ
إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ ::: اور (اے محمد ) جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں اور کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں
کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور(اللہ کو اُن کی گواہی کی ضرورت نہیں
کیونکہ ) اللہ جانتا ہے کہ آپ اُس کے رسول ہیں اور
اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین یقیناً جھوٹے ہیں ))))) ان کی گواہیاں صِرف ز ُبان سے ہوتی ہیں اور ان
کے دِل میں اِیمان نہیں ہوتا لہذا اللہ نے اُن کے اِس زبانی قول کو جھوٹ قرار دِیا
، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ محض زبانی
اقرار اللہ کے ہاں کچھ قدر نہیں رکھتا لہذا محض زبانی اقرار کا آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہوگا
سوائے اس کے کہ ایسے شخص کو مسلمانوں کی صفوں میں کھڑا کیا جائے گا ،
اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سمجھاتے ہوئے ارشاد
فرمایا (((((أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ،
لَا يَلْقَى اللهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا، إِلَّا دَخَلَ
الْجَنَّةَ ::: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی
معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ بھی ان دو باتوں میں شک کیے بغیر
اللہ سے ملے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ))))))صحیح مسلم /حدیث 27/کتاب الایمان/باب10،
تو اصل بنیادی معاملہ اِیمان کا دِل میں موجود ہونا اور دِل کا اُس پر مکمل
یقین رکھنا ہے، اور جس طرح کا یقین ہو گا اسی طرح کا عمل ہو گا ،صرف ز ُبان سے کلمہ
کا اقرار سچائی نہیں اوردِل میں ایک سچے اور حقیقی معبود اللہ تعالیٰ پر اور اس کے
نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رسالت پر یقین کی
علامت نہیں ،لہذا جس کے پاس قلبی اِیمان
نہیں وہ """ مؤمن """ نہیں ،صِرف ز ُبان سے ((((( لَا إلَهَ إلَّا اللهُ مُحَمدُ رِّسُول ُ اللَّہ ))))) کہنے والا مُسلمان کہلائے گا ،
اور یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی
مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں مانتا وہ
مُسلمان بھی نہیں کہلا سکتا ، چہ جائیکہ اُسے اِیمان والا کہا جائے ، وہ یقیناً
کافر ہے ،
مسلمانوں کی صفوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان کی تعریف تک بتانے سے
قاصر ہیں ، لیکن مسلمانوں کے ایمان پر فتوے لگانے میں کچھ دیر نہیں کرتے ، اللہ
کرے کہ انہیں یہ معلومات پڑھ کر ایمان اور اسلام کا فرق سمجھ میں آجائے اور وہ کسی
دوسرے مسلمان کے ایمان پر فتوے لگانے سے پہلے اپنے ایمان اور اسلام کی کؓر گیری
کرتے رہیں ،
::::::: احسان کیا ہے ؟
:::::::
وہ لوگ جن کے دِلوں میں اِیمان موجود ہو ، اُن کے اِیمان کے بھی مختلف درجات
ہوتے ہیں ، اور اُن میں سے ایک بہترین درجہ یہ ہے کہ بندے کا ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو ،
پس اُس کا ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا کے لیے ہو گا عِبادت ہو گا اور پھر اُس کی یہ
عِبادت اس طرح ہو کہ بندہ جہاں کہیں بھی
ہو ، تنہائی میں یا کسی کے ساتھ ، خوشی میں یا غم میں ، ضرورت کی حالت میں ہو یا
مشکل کی حالت میں ، مالداری میں ہو یا
غربت میں ، حاکم ہو یا محکوم ، طاقت ور ہو یا کمزور ،،،،، اُسے ہر حال میں یقین رہے کہ اللہ اُس کے ساتھ ہے ، یعنی اُسے اس بات
پر یقین رہے کہ اُس کا کوئی کام کوئی بات اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلم سے خارج
نہیں ، اور یہ یقین محض ایک قلبی احساس یا ذہنی سوچ تک ہی نہ ہو بلکہ اُس کے اعمال
بھی اس پر گواہ ہوں ، کہ ، ،،،، ایسا ہو کہ تنہا ہو تو اللہ سے حیاء کرتے ہو ئے گناہ
سے دُور رہے ، لوگوں میں ہو تو اللہ سےحیاء کرتے ہوئے اللہ پر توکل کرتے ہو ئے اللہ
کے احکام پر عمل پیرا رہے ، خوشی میں ہو
تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو ، غمی میں ہو تو اللہ کی رضا پر راضی ہو ، ضرورت مند
ہو تو صِرف اللہ سے حاجت روائی طلب کرتا ہو ، مشکل میں ہو تو صرف اللہ سے مشکل
کشائی طلب کرتا ہو ، امیری کی حالت میں ہو تو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو ، غربت
کی حالت میں ہو تو صبر کرتا ہو ، حاکم ہوتو اللہ کے احکام کے نفاذ میں اپنی قوت
استعمال کرتا ہو ، محکوم ہو تو اللہ کے احکام کے مطابق حکام کی اطاعت کرتا ہو ، طاقت
ور ہو تو اپنی طاقت کو اللہ کی اطاعت میں استعمال کرتا ہو ، کمزور ہو تو اللہ کی
تابع فرمانی کی کوشش میں رہتا ہو ،اُس سے کوئی گناہ ہو جائے تو شرمندہ ہو اور اپنے رب کی طرف
پلٹ پڑے اور توبہ کرتا ہو ، یہ وہ"""
احسان """ ہے
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مذکورہ بالا فرمان میں بیان ہوا ہے ،
کیونکہ جب کسی """ مؤمن """ کا اِیمان اس درجہ پر
ہو گا کہ اُسے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو
اپنے سامنے محسوس کرتا ہو ، یا کم از کم اتنا ہو کہ خود کو اللہ کی نظر میں محصور
جانتا ہو تو اُسے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے عِلم میں ہونے اور پھر اللہ کے
سامنے جواب دہ ہو کر جزاء اور سزا ملنے کا حقیقی یقین ہو گا تو وہ""" احسان
"""والا ہو گا ،
"""
احسان """ وہ نہیں جو کچھ
لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ قلبی اور بدنی اعمال کو بنا رکھا ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا
اِیمان عطاء فرمائے ، اور ہر کمزوری اور شر سے محفوظ رکھے ۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و
برکاتہ ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج
ذیل لنک پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بلاگ کے علاوہ بھی آن لائن تبصرے اور بات چیت کے
لیے :::
صراط الھدی:::
پاک نیٹ :::
No comments:
Post a Comment