فرقہ
اور فرقہ واریت
تعریف اور مفہوم
فرقہ ناجیہ، نجات پانے والا فرقہ ، صِفات اور
نشانیاں
تالیف : عادل سہیل ظفر
adilsuhail@gmail.com///www.adilsuhail.blogspot.com
بِسّمِ اللَّہِ و الصَّلاۃُ
و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدہُ ، و أَشھَدُ أَن لا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ و أَشھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہّ وَ رَسُولُہُ:::
شروع اللہ کے نام سے اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اور سلامتی ہو اُس پر جس کے
بعد کوئی نبی نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی
معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )اللہ کے
بندے اور رسول ہیں::: اما بعد ،
اس میں کوئی شک نہیں کہ قول و عمل اللہ کے ہاں اسی
صورت میں قبول ہو سکتے ہیں جب وہ صحیح عقیدہ کی بنیاد پر ہوں ، اگر عقیدہ صحیح
ہونے کی بجائے غلط ، باطل یا فاسد ہو گا تو جو کچھ اُس کی بنا پر ہو گا وہ بھی
ویسا ہی ہوگا ، یہ حقیقت اِس بات کی تاکید کرتی ہے کہ صحیح عقیدہ سیکھنا أہم ترین
معاملات اور واجب الادا ءکاموں میں سے ہے ، کیونکہ اعمال کا قبول ہونا اسی پر مبنی
ہے اور دُنیا اور آخرت کی خوش نصیبی اور کامیابی صحیح عقیدے پر قائم رہنے اور جو
کچھ بھی اُس کے منافی ہو اُس سے بچنے میں ہے ،
وہ عقیدہ جو تمام تر فرقوں میں سے ، اللہ کی مدد
پائے ہوئے ، ایک اکیلے نجات پانے والے فرقے""" اہل سُنّت و الجماعت
""" کا ہے ،
وہ عقیدہ
جس کی بنیاد اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین ہیں، اور
اُن کی مقرر کردہ حُدود کے اندر رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر سچا """
اِیمان """ رکھنا ، اللہ کے فرشتوں ، کتابوں ، نبیوں اور رسولوں ،
آخرت یعنی قیامت کے دِن کے واقع ہونے، اُس سے متعلق احوال پر ، خیر اور شر والے مقدر
پر اور جو کچھ اُس کے متعلق ہے اُس پر ، اور اِن کے علاوہ بھی ہر اُس خبر پر کسی
کمی یا کسی زیادتی ، کسی تأویل کے بغیر اُسی طرح اِیمان رکھنا ہے جس طرح اللہ اور
اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے وہ خبر عطاء فرمائی ہے ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف
سے مہیا کی جانے والی خبروں میں یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ﴿ ألا إِنَّ مَن قَبلَکُم مِن أَھلِ
الکِتَابِ افتَرَقُوا عَلٰی ثِنتَینِ وَسَبعِینَ مِلَّۃً وَإِنَّ ھَذہِ المِلَّۃَ
سَتَفتَرق ُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبعِینَ ، اثنَتانِ وَسَبعُونَ فی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ
فی الجَنَّۃِ وَھِیَ الجَمَاعَۃ:::خبر دار تُم سے پہلے اہل
کتاب میں سے لوگ بہتر(72)مِلّتوں میں تقسیم ہوئے اور جلد ہی (تُمہاری) مِلّت
تہتر(73دِینی فرقوں)میں تقسیم ہو گی (اِن میں سے )بہتر فرقے جہنم میں ہوں گے اور ایک
فرقہ جنّت میں ، اور وہ ہے جماعت﴾سُنن ابی داؤد
/حدیث 4597/کتاب السُنّۃ /باب 1 ،سُنن ابن ماجہ / حدیث 3993 / کتاب الفتن /باب 17 ،
الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ حدیث تقریباً حدیث کی ہرکتاب میں موجود ہے ،
اور بہت سے أئمہ حدیث نے اسے صحیح قرار دیا ہے ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث
204 ،
اِس مذکورہ بالا حدیث میں نجات پانے والی ، جنّت
میں جانے والی جماعت سے مراد کونسی جماعت ہے ؟؟؟
اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں کسی اور طرف
جانے کی حاجت ہی نہیں ، اور نہ ہی اپنی یا کسی کی عقل لڑانے کی کوئی ضرورت ہے
کیونکہ یہ اِس سوال کا جواب بھی ہمارے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے ادا کروا دِیا، جب اُن مُحمدصلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ وہ کون سی جماعت ہے؟؟؟
لہذا اِرشاد
ہوا کہ ﴿ مَا
أنا عَلِیہِ وَ أصحَابِی :::جس پر میں اور میرے صحابہ
ہیں ﴾سُنن الترمذی
/حدیث 2641/کتاب الاِیمان /باب 18 ، (حدیث کا درجہ ء صحت """ حَسن""")صحیح
الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث 5343 ،
ایک دوسری روایت
میں فرمایا ﴿ مَا
أنا عَلیہِ الیومَ و أصحابی:::جس پر آج کے دن میں اور
میرے صحابہ ہیں
﴾ المُستدرک الحاکم /حدیث 444،
اِس حدیث شریف میں بہت غور کی بات یہ
ہے کہ اِس میں کسی بھی اِختلاف کی بنا پر الگ نظر آنے یا ہونے والوں کو فِرقہ نہیں
کہا گیا ، بلکہ دینی اختلاف کی بنا پر الگ ہو جانے والوں کو فرقہ کہا گیا ، اور یہ تخصیص
لفظ """ مِلّت """کی وجہ سے ملتی ہے ، کیونکہ لفظ """
مِلّت """ بہت گہرا مفہوم رکھتا ہے ، مختصر طور پر یہ سمجھیے کہ
کسی سوچ وفکر کو دِین سمجھ کر ، اُسے بطور دِین اپنا کر اُس پر عمل کرنے والا گروہ
"""مِلّت """کہلاتا ہے ، کوئی بھی گروہ یا جماعت"""مِلّت
""" نہیں ہوتی اور اِسی """ مِلّت """
کے فرق کی بنا پر جو گروہ یا جماعت حقیقی سچے دِینءِ اسلام سے اِنحراف کر کے الگ ہوجائے،لیکن
رہے دائرہ اسلام میں ہی ، اُسے فِرقہ ہی کہا جائے گا ،
کچھ لوگ """ مِلّت """
کے اِس دُرُست مفہوم کو نہیں سمجھتے یا """ عقلی """
فِرقوں میں سے کسی کی سوچ کا شکار ہوتے ہیں جو ہر بات کو عقل پر پرکھنا چاہتے ہیں
، وہ لوگ اپنی لا علمی میں یہاں تک بھی جا پہنچتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث (جن میں یہ مذکورہ بالا حدیث مُبارک بھی ہے
)کو نا قابل قبول قرار دیتے ہیں کیونکہ اُن کی جہالت کے مطابق یہ حدیث حقیقت حال
کے مطابق نہیں ، کہ ،اُن کی سوچ و عقل کے مطابق اب مُسلمانوں میں تہتر(73) سے کہیں زیادہ فرقے موجود
ہیں ،
لفظ """ مِلّت """
کے دُرُست مفہوم ، یعنی کسی سوچ و فکر کو دِین سمجھ کر اپنانے اور اس پر عمل کرنے
والی جماعت یا گروہ کے مطابق وقتاًفوقتاً مسلمانوں میں ظاہر ہونے ، بننے اور بنائی
جانے والی اہم اور واضح """ مِلّتوں """ کے عقائد و
مسائل کا مطالعہ کر کے ہی اس بات کا پتہ چل سکتا ہے کہ حقیقتامسلمانوں میں کتنے
فرقے ہیں ؟؟؟
کیا تہتر (73)سے زیادہ یا کم
؟؟؟
اور کیا
محض اپنی لا علمی ، کم علمی ، سوچ و فکر ، منطق و فلسفے ، اور گمراہ اندھیری عقلوں
کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کسی صحیح ثابت شدہ فرمان مُبارک
کا اِنکار کرنا یا تاویل کرنا بذات خود فرقہ واریت ہے کہ نہیں؟؟؟
چلتے چلتے میں بنیادی مِلتوں یا عرف عام میں فرقوں
کا ذکر کرتا چلوں ،
:::::
(1) ::::: باطنیہ ::::: جس میں سے شعیہ اور صوفی وغیرہ نکلے ، اور یہ سب
ہی جانتے ہیں کہ پھر یہ دونوں بھی مزید کئی گروہوں اور جماعتوں میں بٹ گئے ، جن
میں سے کچھ کو الگ فرقہ کہا جا سکتا ہے ہر ایک کو نہیں ، اگرعقل مند حضرات کے
مندرجہ بالا فلسفہ کے مطابق گنتی کی جائے تو شاید تہتر(73) تو ان دو میں ہی پورے ہو جائیں ،
:::::
(2) ::::: خوارج ::::: اِن کی تاریخ ، اور عقائد بہت معروف ہیں ، وہ
لوگ قران کی مُتشابہہ آیات کا
مفہوم جانے بغیر اُن کے ظاہری معانی کو لے بیٹھے ، پس یہ عقائد اپنا لیے کہ ، گناہ
کبیرہ کرنے والا کافر ہو جاتا ہے اورمُسلمانوں کے لیے اُس کا مال جان عزت سب حلال
ہو جاتی ہے ، اور اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی حُکم قابل قبول اور قابل نفاذ نہیں ، اِسی لیے اُنہوں نے پہلے توچوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے
ساتھیوں کو کافر قرار دے دیا ، اور پھر چھٹے
بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ اور اُنکے ساتھیوں کو کافر قرار دے دیا اورپھر ہرایسے مُسلمان حکمران کے خلاف خونی بغاوت کو
جائز قرار دِیا جو ان کی سمجھ کے مطابق کوئی """خلاف قران """
کام کرے ،
خوارج کا یہ منہج اب بھی ہمارے کچھ مُسلمان بھائیوں
میں پایا جاتا ہے جو گناہ اور خاص طور پر گناہ کبیرہ ،یا کچھ خاص گناہ کرنے والے
عام یا خاص مسلمانوں کوکافرسمجھتے ہوئے اُسے قتل کرنا جائز سمجھتے ہیں ، اور جہاں
موقع ملا کر گذرتے ہیں ، اب اگر کوئی """
مِلّت خوارج """ کے مطابق عمل کرنے والے ہر گروہ کو ایک فرقہ گن کر
فرقوں کی گنتی کہیں کی کہیں لے جائے تو غلط کون ہوا !!!؟؟؟ ایسی جھوٹی گنتی
کرنے والا یا معاذ اللہ ثُم معاذ اللہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم،
:::::
(3) ::::: عقلانیہ ::::: یعنی جو لوگ ہر بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ
مانتے یا رد کرتے ہیں ، وحی ، رسالت اور نبوت سے ملنے والی معلومات بھی اگر اُن کی
عقل کے مطابق نہ ہوں تو قابل قبول نہیں ، انہیں قابل قبول بنانے کے لیے اُن کی شرح
و تفسیر ، معانی و مفاہیم اپنی عقل کے مطابق کرتے ہیں،خواہ و صریح کفر میں لے
جائیں ، اِن لوگوں کی پرانی مثالیں"""معتزلہ"""اور """اشاعرہ"""وغیرہ
ہیں ،اور ماضی قریب میں اُن کی ہی مِلّت میں شامل ہونے والوں کو """اصلاحی
""" اور """پرویزی """ کہاجاتاہے،جو
اپنے زعم میں وحی اور نئے دَور کی معلومات اور ضروریات کو ایک دوسرے کے مطابق
بنانے کے لیے قران کے نئے نئے معانی و مفاہیم اور نئی نئی تفاسیر بیان کرتے ہیں ،
اور احادیث شریفہ کو کسی علمی کسوٹی کی پرکھ کے بغیر محض اپنی عقلوں کے بل بوتے پر
رد کرتے ہیں،
:::::
(4) ::::: عِلمانیہ ::::: وہ لوگ جو کسی
بھی دین ، یا رسالت کے پیغامات میں سے صرف وہ ماننے کوتیار ہوتے ہیں جو انسانی
محسوسات اورمادی علوم کے ذریعے ثابت ہو، اسی طرح سیاست،حکومت، تجارت ، معاشرت
وغیرہ میں اُن کی سوچ اور عمل بالکل
لادینی ہیں ،ان کی مثال وہ لوگ ہیں جو اسلامی عقائد اور احکام کو اپنی اُن محسوسات
کے مطابق تبدیل کرتے ہیں جو محسوسات انہیں کفار نے مادی علوم کے ذریعے سکھائی ہیں
، لہذا اس """ مِلّت """ کے افراد اور پیروکار اِسلام
کے بنیادی ترین معاملات کو پوری اُمت کے خلاف اپنے دور کی ضروریات کے مطابق بنانے
کے لیے ، گناہوں ، بے حیائی ،کافروں سے دوستیوں،حتیٰ کہ کفر و شِرک تک کو بالکل
نئے معانی بیان کرنے والے """ عظیم اسلامی مفکر"""،
""" جدت پسند حکمران """،
اور انکے ساتھی ، یا اُنکے متاثرین ہیں ،
اِن تمام فرقوں کے بارے میں قدیم اور جدید علماء نے
بہت سی معلومات مہیا کر رکھی ہیں ، میرا مقصد یہاں اُن کی تفصیلات بیان کرنا نہیں
بلکہ صِرف اُن کا تعارف کروانا تھا ، تا
کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ جو لوگ """ مِلّت """ کا
مفہوم نہیں جانتے ، """اِختلاف""" اور"""
اِفتراق """کا فرَق روا نہیں رکھتے ،وہ کسی بھی معاملے میں دو
مختلف مُسلمان گروہوں ، یا جماعتوں کو """ فِرقہ """
سمجھتے ہیں ، اور اُن کی کسی اختلافی بات کو سنتے ہی """ فِرقہ
واریت """ کا حُکم لگا دیتے ہیں ، اور اپنے تئیں یہ خیال کرتے ہیں
کہ وہ اتحاد بین المسلمین اور احترامء انسان کی راہ ہموار کرتے ہیں ، جبکہ وہ بذات
خود ایک نئے افتراق کا سبب ہوتے ہیں ، اور افراط و تفریط کا شکار ہیں ، پس کہیں تو وہ لوگ حق
و باطل کی تمیز رکھے بغیر دین اوراِسلام کے نام پر کسی بھی بات کو روکنے کی کوشش
میں مشغول ہوتے ہیں ، اورکہیں ہر کسی کو سب ہی کچھ کہنے اور کرنے کی اجازت دینے کی
کوشش میں ،
پس محض فقہی مسائل اور اُن میں بھی
محض فروعی اختلافات کی بنا پر الگ الگ سوچ و فکر رکھنے والوں پر شرعی طور پر فرقہ
ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ، اور نہ ہی ایسے مسائل کی ترویج کو فرقہ واریت
کہا جا سکتا ہے ، ایسا سمجھنا درست نہیں اور اِسی غلط فہمی کی وجہ سے مُسلمان فقہی
مسائل اور اُن میں سے بھی فروعی اِختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کو فِرقہ سمجھتے
ہوئے عملی طور پر فِرقہ بن جاتے ہیں ،
اور بسا اوقات تو ایک ہی جائز مقصد
کے حصول کے لیے کام کرتے ہوئے محض تنظیمی أمور یا سربراہوں کے الگ ہونے کی وجہ سے
ایک دُوسرے کو فرقہ سمجھتے ہیں ، دِلوں کو ایک دُوسرے کے لیے تنگ رکھتے ہیں ، ایک
دُوسرے پر ناراض رہتے ہیں ، ایک دُوسرے کی بات کو بغیر کسی عِلمی دلیل اور مقبُول
شرعی حُجت کے فوراً """ فرقہ واریت """
قرار دے دیتے ہیں ، اِس کی دلیل ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی اِسلامی جماعتوں
کے رویے میں بڑی وضاحت سے ملتی ہے ،اپنی لا علمی اورمذھبی ، مسلکی ، جماعتی ، علاقائی ،
قبائلی ، خاندانی ز ُبانوں کی تفریق پر
مبنی وغیرہ وغیرہ قِسم کے تعصبات کی وجہ
سے مُسلمان خود کو راہ حق کے مسافر اور دوسرے بھائی کو باطل پرست سمجھتے رہتے ہیں،
انہیں یہ سمجھ نہیں آ پاتا کہ آپس کی اِس بے
مقصد کِھینچ تان کا فائدہ مُسلمانوں کے مشترکہ دشمن کو ہوتا ہے،
ہمارے موضوع کی بنیاد کے آغاز میں بیان کی گئی حدیث
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو خبر دی وہ حق اور سچ ہے کیونکہ
اللہ پاک نے اپنی کتاب میں یہ سند عطاء
فرما رکھی ہے ،کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک اللہ کی وحی کے
مطابق ہی بات فرماتی تھی ،
پس اس حق خبر میں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم بحیثیت
مسلمان قوم اپنے اندرمیں سے ایسے لوگوں کو پائیں گے جو آغاز میں ہم میں سے ہی ہو ں
گے لیکن پھر اِسلام کے ساتھ منسوب رہتے ہوئے ، الگ الگ دِین بنا لیں گے ، یعنی
بنیادی عقائد اور اصول میں ایسا اختلاف لائیں گے جو بظاہر اِسلام کے لباس میں رہے
گا لیکن اصل اِسلام کے خلاف ہو گا ، اِن شاء اللہ اِس موضوع کی تفصیل کسی اور وقت
بیان کرنے کی کوشش کروں گا ،
فی الحال ہم یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ جب ہماری اُمت
میں یہ تقسیم ہونا ہی ہے تو ہمیں کونسی راہ اپنا کر اس سے محفوظ رہنا ہو گا تا کہ
ہم نجات پانے والے فرقے میں ہوں ، اِس سوال کا جواب بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے
کلام اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبان مبارک کے ذریعے عطاء
فرما دیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ یَا أَیُّہَا
الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ :::اے اِیمان لانے والو اللہ (کے عذاب اور ناراضگی)سے بچو اور سچے (عقیدے اور عمل
والے )لوگوں کے ساتھ رہو ﴾ سورت التوبہ(9)/آیت 119،
اِس آیت کریمہ کا اجمالی مفہوم یہ ہے کہ ہم اِس معاملے
کے پابند کیے گئے ہیں کہ ہم نجات پانے والے فرقے میں رہیں اور اس کا ذریعہ صِرف
اور صِرف یہ ہے کہ ہم کسی کمی یا زیادتی کے بغیر اللہ کی کتاب اور سُنّت رسول صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قائم رہیں اور کتاب اللہ اور سُنّتء رسول علی صاحبھا افضل الصلاۃ و السلام کی کوئی ایسی تأویل نہ خود کریں اور نہ ہی کسی
کی کوئی ایسی تأویل قبول کریں جو اِسی نجات پانے والے فرقے کےأئمہ اور عُلماء کے
ہاں منظور ی نہ پاتی ہو ،
اس مذکورہ بالا بنیادی قانون پر عمل نہ کرنے کے سبب
،ہر ایک اِسلامی فرقہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی حق پر ہے اور دوسرےسب گمراہی کا شکار
ہیں ، بلکہ بسا اوقات تو دوسرے کو خارج ازاِ سلام کہا اور سمجھا جاتا ہے اور اس کا
مال ، خون عزت اپنے لیے حلال سمجھ کر لوٹی جاتی ہے ،
ایسےلوگوں کو قطعا یہ یاد نہیں رہتا ، یا شاید
جانتے ہی نہیں کہ اُن کی ذاتی سوچوں پر مبنی دِین فہمی کے مطابق کیے گئے کسی قول و
فعل کی قبولیت یا اُس کے لیے اللہ کی رضا
مندی حاصل ہونے کے اُمید تک بھی نہیں رکھی
جاسکتی کیونکہ جو قول یا فعل قُران کریم یا صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ کو،
اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کے مطابق فہم کے خِلاف کسی اور فہم کے مطابق ہو وہ اللہ کے ہاں مردُود ہے،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اِس نجات
پانے والے کامیاب فرقے کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے بھی اِس معاملے کی اہمیت کو اُجاگر فرماتے ہوئے بہت وضاحت سے اِس
فرقے کے بارے میں بتایا ہے ، تا کہ مُسلمان اپنے دِینی مُعاملات کو مکمل اور
دُرُست طور پر اپنے رب کی عطاء کردہ روشنی میں سمجھے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ
کافرمان ہے کہ ﴿ وَمَن
لَّم یَجعَلِ اللَّہُ لَہُ نُوراً فَمَا لَہُ مِن نُّورٍ::: اور جس کے لیے اللہ روشنی نہ بنائے تو اس کے لیے کوئی روشنی نہیں ہوتی ﴾ سورت النور(24)/آیت 40 ،
::::::: فرقہ ناجیہ یعنی
نجات پانے والے اکیلے کامیاب فرقے کی اہم صفات اور نشانیاں :::::::
::::: (1) ::::: اِس نجات پانے
والے اکیلے فرقے کے لوگ اُمت کے سب سے پہلے اور مکمل اِیمان والوں یعنی صحابہ رضی
اللہ عنہم اجمعین کی پوری اتباع کرتے ہیں﴿ وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ المُہَاجِرِینَ وَالأَنصَارِ
وَالَّذِینَ اتَّبَعُوھُم بِإِحسَانٍ رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ
وَأَعَدَّ لَہُم جَنَّاتٍ تَجرِی تَحتَہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً
ذَلِکَ الفَوزُالعَظِیم :::اور مہاجرین اور انصار میں سے سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والوں اور اِحسان کے
ساتھ اُن کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اللہ راضی ہے اور اُن سب کے لیے اللہ نے ایسے
باغات تیار کر رکھے ہیں جِن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور وہ سب اُن باغات میں
ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم کامیابی ہے ﴾سورت التوبہ(9)/آیت 100،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کا
کیا مطلب ہے ؟؟؟
کیا خود کو
کوئی ایسا نام یا لقب دینا جو یہ دکھائے کہ ہم """ الجماعت """
کے پیروکار ہیں ؟؟؟
جی نہیں ،
بلکہ اُن
رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عِبادت میں اللہ
کی توحید کو اُسی طرح قائم رکھا جائے جس طرح اُنہوں نے رکھا تھا ، اللہ کی ذات و
صفات اور ناموں پر اُسی طرح ایمان رکھا جائے جس طرح اُن کا تھا ،یعنی صرف اُس پر
اِیمان رکھا جائے اور اتنا ہی رکھا جائے ، جس کے بارے میں ، اور جتنا اور جیسا
اللہ نے اپنی ذات ، صفات اور ناموں کے بارے میں بتایا اور اُس کے رسول صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے بتایا ، اُسی معنی ٰو مفہوم کو مانا جائے اور قولی اور عملی
طور پر اُس کو ثابت کیا جائے نہ کہ کیفیات میں گم ہو کر توحید کی خلاف ورزی کی
جائے ،
کیونکہ
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اِیمان ایسا ہی تھا ، پس اُنہوں نے اللہ کی ذات و
صفات کے معانی و مفاہیم کے بارے میں سوالات نہیں کیے جس طرح آج ہم کرتے ہیں ، بلکہ
وہ دیگر معاملات کے احکامات جاننے کے لیے سولات کرتے تھے ، پس صحابہ رضی اللہ عنہم
اجمعین کی پیروکاری یہ ہے کہ عقیدے اور عبادت کے معاملات میں جہاں وہ رکے وہیں ہم
بھی رک جائیں اور رُکے ہی رہیں ، اپنی عقلوں ، فلسفوں ، سوچوں اور مادی علوم اور
حِسّیات کی بنا پر کسی کمی یا زیادتی کے گناہ کے مُرتکب نہ ہوں ،
::::: (2) ::::: پوری مضبوطی
اور چابکدستی سے، اللہ کے مقرر کردہ منھج و فہم کے مطابق اللہ کی کتاب اور سنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم پر عمل کرنا ، اور کسی بھی اِختلاف کی صورت میں اِن کی طرف رجوع کرکے
اپنے اختلاف کا حل اِن میں سے تلاش کرنا ،
﴿ وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّہِ جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقُوا:::اور اللہ کی رسی (یعنی قران)کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں مت بٹ جانا ﴾ سورت آل عمران(3)/آیت 103 ،
﴿ یٰۤاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا
الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیئٍ فَرُدُوہُ اِلَی
اللّٰہِ و الرَّسُولِ اِن کُنتُم
تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الیَومِ الاٰخِرِ، ذَلِکَ خَیرٌ وَ اَحسَنُ تَاوِیلاً :::اے لوگو جو أِیمان لائے ہو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری
کرو اور جو لوگ تم میں حُکمران ہیں اُن کی فرمانبرداری کرو ، اور اگر تم لوگوں میں
کِسی چیز میں اِختلاف ہو جائے تو اگر تم لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر اِیمان رکھتے
ہو تو اُسے (یعنی اختلاف کو حل کرنے کے لیے وہ اِختلاف )اللہ کی طرف اور رسول کی
طرف لوٹاؤ اور یہ (یعنی اِختلاف کا حل اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کے أحکامات میں تلاش کرنا ) بہت خیر والااور اچھے انجام والا ہے ﴾ سورت النساء(4)/آیت 59 ،
::::: (3) ::::: فرقہ ناجیہ یعنی نجات پانے والے اکیلے فرقے کی
صفات اور نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے وہ قُرآن کا مفہوم اور اُس کی تفسیر قُرآن
سے ، صحیح ثابت شدہ سُنّت مُبارکہ سے ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال سے
لیتے ہیں قُران میں سے مُتشابہات کو اِستعمال نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی ذاتی
رائے کی بنا پر قُرآن کی تفسیر کرتے ہیں ، کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالی نے بُرا
قرار دیا ہے﴿ ھُوَ
الَّذِیَ أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنہُ آیَاتٌ مُّحکَمَاتٌ ھُنَّ أُمُّ
الکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فی قُلُوبِہِم زَیغٌ
فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنہُ ابتِغَاء الفِتنَۃِ وَابتِغَاء تَأوِیلِہِ
وَمَا یَعلَمُ تَأوِیلَہُ إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ
آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُولُوا
الألبَابِ:::وہ اللہ (ہی)ہے جِس نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے اِس کتاب میں واضح اور
اٹل حقائق و احکام والی آیات بھی ہیں (جو کہ)کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری
ایسی(آیات )ہیں جو کہ مُتشابہہ ہیں ، لہذا وہ لوگ جِن کے دِلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ
تو ان مُتشابہہ آیات کے پیچھے لگ جاتے ہیں (اور ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اِن
آیات کو اِستعمال کر کے)فتنہ پھیلا نا چاہتے ہیں اور اِن آیات (میں اللہ تعالیٰ )کی
مُراد(یعنی اصل مفہوم اور حقیقت )جاننا چاہتے ہیں ، جبکہ اِن آیات کی مُراد(یعنی
اصل مفہوم اور حقیقت )صرف اللہ ہی جانتا ہے ، اور وہ لوگ جو عِلم میں پُختہ ہوتے
ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اِس قُرآن پر اِیمان رکھتے ہیں (کہ یہ)سب کا سب ہمارے رب کے
پاس سے ہے، اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں ﴾ سورت آل عمران(3)/ آیت 7 ،
اس آیت مُبارکہ میں عقل مند انہیں قرار دیا گیا ہے
جو اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ کو اللہ کی مُراد کے مطابق سمجھتے ہیں
، نہ کہ اپنی سوچوں ، فسفلوں اور مادی اور
حسّی مواد اور علوم وغیرہ کے مطابق ، اور اللہ کی مُراد جاننے کا ذریعہ صرف اللہ
کے نبی کریم مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ ہی ہے، پس جو کوئی
سُنّت مبارکہ میں میسر تفیسر و تشریح کو قبول نہیں کرتا ، یا اُسے بھی اپنی ہی گمراہ
سوچ و فِکر ، فلسفوں اور مادی و حسّی مواد
اور علوم وغیرہ کے مطابق سمجھ کر چلتا ہے تو وہ اللہ کے مقرر کردہ اس معیار کے
مطابق عقل مند نہیں ، بلکہ بیوقوف ہوتا ہے
::::: (4) ::::: اور دِین کے ہر معاملے کو اسی مذکورہ بالاراہ پر
چلتے ہوئے سمجھتے اور کرتے ہیں، یعنی اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کی قولی اور عملی سُنّت مبارکہ پر ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی
جماعت کے فہم کے مطابق عمل کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ راستہ مقرر فرمایا
ہے اور اس راستے کو ترک کرنے والوں کی مذمت کی ہے ﴿ وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی
وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ
جَہَنَّمَ وَسَاء ت مَصِیراً ::: اور جو کوئی ہدایت واضح ہو
جانے کے بعد رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کو الگ کرے گا اور المومنین
(صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین) کے راستے کے علاوہ کسی اور راہ پر چلے گا تو ہم
یقینا اسے اُسی طرف چلائیں گے جس طرف وہ چلا ہے اور یقینا اُسے جہنم میں داخل کریں
گے اور (ایسا کرنے والے کا یہ)راستہ بہت ہی بُرا ہے ﴾ سورت النِساء(4)/آیت 115،
:::::
( 5 ) :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارک ، اور سُنّت مُبارکہ کی
مطلوب معیار کے مطابق تعظیم کرنا ، اور اپنی زندگی کے پر شعبے میں کسی حیل و حجت و
تاویل کے بغیر اُن کو نافذکرنا ، یہ اللہ کا حُکم ہے اور اس پر جُوں کا تُوں عمل
کرنا نجات کا سبب ہے ﴿ إِنَّمَا
کَانَ قَولَ المُؤمِنِینَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحکُمَ
بَینَہُم أَن یَقُولُواسَمِعنَا وَأَطَعنَا وَأُولَئِکَ ھُمُ المُفلِحُونَ O
وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَخشَ اللَّہَ وَیَتَّقہِ فَأُولَئِکَ ھُمُ
الفَائِزُونَ :::اِیمان والوں کو جب اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کی طرف
بلایا جاتا ہے کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اُن لوگوں کے درمیان فیصلہ
فرمائیں تو یہ اِیمان والے کہتے ہیں ہم نے سُنا اور تابع فرمانی کی اور یہ (ہی)لوگ
کامیابی پانے والے ہیںO اور جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)کی
تابع فرمانی کرے گا اور اللہ سے ڈرے گا اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب)سے بچے گا
تو وہ لوگ ہی کامیاب ہیں ﴾سورت النور(24)/آیت 51،52،
اور مزید حکم فرمایا اللہ رب العِزت نے ﴿ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یؤمِنونَ حَتَّیٰ یحَکِّموکَ فِیمَا شَجَرَ
بَینَھم ثمَّ لَا یَجِدونَ فِی أنفسِھِم حَرَجاً مَمَّا قَضَیتَ وَ یسَلِّموا
تَسلِیماً:::اور(اے مُحمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)آپ کے رب کی قسم ، یہ لوگ ہر گِز اُس
وقت تک اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ بنائیں
اور پھر آپ کے کیے ہوئے فیصلے کے بارے میں اپنے اندر کوئی پریشانی محسوس نہ کریں
اور خود کو مکمل طور پر (آپکے فیصلوں کے )سُپردکر دیں﴾سورت النِساءَ (4)/آیت 65،
::::: (6) ::::: حق جاننے کی
کوشش میں اپنے تمام تر وسائل استعمال کرنا ، اورحق بات کو قُبُول کرنا ، اور اللہ
کے دِین میں لوگوںکی ایسی باتوں اور آراء کو قُبُول نہ کرنا جِن کی کوئی دلیل
قُرآن یا صحیح احادیث سے میسر نہ ہو ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ الَّذِینَ یَستَمِعُونَ القَولَ
فَیَتَّبِعُونَ أَحسَنَہُ أُولَئِکَ الَّذِینَ ھَدَاھُمُ اللَّہُ وَأُولَئِکَ ھُم
أُولُوا الأَلبَابِ:::(وہ لوگ)جو لوگ باتیں سن کر اُس میں سے بہترین بات
کی اتباع کرتے ہیں یہ ہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور یہ ہی لوگ عقل والے
ہیں ﴾سورت الزُمر(39)/آیت 18،
اوراس میں شک کی کوئی ادنیٰ گنجائش بھی نہیں کہ
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات سے بڑھ کر بہترین بات کوئی
نہیں اور نہ ہو سکتی ہے ، پس فرقہ ناجیہ کے لوگ ہر ایک بات اِسی کسوٹی پر پرکھ کر
قبول کرتے ہیں ، اور جو لوگ اپنی ہوائے نفس ، اپنی خود ساختہ یا اختیار کردہ سوچوں
اور فلسفوں کو، یا مادی اور حسّی مواد اور علوم وغیرہ کی اتباع کرتے ہیں اور اُن کو ہی کسوٹی بنا کر
اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی باتوں کو سمجھتے ہیں ، یقیناً
وہ لوگ فرقہء ناجیہ میں سے نہیں بلکہ گمراہ ہیں اور گمراہ کرنے والے ہیں ،
اور یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی حُکم ہے کہ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَیکُم
مِّن رَّبِّکُم وَلاَ تَتَّبِعُوا مِن دُونِہِ أَولِیَاء قَلِیلاً مَّا
تَذَکَّرُونَ:::تُم لوگ اُس کی تابع فرمانی کرو جوتُمہارے رب کی طرف سے تُمہاری طرف نازل کِیا
گیا ہے ، اور اُس کے عِلاوہ خود ساختہ (بلادلیل و علم شرعی بنے ہوئے )بڑوں کی تابع
فرمانی مت کرو ، تُم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو﴾ سورت الأعراف (7)/آیت 3 ،
فرقہ ناجیہ کے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس حُکم پر
بھی عمل پیرا رہتے ہیں ، اور اپنی زندگی کے کسی بھی معاملے میں حق دلیل کے بغیر
کسی کی بھی پیروی نہیں کرتے ،
:::::
( 7) :::::
اِیمان والوں سے محبت رکھنا ، مسلمانوں پر
رحم کرنا ، اور اُن کو نصیحت کرتے رہنا ، اور شر اور تکلیف سے اُنکوبچانے کی کوشش
کرتے رہنا ، اور ،
:::::
(8) :::::
دوسروں کو اللہ کے دِین کی دعوت دینے ،
اور مخالفین پر حجت قائم کرنے کے لیے ، اور اللہ کی راہ میں ہر قِسم کا جِہاد کرتے
ہوئے اللہ کے دِین کو عملی طور پر نافذ کرنا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ یَا
أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَن یَرتَدَّ مِنکُم عَن دِینِہِ فَسَوفَ یَأتِی
اللّہُ بِقَومٍ یُحِبُّہُم وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی المُؤمِنِینَ أَعِزَّۃٍ
عَلَی الکَافِرِینَ یُجَاھِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَومَۃَ
لآئِمٍ ذَلِکَ فَضلُ اللّہِ یُؤتِیہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ :::اے اِیمان لانے والو تُم میں سے جو کوئی اپنے دِین سے پلٹ جائے گا تو (یاد رکھو
)بہت جلد اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو اللہ سے محبت کرتے ہوں گے اور اللہ اُن سے
محبت کرتا ہو گا وہ لوگ اِیمان والوں کے لیے نرم دِل ہوں گے اور کافروں کے لیے سخت
اور مضبوط ہوں گے ، اللہ کی راہ میں جِہاد کرنے والے ہوں گے اور (اللہ کے دِین پر
عمل کرنے میں)کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے یہ اللہ کا
فضل ہے جسے چاہے عطاء فرمائے اور اللہ بہت ہی زیادہ وسعت والا اورزبردست عِلم والا
ہے﴾ سورت المائدہ(5)/آیت 54،
یہ بھی سن رکھیے ، اور سمجھ رکھیے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے مُبارک ہاتھوں کی پاکیزہ اُنگلیاں ایک دوسری میں
داخل فرما کر اِرشاد فرمایا ﴿ إِنَّ المُؤمِنَ لِلمُؤمِنِ کَالبُنیَانِ یَشُدُّ بَعضُہُ بَعضًا :::بے شک اِیمان والا دوسرے اِیمان والے کے لیے ایک چُنی ہوئی دیوار کی طرح ہوتا
ہے جو ایک دوسرے کو مضبوط بناتے ہیں﴾ صحیح البُخاری
/حدیث 467/کتاب الصلاۃ /باب 54 ،صحیح مُسلم /حدیث2585، کتاب البر و الصلۃو الادب
/باب 17 ،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ مَثَلُ المُؤمِنِینَ فی تَوَادِّھِم وَتَرَاحُمِہِم وَتَعَاطُفِہِم
مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشتَکَی مِنہ ُ عُضوٌ تَدَاعَی لَہ ُ سَائِرُ الجَسَدِ
بِالسَّہَرِ وَالحُمَّی ::: ایک دوسرے سے محبت اور رحم
کرنے میں اور ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے میں اِیمان و الوں کی مثال ایک جسم کی
طرح ہے کہ اگر اُس جسم کا کوئی حصہ درد کی شکایت کرے تو سارا جسم اُس حصے کی درد
مندی میں بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جائے ﴾صحیح مسلم ، حدیث 2586، کتاب البر و الصلۃ والادب، باب 17،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ من أُمَّتِی ظَاہِرِینَ علی الحَقِّ لَا
یَضُرُّھُم من خَذَلَہُم حتی یَأتِیَ أَمرُ اللَّہِ وَھُم کَذَلِکَ:::میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گا ، اُن کی بے عِزتی
کرنے والا اُن کو کوئی نُقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حُکم(یعنی
قیامت تک ایسا ہوتا رہے گا)آ جائے﴾ صحیح مُسلم
/حدیث 1920/کتاب الاِمارۃ /باب 53،
:::::
(9) :::::
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے
میں دِلوں کو صاف رکھنا ، اُن سے محبت کرنا ، اور اُن کے خِلاف ز ُبان درازی کرنے
سے باز رہنا ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ وَالَّذِینَ جَاؤُوا مِن بَعدِھِم یَقُولُونَ رَبَّنَا اغفِر لَنَا
وَلِإِخوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالإِیمَانِ وَلَا تَجعَل فِی قُلُوبِنَا
غِلّاً لِّلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ :::اور جو اُن (صحابہ رضی اللہ عنہم )کے بعد آئے وہ کہتے ہیں ، اے ہمارے اللہ
اِیمان لانے میں ہم سے پہل کرنے والوں کی بخشش فرما اور ہمارے دِلوں میں اِیمان
لانے والوں کے لیے غُصہ اور حَسد نہ بنا ، اے ہمارے رب تُو بڑا ہی شفقت کرنے والا اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے ﴾ سورت الحشر (59)/آیت(10)
:::::
( 10) :::::
فرقہ ناجیہ ، یعنی اللہ کی جَنّت پانے
والے اکیلے فرقے کی أہم صفات اور نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہر ایک کو اللہ
کی رضا کے لیے ، حق قبول کر کے اللہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کی تابع فرمانی کی ، اور گناہوں اور غلطیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں ،
حُکام اور عوام سب کو ہی نیکی کا حُکم کرتے ہیں اور گناہوں سے منع کرتے ہیں ، اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے﴿ کُنتُم خَیرَ أُمَّۃٍ أُخرِجَت لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالمَعرُوفِ
وَتَنہَونَ عَنِ المُنکَرِ وَتُؤمِنُونَ بِاللّہِ:::تُم لوگوں میں نکالی جانے والی اُمتوں میں سے سب سے زیادہ خیر والی اُمت ہو
کیونکہ تُم لوگ نیکی کا حُکم کرتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر اِیمان
رکھتے ہو﴾ آل عمران(3)/آیت 110،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان
مُبارک ہے کہ﴿ مَن رَأَی مِنکُم مُنکَرًا فَلیُغَیِّرہُ بِیدہِ فَإِن لم یَستَطِع فَبِلِسَانِہِ فَإِن لم
یَستَطِع فَبِقَلبِہِ وَذَلِکَ أَضعَفُ الإِیمَانِ:::تُم میں جو کوئی بھی بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے (نیکی میں )تبدیل کر ے
اور اگر ایسا نہ کر سکتاہو تو اپنی ز ُبان سے (اُسکا اِنکار) کرے، اور اگر ایسا (بھی)نہ
کر سکتا ہو تو (کم از کم )اپنے دِل میں (تو اُسے ضرور)ہی بُرا جانے اور یہ سب سے
کمزور اِیمان ہے
﴾ صحیح مُسلم
/حدیث 49/کتاب الاِیمان /باب 20،
افسوس کہ آج ہم مُسلمانوں کی اکثریت
بہت سے بُرائیوں کو بُرا جاننا تو دُور ٹھہرا ، سِرے سے بُرائی ہی نہیں سمجھتی۔
::::: (11) ::::: اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی اطاعت کے مُطابق اپنے حُکام کی اطاعت کرتے ہیں ، اور جب تک اُن سے کوئی صاف
واضح کفر واقع نہ ہو اُن کی اطاعت ترک نہیں کرتے اور اُن کے خِلاف کاروائی نہیں
کرتے ،
اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ یٰۤاَ أیّھَا الذَّینَ أمَنُوا اَطِیعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیعُوا
الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم:::اے اِیمان لانے والو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی
تابع فرمانی کرو اور تُم میں سے جو لوگ (تُمہارے )حُکمران ہیں اُن کی تابع فرمانی
کرو ﴾ سورت النساء(4)/آیت 59 ،
::::: (12) ::::: خوارج کی طرح کسی گناہ گار مُسلمان کو خارج از
اسلام جان کر اُس کا خون ، مال ، اور عِزت وغیرہ حلال نہیں کرتے ، اور ایسی تمام
بدعات سے خود کو محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں،
اہل بدعت ہوں یا اہل سُنّت ، فرقہ ناجیہ ہو یا کوئی
اور فرقہ ، کوئی دینی گرو ہ ہو یا کوئی غیر دینی گروہ ، لوگ دو قسم کےہوتے ہیں ::: (1) اِمام
و عُلماءصاحبان (2) اُن کی تابع فرمانی
کرنے والے ،
اور پھر اِن اِمام ،عالِم
، رہبر ، و راہنما قسم کے لوگوں میں سے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں :::
(1) وہ لوگ نتائج جانتے ہوئے بھی ، اپنی سوچ و فکر
، رائے و خیال ،مذہب و مسلک ، جماعت و گروہ ،کی فتح و نصرت کے لیے کام کرتے ہیں
خواہ اِس میں اِسلام کی بدنامی اور مُسلمانوں کی خرابی ہو ، اِس کے بارے میں اللہ
تبارک و تعالیٰ نے خبر عطاء فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿ فَأَمَّا
الَّذِینَ فی قُلُوبِہِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنہُ ابتِغَاء
الفِتنَۃِ وَابتِغَاء تَأوِیلِہِ وَمَا یَعلَمُ تَأوِیلَہُ إِلاَّ اللّہُ
وَالرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا
وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُولُوا الألبَابِ:::لہذا وہ لوگ جِن کےدِلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ تو ان مُتشابہہ آیات کے پیچھے لگ
جاتے ہیں (اور ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اس طرح)فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں اور ان
آیات (میں اللہ تعالیٰ )کی حقیقی مُراد جاننا چاہتے ہیں ، جبکہ اِن آیات کی مُراد
(یعنی اصل مفہوم اور حقیقت ) صرف اللہ ہی جانتا ہے ، اور وہ لوگ جو عِلم میں پُختہ
ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اس قُرآن پر اِیمان رکھتے ہیں (کہ)سب کا سب ہمارے رب
کے پاس سے ہے، اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں ﴾سورت آل عمران (3)/آیت 7،
(2) وہ لوگ جن کی تو نیت صاف اور اچھی ہوتی ہے ،
لیکن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ راستے کو چھوڑ
رکھا ہوتا ہے پس گمراہی کا شکار ہوتے ہیں ، اور گمراہ کرتے ہیں ، اور یہ ایک یقینی
بات ہے کہ ایسی ہر گمراہی کا انجام آخرت میں ہلاکت ہے کیونکہ وہ گمراہی جہنم میں
لے جانے والی ہوتی ہے ، جی ہاں ، اگر وہ مرنے سے پہلے توبہ کر لیں اور اپنی
پھیلائی ہوئی گمراہی کا اظہار کر کے اُس سے بری الذمہ ہونے کا اظہار و اعلان کر
دیں تو اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿إِنَّ الَّذِینَ یَکتُمُونَ مَا
أَنزَلنَا مِنَ البَیِّنَاتِ وَالہُدَی مِن بَعدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی
الکِتَابِ أُولَـئِکَ یَلعَنُہُمُ اللّہُ وَیَلعَنُہُمُ اللَّاعِنُونَO
إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَأَصلَحُوا وَبَیَّنُوا فَأُولَـئِکَ أَتُوبُ عَلَیہِم
وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ:::بے شک وہ لوگ جو وہ
چُھپاتے ہیں جو ہم نے وضاحتوں اور ہدایت میں سے اُتارا (اور)قُرآن میں ہمارے واضح
کر دینے کے بعد بھی چُھپاتے ہیں (تو )یہ ہی وہ لوگ ہیں جِن پر اللہ لعنت کرتا ہے
اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں O(اور یہ لعنت حق چُھپانے والوں میں سے ہر ایک پر ہے)سِوائے
اُن لوگوں کے جو توبہ کر لیتے ہیں اور (اپنے اس گناہ کی)وضاحت کر دیتے ہیں اور
(اُس گُناہ کے سبب پھیلنے والے شر کی) اصلاح کر دیتے ہیں ، تو یہ ہی وہ لوگ ہیں
جِن کی میں توبہ قُبُول کرتا ہوں اور میں بہت ہی توبہ قُبُول کرنے والا اور رحم
کرنے والا ہوں
﴾ سورت البقرہ(2)/آیت 159 ، 160،
یہ مندرجہ بالا صفات اور نشانیاں ہر کسی کو اپنے
بارے میں یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ وہ فرقہ ناجیہ یعنی نجات پانے والے اکیلے
فرقے میں شامل ہے یا نہیں ؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو کسی تعصب کے بغیر یہ سب
کچھ سمجھنے اور اپنی جگہ پہچاننے ، اور اگر اُس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو اُس
تبدیلی کی توفیق عطاء فرمائے،
کافی عرصہ سے خواہش تھی کہ اس موضوع پرکچھ بنیادی
معلومات مہیاکر سکوں ، امام حرم شیخ عبدالرحمان السدیس حفظہ اللہ کے ایک خطبے کے
بارے میں کہیں کچھ پڑھنے کو ملا ،جس میں اسی موضوع پر کافی اچھی گفتگو تھی اس خطبے
کو بنیاد بنا کر اللہ کی توفیق سے یہ مضمون تیار ہوا ، اللہ تعالیٰ اس کو ہر ایک
پڑھنے والے کے لیے دین دنیا اور آخرت کی خیر کا سبب بنائے ۔ و السلام علیکم و رحمۃ
اللہ و برکاتہ۔ طلبگارء دُعا ، عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :30/02/1430 ہجری،بمُطابق،25/02/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 08/1/1436ہجری،بمُطابق،01/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط
سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment