::::::: رسُول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہِ وسلم کی سیرت مُبارکہ(مُختصراً) :::::::
::::: (6)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا بچوں اورنوجوانوں کے ساتھ رویہ اور تعلیم و تربیت کا انداز:::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ
الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ
وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما
بَعد :::
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و علی آلہ وسلم اپنے اِرد گِرد ہر
ایک کی ہر بات کا مکمل خیال فرما کرتے تھے ، جس میں تعلیم و تربیت ایک اہم معاملہ تھا
،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر بڑی شفقت سے توجہ
فرما رہتے اور تعلیم و تربیت کے معاملے میں اپنی مجلس میں بڑوں اور چھوٹوں میں کوئی
فرق روا نہ فرماتے ، اور ایسے محبت آمیز طریقوں سے تعلیم و تربیت فرماتے جو اُس سے
پہلے اِنسانی تاریخ میں نہیں ملتے ،
::::::: آیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے تعلیم و تربیت دینے
کے دِل کش اندازوں میں سے کچھ کا نظارہ کریں
::::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے
""" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ
(مُبارک ) رکھے اور فرمایا ﴿ اللَّھُم فَقَھُہُ فِی الدِین
و علِّمہ ُ التأویل ::: اے اللہ اِسے دِین کی فقہ(سمجھ بوجھ ) عطا فرما اور تفسیر کا
علم سِکھا﴾""" مُسند احمد / حدیث 2397 ،سلسلہ الصحیحہ /حدیث 2589
،
::::::: سبق ::::::: جِسے سِکھایا جا رہا ہو سبق دینے سے
پہلے اُس کی طرف مُحبت کے ساتھ پوری توجہ مبذول کرنا اور اُس کی پوری توجہ اپنی طرف
مبذول کروانا،
::::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ایک دِن ہم رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تو فرمایا ﴿ إِنَّ مِن الشَّجَرِ شَجَرَۃً لَا یَسقُطُ وَرَقُہَا وَإِنَّہَا مَثَلُ
المُسلِمِ فَحَدِّثُونِی مَا ھِیَ ؟
:::درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جِس کے پتے گرتے
نہیں اور اُس کی مثال مُسلمان کے جیسی ہے پس تُم لوگ مجھے بتاؤ وہ کونسا درخت ہے ؟﴾،
تو سب لوگ جنگلوں میں پائے جانے والے درختوں کے باروں
میں بات کرنے لگے ، میرے دِل میںخیال آیا کہ ، وہ درخت کھجور کا درخت ہے ، لیکن میں
چونکہ سب سے چھوٹا تھا لہذاشرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہ پایا ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے
عرض کیا ::: اے رسول اللہ ہمیں بتائیے وہ کون سا درخت ہے ؟ ،
::: تو فرمایا ﴿ ھِیَ النَّخلَۃُ ::: وہ کھجور کا درخت ہے
﴾،
میں نے اپنے والد عُمر رضی اللہ عنہُ سے
ذِکر کیا (کہ میرے دِل میں یہ جواب آ گیا تھا ) تو اُنہوں نے فرمایا"""
اگر تُم اُس وقت یہ جواب دے دیتے تو مجھے فلاں فلاں چیز مل جانے سے زیادہ پسند ہو تا
"""، صحیح البُخاری /کتاب العِلم /باب 14، اور باب 50، صحیح مُسلم /حدیث 1821/کتاب صفۃ القیامۃ /باب 15،
::::::: سبق :::::::
تعلیم دیتے ہوئے ،سوال کر کے جواب حاصل کرنے کا شوق پیدا کرنے کے
بعد کچھ سِکھانا ، کچھ سِکھاتے ہوئے بڑے اور چھوٹے کا فرق روا نہ رکھنا ، چھوٹے کا
بڑوں کے احترام میں اُن سے شرم کرتے ہوئے خاموش رہنا،
::::::: سہل بن سعد رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ """ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک برتن پیش کیا گیا اُنہوں نے اُس میں سے کچھ پیا اور(پینے
کے بعد وہ برتن دوسروں کو دینا چاہتے تھے لیکن ) اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں
(سیدہے ہاتھ کی ) طرف ایک چھوٹا بچہ تھا اور بائیں (اُلٹے ہاتھ کی) طرف بڑی عُمر والے
لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس بچے سے فرمایا ﴿ یا غُلَامُ أَتَأذَنُ لی أَن أُعطِیَہُ الأَشیَاخَ ::: اے بچے کیا تُم مجھے اجازت
دو گے کہ میں یہ برتن بڑوں کو دے دوں ﴾
اُس بچے
نے عرض کِیا """ اے رسول اللہ
میں آپ سے اپنی طرف آنے والا فضل کِسی اور کونہیں دینا چاہتا """ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن اُس
بچے کو دے دِیا """
صحیح البُخاری / حدیث 2224/کتاب المساقاۃ الشُرب،
::::::: سبق ::::::: چھوٹوں کے حقوق کی پاسداری اور بڑوں کا ادب ، اور مُحبتِ رسول صلی
اللہ علیہ وسلم اور اُن کی طرف سے ملنے والی بزرگی و عِزت برکت حاصل کرنے کا شوق ،
::::::: عُمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ
""" میں چھوٹا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود مُبارک
میں تھا اور (کھانے کے دوران ) میرا ہاتھ تھالی (پلیٹ)میں ادِھر اُدھر چل رہا تھا
(یعنی میں اِدھر اُدھر سے چُن یا لے رہا تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا ﴿ یا غُلَامُ سَمِّ اللَّہَ وَکُل بِیَمِینِکَ وَکُل
مِمَّا یَلِیکَ ::: اے
بچے(کھانے سے پہلے) اللہ کا نام لو اور اپنے دائیں (سیدہے) ہاتھ سے کھاؤ اور جو تمہارے
سامنے ہے اُس میں سے کھاؤ﴾
اُس وقت
سے اب تک میرے کھانے کا طریقہ وہی ہے (جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سِکھایا)"""
صحیح البخاری / حدیث ٥٩٦١/کتاب الاطعمہ /باب اول، صحیح مسلم / حدیث2022/کتاب
الأشربۃ/باب13،
:::::::سبق
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں
سے مُحبت ، بات سمجھانے اور سکھانے کے لیے پُر شفقت انداز اپنانا نہ کہ رُعب و دبدبہ
اور ڈانٹ ڈپٹ ،
:::
توجہ فرمایے ::: کھانے سے پہلے ، یا کسی بھی کام سے پہلے اُس کے آغاز
کے لیے """ بسم اللہ علی برکۃ اللہ """ یا
""" بسم اللہ الرحمن الرحیم """ کہنا سُنّت کے مطابق
نہیں ، صِرف بِسمِ اللہ کہا جانا دُرُست
ہے،
:::::::
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُ کا فرمان
ہے کہ """ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُن کی
سواری پر اُنکے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تو اُنہوں نے فرمایا ﴿ یا غُلَامُ إنی أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احفَظ اللَّہَ
یَحفَظکَ احفَظ اللَّہَ تَجِدہُ تُجَاھَکَ إذا سَأَلتَ فَاسأَل اللَّہَ وإذا استَعَنتَ
فَاستَعِن بِاللَّہِ وَاعلَم أَنَّ الأُمَّۃَ لو اجتَمَعَت علی أَن یَنفَعُوکَ بِشَیء
ٍ لَم یَنفَعُوکَ إلا بِشَیء ٍ قد کَتَبَہُ اللَّہ ُ لکَ وَلَو اجتَمَعُوا علی أَن
یَضُرُّوکَ بِشَیء ٍ لَم یَضُرُّوکَ إلا بِشَیء ٍ قد کَتَبَہُ اللہ عَلَیکَ رُفِعَت
الأَقلَامُ وَجَفَّت الصُّحُفُ ::: اے بچے میں تُمہیں کچھ باتیں سِکھا رہا ہوں ( اِنہیں یاد رکھنا
) اللہ (کے حقوق )کی حفاظت کرو وہ تُماری حفاظت کرے گا ، اللہ (کے حقوق )کی حفاظت کرو
تُم اُسے اپنے پاس پاؤ گے ، اور اگر سوال کرو تو صِرف اللہ سے سوال کرو ، اور اگر مدد
مانگو تو صِرف اللہ سے مدد مانگو ، اور جان لو کہ اگر سب کے سب مل کر تُمہیں کوئی فائدہ
پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچائیں سکتے سِوائے اُس کے جو اللہ نے تُمہارے لیے لکھ دِیا
ہے ، اور اگر سب کے سب مل کر تُمہیں کوئی نُقصان پُہنچانا چاہیں تو نہیں پُہنچا سکتے
سِوائے اُس کے جو اللہ نے تُمہارے لیے لِکھ دِیا ہے ، (اور جان لو کہ ) قلمیں اُٹھا
لی گئی ہیں اور لکھے ہوئے اوراق خُشک ہو چکے ہیں ﴾ سُنن الترمذی /حدیث2516/کتاب
صفۃ القیامۃ و الرقائق والورع/آخری باب ، مُسند احمد / حدیث 2669، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دِیا ،
:::::::سبق
:::::::کِسی چھوٹے کو بھی عقیدے کے مسائل سمجھائے
جانے ضروری ہیں ، یہ نہیں سوچناچاہیئے کہ بڑے ہو کر سیکھ لیں گے ابھی یہ باتیں اِن
کی سمجھ میں نہیں آ سکتِیں ، اللہ کی مشیت کے بغیر نہ کوئی کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان ، پس براہ راست اللہ سے مانگو کیونکہ یہ اللہ کے حقوق
میں سے ہے ۔
:::::::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسامہ ابن زید رضی اللہ عنہُ
کو سترہ سال کی عُمر میں روم سے جِہاد کے لیے بھیجی جانے والی فوج کا سپہ سالار مقرر
کیا ،
:::::::سبق
:::::::نوجوانوں کو آنے والے وقت میں قیادت و
اِمامت کی تربیت دینا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑوں ، نوجوانوں،
چھوٹوں ، سب کے لیے بہترین ، شفیق اُستاد تھے اور بنی نوع اِنسان کو تعلیم و تربیت
کے وہ ہُنر و انداز سِکھا گئے جِن کی خوبصورتی اور مُثبت نتائج کی نظیر نہیں ملتی ،
لیکن افسوس کہ ہم اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہوتے ہوئے اُن کے صلی اللہ علیہ وسلم
کے اندازِ تربیت و تعلیم سے بے خبر ہیں اور غیروں کی طرف سے وہی یا اُس سے ملتا جلتا
انداز ملتا ہے تو اُس کی تعریف میں بِچھے چلے جاتے ہیں،اللہ ہمیں اپنے رسول صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت و تربیت جاننے اور اُسے با فخر رہتے ہوئے اپنانے اور اُس
پر عمل کرنے اور اُس کو ز ُبانی اور عملی طور پر نشر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،
میرا سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم پر قُربان ہو جائے۔
اللَّہُمَ صَلِّ عَلی
مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ عَلی آلِ إبراھِیم وَبَارِک
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
No comments:
Post a Comment