::::::: رسُول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہِ وسلم کی سیرت مُبارکہ(مُختصراً) :::::::
::::: (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا غیر مُسلموں کے ساتھ رویہ :::::
بِسْمِ
اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ
الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ،أما بَعد
:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے
کے بعد جب اِسلامی ریاست قائم ہو گئی اور سیاسی معاملات واضح ہو کر سامنے آ گئے تو
باقاعدہ طور پر مدینہ کے یہودیوں کے حقوق بارے میں قوانین لکھے گئے جِسے اُس پہلی اِسلامی
ریاست کا پہلا دستور کہا جا سکتا ہے ، اُس میں لکھا گیا """ یہودیوں
میں سے جو ہماری تابعداری کرے گا اُس کی مدد کی جائے گی لیکن اِس طرح کہ نہ اُن میں
سے کِسی پر ظُلم ہو اور نہ ہی اُن کی آپس میں لڑائی میں کِسی ایک کی مدد ہو ،،،،، یہودیوں
کے لیے اُن کا دِین ہے اور مسلمانوں کے لیے اُن کا دِین """ (البدایہ
والنہایہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم کا مقرر کردہ یہ دستور اُس لوگوں کوبہت وضاحت سے جھوٹا ثابت کرتا ہے
جو یہ کہتے ہیں کہ مُحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کے ساتھیوں (رضی اللہ عنہم
) نے اِسلام تلوار کے زور سے پھیلایا ، اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ مدینہ المنورہ میں اپنی
اِس اِسلامی ریاست اور اپنی حُکمرانی میں یہودیوں کو اِس طرح اُن کے دِین پر رہنے کی
اجازت نہ فرماتے بلکہ تلوار کے زور پر اُن یہودیوں کو اِسلام قُبُول کرواتے ،
::::: ایک دِن رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ گذرا تو وہ کھڑے ہوگئے ،صحابہ رضی اللہ عنہم
نے عرض کِیا ::: اے اللہ کے رسول یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے ::: تو فرمایا ﴿أ لَیست نَفساً ::: کیا وہ انسان نہیں تھا﴾،،،صحیح
البخاری/کتاب الجنائز /باب49،
اس واقعہ میں یہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی بھی اِنسان کی
بحیثیت اِنسان تکریم کا اور موت کی وجہ سے اُس پر ہونے والی سختی کو محسوس کرنے کا سبق ملتا ہے، اور پتہ چلتا ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کِسی
کافر سے اُس کے کافر ہونے کی وجہ سے اُس
کے اِنسانی حقوق کی ادائیگی میں کوئی کمی نہ فرماتے تھے ،
::::: اورذرا اِس واقعہ پر غور فرمائیے ، انس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے
کہ ، ایک یہودی بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار
ہو گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اُس
کے سر کے پاس تشریف فرما ہوئے اور فرمایا ﴿ اِسلام قُبُول کر لو ﴾ اُس بچے نے اپنے
باپ کی طرف دیکھا تو اُس کے باپ نے کہا """ ابو قاسم (یعنی رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات مان لو """،
تو
اُس بچے نے اِسلام قُبُول کر لِیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے
وہاں سے واپس تشریف لائے کہ ﴿الحَمدُ لِلَّہِ الذی أَنقَذَہُ من النَّارِ :::اللہ کی ہی تعریف ہے جِس نے اِسے آگ سے بچا لِیا ﴾صحیح البُخاری/کتاب
الجنائز /باب78،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿إِنَّکُم سَتَفتَحُونَ مِصرَ
وَھَیَ أَرضٌ یُسَمَّی فیہا القِیرَاطُ فإذا فَتَحتُمُوھَا فَأَحسِنُوا إلی أَھلِھَا
فإن لہم ذِمَّۃً وَرَحِمًا﴾ أو قال ﴿ذِمَّۃً وَصِہرًا ﴾ ::: تُم لوگ بہت جلد مصر فتح کرو گے اور وہ ایسی زمین
ہے جِس میں القیراط کا نام لیا جاتا ہے پس جب تُم لوگ اُس جگہ کو فتح کر لو تو وہاں
کے رہنے والوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ (اُنکے لیے ایسا کرنا)اُن کا حق ہے اور رشتہ
داری ہے ﴾یا فرمایا ﴿اُن کا حق ہے اور سُسرال داری ہے ﴾،،،صحیح مُسلم
/کتاب فضائل الصحابہ/باب 56
::::: اور
دوسری روایت میں مزید وضاحت کے ساتھ فرمایا ﴿ إذا افتَتحتُم مِصراً فاستَوصَوا
بالقِبط خَیراً فَإنَّ لَہُم ذِمۃً ورَحِماً :::جب تُم لوگ مِصر فتح کر لو تو ایک دوسرے کو قِبط
( قوم کے لوگوں) سے خیر والا معاملہ کرنے کی نصیحت کرنا کیونکہ(اُنکے لیے ایسا کرنا)اُن
کا حق ہے اور رشتہ داری ہے﴾،،، مستدرک الحاکم /حدیث 4032، السلسہ
الصحیحہ /حدیث 1374،
::::: یہ حدیث اِس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر
مُسلموں کے ساتھ بہترین طور پر معاملات فرماتے تھے ، اور محض غیر مُسلم ہونے کی وجہ
اُن کی حق تلفی نہ فرماتے تھے اور نہ ہی ایسی کوئی تعلیم دِی بلکہ اُن کے حقوق کی ادائیگی
کا سبق سِکھایا ،
::: ایک اور مثال ::: اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ایک
دفعہ میری والدہ میرے پاس آئیں اور وہ مُسلمان نہیں تِھیں تو میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ طلب کیا اور عرض کِیا کہ میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور
وہ کچھ حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں کیا میں رشتہ داری نبھاؤں تو فرمایا ﴿نعم صِلِی أُمَّکِ ::: جی ہاں ، اپنی والدہ (کے رشتے )کا تعلق پورا کرو﴾صحیح البُخاری
/کتاب الآداب/باب8،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس تعلیم پر عمل صحابہ رضی اللہ
عنہم کی زندگیوں مسلسل ملتا تھا بلکہ اُن سے تربیت پائے ہوئے تابعین کی زندگیوں میں
بھی ، جیسا کہ """ ربعی بن عامر رحمہُ اللہ """ جو تابعین
میں سے ہیں ، کو جب ایرانی سپہ سالار رُستم کے پاس بھیجا گیا اور اُس نے پوچھا کہ
""" تُم لوگ کون ہو اور کیوں آئے ہو ؟ """ تو اُنہوں
نے کہا """ ہم وہ لوگ ہیں جِنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طرف
بھیجا ہے کہ جِسے اللہ چاہے اُسے ہم بندوں کی عِبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عِبادت
کی طرف لے جائیں اور دُنیا کی تنگی سے وسعت کی طرف لے جائیں """،
::::: پس ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں اللہ نے اِس لیے بھیجا ہے کہ
ہم لوگوں میں اپنے رب اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُحبت اور آخرت میں
اپنے بچاؤ کی فِکر بیدار کریں ، غیر مُسلم ہمارے معاملات اور اِخلاقیات کے ذریعے ہی
اِسلام کو پہچانتے ہیں ، کہ ہم آپس میں اور اُن کے ساتھ کِس طرح معاملات طے کرتے ہیں
اور کِس اِخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اگر ہمارے معاملات اور اخلاق رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعلیمات کے مُطابق ہوں گے تو ہم اِسلام کے اچھے نمائندے ہیں ، اور اگر
نہیں تو ہم نہ صِرف غیر مُسلموں میں اپنے دِین کی خوبصورتی اور حقانیت کو خراب کرنے
کا سبب ہیں بلکہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مُبارک کے بارے میں منفی سوچ
اور اُن کی شان میں گُستاخی کی جرات پیدا ہونے کا سبب ہیں ، اور اِس سے بچنے کا طریقہ
یہی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ معاملات اپنائیں اور ہر معاملے
کو اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق نمٹائیں، لہذا جو اپنے دِین
اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مُحبت کرتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اُس مُحبت کو
عملی طور پر ثابت کرے ، صرف دعویِٰ مُحبت نہ کرے ۔
اللَّہُمَ صَلِّ عَلی
مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ عَلی آلِ إبراھِیم وَبَارِک
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ
حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
No comments:
Post a Comment