:::::::
حقوق الزوجین ::: میاں بیوی کے ایک دُوسرے
پر حقوق :::::::
موضوعات
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ
مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن
اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ
آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ
، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی
ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ،
اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور
یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت
واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس
کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ
علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اِس
موضوع پر بات کرتے ہوئے کچھ ڈر سا لگتا ہے کیونکہ ہمارے پاک وہند کےمعاشرے میں
خصوصی طور پر اورمُسلم معاشرے میں عام طور
پر خواتین کا اثر و رسوخ یا واضح الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ خواتین کا رُعب و دبدبہ
مُناسب حُدود سے بہت باہر ہو چکا ہے اور اکثر مرد حضرات """بےچارگی"""
کی حالت میں نظر آتے ہیں ، اور کچھ اِسی طرح کا معاملہ دوسری طرف بھی ہے کہ مرد
حضرات بھی کم نہیں کرتے اور جہاں موقع ملے اپنی مردانگی کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے
ہیں ، لہذا دونوں ہی طرف سے میری دُھنائی ہونے کا قوی
امکان ہے ،
لیکن
اپنے لیے ، اور اپنے سارے قارئین مُسلمان بھائی بہنوں کے دِین دُنیا اور آخرت کی
خیر اور بھلائی کے حصول کے لیے ، میں اِن شاء اللہ تعالیٰ اِس مضمون میں مختصر طور
پر یہ بیان کروں گا کہ میاں بیوی کے لیے، ایک دوسرے پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کیا حقوق مقرر فرمائے گئے ہیں ،
مضمون
پڑھنے والے ہر ایک بھائی اور بہن سے گذارش ہے کہ اگر کہیں کوئی بات دِل نہ لگتی ہو
، یا آپ کے خیال میں کسی طور یک طرفی والی محسوس ہوتی ہو ، تو بھی مضمون کا بغور
مکمل مطالعہ کیے بغیر کوئی نتیجہ نہیں اپنایے گا ۔
:::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ ::::::::
سب سے پہلے یہ بات جاننے اور اِس پر اِیمان لانے
والی ہے کہ مرد عورت سے افضل ہیں اور بلند درجہ رکھتے ہیں ، یہ کسی مخلوق کی ذاتی
رائے نہیں ، اور نہ ہی اپنی جنس کو تقویت دینے کے لیے کوئی فلسفہ ہے ، بلکہ تمام
تر مخلوق کے اکیلے خالق اور مالک اللہ العلیم
الحکیم کا فیصلہ ہے کہ فرمان ہے﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ
عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعضَہُم
عَلَی بَعضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِن أَموَالِہِم:::مرد عورتوں سے برتر ہیں ،اِس کی وجہ یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے مر و عورت میں سے کچھ
کو کچھ پر فضیلت عطاء فرمائی ہےاور اِس
لیے کہ مرد عورتوں پر اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ،،،،﴾
سورت النساء(4)/آیت34،
::::: ایک فلسفہ اور اُس کا جواب :::::
اللہ سُبحانہُ وتعالیٰ اکیلا خالق ہے اوراُس کے عِلاوہ
جو کچھ ہے اُس کی مخلوق ہے،لہذا جِس کو اُس نے جیسا چاہا ویسا بنایا اور جو دینا چاہا
عطاء فرمایا اور جو نہ دینا چاہا اُس سے روک لیا،مَردوں کو عورتوں پر برتری بھی اِسی
طرح اکیلے لا شریک خالق و مالک و داتا ، اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے دی ہے ، کِسی
کے لیے کوئی گُنجائش نہیں کہ وہ کوئی فلسفہ گھڑ کر اللہ تعالیٰ کے کِسی بھی کام کا
اِنکار کرے یا اُس پر اعتراض کرے،ایسا کرنے والا دائرہِ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے،مثلاً
اگر کوئی یا سوچے کہ عورتیں مرد سب برابر ہیں ، ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں ، مرد کی برتری
کیسی؟؟؟
ایسا
کہنے والے بے چارے یہ تک بھی نہیں جانتے کہ گاڑیوں کے چلنے کا کیا نظام ہوتا ہے؟؟؟
پہیے
دو ہوں یا دس اُن کو گھمانے اور اُن کے ذریعے گاڑی چلانے کے لیے کوئی قوت درکار ہوتی
ہے اور وہ قوت مہیا کرنے والی چیز کو انجن کہا جاتا ہے،اگر انجن کام نہ کرے یا مُناسب
قوت مہیا نہ کرے تو برابری کا دعویٰ کرنے والیاں پہیہ صاحبات کب تک اور کیسے گھومتی
ہیں؟؟؟
اوراُنکی
شخصیت اور اُن کے خاندان کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے؟؟؟
اور
جِس معاشرے میں یہ پہیے کِسی تحکم(Control)کے
بغیرگھومتے ہیں اُس معاشرے کی گاڑی کہاں پہنچتی ہے؟؟؟
یہ
باتیں دُرست عقل رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے،دیکھتا اور سُنتا ہے،لہذا یہ فلسفہ عملی
طور پر خود کو جھوٹاثابت کرتا ہے،اور یہ بات روزِ روشن کی طرح صاف اور واضح نظر آتی
ہے کہ مَرد و عورت کِسی بھی معاشرے میں ہوں کِسی بھی دِین اور دِین کے کِسی بھی مذھب
و مسلک سے وابستہ ہوں ،کِسی بھی صورت ایک گاڑی کے دو پہیے قرار نہیں پاسکتے ہیں ،
::::: فلسفہ در فلسفہ اور اُس کا جواب ::::
مرد
و عورت کی برابری کے دعویٰ دار،اورعورت کی آزادی اورکارِحیات میں برابر کی شرکت کے
طلبگاروں میں سے کچھ لوگ بغیر انجن کےپہیے گھمانے والے فلسفے کو ذرا اِسلامی رنگ دیتے
ہوئے ایک اور فلسفہ شامل کرتے ہیں کہ،مردکے برتر ہونےکی وجہ یہ ہے کہ وہ عورت پر خرچ
کرتا ہے،اور یہ اِس لیے ہوتا ہے کہ عورت کو خود کمانے کا موقع نہیں دِیا جاتا،اگر عورت
خود کمائے تو پھر نہ تو مرد کو اُس پر خرچ کرنے کی ضرورت رہتی ہے نہ ہی عورت کو مرد
سے خرچہ لینے کی ، لہذ ثابت ہوا کہ عورتیں مَردوں کے برابر ہیں مگر اُنہیں اُن کی صلاحیات
اِستعمال کرنے کا موقع نہیں دِیا جاتا،
ایسی بے تکی ہانکنے والے بے چاروں کو اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہ نظر
نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک مخلوق مَرد کو دوسری مخلوق عورت پر اپنی بے
عیب حِکمت سے ، اپنی مرضی سے افضلیت عطاء فرمائی ہے ،اورمَردوں کا عورتوں پر خرچ کرنے
والامعاملہ دُنیا کے مادی اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے، نہ کہ اکلوتا اور حقیقی
سبب کہ اگر اِسے ختم کر لیا جائے تو افضلیت بھی ختم ہو جائےگی، اور """صاحب"""اور"""بیگم"""برابر
ہوجائیں گے،
خیال
رہے ، محترم قارئین کرام ، کہ اِس مضمون کا موضوع عورت کی آزادی یا برابری نہیں،اِس
موضوع پر بات پھر کِسی وقت ،اِن شاء اللہ تعالیٰ،فی الحال اتنا ہی کہنا کافی ہو گا
اِن شاء اللہ، کہ معاشرتی اور دینی معاملات
میں عورت و مرد کی برابری کی سوچ یا اِس کی بنیاد پر گھڑا گیا کوئی بھی فلسفہ اللہ
تعالیٰ کے ایک کام کا اِنکار اور اُس پر اعتراض ہے،جو یقینا ایسا کُفرہے جو اِسلام
سے خارج کردیتا ہے،
[[[اِسلام سے خارج کر دینے والوں کاموں کا
تعارف عقیدے کے تعارفانہ رواں خاکہ جات سے خارج کرنے والے کاموں کا تعارف عقیدے کے
تعارفانہ رواں خاکہ جات (Introductory
FlowCharts)میں مُیسر ہے، و للہ الحمد]]]
اللہ
تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اپنا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا تابع فرمان
بننے کی توفیق عطاے فرمائے اور اِسی تابع فرمانی پر ہمارے خاتمے فرمائے اور اِسی پر
ہمارا حشر فرمائے،
اللہ تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا(اُوپر ذِکر کیے گئے)فرمان سے ہمیں پتہ
چلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مکمل ترین بے عیب حکمت سے مَردوں کو عورتوں پر برتری عطاء
فرمائی ہے،یہ برتری بحیثیتِ جنس عام ہے یعنی مَرد بہر صورت عورت پر برتر ہے،
رہا
معاملہ مختلف رشتوں کے حقوق کا تو وہ اللہ تعالیٰ نے او اُس کے رسول کریم صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے مختلف رکھے ہیں جو کہ مَرد کی عورت پر برتری کو ختم نہیں کرتے
اور نہ ہی عورت کی عِزت و احترام میں کمی کرتے ہیں ، میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے
کے بعد مَرد کی حیثیت اور حق کتنا بڑھ جاتا ہے یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی زُبانی سنیے :::
::::::: (1) :::::::
عبداللہ بن ابی أوفیٰ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ ، جب مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہُ
شام سے واپس آئے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سجدہ کیا،رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا﴿مَا ھَذا یا مُعَاذ
؟:::یہ کیا معاذ ؟ ﴾،
معاذ
رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا""" میں شام گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ
عیسائی اور یہودی اپنے اپنے مذہبی رہنماوں اور عالِموں کو سجدہ کرتے ہیں،لہذا میرے
دِل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم آپ کو سجدہ کریں"""،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ فَلا تَفعَلُوا فَإِنِی لَو کُنت ُ آمِراً أحداً
أن یَسجُدَ لِغَیرِ اللَّہِ لأمَرت ُ المَرأَۃَ أن تَسجُدَ لِزَوجِہَا وَالَّذِی
نَفسُ مُحَمدٍ بِیدِہِ لا تُؤَدِّی المَرأۃُ حَقَّ رَبِّہَا حَتٰی تُؤَدِّی حَقَّ
زَوجِہَا وَلَو سَأَلَہَا نَفسَہَا وَھِیَ عَلَی قَتبٍ لَم تَمنَعہ ُ:::تُم سب ایسا مت کرو(یعنی مجھے سجدہ مت کرو)، اگر
میں کِسی یہ حُکم دینے والا ہوتا کہ وہ اللہ کے عِلاوہ کِسی اور کو سجدہ کرے(یعنی اگر
یہ کام حلال ہوتا)تو عورت کو حُکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے،اُس کی قسم جِس کے
ہاتھ میں محمدکی جان ہے،عورت اپنے رب کا حق اُس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ
اپنے خاوند کا حق ادا نہ کرے،اور (خاوند کا حق اتنا زیادہ ہے کہ)اگر بیوی اُونٹ کے
کاٹھی پر بیٹھی ہو اور خاوند اپنی بیوی کو (اپنی جنسی طلب پوری کرنے کے لیے)بلائے تو
بھی وہ خاوند کو منع نہیں کرے گی﴾صحیح ابن حبان/حدیث7141و1390،سنن
ابن ماجہ/حدیث1853/کتاب النکاح/باب4،
المستدرک الحاکم/حدیث7325،کتاب البر و الصلۃ،إِمام الالابانی رحمہُ
اللہ نے صحیح قرار دِیا ، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ /حدیث3366،
3490،1203۔
::::::: (2) :::::::
أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے فرمایا﴿لا یَصلَحُ لِبَشرٍ أن یَسجُدَ لِبشرٍ ولَو صَلَحَ
أن یَسجُدَ بَشَرٌ لِبشرٍ لأمرتُ المرأۃَ
أن تَسجُدَ لَزوجِہا مِن عَظَمِ حَقِہِ عَلِیہَا،والذِی نَفسِی بِیَدہِ لَو
أن مِن قَدمِیِ إِلیٰ مَفرَقِ راسِہِ قَرحَۃً تَنبَجس بالقیحِ و الصدیدِ ثُمَ أقبَلَت
تَلحَسہُ ما أدَت حَقَہ:::کِسی اِنسان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کِسی
اِنسان کو سجدہ کرے ، اگر ایسا کرنا حلال ہوتا تو عورت پر خاوند کے حق کی عظمت
(بڑائی)کی وجہ سے میں ضرور عورت کو حُکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، اوراُس
کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر خاوند کے پیروں سے لے کر سر ( کے بالوں)
کی مانگ تک زخم ہوں جن میں سے پیپ نکل رہی ہو اور بیوی اُسے چاٹ لے تو بھی خاوند
کا حق ادا نہیں ہوتا ﴾ اِمام النسائی رحمہُ اللہ کی کتاب،عِشرۃ النساء/
حدیث267/باب حق الرجُلِ علیٰ المرأۃِ،مُسند أحمد(عالم
الکتب کی پہلی طباعت میں)/ حدیث12641، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےصحیح قرار دِیا،صحیح
الجامع الصغیر و زیادتہُ/حدیث7725،
:::::::: اب
ہم مختصراً بیوی پر خاوند کے أہم حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اِن شاء اللہ اِس
کے بعدجناب خاوند صاحب پر بیوی کے حقوق کا
مطالعہ کریں گے ، جِن کا عموماً ذِکر نہیں ہوتا ، کہ کہیں تو خاوند کے حقوق ہی
سنائے جاتے ہیں ، اور کہیں بیوی کے وہ حقوق و رتبے سنائے جاتے ہیں جن کا اللہ کے
دِین میں کوئی مُقام نہیں ،
::::::: بیوی پر خاوند کے حقوق :::::::
:::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی :::::::
بیوی
پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے،یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی ہمت اور طاقت میں ہو
وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی،کِسی بھی حال میں وہ خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی،
:::::::: (1) :::::::
حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی(چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں
کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے)رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا
کہ ایک دفعہ میں کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس گئی،
تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا﴿ أ ذات ُ زَوج ٍ أنتِ:::اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟﴾،میں نے عرض کیا """
جی ہاں """،
تو
اُنہوں نے درمافت فرمایا ﴿ کَیف َ أنتِ لہ ُ:::
تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی
) ہو ؟؟﴾،
میں
نے عرض کیا """ ما ألوہُ
إلَّا مَا عَجَزت ُ عَنہ ُ ::: میں کِسی بھی معاملے
میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو """،
تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
اِرشادفرمایا﴿ فَأینَ أنتِ مِنہ ُ فَإِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ:::تُم اُس کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت
اور جہنم ہے﴾،
یعنی
یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو؟اگر اُسکا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت
میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔
مُسند احمد /حدیث19025،کتاب عِشرۃَ النِّساء
للنسائی/حدیث79،صحیح الترغیب و الترھیب/حدیث1933،
:::::::: (2) :::::::
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا﴿إِذا صَلّت المَرأَۃُ خَمسھَا،و صَامَت شَھرھا،و حَصَّنَت فرجھا،و أطاعَت بَعلَھا
، دَخلَت مِن أيّ أبواب الجنَّۃِ شاءَت:::اگرعورت(روزانہ)اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو،اوراپنے(رمضان
کے)روزے رکھتی ہو،اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو،اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی
کرتی ہو،(اور اِس حال میں مر جائے تو)جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل
ہو جائے گی﴾صحیح ابن حبان/حدیث 4163/کتاب
النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب(حسن لغیرہ)/حدیث1931،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی
مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا،اور ایسی صورت میں وہ عورت جنّت میں
داخل نہیں ہو سکے گی،جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند اپنے حقوق کی ادائیگی میں
کوتاہی کو معاف نہ کر دے،یہ الگ بات ہے کہ دُنیا میں اگر کوئی خاوند"""بے
چارہ"""یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ
کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی
مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
::::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے بارے میں ایک
بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکموں کی خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس
کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے﴿ لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، إِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ ::: اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی
تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ، بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ﴾صحیح مسلم/حدیث/1840کتاب الامارۃ باب8 کی بیسویں روایت20
۔
::::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے ::::::
ایمان
والوں کی ماؤں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ
نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم فرمایا﴿ وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ
وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی:::اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو(یعنی آرام سے گھروں
میں ہی رہو)اور پہلی جاہلیت(یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے)کی طرح بے پردی کے ساتھ
اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو﴾سورت الاحزاب(33)/
آیت33،
گو
کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے،لیکن قران
میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور خطاب کےعام اسلوب کی طرح یہ حکم اُمت کی تمام عورتوں
کے لیے ہے،اِسکی تائید تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کےعمل اور رسول اللہ محمد صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ سے ملتی ہے،جیسا کہ،
:::::::
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿ المَرأَۃُ عَورَۃٌ و إِنَّہَا إِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا
الشِّیطَان ُو إِنَّہَا لَتَکُونُ أقرَبُ إلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا:::عورت(ساری کی ساری)پردے(میں رکھنے)والی چیز ہے
اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُس کی راہنمائی کرتا ہے(یعنی اُسے گناہ کی
طرف لے جاتا ہے)اور عورت اپنے گھر میں(رہتے ہوئے)اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے﴾السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/2688۔
:::::::تیسرا حق:::::::جب خاوند ہم بستری کے لیے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب پوری کرے:::::::
اِس
کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے،اور اُس کے عِلاوہ بھی
کئی احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں،جیسا کہ:::
:::::::: (1) :::::::
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاِرشادفرمایا ﴿
إِذا دَعَا الرَّجُلُ إِمراتَہ ُ إِلیٰ فِراشِہِ
فأبَت لَعَنَتہَا المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ:::اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے
اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ خاوند
کے پاس واپس نہیں آتی﴾صحیح البخاری/حدیث3237/کتاب
بدء الخلق/باب85،دُوسری روایت،صحیح مسلم/حدیث1436/کتاب
النکاح/باب20،
:::::::: (2) :::::::
اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے﴿ وَالَّذِی نَفسِی
بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَأَتَہُ إلی فِرَاشِہَا فتأبٰی عَلِیہِ إِلَّا
کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا::: اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب کوئی
خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ
بیوی أنکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے
جب تک اُس کا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا﴾صحیح مُسلم/حدیث1436/
کتاب النکاح/ باب20 کی حدیث4،
اِس
مذکورہ بالا حدیث شریف میں ہمارےموجودہ موضوع کے علاوہ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری
کتاب""" اللہ
کہاں ہے ؟""" کا مطالعہ اِن شاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
:::::::: (3) :::::::
طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
فرمایا﴿ إِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ
ُ وإِن کانت عَلٰی التَّنُّورِ:::جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی (جنسی
)ضرورت (کی تکمیل) کے لیے بلائے تو بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی رہی ہو ﴾صحیح ابن حبان/حدیث4145/کتاب
النکاح،صحیح الترغیب و الترھیب/حدیث1946،
::::::: چوتھا حق ::: خاوند کی اِجازت کے بغیر خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہ کرے :::::::
::::::: پانچواں حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے :::::::
یہ
بھی خاوند کے حقوق میں سے ہے ،لہذا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا اور کِسی
کو خاوند کے گھر میں داخل کرنا بیوی کے لیے جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے عورتوں کو حُکم دِیا ہے کہ:::
:::::::: (1) :::::::
﴿ لَا یَحِلُّ لِلمَرأَۃِ أَن تَصُومَ وَزَوجُہَا
شَاہِدٌ إلا بِإِذنِہِ ولا تَأْذَنَ فی بَیتِہِ إلا بِإِذنِہِ وما أَنفَقَت من نَفَقَۃٍ
عَن غَیرِ أَمرِہِ فإنہ یؤدی إلِیہ شَطرُہُ:::کِسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے خاوند
کی موجودگی میں ، اُس کی اِجازت کے بغیر(نفلی)روزہ رکھے،اور نہ ہی کِسی کو خاوند کی
اِجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے،اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی اِجازت کے
بغیر(اللہ کی راہ میں)کچھ خرچ کرتی ہے تو اُس کے ثواب میں سے خاوند کو بھی حصہ ملے
گا﴾صحیح البخاری/حدیث5195/کتاب
النکاح/باب86،
:::::::: (2) :::::::
﴿ لا تَصُم المَرأۃُ و بَعلُھا شاھدٌ إِلَّا بِإِذنِہِ
، ولا تأذن فی بَیتِہِ و ھُوَ شاھدٌ إِلَّا بِإِذنِہِ ، و مَا أنفَقَت مِن کَسبِہِ
مِن غَیرِ أمرِہِ فَإِنَّ نَصف َ أجرِہِ
لَہُ:::کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں،اُس کی اِجازت
کے بغیر(نفلی)روزہ نہ رکھے،اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اِجازت کے
بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے،اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی کمائی میں سے خاوند
کی اجازت کے بغیر(اللہ کی راہ میں) کچھ خرچ کرتی ہے تو اُسکے ثواب میں سے آدھا حصہ
خاوند کوملے گا (اور آدھا بیوی کو) ﴾حدیث کا پہلاحصہ،صحیح البخاری/حدیث5192/کتاب
النکاح/باب84،اورمکمل حدیث،صحیح مسلم/حدیث1026/کتاب
الزکاۃ /باب26،
::::: اِن احادیث شریفہ کی شرح اور اِن میں دیے گئے احکام کی حِکمت :::::
"""اوپر
نقل کی گئی دوسری حدیث شریف میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ﴿ اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی
اِجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ﴾تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خاوند کی غیر موجودگی
میں وہ کِسی کو بھی خاوند کے گھر میں داخل کر سکتی ہے ، بلکہ خاوند کے موجود ہونے کی
شرط کا زیادہ قریبی اور دُرست مفہوم یہ ہے کہ جب خاوند موجود ہو گا تو اُس سے اِجازت
لینا ممکن ہو گا اور اگر وہ موجود نہیں تو اُس سے اجازت نہیں لی جا سکتی تو ایسے میں
بیوی اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی،اور خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہیں کرے
گی بلکہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی کو داخل نہ کرنے کے بارے میں بیوی کو زیادہ
تاکید کے ساتھ منع کیا جائے گا،جیسا کہ دوسری احادیث شریفہ میں ایسی عورتوں کے پاس
داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے جِن کے خاوند اُن سے دُور ہوں"""،
الاِمام الحافظ ابن حَجر
العسقلانی رحمہُ اللہ تعالیٰ کی """فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب
النکاح/باب 86"""سے ماخوذ ،
اور
اِمام النووی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے """شرح صحیح مُسلم"""
میں لکھا:
"""یہ
شرط اِس لیے ہے کہ خاوند یا گھر کے دوسرے مالکان کی ملکیت میں اُنکی اجازت کے بغیر
کسی کا دخل نہ ہونے پائے،اور یہ معاملہ اُن لوگوں کے بارے میں ہے جِن کے بارے میں بیوی
کو عِلم نہ ہو کہ اُسکا خاوند اِن لوگوں کے اپنے گھر میں آنے جانے پر راضی ہے یا نہیں،
اور جِن لوگوں کے داخل ہونے کے بارے میں خاوند کی اِجازت اور رضامندی بیوی کے عِلم
میں ہے اُنہیں داخل کرنے کی اجازت دے سکتی ہے"""،
یاد
دہانی کے لیے ، اُوپر بیان کی گئی احادیث شریفہ میں سے ایک حدیث مُبارک پھر دُہراتا
ہوں تا کہ اِس معاملے کو بھی اِن شاء اللہ
دُرُست طور پر سمجھا جا سکے، اور وہ حدیث شریف یہ ہے کہ ﴿ لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، إِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ ::: اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی
تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی،بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ﴾لہذا اگر خاوند کی غیرت اور اِسلامی حمیت مر
چکی ہے اور اُسے اپنے گھر میں داخل ہونے والے اپنی بیوی کے غیر محرم مَردوں کے داخلے
پر کوئی اعتراض نہیں تو بھی بیوی خاوند کی اطاعت کے طور پر بھی اُنہیں اپنے گھر میں
داخل نہیں کرے گی،
ہونا
تو یہ چاہیے کہ بیوی اپنی حیاء اور عِفت کی حفاظت کرتے ہوئے خاوند کی غیرت کو جگائے
اور اُسے سمجھائے کہ وہ اُس کی بیوی ہے، اُس کی عِزت ہے،
لہذا
اُسے چاہیے کہ وہ اپنی عِزت کو محفوظ رکھے،اور اگر خاوند کی غیرت نہیں جاگتی تو
بیوی کو خاص طور پر اِس بات کا مکمل خیال کرنا چاہیے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں
کِسی غیر محرم کو گھر میں داخل کرنا تو بڑی بات ، پردے میں رہتے ہوئے بھی اُس کے
سامنے آنے سے بھی گریز کرے،تا کہ اُس کی عِزت و عِفت محفوظ رہے اور کِسی کو اُس پر
کوئی اِلزام ، کوئی تُہمت ، کوئی اعتراض ، کوئی داغ لگانے کا موقع بھی نہ ملے ، اللہ
تعالیٰ ہم سب مُسلمانوں کی غیرت وحیاء جو ہمیں طرح طرح کے فلسفوں،اور چکنی چپڑی باتوں ، اور
خود ساختہ آراء وغیرہ کے اندھیروں میں
بھٹکا کر ، ہم سے چھین لی گئی ہے، ہمیں واپس دِلوا دے،
::::::: خاوند کی اِجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھنے
کے حکم کی حکمت یہ ہے کہ، خاوند کے بُنیادی حقوق میں سے ہے کہ وہ جِس وقت چاہے بیوی
سے جسمانی و جنسی لذت حاصل کرے،لیکن بیوی کے روزے کی حالت میں وہ اُس کا روزہ افطار
کرنے تک ایسا نہیں کر سکے گا،اور بیوی کی یہ نفلی عِبادت اُس کے فرائض میں سے ایک فرض
یعنی خاوند کی جسمانی طلب پورا کرنا میں کوتاہی کا سبب بنے گی، جِس کے دیگر کئی
منفی اثرات اُن کی ازدواجی اور خاندانی زندگی پر بھی پڑیں گے۔
:::چھٹا حق:::خاوند کی اولاد، مال ، عِزت( جِس میں خود بیوی کی عِزت و عِفت بھی شامل ہے)کی حِفاظت کرے:::
اللہ
تبارک وتعالیٰ کا اِرشاد ہے﴿ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ:::پس نیک اور فرمان بردار عورتیں ( وہ ہیں جو )
خاوند کی غیر موجودگی میں(اُسکے اُن حقوق کی)حفاظت کرتی ہیں جو اللہ نے محفوظ قرار
دیے ہیں﴾سورت النِساء(4)/
آیت34،
:::::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے
کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ﴿ کُلُّکُمْ رَاع ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الإِمَامُ رَاع ٍ ومسؤولٌ
عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی أَھلِہِ وھُوَ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالمَرأَۃُ
رَاعِیَۃٌ فی بَیتِ زَوجِہَا ومسؤولۃٌ عن رَعِیَّتِہَا وَالخَادِمُ رَاع ٍ فی مَالِ
سَیِّدِہِ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ:::تُم میں سےہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے،اور ہر
کِسی سے اپنی اپنی رعایا(یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی)کے بارے میں
پوچھا جائے گا(یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے بارے میں اِس نگران
و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میں جواب دہ ہے)،اِمام(دِینی اور دُنیاوی
راہنما و حُکمران)اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اُسکے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا،مَرد
اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں)کے بارے میں جواب دہ ہے،اور
عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے،اور ملازم
اپنے مالک کے مال(کی حفاظت اور تمام حقوق کی ادائیگی) کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا
کے بارے میں جواب دہ ہے
﴾
قال
وَحَسِبتُ أَن قد قال:::عبداللہ
ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ﴿ وَالرَّجُلُ رَاع
ٍ فی مَالِ أبِیہِ ومسؤولٌ عَن رَعِیَّتِہِ وَکُلُّکُم رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ::: آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اپنی
رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے،اور تم سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے
میں جواب دہ ہے﴾صحیح البخاری/حدیث 853/کتاب
الجمعۃ /باب11،
::::::: محترم قارئین ، اچھی طرح سے سمجھ
لیجیے اور خُوب یاد رکھیے کہ ،عورت ذمہ دار ہے کا معنیٰ یہ نہیں کہ وہ حکمران ہے جو
اور جیسا چاہے گھر میں کرتی رہے،بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے نظم و نسق،صفائی
اور پاکیزگی کی تکمیل کرنے ،اولاد کی تربیت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کرنے،اور کھانے پینے،پہننے اوڑھنے اور دیگر
اخراجات میں خاوند کے مال کو میانہ روی اور واقعتا ضرورت کی حد تک خرچ کرنے،رہنے کی
جگہ جہاں وہ آباد ہے اُسکو خاوند اُسکے والدین اور اولاد کے لیے"""گھر
""" بنائے رکھنے کی ذمہ دار ہے،
ایسا نہ ہو کہ خاوند جب بھی اپنے ٹھکانے کی طرف واپس آتا ہو تو یہ
سوچتا ہو کہ کاش کچھ وقت اور باہر گذر جاتا تو اچھا تھا،کہ وہاں جا کر کیا ملے گا،مُنہ
جھاڑ سر پہاڑ بیوی،سلام نہ دُعا،اور شکایتوں کا ٹوکرا،کچھ کہہ دِیا تو وہ کھاناملے
گا جو مجھے پسند نہ ہو،وغیرہ وغیرہ،اِن معاملات میں سےکِسی بھی معاملے میں اگر بیوی
کوتاہی کرے گی تو وہ جواب دہ ہے ۔
::::::: ساتواں حق ::: خاوند کی خوشی اور دِل جوئی کے لیے بناؤ سنگھار کیے رہنا :::::::
:::::::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم ایک جہاد سے واپس تشریف لا رہے تھے
جب مدینہ المنورہ کے قریب پہنچے تو صحابہ جلدی جلدی مدینہ المنورہ میں داخل ہونا چاہ
رہے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا﴿ وَالرَّجُلُ أمھلُوا حَتیٰ نَدخُلَ لیلاً ۔اي عِشاءً ۔ لِکي تَمتشِط الشَّعِثۃُ
و َتستَحِد المُغِیَّبَۃُ :::اِنتظار کرو ، ہم لوگ (مدینہ المنورہ میں)رات
کے وقت داخل ہوں گے ۔یعنی عِشاءکے وقت۔تا کہ جِس عورت کے بال بگڑے ہوں وہ کنگھی
وغیرہ کر لے،اور جِس کا خاوند اُس سے دُور تھا وہ دھار دار چیز اِستعمال کر
لے(یعنی اپنے جِسم کے وہ بال جو صاف کرنے چاہیں، دھار دار چیز سے صاف کر لے) ﴾صحیح البُخاری/حدیث5245،5247/
کتاب النکاح/باب121،122،صحیح
مُسلم/کتاب الامارۃ /باب56،
چلتے چلتے ایک فائدہ بیان کرتا چلوں، اور وہ یہ کہ ،خواتین کو اپنے
جسم سے جِن بالوں کو اُتارنے کی اجازت ہے اُنہیں اتارنے کے لیے اُسترا یا لوہے کی کوئی
اور دھار دار چیز اِستعمال کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ، مزید تفصیل کے لیے میرا مضمون"""فطرت کی سنتیں"""ملاحظہ
فرمایے، اِن شاء اللہ ضروری بنیادی معلومات میں اچھے اضافہ کا سبب ہو گا
۔
اور
، محترم قارئین ، یہ حقائق بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ اگر بیوی شریعت کی پابندی میں
رہتے ہو خود کو خاوند کی خواہش کے مطابق بنا سنوارکر نہیں رکھتی تو وہ خاوندکی حق تلفی
کا گناہ بھی اُٹھاتی ہےاور اپنی ازدواجی زندگی کو بے مزہ اور تکلیف دہ بھی بناتی ہے،اور
بسا اوقات اپنی سوتن لانے کا سبب بھی بناتی ہے،یا خاوند کا برائی اور گناہ کاشکار ہو
جانے کا سبب بھی بنتی ہے،
اِس
حدیث شریف سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ شریف اِیمان دار عورتوں کا صاف ستھرا رہنا ،
سجنا سنورنا اُن کے خاوندوں کے لیے ہوتا تھا ، اور ہونا چاہیے ، لیکن اب عموماً یہ
ہوتا ہے کہ خاوند کا استقبال تو سر پر پٹی یا دوپٹہ باندھ کر ، یا دُکھ و اندوہ
والی شکل بنا کر کیا جاتا ہے ، لیکن دُوسروں کے لیے خُوب سجا جاتا ہے ۔
::::::: آٹھواں حق ::: خاوند کی خدمت کرے:::::::
بیوی
پر واجب ہے کہ وہ خاوند کی خدمت کرے یعنی اُس کے کھانے پینے،کپڑے لتے،سونے جاگنے، آنے
جانے،میں جو بھی مددمعروف طریقے پر یعنی شریعت کی حُدود میں رہتے ہوئے،اپنے ماحول اور
معاشرے کے معمول کے مطابق وہ کرسکتی ہے کرے،
عُلماء اِسلام میں اِس
معاملے پر کافی بحث کی گئی ہے کہ """بیوی پر خاوند کی ایسی(اوپر
ذِکر کی گئی)خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں """،
حسبء
معمول ، کچھ نے کہا کہ بیوی پر اِن کاموں میں سے کوئی کام کرنا واجب نہیں ، اور
کچھ نے کہا واجب ہے،
لیکن
دونوں باتوں میں سے دُوسری بات ہی دُرست ہے ،
جیسا
کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے"""مجموع الفتاویٰ"""میں لکھا کہ :
"""حق بات یہ ہی ہے کہ بیوی پر خاوند کی خدمت
کرنا واجب ہے،کیونکہ اللہ کی کتاب میں خاوند بیوی کا مالک ہے(((یعنی اللہ تعالیٰ نے
خاوند کو بیوی کا آقا قرار دِیا ہے،اِمام صاحب رحمہُ اللہ اِس آیت کی طرف اشارہ فرما
رہے ہیں﴿ وَ اَلفِیا سَیِّدَھَا عَلیَ البَابِ:::اور اُن دونوں(یعنی یُوسف علیہ السلام اور
وزیرِ مصر کی بیوی ) نے وزیرِ مصر کی بیوی کےمالک کو دروازے پر پایا ﴾سورت یوسف(12)/آیت25،
اور
یہ بات قران کریم میں بہت واضح ہے کہ دروازے پر وزیرِ مصر تھا ،جِسے اللہ تعالیٰ
نے اُسکی بیوی کا مالک فرمایا)))،
اوررسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ(یعنی حدیث شریف)کے مطابق بیوی خاوند
کی قیدی ہے(((یہاں اِمام صاحب رحمہُ اللہ نے ایک حدیث شریف کی طرف اِشارہ فرمایا ہے،اِس
حدیث شریف کا ذِکر اِن شاءاللہ آگے"""بیوی کے حقوق"""میں
آئے گا)))،
اور
یہ بات بالکل جانی پہچانی اور معمول کی ہے کہ غلام اور قیدی پر اپنے مالک و آقا کی
خدمت کرنا واجب ہوتا ہے"""،
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے ، ایک نقطہ بطورِ فائدہ ذِکر کرتا چلوں،وہ
یہ کہ،اِماموں رحمہم اللہ کے نزدیک
سُنّت اور حدیث میں کوئی فرق نہیں،کیونکہ لفظِ حدیث کا اطلاق تین مختلف چیزوں پر ہوتا
ہے:::
::: (1) :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا قول یعنی فرمان جِسے عام طور پر حدیث کہا
جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی حدیث جانا جاتا ہے،
::: (2) :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فعل یعنی کام،جِسے عام طور پر سُنّت کہا
جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی سُنّت جانا جاتا ہے،اور اِسی کم علمی کی
وجہ سے مسلمانوں میں اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث قسم کی تقسیم کروا کر اُنہیں ایک دوسرا
کا دُشمن بنا کر کفار اور اُن کے ہاتھوں میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر کھیلنے والے
اپنا اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں،
::: (3) :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِقرار، یعنی کوئی کام یا بات رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے واقع ہوئی اور اُنہوں نے اُس پر انکار نہیں فرمایا،اُس
سے منع نہیں فرمایا، مزید تفصیلات اِن شاء اللہ تعالیٰ حدیث کی اِقسام میں بیان کروں
گا،
سُنّت
کی مختصر تعریف اور اقسام """وضوء
کی سُنّتیں"""کے آغاز میں بیان کر چکا ہوں، وللہ الحمد ،
اپنے
موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرح مُلاحظہ
فرمائیے جو اُنہوں نے اپنی مشہور اور بہترین کتاب """زاد المعاد"""میں
بیان کی کہ:::
"""(نکاح
کے)ایسے معاہدے(جِس میں الگ سے کوئی شرط یا قید مقرر نہ کی گئی ہو)کا معاملہ عام معروف(یعنی
معاشرتی طور پر جانے پہچانے)معمولات کے مطابق ہوتا ہے،اور معروف معمول یہ ہی ہے کہ
بیوی خاوند کی خدمت کرے گی اور گھر کے سارے معاملات بھی نمٹائے گی،جو لوگ یہ کہتے ہیں
کہ بیوی پر خاوند کی خدمت کرنا واجب نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ فاطمہ اور أسماء(رضی
اللہ عنھما)جو خدمت کیا کرتی تھیں وہ نفلی طور پر اور بطورِ احسان تھی،اُن کی اِس بات
کا جواب یہ ہے کہ جب فاطمہ(رضی اللہ عنھا)نے اپنے خاوند کی خدمت سے تکلیف کی شکایت
کی تو اُن کے والدِ محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے(اپنے داماد)علی(رضی
اللہ عنہ ُ) سے یہ نہیں فرمایا کہ"""اِس پر تمہاری خدمت واجب نہیں،اپنے
کام خود کِیا کرو"""،
اور
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے أسماء بنت ابو بکر (رضی اللہ عنھما)کو
دیکھا کہ وہ اپنے سر پر چارا اُٹھائے جا رہی ہیں اور(اُن کے خاوند)ز ُبیر(بن العوام
رضی اللہ عنہ ُ)اُن کے ساتھ چل رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےز
ُبیر(بن العوام رضی اللہ عنہ ُ )سے یہ نہیں فرمایا کہ"""اِس پر تمہاری
خدمت کرنا واجب نہیں ، یا یہ کہ یہ ظلم ہے"""،
بلکہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ز ُبیر(بن العوام رضی اللہ عنہ ُ)کے لیے
اور اپنے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے یہ قُبُول فرمایا کہ وہ اپنی بیویوں
سے اپنی خدمت کروایں اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ڈھکی چھپی
نہیں تھی کہ اُن بیویوں میں سے کچھ اِس خدمت کرنےپر راضی ہیں تو کچھ ناراض بھی ہیں"""،
لہذا
دُرُست بات یہ ہی ہے کہ بیوی پرمعروف طریقے پر یعنی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، اپنے
ماحول اور معاشرے کے معمول کے مطابق خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے۔
::::::: نواں حق ::: خاوند کی شُکر گذار رہے ، اُسکی بڑائی اور برتری کا اِنکار نہ کرے ، اور بہترین طور پر اُسکے ساتھ وقت گذارے:::::::
::::::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت
جِس میں سُورج گرھن اور نماز ِ کسوف یعنی سُورج گرھن کے وقت پڑھی جانے والی نماز کا
ذِکر ہے،
[[[سُورج اور چاند گرھن کی نماز کے
بارے میں ایک الگ مضمون نشر کیا جا چکا ہے ،وللہ الحمد ]]]
اُس
روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دوران نماز اُنہیں دِکھائی جانے
والی چیزوں کا بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿ ،،،، وَأُرِیت ُ النَّارَ فلم أَرَ مَنظَرًا کَالیَومِ
قَطُّ أَفظَعَ وَرَأَیتُ أَکثَرَ أَھلِہَا النِّسَاء::: ،،،،،، اور مجھے جہنم دِکھائی گئی،پس آج کے منظر
سے بڑھ کر خوفناک منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، اور میں نے دیکھا کہ جہنم میں
اکثریت عورتوں کی
پایا ﴾،
صحابہ
رضی اللہ عنہم نے پوچھا"""اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے؟"""،
تو
اِرشاد فرمایا ﴿بِکُفرِھِنَّ::: اُن کے کُفر کی وجہ سے﴾،
پوچھا
گیا"""کیا عورتیں اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟"""،
تو
اِرشاد فرمایا﴿یَکفُرنَ العَشِیرَ وَیَکفُرنَ الإِحسَانَ لو أَحسَنتَ
إلی إِحدَاھُنَّ الدَّھرَ کُلَّہ ُ ثُمَّ رَأَت مِنکَ شَّیئًا قَالت مَا رَأیت ُ
مِنکَ خَیرًا قَطُّ:::خاوند کی ناشکری کرتی ہیں،اور احسان کی ناشکری
کرتی ہیں،اگر تُم اُس(یعنی بیوی)کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہو اور پھر کبھی اُسے
تمہاری طرف سے کوئی(تکلیف دہ کام یا)چیز ملے تو کہتی ہے،میں کبھی بھی تمہاری طرف سے
خیر نہیں پائی﴾صحیح البخاری/حدیث1004/کتاب
الکسوف/باب9،صحیح مسلم/حدیث907/کتاب
الکسوف/باب3،
اِس حدیث شریف میں
عورتوں کی بحیثیت بیوی ایک ایسی عادت کا ذِکر کیا گیا ہے جو تقریباً ہر کِسی کے مشاھدے
میں ہے،اور وہ ہے خاوند کی ناشکری کرنا اور کبھی کبھار ظاہر ہونے والی کِسی تکلیف دہ
یا زیادتی والی بات یا کام پر خاوند کی طرف سے ہمیشہ ملنے والے احسان اور محبت کا انکار
کرنا اور یہ الزام لگا دینا کہ تم ہمیشہ کے بُرے اور ظالم ہو،
اور
یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کفر یعنی اِنکار عورتوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بڑے اسباب
میں سے ایک ہے،
اور
یہ سبق دِیا گیا ہے کہ ہر مُسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی شکر گذاری کرتی
رہے اور خوامخواہ بلا سبب اُس کے احسان اور محبت کا کفریعنی انکار نہ کرے،اور اللہ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے جو بڑائی اور برتری خاوند کو
دی گئی ہے اُس کا اقرار قول و فعل سے کرتی رہے،اور اگر ایسا نہیں کرتی تو درحقیقت وہ
خاوند کی اُس حیثیت کا نہیں بلکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے
حکموں کا کفر یعنی اِنکار کرتی ہے ۔
::::: ایک نصیحت :::::
میری مُسلمان،بہنو،بیٹیو،جو کچھ اِس مضمون میں بیان کیا گیا ہے،وہ میری
اپنی طرف سے نہیں، بلکہ اللہ جلّ جلالہُ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے فرامین کی بنیاد پر ہے،
پس ایک اچھے مسلمان کی طرح آپ سب کو یہ باتیں قُبُول کرنا اور اِن
کے مُطابق عمل کرنا چاہیے ،
اگر
آپ ایک اچھی تابع فرمان بیوی بنیں گی،اور گھر اور گھرانے کو بنا ئے اور جوڑے رکھیں
گی،تو آپ گھر گُلشن کا گُلاب ہیں،جِس کو ہر ایک محبت اور احترام سے دیکھتا ہے اور
جِس کی خوشبو ہر کِسی کو اُس کو اسیر کیے رکھتی ہے،اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گی،تو،آپ
باغِ حیات میں بھبھُول کا جھاڑ ہیں جِس کے کانٹوں کی اذیت سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے
اور جِس کی بدبو سے ہر کوئی دُور بھاگتا ہے،اور جِس کو اپنی زندگی سے خارج کرنے کی
خواہش ہر کوئی رکھتا ہے اور موقع ملتے ہی اپنی یہ خواہش پوری کر لیتا ہے ،
دُنیا
کی زندگی میں تو یہ معاملہ رہے گا اور آخرت میں بھی یقینا دُنیا میں کیے گئے کاموں
کے مُطابق ہی ثواب اور عذاب ملے گا،پہلے حق کے ضمن میں نقل کی گئی دوسری حدیث شریف
کوایک دفعہ پھر پڑہیے،ثواب کا معاملہ اچھی طرح سے سمجھ میں آ جائے گا، اورابھی ابھی
نویں(9)حق کے ضمن میں نقل گئی حدیث مُبارک کو بھی ، عذاب کا معاملہ واضح ہو
جائے گا ، اِن شاء اللہ تعالیٰ،
جو
چیز دُنیا میں خیر والی ہے اِن شاء اللہ تعالیٰ اُس کا انجام آخرت میں بھی خیر والا
ہی ہو گا،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس فرمان مبارک پر غور فرمائیے﴿ الدُّنیَا مَتَاعٌ وَخَیرُ مَتَاعِ الدُّنیَا المَرأَۃُ الصَّالِحَۃُ ::: دُنیا(آخرت کا)سامان ہے اور اِس سامان میں سب
سے زیادہ خیر والی چیز صالح(نیکو کار) عورت ہے ﴾صحیح مسلم/حدیث1467/کتاب
الرضاع/باب17،
میری
مُسلمان بہنو، بیٹیو کوشش کیجیے کہ یہ فرمان آپ پر پورا ہو تا کہ آپ دُنیا اور آخرت
میں سب سے زیادہ خیر والی ہوجائیں،اور اپنے لیے اور اپنوں کے لیے دُنیا اور آخرت میں
عِزت اور سکون کا سبب بنیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: خاوند پر بیوی کے حقوق :::::::
بلا
شک"""خاوند جی """کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیوی پر
برتری اور أفضلیت عطاء فرمائی ہے ، اپنے کلام پاک میں اور اپنے رسول کریم محمد صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے خاوند کو بیای کا ملاک اور آقا قرار
فرمایا ہے ،
لیکن حضرت خاوند جی کو یہ اجازت
نہیں دی کہ وہ اپنی اِس برتری کو جب،جہاں اور جیسے چاہے اِستعمال کرتے پِھریں،
جِس
اکیلے لاشریک خالق و مالک نے جیسے چاہا خاوند کو برتری عطاء فرمائی ،اِسی اکیلے لا
شریک خالق و مالک نے اپنے مکمل ، بے عیب
عِلم اور رحمت و شفقت والی حِکمت کے مطابق جیسے چاہا خاوندکو اپنی طرف سے دی گئی برتری
کے اِستعمال کے لیے حُدود مقرر فرما دِیں ،
اور وہ اللہ جلّ شانہُ ہی ہے جو اکیلا لا شریک خالق ہے اور اُس کے عِلاوہ
ہر کوئی اُس کی مخلوق ہے،اور خالق اپنی مخلوق کے بارے میں کِسی بھی دوسری مخلوق سے
بڑھ کر یقینی عِلم رکھنے والا ہے اور زبردست حِکمت والا ہے ،
پس
اپنی حِکمت سے اُس نے خاوند کو عظمت عطاء فرمائی اور اپنی حِکمت سے اُس کے لیے حُدود مقرر فرمائیں
اور اپنی کتاب قران کریم میں بھی اُن کو ذِکر فرمایااور اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے بھی جب چاہا اُن حُدود کو بیان کروایا،
حضرات
خاوند صاحبان اپنی برتری کی سرشاری میں یہ مت بھولیں کہ اُنکے اکیلے لا شریک خالق و
مالک نے اُنہیں برتری عطاء فرمانے سے پہلے اُنہیں، اُن کی بیویوں کے بارے میں یہ
حکم بھی فرمایا ہے کہ ﴿ وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلِیھِنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی(حق)ہے جیسا کہ
اُن پر (مَردوں کاحق)ہے ﴾،
اور
پھر اِس کے بعد یہ بتایا ہے کہ ﴿ولِلرِّجَالِ عَلِیھِنَّ
دَرجۃٌ:::اور(اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ)عورتوں پر
مَردوں کا درجہ(بلند)ہے ﴾سورت البقرۃ(2)/آیت
228،
اور
خاوند کے لیے حُکم فرمایا﴿ وَ عاشِرُوھُنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور اُن کے ساتھ نیکی والا رویہ رکھتا ہوئے زندگی
بسرکرو﴾سورت النساء(4)/آیت4،
::::::: عاشر کا لفظیٰ معنی ٰ :::::::
مل
جل کر زندگی بسر کرنا بنتا ہے،اور میل جول بُرائی اور ظُلم والا بھی ہوتا ہے اور نیکی
اور بھلائی والا بھی،اللہ تعالیٰ نے خاوندوں کو یہ حُکم دِیا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ
نیکی،بھلائی اور خیر والی زندگی بسر کریں،نہ کہ بُرائی اور ظُلم والی،یہ ایک عام اجمالی
حُکم ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو ڈھانپ لیتا ہے،اورمزید وضاحت کے ساتھ اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے احکام صادر فرمائے، آئیے اُن کا مُطالعہ کرتے ہیں
،
::::::: پہلا حق ::: بیوی کا مہر ادا کرنا ::::::
اللہ
سُبحانہُ و تعالیٰ کا حُکم ہے﴿ وَآتُوا النَّسَاء
صَدُقَاتِہِنَّ نِحلَۃً:::اور بیویوںکو اُن کا مہر ادا راضی خوشی ادا کرو﴾سورت النساء(4)/آیت4،
اور
مزید حُکم فرمایا ہے کہ﴿فَمَا استَمتَعتُم بِہِ مِنہُنَّ فَآتُوھُنَّ أُجُورَھُنَّ
فَرِیضَۃ:::اور جو تُم نے اُن سے (جنسی) لذت اور فائدہ
حاصل کیا ہے اُس کے لیے اُن کی قیمت(مہر)ادا کرو ، یہ تُم پر فرض ہے ﴾سورت النساء(4)/آیت24،
اور
مزید حُکم فرمایا ہے کہ﴿فَانکِحُوھُنَّ بِإِذنِ أَھلِہِنَّ وَآتُوھُنَّ
أُجُورَھُنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور عورتوں سے اُن کے گھر والوں کی اِجازت سے
نکاح کرو اور اُن عورتوں کو اُن کی قیمت (مہر)معروف طریقے پر ادا کرو﴾سورت النساء(4)/آیت27،
:::::: مہر کی ادائیگی کا بنیادی مسئلہ ::::::
عورت
اپنے نکاح کے لیے اپنا جو مہر مقرر کرے اور جِس پر اُس سے نکاح کرنے والا اتفاق کر
لے وہ مہر اُس عورت کا خاوند پر حق ہو جاتا ہے،ہم بستری ہو چکنے کی صُورت میں وہ خاوند
وہ مہر ادا کرنے کا ذمہ دار ہے ، فوراً یا بعد میں جیسے بھی نکاح سےپہلے اتفاق ہوا
تھا،
الحمد للہ ، حق مہر کے
بارے میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان """عورت
کا مہر ، شرعی قدر و قیمت اور احکام """ الگ سے نشر کر چکا
ہوں۔
::: أہم فوائد :::
اُوپر ذِکر کی گئی آیات مُبارکہ میں سے دُوسری آیت مکمل پڑی جائے
تو اہل تشیع یعنی شعیہ اور رافضیوں کے ہاں جائز اور حلال قرار دیے جانےو الے """متعہ"""کا حرام
ہونا ثابت ہوتا ہے،
اور آخری آیت مُبارکہ کورٹ میرج اورکِسی عورت کا اپنے گھر والوں کی
اِجازت کے بغیر نکاح کرنے کو حرام قرار دینے کے دلائل میں سے ایک ہے ،
::::::: دوسرا حق ::: خاوند بھی خود کو بیوی کے لیے صاف سُتھرا اور بنا سنوار کر رکھے::::::
اُوپر
بیان کی گئی دو میں سے پہلی آیت مُبارکہ کی تفسیر میں،مُفسرِ قُران عبداللہ ابن عباس
رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے"""مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں اپنی
بیوی کے لیے خود کو بنا سنوار کر رکھوں جیسا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے
لیے بنی سنوری رہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ﴿ وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلِیھِنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور عورتوں کے لیے بھی ویسا ہی(حق) ہے جیسا
کہ اُن پر (مَردوں کاحق)ہے ﴾"""تفسیرابن
کثیر/سورت
البقرۃ(2)/آیت228،
::::::: تیسرا حق ::: نرمی والا رویہ رکھے اور اُسے (بلا حق ) تکلیف اور اذیت نہ پہنچائے:::::::
بیوی
کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حُکم
کی نافرمانی کے عِلاوہ اگر کِسی اور معاملے میں اُس سے کوئی غلطی،کوتاہی وغیرہ ہوتی
ہو تو خاوند اُسکے ساتھ نرمی والا رویہ رکھے اُس پر سختی نہ کرے اور ز ُبان یا ہاتھ
سے یا کِسی بھی طور اُسے دُکھ یا اذیت نہ پہنچائے، اوراُس کی غلطیوں اور کوتاہیوں
پر صبر کرتے ہوئے اُسے سمجھاتا رہے،اور اُسکی غلطیوں اورکوتاہیوں پر صبر کرنے کے
لیے اُسکی نیکیوں اور اچھائیوں کی طرف توجہ کرے،
:::::::::
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے اُمتیوں کو تعلیم او
رتربیت فرمایا ہے کہ﴿لَا یَفرَک مُؤمِنٌ مؤمنۃٌ إن کَرِہَ مِنہَا خُلُقًا رَضِی مِنہَا آخَرَ:::کوئی اِیمان والا(خاوند)کِسی اِیمان والی
(بیوی)کو غُصہ (و غم) نہیں دِلاتا ، اگر اُس(بیوی)کا کوئی کام خاوند کو نا پسند ہو
تو (وہ یہ خیال کرے کہ اُس بیوی کا)کوئی دُوسرا کام پسند والا بھی تو ہو گا ﴾صحیح مُسلم/حدیث1469/کتاب
الرضاع/باب18،
::::::::: اور جیسا کہ ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ
ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پوچھا"""اے اللہ کے
رسول ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے ؟"""،
تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿أَن تُطعِمَہَا إذ طَعِمتَ وَتَکسُوَھَا إذا اکتَسَیتَ أو اکتَسَبتَ ولا تَضرِب
الوَجہَ ولا تُقَبِّح ولا تَہجُر إلا فی البَیتِ ::: (بیوی کا حق )یہ ہے کہ جب تُم کھاؤ تو اُسے بھی
کِھلاؤ اور جب تُم(نئے)کپڑے پہنو یا کمائی کرو تو اُسے بھی پہناؤ،اور نہ اُسکے چہرے
پر مارو،اور نہ اُسکے لیے(کچھ)بُرا ہونے کی دُعاء کرو،اور نہ ہی گھر سے باہرکہیں اُسکو
خود سے الگ کرو﴾سُنن ابی داؤد/حدیث2142/کتاب
النکاح/باب42، مُسند احمد/حدیث20025/ حدیث حکیم بن معاویہ/پہلی
روایت،سنن ابن ماجہ/حدیث1850/کتاب النکاح/باب3،إِمام
الالبانی رحمہُ اللہ نےکہا
حدیث حسن صحیح ہے۔
:::::::چوتھا حق ::: اُسے دِینی معاملات(اللہ کی توحید،طہارت ونجاست ، حلال وحرام جائز و ناجائز وغیرہ)سِکھائے ، اور اُن کے مُطابق زندگی بسر کرنے میں اُس کی مدد کرے ::::::
جی
ہاں،یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اُس کی دِینی تعلیم و تربیت میں واقع کمی
پورا کرے،لیکن،،،،،افسوس،صد افسوس کہ آج کتنے مُسلمان مَرد ایسے ہیں جو دادا،
نانا تک بن جاتے ہیں لیکن اپنے دِین اِسلام کے وہ احکام بھی ٹھیک طور پر نہیں جانتے
جِن کو جاننا اُن پر بالغ ہونے سےفرض تھا ،چہ جائیکہ وہ کِسی اور کو
سِکھائیں،دُنیا داری کا ہر کام، یا یقیناً وہ کام جِس میں کوئی فائدہ متوقع ہو
ضرور سِیکھا اور سِیکھایا جاتا ہے ، لیکن دِین سیکھنے اور سِکھانے کے لیے نہ فُرصت
ہے اور نہ ہی ضرورت محسوس ہوتی کی جاتی ہے ، اگر
کبھی کوئی مسئلہ آن پڑا تو مولوی صاحب زندہ باد، جو کہہ دیا مان لیا،اگر
کسی کی بات دِل نہٰں لگتی تو اپنی مرضی کا فتویٰ دینے والے مولوی صاحب بھی با
آسانی مل جاتے ہیں ، لہذا کیا ضرورت ہے خوامخواہ
سیکھنے اور پھر سکھانے کادرد سر مول لینے کی، اِنّا لِلِّہِ و اِنِّا اِلیہِ
راجِعُون،
اللہ
تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے(اِس موضوع پر کچھ بات"""قیامت کی نشانیوں"""والی
مجلس میں ہو چکی ہے)،تو یہ بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ اُسے اللہ کی توحید اور اُس کے
دِین کی تعلیم دِی جائے ،نہ کہ لوگوں کے"""مذاہب و مسالک"""کی
تعلیم و تربیت دی جائے،
یاد
رکھیے کہ جو اللہ پر اِیمان لائے ہیں اُن کے رب اللہ جلّ و عزّ نے پُکار کر یہ
حُکم فرمایا ہے کہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا حُکم
ہے﴿یَآ أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُم وَأَھلِیکُم نَاراً وَقُودُھَا
النَّاسُ وَالحِجَارَۃُ:::اے إِیمان لانے والو، اپنی جانوں اور اپنے
گھر والوں کو(جہنم کی)آگ سے بچاؤ (کہ وہ ایسی آگ ہے )جِس کا ایندھن اِنسان اور
پتھر ہیں ﴾سورت التحریم(66)/آیت6،
اللہ سُبحانہ ُ و
تعالیٰ کی ناراضگی،اللہ کے عذاب،جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو
بچانے کے حُکم پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اِنسان اللہ کی توحید کا،اللہ اور رسول
اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کا،صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
کی سمجھ کے مُطابق عِلم حاصل کرے،اُسکا قولی اور عملی طور پراِقرار کرے اور اُس پر
عمل کرے،کیونکہ جہنم کی آگ سے بچنے کا اِس کے عِلاوہ اورکوئی ذریعہ نہیں،کہ اللہ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غیر مشروط اور صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین کے فہم مُطابق تابع فرمانی کی جائے ، نہ کہ اپنی فلسفہ ، منطق ، علم الکلام
اور مادی علوم کی ماری ہوئی عقلوں کے مُطابق دِین کو سمجھنے کی کوشش میں اپنی آخرت
تباہ کی جائے ۔
::::::: پانچواں حق :::بیوی کو گُناہوں سے بچائے رکھنا،اُس کی عِزت و عِفت کی حفاظت کرنا ::::::
عبداللہ
ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ﴿ کُلُّکُمْ رَاع
ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الإِمَامُ رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ
رَاع ٍ فی أَھلِہِ وھُوَ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ ،،،،،،:::تُم میں سےہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے،اور ہر
کِسی سے اپنی اپنی رعایا(یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی)کے بارے میں
پوچھا جائے گا(یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے بارے میں اِس نگران
و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میں جواب دہ ہے)،اِمام(دِینی اور دُنیاوی
راہنما و حُکمران)اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اُسکے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا،مَرد
اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں)کے بارے میں جواب دہ ہے،،،،،﴾صحیح البخاری/حدیث853/کتاب الجمعۃ/باب11،
(مکمل حدیث، اور اِس کی
شرح """خاوند کے حقوق"""میں سے چھٹےحق(حق 6)میں
ذِکر کی جا چکی ہے)،
چونکہ
مَرد اپنے گھر والوں کے اعمال کے بارے میں جواب دہ ہوگا لہذا اُس کے گھر والوں کا اُس
پر حق بنتا ہے کہ وہ اُن کو گناہوں سے بچائے اور اُن کی عِزت و عِفت کی حفاظت کرے،اور
بیوی گھر والوں میں سب سے پہلی ہوتی ہے ۔
::::::: چھٹا حق :::کھانے پینے،پہننے اوڑھنے وغیرہ کی ضرورت کو جائز حُدود میں رہتے ہوئے پورا کرنا :::::::
::::::: ساتواں حق ::: اپنے رہائشی معیار کے مُطابق رہائش مہیا کرنا:::::::
اللہ
تبارک و تعالیٰ کا حُکم ہے﴿ وَعلَی المَولُودِ
لَہُ رِزقُہُنَّ وَکِسوَتُہُنَّ بِالمَعرُوفِ لاَ تُکَلَّف ُ نَفسٌ إِلاَّ وُسعَہَا ::: اور بچے کے باپ پرفرض ہے کہ اُن عورتوں (بچے کی
ماں ، بیوی یا باندی ) کا کھانا پینا اور پہننا اوڑہنا نیکی (اور اپنی استطاعت) کے
مُطابق پورا کرے کِسی جان کو اُس کی استطاعت سے زیادہ کا پابند نہیں کیا جائے﴾سورت البقرۃ (2)/آیت233،
اِمام
ابن کثیر رحمہُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں لکھا :
"""اِس
کا مطلب ہے کہ بچوں کے باپ پر اپنی خوشحالی اورتنگی دونوں ہی حال میں،بچوں کی ماؤں
کا کھانے پینے اور پہننے وغیرہ کا خرچہ اُٹھانا فرض ہے،جِس طرح معاشرے میں اُن جیسی
دُوسری عورتوں کا خرچ ہوتا ہے،لیکن کِسی قِسم کی فضول خرچی کیے بغیر اور تنگی دیے بغیر"""،
اللہ
جلّ ثناوہُ نے بیویوں کے حقوق کے بارے میں مزید اِرشاد فرمایا ہے کہ﴿ لِیُنفِق ذُو سَعَۃٍ مِّن سَعَتِہِ وَمَن قُدِرَ
عَلَیہِ رِزقُہُ فَلیُنفِق مِمَّا آتَاہُ اللَّہُ لَا یُکَلِّف ُ اللَّہُ نَفساً إِلَّا
مَا آتَاھَا سَیَجعَلُ اللَّہُ بَعدَ عُسرٍ یُسراً::: تا کہ مالدار اپنے مال میں سے(بیویوں)پر خرچ کرے
اور جِس کا رزق تنگ کیا گیا ہے وہ بھی اُس میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اُسے دِیا ہے
اللہ نے جِس کو جتنا دیتاہے اُسی کے مُطابق پابند کرتاہے ، جلد ہی اللہ تنگی کے بعد
آسانی کر دے گا﴾سورت الطلاق(65)/آیت7،
اور
یہ بھی حُکم فرمایا کہ﴿أَسکِنُوھُنَّ مِن حَیثُ سَکَنتُم مِّن وُجدِکُم
وَلَا تُضَارُّوھُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیہِنَّ:::جہاں تُم لوگ خود رہتے ہو وہاں اُنہیں(یعنی اپنی
بیویوں)بھی رکھو اور اُن پر تنگی کرنے کے لیے اُن کے حقوق کی ادائیگی میں کمی مت کرو﴾سورت الطلاق(65)/آیت6،
قران
کریم کے ساتھ ساتھ سُنّت شریفہ میں سے اِس کی ایک دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کا وہ فرمان بھی ہے جو دوسرے حق میں ذِکر کیا گیا،
اور
دُوسری دلیل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے حج کے عظیم خُطبہ
میں جِسے عام طور پر"""خُطبہ حج الوِداع"""کہا جاتا
ہے،اُس خطبہ شریفہ میں اِرشاد فرمایا﴿ فَاتَّقُوا اللَّہَ
فی النِّسَاء ِ فَإِنَّکُم أَخَذتُمُوھُنَّ بِأَمَانِ اللَّہِ وَاستَحلَلتُم فُرُوجَہُنَّ
بِکَلِمَۃِ اللَّہِ وَلَکُم عَلَیہِنَّ أَن
لَا یُوطِئنَ فُرُشَکُم أَحَدًا تَکرَھُونَہُ فَإِن فَعَلنَ ذلک فَاضرِبُوھُنَّ ضَربًا
غیر مُبَرِّحٍ وَلَہُنَّ عَلَیکُم رِزقُہُنَّ وَکِسوَتُہُنَّ بِالمَعرُوفِ:::اور بیویوں کے معاملات میں اللہ(کی ناراضگی)سے
بچو کیونکہ تُم نے اُن کو اللہ کی حفاظت کے ساتھ لیا ہے اور اُن کی شرمگاہوں کو اللہ
کی اجازت سے(اپنے لیے)حلال کیا ہے اور اُن پر تُمہارا حق ہے کہ وہ کِسی ایسے(مرد یا
عورت)کو تُمہارے گھر میں نہ آنے دیں جو تُمہیں پسند نہ ہو،اور اگر وہ ایسا کریں تو
ایسی مار مارو جوخطرناک نہ ہو،اور اُن کاحق ہے تُم پر کہ اُن کا کھانا پینا اور پہننا
اوڑھنا معروف طریقے پر پورا کرو﴾صحیح مُسلم/حدیث1218/کتاب
الحج/باب 19حجۃ النبی صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ۔
مندرجہ
بالا پہلی دو آیات مُبارکہ گو کہ اُن بیویوں کے بارے میں جنہیں طلاق دی جا چکی ہو،لیکن
ابھی وہ خاوند کی ذمہ داری میں ہوں،شرعاً علیحدگی نہ ہوئی ہو،لیکن حُکم اُن بیویوں
کے بارے میں بھی ہے جِن کو طلاق نہ دی گئی ہو،کیونکہ وہ بھی خاوند کی ذمہ داری میں
ہوتی ہیں،اِن مندرجہ بالا تینوں آیات مُبارکہ میں اللہ کی طرف سے یہ حُکم دیے گئے
ہیں کہ خاوند اپنی بیویوں کو کھانے پینے، پہننے اوڑھنے،اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو
پورا کرنے کے لیے پیسے دیں یا خود ذمہ داری کے ساتھ وہ ضروریات پوری کریں،اور اپنے
رہائشی معیار کے مُطابق رہائش مہیا کریں،
اور یقینا یہ حقوق صِرف جائز طور پر یعنی شریعت کی حُدود میں رہتے ہوئے
پورے کیے جائیں گے ،بیوی کی ہر خواہش کو ضرورت سمجھ کر حلال و حرام کی تمیز رکھے بغیر
پورا کرنا اُس کا حق نہیں ہے، بلکہ اگر بیوی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے حلال و
حرام کی تمیز نہ رکھے تو اُسے اُس کی غلطی کے بارے میں سمجھانا او رسکھانا اُس کا
حق ہے جیسا کہ ابھی چوتھے اور پانچویں حق میں بیان کیا گیا ہے ۔
::::: بیوی بچوں کی جائز ضرویارت کے خرچے کے بارے میں ایک أہم اور بنیادی مسئلہ :::::
اگر کوئی خاوند اپنی بیوی بچوں کی جائز ضروریات کنجوسی
کی وجہ سے پوری نہیں کرتا تو بیوی کو اجازت ہے کہ وہ خاوند کے مال میں سے اُس کی اجازت
اور عِلم کے بغیر اپنی اور اپنی اولاد کی جائز ضروریات پورا کرنے کے لیے کچھ مال لے
لیا کرے ،
::::: دلیل ::::: ہند بنت عُتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کیا"""میرا خاوند ابو سُفیان(رضی
اللہ عنہ ُ)کنجوسی کرتا ہے اور میری اور میری اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مُناسب
مال نہیں دیتا،اگر میں اُس کے عِلم میں لائے بغیر اُس کے مال میں سے کچھ نکال نہ لیا
کروں تو(ہماری ضروریات پوری نہ ہوں)،
تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿ خُذِی ما یَکفِیکِ وَوَلَدَکِ بِالمَعرُوفِ:::اُتنا (مال)لے لیا کرو جو تُمہاری اور تمہاری
اولاد کی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو﴾صحیح البُخاری/کتاب النفقات/باب9 ،
اِس حدیث شریف کو پڑھ کر خواتین کو خوش ہونے سے پہلے یہ ضرور سمجھنا
چاہیے کہ صِرف
جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے خاوند کو پابند کیا گیا ہے،اور صِرف جائز ضروریات کو
پورا کرنے کے لیے بلا اِجازت اُس کامال لینے کی اجازت دی گئی ہے،اور جائز و ناجائز
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور مقرر کردہ حدود کے مُطابق
ہوتا ہے،اپنی سوچ سمجھ،معاشرتی عادات یا خاندانی مجبوریوں کی بِناء پر نہیں،
اور ہم سب کو یہ بھی سمجھ رکھنا چاہیے کہ اِس حدیث شریف میں صِرف بیویوں کو اُن کی
اور اُن کی اولاد کی شرعی طور پر جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے خاوند اور
اُس اولاد کے باپ کے مال میں سے بلا اِجازت اور بلا اطلاع کچھ مال لینے اور خرچ
کرنے کی اِجازت عطاء فرمائی گئی ہے ، کِسی کے لیے کِسی کا بھی مال لے کر اپنی کوئی
سی بھی ضروریات پوری کرنے کی نہیں ،
::::: حدود سے تجاوز کا خوفناک نتیجہ :::::
اگر بیویاں اپنے خاوند کی استطاعت سے بڑھ کر اُس
پر بوجھ ڈالیں اور بغیر ضرورت کے مُطالبات کرتی رہیں تو اُس کا خوفناک نتیجہ صِرف اُن
کے خاندان تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ سارے معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے،کیونکہ معاشرے
میں مالی تغیرات کا دارومدار مَردوں کی مالی اور معاشی سرگرمیوں پر ہوتا ہے اور جب
مَردوں کو اپنی اپنی استطاعت سے بڑھ کر مُطالبات و خواہشات پوری کرنا پڑتی ہیں تو پھر
حلال و حرام،جائز و ناجائز،حق و نا حق کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اورہر کوئی صِرف مال
حاصل کر نے کے چکر میں مصروف نظر آتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے،
جیسا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا﴿ إِنَّ أوَل مَا ھَلکَ بَنو إِسرَائِیلَ أنَّ اِمرَأۃَ الفَقِیر کَانت تَکلِفُہُ
مِن الثَّیابِ أو الصَّیغِ _ أو قَال مِن الصَّیغَۃِ _ مَا تَکلِف ُ اِمرَأۃُ الغَنِی:::بنی اِسرائیل کو تباہ کرنے والی پہلی چیز یہ تھی
کہ غریب آدمی کی بیوی اُس پر اپنے کپڑے لتے کا اُتنا ہی خرچ ڈالتی تھی جتنا کہ امیر
آدمی کی بیوی ﴾سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ/حدیث591،
::::::: آٹھواں حق ::: بیوی کی جسمانی(جِنسی)ضرورت کا خیال رکھنا اور اُسے پورا کرنا::::::
جِس
طرح فِطری طور پر مَرد کو جِنسی تسکین کی ضرورت ہوتی ہے اِسی طرح عورت کو بھی ہوتی
ہے،اور مَرد کی طرح ہی وہ بھی اپنی جسمانی(جِنسی)خواہش کی تکمیل چاہتی ہے،جِس طرح بیوی
پر خاوند کا حق ہے کہ وہ خاوند کو کِسی بھی حال میں اِس تعلق داری سے نہ روکے،جیسا
کہ خاوند کے حقوق میں سے حق رقم 3میں بیان کر چُکا ہوں ، بالکل اُسی طرح خاوند
پر بیوی کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اِس معاملے میں پُر سُکون رکھے،صِرف اپنی
خواہش پوری کرنے کو،اُلٹی سیدھی حرکات کر کے بیوی کو تکلیف زدہ کرنے کو ، ہر سال بچہ
پیدا ہو جانے کو ہی بیوی کی تسکین نہ سمجھے بلکہ اپنی بیوی کی اِس انتہائی اہم فِطری
ضرورت کا مکمل احساس حاصل کرے اور مکمل خبر رکھتے ہوئے اپنی بیوی کی یہ ضرورت پوری
کرے،
اگر
خاوند بیوی کی یہ ضرورت ٹھیک طرح سے پوری نہ کر پائے،تو پھر شیطان کا داؤ خوب چلتا
ہے اور گُناہ کا راستہ کُھلتا ہے،اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کی عِزت و عِفت کو محفوظ رکھے،
یا
ازداوجی زندگی میں ایسی بے سکونی رہتی ہے جِس کا بظاہر کوئی سبب بھی دِکھائی نہیں دیتا،کیونکہ
وہ بے سُکون عورت اندر ہی اندر جلتی کُڑھتی رہتی ہے جس کے سبب کا وہ اظہار نہیں کر پاتی لیکن اُس کی جلن مختلف انداز میں ظاہر ہوتی
رہتی ہے،اور خاندانی زندگی راحت و سُکون سے عاری رہتی ہے،اور"""خاوند
جی"""اپنی کمزوری یا نااھلی جانے بغیر، محض مَرد ہونے کی بِنا پر
اپنی بیوی کو بُرا کہتے اور بتاتے رہتے ہیں ،اور،اور،اور،،،،،،،،،،،،،،،،
::::::::: عُثمان بن معظون رضی اللہ عنہ ُ کا واقعہ معروف
ہے کہ اُنہوں نے عِبادت کے لیے خود کو فارغ کر رکھا تھا، اِس کی خبر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہوئی تو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم خود
بذات شریف اُن کے پاس تشریف لے گئے اور اِرشاد فرمایا﴿ یا عُثمانُ إِنِّی لَم أُومر بِالرَّھبَانِیۃِ ، أَرَغِبتَ عَن سُنَّتِی ؟::: اے عُثمان مجھے راہبانیت کا حُکم نہیں دِیا
گیا ، کیا تُم میری سُنّت سے مُنہ پھیرو گے ؟ ﴾،
عُثمان
رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """نہیں اے اللہ کے رسول"""،
تو
اِرشادفرمایا﴿ إِنَّ مِن سُنَّتی أن أُصلي و أَنام ، و أصُوم َ و أُطعَم ، و أنکِحَ و أُطلِّقَ
، فَمَن رَغِبَ عَن سُنَّتِی فَلَیسَ منِّی ، یا عُثمان ، إِنَّ لِأھلِکَ عَلِیکَ
حقاً ، و إِنَّ لِنَفسِکَ عَلِیکَ حَقاً:::میری سُنّت میں سے یہ ہے کہ میں سوتا بھی ہوں
اور جاگتا بھی ہوں ، اور روزہ رکھتا ہوں تو افطار بھی رہتا ہوں، اور نکاح بھی کرتا
ہوں تو کبھی اِس کے بغیر بھی رہتا ہوں،لہذا
جِس نے میری سُنّت سے مُنہ پھیرا تو وہ مجھ سے نہیں،اے عُثمان یقینا تمہاری بیوی کا
تُم پر حق ہے اور تُمہاری جان کا تُم پر حق ہے﴾سُنن الدارمی/حدیث 6169/
و مِن کتاب النکاح/باب3 کی حدیث3،
حدیث حسن ہے،السلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،چوتھی جلد/صفحہ387،
[[[اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں ہمارے
یہاں اِس مضمون میں زیر مطالعہ و زیر تفہیم موضوع کی دلیل کے عِلاوہ کچھ
اور اسباق اور احکام بھی ہیں ، جِن کی شرح میری زیر تیاری کتاب"""وہ ہم میں سے
نہیں """میں موجود ہے ، اور سُنّت کی تعریف اور اِقسام کا مختصر
تعارف """وضوء کی سُنتیں"""کے آغازمیں ذِکر کیا گیا ہے، وللہ الحمد]]]
::::::::: عبداللہ ابن عَمر ابن العاص رضی اللہ عنہما
کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو خبر ملی کہ وہ دِن بھر روزے
میں رہتے ہیں اور رات بھر قیام کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے اُن سے اِس خبر کی تصدیق فرمانے کے بعد اِرشاد فرمایا کہ ﴿ فَلا تَفعَل صُم وَأَفطِر وَقُم وَنَم فإن لِجَسَدِکَ عَلَیکَ حَقًّا وَإِنَّ
لِعَینِکَ عَلَیکَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوجِکَ عَلَیکَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَورِکَ عَلَیکَ
حَقًّا:::(یہ)جو کچھ تُم کر رہے ہو مت کیا کرو، (بلکہ)
روزہ بھی رکھو اور افطار کی حالت میں بھی رہو ، اور جاگو بھی اور نیند بھی لو ،
کیونکہ تُمہارے جِسم کا بھی تُم پر حق ہے اور تُمہاری آنکھوں کا بھی تُم پر حق ہے
اور تُماری بیوی کا بھی تُم پر حق ہے اور مہمانوں کا بھی تُم پر حق ہے ﴾صحیح البُخاری/حدیث1874/کتاب
الصوم/باب54،
اِس
حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دوسرے حقوق کے ساتھ بیوی کا
حق بھی بیان فرمایا ہے،جِس کی تفیسر ابو الدرداء اور سلمان الفارسی رضی اللہ عنہما
کے ایک واقعہ میں ملتی ہے ، وہ واقعہ بھی صحیح بخاری میں روایت ہے ، اُس حدیث شریف
میں بھی اِس بات کی دلیل ہے کہ بیوی کی جسمانی (جنسی)خواہش اور ضرورت کا خیال
رکھنا (اور اسے پورا کرنا)خاوند پر بیوی کا حق ہے ،حدیث 5788/کتاب
الادب/باب86،اختصار کے پیش
نظر اِس حدیث کو بیان نہیں کر رہاہوں ۔
::::::: آٹھواں حق ::: بیوی سے(جنسی)ملاپ کا حال کِسی بھی اور پر ظاہر نہ کرے:::::::
ابو
سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے فرمایا﴿إِنَّ من أَشَرِّ النَّاسِ عِندَ اللَّہِ مَنزِلَۃً
یَوم القِیَامَۃِ الرَّجُلَ یُفضِی إِلی امرَأَتِہِ وَتُفضِی إِلیہ ثُمَّ یَنشُرُ
سِرَّھَا:::قیامت والے دِن اللہ کے ہاں بُرے ترین لوگوں
میں سے وہ شخص بھی ہوگا جو (جنسی رغبت کے ساتھ،اور ملاپ کے لیے)اپنی
عورت(بیوی، یا باندی لونڈی ) کی طرف مائل
ہو اور وہ عورت بھی (اِسی طرح) اُس کی طرف مائل ہو (اور پھر اپنی خواہش پوری کرنے
کے بعد)وہ شخص( اپنی)اُس عورت(سے ملاپ)کے راز(دُوسروں میں)نشر کرے﴾صحیح مسلم/حدیث 1437/کتاب
النکاح/باب21،
ترجمے
میں قوسین()کے درمیان جو الفاظ ہیں وہ ایک دو دوسری روایات کی بنیاد پر ہیں،چونکہ وہ
روایت صحت کے اُس درجہ پر نہیں پہنچتی کہ اُنہیں کِسی حُکم کے لیے دلیل بنایا جائے،اِس
لیے اُن کو نہیں لکھ رہا ہوں،اگر وہ روایات صحیح ہوتیں تو عورت کے لیے بھی بالکل واضح
ممانعت ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ہونے والے جنسی معاملے کی کِسی کو خبر نہ کرے،لیکن
اِسکا یہ مطلب نہیں کہ عورت کو اجازت ہے،کہ وہ اپنے اور اپنے خاوند کے درمیان ہونے
والے جنسی معاملے کی خبر کر سکتی ہے ، بلکہ یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں
ہے۔
الحمد
للہ تعالیٰ،یہاں تک،میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کی بات مکمل ہوئی،اللہ تعالیٰ ہم
سب کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور حق جاننے سمجھنے ماننے اور اپنا کر
اُس پر عمل کرتے رہنے کی، اور اُس کی تبلیغ و تشہیر کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی
پر عمل کرتے کرتے ہماری اللہ سے ملاقات ہو ۔
السلام
علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ
کتابت : 24/06/1428ہجری ، بمُطابق ، 09/07/2007عیسوئی ،
تاریخ
تجدید و تحدیث : 04/11/1435ہجری ، بمُطابق،30/08/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس
مضمون کا رقی نسخہ درج ذیل ربط سے اُتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمت اللہ
ReplyDeleteحضرت آپ کا مضمون تو بھت اچھا رہتا درس دینے کے لئے بھت معاون ثابت ہوگا...مگر اسکو فری میں لوڈ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے......انہیں تمام موضوعات پر اگر آپکی کوئی کتاب ہے تو ضرور رہنمائی فرمائیں