::::::: دُنیا اور آخرت کے کاموں میں موافقت کیسے کی جائے ؟ :::::::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بحیثیت مُسلمان ہمیں اس حقیقت کا خوب
اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں اُس کی عبادت کے لیے تخلیق کیا ہے
، اور اُس کی رضا حاصل کر کے ہماری آخرت سنوارنے کی ذمہ داری بھی دی ہے ،
اس کے ساتھ ہی ساتھ دُنیا کی زندگی
میں اِس زندگی کو گذارنے کے لیے ، ہماری اور ہماری ذمہ داری میں ہونے والے ہمارے
رشتہ داروں کی معاشی اور معاشرتی ضرویارت پوری کرنے کی ذمہ داری بھی دی ہے ،
پس ہمارے لیے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ
ہم اپنی آخرت اور دُنیاوی زندگی کی خیر اور کامیابی کو ساتھ ہی ساتھ حاصل کرتے
چلیں ، نہ تو یہ مطلوب ہے کہ آخرت کی خاطر دُنیاوی زندگی سے متعلق ذمہ داریاں تَگ
کر جنگلوں اور خانقاہوں میں جا بسیں ، اور نہ ہی یہ مطلوب ہے کہ دُنیاوی زندگی کی
ذمہ داریوں کے چکروں میں آخرت بھول جائیں اور اُس کی تباہی اختیار کر لیں ،
بلکہ یہ مطلوب و مقصود ہے کہ ہم اللہ
اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے
اپنی دُنیاوی زندگی کی ذمہ داریاں پُوری کریں اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم عُدولی کا شِکار نہ ہوں ،
::::::: دُنیاوی اعمال اور اُخروی اعمال میں مُسلمانوں
کے اندازء فِکر و عمل :::::::
دُنیا اور آخرت کا راستہ ایک ہی ہے ،
یعنی ، دُنیا کی زندگی ہی آخرت کی راہ ہے ، کہ اسے جِس طرح گذاریا جائے گا اُسی کے
مطابق آخرت کا ٹھکانہ لے گا ، ایسا نہیں ہے کہ دُنیاکے کاموں کے لیے کوئی اور
راستہ اپنایا جائے اور دِین کے کاموں کو اُس سے الگ کسی اور راہ پر نمٹانے کی کوشش
کی جائے ، جو کوئی بھی دُنیا سے دِین کو الگ سمجھتا ہے ،دُنیاوی کاموں کو دِین کے
احکام اور معاملات سے الگ سمجھتا ہے وہ یقیناً غلطی کا شِکار ہوتا ہے اور اپنی
آخرت کا خسارہ مول لیتا ہے ،
پس خُوب اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے
کہ دُنیا اور آخرت کی راہوں میں کوئی علیحدگی نہیں، اور نہ ہی دُنیا کے کام آخرت
کے کاموں سے الگ رہ کر کسی فائدے کا سبب ہو سکتے ہیں ، اور نہ ہی دُنیا اور آخرت
میں کوئی جدائی ہو سکتی ہے ،
مُسلمانوں میں سے کچھ کے ساتھ تو ایسا
ہوتا ہے کہ وہ جب اپنے دُنیاوی کاموں مثلاً تجارت ، نوکری ، پڑھائی لکھائی ، وغیرہ
کی طرف نظر کرتے ہیں تو اُن کاموں میں اسلامی احکام کی مخالفت پاتے ہیں ،دُنیاوی
کاموں اور قران و سُنّت کو ایک دوسرے کے موافق نہیں پاتے ، تو بجائے اپنے کاموں
میں سے ناجائز کام ختم کرنے کے دینی امور کو ہی چھوڑنے لگتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں
کہ یہ تو دُنیاوی کام ہیں اب ہر کام میں تو دِین شامل نہیں کیا جا سکتا ، ایسے
سوچنے والے بلا شک و شبہ غلطی پر ہوتے ہیں ،
اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جِن کا ذِکر
کچھ دیر پہلے کہا ہے اُن کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ عبادات ، اور دینی احکام پر
عمل پیرا ہونے کو دُنیا کے ہر کام کے منافی سمجھنے لگتے ہیں ، یا دونوں طرف کے
کاموں کو ساتھ ساتھ کرنا تقریبا ً نا
مُمکن سمجھنے لگتے ہیں ، اور دُنیاوی زندگی کی ذمہ داریاں چھوڑ کر بن باسی ہو جاتے
ہیں ، یا اپنی اختیار کردہ عبادت گاہوں میں جا قید ہوتے ہیں اور خود ساختہ عبادات
، چلہ کشیوں اور دیگر ایسے اعمال میں مصروف رہنے لگتے ہیں جنہیں وہ اپنے طور پر
اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کسی دلیل کے
بغیر ہی اللہ کے قُرب کا سبب سمجھ رہے ہوتے ہیں ،
مُسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کوئی کام کرتے ہوئے گناہ اور شرمندگی کا احساس پاتے
ہیں ، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ،
مثلاً کبھی تو دینی معاملات میں عِلم
کی کمی کی وجہ سے کسی جائز کام کو بھی ناجائز سمجھا جا رہا ہوتا ہے ،
اور کبھی واقعتا ایسا ہوتا ہے کہ وہ جس کام میں
یا جن کاموں میں مشغول ہوتے ہیں وہ کام شرعی طور پر ناجائز ہی ہوتے ہیں، اور اُن
کا احساس گناہ دُرست ہی ہوتا ہے ، ایسی صُورت میں اُن پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ایسے
کاموں کو ترک کریں ، اور اُن کاموں کو اختیار کریں جنہیں شرعی حُدود میں رہتے ہوئے پورا کیا جاسکے ،
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو کام کیا
جارہا ہوتا ہے ، اور جِس طرح کیا جا رہا ہوتا ہے وہ شرعاً تو دُرُست ہوتا ہے لیکن
کرنے والا مُسلمان اپنے اندر یہ شعور پاتا ہے کہ وہ اُس کام ، یا اُن کاموں کی طرف
آخرت کے کاموں کی نسبت زیادہ مائل ہے اور اُن دُنیاوی کاموں میں زیادہ وقت صَرف
کرتا ہے ، اُس کا یہ شعور اُس میں احساس گناہ یا احساس ندامت کے جاگنے کا سبب بنتا
ہے ، اور یہ بھی ایک اچھی علامت ہے کہ مُسلمان اپنے دُنیاوی کاموں میں وقت کا حساب
کرتا ہے جو اِن شاء اللہ اُس کو دُنیا میں رغبت میں کمی کی طرف اور آخرت میں رغبت
میں بیشی کی طرف لے جانے کا سبب ہوتا ہے ،
عموماً ایسا مُسلمان اپنی جد وجہد کا
مرکز دُنیاوی امور کی بجائے اُخروی امور کو بنا لیتا ہے کیونکہ وہ
سمجھ لیتا ہے کہ دُنیا کی فنا ہونے والی عارضی زندگی کے فوائد اور سہولیات حاصل
کرنے کی کوشش میں اپنی قوتوں کو لگانا قطعا فائدہ مند نہیں ، پس وہ اپنی قوتوں کو
آخرت کی کبھی نہ فنا ہونے والی ، ہمشیگی والی زندگی اور دائمی فوائد کے حصول کی
کوشش میں خرچ کرنے لگتا ہے اور یُوں اِن
شاء اللہ اُس کے دُنیا کے کام بھی بہتر طور پر ہونے لگتے ہیں اور آخرت کے کام بھی
، دُنیاوی زندگی میں اللہ تبارک و تعالیٰ
اُسے حقیقی تونگری عطاء کرتا ہے جو دِل کی تونگری ہے کہ اُس میں سے غیر اللہ کی
کوئی چاہت نہیں رہتی ، [[[خیال رہے کہ تونگری اور مالداری دو الگ الگ چیزیں ہیں
،اس کے بارے میں کچھ معلومات پہلے مہیا کی جا چکی ہیں ]]]
::::::: دُنیاوی کاموں اور کمائی کے بارے میں اسلامی
شرعی نکتہ ء نظر :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد
گرامی ہے ﴿وَابتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ
الآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنيَا::: اور جو کچھ اللہ نے
تُمہیں دِیا ہے اُس میں سے آخرت کا گھر بنانے کی طلب کرو اور دُنیا میں سے اپنا
حصہ مت بُھولو﴾سُورت القصص(28)/آیت77،
اِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں لکھا """"" اس کا معنی ہے کہ یہ جو
کچھ اللہ نے تُمہیں دیا ہے اُسے اللہ کی اطاعت میں استعمال کرو ، اور اللہ کے قُرب
حاصل کرنے کے اسباب کے طور پر استعمال کرو تا کہ یہ مال تُمہارے لیے دُنیا اور
آخرت میں نیک نتائج کا سبب بنے (یہ ہی دُنیا میں سے تُمہارا حقیقی فائدہ مند حصہ
جِس کے ذریعے تُم آخرت کا گھر بنا سکتے ہو، اور اس کے علاوہ یہ ہے کہ )،
اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنيَا::: اور دُنیا میں سے
اپنا حصہ مت بُھولو﴾ سے مُراد کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے ، رہنے اور شادی
بیاہ کرنے کے معاملات میں سے حلال چیزیں اور کام ہیں ، کیونکہ (رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی تصدیق کے مطابق ) تُمہارے رب کا تُم پر حق ہے ، اور تُماری
جان کا تُم پر حق ہے ، اور تُمارے گھر والوں کا تُم پر حق ہے ، اور تُمہارے
مہمانوں کا تُم پر حق ہے ، لہذا ہر حق دار کو اُس کا حق دو ، (اور ان حقوق کی
ادائیگی کے دُنیاوی مال و اسباب کا ہونا ایک لازمی امر ہے ، لہذا دُنیا کے مال و
اسباب میں سے اپنا حصہ کمانا مت بُھولو) """""،
امام القرطبی نے ﴿ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنيَا::: اور دُنیا میں سے
اپنا حصہ مت بُھولو﴾ کی تفسیر
میں اپنی """ الجامع
لاِحکام القُران """ میں لکھا :::""""" عبداللہ
ابن عباس اور جمہور کا کہنا ہے """ لَا تُضَيِّع عُمرَكَ فِي أَلَّا تَعمَلَ عَمَلًا صَالِحًا
فِي دُنيَاكَ، إِذِ الآخِرَةُ إِنَّمَا يُعمَلُ لَهَا، فَنَصِيبُ الإِنسَانِ عُمرُهُ
وَعَمَلُهُ الصَّالِحُ فِيهَا :::اپنی عُمر اِس طرح ضائع مت کرو کہ اپنی
دُنیا(کی زندگی میں)کوئی نیک کام نہ کرو ، کیونکہ انسان کا( دُنیا میں)حصہ اُس کی
عُمر اور اُس میں (کیے گئے)نیک کام (ہی) ہیں""" پس اس تفسیر کے
مطابق اس آیت میں سخت و شدید نصیح کی گئی
ہے ،
اور اس کے علاوہ دوسرے زوایہء فہم سے
اس کی تفسیر میں الحسن (البصری) اور قتادہ کا کہنا ہے """ لَا تُضَيِّعُ حَظَّكَ مِن دُنيَاكَ فِي تَمَتُّعِكَ
بِالحَلَالِ وَطَلَبِكَ إِيَّاهُ::: اس کا معنی ہے کہ دُنیا میں حلال
چیزوں سے فائدہ اور لذت حاصل کرنے میں اور اُن چیزوں کو طلب کرنے میں اپنا حصہ مت
بُھولو """،
اور یہ دونوں باتیں (یعنی یہ مذکورہ بالا تفسیر اور
امام ابن کثیر رحمہُ اللہ کے حوالے سے بیان کردہ تفسیر )عبداللہ اب عُمر
رضی اللہ عنھما نے اپنے اس فرمان میں جمع فرما دِیں کہ """احرُث لِدُنيَاكَ كَأَنَّكَ تَعِيشُ أَبَدًا، وَاعمَل لِآخِرَتِكَ
كَأَنَّكَ تَمُوتُ غَداً:::اپنی دُنیا (کی چیزوں) کی اِس طرح
حفاظت کرو گویا کہ تُمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے ، اور اپنی آخرت کے لیے اِس طرح کام
کرو گویا کہ تُم کل ہی مرنے والے ہو """،
اور الحسن (البصری رحمہُ اللہ)سے (یہ
بھی )مروی ہے کہ """قَدِّمِ الفَضلَ، وَأَمسِك
مَا يُبَلِّغُ:::جو ضرورت سے زیادہ ہے اُسے آگے
بھیج دو ، اور جو ضروری ہو (صِرف) اُسے (اپنے پاس) روک لو"""،
اور (اِمام) مالک(ابن أنس رحمہُ اللہ)
کا کہنا ہے """ هُوَ الأَكلُ وَالشُّربُ
بِلَا سَرَفٍ ::: اس(یعنی دُنیا میں حصے) سے مُرادفضول
خرچی کے بغیر کھانا پینا ہے"""۔
پس دُنیا میں سے حصے سے مُراد یہ ہے
کہ دُنیا کے مال و اسباب کو اپنی دُنیاوی ضروریات اور ذمہ داریاں پُوری کرنے کے
لیے حلال طریقوں سے حاصل کیا جائے اور اضافی مال و اسباب کو آخرت کمانے کے لیے
حاصل کیا جائے اور آخرت کا گھر بنانے کے لیے خرچ کیا جائے ۔
::::::: دُنیا کی کمائی ، اور کافر ، مُنافق اورکمزور
اِیمان والے اورسچے مضبوط اِیمان والے کی
کمائی میں فرق :::::::
::::::: دُنیا کی کمائی :::::::
اپنی جان اور اپنے اہل خانہ و خاندان
کی ضروریات اور تمام حق داروں کے حقوق ادا کرنے کے لیے مال اوراسباب کمانا ضرورت
ہے ، اور اِس ضرورت کو پورا کرنابلا شک و شبہ ہم مُسلمانوں کےلیے ایک اِسلامی شرعی
معاملہ ہے،جِس کے ذرائع کے مطابق ہی انسان کی آخرت میں جزاء و سزاء ملیں گے ،
دُنیاوی مال و اسباب کمانا محض کوئی
دُنیاوی معاملہ نہیں کہ جیسے جی چاہا کماتے رہے اور کمانے والے کو آخرت کی کوئی
فِکر نہ ہو ، یا وہ یہ خیال رکھتا ہو کہ دُنیا کے معاملات کا دِین اور آخرت سے کیا
تعلق ، ایسے کاموں کا آخرت میں کوئی نتیجہ
نہ نکلے گا ،
::: (۱) :::
سچے اور مضبوط اِیمان والے مُسلمان کی کمائی کا طریقہ :::
ہم میں سے سچے مضبوط اِیمان والے
یہ جانتے ہیں کہ اُن کا ہر عمل اُن کی آخرت
پر اثر انداز ہونے والا ہے ، پس وہ اپنی تجارت، نوکری ، پڑھائی لکھائی، غرضیکہ ہر
ایک کام کو صِرف دُنیا کمانے کا سبب نہیں بناتے ، بلکہ دُنیا کے ساتھ آخرت کی
کامیابی کمانے کا سبب بھی بناتے چلتے ہیں ،
جیسا کہ اس مذکورہ ذیل حدیث شریف میں
بڑی وضاحت سے سمجھایا گیا ہے ،
ایک دفعہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے ایک
مضبوط جوان کو کسی طرف جاتے ہوئے دیکھا اور اُس کی مضبوطی اور جوانی کو دیکھ کر خوش
ہوئے اور کہا """ کاش یہ جوان اللہ کی راہ میں نِکلا ہوتا ، تو رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿
إِن كَانَ يَسعَى عَلَى
أَبَوَينِ شَيخَينِ كَبِيرَينِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِن كَانَ يَسعَى عَلَى
وَلَدِهِ صِبيَةً فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِن كَانَ يَسعَى عَلَى نَفسِهِ لِيَعُفَّهَا
فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ و إن كَانَ خَرجَ يَسعَى رِياءً وَ مُفاخرةً
فَهُوَ في سِبيلِ الشَّيطَانِ:::اگر
وہ اپنے عُمر رسیدہ بوڑھے ماں باپ کے لیے جدوجہد کے لیے نکلا ہے تو وہ اللہ کی راہ
میں (ہی نِکلا)ہے ، اور اگر اپنی اولاد کے لیے جدو جہد کے لیے نِکلا تو (بھی)اللہ
کی راہ میں (نِکلا)ہے ،اور اگر اپنے نفس کی (اِیمانی ،معاشی اور معاشرتی)حفاظت کے
لیے نِکلا ہے تو (بھی)اللہ راہ عزَّ و جَلَّ کی راہ میں نِکلا ہے، اور اگر دِکھاوے اور فخر بازی
کے لیے نِکلا ہے تو وہ یقیناً شیطان کی راہ میں (نِکلا )ہے﴾معجم الطبرانی الصغیر/حدیث940/ باب حرف المیم ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث1428،
مُسلمانوں کے دُنیا کمانے کا معاملہ بھی اگر اللہ کی رضا کے حصول
کی نیت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی
کے مطابق ہو، تو اُس کی تجارت ، زراعت ، نوکری وغیرہ سب کچھ ہی اُس کی آخرت کی خیر
کے اسباب میں سے ہو جاتے ہیں ، کیونکہ نیت
کے مطابق ہی مُسلمان کا کوئی عمل عِبادت کی حُدود میں داخل ہوتا ہے ، اور نیت کے
مطابق ہی عباداتء محضہ کے لیے بھی قبولیت
کی اُمید رکھی جا سکتی ہے ، (عبادت کی تعریف کا ذِکر عقیدے سے متعلق سوال و جواب
میں ہو چکا ہے)
پس اگر کوئی مُسلمان آخرت کی بھلائی
کمانے کی نیت سے دُنیاوی کام کرتا ہے تو وہ دُنیا
کے ساتھ ساتھ آخرت کے لیے بھی خیر والی کرتا ہے اور دُنیا کےکام
میں سے ہی اپنی آخرت کے کام بھی کر لیتا ہے ،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اپنے اِس اِرشاد گرامی میں تعلیم فرمائی ﴿مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا ، أَوْ يَزْرَعُ
زَرْعًا ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ ، إِلاَّ كَانَ
لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ :::جب
بھی کوئی مُسلمان کوئی بیج بوتا ہے ، یا
کوئی کھتیی بوتا ہے ،تو اُس میں سے (جب بھی)کوئی پرندہ، اِنسان یا جانور کھاتا ہے
تو وہ اُس بونے والے کے لیے صدقہ ہوتا ہے﴾صحیح البخاری /حدیث2320/کتاب المُزارعۃ/پہلاباب، صحیح مُسلم/حدیث4055/ کتاب
المُساقاۃ/باب2،
::: (۲) :::
کافر ، مُنافق اور کمزور اِیمان والے مُسلمان کی کمائی کا طریقہ :::
کافروں ، منافقین اور کزور اِیمان والے
مُسلمانوں کے لیے دُنیاوی مال و اسباب کمانا محض
دُنیاوی معاملہ ہی ہوتا ہے پس اُنہیں حلا ل و حرام ،جائز ناجائز شرم و حیاء
اور غیرت و بے غیرتی وغیرہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی،
بلکہ اُن کی اکثریت تو دُنیاوی کاموں
کو دِین سے الگ سمجھتے ہیں اور اس فِکر کے حامل ہوتے ہیں کہ """ اب
ہر کام میں تو اِسلام شامل نہیں کیا جا سکتا ، یہ تو محض دُنیاوی کام ہے
"""،
پس اُنہیں اپنی کسی بھی دُنیاوی کام
کے بارے میں یہ احساس تک ہی نہیں ہو پاتا کہ اس کام کے ذریعے اُن کی آخرت سنور بھی
سکتی ہے اور تباہ بھی ہو سکتی ہے ،
اُن کا ھدف دُنیاوی مال و اسباب کمانا
ہوتاہے ، اپنے دُنیاوی کاموں کو کسی بھی طور مکمل کرنا ہوتا ہے ، لہذا اُنہیں جو
بھی طریقہ اُن کے مقصد پورے کر سکنے والا نظر آتا ہے وہ اُس کو استعمال کر تے ہیں
،اُس پر چل پڑتے ہیں، کہ جیسے جی چاہا
کماتے رہے اور کمانے والے کو آخرت کی کوئی فِکر نہ ہو ، یا وہ یہ خیال رکھتا ہو کہ
دُنیا کے معاملات کا دِین اور آخرت سے کیا تعلق ، ایسے کاموں کا آخرت میں کوئی نتیجہ نہ نکلے گا ،
یہی فرق ہے سچے مضبوط اِیمان والے کے
دُنیا کمانے میں اورکمزور اِیمان والے
مُسلمان اور کافر کے دُنیا کمانے میں ، کہ سچے مضبوط اِیمان والے پہلے طریقے سے
کمانے کی کوشش کرتے ہیں ، اورکمزور اِیمان والے مُسلمان، مُنافق اور کافر دوسرے طریقے سے ۔
::::::: دُنیا اور آخرت کے معاملات کو ایک
دوسرے میں داخل کرنا :::::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلاَةٍ مِنَ الأَرْضِ فَسَمِعَ
صَوْتًا فِى سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلاَنٍ،فَتَنَحَّى ذَلِكَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ
مَاءَهُ فِى حَرَّةٍ ،فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْكَ الشِّرَاجِ قَدِ اسْتَوْعَبَتْ
ذَلِكَ الْمَاءَ كُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَاءَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِى حَدِيقَتِهِ
يُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ قَالَ
فُلاَنٌ، لِلاِسْمِ الَّذِى سَمِعَ فِى السَّحَابَةِ، فَقَالَ لَهُ ، يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِى عَنِ اسْمِى،
فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ صَوْتًا فِى السَّحَابِ الَّذِى هَذَا مَاؤُهُ يَقُولُ اسْقِ
حَدِيقَةَ فُلاَنٍ لاِسْمِكَ فَمَا تَصْنَعُ فِيهَا ، قَالَ أَمَّا إِذَا قُلْتَ هَذَا
فَإِنِّى أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَآكُلُ أَنَا
وَعِيَالِى ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ ::: ایک دفعہ ایک شخص
ایک کھلی جگہ میں تھا کہ اُس نے ایک بادل میں سے یہ آواز سُنی کہ فُلاں کے باغ کو
پانی دو ، تو وہ بادل ایک طرف کو ہوا اور اپنا سار اپانی ایک کالے پتھروں سے ڈھکی
ہوئی جگہ پر برسا دِیا ، تو پانی کے بہنے کے راستوں میں سے ایک راستہ میں وہ سارا ہی پانی بہہ نِکلا ، (یہ سب دیکھ کر
)اُس شخص نے پانی کا پیچھا کیااور ایک شخص تک جا پہنچا جو اپنے باغ میں کھڑا تھا
اورلوہے کی کنگھی نُما اوزار سے پانی کو باغ کی طرف دھکیل رہا تھا ، اِس آنے والے
شخص نے باغ والے سے پوچھا "اے اللہ کے بندے تُمہارا کیا نام ہے ؟ "،
اُس نے جواباً سوال کِیا "اے اللہ کے بندے
تُم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو ؟ "،
اُس شخص نے کہا "جِس
بادل کا یہ پانی ہے میں نے اُس بادل میں سے تُمہارے نام کے ساتھ آواز سنی تھی کہ
اُس کے باغ کو پانی دو، تُم اپنے باغ میں (ایسا ) کیا کرتے ہو(جِس کی وجہ سے تُم
پر یہ مہربانی ہوتی ہے)؟"،
باغ والے کہا "میں
اپنے باغ کی پیدا وار کا حساب کرتا ہوں ،اور اُس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کر دیتا
ہوں ، اور ایک تہائی حصہ میں اور یرے اہل خانہ کھاتے ہیں ، اور ایک تہائی حصہ میں
باغ میں ہی واپس(بیج )لگا دیتا ہوں "﴾صحیح مُسلم/حدیث7664/کتاب الزُھد و الرقائق/باب5،
اِس حدیث شریف میں یہ سبق ملتا ہے کہ
وہ باغ والا شخص اپنی اور اپنے اہل خانہ کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے باغ
میں زراعت کا دُنیاوی کام کرتا تھا ، لیکن
اپنی اِن دُنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کےدُنیاوی کام کو بھی اُس نے اپنی آخرت کی
خیر والا کام بنا لیا تھا ، اور اللہ کو اُس کا یہ عمل ، اُس کا اخلا ص اس قدر
مقبول ہوا کہ اللہ تابرک و تعالیٰ اُس کی دُنیا کے کام پورے کروانے کے لیے اور
آخرت کی خیر میسر کروانے کے لیے بادلوں کو خصوصی طور پر اُس کے باغ کے لیے پانی
برسانے پر مأمور فرماتا ،
یہ واقعہ جو کہ کسی قصہ گو کا بیان
نہیں ، بلکہ اللہ کے صادق المصدوق رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز
ُبان مبارک سے بیان کروایا گیا واقعہ ہے ، ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ کِس طرح دُنیا کا
کام آخرت کے کام میں داخل کیا جا سکتا ہے اور کس طرح آخرت کے کام کو دُنیا کے کام
کی تکمیل کے ساتھ ہی ساتھ ، دُنیا کےکام کےذریعے کیا جا سکتا ہے ،
اس کے علاوہ ایک اور مثال دیتا چلوں ،
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن اور عظیم ترین عِبادات میں سے ایک عِبادت حج
کو دیکھیے ، جِس میں ہر ایک کام بڑی ہی خاص توجہ ، اخلاص اور مُشقت سے کیا جانا ہوتا ہے ، مُسلمان کتنی
کتنی سختیاں برداشت کرتے کرتے حج کے لیے آتے ہیں ، تا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عظیم
عِبادت کریں ، لیکن اُن کا رب اللہ اپنے بندوں پر بے حساب شفقت کرنے والا چونکہ
اُن کی ضرویارت کو جانتا ہے لہذا اِس موقع پر بھی اُن تجارت اور دیگر دُنیاوی
کاموں کے ذریعے اُن کی دُنیاوی ضروریات پورے کرنے کی اجازت عطاء فرمائی کہ حاجی
اپنے حج کے مناسک بھی ادا کرتا چلے اور حسبء ضرورت اپنی دُنیاوی حاجات روائی کے
لیے دُنیا کا مال و اسباب کمانے کے کام بھی کرتا چلے ،پس حاجیوں کو محض عِبادت تک محدود ہو کر رہ جانے کا
پابند نہیں فرمایا ، اور اِرشاد فرمایا ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا
مِنْ رَبِّكُمْ:::اگر
تُم لوگ (کچھ کمائی کر کے) اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو تُم لوگوں پر کوئی گُناہ
نہیں﴾سورت البقرہ (2)/آیت 198،
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی بھی واضح
دلیل ہے کہ مُسلمان سے یہ مطوب نہیں کہ وہ عبادات کے لیے اپنی دُنیاوی ذمہ داریوں اور
ضروریات کو پورا کرنے سے راہ فرار اختیار
کر لے ،
اور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہمارے
دِین میں لوگوں کی دُنیاوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سب سے زیادہ نرمی اور رحمت
والا معاملہ ہے ،
اور اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر
دُنیاوی کاموں کو دِین کے کاموں میں شریعت کے تابع رکھ کر داخل کیا جائے ، یا
باالفاظ دِیگر اُخروی کاموں کو دُنیا کے کاموں کے ساتھ رکھ لیا جائے تو اِن شاء اللہ دُنیا کے کاموں کی تکمیل کے ساتھ
ہی ساتھ آخرت کی خیر کا بھی سبب بن جاتے ہیں ۔
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم دُنیا کی کمائی ،دینی عِلم اور عمل کو اکٹھا رکھ کراپنے دُنیاوی کام کیا
کرتے تھے :::::::
چونکہ ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہی سب سے بہترین
نمونہ ہیں ، پس ہمیں اپنے دِین اور اپنی دُنیا کے متعلق ہر کام کو بہترین طور پر
کرنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال سے اچھی راہ اور کوئی
نہیں مل سکتی ، اور ہمارے اس زیر مطالعہ موضوع میں بھی ہم صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین کی زندگیوں میں ہی جھانکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انہوں نےدُنیاوی زندگی کی ضروریات اور ذمہ داریاں پوری کرنے کے
لیے دُنیا کے مال و اسباب کمانے اور دینی علم حاصل کرنے اور اس علم کے مطابق عمل
کرتے ہوئے اپنی آخرت کی خیر کمانے کے کاموں کو کس طرح کیا ،
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مُسلمان
بھائی بہنوں میں سے کئی ایسے لوگ جو کہ اِسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش میں
اور اپنی آخرت کے لیے خیر کمانے کی کوشش
میں اخلاص سے محنت کرتے ہیں ، وہ لوگ بھی یہ کہتے سُنائی دیتے ہیں کہ
"""ہم دُنیاوی کام اور دینی علم کے حصول کی کوشش ملا جلا کر نہیں
کر سکتے """یا کہتے ہیں """ ہم دُنیاوی امور اور
عبادات میں موافقت نہیں کر سکتے """،
جی یہ درست ہے کہ وجودہ دور میں ایسی کئی مشکلات پائی جاتی ہیں
جو سابقہ ادوار میں نہ تھیں ،لیکن یہ بات
بھی یقینی ہے کہ ہر دور میں ہی مال کمانے کی ضرورت برقرار رہی ہے ، اور موجودہ دور
کی نسبت سابقہ ادوار میں مال کمانا کہیں زیادہ محنت طلب اور وقت طلب رہا ہے ،
ایک دفعہ دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر
المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو
تعلیم و تربیت کے طور میں یہ واقعہ سنایا کہ """میں اور میرا ایک
انصاری پڑوسی مدینہ المنورہ کی نواحی بستی جو کہ بنی اُمیہ بن زید کی بستی تھی ، میں رہا کرتے
تھے ، اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مجلس میں حاضری کے لیے ایک
دوسرے کی نیابت کیا کرتے ، کہ ایک دِن میرا پڑوسی حاضر ہوتا اور ایک دِن میں حاضر
ہوتا ، تو جِس دِن میں حاضر ہوتا تو جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
سے نزولء وحی میں سے سنتا ،یا جو کچھ بھی اور سُنتااپنے پڑوسی کو سُناتا ، اور جس
دِن میرا پڑوسی حاضر ہوتا وہ بھی ایسا کرتا (یعنی مجھے سُناتا ) """صحیح البخاری/حدیث89/کتاب
العلم /باب27،
غور فرمایے ، امیر المؤمنین عُمر الفاروق
رضی اللہ عنہ ُ چونکہ اپنی اور اپنے اھل خانہ کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے
دُنیا کا مال و اسباب کمانے کی ضرورت میں تھے ، اور اپنی اور اپنے اھل خانہ کی
آخرت کی خیر کمانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل ہونے
والی وحی کا علم حاصل کرنے کی ضرورت میں بھی تھے ، اور یہی حال اُن کے ناصاری
پڑوسی بھائی کا بھی تھا ، پس اُن دونوں نے اپنے دُنیاوی کام اور دینی اور
اُخروی کام میں موافقت کے لیے ایک دوسرے
کی یوں مدد کی اور دونوں ہی اپنے دُنیاوی اور اُخروی کام کرتے رہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین کی زندگیوں میں دِین کے کام ، یا دِین کی خدمت ، یا دِین کا
عِلم سیکھنے یا سِکھانے کے نا م پر لوگوں سے کسی
مالی سے مدد کے طلبگار ہونا تو
درکنار ، ایسی کسی مدد کی سوچ بھی نہ تھی ، وہ اپنی دُنیاوی ضروریات اور ذمہ
داریوں کو خود اپنے ہاتھوں کی کمائی سے پورا کرتے ، اوراُن میں سے جو کچھ افراد، اصحاب صفہ تھے وہ بھی کبھی کسی سے
سوال نہ کرتے تھے محنت مزدوری کی کوشش میں
بھی رہتے اور اگر کچھ موقع نہ ملتا تو فاقے بھی کاٹتے لیکن کسی سے سوال نہ کرتے اور
نہ ہی کوئی ایسے انداز و اطوار اپناتے جس کی بنا پروہ لوگوں سے دُنیاوی مال و اسباب حاصل کر سکتے
جیسا کہ آج ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم دینے والوں کی اکثریت نے دینی تعلیم دہی
کو اور مدارس اور مساجد کو ذریعہ روزگار
بنا رکھا ہے،
دیکھیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
میں کتنے بڑے بڑے عظیم القدر و المرتبہ صحابہ ایسے تھے جو بڑے تاجر اور بہت مال
دار تھے ، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے دوہرے داماد ، اور تیسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ ُ ، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ُ، طلحہ بن عُبید اللہ رضی اللہ عنہ ُ، أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ
، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ُ ، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ ُو غیرھُم ،
یہ سب ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
دُنیاوی مال و اسباب کمانے والے ہی نہ تھے بلکہ اپنی آخرت کی فلاح کمانے والے بھی
تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے وحی کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے
اپنے مال اور جان کے ساتھ جِہاد بھی کرتے تھے ، صِرف دُنیا کمانے میں ہی نہیں لگے
رہتے تھے ،
دیکھا آپ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی زندگی مبارک میں اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور
میں معاشرتء مدنی میں صحابہ رضی اللہ عنہم دُنیا وی زندگی کی تمام تر ذمہ داریاں
نبھانے کے لیے سارے مطلوبہ کام کیا کرتے تھے ، طلبء عِلم جاری و ساری ، نماز روزہ حج زکوۃ سب ہی عبادات کی ادائیگی جاری و ساری ، جان و مال کے ساتھ
جِہاد و قتال کے معرکے رواں و دواں ، بھیڑ بکریاں مویشی پالنے کا کام بھی چلتا رہا
، زراعت و کھیتی باڑی بھی نہیں رُکی ،
دُنیاوی کام اور آخرت کے کام سب ساتھ ساتھ کیے جاتے رہے
اور وہ لوگ یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین اُخروی زندگی میں بھی بلند ترین رتبے حاصل کرنے والے تھے اور دُنیا کے مال
و اسباب بھی خوب پانے والے تھے ،
پس دُنیا اور آخرت کے
کاموں میں موافقت عین مُمکن ہے خواہ کسی کے لیے کتنی ہی مُشقت طلب ہو لیکن نا ممکن
نہیں ،
میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دو دو فرامین مبارکہ پیش کرکےاپنی بات کا
اختتام کرتا ہوں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی دُنیا
اورآخرت کے کاموں کو ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے کی موافقت میں رکھتے ہوئے
زندگی بسر کرنے کی طرف اشارہ فرمایا کہ ﴿ إِنَّ
فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ
وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ
اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا
وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ
الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ:::بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور
رات اور دِن کے مُختلف ہونے میں ، اور سمندر
میں چلنے والی کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع
دینے والی چیزیں لے کر چلتی ہیں ، اور جو کچھ پانی اللہ آسمان سے اتار کر اُس پانی
کے ذریعے زمین کو اُس کی موت کے بعد (پھر سے دوبارہ) زندہ کرتا ہے ، اور اُس میں
ہر قِسم کے چوپایوں کو پھیلاتا ہے ، اور ہواؤں کے مخصوص رُخوں پر کھولے جانے میں
اور آسمان اور زین کے درمیان تسخیر کیے گئے بادلوں میں عقل رکھنے والوں کے لیے
نشانیاں ہیں﴾سُورت البقرہ (2)/آیت 164،
اور مزید ایک اور آیت کریمہ میں اِرشاد فرمایا
﴿وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ
لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً
تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ
وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ:::اللہ
ہی ہے وہ جِس نے تُم لوگوں کے سمندر کو مسخر کیا تا کہ تُم لوگ اُس میں سے تازہ
گوشت کھاؤ اور اُس میں سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جو تُم لوگ پہنتے ہو، اور تُم دیکھتے ہو کہ کشتی سُمندر کو چیر کر چلتی
ہے اور سب کچھ اِس لیے کہ تُم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور اس لیے کہ اُس کے
شُکر گُذار بنو ﴾سُورت النحل(16) /آیت 14،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ان فرامین
میں اُخروی زندگی کی کمائی کے ساتھ دُنیاوی زندگی کی کمائی کی طرف بھی توجہ
دِلوائی ہے ،
اور اللہ کے رسول کریم نے فرمایا ہے ﴿مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ
طَيِّبٍ - وَلاَ يَقْبَلُ اللَّهُ إِلاَّ الطَّيِّبَ - وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا
بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّى أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ
حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ::: جو
کوئی بھی پاکیزہ کمائی میں سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرے ، اور اللہ تعالیٰ
پاکیزہ کے علاوہ کچھ اور قبول نہیں فرماتا ، تو اللہ اُس صدقہ کو اپنے دائیں ہاتھ
میں قبول فرماتا ہے ، پھر اُسے اِس طرح پالتا ہے جِس طرح تُم لوگوں میں سے کوئی
اپنے اپنے اونٹ کے دودھ پینا چھوڑنے والے بچے کو پالتا ہے ، یہاں تک وہ صدقہ کسی
پہاڑ کے جیسا ہوجاتا ہے ﴾صحیح البخاری /حدیث1410/کتاب الزکاۃ /باب8،
صحیح مُسلم کی روایت کے الفاط درج ذیل
ہیں ﴿لاَ يَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بِتَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ
طَيِّبٍ إِلاَّ أَخَذَهَا اللَّهُ بِيَمِينِهِ فَيُرَبِّيهَا كَمَا يُرَبِّى أَحَدُكُمْ
فَلُوَّهُ أَوْ قَلُوصَهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ أَوْ أَعْظَمَ :::جب
بھی کوئی پاکیزہ کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ اُسے اپنے دائیں
ہاتھ میں لیتا ہے اور اُس کی اُس طرح پرورش فرماتا ہے جِس طرح تُم میں سے کوئی اپنے
اونٹ کے دودھ پینا چھوڑنے والے بچے ، اور بچی کو پالتا ہے ، یہاں تک وہ صدقہ کسی
پہاڑ کے جیسا ہوجاتا ہے یا اُس سے بھی بڑاہو جاتا ہے﴾صحیح مُسلم /حدیث2390/کتاب الزکاۃ /باب20،
حلال اور پاکیزہ کمائی کے بارے میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ """ سب سے زیادہ
پاکیزہ کمائی کون سی ہے ؟ """
تو اِرشاد فرمایا ﴿
أَطْيَبُ الْكَسْبِ
عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ::: سب سے زیادہ پاکیزہ کمائی وہ ہے جو انسان
اپنے ہاتھ کے کام سے کماتا ہے اور ہر وہ
خرید و فروخت جِس میں کوئی دھوکہ دہی اور خیانت نہ ہو﴾ السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 607،
غور فرمایے کہ ان احادیث مبارکہ میں یہ
تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے کہ ہمیں دُنیا
وی کاموں اور دُنیا کے مال و اسباب کی کمائی سے فرار نہیں ہونا بلکہ پاکیزہ کمائی
کرنا ہے ، اور اُس پاکیزہ کمائی میں سے بھی
اپنی آخرت کی کامیابی کمانا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہمارے کلمہ
گو بھائیوں اور بہنوں کو یہ حقائق ماننے ، اپنانے اور ان پر عمل پیرا رہنے کی ہمت
دے ، اور ہر گمراہ اور ہر گمراہی سے محفوظ رکھے ، والسلا م علیکم۔
شیخ محمد المنجد حفظہُ اللہ کا ایک لیکچر
سن کر اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر یہ سب کچھ لکھنے کی توفیق دی ، اللہ تعالی شیخ
صاحب کو بہترین اجر سے نوازے ۔
تاریخ کتابت : 20/03/1433
ہجری ، بمطابق ، 12/02/2012عیسوئی،
تاریخ تجدید : 22/06/1435
ہجری ، بمطابق، 22/04/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment