صفحات

Sunday, April 20, 2014

::::::: میاں بیوی کا ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنا :::::::

::::::: میاں بیوی کا ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنا :::::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں تھا بولتا  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ تبارک وتعالیٰ کی انسان پر رحمتوں میں سے ایک  رحمت یہ بھی ہے کہ اُس نے اِنسان کی زندگی کو ایک ہی جیسے حالات میں بند رکھنے کی بجائے ، تبدیلیاں مہیا کر رکھی ہیں ، جِن کی وجہ سے اِنسان اپنی زندگی میں تنوع پاتا ہے اور اگر وہ مثبت سوچ رکھنے والا ، با حوصلہ انسان ہو ، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ایک صحیح  اِیمان والا مُسلمان بھی ہو تو حالات زندگی کا تنوع اُس کے لیے دُنیا اور آخرت کی  راحت و سکوں ، خیر اور عافیت کمانے کا سبب ہو جاتا ہے ،
اِنسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی طرح ازدواجی زندگی بھی مد و جزر کا شِکار رہتی ہے، جِسے پر سکون بنانے کے امکانات بھی ساتھ میسر ہوتے ہیں ، بس کچھ حوصلہ مندی ، مثبت سوچ و فِکر اور اللہ جلّ و عُلا کے فیصلوں پر رضا مندی کے ساتھ اُن امکانات کو پہچاننے اور اِستعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وہ مدو جزر خوفناک طوفان کی بجائے خوش دِل جھولوں کی صُورت اختیار کر جاتے ہیں ،
ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے مدوجزر کو پر سکون جھولے بنانے کا ایک طریقہ میاں و بیوی کا ایک دوسرے کی مدح سرائی ، یعنی تعریف کرتے رہنا اور اپنے لگاؤ اور محبت کا اظہار کرتے رہنا بھی ہے ، [[[الحمد اللہ ،  اِس موضوع کو ایک الگ مضمون بعنوان """محبت ہے تو اِقرا و اِظہار کرو """ میں بہت  عرصہ پہلے نشر کر چکا ہوں]]]،
 یہاں اِس مضمون میں اِن شاء اللہ أول الذِکر معاملے کے بارے میں کچھ بات چیت کروں گا ،
اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ تقریباً ہر ایک اِنسان اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا ہے اور تعریف کرنے والے کے لیے اپنے دِل و دِماغ میں اچھے احساسات پاتا ہے ،  اِنسانی نفسیات کے اِس فطری عمل کو اگر شریعت کی حُدود میں رہتے ہوئے ، اور صِرف خیر کے لیے اِستعمال کیا جائے تو اِس کے بہت سے مثبت نتائج ملتے ہیں ، باذن اللہ ،
لہذا ،  اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی ناراضگی دور کرنے کے لیے ، اپنے درمیان محبت و مؤدت میں اضافے کے لیے اور خیر اور اصلاح کے لیے ایک دوسرے کی سچی تعریف کرتے رہا کریں تو اِن شاء اللہ اِس بات کی قوی اُمید ہوتی ہے کہ اُن کے درمیان آن پڑنے والے تلخ اوقات بہت مختصر رہا کریں گے ، یا شاید ہوا ہی نہ کریں ،
لیکن بحیثیت مُسلمان ہمیں یہ جاننا بھی لازم ہے کہ  کسی کی تعریف کرنے کے بارے میں ہمیں کیا حکم دِیا گیا ہے ؟؟؟ [[[ الحمد للہ ، اِس موضوع کو بھی ایک الگ مضمون""" کسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم """  میں بیان کیا جا چکا ہے ]]]، یہ معاملہ تو ہے کسی کی سچی تعریف کرنے کا ،
لیکن ،،،، اگر میاں بیوی کے درمیان خیر و اصلاح کے لیے ، اور محبت و مؤدت میں اضافے کے لیے صِرف  سچی تعریف سے مطلوب حاصل نہ ہو سکتا ہو، تو پھر کیا جھوٹی تعریف کی جا سکتی ہے ؟؟؟
الحمد للہ ، ہمیں اور اِن شاء اللہ ، تقریباً ہمارے  پر ایک مُسلمان بھائی اور بہن کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے ، جِس کا انجام جہنم ہے ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر ادا کروائی کہ ﴿وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ ، حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا  ::: اور یقینا ً جھوٹ  فساد کی طرف لے جاتا ہے اور یقینا ً فساد جہنم کی طرف لے جاتا ہے ، اور بے شک ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص جھوٹ بولتا ہی رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اُس پر جھوٹا ہو جانے کا حکم صادر ہو جاتا ہےصحیح بخاری /حدیث/6094کتاب الادب/باب 69، صحیح مُسلم/حدیث/6803کتاب البِر والصلۃ و الادب/باب 29،
اور جھوٹ بولنا منافقین کی نشانیوں میں سے بتایا گیا﴿ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ :::منافق کی (یہ )تین نشانیاں (بھی)ہیں، (1)جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، اور (2) جب وعدہ کرتا ہے تو اُس سے پِھر جاتا ہے ، اور (3) جب اُس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرتا ہےصحیح بخاری /حدیث/33کتاب الاِیمان/باب 24،صحیح مُسلم/حدیث/220کتاب الاِیمان/باب 27،  
پس یہ بات خُوب اچھی طرح سے معلوم ہے جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے ، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی آخری شریعت میں اِنسانوں کی عمومی اور مسلمانوں کے مابین خصوصی خیر اور اِصلاح کے لیے کچھ مقامات اور حالات میں حقیقت کے خِلاف بات کرنے کی گنجائش رکھی ہے ،
[[[ الحمد للہ ،"""صِدق""' نامی مضمون میں جھوٹ اور دِکھاوے کی بات کے جائز  مقامات اور اسباب کا تفصیلی ذِکر کیا جا چکا ہے ، اِس مسئلے کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے اُس مضمون کا مطالعہ اِن شاء اللہ مُفید ہو گا ]]]،
اُن مقامات اور حالات میں سے ایک مقام اور ایک حالت میاں بیوی کے درمیان خیر ، اِصلاح اور محبت و مؤدت میں اضافہ بھی ہے ، جیسا کہ ام کلثوم بنت عُقبہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ :::
 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ ﴿ لَیس الکَذَّابُ الذی یُصلِحُ بَینَ النَّاس فَیَنمِی خَیرًا أو یقول خَیرًا ::: وہ جھوٹا نہیں جو لوگوں  میں اِصلاح (دُرستگی، صلح صفائی وغیرہ) کے لیے (جھوٹ بولے تا کہ اس طرح ) خیر میں اضافہ کرے یا خیر کی بات کرتا ہو صحیح البخاری / کتاب الصُلح / باب 2، صحیح مُسلم /حدیث 2605/کتاب البر والصلہ و الآداب/باب 27،
کچھ اور روایات میں اس کے ساتھ کچھ اور مواقع کا بھی ذکر ہے ﴿ولم أَسمَع یُرَخَّصُ فی شَیء ٍ مِمَّا یقول الناس کَذِبٌ إلا فِی ثَلَاثٍ (1)  الحَربُ وَ (2)الإِصلَاحُ بَینَ النَّاس وَ (3) حَدِیثُ الرَّجُلِ امرَأَتَہُ وَحَدِیثُ المَرأَۃِ زَوجَہَا ::: لوگ جو جھوٹ بولتے ہیں اُن جھوٹ میں سے میں نے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سوائے تین معاملات میں جھوٹ کی اجازت دینے کے لیے علاوہ (کسی اور معاملہ میں اجازت دیتے ہوئے ) نہیں دیکھا (1) جنگ (2) لوگوں کے درمیان  اصلاح کرنے میں (3) خاوند کی اپنی بیوی سے بات کرنے میں اور بیوی کی اپنے خاوند سے بات کرنے میں (یعنی ایک دوسرے کی ناراضگی دُور کرنے کے لیےصحیح مُسلم /کتاب البر و الصلۃ و لاآداب / با ب 27 ،
اِن احادیث شریفہ کی بنا پر اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان خیر ، اِصلاح اور محبت و مؤدت میں اِضافے کے لیے کسی بھی قِسم کا جھوٹ بولا جا سکتا ہے ، اور میاں بیوی ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف بھی کر سکتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں ،
میاں بیوی کے درمیان خیر و اِصلاح کی کوشش میں کسی تیسرے کی طرف سے کوئی جھوٹ بولا جانا اور معاملہ ہے اور خود میاں بیوی میں سے کسی ایک  کی طرف سے  دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنا الگ معاملہ ہے ،
ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف ، اُس غیر حقیقی بات کے ز ُمرے میں نہیں آتی جسے خیر اور اِصلاح کے لیے اِستعمال کرنے کی اجازت دی گئی ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان مُبارک پر غور فرمایے ﴿ أَهْلَكْتُمْ۔ أَوْ ۔ قَطَعْتُمْ  ظَهْرَ الرَّجُلِ:::  تُم لوگوں نے اس (یعنی جس کی تعریف کی جا رہی ہے اُس )کو ھلاک کر دیا ۔۔۔ یا فرمایا ۔۔۔ اُس کی کمر توڑ دی،صحیح البخاری/حدیث6060/کتاب الادب/باب 54،صحیح مُسلم/حدیث 7696/کتاب الزھد والرقائق/باب 15،
یہ فرمان مُبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس وقت اِرشاد فرمایا جب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے دوسرے شخص کی تعریف کی ،
آپ یہ دیکھیے کہ کسی کی سچی تعریف میں بھی مبالغہ آرائی کرنا اور اُس کے سامنے اُس کی تعریف کرنا ، ممنوع قرار دیا گیا ہے [[[ اِس کی تفصیل""" کسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم """ میں ملاحظہ فرمایے]]]
تو کسی کی جھوٹی تعریف کرنا تو بدرجہ أولیٰ ممنوع ہوا ، لہذا میاں بیوی کو اپنے درمیان خیر اور اِصلاح کے لیے ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنے کی اجازت نہیں ،
یہاں یہ بات خُوب اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنا ،  اور ایک دوسرے کے بارے میں اپنے غصے  وغیرہ والے جذبات یا احساسات کے خِلاف،  اچھے جذبات و احساسات کا اظہار کرنا ، دونوں معاملات الگ الگ ہیں ،
پہلے معاملے کی شریعت میں اجازت میسر نہیں ،لیکن دوسرے معاملے کی میسر ہے ،
ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنے  میں گناہ کما کر آخرت کا نقصان اٹھانے کے ساتھ ساتھ ، اُس سے پہلے دُنیا میں نقصان پانے کے امکانات کافی روشن اور مضبوط ہوتے ہیں ،
اور وہ اِس طرح کہ ہر شخص اپنے بارے میں کافی اچھی طرح سے جانتا ہے ، پس جب آپ کسی جھوٹی تعریف کریں گے تو وہ جان جائے گا کہ آپ اُس سے جھوٹ بول رہے ہیں ، پس آپ اُس کے محبوب ہستیوں میں شامل نہیں ہو سکیں گے ، آپ کی جھوتی تعریف کے دھوکے میں وہی  بیوقوف شخص آ سکے گا جو خود اپنے بارے میں حقائق سے چشم پوشی کرنے والا ہو ،  یا اپنے بارے میں حقائق جانتا ہی نہ ہو ،
پس جب کوئی خاوند اپنی بیوی کی ، یا کوئی بیوی اپنے خاوند کی جھوٹی تعریف کرے گا تو وہ ایک دوسرے کی طرف سے اِس دھوکہ دہی کو جان لیں گے اور بجائے خیر اور اِصلاح کے شر اور فساد کے امکانات زیادہ رہیں گے ،
لہذا یہ مسئلہ صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ آپس میں خیر ، اِصلاح اور ایک دوسرے کی محبت اور مؤدت میں اضافے  کے لیے میاں بیوی کو ایک دوسرے کی جھوٹی تعریف کرنے کی اجازت نہیں ،
جی اپنی ازداوجی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لیے وہ یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے بارے میں نا پسندیدگی والے  خیالات کے اظہار سے باز رہیں ، اور جو کچھ ایک دوسرے میں دیکھنا پسند نہیں کرتے ، کچھ ایسی  حِکمت عملی کے ساتھ اُس کی خبر ایک دوسرے کو  کرتے رہا کریں کہ اُن کے درمیان شر اور فساد کو جگہ نہ ملے یا اگر پہلے سے ہی کوئی شر یا فساد موجود ہے تو اُس میں اضافہ نہ ہو ۔
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو اور ہمارے تمام کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو ہر شر سے محفوظ رکھے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : ہجری15/04/1435 ، بمطابق ، 15/02/2014عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کے ساتھ ز ُبان کے اِستعمال اور بات چیت کے نتائج کے بارے میں دیگر ، درج ذیل مضامین کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ مفید ہو گا ،
(1)بات ہی تو ہے                (2)ھنڈیا اور چمچ            (3) اِلفاظ معانی اور مفاہیم کے سانچے ہوتے ہیں ،،،
(4) دوسروں کی کمزوریاں ،اوراپنی خوبیاں  بیان کرنے سے پہلے سوچیے،
(5) کسی کی تعریف کرنے  کا شرعی حکم   (6) خاموشی نجات ہے      (7) صِدق ، سچائی ،
الحمد للہ یہ سب مضامین میرے بلاگ پر بھی موجود ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر سےنازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment