صفحات

Thursday, November 27, 2014

۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،،پانچواں قاعدہ 5 ۝ ۝ ۝


۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،،پانچواں قاعدہ  5  ۝ ۝ ۝  
                        بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ                
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ::: اور اگر میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو ، یقیناً میں قریب ہوں ،جب کوئی پکارنے والا(صِرف ) مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کا جواب دیتا ہوں (یعنی قبول کرتا ہوں)،لہذا یہ (انسان)ضرور میری پُکار قبول کریں ، اور ضرور مجھ پر اِیمان لائیں ، تاکہ وہ ہدایت پائے ہوئے ہو سکیں سُورت البقرہ (2)/آیت 186،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مذکورہ بالا فرمان  ہمارے موضوع "قران میں بیان کردہ  قواعد(اصول ، قوانین)"میں  پانچویں قانون کے طور پر بیان کیا جارہا ہے ،
اللہ جلّ و  عُلا کے اِس مذکورہ بالا فرمان شریف میں بہت سے مسائل و معاملات بیان فرمائے ہیں ،
:::::: (1) :::::: ایک عظیم عِبادت کے بارے میں ایک عظیم قاعدہ ، قانون بیان فرمایا ہے ، جو اِس آیت شریفہ میں بیان کردہ مختلف مسائل و معاملات میں سے سب سے أہم ترین ہے ،
اور وہ عظیم عِبادت ہے دُعاء کرنا ، اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دُعاء کی جائے تو براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہی کی جائے ،  کیونکہ جو دُعاء براہ راست اللہ تبارک و تعالیٰ سے کی جا تی ہے ، اللہ جلّ  جلالہُ، وہ  دُعاء قُبول فرماتا ہے ،
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے ، اور اِس عظیم قاعدے ، قانون کو سمجھنے کے لیے ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے اِس فرمان میں تدبر کرنے کے لیے ہمیں قران کریم میں اللہ تعالیٰ کے کلام کے اسلوب میں سے ایک اہم انداز کو سمجھنا ضروری ہے ،
اور وہ یہ ہے کہ قران کریم میں چودہ(14)آیات مُبارکہ میں ، لوگوں کے اُن پندرہ(15)سوالات کے جوابات نازل فرمائے گئے ہیں جو سوالات لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کیے ، تو اللہ تعالیٰ نے ہر سوال کا جواب عطاء فرماتے ہوئے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہی یہ حکم فرمایا کہ """قُل""" یعنی """آپ فرما دیجیے """، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا نازل فرمودہ جواب لوگوں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بطور جواب سنائیں ،
اِن  پندرہ(15) میں سے صِرف ایک مُقام ایسا ہے جِس میں لفظ """ قُل """ کی بجائے """ فقُل """اِرشاد فرمایا گیا ہے ،
اور ایک مُقام ایسا ہے جس میں صِرف سوال کا ذِکر فرمایا گیا ہے ، لیکن جواب عنایت نہیں فرمایا گیا ،  
اور  سب ہی سوالات میں سے ،  صِرف یہ ، آج کے درس میں زیر مطالعہ آیت شریفہ میں ذِکر کیا گیا سوال ، ہی ایک ایسا سوال ہے ، جِس  کے کیے جانے کی صُورت میں ، اُس کا جواب عطاء فرماتےہوئے ، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات شریف کو بھی اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان بطور واسطہ ، اور وسیلہ نہیں رکھا ، اور براہ راست""" آپ فرما دیجیے """ کا حکم دیے بغیر خود ہی جواب اِرشاد فرمایا ،
غور فرمایے ، اور اچھی طرح سے سمجھیے محترم قارئین ، کہ ہمارے رب اللہ جلّ جلالہُ کے اِس فرمان شریف میں ، اِس انداز ءکلام میں یہ عظیم قاعدہ اور قانون  بیان ہے کہ""" دُعاء صِرف اور صِرف  براہ راست اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہی کیے جانا ،  جائز ہے ، اُس کے عِلاوہ کسی اور سے دُعاء کرنا ،اپنے اللہ سے  دُعاءکرنے کے لیے اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان ، کسی واسطے یا وسیلےکو شامل کرنا جائز نہیں """،
جی ہاں ، اپنے کسی نیک عمل کو ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کسی صِفت کو ، اُس کے کسی نام کو ، دُعاء میں واسطہ بنانا اِس قاعدے سے مشتثنیٰ ہے اور اِسی طرح کسی نیک اور صالح لیکن زندہ مُسلمان سے اپنے لیے دُعاء کروانا ایک الگ معاملہ ہے ،
مذکورہ بالا آیت شریفہ میں بیان فرمودہ قاعدے قانون کو سمجھتے ہوئے اِن دو معاملات کو اُس کے ساتھ گڈ مڈ نہ ہونےدِیا جائے ، ورنہ بات سمجھ آنے کی بجائے الجھ جاتی ہے ،
:::::: (2) ::::::    
اللہ جلّ و عُلا نے صِرف اُسی سے دُعاء کرنے والوں کے لیے اپنی بے پناہ شفقت اور توجہ کی خوشخبری عطاء فرمائی ، اور اُنہیں     ﴿ عِبَادِي ::: میرے بندےقرار دے کر اُن کا ذِکر فرمایا ،
سُبحان اللہ، اپنے رب اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعاء کرنے والوں ، اور اُس کی رحمت کے در پر گڑگڑانے والوں کے لیے اِس   انداز ء فرمان ﴿  عِبَادِي میں کس قدر عظیم دعوت اور خوشخبری ہے ،  
:::::: (3) ::::::   
پھر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں کے لیے جو کہ صِرف اور براہ راست اُسی سے دُعا کرتے ہیں ، کسی دوسرے کو واسطہ وسیلہ نہیں بناتے ، اپنے اُن بندوں کے لیے خوش خبریوں میں اضافہ فرماتے ہوئے ایک اور عالی شان ، دِل و رُوح کو سرشار کر دینے والی یہ خوش خبری عطاء فرمائی کہ﴿  فَإِنِّي قَرِيبٌ  ::: تو یقیناً میں قریب ہوں ،
یہ ایسی خوش خبری جِس سے ملنے والے احساسات و جذبات کو سچے إِیمان والا دِل ہی سمجھ سکتا ہے ، اِنہیں اِلفاظ کے جامے پہنانا ممکن نہیں ، یا یہ کہنا چاہیے کہ میرے لیے اُن احساسات و جذبات کو اِلفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ،
:::::: (4) ::::::   
اِس کے بعد اللہ مولا عزّ و جلّ نے صِرف اور براہ راست اُسی سے دُعا سے کرنے والے اپنے بندوں کے لیے خوش خبریوں میں مزید اضافہ فرماتے ہوئے  اِرشاد فرمایا ﴿ أُجِيبُ:::تو میں پکار کا جواب دیتا ہوں (یعنی قبول کرتا ہوں)،
اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک میں ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی کی دُعاء قُبُول کرنا صِرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہی شان ہے ،
اللہ تعالیٰ نے کسی کو کتنی ہی قوت اور قُدرت عطاء کی ہو وہ اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی دُعاء قُبول کر سکے ، یا اللہ کے ہاں کسی کی دُعاء قُبول کروا سکے ، کیونکہ وہ کچھ بھی ہو ، ایک عاجز مخلوق ہے ، اُس کو ملی ہوئی قوت اور قُدرت محدود ہے ، بلکہ اکثر تو  وہ خود اپنے اوپر آئی مُصیبت کو بھی نہیں ٹال سکتا ، چہ جائیکہ وہ کسی دوسرے کی دُعا ء قُبُول کر سکے ، یا کروا سکے ،
یہ صِرف اور صِرف اللہ ہی ہے جو اُسے پکارنے والوں کی ، اُس سے دُعاء کرنےو الوں کی دُعاء قُبُول فرماتا ہے ، کیونکہ وہ ہی اکیلا اور لا شریک خالق  ہے جِس کی قوت اور قُدرت کسی حدود کی پابند نہیں ، وہ  ہی ہے ، اور صِرف وہی ہے جو جِس کام کا اِرداہ فرماتا ہے، جِس کام کے ہونے کا فیصلہ فرماتا ہے ، تو  اُس کام کے ہو جانے کا حکم فرماتا ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے ﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ:::اللہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کا اِرداہ فرماتا ہے تواُس کام کے لیے فرماتا  ہے کہ ہو جا ، تو وہ کام ہو جاتا ہےسُورت  یٰس(36)/آیت 82،
﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ::: آسمانوں اور زمین کو بالکل آغاز سے تخلیق کرنے والا (اللہ ہی)ہے ،  اور وہ جب کسی کام کا فیصلہ فرما لیتاہے تو اُس کام کے لیے فرماتا  ہے کہ ہو جا ، تو وہ کام ہو جاتا ہےسُورت البقرہ(2)/آیت 117،
:::::: (5) ::::::   
اِس کے بعد اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ وہ کِس کی دُعاء قُبُول فرماتا ہے ، پس اِرشاد فرمایا ﴿ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ:::جب کوئی پکارنے والا(صِرف ) مجھے پکارتا ہے ،
اللہ جلّ و عُلا کے اِس فرمان شریف میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ کے ہاں صِرف اُسی کی دُعاء کی قُبُولیت ہوتی ہے جو صِرف اللہ ہی کو پکارتا ہے ، اور اپنے دِل و دِماغ و رُوح کی یکسوئی کے ساتھ ، براہ راست اپنے اللہ کو پُکارتا ہے ،
خیال رہے کہ اگر کہیں ہمیں ایسے لوگوں کی دُعاء پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جِن کے احوال میں مخالف شریعت ، اور خلافءِ توحید اعمال و اقوال شامل ہوتے ہیں تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے إِیمان والوں کے لیے  امتحان ہے ،نہ کہ اُن لوگوں کے """ولی اللہ """ہونے کی علامت ،
:::::: (6) ::::::  
اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان فرمودہ اِس  قاعدے ، اِس قانون میں ہمیں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ اللہ عزّ و جلّ اپنے ہر اُس بندے کی  پکار کا جواب دیتا ہے ، اُس کی دُعاء قُبُول فرماتا ہے جو صِرف اور براہ راست اللہ ہی کو پکارتا ہے ، صِرف اور براہ راست اللہ ہی سے دُعاء کرتا ہے ،
پس اِس فرمان میں بندوں کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ سچے إِیمان کے ساتھ ، قُبولیت کی شرائط پوری کرتے ہوئے ، زیادہ سے زیادہ عملی اور قولی بندگی کا ثبوت دیتے ہوئے ، خوب آہ و زاری ، عجز و انکساری کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہا کریں ،
ایسی پکار کا جواب ، ایسی دُعا کی قُبُولیت یقینی ہے لیکن اُس قبولیت کا طریقہ اللہ اپنی حِکمت کے مطابق مقرر فرماتا ہے ،
لہذا کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنے اُس بندے کو بالکل وہی کچھ عطاء فرما دیتا ہے جِس کا سوال بندہ نے کیا ہوتا ہے ،
یا کبھی اُس مانگی ہوئی چیز کے بدلے میں دُنیا میں کچھ بھی نہیں دیتا ، بلکہ اُس دُعاء کو اُس بندے کی  آخرت کے لیے محفوظ فرما دیتا ہے ، تا کہ اُس بندے کی  آخرت میں کام آ سکے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے کہ ﴿ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَاءٍ إِلاَّ اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِى الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ فِى الآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ بِقَدْرِ مَا دَعَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ أَوْ يَسْتَعْجِل::: کوئی(مُسلمان) بندہ ایسا  نہیں کہ جب وہ (صِرف اور براہ راست اور یقین کے ساتھ) اللہ سے دُعاء کرے ، سوائے اِس کے کہ اُس کی دُعا ء قُبُول کر لی جاتی ہے ، تو کبھی تو اُس کے لیے دُنیا میں ہی پوری کر دی جاتی ہے، یا کبھی اُس کے لیے آخرت میں محفوظ کر دی جاتی ہے ، یا کبھی اُس کی دُعاء کی مقدار کے برابر اُس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، بشرطیکہ اُس کی دُعاء گناہ والی نہ ہو ، رشتہ داریوں کو توڑنے والی نہ ہو ، یا بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کی """اے اللہ کے رسول ، جلدی کیسے کرےگا؟ """،
تو اِرشاد فرمایا﴿ يَقُولُ دَعَوْتُ رَبِّى فَمَا اسْتَجَابَ لِى:::(جلدی کرنا یہ ہے کہ)دُعاء کرنے والا یہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے رب سے دُعاء کی لیکن اُس نے قُبول نہیں کی ،
سنن الترمذی /حدیث /3957کتاب الدعوات/باب153، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے سرخ کشیدہ جملے کے عِلاوہ باقی روایت کو صحیح قرار دِیا ہے ، تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ /حدیث 4483،
غور فرمایے ، محترم قارئین ، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو چند مرتبہ ، کچھ دِن کوئی دُعا کرتے ہیں ، اور پھر اپنی دُعا کی قبولیت سے مایوس ہو کر دُعاء کرنا چھوڑ دیتے ہیں ،
اور معاذ اللہ بہت سے تو ایسے ہیں جو یہ کفریہ بات کرتے سنائی دیتے ہیں کہ """ کہ اللہ ہمارے تو سُنتا نہیں """ یا """ اللہ غریبوں کی سُنتا نہیں """ ، وغیرہ ،
اللہ کی قسم کسی مُسلمان کے منہ سے ایسی بات سن کر دِل و رُوح کانپ کر رہ جاتے ہیں کہ وہ مُسلمان اپنا عقیدہ ، اور اپنے عمل جانچنے کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی سماعت کا ہی انکار کر دیتا ہے ، جبکہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ تو زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں ہونےو الی ہلکی سی حرکت کی سرسراہٹ بھی سنتا ہے ،  اور وہ مُسلمان کہتا ہے کہ اللہ فلاں کی نہیں سُنتا ، و لا حول ولا قوۃ إلا باللہ ، و  ھو المستعان ،
:::::: (7) ::::::  
ہمارے اِس درس میں زیر مطالعہ اور زیر تفہیم آیت شریفہ میں ذِکر کردہ قاعدے میں بیان کیا گیاہر ایک مسئلہ اللہ کے اِس آخری دِین میں أہم مسئلہ ہے ،اور سب ہی مسائل سب سے أہم ترین مسئلے اور حقیقت سے مربوط ہیں ، اور وہ حقیقت ہے اللہ جلّ و عُلا کی توحید ، اور اُس کے بندوں کے لیے اُس کی رحمت کی ہمہ وقت موجودگی ،
جی ہاں ، محترم قارئین ، غور فرمایے ، اِس قاعدے ، اِس قانون میں  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے دِین حق کی عظمت کےرازوں میں سے ایک راز کا بیان ہے ،
اور وہ یہ کہ اللہ جلّ  جلالہُ جو کہ سب بادشاہوں کا ایسا بادشاہ ہے کہ جِس کی بادشاہی کی ادنی ٰ سے ادنی ٰ حد بھی کسی بڑے سے بڑے سے بادشاہ  کی کُل بادشاہی سے بے انداز حد تک بڑی ، اعلٰی و ارفع ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ایسا سُلطان ہے جِسکی سلطنت کے انتہائی چھوٹے سے ذرے میں سارے ہی سلطانوں کی سلطنتیں کھو جاتی ہیں ،
لیکن اِس کے باوجود اُس کے بندوں کو ، اُس تک رسائی کے لیے کسی واسطے ، کسی وسیلے ، کسی پیشگی وعدے (Appointment)کی ضرورت نہیں ، کسی خاص وقت کی پابندی نہیں ، بلکہ جب اُس کا بندے چاہے اپنے دِل ، دِماغ اور رُوح کی حاضری کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کی طرف بُلند کرے اور اپنی حاجتیں پیش کر دے ، وہ سنتا ہے ، قبول کرتا ہے ،
اور یہ خوش خبری بھی بھیجی کہ ﴿  إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِىٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِى مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ::: بے شک تُم لوگ کا رب تبارک وتعالیٰ ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور)حیاء کرنے والا ، بہت عطاء فرمانے والا ہے ، جب اُس کا کوئی بندہ(دُعاء کرتے ہوئے)اپنے دونوں ہاتھ اللہ کی طرف اُٹھاتا ہے تو اللہ اپنے بندے سے حیاء کرتا ہے کہ اُس بندے کے ہاتھوں کو خالی پلٹا دےسُنن ابو داؤد/حدیث/1490کتاب الوِتر/باب23،صحیح ابن حبان /حدیث/876کتاب الرقائق/بابالأدعیۃ، ایک دو لفظ کے فرق کےساتھ سنن الترمذی/حدیث/3904کتاب الوِتر/باب121،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرا دِیا ،
تو پھر کِس قدر جہالت اور نقصان والا کام ہے کہ کوئی بندہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان لوگوں اور چیزوں کو واسطے اور وسیلے بنائے، اور کسی کے بارے میں یہ سوچے وہ اُس کے اور اللہ کے درمیان واسطہ ہے ، وسیلہ ہے ،
اور یہ سوچے کہ واسطے اور وسیلے کے بغیر اُس کی دُعاء اللہ تک نہیں پہنچ سکتی ، یا یہ کہ واسطے اور وسیلے کے بغیر دُعاء قُبُول نہیں ہو سکتی ہے ،
ایسی سوچ رکھنے والا بے چارہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان فرمودہ اِس قاعدے ، اِس قانون کا انکار کر رہا ہے کہ ﴿فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ:::تویقیناً میں قریب ہوں ،جب کوئی پکارنے والا(صِرف ) مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کا جواب دیتا ہوں (یعنی قبول کرتا ہوں)،
اور کفر و شرک پر مبنی سوچوں اور افکار کا شکار ہو رہا ہے ، ولا حول ولا قوۃ إِلا باللہ ،
 اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ،
محترم قارئین ، ذرا یہ بھی سوچیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان فرمودہ اِس قاعدے سے لا علمی  بندے کے لیے کس قدر بڑے نقصانات کا سبب ہے ، کہ وہ اپنے ہمیشہ سننے اور قُبُول کرنے والے خالق اور مالک کو چھوڑ کر اُس کی مخلوق کا سوالی بنا رہتا ہے ،اپنے اور اپنے رب تعالیٰ کے درمیان اپنے نفس ، اپنی گمراہی ، اپنی جہالتوں کو لا کھڑا کرتا ہے ،  اور اپنی آخرت تباہ کرتا رہتا ہے ، بلکہ بسا اوقات تو آخرت سے پہلے دُنیا کی رسوائی بھی پاتا ہے ،
إِمام ابن قیم رحمہُ اللہ کا فرمان ہے :::
""" وقد أجمع العارفون على أن كل خير فأصله بتوفيق الله للعبد وكل شر فأصله خذلانه لعبده وأجمعوا أن التوفيق أن لا يكلك الله نفسك وان الخذلان أن يخلي بينك وبين نفسك فاذا كان كل خير فأصله التوفيق وهو بيد الله إلى نفسك وأن لا بيد العبد فمفتاحه الدعاء والافتقار وصدق اللجأ والرغبة والرهبة اليه فمتي أعطى العبد هذا المفتاح فقد أراد أن يفتح له ومتي أضله عن المفتاح بقى باب الخير مرتجا دونه  ::: عارفین کا اِس بات پر اجماع ہے کہ تما تر خیر کی بنیاد اللہ کی طرف سے بندے کو توفیق عطاء ہونا ہے ، اور تمام تر شر کی بنیاد اللہ کی طرف سے بندے کے لیے بے رُخی ہے ،اور(اللہ کی عطاء کردہ)توفیق یہ ہوتی ہے کہ اللہ تمہیں تمہارے نفس کے حوالے نہ کرے ،اور بے رُخی یہ ہے کہ اللہ اُس کے اور تُمہارے درمیان تمہارے نفس کو داخل کر دے ، پس ہر خیر کی بنیاد (اللہ کی عطاء کردہ) توفیق ہے ، اور یہ(توفیق عطاء کرنا) صِرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ، کسی بندے کے ہاتھ میں نہیں ،اور اِس (توفیق کو حاصل کرنے) کی چابیاں (اللہ سے) دُعاء کرنا ، (اللہ کے سامنے  اپنی) کمزوری اور عجز و اِنکسار کا اقرار ، اور اللہ طرف پناہ طلب کرنے میں سچائی ، اُس کی طرف رغبت ، اور اُس سے ڈرنا ہیں ،لہذا جب کسی بندے کو یہ چابیاں دے دی جاتی ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اُس بندے کو توفیق عطاء کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہے ، اور جب اللہ کسی بندے کو اِن چابیوں سے دُور کر دیتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خیر کا دروازے اُس بندے سے دُور ہو گیا ہے"""، الفوائد/ قاعدة أساس كل خير أن تعلم أن ما شاء الله كان وما لم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ عُمر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ فرمایا کرتے تھے کہ"""  إِنِّي لَا أَحْمِلُ هَمَّ الْإِجَابَةِ، وَإِنَّمَا أَحْمِلُ هَمَّ الدُّعَاءِ، وَلَكِنْ إِذَا أُلْهِمْتُ الدُّعَاءَ فَإِنَّ الْإِجَابَةَ مَعَهُ::: مجھے قُبولیت کی فِکر نہیں ہوتی ،بلکہ مجھے دُعاء کرنے کی توفیق ملنے کی فِکر ہوتی ہے ،  کیونکہ اگر مجھے دُعاء کرنے کی توفیق عطاء ہوئی تو یقیناً قُبولیت اُس کے ساتھ ہوتی ہے"""،
أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کی یہ بات اُن کے اِیمان کامل اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صِفات کی پہچان کے بہت سے دلائل میں سے ایک دلیل ہے اور ہم سب کے لیے یہ سبق رکھتی ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ اُس سے دُعاء کرنے کی توفیق عطاء فرماتا ہے تو اُس بندے کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ دُعاء کرنے کی اِس توفیق کے ساتھ اِس دُعاء کی قُبولیت بھی ہے ، اور وہ قُبولیت کسی صُورت میں ہو گی وہ اللہ کے عِلاوہ اور کوئی نہیں جانتا ،
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو صِرف اور صِرف اُس سے ، اور اُس کے اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ طریقوں کے مطابق ، دُعاء کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ، اوراُس کے ماسوا سے دُعاء کرنے کے شر سے محفوظ رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: أہم وضاحت ::: ::: أہم وضاحت ::: خیال رہے کہ یہ مضامین محترم شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے دروس سے ماخوذ ہیں ، نہ کہ اُن کے دروس کے تراجم ، بلکہ ان مضامین میں کم و بیش ساٹھ ستر فیصد مواد میری طرف سے اضافہ ہے، اس لیے اِن مضامین کو حرف بحرف محترم شیخ صاحب حفظہ ُ اللہ سے منسوب نہ سمجھا جائے  ۔اور مضامین کا تسلسل بھی میں نے محترم شیخ صاحب کے دروس کے تسلسل کے مطابق نہیں رکھا ، بلکہ مصحف شریف میں آیات کے تسلسل کے مطابق رکھا ہے ۔
 عادل سہیل ظفر ۔
 والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کتابت : 13/07/1435ہجری ، بمطابق ،12/05/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment