بسم اللہ ، والحَمدُ للہ وَحدہُ و الصَّلاۃُ
و السَّلامُ علیٰ مَن لا نبی بَعدَہُ ، امَّا بَعد ،
السلام علیکم و رحمۃُ
اللہ و برکاتہ ،
بہت سی عجیب و غریب
عادات میں سے ایک یہ بھی ہم مسلمانوں میں داخل ہو چکی ہے کہ دِین کے معاملات اپنی
اپنی طرف سے مقرر کی گئی کسوٹیوں پر پرکھ کر اپنا لیتے ہیں ، یا چھوڑ دیتے ہیں ، اپنے اپنے طریقے ، اپنے اپنے قوانین ، اپنے اپنے
ڈھب و مسلک ، کے مطابق شریعت کے حکم لیے جاتے ہیں ، یا رد کر دیے جاتے ہیں ، عقائد بنا لیے جاتے ہیں ، اپنا لیے جاتے ہیں ، اور عِبادات بنا لی جاتی ہیں ،
پھر اُن کے ذریعے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے
عمل کیا جاتا ہے ، اور بظاہر ہر گروہ کا
عنوان ''' قُران و سنّت،قُران و حدیث ، کتاب و سُنّت '''وغیرہ ہی ہوتا ہے ،اور اِس
عنوان سے مُطابقت قائم رکھنے کے لیے اپنی بات ، اپنے عقیدے ، اور عِبادات کی لیے
کوئی نہ کوئی دلیل کسی نہ کسی طرح قران و سُنّت سے نکال بھی لی جاتی ہے ،
اگر ہر کسی کی بات کی
دلیل قران و سُنّت میں ہے تو پھر کہیں کوئی غلط نہیں !!!
اور یہ نا مُمکن ہے
کیونکہ کسی ایک معاملے میں ، کسی ایک
مسئلے کے حل میں حق دو کے پاس نہیں ہو سکتا ، پس قران و سنّت کو سمجھنے اور جاننے
کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کسوٹی بھی مقرر
فرمائی ہے جِسے چھوڑنے کی وجہ سے ہم لوگ
بالکل بنیادی ، عقائد ، اور عِبادات میں بھی اِختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،
میں پہلے بھی کئی دفعہ
عرض کر چکا ہوں کہ ، قُران اورسُنّت کو سمجھنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
کے اقوال و افعال کی حدود میں رہنا لازم ہے ، خاص طور
پر عقیدے اور عِبادات میں ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے ہم سب کے لیے
اِیمان اور فہمِ دِین کے لیے ایک کسوٹی، اور ایک معیار مقرر فرمایا ، اور یہود و نصاریٰ
کو جواب دِلواتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب کو
حُکم دِیا ﴿ قُولُوا
آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا اُنزِلَ اِلَیْنَا وَمَا اُنزِلَ اِلَی اِبرَاھِیمَ
وَاِسمَاعِیلَ وَاِسحَاقَ وَیَعقُوبَ وَالاَسبَاطِ وَمَا اُوتِیَ مُوسَی وَعِیسَی
وَمَا اُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِم لاَ نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّنہُم وَنَحنُ لَہُ مُسلِمُونَ O فَاِن آمَنُوا بِمِثلِ مَا آمَنتُم
بِہِ فَقَدِ اھتَدَوا وَّاِن تَوَلَّوا فَاِنَّمَا ھُم فِی شِقَاقٍ
فَسَیَکفِیکَہُمُ اللّہُ وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ :::
تُم سب (رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
اور اُن کے ساتھی)کہو کہ ہم اِیمان لائے اللہ پر اور جو ہماری طرف اُتارا گیا اُس
پر ، اور جو اِبراہیم اور اِسماعیل اور اِسحاق اور یعقوب (علیہم السلام )اور اپنے
پوتوں پر اُتارا گیا اُس پر ، اور جو کچھ دِیا گیا موسی اور عیسی اور (دوسرے)نبیوں
(علیہم السلام اجمعین)کو اُن کے رب کی طرف سے دِیا گیا اُس پر ، ہم نبیوں میں سے
کِسی میں فرق نہیں کرتے (یعنی سب کی نبوت پر اِیمان رکھتے ہیں) اور ہم اللہ (اور
اُسکے احکام )کے لیے سر نگوں ہیں O اور اگر (اِس پیغام کے بعد )یہ تُم لوگوں کی طرح اِیمان
لاتے ہیں تو پھر یہ ہدایت پائے ہوئے ہیں اور اگر یہ لوگ منہ پھیرتے ہیں تو وہ
کھُلے اِختلاف میں ہیں اور جلد ہی اللہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم)کو اُن لوگوں سے کفایت فرما دے گا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور مکمل
عِلم رکھنے والا ہے ﴾، سورت البقرۃ(2)/آیت 136 ،137،
اور مزید فرمایا ﴿وَمَن
یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الہُدَی وَیَتَّبِع غَیرَ
سَبِیلِ المُؤمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء ت
مَصِیراً :::اور ہدایت (یعنی اللہ کی طرف سے ارسال کردہ
احکامات و ہدایت )واضح ہو جانے کے بعد بھی جو کوئی رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم)کو الگ کرے گا اور '''المؤمنین '''(اہل سنت و الجماعت کے تمام مسلکوں کا اِس
پر اتفاق ہے کہ '''المؤمنین '''صحابہ رضوان اللہ علیہم ہیں تو جو کوئی اُن )کے
راستے کے عِلاوہ کِسی بھی اور کی اتباع (پیروی)کرے گا تو ہم اُسے اُسی طرف چلا دیں
گے جِس طرف اُس نے رخ کیا ہے اور ہم اُسے جہنم میں داخل کریں گے (کیونکہ یہ ہی
اُسکے اپنائے ہوئے راستے کی منزل ہے )اور جہنم کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے﴾سورت النساء(4)/آیت 115،
آگے چلنے سے پہلے ، ایک گذارش ہے کہ اِس دوسری مذکورہ بالا آیت کی طرف ذرا خصوصی توجہ فرمایے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے دو دفعہ جمع کا صیغہ اِستعمال فرمایا ہے ، اِس لیے اگر کوئی اور اللہ تعالیٰ کا ذِکر جمع کے صیغے میں کرتا ہے تو وہ خِلاف توحید نہیں ، بلکہ اللہ کی کبریائی اور قوت و قدرت کی بڑائی اور عظمت کے لیے ہے اور اللہ کی طرف سے اجازت شدہ ہے ، جی ہاں قُران میں تو اللہ نے یہ ہی سکھایا ہے ، اب اپنی ذاتی آراء یا غیر مسلم مستشرقین کے فلسفے کو کسوٹی بنا کر یا اُس کی مدد سے قُران کو سمجھا جائے تو پھر دِین میں کچھ بھی کہا اور بنایا جا سکتا ہے، ایسی حرکات بھی اسی بات کی ایک دلیل ہیں کہ اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کو چھوڑ کر دِین کے معاملات سمجھنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ،
آگے چلنے سے پہلے ، ایک گذارش ہے کہ اِس دوسری مذکورہ بالا آیت کی طرف ذرا خصوصی توجہ فرمایے کہ اِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے دو دفعہ جمع کا صیغہ اِستعمال فرمایا ہے ، اِس لیے اگر کوئی اور اللہ تعالیٰ کا ذِکر جمع کے صیغے میں کرتا ہے تو وہ خِلاف توحید نہیں ، بلکہ اللہ کی کبریائی اور قوت و قدرت کی بڑائی اور عظمت کے لیے ہے اور اللہ کی طرف سے اجازت شدہ ہے ، جی ہاں قُران میں تو اللہ نے یہ ہی سکھایا ہے ، اب اپنی ذاتی آراء یا غیر مسلم مستشرقین کے فلسفے کو کسوٹی بنا کر یا اُس کی مدد سے قُران کو سمجھا جائے تو پھر دِین میں کچھ بھی کہا اور بنایا جا سکتا ہے، ایسی حرکات بھی اسی بات کی ایک دلیل ہیں کہ اللہ کی مقرر کردہ کسوٹیوں کو چھوڑ کر دِین کے معاملات سمجھنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ،
اللہ تعالیٰ نے اُس کے احکام اور دین
کے معاملات سمجھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات پاک کے ساتھ ساتھ اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو
بھی معیار اور کسوٹی مقرر فرمایا ، اور یہ
نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یہود و نصاریٰ کے لیے ہے ، بلکہ ہر ایک اِنسان کے لیے کہ
اگر اُس کا اِیمان و عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اُن کے اصحاب
رضی اللہ عنہم اجمعین کی اتباع میں ہو گا تو وہ ہدایت والا ہوگا اور اگر نہیں تو
وہ گمراہی والا ہوگا ، اور یہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ، ہر فرقہ مذہب و مسلک ظاہری
طور پر قُران و حدیث کا نام لیوا ہوتا ہے ، لیکن جب اِن دنوں کو وہ اپنی عقل کے
مُطابق سمجھتا اور سمجھاتا ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کو ترک کر
دیتا ہے تو پھر وہیں پہنچتا ہے جہاں کی خبر اللہ نے اِس مندرجہ بالا آیات مُبارکہ
میں فرمائی ،
مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِس معروف حدیث میں
ملتی ہے کہ ﴿ اِنَّ بَنِی اِسرَائِیلَ افتَرَقَت علی
اِحدَی وَسَبعِینَ فِرقَۃً وَاِنَّ اُمَّتِی سَتَفتَرِق ُ عَلی ثِنتَینِ
وَسَبعِینَ فِرقَۃً کُلُّہَا فی النَّارِ اِلا وَاحِدَۃً وھِیَ الجَمَاعَۃُ ::: یقینا بنی اِسرائیل (یہودی)71 فرقوں میں بٹے اور
میری اُمت72 فرقوں میں بٹے گی ، سب کے سب فرقے جہنم
میں جائیں گے سوائے ایک کے ، اور وہ فرقہ (جو جنّت میں جائے گا )الجماعت ہے﴾حدیث صحیح ہے اور سنن ابن
ماجہ ، سنن ابی دواؤد ، المستدرک الحاکم ، مُسند احمد ، سنن البیہقی الکبریٰ اور
حدیث کی دیگر کتابوں میں ابو ہُریرہ ، انس ابن مالک ، عبداللہ ابن مسعود ، عوف بن
مالک ، معاویہ بن ابی سُفیان ، ابو اُمامہ ، عبداللہ ابن عباس ، رضی اللہ عنہم
اجمعین سے روایت کی گئی ہے ، اور المستدرک الحاکم اور سنن الترمذی کی ایک روایت
میں نجات پانے والے کامیاب ہونے والے فرقے کے بارے میں اِرشاد فرمایا ﴿ مَا اَنا عَلیہِ و اَصحَابی الیَوم :::
جِس پر میں اور میرے صحابہ آج کے دِن ہیں﴾ ،
حدیث کا درجہ صحت '''حسن
''' ہے ،
[[[ اِس
موضوع پر ایک تفصیلی مضمون بعنوان ''' فرقہ ، فرقہ واریت ، تعریف اور مفہوم ، فرقہ
ناجیہ ،نجات پانے والا فرقہ صِفات اور نشانیاں''' مندرجہ ذیل ربط پر مطالعے کے لیے
میسر ہے ، اِس کا ضرور مطالعہ فرمایے ،اِن شاء اللہ بڑی خیر کا سبب ہو گا ، http://bit.ly/13wjlyZ ]]]
اپنے اس مضمون کے
موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، اپنے عقائد اور عِبادات کو قُران اور
صحیح ثابت شدہ سُنّت کی کسوٹی پر ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے
اقوال و افعال کی حُدود میں رہتے ہوئے سمجھیے ، کوئی عقیدہ ، کوئی عِبادت اپنی
مرضی سے نکالے گئے معنی و مفہوم کی بنیاد پر نہیں بنائی ، اپنائی جا سکتی ، بلکہ
مکمل طور پر حرفاً حرفاً اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر
کردہ حُدود میں رہتے ہوئے اپنانا ہے ، اور اگر ایسا نہیں تو کوئی بھی اپنی کِسی
بات کو صحیح ثابت کرنے لے لیے کِسی آیت یا حدیث کو اپنے معنیٰ اور مفہوم دے کر کچھ
بھی جائز اور ناجائز بنا سکتا ہے ، سوچنے اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ""""" اگر اُن آیات اور احادیث کا معنیٰ و مفہوم ،
مطلوب و مقصود وہ ہی ہو ، جو کوئی بھی اپنے کسی عقیدے یا عِبادت کی دلیل کے طور پر
پیش کرتا ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ، یا صحابہ رضی اللہ
عنہم کی جماعت نے اُس پر کیا اُسی طرح عمل کیا تھا جِس طرح یہ حضرات بیان کرتے ہیں
؟؟؟ اگر ہاں تو اُن کی بات ٹھیک ہوئی ، اور اگر نہیں تو کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت سے زیادہ قُران و
حدیث کو سمجھنے والے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت کرنے
والے ہیں ؟؟؟ """"
یہ تو کوئی معیار نہیں اور نہ ہی حق گوئی ، اور نہ ہی
انصاف پسندی کہ جو بات اپنے مسلک و مذہب و سوچ و فکر کے مطابق نہ ہو ، یا جس بات
کا عِلمی جواب ، یعنی قران اور صحیح ثابت شدہ سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت
کے اقوال و افعال کی روشنی میں نہ دیا جا سکے ، اُسے فرقہ واریت کے کھاتے میں ڈال
دِیا جائے ، یا اسی قسم کا کوئی دوسرا الزام لگا کر بات کو بدنام کیا جائے ، اور
بات کرنے والے کو بھی ،
مسلمانو ، کچھ تو خیال کیجیئے ، جو کام اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت نے نہیں کیا،
جو عقیدہ اُن لوگوں نے نہیں اپنایا ، بلکہ صدیوں تک اُمت میں اُس کا نام و نشان
نہیں ملتا ، اُسے اپنانا تو اب دُرُست ٹھہرا،
اورقران اور صحیح ثابت شدہ سنّت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اقوال و افعال کے
مُطابق جو عقیدہ ملتا ہے اُسے اپنانااب غلط ہوگیا ، اور غلط قرار دینے کی کوئی ثابت شدہ
علمی دلیل نہیں بلکہ مختلف الزامات و فلسفوں کی بنا پر قران و صحیح سنت اور فہم
صحابہ رضی اللہ عنہم کو رد کیا جاتا ، اورنہ ہی اپنے خود ساختہ عقائد و عِبادات و منہج کی تاریخ
پر نظر کی جاتی ہے اور نہ ہی دلائل کے فہم پر، إِنّا لِلَّہِ و إِنّا إِلیہِ
رَاجِعُون، وإِلیہِ نَشتکی وَ ھُو المُستَعان،
اللہ ہم سب کو حق
جاننے ماننے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، والسلام علیکم و رحمۃُ
اللہ و برکاتہُ ۔
تاریخ
کتابت :07/02/1429ہجری،بمُطابق،14/02/2008عیسوئی،
تاریخ
تجدید و تحدیث :10/10/1435ہجری، بمُطابق،03/11/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون
کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment