صفحات

Monday, September 8, 2014

::::::: برکت اور تبرک ::::::



::::::: برکت  اور تبرک ::::::

نمبر شمار
موضوع
صفحہ
1
:::::::برکت ہر ایک حلال کام،چیز اور پاکیزہ جگہ میں ہو سکتی ہے :::::::
3
2
::::::: برکت کیسے ملتی ہے ؟ اور تبرک کیا ہے؟ :::::::
3
3
:::::: برکت کے حصول کے اسباب ::::::
5
4
::::::: """برکت """کونسی چیزوں میں ہوتی ہے ؟ :::::::
5
5
:::::: برکت و الے کام :::::::
11
6
::::::: برکت والے اوقات :::::::
14
7
::::::: برکت والے مُقامات (جگہیں) ::::::
17
8
::::::: ناجائز تبرک  ::::::
18
9
:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::
20

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّاءَتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
ہم اکثر بلکہ بہت زیادہ ایک چیز کا ذِکر سُنا کرتے ہیں ، اور اس چیزکو حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں ، اُس کے حصول کے لیے دُعا بھی کرتے ہیں ، لیکن شاید اُس کے بارے میں دُرُست معلومات نہ ہونے کے سبب ٹھیک طور پر اُس کے حصول کے لیے کوشش نہیں کرتے ،اور اِسی کم عِلمی یا غلط فہمیوں کے باعث  کچھ چیزوں، کچھ لوگوں کے بارے میں یہ خیال بھی رکھتے ہیں کہ اُن میں وہ چیز  ایک مستقل صِفت کے طور پر پائی جاتی ہے ،لہذا  اُن میں سے وہ چیز  حاصل ہوتی ہے ،
یا ، اور ، اُن کے ذریعے  وہ چیز حاصل کی جا سکتی ہے ، وہ لفظ جس کا میں ذکر کر رہا ہوں ، وہ چیز جس کی بارے میں یہ تمہید باندھی ہے وہ ہے """ برکت """،
جی ، اسے عربی میں """برکۃٌ """" کہا جاتا ہے اس کے بارے میں لغوی معلومات سے صرفءِ نظر کرتے ہوئے میں مختصراً اِس کے معانی اور مفاہیم کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات آگے بڑھاتا ہوں ،
"""برکت """ کے درج ذیل معانی  اور مفاہیم ہیں ،
::::: (1) :::::   کسی بھی چیز میں خیر کا  حسی یا معنوی اضافہ،
::::: (2) :::::   کسی چیز میں خیر کے وجود کا ثابت ہونا ،
::::: (3) :::::   کسی چیز میں اضافہ ،
::::: (4) :::::   کسی چیز کا مضبوطی سے جم جانا ،
پہلے دو معانی  ہی اِسلامی عقائد کے ترجمان ہیں ، اور اُن دو معانی میں مُشترک صِفت  کسی چیز میں خیر کا ہونا ہے ،اور یقیناً خیر وہی ہوتی ہے جو اللہ کی طرف سے بطور نعمت میسر ہو ، اور یقیناً خیر اُسی  چیز میں ہوتی ہے جس کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام کے عین مطابق ہو ، اُسی کام  میں ہوتی ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام کے عین مطابق ہو ،
کسی چیز میں محض کوئی اضافہ """برکت """ نہیں ،
 یعنی کسی چیز میں اضافہ جو شرعی طور پر خیر والا نہ ہو """برکت """ نہیں ہوتا بلکہ صرف اضافہ ہوتا ہے ، لہذا کسی چیز میں بڑھاوے یا اضافے کو ہم """برکت """ نہیں سمجھ سکتے ،
مثلاً کسی شخص کو بہت اچھی صحت میسر ہے ، اور اُس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، یا اچانک ہی کسی کی صحت ، تندرستی، چابکدستی ، ذہانت وغیرہ میں اضافہ ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے  لیکن اُس کی صحت و تندرستی، چابکدستی اور ذہانت  کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں نہیں ہوتا ،خیر کے کاموں میں نہیں ہوتا ، بلکہ شرّ کے کاموں میں ہوتا ہے ،  تو بلا شک و شبہ یہ اضافہ محض اضافہ ہے """برکت """ نہیں ،  
کسی شخص کو بہت مال میسر ہوتا ہے اور اُس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، یا اچانک کسی کو مال ملنا شروع ہو جاتا ہے ، یا کسی کے تھوڑے سے مال میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بظاہر اس اضافے کے اسباب صاف ستھرے اور جائز ہوتے ہیں  لیکن اُس مال کا اِستعمال اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں نہیں ہوتا، نیکی کے کاموں میں نہیں ہوتا ، بلکہ نافرمانی اور گناہ کے کاموں میں ہوتا ہے ، تو یہ اضافہ محض اضافہ ہے """برکت """ نہیں ،  
آخر میں ایک اہم بات کی طرف سب قارئین کی خاص توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ """ برکت مادی طور پر حسی چیز نہیں ہے، کسی کم و کیف ، جسد و ہیئت میں مقید چیز نہیں ، کہ اسے کسی طور اپنی مرضی کے مطابق لیا یا دیا جا سکے ، یا اس کا ماپ تول کیا جا سکے  """
جی ہاں ،  ہو سکتی ہے ، اور نہیں بھی ،
"""برکت """ ہمارے گھروں میں اُن میں موجود اطمینان ، امن ، محبت سے جانچی جا سکتی ہے ،
"""برکت""" ہمارے اموال میں ایسا اضافہ ہے جو نیکی کے ساتھ ہو اور نیکی میں اِستعمال ہو،
"""برکت """ ہمارے کھانے میں ہماری صحت اور جسمانی راحت کی موجودگی سے پہچانی جا سکتی ہے،
"""برکت """ ہمارے گھرانے اور خاندان میں نیک و صالح افراد کی موجودگی سے جانی جا سکتی ہے ،
"""برکت """ ہمارے وقت میں رزق حلال کی کوشش میں صرف ہونے اور نیکیوں میں صرف ہونے کی صُورت میں سُجھائی دے سکتی ہے ،
"""برکت """ہمارے عِلم میں معلومات کی کثرت ، وسعت، گہرائی اور مضبوطی کو  اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کے مطابق جانچنے اور اپنانے یا رد کرنے اور ان پر علم پیرا ہونے میں دیکھی جا سکتی ہے ، غرضیکہ زندگی کے ہر ایک لمحے میں """برکت """ کا حصول ممکن ہے ،
ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرواتا چلوں کہ """ برکت """ کسی بھی چیز میں خیر والے اضافے اور خیر کا موجود ہونا ہے ، جو یقیناً اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے ایسی نعمت جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ کئی نعمتوں کو ایسا بڑھاوا دیتا ہے کہ حسی طور پر وہ بہت کم دکھائی دیتی ہیں لیکن عملی طور پر وہ بہت زیادہ سے زیادہ والا کام کردیتی ہیں ، باذن اللہ ،
اس کی مثالیں کثرت سے ہمارے مسلم معاشرے میں ملتی چلی آ رہی ہیں ۔

 ::::::: برکت کیسے ملتی ہے ؟ اور تبرک کیا ہے؟ :::::::

::::::: """برکت """ اللہ کی طرف سے ہی مل سکتی ہے ،  مخلوق میں سے کوئی  بھی چیز ،قول ، فعل ،یاشخصیت یاجگہ یا عمل ذاتی طور پر یہ صلاحیت نہیں رکھتی کہ وہ """برکت """ لے سکے ، یا  دے سکے:::::::   
جی ہاں ، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ایک جلیل القدر نبی عیسی علیہ السلام کے قول کی صورت میں ہمیں یہ بتاتا ہے ﴿ و جَعَلنِی مُبارَکاً أِینَ مَا کُنت ُ و أَوصِانی بِالصَّلاۃِ و الزَّکاۃِ مَا دُمت ُ حَیّاً :::اور مجھے اللہ نے ہر جگہ ہر وقت برکت والا بنایا اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکوۃ (ادا کرنے ) کا حکم دیا ہےسُورت مریم(19)/آیت 31 ، 
 اور اِرشاد فرمایا ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ :::وہ (یعنی اللہ )بہت ہی زیادہ برکت دینے والا ہے اُس کے ہاتھ میں ساری ہی بادشاہی ہے اور وہی ہر چیز ہے مکمل قُدرت رکھتا ہےسُورت المُلک(67)/آیت 1 ،
یعنی  ہر ایک چیز پر مکمل اختیار اور بادشاہی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ہے لہذا تمام تر """برکت """صرف اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ، جسے، جب ، جتنی، جیسےاور جب تک چاہے دیتا ہے ،اورجیسے چاہے اُس"""برکت"""سے کسی اور کو مستفید کرتا ہے،
پس ہمیں یہ اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ کسی بھی چیز یا شخصیت میں """برکت"""صِرف اور صِرف اللہ جلّ ثناوہُ کی طرف سے ہوتی ہے اور اُس میں سے آگے کسی اور کو ملنا بھی صرف اللہ  جلّ جلالہُ کی مشئیت اور حکم سے ہوتا ہے ،
 کسی چیز  ،کسی جگہ یا شخصیت میں اگر اللہ تعالیٰ  کی طرف سے کوئی"""برکت """ ہو تو وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ جب اور جیسے اور جتنی کسی کا جی چاہے جا کر لے آئے ، یا وہ چیز یا شخصیت خود سے کچھ """برکت """ نکال کر کسی کو دے دے ،
جی ہاں اللہ تعالیٰ اپنے اِیمان والے نیک بندوں میں سے جِسے چاہتا ہے کسی دوسرے کے لیے کسی برکت کا ذریعہ بھی بنادیتا ہے ، اس کی تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کروں گا ، لیکن یہ بات حق ہے کہ کسی بھی شخصیت میں ، کسی بھی چیز میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ خود سے کسی کو کوئی برکت دے سکے ،اور نہ ہی کوئی چیز یا مُقام یا شخصیت مطُلقاً اور بذات خود ہر کسی کے لیے متبرک ہوتی ہے ،  لہذا ،
تبرک یعنی برکت حاصل کرنے کی نیت سے کیے جانے والا کوئی کام ، یا کسی چیز کو حاصل کرنا یا کسی چیز کو اِستعمال کرنا صرف اور صرف اُسی وقت حصول برکت کا باعث بن سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اُس کے ذریعے برکت دینا چاہے ، کیونکہ کسی بھی چیز ، کسی بھی عمل اور  کسی بھی شخصیت میں ذاتی طور پر ایسی مستقل برکت نہیں دی گئی جو ہر اِیمان والے کو یقیناً حاصل ہو سکتی ہو  ،  اِس موضوع کی کچھ مزید تفصیل اِن شاء اللہ برکت والی چیزوں کے ضمن میں پیش کروں گا ،
لیکن اس میں سے انبیاء علیہم السلام کا معاملہ الگ ہے ، کہ انبیاء علیہم السلام  کے جسموں میں الگ ذاتی  مُستقل برکت دی گئی تھی ،اسی لیے صحابہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےوضوء سے بچا ہوا پانی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ہاتھ مُبارک داخل ہوا کرتے ، پسینہ مُبارک،ناخن مُبارک،بال مُبارک،حتیٰ کہ تھوک مُبارک تک حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے رہتے ،
یہاں یہ بات خُوب اچھی طرح سے سمجھ لینے والی ہے کہ انبیاء اور رُسولوں علیہم السلام کے اِس معاملے کی وجہ سے کسی غیر نبی اور غیر رُسول کے بارے میں با برکت ہونے اور اُس سے تبرک حاصل کرنے کا عقیدہ بالکل غلط اور باطل ہے ،
اِس مضمون میں میرے دو بنیادی مقاصد ہیں  :::
::::::: (1) ::::::: """برکت """ کی تعریف ، اس کے حصول کے اسباب ، اور اُن چیزوں کا بیان جن میں برکت ہونے کی خبر دی گئی ہے ، تا کہ ہم اُن چیزوں کو جان کر اُنہیں پہچان کر اُن کے ذریعے اللہ سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کریں ،

::::::: (2) ::::::: ہم خوب اچھی طرح یہ سجھ لیں کہ ان چیزوں میں برکت کی موجودگی ان کی اپنی ذاتی کمائی نہیں ،اور  یہ چیزیں بذات خود کسی کو کچھ برکت دینے والی نہیں ہیں ، اورکوئی اِن میں سے کسی مادی ذریعے سے برکت نکال کر اپنے لیے اپنی یا کسی اور کی کسی بھی چیز میں داخل نہیں کر سکتا،کیونکہ جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ """ برکت مادی طور پر حسی چیز نہیں ہے، کسی کم و کیف ، جسد و ہیئت میں مقید چیز نہیں ، کہ اسے کسی طور اپنی مرضی کے مطابق لیا یا دیا جا سکے، یا اس کا ماپ تول کیا جا سکے"""۔

:::::: برکت کے حصول کے اسباب ::::::

وہ تمام چیزیں حاصل کرنا برکت کے حصول کے اسباب میں سے ہیں جن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہو ، اور وہ تما م کام کرنا بھی برکت کے حصول کے اسباب میں سے ہیں جن کے کرنے میں اور جن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہوئی ،  لہذا برکت کے حصول کے اسباب جاننے کے لیے ایسی چیزوں، کاموں اور جگہوں کے بارے میں جاننا اشد ضروری ہے جِن میں برکت ہونے کی خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ملی ہوئی ،
آیے اُن چیزوں اور کاموں کے بارے میں ملنے والی صحیح ثابت شدہ خبروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

::::::: """برکت """کونسی چیزوں میں ہوتی ہے ؟ :::::::

اس سوال کے جواب  کو اِن شاء اللہ  اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے میں برکت والی چیزوں کو کچھ   الگ الگ عناوین میں بیان کروں گا  اِن شاء اللہ ،
:::::: برکت و الی چیزیں :::::::
::: (1) :::  قران پاک میں برکت ہے :::
اللہ  تبارک و تعالیٰ کا فرمان مُبارک ہے  ﴿ وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ::: اور یہ برکت والی کتاب ہم نے نازل کی لہذا تُم لوگ اس کی پیروی کرواور (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے)بچوتا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائے سُورت الانعام(6)/آیت 155 ،
اور فرمایا ﴿ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ:::(اے محمد )ہم نے آپ کی طرف برکت والی کتاب نازل کی ہے تا کہ لوگ اس کی آیات میں غور و فِکر کرو اور تا کہ عقلمند(اِس کے ذریعے)نصیحت حاصل کریںسُورت ص(38)/آیت 29،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ من الْبَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ الْبَقَرَةِ::: اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ بے شک شیطان اُس گھر سے دور بھاگتا ہے جس میں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہےصحیح مُسلم /حدیث780/کتاب الصلاۃ المسافرین و قصرھا /باب29،
پس قران مبارک کو پڑھنا ، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا برکت کے حصول کے اہم اسباب میں سے ہے ۔
::: (2) ::: اِیمان اور تقویٰ   میں برکت ہے :::
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے ﴿ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُواْ وَاتَّقَواْ لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ وَلَـكِن كَذَّبُواْ فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ :::اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ضرور اُن پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جُھٹلایا پس ہم نے اُن کو اُن کے کیے پر پکڑ لیاسُورت الاعراف(7)/آیت 96 ،
یعنی اللہ پر اُس کے احکام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات اور احکام کے مطابق ایمان لانا اور اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے بچنے کی کوشش میں رہنا اللہ کی طرف سے آسمان اور زمین کی برکتیں حاصل کرنے کا سبب ہے ۔
::: (3) ::: نیکو کار اِیمان والوں میں  بھی برکت ہوتی ہے :::
اللہ تعالیٰ اپنے اِیمان والے نیک بندوں میں سے جسے چاہتا ہے کسی دوسرے کے لیے کسی برکت کا ذریعہ بھی بنادیتا ہے ، اوروہ برکت جِس نیکو کار اِیمان والے شخص کے ذریعے ملتی ہے لغوی طور پر  اُس شخص کی برکت بھی کہا جا سکتا ہے ،
جیسا کہ تیمم کی آیات نازل ہونے پر  اُسید بن حُضیر رضی اللہ عنہ ُنے ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ اور  اِیمان والوں کی محترمہ و پاکیزہ ماں عائشہ رضی اللہ عنہا  کے بارے میں کہا """ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يا آلَ أبي بَكْرٍ ::: اے ابو بکر کے خاندان والو یہ آپ لوگوں کی پہلی برکت نہیں""" مُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری /حدیث327 /کتاب التیّمم کی پہلی حدیث  ، صحیح مُسلم /حدیث367 /کتاب الحیض /باب28،
اِن الفاظ کی شرح میں اِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے لکھا کہ """قَولُهُ مَا هِي بأولِ بَركتِکُم أي بَل هِي مَسبُوقَة بِغيرهَا مِن البَركاتِ والمُراد ُبآلِ أبي بكرٍ نَفسهُ وأهلهُ وأتباعهُ وفِيهِ دليلٌ عَلى فضلِ عائشة وأبيها وتَكرارُ البركة مِنهما ::: اُسید  رضی اللہ عنہ ُ کی  اِس بات کہ """یہ آپ لوگوں کی پہلی برکت نہیں """ کا مطلب یہ ہوا کہ اِس واقعہ سے پہلے بھی  اُن لوگوں کی برکتوں میں سے برکتیں ظاہر ہو چکی ہیں ، اور """آل ابی بکر """ کا مطلب ،خودأمیر المومنین  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  ، اور اُن کے گھرانے والے اور اُن کے پیروکار ہیں ، اوراُسید رضی اللہ عنہ ُ کی بات میں إِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا اور اُن کے والد محترم رضی اللہ عنہ ُ  کی فضیلت اور اُن دونوں میں سے برکت کے بار بار حاصل ہونے کی بھی دلیل ہے """،
اور اِمام ملا علی قاری حنفی رحمہُ اللہ نے بھی کچھ مختلف الفاظ میں یہی کچھ فرمایا ہے ،
::::::: ایک اور روایت میں یہ ہے کہ اُسید رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """جَزَاكِ الله خَيْرًا فَوَاللَّهِ ما نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ إلا جَعَلَ الله ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فيه خَيْرًا ::: اللہ آپ کو خیر والی جزاء عطاء فرمائے ، اللہ کی قسم آپ کے لیے جب بھی کوئی دُکھ والا کام ہوا تو اللہ نے اُس میں  آپ کے لیے اور مُسلمانوں کے لیے خیر عطاء فرما دی """ صحیح البُخاری /حدیث329 /کتاب التیّمم /باب اول  ،    
::::::: اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ """ جَزَاكِ الله خَيْرًا فو الله ما نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إلا جَعَلَ اللهُ لَكِ منه مَخْرَجًا وَجُعِلَ لِلْمُسْلِمِينَ فيه بَرَكَةٌ ::: اللہ آپ کو خیر والی جزاء عطاء فرمائے ، اللہ کی قسم آپ کے لیے جب بھی کوئی دُکھ والا کام واقع ہوا تو اللہ نے آپ کے لیے اُس میں سے نکلنے کا راستہ بنایا اور  اُس میں مُسلمانوں کے لیےبرکت دی"""مُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری/حدیث4869 /کتاب النکاح/باب65، صحیح مُسلم /حدیث367/کتاب الحیض /باب28،
:::::::  اِیمان والوں کی ایک محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک بہن  اِیمان والوں کی ایک اور محترمہ امی جان جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے نکاح  کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ، لوگوں نے اِس نکاح کی وجہ سے جویریہ رضی اللہ عنہا کے قبیلے کے تمام غلاموں کو رہا کر دِیا کہ یہ لوگ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سُسرال ہیں ،
اور پھر اپنی بہن ، اِیمان والوں کی ایک اور ماں جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے بارے میں اِرشاد فرمایا"""فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا أُعْتِقَ فِى سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِى الْمُصْطَلِقِ::: پس ہم نے کسی عورت کو اُس کی قوم کے لیے جویریہ سے زیادہ برکت والا نہیں دیکھا کہ اُن کی وجہ سے (اُن کے قبیلے) بنی مُصطلق سو گھرانوں کے افراد کو غلامی سے نجات ملی"""سُنن ابو داؤد/حدیث/3933کتاب العِتق/باب2،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے حَسن قرار دِیا ،   
::: (4) :::  سحر ی کے کھانے میں برکت ہے :::
﴿ تَسحَّرُوا فَاِنَّ فِی السَّحُورِ بَرکۃٌ :::سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہےصحیح البُخاری/حدیث 1963/کتاب الصوم/باب 20، صحیح مُسلم/ حدیث1095 /کتاب الصیام/ باب9 ،  
ابی الدرداء ، اور عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سحری کے کھانے کو ﴿الغَداءُ المُبارک:::برکت والی خوراکقرار دیا ، سنن ابی داؤد /حدیث 2344/کتاب الصوم /باب 16، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 2983،
عبداللہ ابن عَمر ابن العاص  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ  ﴿ تَسحَّرُوا و لَو بِجُرعۃِ  مِن مَاءٍ:::سحری (کے وقت ضرور کھایا ، یا  پیا )کروخواہ پانی کا ایک چُلُّو ہی ہو صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2945،
اس حدیث شریف میں سحری کے وقت کچھ نہ کچھ ضرور کھانے یا پینے کو جو حُکم ہے اُس کی حکمت سحری کے کھانے میں پائی جانے والی برکت کا حصول بھی ہے اور اس کے عِلاوہ ایک اور حِکمت بھی ہے جس کا ذِکر """ماہ رمضان اور ہم """ کے زیر عنوان مضامین میں سحری سے متعلقہ مضامین میں ہو چکا ہے ،
"""ماہ رمضان اور ہم """ کا مطالعہ درج ذیل ربط پر کیا جا سکتا ہے :
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ الله وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الْمُتَسَحِّرِينَ :::یقینا ً اللہ اور اُس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر صلاۃ بھیجتے ہیںصحیح الترغیب و الترھیب /حدیث1066 ،
[[[صلاۃ کے معنی اور مفہوم کا ذکر """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کا ثواب """ میں ذِکر کر چکا ہوں ]]]
مذکورہ بالا تینوں احادیث شریفہ   صحیح ابن حبان / کتاب الصوم /باب السحور میں بھی ہیں ،
::: (5) ::: کھانے کے درمیانی اور بالائی حصے میں برکت ہوتی ہے :::::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا وُضِعَ الطَّعَامُ فَخُذُوا من حَافَتِهِ وَذَرُوا وَسَطَهُ فإن الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ في وَسَطِهِ :::جب کھانا (کھانے کے لیے)رکھ دیا جائے تو اُس کے کناروں میں سے لو اور اُس کا درمیانی حصہ چھوڑ دو کیونکہ برکت اُس کے درمیانی حصے میں نازل ہوتی ہےسُنن ابن ماجہ/حدیث 3275/کتاب الأطعمہ/باب 12،سُنن الترمذی /حدیث 1805/کتاب الأطعمہ/باب12، دونوں روایات کو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
::: (6) :::  کھانے کے آخری حصے میں برکت ہوتی ہے :::
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ إذا أَكَلَ أحدكم فلا يَمْسَحْ يَدَهُ حتى يَلْعَقَهَا أو يُلْعِقَهَا  :::جب تُم میں کوئی (کچھ )کھائے  تو اپنے ہاتھ کو (کپڑے وغیرہ سے پونچھ کر )صاف کرنے سے پہلے اُسے چاٹ لے یا چٹوا لےصحیح البخاری /حدیث 5140/کتاب الاطعمہ/باب50 ، صحیح مُسلم /حدیث2031 /کتاب الاشربہ /باب18،
اور اس کی مزید وضاحت ایک اور حدیث میں ملتی ہے جو  جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿لَا يَمْسَحْ أَحَدُكُمْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ:::تُم لوگوں میں سے کوئی بھی  (کھانا کھانے کے بعد آخر میں ) اپنے ہاتھ کو (کپڑے وغیرہ سے پونچھ کر )صاف کرنے سے پہلے چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے میں برکت کہاں ہےسنن ابن ماجہ /حدیث3270 /کتاب الاطعمہ /باب9، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
انہی جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ ُ کا یہ بھی کہنا ہے کہ """میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كل شَيْءٍ من شَأْنِهِ حتى يَحْضُرَهُ عِنْدَ طَعَامِهِ فإذا سَقَطَتْ من أَحَدِكُمْ اللُّقْمَةُ فَلْيُمِطْ ما كان بها من أَذًى ثُمَّ لِيَأْكُلْهَا ولا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ فإذا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ فإنه لَا يَدْرِي في أَيِّ طَعَامِهِ تَكُونُ الْبَرَكَةُ:::یقیناً شیطان تُم میں سے ہر ایک کے ہر کام کے وقت موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ کھانے کے وقت بھی ، لہذا اگر تُم میں سے کِسی  سے اُس(کے کھانے )کا لُقمہ گِر جائے تو (وہ اُس لقمے کو اُٹھا لے اور)اُس لقمے پر تکلیف والی جو چیز لگ گئی ہو اُسے صاف کر لے اور پھر اُسے کھا لے اور اُس لقمے کو شیطان کےلیے نہ چھوڑے ، اور جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے کھانے کے کون سے حصے میں برکت تھی"""صحیح مُسلم /حدیث2033 /کتاب الاشربہ /باب18 ، اس باب میں اسی مسئلے کے بارے میں تقریباً یہی باتیں اور کھانے کے برتن کو بھی چاٹ کر صاف کرنے کا حکم دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ،
الحمد للہ یہاں تک ، اس مذکورہ بالا حدیث شریف اور اس سے پہلے بیان کی گئی احادیث پاک میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر دی گئی کہ جب ہم اللہ کا نام لے کر کچھ کھاتے پیتے ہیں تو اللہ کی طرف سے اُس کھانے یا پینے کی چیز میں برکت نازل کی جاتی ہے اور اس برکت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس چیز میں سے کچھ ترک نہ کریں حتیٰ کہ اپنے ہاتھ پر جو کچھ اس چیز میں سے لگا ہے اسے چاٹ کر صاف کریں اور کھانے کے برتن کو بھی ،
یہاں ایک بات کا ذِکر اِن شاء اللہ مُناسب ہو گا کہ چاٹ کر صاف کرنا ہی لازمی نہیں کسی اور طریقے سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے جس سے یقینی طور پر کھانے کے آخری ترین حصے اور باقیات بھی کھائی جائیں، جیسے کہ روٹی کے نوالوں سے خُوب اچھی طرح سےبرتن کو صاف کر کے وہ نوالے کھا لیے جائیں  ۔ 
::: (7) :::  ثرید  میں   برکت ہے :::
﴿ والبركةُ في ثَلاثَةٍ في الْجَمَاعَةِ وَالثَّرِيدِ وَالسُّحُورِ ::: اور برکت تین چیزوں میں پائی جاتی ہے ، جماعت ، ثرید اور سحری کے کھانے میںالمعجم الکبیر للطبرانی /حدیث 6127، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2882،
:::ایک انتباہ ::: """یہاں جماعت سے مراد کوئی ایک خاص جماعت نہیں بلکہ مسلمانوں کا خیر کے کاموں میں  ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مل جل کر ایک دوسرے کی مددکرتے ہوئے  کام کرنا ہے"""
::: ثرید ::: ایسے کھانے کو کہا جاتا ہے جس میں روٹیوں کو شوربے والے سالن میں ڈبو دیا جاتا ہے اور ان کے نرم ہونے پر اُنہیں کھایا جاتا ہے ، اور سالن میں شامل چیزوں کو بھی چھوٹے چھوٹے حصوں میں رکھا جاتا ہے ۔
:::: (8) ::: جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیے جانے والے گھوڑوں میں برکت ہوتی ہے  :::
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کا کہنا ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿الْبَرَكَةُ في نَوَاصِي الْخَيْلِ :::برکت گھوڑوں کی پیشانیوں میں ہےمُتفقٌ علیہ ،  صحیح البُخاری /حدیث 2696/کتاب الجہاد و السیر/باب 43، صحیح مسلم /کتاب الامارۃ /باب26 ،
اس سے آگے والی حدیث میں مزید وضاحت بھی میسر ہوتی ہے جو کہ عُروہ البارقی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿الْخَيْلُ مَعْقُودٌ في نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ:::گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے (اور وہ خیرہے)ثواب اور مالءِ غنیمتصحیح البُخاری /حدیث 2697/کتاب الجہاد و السیر/باب 44،  صحیح مسلم /کتاب الامارۃ /باب26،میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے ،
اِس  مذکورہ بالا حدیث مُبارکہ میں ہمیں یہ خوشخبری بھی ملتی ہے کہ مُسلمانوں کی دینی دُنیاوی اور اُخروی عِزت اور سر بُلندی کا اعلیٰ ترین سبب ، اور اسلام کے اعلیٰ ترین کاموں میں سے بُلند ترین کام ، جِہاد فی سبیل اللہ قیامت تک جاری رہے گا ،
::: (9) ::: زمزم کا پانی برکت والا ہے  :::
زمزم کے بارے میں ابو ذر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْم ٍ:::بے شک یہ برکت والا(پانی)ہے (اور)یقیناً مکمل کھانا ہےصحیح مُسلم  /حدیث2473 /کتاب فضائل الصحابہ رضی اللہ عنہم /باب28،
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں﴿زَمزَم طَعَامُ طُعم ٍ و شِفاءُ سُقم ٍ::: زم زم برکت والا  (پانی)ہے (اور )یقیناً مکمل کھانا ہے اور بیماریوں کی شِفاء ہےمُسند البزار/حدیث 3929،3946صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 1162،
سلیمان بن المُغیرہ رضی اللہ عنہُ سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں﴿أِنَّھا مُبارکۃٌ ھِیَ طَعَامُ طُعم ٍ و شِفاءُ سُقم ٍ :::بے شک یہ برکت والا  (پانی)ہے (اور )یقیناً مکمل کھانا ہےاور بیماریوں کی شِفاء ہےمسند الطیالیسی /حدیث 457،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 2435،
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ ::: زم زم کا پانی اُسی کام کے لیے جِس  کام (کی نیت) سے پیا جائےسنن ابن ماجہ / حدیث3062 /کتاب المناسک /باب78، صحیح سنن ابن ماجہ /حدیث /2484،
::: (10) :::  زیتون کے درخت میں برکت ہے :::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿شَجرَۃٍ مُبَارَکۃٍ زَیتُونَۃٍ :::برکت والا درخت زیتونسورت النور(24)/آیت 35،
::: (11) :::  بکریوں میں برکت ہے :::
اُم ھانی رضی اللہ عنہا سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن سے فرمایا ﴿اتَّخِذِي غَنَمًا فَإِنَّ فِيهَا بَرَكَةً :::تُم بکریاں لو (یعنی بکریاں پالو اور اُن کی تجارت کرو ) کہ بکریوں میں برکت ہوتی ہےسنن ابن ماجہ /حدیث 2304/کتاب التجارات /آخری باب اتخاذ الماشیّۃ ،  السلسلۃ الصحیحۃ /حدیث 773،

:::::: برکت و الے کام :::::::

::: (1) ::: اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کاموں کا آغاز کرنا :::
اللہ عزَّ و جلَّ  کا اِرشاد ہے ﴿ تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ:::آپ کے بزرگی اور عِزت والے رب کا نام برکت والا ہےسورت الرحمن(55)/آیت 78،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد مبارک ہے ﴿إذا دخل الرَّجُلُ بَيْتَهُ فذكر اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ وَعِنْدَ طَعَامِهِ قال الشَّيْطَانُ لَا مَبِيتَ لَكُمْ ولا عَشَاءَ وإذا دخل فلم يذكر اللَّهَ عِنْدَ دُخُولِهِ قال الشَّيْطَانُ أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وإذا لم يذكر اللَّهَ عِنْدَ طَعَامِهِ قال أَدْرَكْتُمْ الْمَبِيتَ وَالْعَشَاءَ :::جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اورداخل کے وقت اور اپنے کھانے کے وقت  اللہ کا ذِکر کرتا ہے (یعنی اللہ کا نام لیتا ہے)تو شیطان (اپنے ساتھیوں اور چیلوں سے )کہتا ہے(یہاں اس گھر میں )تُم لوگ کے رات بسر کرنے کے لیے نہ کوئی جگہ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا ہے اور اگر وہ شخص اپنے گھر میں داخل ہو اورداخل ہوتے وقت  اللہ کا نام نہ لے تو شیطان(اپنے ساتھیوں اور چیلوں سے ) کہتا ہے تُم لوگوں کو رات گذارنے کی جگہ مل گئی اور اگر وہ شخص اپنے کھانے کے وقت اللہ کا نام نہ لے تو شیطان(اپنے ساتھیوں اور چیلوں سے ) کہتا ہے تُم لوگوں رات گذارنے کی جگہ اور رات کا کھانا (دونوں ہی)مل گئےصحیح مُسلم /حدیث2018/الاشربہ /باب13،
یعنی جس کام کے آغاز میں اللہ کا نام لیا جائے گا اس کام میں شیطان کی مداخلت نہ ہو گی لہذا اللہ کی طرف سے اُس  میں برکت ہوگی۔
::: (2) ::: سیدھے ہاتھ سے کھانا پینا اور دیگر کام کرنا  :::
﴿لَا يَأْكُلَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ بِشِمَالِهِ ولا يَشْرَبَنَّ بها فإن الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ وَيَشْرَبُ بها:::تُم لوگوں میں سے کوئی بھی ہر گِز بائیں (اُلٹے)ہاتھ سے مت کھائے اور نہ ہی بائیں (اُلٹے)ہاتھ سے پیئے  کیونکہ یقیناً شیطان اپنے بائیں (اُلٹے) ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہےصحیح مُسلم /حدیث2020/الاشربہ /باب13،
یعنی کوئی بھی ایسا کام کرنا جو شیطانوں کے کاموں سے مشابہت رکھتا ہوبرکت میں روکاٹ کا سبب ہوتا ہے لہذا برکت کے حصول کے لیے ایسے ہر کام سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے جو شیطانوں کے کاموں میں سے ہو ۔  
::: (3) :::  اکٹھےرہنے اور مل جُل کر کام کرنے میں   برکت ہے :::
﴿والبركة في ثَلاثَةٍ في الْجَمَاعَةِ وَالثَّرِيدِ وَالسُّحُورِ ::: اور برکت تین چیزوں میں پائی جاتی ہے ، جماعت ، ثرید اور سحری کے کھانے میںالمعجم الکبیر للطبرانی /حدیث 6127، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2882،
:::ایک انتباہ ::: """  یہاں جماعت سے مراد کوئی ایک خاص جماعت نہیں بلکہ مسلمانوں کا خیر کے کاموں میں  ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مل جل کر ایک دوسرے کی مددکرتے ہوئے  کام کرنا ہے """
::: (4) :::  اکٹھے کھانے میں برکت ہے :::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ﴿طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةِ وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةِ ::: دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے کافی (ہو جاتا)ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی (ہو جاتا)ہےٍمُتفقٌ علیہ ،صحیح البُخاری /حدیث5077 /کتاب الاطعمہ/باب 10،صحیح مُسلم/حدیث2058 /کتاب الأشربہ /باب33،
اس حدیث مبارک میں آدمیوں کا جو عدد بیان فرمایا گیا ہے وہ پابندی کے لیے نہیں کہ اتنے ہی آدمیوں کا کھانا اتنے ہی آدمیوں کے لیے ہو گا بلکہ دیگر کئی اور آیات اور احادیث کی طرح یہ  عددمثال کے طور پر بیان گیا جس کا مفہوم یہ ہے  اکٹھے مل کر کھانے سے اللہ تعالیٰ کھانے میں برکت دیتا ہے اور تھوڑا کھانا بھی زیادہ لوگوں کے لیے کافی ہو جاتا ہے
::::::: اس موضوع پر سنن ابن ماجہ میں  ایک بہت ہی کمزور حدیث بھی روایت ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿كُلُوا جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا فَإِنَّ الْبَرَكَةَ مَعَ الْجَمَاعَةِ :::سب مل کر (کھانا وغیرہ)کھایا کرو اور الگ الگ مت ہوا کرو کیونکہ بے شک اکٹھے رہنے میں برکت ہے۔
::: (5) :::  اناج کو ٹھیک طور پر ماپنے  میں   برکت ہے :::
ابی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ     کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿اِنَّ اللَّہَ جَعَلَ البَرکَۃَ فی السَّحُورِ و الکَیلِ :::بے شک اللہ نے سحری میں اور اناج کے درست ماپ تول میں برکت رکھی ہےمُسند الشامین /حدیث 724 /باب أرطاۃ عن داؤد بن ابی ھِند ، السلسلہ الاحادیث الصحیحہ /حدیث 1291،
::: (6) ::: علوم ءِ دِین کے عُلماء کے ساتھ میں برکت ہے :::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿البَرکَۃُ  مَعَ أکابِرِکُم:::تُمہارے بڑوں کے ساتھ میں برکت ہےصحیح ابن حبان /حدیث 559، المعجم الاوسط للطبرانی/حدیث 8991، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث 1778،
اس حدیث مبارک میں لفظ """بڑوں """سے مُراد، عُمر رشتے اور رُتبے میں سب ہی بڑے مُراد نہیں ہیں ، بلکہ ، صِرف نیکو کار إِیمان والے اور دِینی عُلوم کے عُلماء مُراد ہیں جیسا کہ امام عبدالرؤوف المناوی  رحمہُ اللہ نے """ تیسیر فی شرح الجامع الصغیر """میں لکھا کہ """ المجربين للأمور المحافظين على تكثير  الأجور فجالسوهم لتقتدوا برأيهم أو المُراد مَن له منصب العِلم وإن صَغر سِنه :::وہ لوگ (نیکی اور خیر والے)مختلف معاملات میں آزمائے ہوئے ہوں (کہ)وہ لوگ ثواب میں اضافے کی حفاظت(والے کام )کرتے(اور کرواتے)ہیں پس تُم لوگ اُن کے ساتھ بیٹھو تا کہ اُن کی رائے کی اقتداء کر سکو ، یا ، اِس (حدیث میں بڑوں )سے مُراد وہ لوگ ہیں جن کا (دِینی)عِلمی رُتبہ ہو خواہ وہ عُمر میں چھوٹے ہی  ہوں """
::: (7) ::: اللہ سے برکت کی دُعا کرنا  :::
ہمارے رب سُبحانہُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے کہ﴿وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلاً مُّبَارَكاً وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ::: اور کہو ، اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ پر اتاریے اور سب سے زیادہ خیر سے اُتارنے والے ہیںسورت المؤمنون(23)/ آیت29،
::: (8) ::: گھر میں داخل ہونے کی صورت میں سلام کرنا  :::
اللہ پاک کا فرمان ہے ﴿فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً  ::: اور جب تُم لوگ گھروں میں داخل ہو تو اپنے (گھرمیں موجود)لوگوں پرسلام کہا کرو ، (سلام )اللہ کی طرف سے برکت والی پاکیزہ  دُعائے خیر ہےسورت النور(24)/آیت61،
::: (9) ::: رشتہ داری نبھانا   :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے﴿مَن سرَّہ ُ أن یُبسَطَ لَہ ُ فی رزقِہِ أو ینسأ لَہ ُ فی رجا ءِ فلیَصل رَحِمہ ُ :::جو اِس بات سے خوش ہو کہ اُس کا رزق کھولا جائے اور اُس کی عُمر میں أضافہ ہو تو وہ اپنے رشتوں کو جوڑے رکھےصحیح البُخاری /کتاب الادب /باب12،صحیح مسلم /حدیث2557/کتاب البر والصلۃ و الآداب/باب 6،
::: (10) ::: سچ بولنا اور  دھوکہ بازی نہ کرنا:::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ ما لم یَتَفَرَّقَا فَإِن صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فی بَیعِہِمَا وَإِن کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَت بَرَکَۃُ بَیعِہِمَا:::دوبا اختیار خرید و فروخت کرنے والے (خرید و فروخت کر کے )الگ ہونے سے پہلے اگر صِدق والا معاملہ کریں گے تو اُنکے لیے اُنکی خرید و فروخت میں برکت دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں اور (سامان کا عیب )چھپاتے ہیں تو انکی خرید و فروخت کی برکت مِٹا دی جاتی ہےصحیح البُخاری /کتاب البیوع /باب 44، صحیح مُسلم /کتاب البیوع / باب 11 ،

::::::: برکت والے اوقات :::::::

::: (1) :::  سحر کے وقت میں ، اور صُبحُ کے وقت میں برکت ہے ::::::
صخر الغامدی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا:::اے اللہ میری اُمت کی سحروں میں  برکت عطاء فرما،
حدیث بیان فرمانے والے صحابی صخر رضی اللہ عنہ ُ کا ہی فرمان ہے کہ ﴿وكان إذا بَعَثَ سَرِيَّةً أو جَيْشًا بَعَثَهُمْ في أَوَّلِ النَّهَارِ  ::: اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کوئی جنگی مہم یا فوج کہیں بھیجا کرتے تھے تو صُبح کے وقت ہی بھیجا کرتے تھے،
اور صخر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کرنے والے تابعی کا کہنا ہے کہ """ صخر تا جر تھے اور اپنی تجارت کا مال صُبح صُبح اِرسال کیا کرتے تھے تو وہ خوب مالدار ہو گئے اور اُن کا مال بڑھ گیا """سُنن ابن ماجہ /حدیث 2236 /کتاب التجارات/باب41 ، سنن ابی داؤد ، اور دیگر کتب احادیث میں بھی یہ حدیث مبارک  روایت ہے ،  اور امام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا یہ حدیث """صحیح """ ہے ،صحیح سنن ابن ماجہ /حدیث 1818،
اس کے علاوہ  اسی سنن ابن ماجہ میں ایک اور صحیح روایت جو کہ عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿اللَّھُمَ بَارِک لِاُمتِی فی بَکُورِھَا:::اے اللہ میری اُمت کی صُبح کے اوقات میں برکت فرمایےصحیح سنن ابن ماجہ /حدیث 1819،  
یہاں تک تو بات نظر آتی ہے صرف دُعا کیے جانے کی ، اس کے بعد یہ بھی بتا دِیا گیا کہ یہ دُعا قُبول ہوئی ، جیسا کہ ابو ہُریرہ اور عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا﴿بُورِکَ لِاُمتِی فِی بُکورِھَا :::میری اُمت کے لیے اُس کے صُبح کے اوقات میں برکت دی گئی ہےصحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 2841،
اِمام ابن حَجر العسقلانی رحمہ ُ اللہ کا کہنا ہے کہ"""کچھ حفاظ یعنی حدیث شریف کے حفاظ أئمہ(رحمہم اللہ) نے اِس حدیث(شریف)کی مختلف روایات جمع کیں ہیں تو یہ حدیث(شریف)بیس مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی (ملتی)ہے """۔
::: (2) ::: ماہ رمضان میں برکت ہے ::::::
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ فَرَضَ الله عز وجل عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ تُفْتَحُ فيه أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فيه أَبْوَابُ الْجَحِيمِ وَتُغَلُّ فِيه مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ فِيه لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِن أَلْفِ شَهْرٍ مَن حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ:::تُم لوگوں کے پاس برکت والا مہینہ رمضان آیا ہے ، اللہ عز وجل نے اس مہینے کے روزے رکھنا فرض کیا ہے، اِس مہینے میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، اور اِس مہینے میں سرکش شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے ، اس مہینے میں ایک رات ہے جو ہزار مہینے سے زیادہ خیر والی ہے جِس پر  اُس رات کی خیر روک دی گئی تو وہ( ہر خیر سے)روک ہی دیا گیاصحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث 55،
رمضان کو دی گئی  برکتوں او ر رحمتوں کو جاننے کے لیے """ماہ رمضان اور ہم """ کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،"""ماہ رمضان اور ہم """ کا مطالعہ درج ذیل ربط پر کیا جا سکتا ہے :
::: (3) ::: لیلۃ القدر میں برکت ہے ::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے  سورت القدر میں ہمیں بتایا ہے کہ اُس نے اپنی کتاب مُبارک قران کریم قدر والی رات (لیلۃ القدر)میں نازل فرمایا  ﴿ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ :::بے شک ہم نے قُران کو قدر والی رات میں نازل فرمایا سورت القدر(97)/پہلی آیت،اور اِس رات کے مُبارک یعنی برکت والی  ہونے کی خبر دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ :::بے شک ہم نے قُران کو برکت والی رات میں نازل فرمایاسورت  الدُخان(44)/آیت 3،
::: (4) ::: عشرہ ذی الحج میں  برکت ہے ::::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ما الْعَمَلُ في أَيَّامٍ العشر أَفْضَلَ مِن العَمل في هَذهِ :::(ذی الحج  کے)دِس دِنوں  میں کیے جانے والوں کاموں سےبڑھ کر کوئی اور کام افضل نہیں سے
صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا  """ ولا الْجِهَادُ:::جہاد بھی نہیں ؟ """
اِرشاد فرمایا﴿ولا الْجِهَادُ إلا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فلم يَرْجِعْ بِشَيْءٍ ::: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال دونوں ہی لے کر جائے اور کچھ بھی واپس نہ آئےصحیح البُخاری /حدیث926 /کتاب العیدین /باب11،
ماہ ذی الحج کے بارے میں مزید معلومات  ، اور عُمرہ اور  حج کے  طریقے بارے میں او ر اہم مسائل کے لیے """ ماہ ذی الحج اور ہم """کامُطالعہ اِن شاء اللہ  فائدہ مند ہو گا ،
::: (5) ::: دونوں عیدوں کے دونوں دِنوں میں برکت ہے ::::::
اُم عطیہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے (((((كنا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يوم الْعِيدِ حتى نُخْرِجَ الْبِكْرَ من خِدْرِهَا حتى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ الناس فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذلك الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ :::ہمیں حُکم دِیا جاتا تھا کہ ہم عید والے دِن (نماز ) کے لیے (گھروں سے) نکلیں (بلکہ )یہاں  تک  (حُکم دِیا جاتا تھا )کہ کنواری لڑکیوں کو بھی اُن کی پردہ گاہوں سے نکال (کر ساتھ) لائیں ، (اور) یہاں تک (بھی) کہ ماہواری کی حالت والیوں کو بھی (ساتھ لائیں) کہ وہ (نماز میں تو شامل نہ ہوں گی لیکن)لوگوں کی صفوں کے پیچھے رہیں اور اُن سب کی تکبیروں کے ساتھ تکبیر بلند کریں اور اُن سب کی دُعاؤں کے ساتھ دُعائیں کریں ،اُس دِن کی برکت اور اُس دِن کی( یعنی اُس میں ملنے والی) پاکیزگی کے حصول کی اُمید میں(یہ حُکم اور یہ عمل ) کیا جاتا تھا )))))صحیح البُخاری/حدیث928 /کتاب المناسک/باب12،

::::::: برکت والے مُقامات (جگہیں ) ::::::

::: (1) ::: بیت اللہ ، مسجد الحرام   مُبارک ہے :::
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكاً:::بے شک سب پہلا( زمین پر  اللہ کا )جو گھر لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ  ہے جو برکت والے مکہ میں ہےسورت آل عِمران(3)/آیت 96،
::: (2) ::: مدینہ المنورہ برکت والا شہر ہے :::
انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ جِہادءِ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مدینہ المنورہ کے پاس پہنچے تو یہ دُعا فرمائی ﴿اللَّھُمَّ  إني أُحَرِّمُ ما بين لَابَتَيْهَا بِمِثْلِ ما حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُم في مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ:::اے اللہ میں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان والے حصے کو  مکہ میں ابراہیم (علیہ السلام)والے حرم کی طرح حرام قرار دیتا ہوں ، اے اللہ اِن( یعنی مدینے والوں )کے پانی اور اناج کے پیمانوں میں برکت دے صحیح البُخاری/حدیث2736/کتاب الجھاد و السیر/باب 73،
اور فرمایا ﴿اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ ما بِمَكَّةَ من الْبَرَكَةِ :::اے اللہ مکہ میں جو برکت ہے مدینے میں اُس سے دوگنی برکت دے دےصحیح مُسلم /حدیث1369/کتاب الحج/باب85،
مدینہ المنورہ کے لیے کی گئی یہ دُعائیں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانے تک کے لیے ہی نہیں ہیں ، بلکہ ہمیں دیگر احادیث میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ مدینہ المنورہ کو تا قیامت حُرمت عطاء فرمائی گئی اور برکت عطاء فرمائی گئی ، مثلاً  :::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ  ﴿مَن صَبَرَ عَلى لَأْوَائِهَا كُنتُ لَهُ شَفِيعًا أو شَهِيدًا يَوم الْقِيَامَةِ :::جس نے مدینہ(میں رہتے ہوئے خود پر  آنے والی مدینہ) کی فاقہ کشیوں پر صبر کیا  تو میں قیامت والے دِن اُس  شخص کی سفارش کروں گا یااُس شخص کا گواہ ہوں گاصحیح مُسلم /حدیث1377/کتاب الحج/باب86 ،
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ﴿لَا يَصْبِرُ على لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ من أُمَّتِي إلا كنت له شَفِيعًا يوم الْقِيَامَةِ أو شَهِيدًا :::میری اُمت میں سے جو کوئی بھی مدینہ کی فاقہ کشیوں اور سختیوں پر صبر کرے گا میں قیامت والے دِن اُس شخص  کی سفارش کروں گا یا اُس شخص کاگواہ ہوں گا سابقہ حوالہ ، حدیث 1378،  
::: (3) ::: مسجد أقصیٰ کے اِرد گِرد کا علاقہ یعنی سر زمین ء فلسطین با برکت ہے :::
﴿الْمَسْجِدِ الاْقْصَى الَّذِى بَارَكْنَا حَوْلَهُ:::مسجد أقصیٰ کے اِد گِرد کو ہم نے با برکت بنایاسورت الاِسراء(بنی إِسرائیل17)/ پہلی آیت ۔
::: (4) :::  سر زمینء شام برکت والی ہے  :::
﴿وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا:::اور جو لوگ کمزور تھے ہم نے اُنہیں  اُس زمین کی مشرق اور مغرب کا وارث بنا دِیا جس زمین میں ہم نے برکت دیسورت الاعراف(7)/آیت137،
﴿وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً:::اور ہم نے اُن کے اور اُن بستیوں(یعنی سر زمینء شام کی اُن بستیوں ) کے درمیان جن بستیوں میں ہم نے برکت دی واضح (ایک دوسرے کے قریب قریب )بستیاں بنا دیںسورت سبأ(34)/آیت 18،
﴿وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطاً إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ::: اور ہم نے لُوط کو اُس زمین کی طرف نجات دی جِس زمین کو ہم نے دونوں جہانوں کے لیے برکت دیسورت ا لأنبياء(21)/آیت 71،
﴿وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ :::اور سُلیمان کے لیے (ہم نے مُسخر کی)تیز و تند ہوا جو سُلیمان کے حُکم سے اُس زمین کی طرف چلتی تھی جس زمین کو ہم نے برکت دی اور ہم ہر ایک چیز کا عِلم رکھتے ہیںسورت  الأنبياء(21)/آیت 81،
ان تمام آیات میں﴿الأرض التی بارکنا فِیھا :::وہ زمین جِس میں ہم نے برکت دیسے مُراد سر زمین ء شام ہے جسے اب سوریہ اور انگریزی میں Syria کہا جاتا ہے ،
تفاسیر کی معتبر کتابوں میں اس بارے میں کافی تفاصیل میسر ہیں ،  اور اس بارے میں روایت شدہ احادیث کے بارے میں الگ سے بھی کچھ کتب موجود ہیں اور ان میں سے صحیح اور سقیم کی تخریج بھی موجود ہے ، اپنے موضوع تک محدود رہتے ہوئے میں اُن احادیث کا ذکر نہیں کروں گا ، تفصیلات کے طالب اُن کتابوں کا ، اور تفاسیر کا مطالعہ کر کے اِن شاء اللہ تشفی بخش  معلومات  حاصل کر سکتا ہے ۔
::::::: ہو سکتا ہے کسی ذہن میں یہ سوال آئیں کہ اگر شام و فلسطین کی زمین با برکت ہے تو وہاں مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ کیوں ہو رہا ہے جو ہم ایک عرصے سے سنتے اور دیکھتے چلے آ رہے ہیں؟ وہاں آباد مُسلمان برکت سے محروم کیوں ہیں ؟ اور خانہ بربادی اور کسمپرسی کی حالت میں کیوں ہیں ؟
تو اس کا جواب دو زاویوں سے میسر ہے ،
::: (1) ::: جو کہ پہلے آغاز میں بیان کیا گیا کہ اللہ جس کے لیے ، جس چیز میں جس وقت جتنی اور جیسی اور جب تک چاہے برکت دے یا نہ دے ،
::: (2) :::  اللہ کی طرف سے برکت کے حصول کے اسباب میں سے لازمی سبب اللہ کی رضا مندی حاصل ہونا ہے ، کیا ہم اجتماعی طور پر ہم مُسلمانوں ، اور اُن عِلاقوں میں بسنے والےمُسلمانوں کے اعمال ایسے ہیں جو اللہ کی رضا والے ہوں اور اتنے ہوں کہ ہمیں اللہ کی طرف سے وہ برکت میسر ہو سکے جس کا اللہ نے ذِکر فرمایا ہے ؟
اس کا یقینی جواب """ نہیں """ ہے ، اور یہی اِس سوال کا جواب بھی ہے کہ آج وہاں آباد مُسلمان برکت سے محروم کیوں ہیں ؟ اور خانہ بربادی اور کسمپرسی کی حالت میں کیوں ہیں ؟
::::::: ایک ممکنہ شک یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ، اب وہ برکت نہ رہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی گذرے ہوئے زمانے کے بارے میں اُس سر زمین کو با برکت بنانے کی خبر دی ہے ،
تو  اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اس صورت میں ہی ممکن تھا جب اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اس برکت کے ختم کیے جانے یا ختم ہوجانے کی بھی کوئی خبر ہوتی ، چونکہ ایسی کوئی خبر نہیں ، بلکہ صحیح احادیث میں سر زمینءشام کے فضائل میسر ہیں لہذا یہ شک ، محض ایک شک ہی ہے ۔
::: (5) :::  ساری  زمین مخلوق کے لیے عام  برکت والی ہے  :::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِىَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا:::اور اللہ نے زمین کے اوپر سے پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت دی سورت فُصلت (حٰم سجدہ41)/آیت 10،
اِس آیت شریفہ میں مذکور برکت کو اسلامی شرعی اصطلاحی برکت نہیں سمجھیں گے بلکہ لغوی برکت کے مفہوم میں سمجھا جائے گا کہ یہ  اِنسان ، جنات اور حیوان  متحرک اور جامد تمام مخلوق کے لیے عام برکت کا ذِکر ہے جس کے سبب مخلوق کی فطری ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔

::::::: ناجائز تبرک  ::::::

ایسے مقامات جہاں حرام و نا جائز کام ہوتے ہوں ، وہاں برکت نہیں ہوتی ، خواہ وہ کام اِسلام کے نام پر  کیے جاتے ہوں ، یا ، بزرگوں اور نیک لوگوں سے عقیدت کے نام پر  کیے جاتے ہوں ،
 جیسا کہ عموماً کچھ  واقعتا نیکو کار إِیمان والوں، اور اکثر نام نہاد نیک اور ولی نُما لوگوں کی قبروں اور مزاروں پر کیے جاتے ہیں ، اور لوگ اُن قبروں اور مزاروں کو متبرک سمجھتے ہیں اور اُن قبروں میں دفن کیے گئے مُردوں سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر کسی شخصیت ، کسی مُقام ، کسی چیز کے بارے میں یہ خیال رکھنا کہ وہ برکت والی ہے ، بالکل غلط اور ناجائز ہے ،
اگر کسی شخصیت ، مُقام یا چیز میں سے اللہ کے دِین اورمُسلمانوں کو دینی اوردُنیاوی فائدہ ملتا ہو ، جیسا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا کوئی مُسلمان ،ذاتی آراء اور فلسفے اور علم الکلام وغیرہ کا بِگار لگائے بغیر دِین کی تعلیم دینے والا کوئی عالم ، اللہ کی راہ میں اپنی جان ، مال ، عِلم ، وقت کے ذریعے جِہاد کرنے والا کوئی مجاھد ، وغیرہ ،
تو ایسے لوگوں کو با برکت سمجھنا دُرُست ہے ، اور اُن سے تبرک حاصل کرنے کا طریقہ اُس خیر کو حاصل کرنے کی کوشش ہے جو خیر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اُن کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے ، نہ کہ اُن لوگوں کے جسموں اور اُن سے متعلق چیزوں کو چھونے ، چُومنے چاٹنے یا اپنے ساتھ لگانے لپٹانے وغیرہ سے وہ برکت حاصل کی جا سکتی ہے ، یہ سب کام ناجائز ہیں ، ایسا کرنے کی کوئی دلیل ہمیں اللہ کی کتاب کریم اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی ،
یہاں ایک بات پھر دہراتا چلوں کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کا معاملہ باقی تمام تر اِنسانوں سے الگ تھا ، کہ نبیوں اور رُسولوں علیھم السلام کی ذاتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے مستقل برکت عطاء فرمائی گئی تھی ، جو کہ اُن کے عِلاوہ کسی اور کو عطاء نہیں ہوئی ، لہذا انبیا ء اور رُسل علیھم السلام کے مبارک وطاہر اجسام سے برکت حاصل کرنے کو  کسی غیر نبی ، اور غیر رسول  کے اجسام یا اُن سے متعلق چیزوں سے برکت حاصل کرنے کی دلیل بنانا قطعاً غلط ہے بلکہ حماقت ہے ۔
مختلف چیزوں اور مقامات کو بذات خود مستقل طور پر با برکت ، متبرک سمجھنے کے بارے میں کئ فلسفے ملتے ہیں ، اُن میں سے ایک حجر اسود کے بارے میں  بھی ہے ،  جن کے بارے میں مجھے چند روز پہلے خبر ملی ، میں نے اُن کا مطالعہ کیا ،
حجر اسود کے بارے میں کافی عرصہ پہلے کچھ باتیں میں نے اپنی کتاب""" عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں لکھی تھیں ، چند روز پہلے  ملی پڑھی ہوئی معلومات کی وجہ سے میری بیان کردہ سابقہ معلومات میں کچھ اضافے ساتھ انہیں یہاں لکھ رہا ہوں ، کیونکہ یہ براہ راست اِس مضمون کے موضوع سے متعلق ہیں، بغور مطالعہ فرمایے :::
کچھ لوگ ، اپنے غلط عقائد ، جن کی کوئی صحیح دلیل انہیں نہ تو اللہ کی کتاب کریم قران حکیم سے میسر ہے ، اور نہ ہی اللہ کے خلیل ، اللہ کے آخری رسول ، اللہ کی طرف سے آخری معصوم ، محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی صحیح ثابت شدہ تعلیمات سے ، اور نہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ،
جی ، تو کچھ لوگ جو اِسلام سے منسوب بھی ہیں ، اپنے غلط عقائد کو دُرست دِکھانے کے لیے غلط حرکات کرتے رہتے ہیں ، چند روز پہلے ایک بھتیجے نے ایسی ہی حرکات میں سے ایک حرکت کے بارے میں بتایا ،
جِس کے ذریعے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کے دُوسرے بلا فصل  أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے، حَجر اسود کے بارے میں فرمائے گئے ایک فرمان مُبارک کو ، رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے یعنی مؤمنین کےچوتھے بلا فصل  أمیر علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  سے منسوب ایک قول کے مُطابق غلط  دِکھانے کی کوشش  کی  ،
پہلے تو حِجر اسود کے بارے میں کچھ معلومات ذِکر کرتا ہوں ، جو اِن شاء اللہ فائدہ مند ہوں گی ، اور ہم مؤمنین اہل سُنّت و الجماعت کے عقائد کو واضح کرنے والی ہیں ، یہ معلومات تقریبا ً دس سال پہلے میں نے """ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے طریقے پر """ میں درج کی تھیں ، و للہ الحمد ،
""""" :::::::   حجرءِأسود کی ، اور اُس کو چُھونے کی بڑی فضیلت ہے ،
جیسا کہ حَجر اسود، اور رُکن الیمانی  کے بارے میں ہمارے محبوب ،خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی  اِرشاد فرمایا
(((((إِنَّ مَسْحَهُمَا يَحُطَّانِ الْخَطِيئَةَ :::اِن دونوں کو چُھونا ،(اللہ کی مشیئت اور حکم سے) خطاؤں کو مٹاتا ہے))))) سُنن النسائی/ حدیث /2932کتاب مناسک الحج/باب134،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
اور حِجر اسود کے بارے میں یہ بھی اِرشاد فرمایا ہے کہ(((((نَزَلَ الْحَجَرُ الأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِى آدَمَ ::: کالا پتھر (حَجر اسود) جنّت سے اترا تو ہوہو دُودھ سے زیادہ سُفید تھا ، لیکن اُسے آدم کی اولاد کی غلطیوں نے کالا کر دِیا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/886کتاب الحج/باب49 مَا جَاءَ فِى فَضْلِ الْحَجَرِ الأَسْوَدِ وَالرُّكْنِ وَالْمَقَامِ،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
صحیح ابن خزیمہ /حدیث /2733کتاب المناسک/باب182 کی روایت میں """دودُھ کی جگہ، برف ذِکر ہے"""، اِس روایت کو ڈاکٹر شیخ محمد مصطفیٰ الاعظمی نے حَسن قرار دِیا ہے ،  
اور حَجر اسود کے بارے میں یہ خبر بھی عنایت فرمائی ہے کہ (((((وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ :::اللہ کی قسم ، یقینا ً اللہ قیامت والے دِن اُسے (یعنی حَجرِ اسود)کو (اِس طرح)لائے گا کہ اُس کی دو آنکھیں ہوں گی جِس سے وہ دیکھے گا ، اور بولنے والے ز ُبان ہو گی (اور)وہ ہر اُس شخص کے بارے میں گواہی دے گا جِس نے حق کے ساتھ اُسے چُھویا ہوگا)))))سُنن الترمذی/ حدیث 959 ،/877کتاب الحج/باب113 مَا جَاءَ فِى الْحَجَرِ الأَسْوَد،إمام اللابانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،صحیح ابن خزیمہ/حدیث 2733،/2736کتاب المناسک/باب184،185،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا پہلی روایت صحیح لغیرہ ، اور دوسری صحیح ، مُستدرک الحاکم /حدیث/1680اول کتاب المناسک،مُسنداحمد /حدیث190۔

:::::: حجر اسود، اور اُسے چُھونے چُومنے کے بارے میں أہم باتیں ::::::

معزز قارئین ، یقیناً حجر اسود کی بڑی فضیلت ہے ، اور عمرے اور حج کے طواف میں اُسے دُرست عقیدے اور طریقے سے چُھونے کا،اِن شاء اللہ  قیامت والے دِن  فائدہ بھی ہو گا ،
لیکن یہ معاملہ کہیں  زیادہ اہم ہے کہ یہ سب کام سُنّت کے درجے میں ہیں اور کِسی مُسلمان کو اذیت پُہنچانا حرام ہے لہذا اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حجرءِ أسود کو چُھونے اور چُومنے کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے کِسی حرام کام کا شکار نہ ہو جائیں ،اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی نے اور اُس کے  نبی  کریم محمد صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم نے دُوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنے کا حُکم دِیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خاص طور پر یہ حکم فرمایا گیا کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائی جائے،
اور یہ بھی کہ یہ جو احادیث شریفہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت والے دِن اِس حجر اسود کو  بولنے کی طاقت عطاء فرمائے گا، اور وہ ہر اُس شخص کے بارے میں میں گواہی دے گا جِس نے دُرُست عقیدے اور طریقے کے مطابق اُسے چُھویا ہو گا ،
تو اِن احادیث شریفہ میں سے کسی بھی طور یہ سبق یا دلیل نہیں ملتی کہ حجر اسود بذات خود کوئی متبرک چیز ہے ، یا بذات خود کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ، جیسا کہ کچھ لوگ برکت ، تبرک اور متبرکات وغیرہ کو خود ساختہ فلسفوں کے مطابق سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے  ہیں کہ یہ کالا پتھر بذات خود ایک با برکت چیز ہے اور اس کو تبرکاً چھونا چاہیے ، اور یہ کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے ،
حق بات وہی ہے جو اللہ کے ایک سچے ولی اور انبیاء اور رسولوں کے بعد بلند ترین رتبے والوں میں سے دُوسرے نمبر والے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، اور اِیمان والوں کے دوسرے بلا فصل أمیر   عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اِرشاد فرمایا کہ :::
"""إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ::: میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُومتا"""،(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 50 ما ذُکِر فی الحَجر الاسود
دُوسری روایت میں ہے کہ""" وَاللَّهِ إِنِّى لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ ، وَلَوْلاَ أَنِّى رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - اسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ ::: اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا"""(صحیح البخاری/کتاب الحج/باب 57 الرمل فی الحج و العمرۃ)،
میرے إِیمان والے مؤمن بھائیو، اور مؤمنات بہنو، خوب اچھی طرح سے سمجھ رکھیے کہ ہمارے دوسرے بلا فصل خلیفہ اور أمیر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ نے اپنے اِس حق فرمان میں ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اِن چیزوں اور اِن مقامات میں اپنی کوئی صلاحیت یا برکت نہیں ، اور نہ ہی کسی بھی چیز کے بارے میں نفع مند یا نقصان دہ ہونے  کی بات کو اللہ یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے خبر کے بغیر مانا جا سکتا ہے ،
اورچونکہ  حِجر اسود کے بارے میں اُس کے با برکت ہونے ، یا کسی طور فائدہ مند یا نقصان دہ ہونے کی کوئی خبر نہیں اِس لیے یہ حق  اعلان فرمایا کہ اللہ کی قسم میں یہ خوب جانتا ہوں کہ تُم ایک پتھر ہو اور نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو نہ کوئی نقصان ، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چُھوتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تُمہیں نہیں چُھوتا،
اور نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے صِرف اتنا اور وہی کام کیا جو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کِیا تھا ، اپنی طرف سے کوئی فلسفے بنا کر کسی چیز یا کام کو کوئی ایسا مُقام یا رُتبہ نہیں دِیا جِس کی قران کریم اور صحیح حدیث شریف میں سے کوئی دلیل نہ ہو ،"""""
کسی نے  ، ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کے اِس منقولہ بالا فرمان مبارک کو غلط،دِکھانے کے کوشش میں  ایک مضمون لکھ مارا اور اُس  مضمون  کے آغاز میں یہ روایت  نقل کی کہ :::
""" عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَلَمَّا دَخَلَ الطَّوَافَ اسْتَقْبَلَ الْحَجَرَ، فَقَالَ: " إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَبَّلَهُ "
فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ:  يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، قَالَ: بِمَ؟ قَالَ بِكِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: وَأَيْنَ ذَلِكَ مِنْ كِتَابِ اللهِ؟، قَالَ: قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: **وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ** ، الیٰ قولہ:بَلَى،  خَلَقَ اللهُ آدَمَ وَمَسَحَ عَلَى ظَهْرِهِ فَقَرَّرَهُم بِأَنَّهُ الرَّبُّ وَأَنَّهُمُ الْعَبِيدُ، وَأَخَذَ عُهُودَهُمْ، وَمَوَاثِيقَهُمْ وَكَتَبَ ذَلِكَ فِي رَقٍّ(فی رق: و الرق بالفتح : الجلد یکتب فیہ و الکسر لغۃ قلیلۃ و قرأبھا بعضھم فی قولہ تعالی:"فی رق منشور". انتھی۔(1/321)المصباح المنیر۔ب) وَكَانَ لِهَذَا الْحَجَرِ عَيْنَانِ وَلِسَانانٌ، فَقَالَ : افْتَحْ فَاكَ،  فَفَتَحَ فَاهُ فَألْقَمَهُ ذَلِكَ الرَّقُّ، فَقَالَ: اشْهَدْ لِمَنْ وَافَاكَ بالْمُوَافَاةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالْحَجَرِ الْأَسْوَدِ وَلَهُ لِسَانٌ ذَلْقٌ يَشْهَدُ لِمَنْ يَسْتَلِمُهُ بِالتَّوْحِيدِ "، فَهُوَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَعِيشَ فِي قَوْمٍ لَسْتُ فِيهِمْ يَا أَبَا الحَسَنٍ"""،
اور اس روایت کے غلط حوالہ جات دیتے ہوئے اِس روایت کوامام بخاری رحمہُ اللہ کی تاریخ میں منقول لکھا ،  اور اس کے علاوہ یہ بھی لکھ مارا کہ اسے ترمذی ، نسائی ، طبرانی ،امام بیہقی اور امام حاکم نے روایت کیا ہے ،
لیکن کوئی تفصیلی حوالہ نہیں دِیا ، اِس قِسم کے مجھول حوالہ جات دیکھ کر ہی بات کی دُرُستگی اور سچائی کا انداز ہو جاتا ہے ، پھر بھی ہم اِس قول کو چھان بین کے نتائج کا مطالعہ کرتے ہیں ، تا کہ اِن شاء اللہ قارئین کرام کسی دھوکہ دہی کا شِکار نہ ہو سکیں ،   
قارئین کرام ، یہ قول  مجھے تو امیرا لمؤمنین فی الحدیث ، امام محمد بن اِسماعیل البخاری کی تاریخ الکبیر ، تاریخ الاوسط ، اور تاریخ الصغیر میں کہیں نہیں مل سکا ، 
اور اسی طرح یہ قول سُنن الترمذی ،سُنن النسائی ، معجم الکبیر للطبرانی، معجم الاوسط للطبرانی ، معجم الصغیر للطبرانی  میں کہیں دریافت نہیں ہو سکا ، بلکہ اِن کتابوں میں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ اور ہمارےدُوسرے بلا فصل  أمیر عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  کا وہی قول مذکور و منقول ہے جس میں  ہمیں صحیح عقیدے کا درس دِیا گیا ہے ،
جی یہ منقولہ بالا روایت ،امام البیہقی رحمہُ اللہ نے """شعب الایمان / کتاب المناسک /باب 3فضیلۃ الحجر السود،والمقام، والاستلام والطواف بالبیت ،و السعی بین الصفا و المروۃ"""، میں روایت کی ہے ،
اور اِمام الحاکم رحمہُ اللہ نے """المستدرک علی الصحیحین /حدیث /1682اول  کتاب المناسک، میں سے حدیث 73 """ میں روایت کی ہے ،
إِمام البیہقی رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكَيْلِينِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
اور إِمام الحاکم رحمہُ اللہ کی روایت کی سند یہ ہے :
""" أَخْبَرْنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْعَدْلُ، مِنْ أَصْلِ كِتَابِهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْكِيلِينِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو الْعَدَنِيُّ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ، عَنْ أَبِي هَارُونَ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ"""،
غور فرمایے قارئین کرام ، دُونوں  کی سند تقریبا ایک ہی  ہے ، بس إِمام الحاکم کی سند کے آغاز میں ایک راوی زیادہ ہے ، اور دونوں کی سند میں  """ابو ھارون العبدی """نامی راوی مشترک  ہے ، جس کا پوار نام """عمارۃ بن جوین ، ابو ھارون العبدی """ ہے ،
 اس راوی کو محدثین کرام نے """غیر قوی ، یعنی نا قابل اعتماد، اور جھوٹا اور شیعی """ قرار دِیا ہے ،
خود إِمام البیھقی رحمہُ اللہ نے """ شعب الایمان""" میں یہ روایت ذِکر کرنے کے بعد  لکھا ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ ::: شیخ احمد کا کہنا ہے کہ ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد )نہیں ہے"""،
::::::: اِمام العینی رحمہُ اللہ نے  """عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری /کتاب الحج/باب ما ذُکِر فی الحجر الاسود """میں  کہا ہے کہ """ وفي سنده أبو هارون عمارة بن جوين ضعيف:::اِس کی سند میں ابو ھارون بن جوین ہے جو ضعیف ہے"""،
:::::::  امام السیوطی رحمہُ اللہ نے بھی """شرح النسائی/حدیث2938""" کی شرح میں مستدرک الحاکم کی اِس روایت کو """ضعیف """قرار دِیا ہے ، خیال رہے کہ یہ روایت """سُنن النسائی """میں نہیں ہے ، بلکہ امام السیوطی رحمہُ اللہ نے اسےسُنن النسائی کی  شرح میں مستدرک الحاکم کے حوالے سے مختصراً ذکر کیا ہے ،
::::::: اس روایت کے بارے میں امام حافظ ابن العربی المالکی رحمہُ اللہ نے """عارضۃ الاحوذی بشرح صحیح الترمذی/ابواب الحج/باب فضل الحجر الاسود""" میں کہا کہ """ لیس لہ اصل ولا فصل فلا تشغلوا  بہ لحضہ:::اِس روایت کی کوئی اصل نہیں لہذا اس میں خود کو مشغول مت کرو"""،
اِس کے علاوہ دیکھیے :::
امام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی"""ديوان الضعفاء والمتروكين وخلق من المجهولين وثقات فيهم لين ،ترجمہ رقم3000"""،
اور امام ابن سعد کی """طبقات الکبریٰ /ترجمہ رقم 3190"""،
اور تفصیلی معلومات کے لیے دیکھیے اِمام شمس الدِین الذھبی رحمہُ اللہ کی """ میزان الاعتدال / ترجمہ رقم 6018"""،
لہذا سند کے اعتبار سے یہ روایت ناقابل اعتبار اور نا قابل حجت ہے ، اور یوں بھی اس میں جو کچھ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے منسوب کیا گیا ہے وہ کسی عام سے مؤمن سے متوقع نہیں ، چہ جائیکہ امیر المؤمین علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں اُسے مانا جائے ،
یہ روایت اُن لوگوں کی کاروائی ہے جو ہر معاملے میں امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہُ کو امیر المؤمنین عمر الفاروق سے اعلیٰ دِکھانا چاہتے ہیں ، لیکن شاید انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اس روایت میں علی رضی اللہ عنہ ُ نے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین مانا ہے ، مگر علی رضی اللہ عنہ ُ کی محبت اور شیعیت کا راگ الاپنے والے عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کو امیر المؤمنین نہیں مانتے اور اپنی اس باطل ضِد کو دُرُست دکھانے کے لیے اپنے ہی امام رضی اللہ عنہ ُ کو بھی """ تقیہ """ کرنے والے بنانے پر لگ جاتے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،
خیر ، اِس وقت میرا موضوع لوگوں امیر المؤمنین علی  رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے اہل خانہ و اولاد سے نام نہادمحبت نہیں ، بلکہ اُس غلط روایت کی حقیقت واضح کرنا ہے جِسے لوگ اپنے باطل عقائد کی دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،
آخر میں گذارش ہے کہ ، جو کچھ ہمارے  رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی  آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ ، ہمارے دُوسرے بلا فصل أمیر عُمر الفاروق نے اپنے اِس قول میں اِرشاد فرمایا ہے ،اُس کی جو شرح میں نے اپنی کتاب میں سے اقتباس کے طور پر پیش کی ہے ، تقریباً وہی کچھ امام البیہقی رحمہُ اللہ نے بھی اپنی """شعب الایمان"""میں اِسی کمزور سند والی کمزور نا قابل حجت روایت کے بعد اِن الفاظ میں لکھی ہے کہ :::
""" قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ: " أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ غَيْرُ قَوِيٍّ فَإِنْ صَحَّ فَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ قَدْ عَبَدَ الْحَجَرَ فَحِينَ أَهْوَى إِلَى الرُّكْنِ كَأَنَّهُ هَابَ مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَتَبَرَّأَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سِوَى اللهِ تعالى وَأَخْبَرَهُ بِأَنَّهُ حَجَرٌ لَا يَضُرُّ وَلَا يَنْفَعُ يُرِيدُ مَا كَانَ عَلَى هَيْئَتِهِ حَجَرًا وَإِنَّهُ إِنَّمَا يَقَبِّلُهُ مُتَابَعَةً لِلسُّنَّةِ،
وَقَوْلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: إنَّهُ يَضُرُّ وَيَنْفَعُ يُرِيدُ بِهِ إِذَا خَلَقَ اللهُ تَعَالَى فِيهِ حَيَاةً وَأَذِنَ لَهُ فِي الشَّهَادَةِ وَذَلِكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ بِخَبَرِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عِنْدَهُ فِي ذَلِكَ خَبَرٌ فَأَخْبَرَ بِهِ فَقَبَّلَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا :::شیخ احمد کا  کہنا ہے کہ ، ابو ھارون العبدی مضبوط (یعنی قابل اعتماد)نہیں ،اگر یہ (بات)صحیح ثابت ہوتی ہو تو (پھر اِس کا مفہوم یہ ہے کہ)أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ چونکہ( اِسلام سے پہلے اِس کالے) پتھر کی عبادت کرتے تھے، پس جب وہ (حجر اسودوالے)کونے کے پاس پہنچے تو اِسلام سے پہلے والے زمانے  میں اُن پر پائے جانے والےخیالات کی وجہ سے (دوسروں کے لیے عقائد میں غلطی کا)اندیشہ محسوس کیالہذا اللہ تعالیٰ کے عِلاوہ ہر چیز سےبری الذمہ ہوتے ہوئے یہ خبر دِی کہ یہ حجر اسود تو محض ایک پتھر ہے ، اپنے پتھر ہونے کی صُورت اور کیفیت میں کسی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتا ،اور وہ اِس پتھر کو صِرف (نبی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )کی سُنّت کی پیروی کرتے ہوئے چُوم رہے ہیں،
اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان کہ یہ پتھر نقصان اور فائدہ دیتا ہے تو اُن کی مُراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اِس پتھر کو زندگی دے گا اور اِسے گواہی دینے کی اجازت دے گا (تو یہ پتھر فائدہ یا نقصان دینے والا ہوجائے گا)اور یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خبر کے ذریعے جانی ، اور اِس معاملے کے بارے یہ خبر اُن(یعنی أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ)کے پاس تھی لہذا اُنہوں نے یہ خبر (أمیر المؤمنین) عُمر( رضی اللہ عنہ ُ) کو دِی تو اُنہوں نے (یعنی أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ)نے حِجر اسود کو چُوما ،  اللہ اُن دونوں پر راضی ہوا"""
لہذا یہ واضح ہے اور الحمد للہ صدیوں پہلے کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کے بیان سے واضح ہے کہ ہمارے أمیر المؤمنین عُمر الفاروق یہ حجر اسود کے بارے میں کہا ہوا قول توحید خالص کا ایک سبق ہے ، اور کسی بھی چیز کی کسی فضیلت کی بنا پر اُس چیز کے لیے اُس فضیلت سے بڑھ کچھ بھی اور ماننے کو غلط ثابت کرنے والا ہے ، پس مُبارک اور متبرک وہی چیز ، مُقام یا لوگ مانے جا سکتے ہیں جِس کے بارے میں اُن کے با برکت ، مُبارک یا متبرک ہونے کی  خبر اللہ تبارک و تعالیٰ یا اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ثابت ہو ،
محترم قارئین ، دیکھ لیجیے کہ اگر اس روایت کو دُرست بھی مان لیا جائے تو بھی صدیوں پہلے ہمارے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے اِس میں ہمارے دونوں أمیروں کی بہترین فقہ اور خالص توحیدی عقیدے کے مطابق  شرح پیش کی جا چکی ہے ،  جو کسی بھی قِسم کے غلط عقیدے کو رد کرنے والی ہے ، وللہ الحمد ،  
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا رہتے ہوئے مرنے کی توفیق عطاء فرمائے، والسلام علیکم ۔تاریخ کتابت :24/04/1431ہجری ، بمطابق ، 09/04/2010عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :24/04/1431ہجری ، بمطابق ، 09/04/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور کیجیے ، اِن شاء اللہ مزید فائدہ ہو گا :
::: قبروں پر مسح کرنے ، اور قبروں سے تبرک پانے کا عقیدہ رکھنے والوں کی ایک دلیل کا تحقیقی جائزہ ::: مروان بن الحکم ، اور ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ کے مابین ہونے والے واقعے کی تحقیق و تخریج :::
http://bit.ly/1RLdIEc

No comments:

Post a Comment