::::: ماہ ذی الحج اور ہم :::::
بِسَّمِ اللہِ و
الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیَ رَسولِ اللہِ و عَلیَ
آلہِ و أصحابہِ و أزواجہِ أجمعین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
کافی عرصہ پہلے میں نے یہ مضمون تصویری شکل میں ارسال
کیاتھا اور اب اسے تحریری صورت میں ارسال کر رہا ہوں ،
اور اس کے ساتھ ذی الحج سے متعلقہ دیگر مضامین جو کہ پہلے ارسال کیے تھے ، اُن کے روابط بھی لکھ رہا ہوں ،
سب قارئین سے دعا کی درخواست ہے ، و السلام علیکم۔
اور اس کے ساتھ ذی الحج سے متعلقہ دیگر مضامین جو کہ پہلے ارسال کیے تھے ، اُن کے روابط بھی لکھ رہا ہوں ،
سب قارئین سے دعا کی درخواست ہے ، و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: ماہ ذی الحج اور ہم :::
بِسمِ
اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا
رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن
تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے
نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول
تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ،
اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ
کی پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی
اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے
اُس پر ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
::: پہلے دِس دِن ،اِن دنوں کی فضیلت ،بعض أہم مسائل اور اِن دِنوں میں کی جانے والی غلطیاں :::
ذی الج کے پہلے دس دِن بہت فضلیت والے ہیں ، لیکن ہماری بگڑی ہوئی عادات کا
شِکار ہو کر ہمارے درمیان اپنی اَصلی حالت کھو چکے ہیں اور دیگر دینی معاملات اور عِبادات کی طرح اِن دِنوں کا
حال بھی بے حال کیا جا
چُکا ہے ،
یہ دس دِن حج کرنے والے اور نہ کرنے والے سب ہی
مُسلمانوں کے لیے بہت فضلیت والے ہیں اور سب کے لیے اُن کے اکیلے ، لاشریک خالق و
مالک اللہ تبارک و تعالیٰ نے حُکم فرمایا
ہے﴿وِ
یَذکُرُوا اسَّمَ اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعلُومَاتٍ:::اور وہ اللہ کے نام کو یاد کریں معلوم شدہ دِنوں میں﴾سُورت الحج(22)/ آیت 28،
اور حُکم فرمایا﴿وِ اَذکُرُوا اسمَ
اللَّہِ فِیۤ اَیَّامٍ مَعدُُودَاتٍ:::اور گنتی
کے دِنوں میں اللہ کے نام کو یاد کرو﴾سورت البقرہ(2)/ آیت 203،
::::::
عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے معلوم شدہ دِنوں کی تفسیر میں کہا کہ""" یہ ذوالحج کے پہلے دِس دِن ہیں اور گنتی کے دِنوں
کی تفسیر میں کہا کہ یہ اَیامِ تشریق ہیں """ صحیح البُخاری /کتاب العیدین / باب فضل العمل فی اَیام التشریق
،
عبداللہ ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿مَا الْعَمَلُ فِى
أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِى هَذِهِ:::اِن دس دِنوں میں کیے جانے والوں کاموں(یعنی
نیک کاموں )سے زیادہ بہتر کام اور کوئی نہیں﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """ کیا جِہاد بھی
نہیں ؟ """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد
فرمایا﴿وَلاَ
الْجِهَادُ ، إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ
يَرْجِعْ بِشَىْءٍ:::جِہاد بھی نہیں ، سوائے اِس
کے کہ کوئی اپنا مال اور جان لے کر نکلے اور اُس میں سے
کوئی چیز بھی واپس نہ آئے﴾ یعنی ، صِرف
وہ جِہاد اِن دس دِنوں کے عمل سے
زیادہ بہتر ہے جِس میں مُجاہد کی جان اور مال دونوں ہی اللہ کی راہ میں کام آ جائیں،صحیح
البُخاری /حدیث 929 /کتاب العیدین /باب 11،
::::: اِن دس دِنوں میں ہی اِسلام کے پانچ
اَرکان میں سے ایک کو ادا کرنے کا وقت ہوتا ہے اور وہ رکن ہے حج :::::
::::: حج کی فرضیت :::::
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿ وَ لِلَّہِ عَلیٰ النَّاسِ حِجّ ُ
البَیتِ مَنِ اَستَطاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً ، وَ مَن
کَفَرَ فَاِنَّ اللَّہَ غَنِيٌ عَنِ العَلٰمِینَ ::: اور
لوگوں میں سے جِس کی قُدرت میں ہو اُس پر اللہ کے لیے ( اللہ کے ) گھر کا حج
کرنا فرض ہے ، اور جو انکار کرے گا ، تو اللہ سب جہانوں سے غنی ہے﴾سورت آل عمران(3)/ آیت 97،
اور فرمایا﴿وَ اََذِّن فی النَّاسِ
بِالحَجِ یَاَتُوکَ رِجَالاً وَ عَلیٰ کُلِّ ضَامِرٍ یاَتِینَ
مِن کُلِّ فَجٍ عَمِیقٍ لِّیَشھَدُوا مَنٰفِعَ لَھُم:::اور لوگوں میں حج کی پکار کرو ، تُمہارے پاس پیدل اور کمزور
اونٹوں پر لوگ آئیں گے اور ہر وسیع ( کھلے چوڑے )
راستے سے آئیں گے ، تا کہ اپنے فائدے حاصل کریں﴾سُورت حج(22)/ آیت 27 ۔
لہذا ہر وہ مُسلمان جو حج کے لیے اللہ کے گھر تک
پُہنچنے اور حج کرنے کی
طاقت
رکھتا ہے ، یعنی مالی اور جسمانی طاقت تو اُس پر حج کرنا فرض ہو جاتا ہے ۔
::::: حج کی فضلیت :::::
::::::: ابو یُریرہ
رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿مَنْ حَجَّ هَذَا
الْبَيْتَ ، فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ ، رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ:::جِس نے(اللہ کے )اِس گھر کا حج کیا ،
اور جنسی معاملات میں ملوث ہونے ، اور گُناہ کرنے سے باز رہا تو وہ
اُس دِن کی طرح واپس آئے گا جِس دِن اُس کی ماں نے اُسے جنم دِیا تھا﴾صحیح البُخاری/حدیث /1819کتاب المحصر/باب19 /صحیح مُسلم /حدیث/3357کتاب الحج/باب79،
::::::: اور ابو ہُریرہ رضی اللہ
عنہ ُ سے ہی یہ بھی روایت ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے
پوچھا گیا کہ """ کون سا کام سب سے زیادہ اَفضل ہے؟"""،
تو اُنہوں
نے اِرشاد فرمایا ﴿إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ:::اللہ ا ور اُس کے رسول پر اِیمان﴾ ،
پھر پوچھا گیا ،""" پھر اِس کے
عِلاوہ؟"""، تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا ﴿الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ
اللَّهِ:::اللہ کی راہ میں جہاد﴾، پھر پوچھا گیا """
پھر اِس کے عِلاوہ ؟ """،
تو اُنہوں
نے اِرشاد فرمایا﴿حَجٌّ مَبْرُورٌ:::قُبُول شُدہ حج﴾مُتفقٌ علیہ،صحیح البُخاری/حدیث /26کتاب الایمان/باب18،صحیح مُسلم /حدیث/258کتاب الایمان /باب38،
::::: یومِ عرفات :::::
::::::: اِن دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن
حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں
، یہ ہی وہ قیام ہے جِس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا﴿الْحَجُّ
عَرَفَةُ:::حج عرفات (کا قیام)ہے﴾سُنن ابن ماجہ/حدیث /3129کتاب المناسک/باب57،سُنن الترمذی/حدیث898،المُستدرک الحاکم/حدیث /1703کتاب الصوم/ اول کتاب المناسک ،حدیث شریف صحیح ہے،
::::::: جِس قیام پر اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اَظہار کرتا
ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے خبر عطاء فرمائی کہ ﴿إِنَّ
اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِى الْمَلاَئِكَةَ بِأَهْلِ عَرَفَاتٍ يَقُولُ
انْظُرُوا إِلَى عِبَادِى شُعْثاً غُبْراً:::اللہ عزّ وجلّ (یومء)عرفات کی شام میں اھل عرفات کے بارے میں
اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو میرے اِن بندوں
کو کہ میرے پاس گرد و غبار سے اٹے ہوئے آئے ہیں ﴾ مُسند اَحمد /حدیث/8268 مُسند
ابی ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 950،صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث 1868،
::::::: یہی وہ دِن ہے کہ جِس دِن میں اللہ تعالیٰ دوسرے دِنوں کی نسبت سب سے
زیادہ بندوں کی مغفرت کرتا ہے﴿مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا
مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِى بِهِمُ
الْمَلاَئِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلاَءِ::: یومءعرفات کے علاوہ کوئی اور دِن
ایسا نہیں جِس میں اللہ دوسرے دِنوں کی نسبت سب سے زیادہ اپنے بندوں کی بخشش کرتا
ہے اور بے شک اللہ نیچے تشریف لاتا ہے اور اپنے اُن بندوں کے بارے میں فرشتوں کے
سامنے اظہار فخر کرتا ہے اور کہتا ہے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟﴾صحیح مُسلم/حدیث/3354کتاب الحج /باب79،
::::: جومُسلمان اِس قیام میں شامل نہیں ہوتے لیکن اِس
دِن کا روزہ رکھتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اُن لوگوں کو
اِس دِن کا روزہ رکھنے کی صُورت میں ایک
سال پچھلے اور ایک سال اگلے کے گُناہ معاف ہونے کی خوش خبری دِی ﴿صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ
السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهُ:::عرفات کے دِن کے روزے کےبارے میں مجھے اللہ سے یقین ہے کہ اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک
گذرے ہوئے سال اور ایک یومء عرفات کے بعد والے سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے﴾صحیح مُسلم/حدیث/2803کتاب الصیام/باب36،
:::::: عید ا لاَضحی :::::::
::::: اِن دس دِنوں کا دسواں دِن حج کرنے اور حج نہ کرنے
والوں کے لیے اللہ کی راہ میں جانور قُربان کرنے کا دِن ہے
::::: اور حج کرنے والوں کے لیے اپنے اَحرام سے حلال ہو
جانے کا دِن ہے،
::::: اور سب مُسلمانوں کے لیے عید
کا دن ہے ، سُنن ابو داؤد ،سُنن النسائی ، سُنن
الترمذی ۔
::::::: پہلے دس دِنوں میں کی جانے والی غلطیاں
::::::
::::: حاجی اور غیر حاجی اِن دس دِنوں میں اپنے اپنے
فرائض ادا کرنے میں نہ صِرف کوتاہی
کرتے ہیں بلکہ بہت سی غلطیاں کرتے ہیں جو غلطیاں عام طورنظر آتی ہیں وہ مندرجہ ذیل
ہیں :::
:::(1) ::: لوگ عام
طور پر اِن دس دِنوں کو دوسرے عام دِنوں کی طرح گُذار دیتے ہیں اور اِن میں نیک کاموں کی کثرت کرنا تو درکنار کوئی بھی نیک
کام عام معمولات سے زیادہ نہیں کرتے ،
::: (2) ::: تسبیح ( سُبحان اللَّہ)،تکبیر (اللَّہُ
اَکبَر)،
تہلیل (لا اِلہَ اِلَّا اللَّہ)، اور تحمید (الحَمدُ
للَّہ)
نہیں کی جاتی یا بہت ہی کم کی جاتی
ہے، اور زیادہ تر اُسے فرض نمازوں کے بعد تک ہی محدود رکھا جاتا ہے ، جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اِن دس دِنوں میں
گلیوں بازاروں میں اللہ کی تکبیریں بُلند کیا کرتے تھے اوردُوسرے لوگ بھی اُن کی
تکبیر سُن کر تکبیر بُلند کیا کرتے تھے ،
جیسا کہ عبداللہ ابنِ عُمر اور اَبو ہُریرہ (رضی
اللہ عنھُما) کے بارے میں ایسا کرنے کا ثبوت میسر ہے ۔ صحیح البُخاری /کتاب
العیدین /باب فضل العمل فی اَیام
التشریق ۔
(الحمد للہ ، اِس کی تفصیل بھی رمضان کے آخر میں
عید والے مضامین بیان کی جاچکی ہے)،
::: (3) ::: تسبیح ، تکبیر
، تہلیل اور تحمید کو با جماعت کیا جانا ،
::: (4) ::: مَردوں کے ساتھ
ساتھ عورتوں کا بھی با جماعت ا ور بُلند آواز کے ساتھ اِس تسبیح ، تکبیر ، تہلیل اور تحمید میں شامل ہونا ،
::: (5) ::: تسبیح ، تکبیر
اور تہلیل اور تحمید کے ساتھ موسیقی کو شامل کرنا یا رقص کرنا یا کسی اور انداز میں بد مستی کے مظاہرے کرنا ، جِسے کچھ خاص لوگوں کی ز ُبان
(اصطلاحات )میں حالتِ جذب یا حالتِ وجد وغیرہ کہا جاتا ہے ۔
اور اِس کی
تعریف کے طور پر وہ لوگ جو کُچھ کہتے ہیں سوائے کُفر کے اور کُچھ نہیں ، اگر بات
لمبی ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو اِس کی تشریح ضرور کرتا ، فی الحال اِتنا ہی کہتا ہوں
کہ حالتِ جذب میں وہ لوگ شیطان میں جذب ہوتے ہیں یا شیطان اُن میں ، اور اِسی طرح وجد ان میں
بھی یہ ایک دوسرے کے لیے مُیسر ہوتے
ہیں ۔
::: (6) ::: تسبیح ، تکبیر
اور تہلیل اور تحمید کو خلافِ ء سُنّت اپنے الفاظ میں ، اپنی گنتی میں ، اپنے
انداز میں ادا کرنا ،
::: (7) ::: تسبیح ، تکبیر
اور تہلیل اور تحمید کو عام جگہوں پر با آوازِ بُلند نہ کہنا ،
::: (8) ::: تسبیح ، تکبیر اور تہلیل اور تحمید کو، دھاگے میں
دانے ، موتی یا ایسی قِسم کی کوئی چیز پرو کر بنائی گئی تسبیح ، یا کسی اور رقِسم
کی گنتی کرنے والے آلے پر ، یا پتھروں اورگُٹھلیوں وغیرہ پر گِن کر کرنا ،
اِس کام کا
سُنّت مبارکہ میں کوئی ثبوت نہیں ،
بلکہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
اپنی تسبیحات اور ذِکر کی گنتی اپنے
سیدھےہاتھ مُبارک کی پہلی پوروں پر فرمایاکرتے
تھے ،
::: (9) ::: سارے کے سارے دس دِنوں کا روزہ رکھنا ، یہ کام بھی
خِلافِ ءسُنّت ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کبھی اِن دس
دنوں کے روزے نہیں رکھے سوائے 9 ذی الحج یعنی قیامِ
عرفات کے دِن کے ، جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ﴿مَا رَأَيْتُ رَسُولَ
اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- صَائِمًا فِى الْعَشْرِ قَطُّ:::میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ذی الحج کے اِن پہلے )دس دِنوں کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا﴾صحیح مُسلم/حدیث/2846کتاب الاعتکاف/باب4
صَوْمِ
عَشْرِ ذِى الْحِجَّةِ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بعض بیگمات کی طرف سے روایت ہے کہ﴿كَانَ رَسُولُ اللَّهِ
-صلى الله عليه وسلم- يَصُومُ تِسْعَ ذِى الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ
وَثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ
وَالْخَمِيسَ:::رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ٩ ذی الحج ، دس محرم اور ہر مہینے کے تین دِن(یعنی اَیامِ ء بیض )اور
ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے﴾سنن اَبو داؤد/ حدیث حدیث/2439کتاب الصوم/باب62،إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
::: دو انتہائی أہم اور قابل غور مسائل ::: ہر مہینے کے پہلے سوموار اور
جمعرات کا یہ مطلب نہیں کہ مہینے کے باقی سوموار اور جمعرات کا روزہ نہیں رکھا جائے گا ، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہرسوموار(پِیر کےکا دِن) اور جمعرات کا روزہ رکھا
کرتے تھے جیسا کہ دیگر صحیح اَحادیث میں آیا ہے ،
اور اِسی طرح یہ بھی کہ اگر یوم عرفات یا کوئی اور
فضیلت والا نفلی روزہ ہفتے کے دِن میں آن پڑے تو اُس دِن وہ روزنہیں رکھا جائے گا
، کیونکہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و
علی آلہ وسلم نے بڑی سختی کے ساتھ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنا ممنوع فرمایا ہے ،
اِس موضوع اور مسئلے پر میری ایک الگ کتاب"""ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا
حکم """تقریباً تیار ہے ، و للہ الحمد ۔
::: (10) :: اَیامِ تشریق ،
یعنی گیارہ ، بارہ ، تیرہ ذی الحج کے روزے رکھنا ۔
::: (11) :: جِس شخص نے
قُربانی کرنے کا اِرادہ کیا ہو ، قُربانی کرنے سے پہلے اُس شخص کا بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنا یا
اُکھیڑنا یا ناخن کاٹنا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے،
اُم سلمہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿إِذَا
دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلاَ يَمَسَّ مِنْ
شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا:::جب دس دِن (یعنی
ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور تُم
میں سے کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو
وہ اپنے بالوں اور جِسم میں سے کِسی چیز کو مت چھوئے﴾صحیح مُسلم/حدیث/5232کتاب الاضاحی/باب7 ،
بالوں اور جِسم کو مت چھوئے کا کیا مطلب
ہے ؟؟؟
اِسی حدیث شریف کی دوسری دو روایات جو اِس
مذکورہ بالا حدیث شریف کے بعد ہی اِمام
مُسلم نے ذِکر فرمائی ہیں ،اِن دو روایات میں ا ِس حُکم کی
تفصیل ملتی ہے ،
یہ بھی اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ایک
روایت کے الفاظ ہیں :::
﴿إِذَا
دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّىَ فَلاَ
يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلاَ يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا:::جب دس دِن(یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور کِسی
کے پاس قُربانی کے لیے جانور ہو اور وہ اُسے قُربان کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ
ہر گِز اپنے بالوں میں سے بالکل کُچھ نہ
لے (یعنی کوئی بال نہ کاٹے )اور ہر گِز اپنے
ناخُن نہ کاٹے﴾صحیح مُسلم/حدیث/5233کتاب الاضاحی/باب7
،
اور دوسری کے﴿إِذَا رَأَيْتُمْ هِلاَلَ
ذِى الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّىَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ
وَأَظْفَارِهِ:::جب تُم لوگ ذی الحج کا چاند دیکھ لو اور تُم میں سے کوئی
قُربانی کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخُنوں سے باز رہے﴾صحیح مُسلم/حدیث/5234کتاب الاضاحی/باب7
،
اِن تمام اَحکام کی
موجودگی میں قُربانی کرنے والے کِسی بھی شخص کے لیے اِس بات کی کوئی
گُنجائش نہیں رہتی کہ وہ قُربانی کرنے سے پہلے بغیر ضرورت کے اپنے
جِسم سے کوئی بال لے یا ناخُن کاٹے ، ہاں کِسی ضرورت کی صُورت میں ایسا
کیا جا سکتا ہے ، ایسا کیا جانے کا جواز کیا ہے ، یا کِس بُنیاد پر یہ
کہا جا رہا ہے ، اِس کی تفصیل آگے آنے والے صفحات میں """ دِین آسانی ہے """ کے زیرِ عنوان ملاحظہ فرمایے،
::: (12) ::: اگر حاجی اور حالتءِ احرام والے کے عِلاوہ ، صِرف
قُربانی کرنے والاکوئی
شخص بوجہ ضرورت یا بھول یا غلطی سے اپنے جِسم کا کوئی بال لے یا ناخن کاٹ لے تو اُس پر فدیہ یا جُرمانہ ہونے کا فتویٰ
دینا بھی غلط ہے ، کیونکہ اِیسے
فتوے
کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ اللہ کی کتاب میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی
سُنّت میں ،
::: (13) ::: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص حج کے مہینے کے
دوسرے تیسرے یاپہلے دس دِنوں میں سے
کِسی بھی دِن قُربانی کا اِرادہ کرتا ہے ، اور اِس ارادے سے پہلے وہ اپنے بال یا ناخن کاٹ چُکا ہوتا ہے ، تو اُسے یہ کہا یا
سمجھایا جاتا ہے کہ اب
تُم قُربانی نہیں کر سکتے کیونکہ تُم نے چاند نکلنے کے بعد بال یا ناخن کاٹ لیے ہیں لہذا اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے ،یہ بات بھی اُوپر درج
کئی گئی اَحادیث شریفہ کے خِلافِ ہے ، کیونکہ قُربانی کا ارادہ کرنے
والا شخص اِس حُکم کا پابند قُربانی کرنے کے ارادے کے بعد ہو گا پہلے نہیں،
::: (14) ::: کُچھ لوگ اپنی قُربانی کرنے کے لیے کِسی کو وکیل بنا دیتے ہیں یا وصیت کر
دیتے ہیں، اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ اب بال یا ناخن نہ کاٹنے کے خُکم کی پابندی وہ کرے گا ہم نہیں ، اور
بڑے آرام سے بال ناخن اور داڑھی وغیرہ کاٹتے یا تراشتے ہیں ،
ایسا کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ بال یا ناخن وغیرہ
نہ کاٹنے کا حُکم اُس کے لیے
ہے جو قُربانی کر رہا ہے، یا جِس کی طرف سے قُربانی کی جارہی ہے ، نہ کہ اُس کے لیے
جو اُس کا نائب یا
وکیل بن کر اُس کی طرف سے جانور ذبح کرے گا ، یا کر رہا ہو ، یا اُس کا گوشت وغیرہ تقسیم کر ے گا یا کر رہا
ہو ،
ایسا کرنا کُچھ اُسی قِسم کا حیلہ ہے ، جیسا کہ بنی
اِسرائیل مچھلیاں پکڑنے کے لیے کیا کرتے تھے ،
گویا کہ معاذ اللہ ، معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ کو
دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےاِرشاد فرمایا ہے
﴿ یُخٰدِعُونَ اللَّہَ وَالَّذِینَ ءَ ا
مَنُوا وَ مَا یَخدَعُونَ اَلَّا اََنفُسَھُم وَ
مَا یَشعُرُونَ :::(یہ لوگ اپنی طرف سے ) اللہ
کو اور جو ایمان لائے ہیں اُنہیں دہوکہ دے رہے
مگر(اصل میں )یہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ، لیکن جانتے نہیں﴾سورت بقرہ(2)/ آیت 9،
::: (15) :::کِسی خاندان کا بڑا جب قُربانی کا ارادہ کرے تو
باقی گھر والوں کو بال
یا ناخن کاٹنے یا تراشنے سے روک دینا ، یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ لوگ بھی قُربانی کے کاموں میں شامل ہوں گے لہذا یہ بھی اپنے
بال اور ناخن نہیں
کاٹیں گے ۔ یہ بھی ایسا فتویٰ ہے جِس کے لیے دین میں کوئی دلیل نہیں ،
::: (16) ::: قُربانی کے جانور کو کِسی ایک میت کے ایصالِ ثواب
کے لیے خاص کرنا ،
::: (17) ::: قُربانی
کرتے ہوئے جانور کی پیٹھ پر یا جِسم کے کِسی حصے پر ہاتھ رکھ کر یا اِس کے بغیر ہی کہنا کہ یہ قُربانی فُلان کے نام
کی ہے اے اللہ اِس کا ثواب فُلان کو پہنچا دے ، اور بسا اَوقات
تو چھری چلانے والا صِرف اِس
بات کا ہی اعلان کرتا ہے اور جانور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی بجائے غیر اللہ کے نام پر کاٹ دِیا جاتا ہے ، اگر بھول
سے ایسا ہو تو اِن شاءَ
اللہ کوئی حرج نہیں ،لیکن یہ بات آ سانی سے
مانی جانی والی نہیں کہ ذبح سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی نیت کا اَعلان
کرنا یا کروانا تو یاد رہتا ہے مگر اللہ کا نام لینا یاد نہیں رہتا،
ثواب اور اَجر
پُہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ، اور وہ کِسی کے حُکم یا ارادے کا
پابند نہیں ، سُبحانہُ و تعالیٰ ، اِس موضوع پر میری ایک کتاب بعنوان """ ایصال ءِ ثواب
اور اُس کی حقیقت """ شائع
ہو چکی ہے ، وللہ الحمد و ماتوفیقی اِلا
باللہ۔
::: (18) ::: حرام مال میں سے قُربانی کرنا ، اللہ تعالیٰ حرام
مال سے دی گئی چیز کو قبول نہیں
کرتا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے﴿أَيُّهَا
النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لاَ يَقْبَلُ إِلاَّ طَيِّبًا:::اے لوگو، بے شک اللہ پاک ہے اور پاکیزہ کے علاوہ قبول نہیں
کرتا﴾صحیح مُسلم/حدیث/2393کتاب الزکاۃ /باب20
،
::: (19) ::: قُربانی
کرنے کی مالی اَستطاعت
ہونے کے باوجود بھی قُربانی نہ کرنا،
::: (20) ::: پیسے
بچانے کی خاطر یا نام کرنے کے لیے کہ فُلان نے بھی قُربانی کی ہے جیسا تیسا جانور بھی ملے ، لے کر قُربان کر دینا ،
::: (21) ::: سارا گوشت بانٹ دینا ، یا سارا ہی اپنے لیے رکھ
لینا ، یا صِرف اپنے خاص
لوگوں میں بانٹنا جِنہوں نے خود بھی قُربانی کی ہوتی ہے اور غریبوں کا خیال نہ
رکھنا ،
::: (22) ::: جانور
قُربان کرنے کی بجائے اُس کی قیمت ادا کرنا ،
::: (23) ::: عید کی
نماز سے پہلے قُربانی کرنا ،
::: (24) ::: بغیر کِسی شرعی عُذر کے اپنا جانور کِسی اور سے
ذبح کروانا ،
::: (25) ::: عید کی
نماز پڑہنے سے پہلے کھانا پینا ،
::: (26) ::: بغیر کِسی
عُذر کے عید کی نماز عید گاہ میں پڑہنے کی بجائے کِسی مسجد میں پڑہنا ،
::: (27) ::: عید ملتے
ہوئے جو الفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم ادا کیا کرتے تھے اُن کو بُھول کر ایسے الفاظ ادا کرنا جِن کو ادا کرنے کا نہ
سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم میں کوئی ثبوت ہے اور صحابہ کی سُنّت میں نہ اَئمہ کے اَقوال و اَفعال میں ،
::: (28) ::: اِس دِن کو یا اِن دِنوں میں کِسی اور دِن کو (یا
اِن کے علاوہ ساک کے کِسی بھی دِن کو )قبرستان یا کِسی خاص قبر کی زیارت کے خاص
کرنا،
::: (29) ::: عید ملنے کے نام پر
حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ، محرم نا محرم کا فرق مٹا کر ،
شرم و حیا کو رُخصت کر کے ، غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کر، عید ملن اَجتماع کرنا ،
ایسی ملن پارٹیاں جِن میں سب بھائی ، بہنیں ،دیور ، بھابھیاں ، انکل ، آنٹیاں اور
کزنز موجود ہوتے ہیں اور کِسی شرعی حد کا خیال اور
لحاظ کیے بغیر ہوتے ہیں ، اور کہتے ہیں ''' پردہ تو نظروں کا
ہوتا ہے ''' گویا اِن کی نظریں پاک ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم
نازل ہوا تھا اُن کی نظریں پاک نہ تھیں ، کُچھ اپنے تئیں اِن سے بھی زیادہ
مضبوط دلیل رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں کہ ''' دِل صاف
ہونے چا ہِیں ''' گویا اِن کے دِل تو صاف ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ
کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کے دِل صاف نہ تھے ، اِنِّا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ
راجِعُونَ ، و اللَّہُ المُستعَانُ ۔
محترم قارئین، مندرجہ بالا غلطیاں بہت میں سے چند
ہیں صرف اِن کا ذِکر اِس لیے کیا گیا ہے
یہ بہت عام نظر آتی ہیں ، اِن کو سمجھ کر اِن کی اصلاح کیجیے اگر کِسی کو اِن باتوں کے بارے میں کوئی مزید وضاحت درکار
ہو تو بِلا تردد طلب
فرمائیے ،اگر اللہ تعالیٰ مجھے آپ کے لیے خیر کے کسی بھی معاملے میں راہنمائی کا سبب بنا لے تو یہ میری خوش بختی ہو
گی ، اور ہم سب کے لیے ہی اللہ کی نعمتوں
میں سے ایک اور نعمت ہو گی ، اور ہم سب کو
بہت کُچھ سیکھنے کا موقع ملے گا ،اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ ہمارے اعمال قبول فرمائے اور ہمارے
گُناہ معاف فرمائے اور ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے ۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔
طلباگارء دُعاء ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 10/09/1421 ہجری ، بمطابق، 30/11/2000عیسوئی
،
تاریخ تجدید و تحدیث :01/12/1436ہجری،بمُطابق،15/09/2015عیسوئی۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذی الحج سے متعلقہ مضامین ، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا مطالعہ بھی مفید ہو گا ،
::: قربانی سے متعلقہ اہم مسائل :::
::::: قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::
::: دونوں عیدوں کے دن اور نمازوں سے متعلقہ مسائل :::
:::::: عید اور نعمتوں پر شکر :::::
::::::: عید کی مبارکباد اور دُعا :::::::
یہاں ذِکر کے گئے مسائل کا صوتی بیان دو مختلف عناوین ’’’ ذی الحج کے دس
دن‘‘‘ اور ’’’ قربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند أہم مسائل ‘‘‘ میں
موجود ہے، اُن کی (آڈیو فائلز) درج ذیل
ربط پر مسیر ہیں:
https://bit.ly/2D1L69G ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذی الحج سے متعلقہ مضامین ، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کا مطالعہ بھی مفید ہو گا ،
::: قربانی سے متعلقہ اہم مسائل :::
::::: قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::
::: دو سال کے گناہ معاف کروایے ::: یوم ء عرفات نو ذی الحج کا روزہ :::
عید سے متعلقہ مضامین::: دونوں عیدوں کے دن اور نمازوں سے متعلقہ مسائل :::
:::::: عید اور نعمتوں پر شکر :::::
::::::: عید کی مبارکباد اور دُعا :::::::
::::::: عید
اگر اس طرح منائی جائے تو کیا حرج ہے ؟ :::::::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب ’’’ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ‘‘‘ سے ماخوذ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب ’’’ عُمرہ اور حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ‘‘‘ سے ماخوذ۔
جزاک اللہ . . .. اللہ آپ کا بھلا کرے
ReplyDeleteالسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر سے نوازے ۔
ReplyDeleteجزاكم الله خيرا
ReplyDelete