::::::: جِہاد ، تعریف اور اِقسام
:::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہٗ وَ نَستَعِینہٗ وَ
نَستَغفِرہٗ وَ نَعَوذ
بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ
اللَّہُ فَلا مُضِلَّ
لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا
ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا
إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ
وَحدَہ لا شَرِیکَ
لَہ ، وَ أشھَد أن
مُحمَداً عَبدہٗ وَ
رَسو لہٗ:::بے شک خالص تعریف اللہ کے
لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی
مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے
گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے
اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے
شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور
میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں:::
السلام
علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ہم
مُسلمانوں میں ہمارے دِین کے بنیادی معاملات اور احکام کے مفاہیم اپنی اپنی عقلوں
اور سوچوں کے مُطابق سمجھنا کسی جاں گزیربیماری کی طرح رچ چُکا ہے ، جِس کا شِکار
ہمارے دِین کا تقریباً ہر حُکم اور ہر معاملہ کیا جاتا ہے ، ہر کوئی مُفتی ہے ،
اور ہر کوئی مُفکر اِسلام ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کو ہر کوئی اپنی سمجھ کے مُطابق نافذ کرنے کی کوشش میں
ہے ،
اِن
شاء اللہ ، میں اِس مضمون میں اللہ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے احکام کے مُطابق ،اِسلام کے اعلیٰ ترین أفضل ترین کاموں میں سے
ایک کام [1]"""جِہاد
""" کے بارے میں بنیادی معلومات پیش کر رہا ہوں ، اللہ تعالیٰ پڑھنے والوں کے لیے یہ
سمجھنا آسان فرما دے کہ اِسلام میں """جِہاد """
کیا ہے ؟؟؟ اور اللہ اُنہیں اِسلام کے نام پر بپا کیے جانے والے فساد کی پہچان
کروا کر اُس سے بچنے اور اپنے دُوسرے مُسلمان بھائیوں بہنوں کو بچانے کی توفیق
عطاء فرما دے ،
::::: جِہاد ، کا لغوی مفہوم ہے ::::: کِسی کام کو
کرنے کےلیے اپنے تمام وسائل اور قوتوں کو اِستعمال کرنا۔
::::: اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے کہ ::::: مُسلمانوں کی طرف سے کافروں ، مشرکوں ، باغیوں اور مُرتد لوگوں کےخلاف لڑائی اور جنگ کرنے میں اپنے تمام وسائل خرچ کرنا ۔
::::: اور شریعت میں اِسکا مفہوم ہے کہ ::::: مُسلمانوں کی طرف سے کافروں ، مشرکوں ، باغیوں اور مُرتد لوگوں کےخلاف لڑائی اور جنگ کرنے میں اپنے تمام وسائل خرچ کرنا ۔
:::::جِہاد کی
فضیلت :::::
::::: اللہ
تعالیٰ کا فرمان ::::: ﴿ إِنَّ اللَّہ َ أشتَریٰ مِن المؤمِنِینَ
أنفُسَھُم بِأنَّ لَھُم الجَنَّۃ َ یُقَاتِلُون َ فی سبِیلِ اللَّہِ فَیَقتُلُونَ
و یُقتَلُونَ ، وَعداً علِیہِ حَقاً فِی التَّوراۃِ و الأنجِیلِ و القُرانِ و مَن
أوفَی بِعَھدِہِ مِن اللَّہ ::: بے شک اللہ نے اِیمان والوں کی جانیں اور اُن کے مال اُن سے
اِس وعدے پر خرید لیے ہیں ، کہ اِسکے بدلے میں اُن کے لیے جنّت ہے ، (وہ لوگ اپنے
مال و جان سے ) اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں
، (اِس کام کے بدلے میں جنت دینے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے )سچا وعدہ ہے (جو کہ )تورات
میں اور اِنجیل میں اور قُران ہے ، اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا
کون ہے﴾سورت التوبہ(9)/آ یت 111،
::::: جِہاد کا شرعی حُکم ::::: جِہاد بحیثیتِ
جِنس شریعت کے أحکام میں فرضِ عین ہے ، یعنی ہر ایک مُسلمان پر فرض ہے ، اور اپنی
اقسام اور درجات کے مُطابق فرضِ کفایہ ہے ، یعنی اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایک یا
کچھ وہ کام کرنے لگیں تو باقیوں پر فرضیت نہیں رہتی۔
::: قُران
کریم سے دلیل ::: ﴿ وَمَا كَانَ
الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ
مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ
إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ:::اور اِیمان والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ سب کے سب نکل
کھڑے ہوں ، لہذا ایسا کیوں نہیں کیا جاتا
کہ ہر جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تا کہ وہ دِین کی سمجھ حاصل کریں اور
جب (باہر جانے والے )واپس آئیں تو یہ(دِین کا عِلم حاصل کرنے والے ) لوگ(واپس آنے
والوں کو شریعت کے احکام سُنا کر آخرت کے عذاب سے )ڈرائیں ، تا کہ(باہر جانے سے جو
عِلم وہ نہ پا سکیں اُسے جان لیں اور اُس کے مُطابق اپنی زندگیوں میں)احتیاط کریں﴾سورت التوبہ(9)/آیت 122،
::::::حدیث
شریف سے دلیل::: ﴿جاھِدُوا المُشرکِینَ بِألسِنَتِکُم،و أنفُسِکُم،وأموالِکُم،
وأیدِیَکُم:::مُشرکِین سے جِہاد کرو ، اپنی زبانوں کے ذریعے ، اور اپنی
جانوں کے ذریعے ، اور اپنے مال کے ذریعے ، اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے﴾سُنن أبو داؤد/حدیث/2504کتاب الجھاد/باب18 ،سُنن النسائی/حدیث3098/کتاب الجھاد/پہلا باب، امام
الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::: لیکن
مندرجہ ذیل حالات میں سے کِسی حالت کے ظاہر ہونے کی صورت میں جِہاد فرضِ عین ہو
جاتا ہے ::::
::: ( 1
) :::
جب قِتال کے لیے مُقرر شُدہ مُسلمانوں کا سامنا دُشمن سے ہو جائے :::
::: دلیل ::: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ O وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ
دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ
بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ:::اے إِیمان والوں جب تم لڑائی کےلیے کافروں کے سامنے آ جاؤ
تو اِن کی طرف کمر مت پھیرنا o اور جو کوئی ، لڑائی کا پینترا بدلنے یا (اپنی )جماعت
کی طرف پناہ لینے کے عِلاوہ اُن (کافروں )کی طرف کمر پھیرے گا وہ اللہ کے غضب میں
داخل ہو جائے گا اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گااوروہ بہت ہی بُری جگہ ہے﴾سورت الأنفال(8)/آیت 15 ،16 ۔
::: ( 2
) :::
جب دُشمن مُسلمانوں کے کِسی ملک پر حملہ کر دے اور وہاں سے مسلمانوں کو نکالنا
چاہے ، یا اُن کے مال اُن کی عزت کو لوٹنا چاہتا ہو ، اور وہاں کے مُسلمان اُس دُشمن
کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوں تو ایسی صورت میں اُس دُشمن کے خلاف جِہاد کرنا تمام
مسلمانوں پر فرض عین ہو جاتا ہے :::
جیسا کہ فلسطین، کشمیر ، افغانستان ، عِراق
،وغیرہ، میں ہو رہا ہے تو وہاں کے مُسلمانوں پر ، اور جغرافیائی لحاظ سے اُن کے
قریبی مُسلمانوں پر، اُن کافروں کے خِلاف جو مُسلمانوں کے علاقوں میں داخل ہو کر مُسلمانوں
کی جان مال عِزت لوٹ رہے ہیں ، جہاد کرنا فرض ہے ، اورایسے اُن کے قریب والوں پر
اِس کی فرضیت پہلے اور پھراُن کے بعد والوں پر ، پھر اُن کے بعد والوں پر اور اسی
طرح یہ سلسلہ چلنا چاہیے :::
::: دلیل ::: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ
غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ::: اے اِیمان والوں اِن کافروں سے لڑو جو تُمہارے آس پاس ہیں ،
اور اِن کافروں کوتُمہارے اندر سختی ملے ، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے
ساتھ ہے﴾سورت التوبہ(9)/آیت 123۔
:::( 3
) ::: جب مُسلمانوں کا خلیفہِ وقت اُن کو جِہاد (قِتال )کے لیے نکلنے کا حُکم دے ۔
:::دلیل ::: ﴿یا أِیھا الذِین َ أمَنُوۤا مَا
لَکُم إِذا قِیلَ لَکُم انفِرُوا فی سبِیلِ اللَّہِ أَثَاقَلتُم إِلیٰ الأرضِ أَ
رَضِیتُم بالحَیاۃِ الدُّنِیا مِن الأخِرۃِ فَمَا مَتَاعُ الحَیاۃِ الدُّنِیا فی
الأخِرۃِ إِلَّا قَلِیلٌ:::اے اِیمان والوں
تُمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تُم سے کہا جاتا کہ چلو اللہ کی راہ میں نکلو تو تم
لوگ زمین کی طرف وزنی ہو جاتے ہیں(یعنی گویا کہ زمین کے ساتھ چِپک ہی جاتے ہو )کیا
تُم آخرت کے عوض دُنیا کی زندگی پر راضی ہوتو (سن لوکہ)دُنیا کی زندگی کا مزہ آخرت
میں کچھ تھوڑاسا ہی ہے﴾سورت البقرہ(2)/آیت 38 ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کا فرمان ﴿ لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ ،
وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا:::فتح کے
بعد (مکہ سے کِسی اور طرف )کوئی ہجرت نہیں ہے ، لیکن جِہاد اور نیت (یعنی نیک نیتی
کے ساتھ کوئی اچھا کام کرنے کے لیے کہیں جا رہنا )، اور جب (حاکم ِوقت )تُم لوگوں
سے (جہاد کے لیے )نکلنا طلب کرے تو نکل پڑو ﴾مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری /کتاب الجِہاد / پہلا باب ، صحیح
مُسلم /کتاب الأمارۃ /باب20 ۔
:::جِہاد کا حُکم کبھی
ختم یا منسوخ نہیں ہو گا :::
::: دلیل
:::
﴿الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فی نَوَاصِیہَا الخَیرُ
إلی یَومِ القِیَامَۃِ الأَجرُ وَالمَغنَمُ:::گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے (اور وہ
خیر ہے )ثواب اور مال غنیمت﴾صحیح البُخاری
/کتاب الجہاد /باب44،
اِس موضوع پر ایک روایت جو سنن ابی داؤد میں ہے کہ '''جب سے مجھے بھیجا گیا ہے جِہاد جاری ہو گیا ہے اور میری اُمت کے آخری لوگوں کی دجال سے لڑائی ختم ہونے تک رہے گا '''یہ روایت ضعیف یعنی کمزور اورناقابل حُجت ہے ، اِس لیےبطورِ دلیل اسے ذِکر نہیں کِیا ۔
اِس موضوع پر ایک روایت جو سنن ابی داؤد میں ہے کہ '''جب سے مجھے بھیجا گیا ہے جِہاد جاری ہو گیا ہے اور میری اُمت کے آخری لوگوں کی دجال سے لڑائی ختم ہونے تک رہے گا '''یہ روایت ضعیف یعنی کمزور اورناقابل حُجت ہے ، اِس لیےبطورِ دلیل اسے ذِکر نہیں کِیا ۔
::: جِہاد
کی حِکمت اور مقاصد :::
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿و قَاتَلُوھُم حَتَّی لَا تَکُون ُ
فِتنَۃٌ و یَکُون ُ الدِّین ُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوُا فَلَا عُدوَانَ إِلَّا عَلیٰ
الظَّالِمِینَ
:::اور اِن (کافروں)سے لڑو ، جب تک کہ(کُفر کا )فتنہ
ختم نہیں ہو جاتا اوردِین اللہ کے نہیں ہو جاتا (یعنی اللہ کا نازل کردہ دِین ہر
طرف غالب نہیں ہو جاتا ) اور اگر یہ (فتنہ پھیلانے والے )باز آ جائیں (تو تُم بھی
رک جاؤ )اور دشمنی صرف ظلم کرنے والے کے ساتھ ہی ہوتی ہے﴾سورت البقرہ(2)/آیت 193،
اور اِرشادفرمایا ہے ﴿وَقَاتِلُوھُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ
فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّہ فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّہَ
بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیْر ::::اور اِن (کافروں)سے
لڑو جب تک کہ(کُفر کا )فتنہ(پُوری طرح) ختم نہیں ہو جاتا اورسارے کا سارادِین اللہ
کے لیے نہیں ہو جاتا (یعنی جب تک سارے دِین ختم نہیں ہو جاتے اوراللہ کا نازل کردہ
دِین ہر طرف غالب نہیں ہو جاتا )اور اگر یہ(فتنہ پھیلانے والے )باز آ جائیں (تو
تُم بھی رُک جاؤ کیونکہ )بے شک جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ وہ سب جانتا ہے﴾سُورت الانفال(8)/آیت 39 ،
اللہ
وسبحانہُ و تعالیٰ کے اِن اوپر بیان کیے گئے فرامین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جِہاد کی
حِکمت ، اھداف اور مقاصد مندرجہ ذیل ہیں ،
::: (1)
::: اللہ تعالیٰ کی
بات (یعنی دِین )کی سر بلندی اور نفاذ کے لیے جِہاد :::
:::دلیل ::: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ﴿مَن قاتلَ لِیَکُونَ کَلِمَۃُ اللَّہ ھي العُلیا فَھُوَ فی سَبِیل
اللَّہِ:::جِس نے اللہ کی بات کی سر بلندی کے لیے قتال (لڑائی )کی وہ
اللہ کی راہ میں (لڑائی ، جِہاد )کرنے والا ہے﴾مُتفقٌ علیہ ، صحیح البخاری ، کتاب الجہادو السیر /باب ١٥ ،
صحیح مسلم / کتاب الامارہ /باب ٤٢ ۔
::: (2)
::: مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے جِہاد:::
::: دلیل
:::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ
وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ
یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ھَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَھلُہَا
وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً:::تُم لوگوں کو کیا (روکاٹ )ہے کہ اللہ کی راہ میں لرائی نہیں
کرتے ہو جبکہ عورتوں مَردوں اور بچوں میں سےبے بس لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے
رب ہمیں اِس بستی میں سے نکال دے جِس کے لوگ(ہم پر )ظُلم کرنے والے ہیں ، اور (اے
ہمارے رب ہمیں اِس ظُلم سے نکالنے کے لیے ) اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حاکم بنا
دے اور اپنے پاس ہمارے لیے کوئی مدد گار بنا دے﴾سورت النِساء(4)/آیت 75 ۔
::: (3)
::: اِسلام کے دشمنوں کے خِلاف اور اِسلام کی حفاظت کے لیے جِہاد :::
::: دلیل
:::
اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿ الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ
قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى
عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ:::حُرمت والے مہینے کے بدلے حُرمت والا مہینہ ہے ، اورحرمتوں
کا بدلہ ہے ، لہذا جو کوئی تُم پر زیادتی کرے تو تُم لوگ بھی اُسی زیادتی کے برابر
اُس سے بدلہ لو اور اللہ سے بچو (یعنی اُس کے عذاب سے بچو )اور جان رکھو کہ بے شک
اللہ تعالیٰ (اللہ کے عذاب سے )بچاؤ اِختیار کرنےوالوں کے ساتھ ہے ﴾سورت البقرہ(2)/آیت 194،
::: جِہاد کی چار اِقسام (قِسمیں ) ہیں :::
::: (1)
:::
نفس کے خِلاف جِہاد ::: اور اِس کے چار
درجات (درجے)ہیں ۔
::: ( 1
) :::
دِین اور ھدایت کا عِلم اور کام سیکھنے کے لیئے نفس کے خِلاف جِہاد ۔
::: ( 2
) :::
عِلم حاصل کرنے کے بعد اُس پر عمل کرنے کےلیئے نفس کے خِلاف جِہاد ۔
::: ( 3
) :::
عِلم حاصل کرنے کے بعد اُسکی طرف لوگوں کو بلانے ، اور وہ عِلم لوگوں کو سِکھانے
کے لیے نفس کےخِلاف جِہاد ۔
::: ( 4
) :::
اللہ کے دِین کی دعوت میں پیش آنے والی
مصیبتوں اور پریشانیوں پر صبر کرنے کے لیئے نفس کے خِلاف جِہاد ۔
::: (2)
شیطان کے خِلاف جِہاد ::: اِس کے دو دَرجات
ہیں :::
::: ( 1
) ::: اِیمان اور عقیدے میں جو شکوک و شبہات ، اور
وسواس شیطان کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں اُن کو دُورکرنے کے لیے اور خود کو اُن سے
محفوظ رکھنے کے لیے شِیطان کے خِلاف جِہاد ۔
::: ( 2
) ::: بُرے کاموں کا لالچ ، اور گُناہوں کی رغبت ، جو
شیطان کی طرف سے اِنسان کے دِل و دِماغ میں پیدا کی جاتی ہے اُسکو دور کرنے اور
خود کو اُس سے محفوظ رکھنے کے لیئے شیطان کے خِلاف جِہاد ۔
::: (3)
کافروں اور مُشرکوں کے خِلاف جِہاد ::: اِسکے بھی چار درجات ہیں :::
::: ( 1
) :::
دِل کے ذریعے جِہاد ۔ ::: ( 2
) :::
ز ُبان کے ذریعے جِہاد ۔
::: (3) ::: مال کے
ذریعے جِہاد ۔ ::: ( 4
) :::
ہاتھ کے ذریعے جِہاد ۔
:::(4)
ظلم کرنے والوں ، بدعت ، اور مُنکرات پر عمل کرنے اور کروانے والوں کے خِلاف جِہاد
:::
اِسکے تین درجات ہیں :::
اِسکے تین درجات ہیں :::
::: ( 1
) :::
ہاتھ کے ذریعے جِہاد ، یعنی مُسلمان اِن کاموں کو ہاتھ سے روکا جائے ، لیکن اگر
ایسا نہ کر سکتا ہو تو ،
::: ( 2 ) ::: ز ُبان کے ذریعے جِہاد ، یعنی زُبان سے اِن چیزوں پر اِنکار کِیا جائے لوگوں کو اِن کے غلط ہونے کے بارے میں قُران و سُنّت کی دلیل کے ساتھ بتایا جائے ، لیکن اگر اِسکی قُدرت بھی نہ رکھتا ہو تو ،
::: ( 2 ) ::: ز ُبان کے ذریعے جِہاد ، یعنی زُبان سے اِن چیزوں پر اِنکار کِیا جائے لوگوں کو اِن کے غلط ہونے کے بارے میں قُران و سُنّت کی دلیل کے ساتھ بتایا جائے ، لیکن اگر اِسکی قُدرت بھی نہ رکھتا ہو تو ،
::: ( 3
) ::: دِل کے ذریعے جِہاد :::
::::::::: حاصلِ کلام، یہ ہے کہ ،،،، جِہاد کے کُل
تیرہ درجات ہیں ،اور جِہاد بحیثیتِ جِنس فرضِ عین ہے ، یعنی ہر مُسلمان پر فرض ہے
کہ مندرجہ بالا تیرہ درجات میں سے کِسی بھی درجے میں اللہ کی را ہ میں جِہاد کرے ،
جہاد کی تمام تر اِقسام اور اُن میں سےصرف چوتھی قِسم ایسی ہے جِس میں ایک مُسلمان
دوسرے مسلمان کے خِلاف جہاد کرے گا ،
آئیے ذرا اِس معاملے کی تفصیل کو سمجھیں ، کیونکہ اِس میں غلط فہمی اور کم عِلمی یا لا عِلمی کی وجہ سے ہمارے کئی مُسلمان بھائی بہن وہ کام کرتے اور اُن کی دعوت دیتے ہیں جو حرام ہیں ،
آئیے ذرا اِس معاملے کی تفصیل کو سمجھیں ، کیونکہ اِس میں غلط فہمی اور کم عِلمی یا لا عِلمی کی وجہ سے ہمارے کئی مُسلمان بھائی بہن وہ کام کرتے اور اُن کی دعوت دیتے ہیں جو حرام ہیں ،
چوتھی قِسم کا جہاد ، ظُلم
کرنے والوں ، بدعت ، اور مُنکرات پر عمل کرنے اور کروانے والوں کے خِلاف جِہاد ہے
، اور جیساکہ اُوپر بیان کیا گیا اِ س جِہاد کے تین درجات ہیں ،
اِس میں پہلی قِسم کے مُسلمان
وہ ہیں جو ظالِم ہیں ،یاد رہے کہ کِسی پر بھی ظُلم کرنے والا پہلے خود اپنے اوپر
ظلم کر رہا ہوتا ہے ، اوریاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
ظُلم کرنے والے مُسلمان کو روکنے کا حُکم دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ انْصُرْ
أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا::: اپنے (مُسلمان
)بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم ﴾،
صحابہ نے عرض کِیا """
يَا
رَسُولَ اللَّهِ هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا ، فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا::: جو کوئی
مظلوم ہو اُس کی مدد تو کرنا(سمجھ میں) آتا ہے، لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں (سمجھ
نہیں آیا )"""،
تو رسول اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿تَأْْخُذُ فَوْْقَ یَدَیْہِ::: اُسکے ہا تھ کو پکڑ لو﴾صحیح البخاری /کتاب المظالم /باب 4،
دوسری روایت میں مزید
وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أو
مَظْلُومًا:::اپنے (مُسلمان )بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم
﴾
ایک صحابی نے عرض کِیا """
یا
رَسُولَ اللَّہِ أَنْصُرُہُ إذا کان مَظْلُومًا أَفَرَأَیْتَ إذا کان ظَالِمًا
کَیْفَ أَنْصُرُہُ ::: اے اللہ کے رسول اگر وہ مظلوم ہو تو میں اُسکی مدد کروں گا
لیکن اگر وہ ظالِم ہو تو میں اُسکی مدد کیسے کروں؟"""،
تواِرشاد فرمایا ﴿تَحْجُزُہُ أو تَمْنَعُہُ من الظُّلْمِ فإن ذَلکَ نَصْرُہُ::: اُسے ظُلم کرنے سے عاجز کر دو یا منع کرو ، بے شک یہ ہی
اُسکی مدد ہے﴾صحیح البخاری /
کتاب الاکراہ قول اللہ تعالیٰ اِلّا مِن اکراہ /باب 7 ،
رسول اللہ نے اپنی اُمت پر
رحم کرتے ہوئے ہمیشہ مکمل راہنمائی فرمائی ، اور اِس موضوع کو بھی مکمل وضاحت سے
سمجھایا کہ ، کوئی مُسلمان اپنے مُسلمان بھائی کو ظُلم سے روک کر درحقیقت اُس
ظالِم کو اللہ کے عذاب سے بچنے میں مدد کرتا ہے ،
اور اُس کو روکنے کے دو
طریقے ہیں ، اگر ہمت ہو تو اُس کا ہاتھ تھام کر اُسے ظُلم سے روکا جائے ، اور اگر
ایسا نہیں تو اُسے ز ُبان سے منع کِیا جائے ، سمجھایا جائے کہ اُس کا عمل اللہ یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی ہے اور خُود اُس کی اپنی جان
پر آخرت کا ظُلم ہے جو وہ خُود کر رہا ہے ،
لیکن کِسی مسلمان بھائی ، بہن کو کِسی ظُلم ،
یعنی گناہ زیادتی غلطی سے روکنے کا یہ طریقہ ہر گِز نہیں کہ اُس کی جان مال یا
عِزت پر حملہ کِیا جائے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے
حجۃ الوداع کے موقع پر صاف صاف یہ حُکم صادر فرمایا تھا ،
ہونا تو یہ چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کا حجۃ الوداع کا خطبہ ہر مسلمان کو یاد ہو ،
بہر حال اُس کی مختلف روایات کا مجموعہ یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ﴿یہ دِن کونسا ہے ؟﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین نے عرض کیا """ اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں """،
جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن بھی جانتے تھے کہ اِس سوال
کا جواب کیا ہے ، لیکن یہ اُن کا اِیمان ، محبت اور ادب تھا کہ خاموش رہے ، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کے جواب کے انتظار میں کافی دیر تک خاموش
رہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین یہ خیال کرنے لگے کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم اِس دِن کو کوئی اور
نام عطاء فرما دیں گے ،
کافی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نےاِرشادفرمایا ﴿ کیا یہ قُربانی کرنے کا دِن نہیں ہے ؟﴾ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا"""جی
ہاں بے شک """،
پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ﴿یہ
مہینہ کون سا ہے ؟﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا """اللہ
اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں """،
پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کے جواب کے انتظار میں کافی دیر تک خاموش رہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین یہ خیال کرنے لگے کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِس کو
کوئی اور نام عطاء فرما دیں گے ،
کافی دیر بعد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿کیا
یہ حج کا مہینہ نہیں ہے ؟﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا"""جی
ہاں بے شک """،
پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿یہ
شہر کون سا ہے ؟﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا"""اللہ
اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں"""،
پھر رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کے جواب کے انتظار میں کافی دیر تک خاموش رہے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین یہ خیال کرنے لگے کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِس کو
کوئی اور نام عطاء فرما دیں گے ،
کافی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿کیا
یہ حُرمت والا شہر (مکہ المرمہ )نہیں ہے ؟ ﴾،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """جی
ہاں بے شک """،
یہ سوال کرنے کا مقصد
صحابہ کے ذہنوں اور دِلوں میں اِن تینوں چیزوں کی حُرمت اور تقدس کی تاکید اُجاگر
کرتے ہوئے اپنے اگلے فرمان کی اہمیت کا احساس دِلانا تھا ، ورنہ تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی یہ سب باتیں
جانتے تھے ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے جواب اور
با تاکید جواب کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشاد فرمایا ﴿فإن دِمَاء َکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَ
أعرَاضُکُم عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھَذا فی شَہْرِکُمْ ھذا فی
بَلَدِکُمْ ھذا إلیٰ یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ ألا ھَل بَلَّغْتُ ، وَ أنتْم
تْسألْونَ عَنِی فَمَا أنتْم قَائِلْونَ ؟:::تو پھر بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عِزتیں
ایک دوسرے پر اسوقت تک جب تم اپنے رب سے ملو گے ، حرام ہیں ، بالکل تمہارے اِس شہر
میں ، تمہارے اِس مہینے میں تمہارے آج کے دِن کی طرح (حرام ہیں ، اور اب یہ بتاؤ
کہ )کیا میں نے (اللہ کا )پیغام پہنچا دِیا (کیونکہ )تُم لوگوں سے میرے بارے میں
پوچھا جائے گا تو تُم لوگ کیا جواب دو گے﴾
صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین نے عرض کیا """ نَشھَدْ
إِنَکَ قَد بَلّغتَ رِساَلاتِ رَبِکَ و أدِیتَ ، و نَصَحَتَ لِاْمتَکَ ، و قَضِیتَ
اَلَّذِی عَلِیکَ:::ہم گواہی دیں گے کہ آپنے اپنے رب کے پیغامات کی
تبلیغ کر دی اور (اپنے فرض کی )أدا ئیگی کر دی ، اوراپنی اُمت کو نصیحت کر دی ،
اور جو آپ پر فرض تھا وہ آپ نے پورا کر دِیا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اُنگلی آسمان کی طرف اُٹھا کر اور پھر صحابہ
رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف اِشارہ کرتے ہوئےاِرشاد فرمایا ﴿اللَّھْم فَأشھِد ، اللَّھْم فَأشھِد ، اللَّھْم فَأشھِد
فَلْیُبَلِّغْ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی من سَامِعٍ فلا
تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ:::اے اللہ گواہ رہ ، اے اللہ گواہ رہ ، اے اللہ گواہ رہ(لوگو
)جو یہاں موجود ہے وہ (یہ باتیں )اُن تک پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں ، ہو سکتا ہے
جِس تک بات پہنچے وہ یہاں سننے والے سے زیادہ (اُس بات کی )حفاظت کرنے والا ہو ،
پس (میں نے جو کہا ہے وہ یاد رکھا جائے اور )میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر
واپس کافر نہ بن جانا﴾صحیح البخاری
حدیث 1654/کتاب الحج /باب 131 الخطبۃ ایام منی ، کتاب العِلم
/باب 9 ، کتاب الأضاحی / باب 5 ، کتاب الأذان / باب 43 ، کتاب الحدود / باب 9 ، صحیح مُسلم حدیث ،1659/کتاب القسامۃ و المحاربین والقصاص والدیۃ / باب 9 ، حدیث
1218کتاب الحج /باب19 حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی روایات ،
اور عبداللہ ابن عباس رضی
اللہ عنہما کا فرمان ہے ﴿اللہ
کی قسم جِس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی اُن کی اُمت کے لیے وصیت ہے ﴾صحیح البخاری ،
کتاب الحج /باب 131،
اُمتِ محمد صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ وصیت بھول چکی ہے یا یہ کہیے کہ جنہیں یاد تھی وہ
بھی آج کے اُمتیوں کے لیے بھولی بسری بات ہیں تو وصیت کیا یاد ہو گی ، اور یہ
بنیادی ترین اسباب میں سے ایک ہے کہ ہم آج وہاں ہیں جہاں نہیں ہونا چاہیے تھا اور
وہاں نہیں ہیں جہاں ہونا چاہیے تھا ،
بات ہو رہی
تھی ، کہ کِسی ظالِم کو ظُلم سے روکنا بھی جِہاد ہے ، مُسلمانوں میں سے مُنکرات پر
عمل کرنے اور کروانے والے یعنی مُسلمان مُشرک اور بدعتی کو شرک و بدعت سے روکنا
بھی جِہاد ہے ، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکموں کے
خِلاف کام کرنے اور کروانے والے حاکموں اور محکوموں کو روکنا بھی جِہاد ہے ، لیکن
اِس جِہاد میں کِسی مُسلمان کی جان مال عِزت پرہاتھ ڈالنا حرام ہے ، پس یاد رکھیے
، اور خُوب اچھی طرح سے یاد کر لیجیے کہ کوئی حلال کام کرنے کے لیے کوئی حرام
ذریعہ یا طریقہ اختیار کرنے سے وہ حرام ، حلال نہیں ہو جاتا ،
کوئی بھی
مُسلمان جو کِسی بھی مُنکر یعنی ناجائز و حرام کام میں ملوث ہے تو وہ اپنی جان پر
ظُلم کرنے والا ہے ،
اور اپنے
اِس ظالِم مُسلمان بھائی یا بہن کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرنا ہے جِس کا ذِکر گذر چکا ہے ،رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان کے مُطابق ظلم کو ہاتھ سے روکنے کامطلب
ہر گِز ہر گِز یہ نہیں کہ اپنی عقل اور فلسفے کی بنیاد پر کِسی کلمہ گو کو کافر،
مُشرک یا بدعتی وغیرہ قرار دے کر اُس کی جان مال و عِزت پر حملہ آور ہونا ہے ، یہ
جِہاد نہیں فساد ہے ، جیسا کہ اب ہم اپنی صفوں میں ایسے کئی نام نہاد مُجاھد
دیکھتے ہیں جو اپنے تیئں اصلاح ، خیر اور توحید کا نفاذ کرنے کے لیے کلمہ گو
مُسلمانوں کی جان ، مال اورعِزت پر حملہ آور ہوتے ہیں ، یہ جِہاد نہیں فساد ہے ،
اللہ تعالیٰ ہمیں اُس دِین
کو جو اُس نے تمام تر مخلوق سے الگ اور بُلندی پر رہتے ہوئے ، وہاں سے اپنے رسول
مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پرنازل فرمایا ، اور جِس طرح نازل فرمایا ،
کِسی کمی یا زیادتی کے بغیر اپنی یا کِسی کی عقل و فلسفے یا رائے اور سوچ کے عمل
دخل کے بغیر سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور اُسی عمل ہمارا
خاتمہ فرمائے اور اُس عمل کو قُبُول فرمائے ۔
والسلام علیکُم و رحمۃُ
اللہ و برکاتہُ ،
طلب گارِ دُعا ، آپ کا
بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ
کتابت :21/07/1428ہجری
، بمُطابق،04/08/2007عیسوئی،
تاریخ
تجدید و تحدیث :25/12/1435ہجری،بمُطابق،19.10.2014عیسوئی۔
[1] میں نے یہاں جہاد کو اعلیٰ و
أفضل ترین کاموں میں سے ایک لکھا ہے ، ’’’ رُکن ‘‘‘ نہیں ، جِہاد کی اعلیٰ فضیلت
کی بِناء پر کچھ عُلماء کا یہ کہنا اور
سمجھنا ہے کہ جِہاد اسلام کی بنیادی أرکان میں سے ایک ہے ، بالکل اُسی طرح جِس
طرح کہ ’’’أمر بامعروف اور نھی عن المنکر‘‘‘ کی بہت اعلیٰ فضیلت ہے ، جِس کی
بِناء پر کچھ عُلماء نے اُسے اِسلام کا چھٹا رُکن کہا ہے ،
یہاں
میں کِسی لمبی چوڑی بحث میں داخل نہیں ہونا چاہتا تا کہ قارئین کرام مضمون کے اصل
موضوع سے دُور نہ ہوں ، مُختصراً اتنا کہنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ جہاد کی افضلیت
ایک مُسلَّم حقیقت ہے لیکن اُس کے رُکن ہونے کی کوئی خبر کوئی دلیل نہیں ۔ کِسی بھی عمل کو اُس کے اُسی مُقام پر رکھنا اور ماننا ہی خیر ہے جِس پر اُسے
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ، اور ، یا، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment