::::::: رسُول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہِ وسلم کی سیرت مُبارکہ(مُختصراً) :::::::
::::: (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم کا اپنے اہل خاندان کے ساتھ رویہ:::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ
الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما
بَعد :::
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنی ساری زندگی میں بے
تکلفی، تواضع اور انکساری کا بہترین نمونہ تھے ۔اور ایسا ہی معاملہ وہ اپنے گھر میں
اپنی بیگمات کے ساتھ رکھتے اور اپنے خاندان میں دیگر رشتے داروں کے ساتھ رکھتے ،
::::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ وہ گھر میں کیا
کرتے تھے تو انہوں نے فرمایا﴿
کَان بَشَراً مِنَ البَشَرِ
یَفلِی ثَوبَہُ وَیَحلُبُ شَاتَہُ وَیَخدُمُ نَفسَہُ ::: کان النَّبیِّ صلی اللَّہُ علیہ و علی آلہ وسلم یَصنَعُ فی بَیتِہِ
قالت کما یَصنَعُ أحدکم یَخصِفُ نَعلَہُ وَیُرَقِّعُ ثَوبَہُ :::رسول اللہ بھی اِنسانوں میں سے ایک اِنسان تھے،
وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا کپڑا سیتے، اور اپنی بکری کا دُودھ نکالتے اور
اپنے کام خود کرتے ::: نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے گھر میں اُس طرح کام کیا کرتے تھے جِس طرح
تُم لوگ کرتے ہو ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا جوتا مُرمت فرماتے ، ، اور
اپنے لباس میں پیوند لگاتے ﴾مجموعہ روایات ، صحیح ابن حبان ، مُسند احمد ، سنن الترمذی ، مُسند
ابی یعلیٰ ، سنن البیہقی الکُبرٰی ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنی بیگمات کے ساتھ بہت
خوش اخلاقی اور محبت والے روّیے سے پیش آتے تاکہ ان کے دلوں میں خوشی اور سرور داخل
فرمائیں ۔جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کو محبت سے مختصر نام کے ساتھ پکارتے اور فرمایا کرتے ﴿یا عَائِش ھَذا جِبرِیلُ
یَقرئُکِ السَّلَامَ ::: اے عائش!یہ جبرائیل آئے ہیں
اور تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ﴾مُتفقٌ علیہ
::::::: اور جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا کی فضیلت اور ان کی محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم ہمیشہ خیر
اور مُحبت سے یاد فرمایا کرتے ،
::::::: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم جہادِ خیبر سے واپس
تشریف لا رہے تھے تو اِیمان والوں کی والدہ محترمہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو اپنے
نکاح میں لیا ،اور اِیمان والوں کی والدہ محترمہ رضی اللہ عنہا کی سواری کے وقت اونٹ
کے ارد گرد خود چادر تانتے ،تا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ
عنہا پردے میں رہ سکیں اور جب اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا سواری کے لیے اونٹ کے پاس
تشریف لائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنا گھٹنا مبارک آگے کیا
تاکہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اُن کے گھٹنے مبارک پر
سوار ہو کر اونٹ کی گدّی تک پہنچ سکیں ، یہ ایک ایسا پُر اثر عمل ہے جو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم کے تواضع اور انکسار کو بڑی وضاحت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے
، باوجود اس کے کہ وہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم ایک کامیاب اور فاتح قائد اور
لیڈر تھے اور اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول تھے ، لیکن اس کے باوجود وہ اِس طرح
تواضع اور انکسار سے کام لیتے تاکہ اُن کی اُمت کو یہ علم ہو جائے کہ اپنی بیگمات کے
ساتھ پُر محبت اور عزت والا روّیہ اختیار کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ
وسلم کی شان و عظمت و عزت اوررُتبے میں کوئی فرق نہیں آتا تو کسی اور کی عِزت میں بھی
کوئی فرق نہیں پڑے گا ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم ازدواجی زندگی کے معاملات
کسی ایک بیوی کو دوسریوں پر فضیلت نہیں دیا کرتے تھے ، سب کے ساتھ ایک جیسا معاملہ
فرمایا کرتے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم عملی طور پر اپنی سب
بیگمات کے ساتھ ایسا روّیہ رکھتے جو میاں بیوی میں ایک دوسرے کی رغبت اور محبت بڑھانے
کے لیے بہترین نفسیاتی نتائج کا سبب ہوتی ہے، اور بیوی پر اس چیز کا اظہار ہوتی کہ
اسکا خاوند اس کو کتنی محبت کرتا ہے ۔
::::::: اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں﴿
کنتُ أَشرَبُ وأنا حَائِضٌ
ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النبی صَلی اللّہُ علیہ و علی آلہ وسلم فَیَضَعُ فَاہُ علی مَوضِعِ
فِیَّ فَیَشرَبُ وَأَتَعَرَّقُ العَرقَ وأنا حَائِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النبی صَلی
اللّہُ علیہ و علی آلہ وسلم فَیَضَعُ فَاہُ علی مَوضِعِ فِیَّ ::: میں حیض کی حالت میں (بھی) کچھ پیتی اور (پینے کے بعد )وہ برتن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو پیش کرتی تو وہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم اپنا مُنہُ مُبارک (برتن پر )اُس جگہ رکھتے جہاں (پیتے ہوئے )میں نے مُنہ
رکھا ہوتا اور میں حیض کی حالت میں گوشت کھاتے ہوئے (گوشت کے بڑے ٹُکڑے پر سے دانتوں
کے ساتھ)کھینچ کر گوشت کا نوالہ اُتارتی اور پھر رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ
وسلم کو دیتی تو وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا مُنہُ مُبارک (گوشت پر)اُس جگہ
رکھتے جہاں(نوالہ توڑتے ہوئے)میں نے مُنہ رکھا ہوتا ﴾صحیح مُسلم /کتاب الحیض /باب 2 ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنی بیٹیوں کے لیے بہترین
باپ تھے اور اُن کو خوش کرتے اور ان کے دِلوں میں سرور اور خوشی داخل فرمانے کی ہر
ممکن کوشش فرماتے اور یہ چیز اُن کی بیٹیوں نے اُن سے وافر مقدار میں حاصل کی اور کیوں
ایسا نہ ہوتا جب کہ وہ رحمتٌ للعالمین تھے،
::::::: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا اُن کے پاس تشریف لاتیں تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم محبت سے اُن کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اُن کا ہاتھ
تھامتے اور اُن کے ماتھے پہ بوسہ دیتے اور اُنہیں اپنے بیٹھنے کی جگہ میں اپنے ساتھ
بٹھاتے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اِسی طرح کیا کرتیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلیٰ آلِہ وسلم اِن کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم
کے اِستقبال کے لیے کھڑی ہوتیں اور اُن کا ہاتھ مبارک تھامتیں اُنہیں بوسہ دیتیں اور
اپنے بیٹھنے کی جگہ میں اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو بٹھاتیں ۔ صحیح سنن ابو
داؤد /حدیث 5617 )
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم کی ذاتِ مبارک پر بحیثیت
نبی اور رسول اور بحیثیت حکمران و قائد اور سپہ سالار بہت زیادہ ذِمّہ داریاں تھیں
لیکن ان تمام تر ذِمّہ داریوں کے باوجود جہاں وہ ایک بہت کامیاب ، مکمل ترین حکمران
اور قائد اور سپہ سالار تھے ، وہاں ایک بہترین والد بھی تھے اور ان تمام تر ذِمّہ داریوں
کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کے حال احوال کی خبر رکھتے ،اور اُن کی مشکلیں حل فرمانے
کے لیے خود اُن کے پاس تشریف لے جایا کرتے اُن کے گھروں میں اُن کی ضروریات کی طرف
مکمل توجہ رکھتے،
::::::: فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاتھوں پر چکی چلا چلا کر اور گھر
کے دیگر پُر مشقت کام کر کر کے تکلیف ہو گئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم کے خادم حاصل کرنے کی طلب لے کر آئیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم سے مُلاقات نہ ہوئی تو اپنی پریشانی کا اِظہار اپنی والدہ عائشہ رضی اللہ
عنہا سے فرما کر واپس چلی گِئیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم تشریف
لائے تو اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اُن کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کا پیغام
دِیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف
لے گئے ،
اس کے بعد کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے علی
رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے :::رسول اللہ ہمارے گھر تشریف لائے اُس وقت ہم دونوں اپنے
بستر میں داخل ہو چکے تھے میں جلدی سے اُن کے استقبال کے لیے کھڑا ہونے لگا تو اُنہوں
نے فرمایا ﴿ مَکَانِکُمَا ::: دونوں اپنی جگہ پر رہو﴾اور ہم دونوں کے درمیان میں تشریف فرما ہو گئے یہاں تک کہ مجھے
ان کے پاؤں مبارک کی ٹھنڈک پیٹ پر محسوس ہوئی اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلِہ وسلم نے فرمایا ﴿
ألا أُعَلِّمُکُمَا خَیرًا
مِمَّا سَأَلتُمَانِی إذا أَخَذتُمَا مَضَاجِعَکُمَا تُکبِّران أَربَعًا وَثَلَاثِینَ
وتُسبِّحان ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ وتَحمِدان ثَلَاثًا وَثَلَاثِینَ فَہُوَ خَیرٌ لَکُمَا
مِن خَادِمٍ:::کیا
میں تُم دونوں نے مجھ سے جِس چیز کا سوال کِیا ہے کیا میں تُم دونوں کو اُس سے زیادہ
خیر (والی چیز)نہ سِکھا دوں،(اور وہ یہ ہے کہ)جب تُم دونوں اپنے بستروں پر جاؤ تو 34 چونتیس
دفعہ تکبیر (اللہ اُکبر) کہا کرو ، اور 33 تینتیس دفعہ تسبیح کیا کرو (یعنی سُبحان اللہ کہا کرو)،اور 33 تینتیس
دفعہ تحمید کیا کرو (یعنی الحمد للہ کہاکرو)،یہ تُم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ خیر
والا ہے﴾
صحیح البُخاری /کتاب فضائل الصحابہ /باب
9 ،
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنے نواسوں حَسن اور
حُسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بھی انتہائی محبت سے پیش آتے ، اللہ کے نبی اور رسول
ہونے کے باوجود ایک بہت بڑی سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود اور ایک انتہائی کامیاب
سربراہ ہونے کے باوجود اپنے نواسوں کے ساتھ اپنے گھر میں بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے
اور اُن کے ساتھ کھیل فرماتے، اور اُن کو خوش کرنے لے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلیٰ آلِہ وسلم اپنی زُبان مُبارک اپنے مُنہ مُبارک سے باہر نکالتے وہ دونوں بھاگے
بھاگے اُن کے پاس آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم کی زُبان مُبارک
پکڑنا چاہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم اپنی ز ُبان مُبارک واپس مُنہ
میں داخل فرما لیتے اور اپنے دانتوں کو سختی سے بند کر لیتے تو وہ دونوں ہنسنے لگتے
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہ وسلم ان کے ساتھ ایسا ہی کرتے ، ان کو ہنساتے
، ان کو کھیلاتے، کیا ہم میں سے کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ
آلِہ وسلم ایسا کس طرح کرتے ہوں گے کتنی محبت اور کتنی شفقت والی ہستی تھے ۔ کسی قسم
کا تکبر ، اور کسی قسم کی بڑائی اور کبریائی کے بغیر وہ کس طرح اپنے اہلِ خانہ کے بغیر
ہر کسی کے ساتھ محبت اور تواضع والاروّیہ رکھتے حتی کہ حسن اورحسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کو اپنی پُشت مُبارک پر سوار کرواتے اور اُن کے ساتھ کھیلتے ۔
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ و علی
آلہ وسلم کی سنت کی پیروی کا زعم بھی ، لیکن اپنے گھر والوں اور اولاد کے ساتھ اُن
کا رویہ !!!
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے رسول صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی حقیقی محبت عطاء فرماءے اور ہمارا سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم پر قُربان ہو جائے ۔
اللَّہُمَ صَلِّ عَلی
مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ علی آلِ إبراھِیم وَبَارِک
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ
حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
No comments:
Post a Comment