قران کریم میں بیان کردہ قواعد
(اصول ، قوانین) ،،،،، قاعدہ رقم 2
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما
بَعد :::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿ وَقُولُوا
لِلنَّاسِ حُسنًا::: اور تُم لوگ ،لوگوں کے
ساتھ عُمدہ(بہترین دل پذیر)انداز میں بات کرو ﴾ سُورت البقرہ (2)
/آیت 83،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مذکورہ بالا فرمان شریف ہمارے موضوع "قران میں بیان کردہ قواعد(اصول ، قوانین)"میں دوسرے قانون کے
طور پر بیان کیا جارہا ہے ،
یہ فرمان مبارک لوگوں سے تعلقات اور معاملات سدھارنے کے
بارے میں ایک أہم قانون ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں یہ قانون
ایک سے زیادہ مُقامات پر ذِکر فرمایا ہے ،
کہیں صراحت کے ساتھ اور کہیں کسی اشارتاً یا کسی اور حکم کے ضمن میں اس قانون کو
ذِکر فرمایا گیا ہے ،جن مُقامات پر صاف
صراحت کے ساتھ ذِکر فرمایا گیا ہے اُن میں سے ایک تو آغاز میں ذِکر کردہ سورت
البقرہ کی آیت کریمہ ہے اور دوسرا مُقام
درج ذیل ہے:::
﴿ وَقُل
لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحسَنُ إِنَّ الشَّيطَانَ يَنزَغُ بَينَهُم
إِنَّ الشَّيطَانَ كَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا ::: (اے محمد ) میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ
وہ بات کریں جو عُمدہ(بہترین دل پذیر)ہو ، بے شک شیطان تُم لوگوں کے درمیان فساد
کروانے والا ہے ، بے شک شیطان انسان کا کھلا دُشمن ہے ﴾سُورت الاِسراء (17) /آیت 53،
اس دوسرے مُقام میں اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الفوائد قانون
کو ترک کرنے کا انجام بھی بتا دِیا ہے ، اس کے بارے میں اِن شاء اللہ آگے کچھ بات
کی جائے گی ،
اگر ہم پہلی دو آیات مبارکہ میں تدبر کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سورت بقرہ جو کہ
مدنی سورت ہے ، کی آیت میں دِیا گیا حکم یہود کو دیے گئے احکامات کے سیاق و سباق
میں بیان ہوا ہے ، لیکن قران پاک میں اللہ
تبارک و تعالیٰ کے کلام فرمانے کے اسلوب کے مطابق اور قران کی تفسیر قران کے اصول
کے مطابق یہ واضح ہے کہ یہ حُکم یہود کے لیے خاص نہیں ، بلکہ ہمیں بھی یہی حکم ہے
،
جیسا کہ ہماری
ذِکر کردہ دوسری آیت شریفہ مکی سُورت الاِسراء
(بنی اِسرائیل )کی ہے ، جِس میں یہی حُکم دِیا گیا ہے اور کسی قوم یا اُمت کے خاص
ذِکر کے سیاق و سباق میں نہیں ، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے سارے ہی بندوں
کو یہ حُکم دِیا ہے ، لہذا ہماری ذِکر کردہ سورت بقرہ کی آیت 83 کے سیاق و سباق کی
وجہ سے کسی قاری کو یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ یہ عُمدہ ،اچھے ، دل پذیر ،
نرم انداز میں بات کرنے کا حکم صرف بنی اِسرائیل کے لیے خاص تھا ،
پس اس حُکم کے مطابق تمام ہی انسانوں کے ساتھ عُمدہ ،
بہترین ، دِل پذیر، نرم انداز میں بات کرنا مقرر فرمایا گیا ،بالخصوص جب بات اِسلام
کے بارے میں ہو ، اِسلام کی دعوت دینے کے لیے ہو ، اِیمان اور کُفر، توحید و شرک
کے فرق بیان کرنے کے لیے ہو ،
﴿ ادعُ
إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ وَجَادِلهُم بِالَّتِي
هِيَ أَحسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ
أَعلَمُ بِالمُهتَدِينَ::: (اے
محمد)اپنے رب کی راہ کی طرف حِکمت اور عُمدہ (بہترین دِل پذیر )نصحیت کےذریعے دعوت
دیجیے ، اور لوگوں سے اُس انداز میں بحث کیجیے جو عُمدہ (بہترین دِل پذیر )ہو ، بے
شک آپ کا رب جانتا ہے کہ کون اللہ کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں
کو بھی جانتا ہے ﴾سورت النحل (16)
/آیت 125،
اِس عُمدہ انداز میں بات کرنے کے حکم میں سے استثناء
صرف اھل کتاب ، اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دیگر اہل کُفر اور اہل شرک میں سے ان لوگوں کے لیے ہے جو کسی بھی لحاظ سے ظلم کرنے
والوں میں شمار ہوتے ہیں ،
اور فتنہ و فساد پھیلانے والے ظالموں کے لیے ہے
، اور ان سب ہی میں سے جو لوگ مسلمانوں کے
ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ کر رہے ہوں ، کہ ان سے جنگ ہی کی جائے گی ،
﴿ وَلَا
تُجَادِلُوا أَهلَ الكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنهُم
وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَينَا وَأُنزِلَ إِلَيكُم وَإِلَهُنَا
وَإِلَهُكُم وَاحِدٌ وَنَحنُ لَهُ مُسلِمُونَ:::اور اھل کتاب (یہود و نصاریٰ )میں سے جنہوں نے ظلم کیا اُن کے علاوہ دوسروں
کے ساتھ سوائے عُمدہ(بہترین دل پذیر) انداز میں بات کرنے کے بحث مت کرو ، اور تُم
لوگ یہ کہو کہ ہم اُس پر اِیمان لائے جو ہماری طرف اُتارا گیا اور (اُس پر بھی )
جو تُمہاری طرف اُتارا گیا ،اور ہمارا اور تُمہارا(حقیقی اور سچا )معبود ایک ہی ہے
، اور ہم اُس کے لیے ہی تابع فرمان ہیں (جب کہ تُم لوگوں نے ایسا نہیں کیا)
﴾سُورت العنکبوت (29) /آیت 46،
منتوں ،سماجتوں
اور مذاکرات کے کشکول لے کر اُن سے أمن اور تحفظ کی بھیک نہیں مانگی جائے گی ،
بلکہ﴿ وَقَاتِلُوا
فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُم وَلَا تَعتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا
يُحِبُّ المُعتَدِينَ O وَاقتُلُوهُم
حَيثُ ثَقِفتُمُوهُم وَأَخرِجُوهُم مِّن حَيثُ أَخرَجُوكُم وَالفِتنَةُ أَشَدُّ
مِنَ القَتلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُم عِندَ المَسجِدِ الحَرَامِ حَتَّىٰ
يُقَاتِلُوكُم فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُم فَاقتُلُوهُم كَذَلِكَ جَزَاءُ
الكَافِرِينَ O فَإِنِ
انتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ O وَقَاتِلُوهُم
حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انتَهَوا فَلَا عُدوَانَ إِلَّا عَلَى
الظَّالِمِينَ O الشَّهرُ
الحَرَامُ بِالشَّهرِ الحَرَامِ وَالحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعتَدَى عَلَيكُم
فَاعتَدُوا عَلَيهِ بِمِثلِ مَا اعتَدَى عَلَيكُم وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعلَمُوا
أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقِينَ ::: اور جو لوگ تُم لوگوں کے ساتھ لڑتے ہیں تُم
لوگ بھی اللہ کی راہ میں اُن کے ساتھ لڑو
کرو، اور زیادتی مت کرو ، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا O اور وہ کافر تُم لوگوں کو جہاں کہیں
بھی ملیں اُنہیں مارو ،اور جہاں کہیں سے انہوں نے تم لوگوں کو نکالا وہاں سے تُم لوگ بھی انہیں نکال دو ، اور
فساد بازی قتل سے زیادہ بُری ہے،اور ان سے
مسجد محترم کے پاس لڑائی مت کرو
یہاں تک کہ مسجد محترم میں تُم لوگوں سے لڑائی کریں ،پس اگر وہ (مسجد محترم )میں
تُم لوگوں سے لڑائی کریں تو تُم لوگ بھی اُن سے لڑائی کرو، یہی جزاء ہے کفر کرنے
والوں کے O پس اگر وہ لوگ باز آجائیں تو بے شک اللہ بخشش کرنے
والا رحم کرنے والا ہے
O
اور تُم لوگ اُن لوگوں کے ساتھ اس وقت تک لڑائی کرتے رہو جب تک (اُنکا )فتنہ ختم
نہ ہو جائے اور دِین اللہ کے (قائم و نافذ)ہو جائے ، پس اگر وہ لوگ باز آجائیں تو
پھر سوائے ظالموں کے کسی پر سختی نہیں کی
جائے ۔۔حرمت والے محترم مہینے کا بدلہ (ویسا ہی) حرمت والا محترم مہینہ ہی ہے ، اور
محترم چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں ، لہذا جو کوئی تُم لوگوں کو تکلیف پہنچائے تو
تُم لوگ بھی اُسے اُسی طرح اور قدر تکلیف پہنچاؤ جس طرح اور جتنی تکلیف اُس نے تُم لوگوں کو پہنچائی ، اور
اللہ (کے غصے اور عذاب)سے بچو اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے﴾سورت البقرہ (2)/آیات
190 تا 194،
اِس
قتال فی سبیل اللہ کے احکام کا سلسلہ آیت رقم 194 تک ہے ، قران کریم میں اِس کا مطالعہ کیا جائے تو بہت وضاحت سے یہ
پتہ چل جاتا ہے کہ جو کفار ومشرکین مسلمانوں سے لڑتے ہوں ان سے لڑا جائے گا یہاں
تک کہ اُن کے فتنے کا خاتمہ ہو جائے ، یا وہ لوگ لڑائی بند کردیں ، اور اللہ کے
دِین کا نفاذ ہو جائے ،
﴿ فَمَنِ
اعتَدَى عَلَيكُم فَاعتَدُوا عَلَيهِ بِمِثلِ مَا اعتَدَى عَلَيكُم وَاتَّقُوا
اللَّهَ وَاعلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ المُتَّقِينَ :::لہذا جو کوئی تُم لوگوں کو تکلیف پہنچائے تو تُم لوگ بھی
اُسے اُسی طرح اور قدر تکلیف پہنچاؤ جس طرح اور
جتنی تکلیف اُس نے تُم لوگوں کو پہنچائی ، اور اللہ (کے غصے اور عذاب)سے
بچو اور جان رکھو کہ بے شک اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے ﴾سورت البقرہ (2)/آیت
194،
آغاز میں ذِکر
کردہ سورت بقرہ کی آیت 83
کی ایک قرأت جو کہ حمزہ اور کسائی رحمہما
سے منقول ہے ، اس قرأت میں ﴿ حُسنًا ﴾ کو ﴿ حَسنًا ﴾ پڑھا گیا ہے ، دونوں کا مفہوم ایک ہی
بنتا ہے ، لیکن﴿ حَسنًا ﴾ میں معاملہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے ، عُلماء
کا کہنا ہے کہ """ حَسن بات وہ ہوتی ہے جو اُس میں موجود الفاظ، کرنے کے انداز ، معنی اور مفہوم ہر لحاظ
سے بہترین ہو ، نرم گوئی پر مشتمل ہو ، تُرش کلامی اور فحش گوئی والی نہ ہو ، اور
خیر والی ہو ، خیر کی طرف بلانے والی ہو ، کہ ہر حِسن بات خیر والی ہوتی ہے اور ہر
خیر والی بات حَسن ہوتی ہے """ (تفیسر العثیمین)،
آج ہم اس قانون
کے نفاذ کے پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت مند ہیں ، کیونکہ اپنے مقامی معاشرے کے علاوہ
اب ہمارے ہمارے معاملات اور ہماری بات چیت بین الاقوامی طور پر براہ راست یا
بلواسطہ مختلف رنگوں ، نسلوں ، قوموں اور ملکوں کے لوگوں سے پہلے سے کہیں
زیادہ ہے ، اُن لوگوں میں نیک و بد، کافر
ومسلمان ، موحد ومشرک ،مَرد و عورت ،چھوٹے
، جوان ، بوڑھے غرضیکہ ہر قِسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں،
اپنے مقامی
معاشرے میں کچھ ہمارے خاص قریبی رشتہ دار
ہوتے ہیں ، کچھ غریب ، کمزور محتاج لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں خاص طور پر
حکم دیا گیا ہے کہ ہم اُن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نرم بات کریں اور کسی قِسم کی
سخت کلامی نہ کریں ، یہ احکام ضمنا اور اشارتاً """عُمدہ بات
""" کرنے کے حکم میں ہی آتے ہیں ،
اشارتاً اور
ضمنا اِس قانون کا ذِکر درج ذیل آیات مبارکہ میں فرمایا گیا :::
::::::: (1)
::::::: اللہ سُبحانہ و تعالیٰ کے مقرر
کردہ اس قانون کی عملی تطبیق کے لیے ایک حکم والدین کے ساتھ بات چیت کے انداز کے بارے میں فرمایا گیا :::
جیسا کہ والدین
سے بات چیت کرنے کے بارے میں اللہ پاک نے حکم فرمایا ﴿فَلَا
تَقُل لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنهَرهُمَا وَقُل لَهُمَا قَولًا كَرِيمًا ::: پس تُم (اپنے )والدین کو اُف تک بھی نہ کہو اور نہ انہیں
ڈانٹو اور اُن سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرو﴾ سُورت الاِسراء (17)/آیت
23،
ڈانٹ ڈپٹ والی
بات نہ کرنے کا حکم اور ادب و احترام والی بات کرنے کا حکم ، اچھی ، عُمدہ ، نرم ،
دل پذیر بات کرنے کے حکم کا مفہوم ہی رکھتا ہے ،
:::::: (2)
::::::: اسی طرح معاشرتی زندگی میں اللہ سُبحانہُ و تعالٰی کے اس حکم کے نفاذ کے
لیے ایک اور ایسے کام کا بالخصوص ذکر فرمایا گیا جس میں بات کرتے ہوئے اکثر لوگ
ترش کلام ہو جاتے تھے ، اور ہو جاتے ہیں ،
لہذامدد کا سوال
کرنے والےغریب ،کمزور اور محتاج لوگوں سے بھی سخت کلامی سے منع فرمایا گیا ہے
فرمایا ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنهَر :::اور کسی سوال کرنے والے کو ڈانٹنا نہیں﴾ سُورت الضُحیٰ (93)/آیت
10،
"""کچھ
عُلماء اس آیت مبارکہ کا حُکم ہر قسم کے سوال کرنے والے شخص کے بارے میں قرار دیتے
ہیں ، خواہ وہ مال کا سوال کرنے والا ہو ، یا عِلم کا (یا کسی اور معاملے میں کسی
مددگاری کا طالب ہو)"""،
علامہ الآلوسی
رحمہُ اللہ نے اس آیت کی تفیسر میں لکھا """اِس حکم کا مطلب ہے کہ
، سوال کرنے والے کو ڈانٹو نہیں ، بلکہ یا تو اُسے کوئی چیز دے دو ، یا اچھی خوبصورت بات کے ذریعے اسے جواب
دے دو"""،(روح المعانی)
::::::: (3)
::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کے مقرر کردہ
اس قانون کی عملی تطبیق کے لیے ایک قاعدہ ، قانون معاشرتی معاملات میں ، اور خاص
طور پر دینی معاملات میں بات چیت کے لیے بھی کیا گیا، جو صرف مُقامی معاشرے تک ہی
محدود نہیں رہتا بلکہ بین الاقوامی طور پر جہاں جہاں تک کسی مسلمان کے تعلقات اور
گُفت و شنید ہے وہ اِس حکم پر عمل کا پابند ہے ،
﴿وَ إِذَاخَاطَبَهُمُ
الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا::: اورجب اُن (
یعنی رحمان کے اِیمان والے بندوں )کے ساتھ جاھل لوگ بات کرتے ہیں تو وہ(رحمان کے
اِیمان والے بندے)کہتے ہیں ﴾ سُورت
الفُرقان(25)/آیت 63،
اس کی پابندی
کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے مضبوط اِیمان
والے بندوں کی صِفات میں ذِکر فرمایا ،
ایسے بندے جن کی بندگی کی نسبت اپنے خاص نام """ الرحمٰن
""" سے جوڑ کر اُن کا ذِکر فرمایا ،
اِس قاعدے سے
استثناء صرف اِس حد تک ہے کہ جب تک کہ کسی
جاہل سے بات کرتے ہوئے اُس جاہل یا اُس گفتگو کو سننے پڑھنے والوں کے لیے کسی خیر
کا اِمکان ہو ، بات چیت کی جائے ، لیکن جب
اِس کی توقع مفقود ہو جائے یا فساد کا ظہور محسوس ہونے لگے تو پھر کسی جاھل سے بات
چیت کرنے سے رکنا ہی چاہیے ،
امام محمد ابن جریر الطبری حمہُ اللہ نے اس آیت مبارکہ کے معنی و تفسیر میں کہا
"""اور جب اللہ کے بارے میں جہالت کے مارے ہوئے لوگ ایسی بات کرتے
ہیں جو اُن (رحمان کے بندوں) کے لیے
ناگوار اور ناقابل برداشت ہوتی ہے تو
رحمان کے بندے اُن جاھلوں کو اچھے اندازمیں جواب دے کر بات کرنے سے رک جاتے ہیں """،
(تفسیر الطبری )،
"""
اور رحمان کے بندے ایسا کسی کمزوری کی بنا پر نہیں کرتے ، بلکہ اپنی شان کی بلندی
کے سبب کرتے ہیں ، اور نہ ہی اس لیے کرتے
ہیں کہ وہ ان جاھلوں کو جواب دینے سے عاجز ہوتے ہیں بلکہ اپنی بلندی کو قائم رکھنے
کے لیے کرتے ہیں ، اور اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے وقت اور اپنی جدوجہد کو ایسے کاموں
میں صرف کریں جو کام ایک باعِزت اور سچے اِیمان والے شخص کی شان کے لائق ہو اور
زیادہ اھم ، بزرگی والے اور بلندی والے ہوں """ (ظلال القران ، سید
قطب )
لیکن افسوس اور
صد افسوس کہ اب قران والی اُمت کی اکثریت اللہ کے مقرر کردہ اس قانون اور
قاعدے سے تجاوز کرتی ہے ، دِین کی دعوت دینے میں ، والدین کے ساتھ بات
کرنے میں، میاں بیوی کے درمیان بات چیت
میں ، اولاد کے ساتھ بات چیت میں ، کام کے ساتھیوں اور اپنے ملازمین کے ساتھ بات
چیت میں ، تجارتی اور کاروباری بات چیت میں ، غرضیکہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا دِکھائی نہیں دیتا جِس
میں آج قران والی اُمت اِس قرانی قاعدے
اور قانون کا عملی نفاذ کرتی ہو ، ولا حول ولا قوۃ ،
میں نے اپنی بات
کے آغاز میں سُورت الاِسراء کی آیت مبارکہ
﴿ وَقُل
لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحسَنُ إِنَّ الشَّيطَانَ يَنزَغُ بَينَهُم
إِنَّ الشَّيطَانَ كَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا ﴾سُورت الاِسراء (17) /آیت 53،
کے بعد کہا تھا کہ اس دوسرے مُقام میں
اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الفوائد قانون کو ترک کرنے کا انجام بھی بتا دِیا ہے ،
اختتام میں اس طرف توجہ دلواتا چلوں کہ جب اللہ تبارک و
تعالیٰ کے اس فرمان مبارک میں تدبر کرتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ اس آیت
کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر ہم انسان اس قاعدے کو چھوڑ دیں گے تو شیطان جو کہ ہماری ازلی اور کھلا دُشمن ہے ہمارے
درمیان فساد واقع کروا دے گا ،
لا شک کہ اللہ عزّ و جلّ سے بڑھ سچا اور کوئی نہیں پس اس کے اس فرمان کی حقانیت بھی آج سب کے سامنے
ہے اور انکار یا تاویل کی کوئی گنجائش
نہیں ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے رب کی طرف سے اُسکی کتاب قران
کریم میں نازل کیے گئے اِس قاعدے ،قانون کو سمجھ لیں ، اپنا لیں اور اپنے اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر ، اُس سے اپنے
دِین ، دُنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہیں ۔
ڈاکٹر ، شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے ایک
درس""" قواعد قرانیہ ،القاعدۃ الاولیٰ """ سے ماخوذ
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: أہم وضاحت ::: خیال رہے کہ یہ مضامین محترم شیخ ، عُمر
المقبل حفظہُ اللہ کے دروس سے ماخوذ ہیں ، نہ کہ اُن کے دروس کے تراجم ، بلکہ ان
مضامین میں کم و بیش ساٹھ ستر فیصد مواد میری طرف سے اضافہ ہے، اس لیے اِن مضامین
کو حرف بحرف محترم شیخ صاحب حفظہ ُ اللہ سے منسوب نہ سمجھا جائے ۔
اور مضامین کا تسلسل بھی میں نے محترم شیخ صاحب کے دروس کے
تسلسل کے مطابق نہیں رکھا ، بلکہ مصحف شریف میں آیات کے تسلسل کے مطابق رکھا ہے ۔
عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت:06/01/1435ہجری،بمُطابق،09/11/2013عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے
:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment